اتّفاق و اتحاد کے قیام کے لیے نصیحت (قسط دوم۔ آخری) (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۲۲؍ مارچ ۱۹۱۸ء)
[تسلسل کے لیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل۳؍اکتوبر۲۰۲۴ء]
پس اتفاق و اتحاد کے اثرات ظاہر ہیں اور تمام دُنیا ان کو جانتی ہے لیکن پھر بھی بہت لوگ اس کی قدر نہیں کرتے۔ چنانچہ دُنیا میں ایسی قومیں کثرت سے ہیں جن میں اتفاق نہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اس قانون کی ضرورت کو مانتے تو ہیں مگر شخصی فوائد جب درمیان آجاتے ہیں تو اس کی قطعاً پرواہ نہیں کرتے۔
لیکن مَیں نے بتایا ہے اور میرے بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ اتفاق و اتحاد کا پیدا ہونا نہایت مُشکل امر ہے۔ اور یہ محض خدا کا فضل ہوتا ہے اور جب کسی جماعت میں یہ پیدا ہو جائے تو اس کی حفاظت کی بہت سخت ضرورت ہوتی ہے۔ چونکہ
اتفاق بغیر خدا کے فضل کے پیدا نہیں ہو سکتا
اس لئے اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کو ایک نعمت قرار دیا ہے اور افتراق و شِقاق کا نام آگ کے کنارے کھڑا ہونا رکھا ہے۔ جس طرح آگ میں پڑا ہوا انسان ہلاکت سے نہیں بچ سکتا اِسی طرح نااتفاقی کے جو نتائج ہیں ان سے بھی نہیں بچ سکتا۔ پس نا اتفاقی کا عذاب ایسا ہی عذاب ہے جیسا کہ آگ میں پڑجانے کا۔
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے دیکھو ہم نے اتفاق و اتحاد اپنے فضل سے پیدا کیا ہے۔ تم خواہ کتنا ہی مال خرچ کرتے تب بھی اتفاق نہیں پیدا کر سکتے تھے۔ لاکھوں دلوں کا جمع کرنا اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ انسانی کوششوں کا بھی اس میں دخل ہوتا ہے لیکن اتفاق پیدا کرنا انسان کے بس کا نہیں ہوتا۔ خدا اسے اپنے فضل سے ہی کر دیتا ہے کیونکہ اسباب اس قدر نہیں ہوتے جس قدر وہ نتائج عطا فرماتا ہے۔ پس کوشش کے نتیجہ میں اتفاق پیدا نہیں ہوتا بلکہ فضل کے طور پر اﷲ تعالیٰ پیدا کر دیتا ہے۔ جب اس مُشکل سے یہ بات حاصل ہوتی ہے تو اس کی بے قدری کتنی بڑی غلطی ہے۔ جب یہ انسانی کوششوں سے ملتی ہی نہیں بلکہ محض خدا کے فضل سے ہی ہے تو چاہئے کہ اس کے ملنے پر لوگ اس کی قدر کریں مگر نہیں۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسا کہ غالب نے کہا ہے ؎
اور بازار سے لے آئیں گے گر ٹوٹ گیا
جامِ جم سے مِرا جامِ سفال اچھا ہے
(دیوان غالب صفحہ ۲۰۳ مکتبہ اعجاز لاہور ۱۹۹۸ء )
کہتا ہے کہ میرا مٹّی کا پیالہ ٹوٹ گیا تو اور بازار سے لے آؤں گا کیونکہ اس کا ملنا مُشکل نہیں۔ اس لئے یہ جامِ جم سے بہتر ہے کیونکہ اگر وہ ٹوٹ جائے تو اس کا ملنا ناممکن ہے۔ بات یہ ہے کہ جو چیز سستی یا آسانی سے مل جائے اس کی قدر نہیں کی جاتی۔ افسوس کہ
اتفاق کو ایسا ہی سمجھ کر قدر نہیں کی جاتی حالانکہ جب یہ توڑ دیا جائے پھر اس کا جُڑنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
ہاں جب اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے تو ایک بہت لمبے عرصہ کے بعد اس کے لئے خاص سامان مہیا کرتا ہے۔ تب جاکر اتفاق پیدا ہوتا ہے۔
خدا تعالیٰ کی قدیم سے یہ سنت ہے کہ جب اس نے کسی جماعت کو نااتفاقی سے بچانا ہوتا ہے تو اس میں فساد کرنے والے حصّہ کو نکال دیتا ہے۔ جیسا کہ ہماری جماعت میں جب ایک ایسا عنصر پیدا ہو گیا جو اتفاق و اتحاد کو توڑنے والا تھا تو اﷲ تعالیٰ نے اس کو جماعت سے نکال دیا۔ اس سے غرض یہ تھی کہ ہم میں پھر نااتفاقی نہ پیدا ہو۔ مگر باوجود خدا کے اس فضل کے بعض لوگ اس کی قدر نہیں کرتے اور ایسے طریق پر چلتے ہیں جس سے فساد ہو۔
اس زمانہ میں … سوائے احمدیوں کے اور کوئی جماعت نہیں جس میں مذہب کی خاطر اتفاق ہو اور لوگ جن میں اتفاق ہے وہ دُنیا کے لئے ہے مگر دین کے لئے صرف احمدیوں میں ہی ہے اور احمدی ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے دین کی خاطر شقاق و نفاق کو اپنے سینوں سے نکال دیا ہے۔ پس جب ان میں خدا کے فضل سے اتفاق و اتحاد پیدا ہو گیا ہے تو نہایت ضروری ہے کہ اس کی حفاظت کریں۔
