حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حضرت علیؓ کی شہادت (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم جنوری ۲۰۲۱ء)

حضرت علیؓ کی شہادت کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔ حضرت عبیداللہؓ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا اے علی!کیا تم جانتے ہو کہ اوّلین اور آخرین میں سے سب سے بدبخت شخص کون ہے؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسولؐ سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ پہلوں میں سب سے بدبخت شخص حضرت صالحؑ کی اونٹنی کی کونچیں کاٹنے والا تھا اور اے علی!آخرین میں سب سے بدبخت وہ شخص ہو گا جو تمہیں نیزہ مارے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ کی طرف اشارہ فرمایا جہاں آپؓ کو نیزہ مارا جائے گا۔

حضرت علیؓ کی لونڈی اُمّ جعفر کی روایت ہے کہ میں حضرت علیؓ کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہی تھی کہ آپؓ نے اپنا سر اٹھایا اور اپنی داڑھی کو پکڑ کر اسے ناک تک بلند کیا اور داڑھی کو مخاطب کر کے فرمایا واہ واہ !تیرے کیا کہنے۔ تم ضرور خون میں رنگی جاؤ گی۔ پھر جمعہ کے دن آپؓ شہید کر دیے گئے۔ حضرت علیؓ کا واقعہ شہادت ایک جگہ اس طرح بیان ہوا ہے۔ ابن حَنَفِیَّہ روایت کرتے ہیں کہ میں اور حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ حمام میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمارے پاس ابن مُلْجَم آیا۔ جب وہ داخل ہوا تو گویا حسنین نے اس سے نفرت کا اظہار کیا اور کہا کہ تیری یہ جرأت کہ اس طرح یہاں ہمارے پاس آئے۔ میں نے ان دونوں سے کہا کہ تم اسے منہ نہ لگاؤ۔ قسم سے کہ یہ تمہارے خلاف جو کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے وہ اس سے بھی زیادہ خوفناک ہے۔ حضرت علیؓ پر حملہ کے وقت ابنِ مُلْجَم کو قیدی بنا کر لایا گیا تو ابنِ حَنَفِیَّہ نے کہا میں تو اسے اس دن ہی اچھی طرح جان گیا تھا جس دن یہ حمام میں ہمارے پاس آیا تھا۔ اس پر حضرت علیؓ نے فرمایا کہ یہ قیدی ہے۔ لہٰذا اس کی اچھی طرح مہمان نوازی کرو اور اسے عزت کے ساتھ ٹھہراؤ۔ اگر میں زندہ رہا تو یا تو اسے قتل کروں گا یا اسے معاف کروں گا اور اگر میں مر گیا تو اسے میرے قصاص میں قتل کر دینا اور حد سے نہ بڑھنا۔ یقیناً اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسندنہیں کرتا۔

