ہراحمدی کا فرض ہے کہ اِس معاشرہ میں بڑا پھونک پھونک کر قدم رکھے
جب انسان کے روز مرہ کے معاملات میں دنیا داری شامل ہوجائے اور جب یہ خیال پیدا ہوجائے کہ جھوٹ، فریب اور دھوکے کے بغیر مَیں اپنے کاروبارمیں یاکام میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ تو پھر انسان اپنے ارد گرد ایسا گروہ بنا لیتاہے جو غلط قماش کے لوگوں کا ہوتاہے تاکہ بوقت ضرورت ایک دوسرے کے کام آسکیں۔ چنانچہ دیکھیں آج کل دنیا داروں میں ہرجگہ یہی چیزہے۔ ایسے لوگوں میں جب کوئی شخص غلط کام کرتاہے توصرف اپنے سردار کے پاس، اپنے سربراہ کے پاس آتاہے۔ یا ہمارے ملکوں میں زمیندارہ رواج ہے وڈیروں کے پاس چلے جاتے ہیں تا کہ وہ ان کو قانون سے بچائیں۔ اور پھر یہ لوگ ان کو قانون سے بچانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہوتے ہیں۔ بڑی بڑی سفارشیں کروائی جاتی ہیں۔ اور جو بے چارے شریف آدمی ہوں، جن کی غلطی نہ بھی ہو اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان کو پھنسا دیا جائے اور غلط قسم کے لوگوں کو بچا لیاجائے۔ رشوتیں دی جاتی ہیں کہ ہمارا آدمی بچ جائے چاہے بے گناہ آدمی کو سزا ہوجائے۔ حالانکہ حکم تو یہ ہے کہ اگر کوئی چورہے، بے ایمان ہے تو تم نے کوئی سفارش نہیں کرنی۔ آنحضرتﷺ کی یہ بات پیش نظر نہیں رکھتے جب ایک عورت کی سفارش کی گئی چوری کے الزام میں تو آنحضرتﷺ نے فرمایاکہ تم سے پہلی امتیں اسی لئے تباہ ہوئیں کہ وہ اپنے چھوٹوں کو سزا دیا کرتی تھیں اور بڑوں کو بچا لیا کرتی تھیں۔ تو فرمایاکہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو مَیں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔ تویہ ہے اسوہ امانت کو صحیح طورپر ادا کرنے کا اور خیانت سے بچنے کا۔ اور یہی تعلیم ہے جس کو لے کر جماعت احمدیہ کھڑی ہوئی ہے۔ پس ہراحمدی کا فرض ہے کہ اس معاشرہ میں بڑا پھونک پھونک کر قدم رکھے۔ ہم نے معاشرہ کی برائیوں سے اپنے آپ کو بچانا بھی ہے اور اپنے اندر امانت ادا کرنے کے حکم کو جاری اور قائم بھی رکھناہے۔ اور قرآن کریم کے اس حکم کو پیش نظر بھی رکھناہے کہ وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِیْنَ یَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَھُمْ۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ خَوَّانًا اَثِیْمًا(النساء:۱۰۸)۔ اور لوگوں کی طرف سے بحث نہ کر جو اپنے نفسوں سے خیانت کرتے ہیں۔ یقینا ًاللہ سخت خیانت کرنے والے گنہگار کو پسند نہیں کرتا۔ تویہاں مزید کھولا کہ اللہ تعالیٰ یہ بات بالکل پسند نہیں کرتا کہ جو خائن ہے، چور ہے، غلط کام کرنے والاہے، اس کی حمایت کی جائے چاہے جتنے مرضی اونچے خاندان سے ہو، جتنے مرضی اونچے مقام کاہو۔ اور قطع نظراس کے کہ کس کی اولاد ہے اگر وہ خیانت کا مرتکب ہواہے تو اس کو سزا ملنی چاہئے۔ اور آنحضرتﷺ کا اسوہ ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کیونکہ اگر تم نے ایسے لوگوں سے رعایت کی تو نہ صرف تم اپنے آپ کو نقصان پہنچانے والے ہوگے بلکہ اپنے بھائیوں کو بھی نقصان پہنچا رہے ہوگے کیونکہ ایسے شخص کو جب ایک دفعہ معاف کردیا جائے تو اس کو جرأت پیداہوتی ہے اور یہی عموما ً سامنے آتاہے کہ پھر ایسے لوگ دھوکے دیتے رہتے ہیں۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۶؍فروری۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۶؍اپریل۲۰۰۴ء)