دُنیا میں اس وقت اسلام کی جو حالت ہے وہ کسی عقلمند سے پوشیدہ نہیں۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اسلام کی ترقی اور کامیابی کے وعدے نہ ہوتے تو یہ ڈیڑھ سو سال سے زیادہ کا مہمان نظر نہیں آتا۔ اگرچہ ایسے نادان اور جاہل لوگ بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ سلطانِ روم جس وقت گھوڑے پر سوار ہوتا ہے تو تمام یورپ کے بادشاہ نوکروں کی طرح اس کے ساتھ ساتھ پیدل چلتے ہیںمگر ان کو کیا معلوم ہے کہ سلطانِ روم یورپ کے بادشاہوں کے لئے اس پائیدان کی طرح ہے جس سے کمرہ میں داخل ہوتے وقت پاؤں پونچھے جاتے ہیں۔ پھر بعض کہا کرتے ہیں کہ شاہِ کابل کے پاس اتنی فوج ہے کہ جس کا مقابلہ دُنیا میں کوئی نہیں کر سکتا اور انگریز ڈر کر اس کو روپیہ دیتے ہیں حالانکہ نہیں جانتے کہ کابل ایک چھوٹا سا علاقہ ہے جس کو انگریزوں نے ہی قائم رکھا ہوا ہے۔ اگر ایسے لوگ اسلام کی موجودہ حالت کو قابلِ اطمینان بتائیں تو بےشک بتائیں مگر جن کو پتہ ہے وہ نہیں کہہ سکتے۔ وہ تو دیکھتے ہیں کہ اسلام آج کا نہیں توکل کا مہمان ہے۔
ایسی حالت میں جو اسلام کی ترقی کے سامان ہیں اگر ہم ان کو ضائع کر دیں تو کتنے بڑے افسوس کی بات ہو گی۔
مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ ہمارے ہاں انجمنیں قائم کرتے ہیں اصلاح کے لئے اور کام کرنے کے لئے لیکن ان میں فساد اور جھگڑے کھڑے کر دیتے ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیا بات ہے۔ مسلمانوں کو قرآن میں حکم ہے۔وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا کہ اﷲ کی حبل کو مضبوط پکڑلو اور پراگندہ نہ بنو۔
اﷲ تعالیٰ نے حفاظتِ اسلام کے لئے جو حبلُ اﷲ تجویز کئے ہیں ان میں سے انبیاء اور ان کے خلفاء بھی ہیں کہ ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنی چاہئے
لیکن کئی لوگ عصیان اور سرکشی کرتے ہیں۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ اطاعت کا نام تولیتے ہیں لیکن اطاعت نہیں کرتے۔ معمولی معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑے کھڑے کر دیتے ہیں۔
کیا جب جہاز ڈوب رہا ہو تو جہاز کے آدمی آپس میں لڑیں گے۔ ہر گز نہیں۔ اس وقت تو خواہ کوئی کسی دوسرے کا روپوؤں سے بھرا ہوا بٹوا بھی اُٹھالے تو بھی وہ نہیں لڑے گا کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ اگر یہ بٹوا لیتا ہے تو لے لے۔ ابھی چند منٹ میں تو زندگی ختم ہونے والی ہے۔ پھر لڑائی کیسی۔ مگر یہاں ایک جہاز نہیں لاکھوں جہاز ڈوب رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دین کا جہاز ڈوب رہا ہےاور لوگ پرواہ نہیں کرتے۔ لڑائیوں اور جھگڑوں میں لگے ہوئے ہیں۔ شاید یہ خیال کرتے ہوں کہ ہم اپنی جان بچالیں گے۔ مگر اگر یہی حالت قائم رہی اور اتفاق و اتحاد نہ رہا تو پھر کوئی ترقی نہیں جو وہ کر سکیں۔ اور کوئی طاقت نہیں جو ان میں اتفاق پیدا کرسکے۔ مگر جب اﷲ چاہے۔
پس چاہئے کہ
تمام لوگ اپنے کاموں کو سوچ سمجھ کر کیا کریں اور کوئی بات ایسی نہ کیا کریں جس سے اتفاق و اتحاد کو نقصان پہنچتا ہو۔
معمولی معمولی باتوں پر جھگڑنا نہایت خطرناک ہوتا ہے مگر جب دیکھو ایسی ہی باتوں پر جھگڑے ہوتے ہیں حالانکہ یہ وقت ایسی بیہودہ باتوں پر لڑائی کر کے ضائع کرنے کا نہیں ہے کیونکہ اس وقت اسلام کی موت و حیات کا مسئلہ درپیش ہے۔ اس قسم کی بے ادبیوں اور سرکشیوں سے جو ادنیٰ ادنیٰ باتوں میں ظاہر کی جاتی ہیں پارٹیاں بن جاتی ہیں اور وہ نعمت جس کو اتفاق و اتحاد کہا جاتا ہے اور جو محض خدا کے فضل سے ہی ملتی ہےبے وجہ ضائع ہو جاتی ہے اور مجموعی قوت جو جماعت میں ہوتی ہے ان پارٹی بازیوں اور تفرقہ پردازیوں سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے۔
پس مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں پڑنا اور ذرا ذرا سی باتوں پر بحث و تکرار اور بے ادبی و سرکشی اور نفس کی اطاعت نہیں کرنی چاہئے اور وہ وقت جو اس قسم کے جھگڑوں میں ضائع کیا جاتا ہے اگر قرآن کریم کی کسی آیت پر غور کرنے میں صرف کیا جائے تو ممکن ہے کہ کوئی نکتہ ہاتھ آجائے۔
(الفضل ۲؍اپریل ۱۹۱۸ء)