https://youtu.be/70Ius9LQ5nA حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ نے اپنا ایک نام العاقب بیان فرمایا ہے۔بعض روایات میں اس کی تشریح (الْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ)،اس طرز پر درج ہے جس سے یہ وہم ہوتا ہے کہ یہ حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ کے اپنے الفاظ ہیں۔ذیل میں روایت کی اسانید کا خلاصہ ایک نقشہ کی صورت میں درج کر کے ان کا مختصر جائزہ پیش کیا جائے گا۔ وباللہ التوفیق وللہ الحمد! اسانید کے مطالعہ سے حاصل شدہ نتائج سب سے زیادہ روایات الزہری عن محمد بن جبیر عن جبیر بن مطعمؓ کے طریق سے مروی ہیں۔ان کے مطالعہ سے مندرجہ ذیل امور معلوم ہوتے ہیں:۱۔ ابراہیم بن سعد سے مروی بعض روایات میں اگرچہ العاقب کی تشریح بغیر شارح کے نام کی تصریح کے ساتھ موجود ہے(مثلاًً دیکھیں: مستخرج أبي عوانة (۱۸/ ۷۵) ط: الجامعۃ الاسلامیۃ بالمدینۃ المنورۃ)۔البتہ ابراہیم بن سعد سے ہی مروی بعض دوسری اسانید مثلاًً ابن المثنی عن ابی داؤد عن ابراھیم بن سعدمیں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ یہ تشریح امام الزہری نے خود کی ہے۔آنحضرتﷺ کے الفاظ نہیں ہیں۔ (مثلاً دیکھیں:تاريخ الطبري (۳/ ۱۷۸): ط: دار التراث بیروت)۔ ۲۔ شعیب بن ابی حمزہ سے صرف ایک طریق یعنی ابوالیمان عن شعیب بن ابی حمزہ میں العاقب کی تشریح بغیر شارح کی صراحت کے مذکور ہے۔ یہ روایت الدارمی نے درج کی ہے۔(مسند الدارمي - ت حسين أسد (۳/ ۱۸۲۶) ط: دار المغني للنشر والتوزيع، المملكة العربية السعودية) جبکہ اسی طریق سے یہ روایت امام البخاری (صحيح البخاري (۴/ ۱۸۵۸)،الطبرانی (التاريخ الأوسط (۱/ ۱۰) ت: محمود ابراہیم ط: دار الوعي , مكتبة دار التراث - حلب , القاهرة) اور ابو عوانۃ (مستخرج أبي عوانة (۱۸/ ۷۴) ط: الجامعۃ الاسلامیۃ بالمدینۃ المنورۃ)نے درج کی ہے مگرتشریحی الفاظ موجود نہیں ہیں۔ اسی طرح یہ روایت بشر بن شعیب عن ابیہ شعیب بن ابی حمزۃ سے بھی مروی ہے مگر وہاں بھی یہ تشریح موجود نہیں ہے۔ (مثلاًً دیکھیں:المعجم الكبير للطبراني (۲/ ۱۲۰) ت: حمدی سلفی ط:مکتبۃ ابن تیمیۃ قاھرۃ)۔ ۳۔ سفیان بن عیینہ سے مروی ایک طریق یزید بن ھارون عن سفیان بن عیینۃ عن الزہری میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ امام الزہری نے العاقب کی تشریح ایک سوال کے جواب میں بیان کی۔( مثلاًً دیکھیں: مصنف ابن أبي شيبة (۶/ ۳۱۱ )ت الحوت ط:دار التاج - لبنان)۔ ۴۔ امام الزہری سے یہ روایت معمر بن راشد (مثلاًً دیکھیں: الجامع - معمر بن راشد (۱۰/ ۴۴۶) ت :الأعظمی- ط:توزیع المکتب الاسلامی)، محمد بن اسحٰق (مثلاًً دیکھیں: سيرة ابن اسحاق (صفحہ۱۴۲) مالک بن انس (مثلاًً دیکھیں: (صحيح البخاري (۳/ ۱۲۹۹)،سفیان بن حسین (مثلاً دیکھیں: مصنف ابن أبي شيبة (۱۷/ ۴۳۲ ت الشثري ط:دار كنوز إشبيليا للنشر والتوزيع، الرياض)،محمد بن میسرۃ (مثلاً دیکھیں: دلائل النبوة للبيهقي (۱/ ۱۵۴) ت:عبد المعطي قلعجي ط: دار الكتب العلمية، دار الريان للتراث)،محمد بن الولید الزبیدی (مثلاً دیکھیں: المعجم الكبير للطبراني (۲/ ۱۲۲) ت: حمدی السلفی ط:مکتبۃ ابن تیمیۃ القاھرۃ)،محمد بن صالح التمار (مثلاً دیکھیں: المعجم الكبير للطبراني (۲/ ۱۲۳) ت: حمدی السلفی ط:مکتبۃ ابن تیمیۃ القاھرۃ) کے طُرُق سے مروی ہے۔ان تمام روایات میں یا تو العاقب کی تشریح موجود ہی نہیں یا اس بات کی تصریح موجود ہے کہ یہ تشریح امام الزہری یا سفیان بن حسین کی بیان کردہ ہے۔ خلاصہ یہ کہ الزہری عن محمد بن جبیر کی سند سے اس روایت کےکم از کم ۱۳؍طُرُق ہیں۔ان میں سے سات طُرُق میں یا تو العاقب کے لفظ کی تشریح موجود نہیں یا پھر اس بات کی تصریح ہے کہ یہ تشریح امام الزہری یا سفیان بن حسین نے کی ہے۔اس کے مقابلہ میں صرف تین طُرُق میں اس بات کی تصریح نہیں کہ یہ تشریح کس نے کی ہے؟جبکہ باقی تین طُرُق یعنی شعیب بن ابی حمزۃ،ابراہیم بن سعد اور سفیان بن عیینہ مختلف فیہ ہیں۔یعنی ان کے بعض اسانید میں شارح کے نام کی وضاحت ہےاور بعض میں نہیں ہے۔ الزہری عن محمد بن جبیر کے طریق سے مروی روایات کا جائزہ وہ اسانید جن میں الفاظ (الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ أَحَدٌ/ الَّذِي لَا نَبِيَّ بَعْدِي)بغیر شارح کے نام کی تصریح کے ساتھ مذکور ہیں، تین رواۃ سے مروی ہیں۔یونس بن یزید،سلیمان بن کثیر اور عقیل بن خالد۔جیسا کہ پہلے واضح کیا جا چکا ہے کہ سفیان بن عیینہ سے بھی بعض اسانید میں شارح کے نام کی تصریح اور بعض میں بغیر تصریح کے یہ الفاظ مذکور ہیں۔ ۱۔ یونس بن یزید الایلی: ان کے بارے میں امام الوکیع کہتے ہیں:’’رأيتُ يونسَ الايلى وكان سيِّئُ الحِفظِ‘‘ (سؤالات ابی داؤد للامام احمد: ۲۶۸ ت:زیاد منصور ط:مکتبۃ العلوم و الحکم المدینۃ المنورۃ)۔یعنی میں نے یونس کو دیکھا ان کا حافظہ درست نہ تھا۔ایک دوسرے مقام پر ان کے الفاظ یہ ہیں:’’ لَقِيتُ يونس بن يزيد بمكةَ فجَهدتُ به الجُهدَ أن يُقيمَ حديثا، فلم يَقدِر عليه‘‘(سؤالات البرذعي لأبي زرعة الرازي (۲/ ۶۸۵ ت الهاشمي) ط: عمادة البحث العلمي بالجامعة الإسلامية، المدينة النبوية، المملكة العربية السعودية)۔یعنی میں نے یونس سے مکہ میں ملاقات کی اور کوشش کی کہ وہ ایک حدیث ہی درست بیان کر دے مگر وہ اس پر قادر نہ ہو سکے۔ ایک دوسرے مقام پر لکھا ہے: سُئِلَ أحمد بْن حنبل: مَن أثبَتُ فِي الزُّهْرِيّ؟ قال: معمر. قيل لَهُ: فيونس؟ قال: رَوَى أحاديث مُنكِرَة (تهذيب الكمال في أسماء الرجال (۳۲/ ۵۵۵) ت:بشار عواد ط:مؤسسۃ الرسالۃ بیروت)۔یعنی امام احمد بن حنبل سے پوچھا گیا کہ امام زہری سے روایت کرنے والوں میں سے سب سے ثبت(پختہ) راوی کون ہے؟انہوں نے کہا معمر۔ان سے پوچھ گیا یونس(کے بارے میں کیا خیال ہے)؟انہوں نے کہا کہ وہ (بعض )منکر احادیث روایت کرتاہے۔یاد رہے کہ عمومی طور پر منکر حدیث سے مراد وہ حدیث ہے جو ثقہ راوی کی حدیث کے مخالف ہو یا راوی کا انفراد ہو جس پر کوئی متابعت نہ ہو۔اسی طرح یحییٰ بن سعید القطان کے بارے میں آتا ہے کہ لم يُعجِبهُ يُونُس وَكَأنّ معمرا عِنْده أصلَحُ مِن يُونُس (العلل ومعرفة الرجال لأحمد رواية ابنه عبد اللّٰه (۲/ ۵۱۸) المحقق: وصي اللّٰه بن محمد عباس ط: دار الخاني , الرياض)۔یعنی انہیں (امام زہری کے رواۃ میں سے) یونس پسند نہیں تھے۔ان کے نزدیک معمر یونس کی نسبت زیادہ مناسب راوی ہیں۔امام احمد نے ایک مقام پر صراحت کی ہے کہ يونس كثيرُ الخطأ عَن الزُّهْرِيّ (تهذيب الكمال في أسماء الرجال (۳۲/ ۵۵۵) ت:بشار عواد ط:مؤسسۃ الرسالۃ بیروت)۔یعنی امام زہری سے روایت کرنے میں یونس سے بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں۔ابن سعد کہتے ہیں کہ وَلَيْسَ بِحُجَّةٍ، وَرُبَّمَا جَاءَ بِالشَّيْءِ الْمُنْكَرِ (الطبقات الكبرىٰ ط دار صادر (۷/ ۵۲۰) ت: علي محمد عمر ط: مكتبة الخانجي، القاهرة مصر)۔یعنی وہ لَيْسَ بِحُجَّةٍ کے درجہ پر ہیں۔ وہ اکثر منکر احادیث روایت کرتے ہیں۔یاد رہے کہ وَلَيْسَ بِحُجَّةٍ علمائے جرح وتعدیل کی مخصوص مصطلحات میں سے ہے جو رواۃ کی تمام احادیث پر تفصیلی مطالعہ و جائزہ لینے کے بعد رواۃ کی کُل احادیث یا بعض احادیث پر حکم لگانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان کا محض ترجمہ درست مفہوم بیان کرنے سے قاصر ہے۔ ۲۔ سلیمان بن کثیر: ان کے بارے میں امام الذہلی کہتے ہیں :مَا رَوَى عَنِ الزُّهْرِيِّ، فَإِنَّهُ قَدِ اضْطَرَبَ فِي أَشْيَاءَ مِنْهَا، وَهُوَ فِي غَيْرِ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ أَثْبَتُ ( الضعفاء الكبير للعقيلي (۲/ ۱۳۷) ت: عبد المعطي أمين قلعجي ط: دار المکتبۃ العلمیۃ بیروت)۔یعنی سلیمان نے جو روایات امام زہری سے کی ہیں ان میں کچھ اضطراب ہے البتہ وہ امام زہری کے علاوہ دیگر سے احادیث بیان کرنے میں ثبت ہیں۔ابن حبان لکھتے ہیں: كَانَ يخطئ كثيرا أمّا رِوَايَتُه عَن الزُّهْرِيّ فَقَدِاخْتَلَط عَلَيْهِ صَحِيفَته فَلَا يُحْتَج بِشَيْء ينْفَرد بِهِ عَن الثِّقَات (المجروحين لابن حبان ت زايد (۱/۳۳۴) ط:دارالوعی حلب)۔ یعنی وہ روایات کے بیان میں بہت غلطیاں کرتے ہیں جہاں تک ان کی امام زہری سے روایات کا تعلق ہے توان کے صحیفہ کے مشتبہ ہونے کی وجہ سے ایسی روایات سے بالکل حجت نہیں پکڑی جا سکتی جن میں وہ ثقہ رواۃ سے موافقت نہیں کرتے۔ ابن حجر ان کے بارے میں اقوال کا حاصل لکھتے ہیں: لا بأسَ به غَيرِ الزُّهرِي (تقريب التهذيب صفحہ:۲۵۴ ت:محمد عوامۃ ط:دار الرشید سوریا)۔یعنی وہ امام زہری کے علاوہ دیگر سے روایات کرنے میں لا بأسَ به کے درجہ پر ہیں۔یاد رہے کہ لا بأسَ به بھی خاص مصطلحات میں سے ہے۔ خلاصہ یہ کہ اگر تعدیل کو دیکھیں تو زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ امام زہری کے علاوہ رواۃ سے روایت کرنے میں کسی قدر قابلِ قبول ہیں۔ ۳۔عُقَیل بن خالد: اصحاب الزہری میں عقیل کا درجہ مالک اور معمر کے بعد ہے۔چنانچہ ابن معین کے ایک شاگرد لکھتے ہیں کہ’’سألتُ يحيى بن معين قلتُ مَن اَثبتُ النَّاسِ فى الزُّهرى مِمَّن رَوَى عَنهُ قال مالك بن انس فقلتُ لَه ثُمَّ مَن بَعدَ مالك بن انس فقال مَعمَر فقلتُ ومَن بعد هذَينِ قال عُقَيل‘‘(تاريخ ابن معين - رواية ابن محرز (۱/ ۱۲۰) ط: جمع اللغة العربية – دمشق)۔