حضرت ابن عباسؓ کے آزاد کردہ غلام قُثَم سے روایت ہے کہ حضرت علیؓ نے میرے بڑے بیٹے کو اپنی وصیت میں لکھا کہ اس یعنی ابنِ مُلْجَم کے پیٹ اور شرم گاہ میں نیزہ نہ مارا جائے۔ لوگوں نے بیان کیا کہ خوارج میں سے تین آدمیوں کو نامزد کیا گیا تھا عَبدُالرحمٰن بن مُلْجَم مُرَادِی جوقبیلہ حِمْیَرسے تھا اور اس کا شمار قبیلہ مُرَاد میں ہوتا تھا جو کِنْدَہ کے خاندان بَنُو جَبَلَہ کا حلیف تھا اور بُرَک بن عبداللّٰہ تَمِیْمِی اور عَمْرو بن بُکَیر تَمِیْمِی۔ یہ تینوں مکّہ میں جمع ہوئے اور انہوں نے پختہ عہد و پیمان کیے کہ وہ تین آدمیوں یعنی حضرت علی بن ابوطالبؓ، حضرت معاویہ بن ابوسفیانؓ اور حضرت عمرو بن عاصؓ کو ضرور قتل کریں گے، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ یہ نام ان تین قتل کرنے والوں کے تھے جس کا واقعہ حضرت مصلح موعودؓ نے شروع میں بیان کیا تھا، اور لوگوں کو ان سے نجات دلائیں گے۔ عبدالرحمٰن بن مُلْجَم نے کہا مَیں علی بن ابوطالب کے قتل کا ذمہ لیتا ہوں۔ بُرَکْنے کہا مَیں معاویہ کے قتل کا ذمہ لیتا ہوں اور عمرو بن بُکَیرنے کہا مَیں تمہیں عمرو بن عاص سے نجات دلاؤں گا۔ اس کے بعد انہوں نے اس بات پر باہم پختہ عہد و پیمان کیا اور ایک دوسرے کو یقین دلایا کہ وہ اپنے نامزد کردہ شخص کو قتل کرنے کے عہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور وہ اس تک پہنچے گا یہاں تک کہ اسے قتل کر دے یا اس راہ میں اپنی جان دے دے یعنی اس حد تک وہ جائیں گے یا تو ان تینوں کو قتل کر دیں گے یا اپنی جان دے دیں گے، واپس نہیں آئیں گے۔ انہوں نے آپس میں رمضان کی سترھویں رات اس غرض کے لیے مقرر کی۔ پھر ان میں سے ہر شخص اس شہر کی طرف روانہ ہو گیا جس میں اس کا مطلوبہ شخص رہتا تھا یعنی جسے اس نے قتل کرنا تھا۔ عبدالرحمٰن بن مُلْجَم کوفہ آیا اور اپنے خارجی دوستوں سے ملا مگر ان سے اپنے قصد کو پوشیدہ رکھا۔ وہ انہیں ملنے جاتا اور وہ اسے ملنے آتے رہے۔ اس نے ایک روز تَیْمُ الرِّبَاب قبیلہ کی ایک جماعت دیکھی جس میں ایک عورت قَطَام بنتِ شِجْنَہ بن عَدِی تھی۔ حضرت علیؓ نے جنگ نَہْرَوَان میں اس کے باپ اور بھائی کو قتل کیا تھا۔ وہ عورت ابن مُلْجَم کو پسند آئی تو اس نے اسے نکاح کا پیغام بھیجا۔ اس نے کہا میں اس وقت تک تجھ سے نکاح نہ کروں گی جب تک تُو مجھ سے ایک وعدہ نہ کرے۔ ابن مُلْجَم نے کہا کہ تُو جو مانگے گی میں وہ تجھے دوں گا۔ اس نے کہا کہ تین ہزار اور علی بن ابی طالب کا قتل۔ درہم تین ہزار ہوں گے اور علی بن ابوطالب کا قتل۔ اس نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں تو اس شہر میں علی بن ابوطالب کو قتل کرنے کے واسطے ہی آیا ہوں اور میں تجھے وہ ضرور دوں گا جو تُو نے مانگا۔ پھر ابنِ مُلْجَم، شَبِیْب بن بَجَرَۃ اَشْجَعِی سے ملا اور اسے اپنے ارادے سے آگاہ کیا اور اپنے ساتھ رہنے کا کہا۔ شَبِیْب نے اس کی یہ بات مان لی۔ عبدالرحمٰن بن مُلْجَم نے وہ رات جس کی صبح کو اس نے حضرت علیؓ کو شہید کرنے کا ارادہ کیا تھا اَشْعَثْ بن قَیْس کِنْدِیکی مسجد میں اس سے سرگوشی کرتے ہوئے گزاری۔ طلوع فجر کے قریب اَشْعَثْ نے اسے کہا، اٹھو صبح ہوگئی ہے۔ عبدالرحمٰن بن مُلْجَم اور شَبِیْب بن بَجَرَۃ کھڑے ہو گئے اور اپنی تلواریں لے کر اس تھڑے کے بالمقابل آکر بیٹھ گئے جہاں سے حضرت علیؓ نکلتے تھے۔ حضرت حسن بن علیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں صبح سویرے حضرت علیؓ کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ اس وقت حضرت علیؓ نے فرمایا: میں رات بھر اپنے گھر والوں کو جگاتا رہا پھر بیٹھے بیٹھے میری آنکھوں پر نیند غالب آگئی تو خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یعنی حضرت علیؓ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے آپ کی اُمّت کی طرف سے ٹیڑھے پن اور شدید جھگڑے کا سامنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ان کے خلاف اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ میں نے کہا: اے اللہ!مجھے ان کے بدلے میں وہ دے جو ان سے بہتر ہو اور ان کو میرے بدلے وہ دے جو مجھ سے بدترہو۔اتنے میں ابنِ نَباحْ مؤذن آئے اور کہا کہ نماز کا وقت ہو گیاہے۔ حضرت حسنؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علیؓ کا ہاتھ پکڑا تو وہ کھڑے ہو کر چلنے لگے۔ ابنِ نَباحْ آپؓ کے آگے تھے اور مَیں پیچھے۔ جب آپؓ دروازے سے باہر نکلے تو آپؓ نے آواز دی کہ اے لوگو! نماز، نماز۔ صلوٰۃ، صلوٰۃ کی آواز دیتے تھے۔ آپؓ ہرروز اسی طرح کیا کرتے تھے۔ جب آپ نکلتے تو آپ کے ہاتھ میں کوڑا ہوتا تھا اور آپؓ اُسے دروازوں پہ مار کےلوگوں کو جگایا کرتے تھے۔ عین اس وقت وہ دونوں حملہ آور آپؓ کے سامنے نکل آئے۔ عینی شاہدوں میں سے بعض کا کہنا ہے کہ میں نے تلوار کی چمک دیکھی اور ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اے علی!حکم اللہ کے لیے ہے نہ کہ تمہارے لیے۔ پھر مَیں نے دوسری تلوار دیکھی۔ پھر دونوں نے مل کر وار کیا۔ عبدالرحمٰن بن مُلْجَم کی تلوار حضرت علیؓ کی پیشانی سے سر کی چوٹی تک پڑی اور دماغ تک پہنچ گئی جبکہ شَبِیْب کی تلوار دروازے کی لکڑی پر جا لگی۔ میں نے حضرت علیؓ  کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ آدمی تم سے بھاگنے نہ پائے۔ لوگ ہر طرف سے ان پر ٹوٹ پڑے مگر شَبِیْب بچ کر نکل گیا جبکہ عبدالرحمٰن بن مُلْجَم گرفتار کر لیا گیا اور اسے حضرت علیؓ کے پاس پہنچا دیا گیا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اسے اچھا کھانا کھلاؤ اور نرم بستر دو۔ اگر میں زندہ رہا تو میں اس کا خون معاف کرنے یا قصاص لینے کا زیادہ حق دار ہوں گا اور اگر مَیں فوت ہو گیا تو اسے بھی قتل کر کے میرے ساتھ ملا دینا۔ میں ربّ العالمین کے پاس اس سے جھگڑوں گا۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد۔ جلد۳صفحہ۲۵تا۲۷ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱۹۹۰ء)یعنی پھر آپؓ یہ معاملہ اللہ کے حضور میں پیش کریں گے۔….