یعنی میں نے یحیی بن معین سے پوچھا کہ جن لوگوں نے امام زہری سے روایت کی ہے ان میں سب سے زیادہ ثبت کون ہے؟انہوں نے کہا کہ امام مالک۔میں نے پوچھا پھر کون؟انہوں نے کہا کہ معمر۔ میں نے پوچھا ان دونوں کے بعد کون؟ انہوں نے کہا کہ عقیل۔یعنی عقیل کا درجہ مالک اور معمر کے بعد آتا ہے۔ ۴۔ سفیان بن عیینہ: سفیان بن عیینہ اگرچہ ثقہ ہیں مگر مالک اور معمر کے مقابلہ میں ان کی روایت مرجوح ہوگی۔ چنانچہ یحییٰ بن معین کہتے ہیں:مالك بن أنس ثقة، إمامُ الحجازِ، وهو أثبَتُ أصحابِ الزهري، وإذا خَالَفُوا مالِكا مِن أهلِ الحِجازِ حُكِمَ لِمالِك،…وأقوى في الزهري مِن ابنِ عيينة، وأقَلُّ خطأ منه (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم (۱/ ۱۷) ط: مطبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن الهند)۔یعنی امام مالک ثقہ ہیں اور حجاز کے امام ہیں اور امام زہری کے رواۃ میں سے سب سے زیادہ ثبت ہیں۔اگر کوئی اہل حجاز میں سے امام مالک سے روایت کرنے میں مخالفت کرے تو امام مالک کے حق میں فیصلہ کیا جائے گا…وہ ابن عیینہ کی نسبت امام زہری سے روایت کرنے میں زیادہ قوی اور ان سے کم ٖغلطیاں کرنے والے ہیں۔ایک دوسرے مقام پر کہتے ہیں: مَعْمَرٌ أثبت فِي الزُّهْرِيّ مِن ابنِ عُيَيْنَة (التاريخ الكبير = تاريخ ابن أبي خيثمة - السفر الثالث (۲/ ۲۵۶) ت: إسماعيل حسن حسين ط: دار الوطن – الرياض)۔یعنی معمر بھی ابن عیینہ کی نسبت امام زہری سے روایت کرنے میں زیادہ ثبت ہیں۔ ایک موقع پر یحییٰ بن معین کہتے ہیں:’’والزبيدي أثبت منه يعني مِن سفيان بن عيينة (سؤالات ابن الجنيد (صفحہ: ۳۰۸) ت: أحمد محمد نور سيف ط: مكتبة الدار- المدينة المنورة)۔یعنی زبیدی بھی ابن عیینہ سے زیادہ ثبت ہیں۔علی المدینی کے بارے میں لکھا ہے :تناظَرَ هو وأحمد في ذٰلك، وبيَّن أحمد أنَّ ابنَ عيينة أخطأ في أكثر مِن عِشرين حديثًا عَنِ الزُّهري وأما مالك فذَكرَ له مسلم في كتابِ التمييز عَنِ الزُّهري ثلاثةَ أوهام، وذَكَرَ أبو بكر الخطيب له وَهمَينِ عَنِ الزهري، وأحدُهما ذَكَرَه مسلم (شرح علل الترمذي (۲/ ۶۷۱) ت: همام عبد الرحيم سعيد ط: مكتبة المنار- الزرقاء - الأردن)۔یعنی امام احمد اورعلی المدینی کا اس معاملہ (یعنی ابن عیینہ اور مالک میں سے کون سا راوی امام زہری سے روایت کرنے میں زیادہ ثبت ہے) مناظرہ ہوا۔امام احمد نے بیان کیا کہ ابن عیینہ نے امام زہری سے روایت کرنے میں ۲۰ سے زیادہ روایات میں غلطی کی ہے اور جہاں تک اما م مالک کا تعلق ہے تو امام مسلم نے کتاب التمییز میں ان کے زہری سے روایات کرنے میں ۳ اوہام نقل کیے ہیں۔ابو بکر الخطیب نے ۲ اوہام نقل کیے ہیں جن میں سے ایک وہی ہے جو امام مسلم نے نقل کیا ہے۔گویا اتنی سخت تنقید کے بعداما م مالک کے صرف چار اوہام کا ذکر ملتا ہے۔پس سفیان بن عیینہ اگرچہ ثقہ راوی ہیں مگر ان کا درجہ مالک،معمر اور الزبیدی کے بعد ہے اور تینوں کی روایات میں یہ تشریح حضرت رسول اللہﷺ کی طرف منسوب نہیں ہے۔ قاضی عیاض لکھتے ہیں: وقد قال أئمةُ الحديثِ: إذا اختَلَفَ أصحابُ ابنِ شهاب فالقَولُ ما قال مالك؛ لأنه أثبَتُهم فِيه وأحفَظُهم (إكمال المعلم بفوائد مسلم (۳/ ۸۳) ت: يحْيَى إِسْمَاعِيل ط: دار الوفاء للطباعة والنشر والتوزيع، مصر)۔یعنی اگر امام الزہری کے شاگردوں میں اختلاف ہو گا تو امام مالک کے قول کے مطابق فیصلہ ہو گا کیونکہ وہ ان سب سے زیادہ ثبت اور سب سے اچھا حافظہ رکھنے والے ہیں۔یہی بات علامہ الزرقانی نے بحوالہ یحییٰ بن معین نقل کی ہے (مثلاً دیکھیں: شرح الزرقاني على الموطأ (۱/ ۴۳۱) ت: طه عبدالرءوف سعد ط: مكتبة الثقافة الدينية - القاهرة)۔مگر یہاں مالک کے ساتھ معمر،الزبیدی وغیرہ ثقات کی موافقت بھی موجود ہے۔ نافع بن جبیر عن جبیر بن مطعمؓ کے طریق سے مروی روایات کا جائزہ یہ روایت عتبہ بن مسلم (مثلاً دیکھیں: التاريخ الأوسط (۱/ ۱۰) ت: محمود ابراہیم ط: دار الوعي , مكتبة دار التراث - حلب , القاهرة)، ابو الحویرث (مثلاً دیکھیں: المعجم الكبير للطبراني (۲/ ۱۳۳) ،جعفر بن ابی وحشیۃ (مثلاً دیکھیں: مسند بن الجعد (۱/۴۷۹) ت:عامر حیدر ط:دار الکتب العلمیۃ بیروت ) عن نافع بن جبیر بھی مروی ہے مگر کسی جگہ کوئی تشریحی عبارت موجود نہیں ہے۔ حضرت جبیر بن مطعمؓ کے علاوہ دیگر صحابہؓ سے مروی روایات کا جائزہ: یہ روایت حضرت جبیر بن مطعمؓ کے علاوہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (مثلاً دیکھیں: فوائد تمام (۲/ ۷۸) ت: حمدی عبدالمجید ط:مکتبۃ الرشید الریاض)،حضرت حذیفۃ بن الیمانؓ(مثلاً دیکھیں: مصنف ابن أبي شيبة (۶/ ۳۱۱ ت الحوت) ط:دارالتاج لبنان،)حضرت ابن عباسؓ(مثلاً دیکھیں: المعجم الأوسط للطبراني (۲/ ۳۷۸) ت: طارق بن عوض اللّٰه -،عبدالمحسن ط:دارالحرمین القاھرۃ)،حضرت جابرؓ بن عبد اللہ(مثلاً دیکھیں: المعجم الكبير للطبراني (۲/ ۱۸۴) ت: حمدی السلفی ط:مکتبۃ ابن تیمیۃ القاھرۃ)،حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ(مثلاً دیکھیں: مسند أبي داود الطيالسي (۱/ ۳۹۷) ت:محمد الترکی ط:دار ھجر مصر) اور حضرت عوف بن مالکؓ الاشجعی(مثلاً دیکھیں: صحيح ابن حبان(۵/ ۲۰۶) ت:محمد علي سونمز، خالص آي دمير ط:دار حزم بیروت) سےبھی مروی ہے مگر کسی روایت میں العاقب بطور اسم النبیﷺ مذکور نہیں۔ مختلف اسانید سے مروی روایات میں ترجیح قائم کرنے کے مختلف اصولوں میں سے ایک سادہ سا اصول کثرت رواۃ بھی ہے۔جیسا کہ امام الآمدی لکھتے ہیں:فَمَا رُوَاتُهُ أَكْثَرُ يَكُونُ مُرَجَّحًا (الإحكام في أصول الأحكام للآمدي (۴/ ۲۴۲) ت: عبدالرزاق عفيفي ط: المكتب الإسلامي، (دمشق - بيروت))۔یعنی جس کے راوی زیادہ ہونگے اسی کو ترجیح دی جائے گی۔پس اس اصول کے ماتحت العاقب کی شرح کی حضرت اقدس رسول اللہﷺ کی طرف نسبت بالکل درست نہیں۔ علماء کی تصریح کہ یہ تشریح امام زہری کی ہے اکثر روایات میں موجودالفاظ کے علاوہ علماء نے بھی اس بات کی تصریح کی ہے کہ یہ الفاظ امام زہری کے ہیں۔اصولِ حدیث کی اصطلاح میں اسےإدراج کہتے ہیں۔ علامہ ابن حجر حدیث میں إدراج معلوم کرنے کے قرائن درج کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ أن يُصَرِّحَ بعضُ الرُّواةِ بِتَفصيلِ المُدرَجِ فيه عَنِ المَتنِ المرفوعِ فيه بأن يُضيفَ الكلامَ إلى قائِلِه ‘‘(النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر (۲/ ۸۱۲) ت: ربيع بن هادي عمير المدخلي ط: عمادة البحث العلمي بالجامعة الإسلامية، المدينة المنورة، المملكة العربية السعوديۃ)۔یعنی بعض رواۃ خود ہی وضاحت کر دیں کہ حضرت اقدس رسول اللہﷺ کی طرف مرفوع متن کہاں تک ہے اور مُدرَج کلام کو کہنے والے کی طرف منسوب کر دیں۔ متنازعہ فیہ روایت کے اکثر رواۃ اس بات کی تصریح کر رہے ہیں کہ العاقب کی تشریح امام الزہری نے کی ہے۔ امام الزہری کی إدراج کرنے کی عادت معروف ہے۔اس کی صراحت کئی علماء نے کی ہے مثلاً علامہ السخاوی لکھتے ہیں: وَكَذَا كَانَ الزُّهْرِيُّ يُفَسِّرُ الْأَحَادِيثَ كَثِيرًا، وَرُبَّمَا أَسْقَطَ أَدَاةَ التَّفْسِيرِ (فتح المغيث بشرح ألفية الحديث (۲/ ۸۹) ت: عبدالکریم الخضیر و محمد فھید ط:مکتبۃ دار المنھاج الریاض)۔یعنی امام زہری احادیث کی شرح کثرت سے کیا کرتے تھے اور اکثر وہ مخصوص کلمات جو تشریح پر دلالت کرتے ہیں،حذف کردیتے تھے۔اس کی بہت سی مثالیں بھی ملتی ہیں جس کے لیے معاصر محقق عبد الحمید عبد الرزاق کا شائع شدہ مقالہ بعنوان بلاغات ابن شهاب الزُّهْرِيّ وإدراجاته في الكتب الستة (رسالۃ دكتوراه، قسم اللغة العربية وآدابها شعبة الدراسات الإسلامية كلية الآداب، جامعة الإسكندرية - مصر)کی الفصل الثالث کا مطالعہ مفید ہوگا۔ العاقب کی تشریح بھی امام الزہری کا إدراج ہے۔چنانچہ امام البیھقی لکھتے ہیں:’’ وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ تَفْسِيرُ الْعَاقِبِ مِنْ قَوْلِ الزُّهْرِيِّ، كَمَا بَيَّنَهُ مَعْمَرٌ ‘‘(دلائل النبوة للبيهقي (۱/ ۱۵۴) ت: عبد المعطي قلعجي ط: دار الكتب العلمية، دار الريان للتراث)۔یعنی جیسا کہ معمر نے بیان کیا ہے عاقب کی تفسیر کے امام زہری کے قول ہونے کا احتمال موجود ہے۔تقریباً یہی الفاظ علامہ المقریزی نے بھی استعمال کیے ہیں (إمتاع الأسماع بما للنبي من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع ۲/۱۴۳ت: محمد عبد الحميد النميسي ط: دار الكتب العلمية - بيروت)۔علامہ السیوطی لکھتے ہیں:وَهُوَ مُدرَج مِن تَفْسِير الزُّهْرِي (تنوير الحوالك شرح موطأ مالك (۲/ ۲۶۳) ط: المكتبة التجارية الكبرى - مصر)۔ یعنی یہ الفاظ(الذی لیس بعدہ نبی)امام زہری کا إدراج ہے۔ملا علی القاری اس کی صراحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:الظَّاهِرُ أَنَّ هَذَا تَفْسِيرٌ لِلصَّحَابِيِّ أَوْ مَنْ بَعْدَهُ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (۱۰/ ۴۵۷) ت: جمال عیتانی ط: دار الکتب العلمیۃ، بيروت - لبنان)۔یعنی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ الفاظ کسی صحابی اور تابعی کی تفسیر ہے۔علامہ الزرقانی لکھتے ہیں:وأنه مُدرَج مِن تفسيرِ الزهري، كما بيَّنَه الطبراني في روايتِه (شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية (۴/ ۲۵۲) ط: دار الكتب العلمية)۔ یعنی یہ امام زہری کاإدراج ہے جیسا کہ طبرانی نے اپنی روایت میں ظاہر کیا ہے۔حافظ زبیر علی زئی صاحب نے بھی تسلیم کیا ہے کہ یہ تشریح امام الزہری کی طرف سے ہے۔ (تحقیق،اصلاحی اور علمی مقالات (۵/۱۶) ط:مکتبۃ الحدیث حضرو)۔ یہ یاد رہے کہ تابعین کے اقوال یا تشریح مطلقاً حجت نہیں ہوتے۔اس کی صراحت کئی علماء نے کی ہے۔اختصار کی غرض سے صرف دو ائمہ کے حوالے درج کیے جاتے ہیں۔امام ابو داؤد، امام احمد بن حنبل کے حوالہ سے لکھتے ہیں:سَمِعْتُ أَحْمَدَ، يَقُولُ: الِاتِّبَاعُ: أَنْ يَتَّبِعَ الرَّجُلُ مَا جَاءَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنْ أَصْحَابِهِ، ثُمَّ هُوَ مِنْ بَعْدُ فِي التَّابِعِينَ مُخَيَّرٌ(مسائل الإمام أحمد رواية أبي داود السجستاني (صفحہ: ۳۶۸) ت: أبي معاذ طارق بن عوض اللّٰه بن محمد ط:مکتبۃ ابن تیمیۃ مصر)۔یعنی پیروی کرنا یہ ہے کہ ایک شخص جو رسول اللہﷺ اور آپ کے صحابہ کی جانب سے ملے اس کی اتباع کرے پھر اس کے بعد وہ تابعین کے معاملہ میں اختیار رکھتا ہے۔اسی طرح امام ابو حنیفہ کہتے ہیں: إِذا جَاءَ الحَدِيث عَنِ النَّبِي صلى اللّٰه عَلَيْهِ وَسلم عَن الثِّقَات أَخذنَا بِهِ فَإِذا جَاءَ عَن أَصْحَابه لم نَخرُج عَن أقاويلِهم فَإِذا جَاءَ عَن التَّابِعين زاحمتُهم(أخبار أبي حنيفة وأصحابه (صفحہ: ۲۴) ط: عالم الكتب - بيروت)۔یعنی جو حدیث حضرت اقدس رسول اللہﷺ سے ثقہ رواۃ کے توسط سے مروی ہو وہ ہم لیں گے اور جب آپﷺ کے صحابہ سے مروی ہو تو ہم ان کے اقوال سے باہر نہیں نکلیں گے (یعنی ان میں سے کسی ایک کو اختیار کریں گے) اور جب تابعین سے مروی روایات آئیں تو میں مزاحمت کروں گا۔(یعنی اس کو پرکھوں گا یونہی قبول نہیں کر لوں گا۔) العاقب کے معنی ۱۔ ابن الاعرابی کہتے ہیں:العاقب والعَقُوب: الَّذِي يَخْلُف من كَانَ قبلَه فِي الْخَيْر (تهذيب اللغة (۱/ ۱۷۹) ت: محمد عوض مرعب ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)۔یعنی وہ شخص جو اپنے سے پہلوں کا خیر میں وارث ہو۔یقیناً رسول اللہﷺ تمام انبیاء کی خیر کے جامع ہیں۔اکثر علماء مثلاً ابن الاثیر (النھایۃ فی غریب الحدیث والاثر ۳/۲۶۸ ت: طاهر أحمد الزاوى - محمود محمد الطناحي ط: المكتبة العلمية - بيروت)، علامہ الکرمانی(الكواكب الدراري في شرح صحيح البخاري ۱۸/۱۴۲ ط: دار إحياء التراث العربي، بيروت-لبنان)،علامہ البِرماوی (اللامع الصبيح بشرح الجامع الصحيح ۱۲/۴۹۲ت:لجنة مختصة من المحققين بإشراف نور الدين طالب ط: دار النوادر، سوريا)،ابن قرقول (مطالع الأنوار على صحاح الآثار (۵/ ۳۰) ت: دار الفلاح للبحث العلمي وتحقيق التراث ط: وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية - دولة قطر)،قاضی عیاض (مشارق الأنوار على صحاح الآثار (۲/ ۹۸) ط: المكتبة العتيقة ودار التراث) وغیرہ نے ابن الاعرابی کے کیے گئے ان معنوں کو درج کیا ہے۔ ۲۔ بعض علماء کے نزدیک العاقب اور المقَفِّی ہم معنی ہیں۔چنانچہ ملا علی القاری، المقفّی کے معنی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: الْمُتَّبِعُ لِآثَارِهِمِ امْتِثَالًا لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهِ} وَفِي مَعْنَاهُ الْعَاقِبُ(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (۱۰/ ۴۵۷) ت: جمال عیتانی ط: دار الکتب العلمیۃ، بيروت - لبنان)۔گویا العاقب آیت فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهِ کی تشریح ہے۔کئی علماء نے اس بات کی تصریح کی ہے العاقِب اور المُقَفِّی ہم معنی ہیں۔مثلاً علامہ ابو المنصور الھروی،شمر کا قول درج کرتے ہیں: المقَفِّي نَحْوَ العاقِب (تهذيب اللغة (۹/ ۲۴۷) ت: محمد عوض مرعب ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)۔یعنی مقفّی بھی عاقب کی طرح ہے۔علامہ ابن الجوزی لکھتے ہیں: قَوْله أَنا المقَفِّي وَهُوَ بِمَعْنى العاقِبِ وَهُوَ المتَّبِع للأنبياءِ (غریب الحدیث لابن الجوزی ۲/۲۵۹ ت: عبد المعطي أمين القلعجي ط:دار الکتب العلمیۃ بیروت)۔یعنی حضرت اقدس رسول اللہﷺ کا یہ فرمانا کہ میں مقفی ہوں یہ عاقب کے معنوں میں ہی ہے یعنی آپﷺ تمام انبیاء کی ہدایت کی پیروی کرنے والے اور ان کے جامع ہیں۔علامہ الزرقانی ایک مقام پر لکھتے ہیں:’’وقال ابن الأعرابي، أي المُتَّبِع للأنبياء؛ لأن معنى قفي تَبِعَ انتهى. وفيه مِنَ الفَضلِ لَه صلى اللّٰه عليه وسلم أنَّه وقَف على أحوالِهم وشرائِعِهم، فاختار اللّٰهُ له مِن كُلِّ شَيء أحسَنَه (شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية (۴/ ۲۵۳) ط: دار الكتب العلمية)۔یعنی ابن الاعرابی کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ انبیاء کی پیروی کرنے والے ہیں کیونکہ قفی کا مطلب ہوتا ہے اس نے پیروی کی۔