ابوسِنَان کا بیان ہے کہ جب حضرت علیؓ زخمی تھے تو وہ ان کی عیادت کے لیے گئے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ اے امیر المومنین! آپ کی اس زخمی حالت پر ہمیں بہت تشویش ہو رہی ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا لیکن خدا کی قسم! مجھے اپنے اوپر کوئی تشویش نہیں ہے کیونکہ صادق و مصدوق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بتا دیا تھا کہ تمہیں اس اس جگہ پر زخم آئیں گے اور آپؓ نے اپنی کنپٹیوں کی طرف اشارہ کیا پھر وہاں سے خون بہے گا حتی کہ تیری داڑھی رنگین ہو جائے گی اور ایسا کرنے والا اس امّت کا سب سے بڑا بدبخت شخص ہو گا جیسا کہ اونٹنی کی کونچیں کاٹنے والا قوم ثمود کا سب سے بڑا بدبخت تھا۔ (المستدرک علی الصحیحین۔ جزء 3 صفحہ 327 کتاب معرفۃ الصحابۃ ذکر اسلام امیر المومنین علی حدیث نمبر4648مطبوعہ دار الفکر 2002ء)

ایک روایت ہے کہ حضرت علیؓ نے اپنے قاتل اِبنِ مُلْجَم کے بارے میں فرمایا اس کو بٹھاؤ۔ اگر میں مر گیا تو اسے قتل کر دینا مگر اس کا مُثْلَہ نہ کرنا اور اگر مَیں زندہ رہا تو مَیں خود اس کی معافی یا قصاص کا فیصلہ کروں گا۔ (الاستیعاب جلد 3صفحہ 219، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button