علامہ زرقانی کہتے ہیں کہ اس میں رسول اللہﷺ کی فضیلت ہے کہ اللہ تعالیٰ سے آپﷺنے انبیاء کے احوال اور شرائع پر اطلاع پائی اور اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے لیے ہر چیز کا بہترین اختیار کر دیا۔ علامہ البیھقی ایک اور جہت سے اس کا مطلب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:وأما المُقَفِّي فمعناه المُتَّبِع، فقد يَحتَمِلُ أن يكونَ المُرادُ المُقَفِّي لإبراهيم صلوات اللّٰه عليه فإنَّ اللّٰهَ عزّ وجلّ قال:[ثم أوحينا إليك أن أتبع ملة إبراهيم حنيفا] و يَحتَمِلُ أن يكونَ المُقَفِّي لموسى وعيسى وغيرِهما مِن أنبياءِ بني إسرائيل عليهم السلام، لِنَقلِ قومِهم عَن إتباعِهم إلى إتباعِہ، اَو عَنِ اليهوديةِ والنصرانيةِ إلى الحنيفيةِ السمحةِ (المنهاج في شعب الإيمان (۲/ ۱۴۳) ط:دار الکتب العلمیۃ بیروت)۔یعنی مقفی کا مطلب ہے پیروی کرنے والا۔ممکن ہے کہ مراد ہو کہ حضرت ابراہیمؑ کے مقفی ہیں۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ثم أوحينا إليك أن أتبع ملة إبراهيم حنيفا اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ مراد ہو کہ حضرت موسیٰ ؑاور عیسیٰ اور بنی اسرائیل کے دیگر انبیاء کے مقفی ہیں کیونکہ آپﷺ نے اُن کی قوم کو اُن کی اتباع سے اپنی اتباع کی طرف منتقل کیا یا یہودیت اور نصرانیت سے خالص وحدانیت کی طرف منتقل کیا۔یہ تمام معنی خاتم النبیینﷺ کے شایانِ شان ہیں۔ ۳۔ بعض علماء کے نزدیک العاقب اور الخاتم ہم معنی ہیں۔چنانچہ علامہ عبد الحمید ابن بادیس لکھتے ہیں:’’وعلينا إذ عَلِمنا معنى اسمِه العاقب وهو الخاتم أن نَرُدَّ كُلَّ ما يَحدُثُه المُحدِثونَ مِن زيادة في شريعَتِه، ونَعُدُّ كُلَّ مَن يأتي ذٰلك ويَتَظاهِرُ بالإسلامِ دجّالا مِنَ الدجاجلة‘‘(مجالس التذكير من حديث البشير النذير (صفحہ: ۳۲۷) ط: مطبوعات وزارة الشؤون الدينيۃ)۔یعنی جب ہمیں یہ معلوم ہو چکا کہ عاقب کا مطلب خاتم ہی ہے تو ہمیں چاہیے کہ شریعت میں نئی باتیں پھیلانے والوں کی نئی باتوں کو رد کریں اور جو کوئی یہ (نئی باتیں ) لائے اور اسلام کا دکھاوا کرے،اسے دجالوں میں سے ایک دجال شمار کریں۔ پس ثابت ہوا کہ عاقب کا مطلب خاتم ہے اور خاتم کا مطلب ہے کہ ایسا شخص نہیں آ سکتا جو شریعت میں اضافہ کا مدعی ہو۔ ۴۔ معاصر شارح علامہ حمزہ بن قاسم اس حدیث میں مذکور اسماء النبیﷺ کو آیت مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ کا مصداق قرار دیتے ہیں۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں:وقد دَلَّ بعضُ هذه الأسماءِ على أنَّ دينَ الإِسلامِ هُوَ الدِّينُ الغالبُ المُهَيمنُ على جميعِ الأديانِ، الناسِخُ لشَرائِعها بِشَرائِعه ولِأحكامِها بأحكامِه، وأنَّه الدِّينُ الخالدُ الباقي إلى يومِ القِيامةِ، فالحديثُ هو مِصداقُ قولِه تعالى: (وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ) (منار القاري شرح مختصر صحيح البخاري (۴/ ۲۳۷) مراجعۃ: عبد القادر الأرنؤط ت: بشير محمد عيون ط: مكتبة دار البيان، دمشق)۔یعنی آنحضرتؐ کے یہ اسماء دلالت کرتے ہیں کہ اسلام ہی تمام ادیان پر غالب ہے اور اپنی شریعت اور احکام کے ذریعہ ان کو منسوخ کرنے والا ہے اور یہی وہ دین ہے جو قیامت تک باقی رہنے والا ہے۔پس یہ حدیث، آیت وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ کی مصداق ہے۔ ۵۔علامہ ابن عبد البر،العاقب کی تشریح کرتے ہوئے امام مالک کا قول درج کرتے ہیں کہ وذَكَرَ ابنُ وَهْبٍ عَنْ مَالِكٍ قَالَ خَتَمَ اللّٰهُ بِهِ الْأَنْبِيَاءَ وَخَتَمَ بِمَسْجِدِهِ هَذِهِ الْمَسَاجِدَ(التمهيد - ابن عبد البر (۶/ ۲۷۳ ت بشار) ط: مؤسسة الفرقان للتراث الإسلامي لندن)۔یعنی اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے ذریعہ انبیاء کو ختم کیا اور آپﷺ کی مسجد (مسجد نبویؐ) کے ذریعہ مساجد کو ختم کر دیا۔امام مالک کے قول سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک العاقب یا الخاتم کا وہی مفہوم ہے جو خاتم المساجد کا ہے۔ بعض شبہات کا ازالہ ۱۔ بعض روایات میں وَأَنَا العَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدِي نَبِيٌّ(مثلاً دیکھیں: سنن الترمذي ت بشار (۴/ ۵۲۴) ط: دار الغرب الإسلامي - بيروت)کا لفظ آتا ہے۔اس سے یہ شبہ پڑتا ہے کہ یہ تشریح حضورﷺ نے ہی فرمائی ہے لیکن یہ بات درست نہیں۔ علامہ الزرقانی احادیث میں اس قسم کے الفاظ آنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:وَلَا يُنَافِيهِ رِوَايَةُ: بَعْدِي بِيَاءِ الْمُتَكَلِّمِ، لِأَنَّهَا قَدْ تَرِدُ عَلَى لِسَانِ الرَّاوِي حِكَايَةً عَنْ لِسَانِ مَنْ فَسَّرَ كَلَامَهُ إِذَا قَوِيَ تَفْسِيرُهُ عِنْدَهُ، حَتَّى كَأَنَّهُ نَطَقَ بِهِ (شرح الزرقاني على الموطأ (۴/ ۶۹۳) ت: طه عبدالرءوف سعد ط: مكتبة الثقافة الدينية – القاهرة)۔یعنی بعدی والی روایات ہماری اس تشریح کے(یہ قول امام زہری کا ہے) منافی نہیں ہے کیونکہ جب راوی کے نزدیک وہ تشریح مضبوط ہو تو کبھی راوی کی زبان پر اسی کی نسبت سے لفظ آجاتا ہے جس کے کلام کی وہ تشریح کر رہا ہوتا ہے گویا کہ یہ اُسی نے کہا ہے۔ ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:’’وما يَقَعُ في نُسَخِ وأنا العاقب فلا نبيَّ بعدي وَهم (شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية (۴/ ۱۶۴) ط: دار الكتب العلمية)۔یعنی بعض نسخوں میں جو ’’بعدی‘‘ لکھا ہے یہ وہم ہے۔ ۲۔ مفتی محمد شفیع صاحب علامہ ابن حجر کا ایک حوالہ درج کر کےمغالطہ دیتے ہیں کہ علامہ موصوف نے مذکورہ حدیث میں موجود الحاشر کے لفظ سے آخری نبی مراد لیا ہے۔ (ختم نبوت صفحہ:۲۵۷-۲۵۸ ط: ادارۃ المعارف کراچی)۔حالانکہ یہ بات درست نہیں۔علامہ ابن حجر نے اس مقام پر ایسی نبوت مراد لی ہے جس سے امت بدل جائے۔چنانچہ وہ اسی حوالہ میں فرماتے ہیں:’’ فَلَمَّا كَانَ لَا أُمَّةَ بَعْدَ أُمَّتِهِ لِأَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ نُسِبَ الْحَشْرُ إِلَيْهِ‘‘(فتح الباري لابن حجر (۶/ ۵۵۷) ت:فؤاد عبد الباقی،محب الدین الخطیب ط: المكتبة السلفية – مصر)۔یعنی جبکہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی امت نہیں چونکہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں،اس لیےحشر آپﷺ کی طرف منسوب کیا گیاہے۔ اس کی تصریح کئی علماء نے کی ہے۔چنانچہ علامہ الخطابی یُحشَر النَّاسُ علی قدمی کے معانی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:والمعنى أَنَّ شَرِيعَته لا تُنْسَخُ إلى يَومِ القيامة‘‘۔(غريب الحديث للخطابي (۱/ ۴۲۶) ت: عبد الكريم إبراهيم الغرباوي ط: دار الفكر – دمشق)۔ یعنی آنحضرتﷺ کی شریعت قیامت تک منسوخ نہیں ہو گی۔ اسی طرح علامہ ابن الاثیر لکھتے ہیں:أنه أوَّل مَنْ يُحْشَرُ مِنَ الخَلقِ، ثُمَّ يُحشَر النَّاسُ على قَدَمِه، أي: على أثرِه، وقيل: أراد بقَدَمِه: عهدَه وزمانَه، يُقال: كان ذاك على رِجْلِ فلان، وعلى قَدَمِ فلان، أي: في عَهدِه (جامع الأصول (۱۱/ ۲۱۵) ت: عبد القادر الأرنؤوط - التتمة تحقيق بشير عيون ط: مكتبة الحلواني- مطبعة الملاح - مكتبة دار البيان)۔یعنی آپﷺ کا حشر سب سے اول کیا جائے گا۔ پھر تمام لوگوں کا حشر آپﷺ کے قدموں پر یعنی اتباع میں کیا جائے گا۔اور یہ بھی کہا گیا کہ آنحضرتﷺ کے قدم سے مراد آپ کا زمانہ اور عہد نبوت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص کے قدم پر یعنی اس کے عہد میں ہے۔ علامہ السیوطی لکھتے ہیں:’’اي:اثري، بأن يُحشَر هو قَبلَهم، أو على عَهدِي وزماني، إذ ليس بعدَه نبي يَنسَخُ شريعتَه‘‘(التوشيح شرح الجامع الصحيح (۵/ ۲۲۶۴) ت:رضوان جامع رضوان ط: مكتبة الرشد – الرياض)۔یعنی قدمی سے مراد میرے پیچھے ہے کیونکہ آپﷺ کا حشر اُن سب سے پہلے ہو گا یا حضورﷺ کے زمانہ میں ہو گا کیونکہ آپﷺ کے بعد ایسا کوئی نبی نہیں آئے گا جو آپﷺ کی شریعت کو منسوخ کر ے (گویا اب قیامت تک آپﷺ کا ہی زمانہ ہے)۔ ملا علی القاری ایک جگہ نسبتاً الگ معنی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: أي على قَدرِ مُتابعَتي ومِقدارِ طاعَتي في الدُّنيا لِيكونَ لهُمُ القُربُ والمَنزَلةُ في العُقبى (شرح الشفا (۱/ ۴۹۴) ط: دار الكتب العلمية – بيروت)۔یعنی لوگوں کا حشر میرے قدموں پر ہو گا کا یہ مطلب ہے کہ جتنی میری اطاعت انہوں نے دنیا میں کی ہو گی آخرت میں اتنا ہی قرب اور منزلت انہیں نصیب ہو گا۔ اسی طرح کئی علماء نے اس بات کی بھی صراحت کی ہے کہ ایسا نبی آنے کی ممانعت ہے جو شریعت لائے۔مثلاً علامہ الزرقانی لکھتے ہیں:يعني أنَّهُم يُحشَرون بَعدَ الزَّمانِ الَّذي بُعِثُ فِيه، إشارة إلى أنَّه لا نبي بعدَه ولا شريعةَ (شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية (۴/ ۱۶۵) ط: دارالکتب العلمیۃ)۔یعنی حضورﷺ کے زمانہ کے بعد لوگوں کا حشر کیا جائے گا اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں اور کوئی شریعت نہیں۔ علامہ اسماعیل الحقی لکھتے ہیں:فيكونَ المعنى اَنَّ الناسَ يُحشَرون في عَهدِه اَى في دعوتِه مِن غَيرِ أن تُنسَخ ولا تُبَدَّل (روح البيان (۹/ ۵۰۱) ط: دار الفكر – بيروت)۔یعنی مراد یہ ہے کہ شریعت کی منسوخی اور تبدیلی کے بغیر لوگوں کا آنحضرتﷺ کے ہی زمانہ دعوت میں حشر کیا جائے گا۔علامہ السیوطی ایک مقام پر لکھتے ہیں:على أثري بِمَعْنى أَن السَّاعَة على أَثَره أَي قريبَة مِن مَبعَثِه كَمَا قَالَ بُعِثتُ أَنا والساعة كهاتَينِ (تنویر الحوالک ۳/۱۶۳ط: دار احیاء الکتب العربیۃ مصر) یعنی على أثري کا مطلب ہے کہ میرے بعد اب قیامت ہی ہے جیسا کہ فرمایا کہ میں اور قیامت یوں ہے اور آپﷺ نے اپنی دونوں انگلیوں کو ملا لیا۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قیامت میں ہی ہوں جیسا کہ فرمایا ہے وانا الحاشر الذی یحشر الناس علی قد می یعنی میں ہی قیامت ہوں میرے قدموں پر لوگ اُٹھائے جاتے ہیں یعنی میرے آنے سے لوگ زندہ ہورہے ہیں۔مَیں قبروں سے انہیں اُٹھا رہا ہوں اور میرے قدموں پر زندہ ہونے والے جمع ہوتے جاتے ہیں۔اور درحقیقت جب ہم ایک منصفانہ نگاہ سے عرب کی آبادیوں پر نظر ڈالیں کہ اپنی روحانی حالت کی رُوسے وہ کیسے قبرستان کے حکم میں ہو گئے تھے اور کس درجہ تک سچائی اور خداترسی کی رُوح اُن کے اندر سے نکل گئی تھی اور کیسے وہ طرح طرح کی خرابیوں کی وجہ سے جو اُن کے اخلاق اور اعمال اور عقائد پر اثر کر گئی تھیں سڑگل گئے تھے تو بلا اختیار ہمارے اندر سے یہ شہادت نکلتی ہے کہ اُن کا زندہ کرنا جسمانی طور پر مُردوں کے جی اُٹھنے سے بمراتب عجیب تر ہے جس کی عظمت نے بے شمار عقلمندوں کی نگاہوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے ۔‘‘(ازالۂ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۳۲۵)۔ خلاصہ یہ کہ الحاشر کا مطلب ہے کہ آنحضرتﷺ کا حشر سب سے پہلے ہو گا،آپﷺکے آنے سے روحانی مردے زندہ ہو گئے اور قیامت تک آپﷺ ہی کا زمانہ اور شریعت قائم رہے گی۔ چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفیٰﷺ‘‘ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۳)۔نیز فرمایا کہ ’’آنحضرتﷺ کی نبوت کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے اور آپ خاتم الانبیاء ہیں‘‘(چشمۂ معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۹۰)۔ پس مفتی محمد شفیع صاحب کا اعتراض قطعاً غلط ہے !! ۳.ابن الانباری نے المقفی کا مطلب المتَّبع للنَّبِيِّينَ قَبلَه (المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم (۳/ ۹۸۴): ت: عبد الھادی التازی ط: منشورات وزارۃ الاوقاف و شؤون الاسلامیۃ المملکۃ المغربیۃ)کے کیے ہیں۔ مولوی محمد عمر صاحب اچھروی نے اس پر ایک عجیب اعتراض کیا ہے۔لکھتے ہیں:’’ابن الانباری نووی سے معتبر نہیں۔علامہ النووی محدثین کے مسلمہ شارح ہے۔اخباری(نقل بمطابق اصل) محدث نہیں ہے۔لہذا علامہ النووی کے مقابلہ میں غیر معتبر ہے‘‘(مقیاس النبوت حصہ دوم (صفحہ: ۱۶۹-۱۷۰)ط: المقیاس پبلشر دربار مارکیٹ لاہور)۔یاد رہے کہ ابن الانباری (۲۷۱ ھ– ۳۲۸ھ) کے بارے میں لکھا ہے کہ مِن أعلَمِ أهلِ زمانِه بالأدبِ واللغةِ، ومِن أكثرِ الناسِ حِفظا للشِّعرِ والأخبارِ (الأعلام للزركلي (۶/ ۳۳۴) ط: دار العلم للملايين)۔یعنی وہ اپنے زمانہ کے ادب اور لغت کے چوٹی کے عالم تھے اور آپ کو سب سے زیادہ اشعار اور اخبار حفظ تھیں۔ یہاں پر معاملہ لغت کا ہے۔اس لحاظ سے ایک ماہر فن کا قول بہت اہمیت رکھتا ہے۔البتہ جیسا کہ ہم گذشتہ سطور میں ثابت کر آئے ہیں کہ یہ معنی کرنے میں ابن انباری تنہا نہیں ہیں بلکہ چوٹی کے محدثین اور فقہاء نے ان معنوں کو درج کیا ہے۔پس علامہ ابن الانباری کا موازنہ امام النووی سے کرنا اچھروی صاحب کی بے بسی کو ظاہر کرتا ہے۔ ساری بحث کا حاصل یہ کہ ٭…العاقب کی تشریح حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ کے الفاظ نہیں بلکہ وہ کسی اور (غالباً امام زہری ) کی تشریح ہے۔ ٭…العاقب کے مندرجہ ذیل معانی علماء نے کیے ہیں اور وہ سب کے سب آپﷺ کی ختم نبوت کے شایان شان ہیں: ۱۔ وہ شخص جو اپنے سے پہلوں کا خیر میں وارث ہو۔یقیناً رسول اللہﷺ تمام انبیاء کی خیر کے جامع ہیں۔ ۲۔ العاقب اور المقَفِّی ہم معنی ہیں۔اس لحاظ سے اس کے درج ذیل مفاہیم ہیں: I۔ آپﷺ تمام انبیاء کی ہدایت کی پیروی کرنے والے اور ان کے جامع ہیں۔ II۔ آپﷺ کو اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے احوال اور شرائع پر اطلاع بخشی اور اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے لیے ہر چیز کا بہترین چن لیا۔ III۔ گذشتہ انبیاء کے اتباع کو اپنے اتباع بنا لینے کی وجہ سے آپﷺ کو یہ نام دیا گیا ہے۔ ۳۔ عاقب کا مطلب خاتم ہے اور خاتم کا مطلب ہے کہ ایسا شخص نہیں آ سکتا جو شریعت میں اضافہ کا مدعی ہو۔ ۴۔یہ حدیث آیت وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ کی مصداق ہے۔ ۵۔ العاقب یا الخاتم کا وہی مفہوم ہے جو خاتم المساجد کا ہے۔