۱۹۷۴ء سے پہلے ربوہ کیسا تھا؟
ایک غیر احمدی کی گواہی
ربوہ پہنچنے سے پہلے دوست احباب اور ساتھ کے مسافروں نے بتلایا کہ ربوہ میں جنت بنائی گئی ہے جس میں حوریں روِشوں پر ٹہلتی اور جھولوں پر جھولتی ہیں وغیرہ وغیرہ مگر یہاں صرف اسلام کی پابندی ہی دکھائی دی!
۱۹۴۷ء میں جماعت احمدیہ کے دائمی مرکز قادیان دارالامان سے ہجرت کے بعد پاکستان میں ربوہ جماعت کا مرکز بنا اور محدود ترین مادی وسائل کے ساتھ بسائے گئے اس شہر اور اس کے باسیوں نے وہ زندہ معجزہ دکھایا کہ خلافت کی قیادت میں اسلامی اقدار اور بہترین شہری روایات کا عمدہ نمونہ قائم کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ربوہ ایک مثالی شہر بن گیا۔
آج کل پاکستان کے گلی کوچوں میں اور سوشل میڈیا پر ۱۹۷۴ء کے حالات کا مَن گھڑت اور جھوٹا پس منظر بتانے والوں کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کے ازالہ کے لیے ذیل میں ایک غیر از جماعت مہمان کے تاثرات پیش ہیں۔۱۹۷۴ء میں بلوائیوں کی طرف سے ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ ربوہ کو کھلا شہر قرار دیا جائے کیونکہ احمدیوں نے یہاں ریاست کے اندر ریاست قائم کررکھی ہے، وغیرہ۔ اس معزز مہمان نے ۱۹۶۸ء میں ربوہ میں دو ہفتے گزارے، اور گواہی دی کہ ’’میری تمام فرقوں سے دست بسته درخواست ہے کہ وہ اپنے اندر جماعت احمدیہ کی سی تنظیم،احکام شرع کی پابندی اور تبلیغ اسلام کا جذبہ پیدا کریں اور اپنے عالم دین کی اطاعت مطلقہ کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ اسلام کا کیوں نہ دنیا میں بول بالا ہو۔ اور اسلام تمام رُوئے زمین کے انسانوں کا چہیتا مذہب ہو جائے۔‘‘
پاکستان میں نئی نسل کو احمدیت اور ربوہ کی تاریخ کی درست معلومات دینے کی خاطر ذیل میں اس معزز مہمان مکرم میر اسد علی صاحب، بی اے، ایل ایل بی ایڈووکیٹ حیدر آباد دکن (بھارت ) کا مضمون پیش کیا جاتا ہے۔ یہ معزز مہمان دراصل پاکستان کے مشہور شیعہ لیڈر علامہ رشید ترابی صاحب مرحوم ( وفات ۱۸؍دسمبر۱۹۷۳ء) کے قریبی عزیزوں میں سے تھے۔ اور خود اس پایہ کے انسان تھے کہ حیدر آباد دکن میں قائم نظام کی حکومت کے زمانہ میں ڈپٹی کلکٹر کے عہدے پر فائز رہے۔نیز بھارت کی ریاست آندھرا پردیش کی بارکونسل کے ریکارڈ کے مطابق ریاست کی ہائی کورٹ کے ایسے رجسٹرڈ وکلاء میں سے تھے جو وکالت نہیں کررہے تھے۔
اعجاز پرنٹنگ پریس حیدر آباد انڈیا سے شائع شدہ میر اسدعلی صاحب کی کتاب ’’معروضہ خیال ‘‘سے بھی ان موصوف کی اہلیان اسلام کے لیے دردمندی کا اندازہ ہوتا ہے، مثلاً اس مختصر کتابچہ کے آغاز میں لکھتے ہیں کہ’’مسلمانوں کی نوے فیصد آبادی علم دین سے بے بہرہ ہے۔ اس کی اصلی وجہ علماء دین کے حق کو چھپانے کی پالیسی ہے…‘‘ (صفحہ :۱)اسی طرح آخر پر بعض کتب احادیث کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ’’مسلمان عام طور پر ان سے واقفیت رکھتے ہیں اور نہ پیروی و اتباع کرتے ہیں جو لوگ ان احادیث کی پیروی کرتے ہیں، ان کوخارج الاسلام اور کافر سمجھتے ہیں۔ خدا ایسے مسلمانوں پر رحم فرمائے اور اتباع رسولؐ کی توفیق عطا فرمائے۔ کیونکہ زندگی کے سو پچاس سال کسی طرح گزر جائیں گے مگر آخرت کی طولانی مدت کی فکر عین عقلمندی ہے۔ مردآخرت ہیں مبارک بندہ ایست‘‘(صفحہ ۳۸-۳۹)
میر اسد علی صاحب کو اپنے سفرِ پاکستان کے دوران جماعت احمدیہ کے عالمی مرکز ربوہ جانے کا بھی اتفاق ہوا۔ واپسی پر موصوف نے اپنے یہی تاثرات ’’جماعت احمد یہ حیدر آباد (دکن)‘‘ کے ایک مقامی جلسہ میں بیان فرمائے اور ساتھ ہی ضبط تحریر میں لا کر نظارت دعوت و تبلیغ قادیان کے توسط سے مدیر بدر مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری کو بھی ارسال کر دیے۔
یہ تاثرات اولاً اخبار بدر قادیان کے ۱۲؍ستمبر ۱۹۶۸ء کے شمارہ میں اور پھر ان کی افادیت کے پیش نظر دوبارہ ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۶۸ء کے شمارہ میں شائع ہوئے۔ اوریہی تاثرات تاریخ احمدیت کی جلد ۲۴ کے صفحہ ۵۷۰سے ۵۷۸ پر بھی شائع شدہ ہیں۔
ان تاثرات سے۱۹۶۸ء کے ربوہ کا ایک حسین اور ولولہ انگیز نقشہ آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔ یہ معزز مہمان لکھتے ہیں کہ ’’مجھے ربوہ جانے کا اتفاق ہوا۔ میں نے جو چیزیں عام افواہ کے خلاف دیکھیں ان کا اظہار سطور ذیل میں کر رہا ہوں تاکہ اسلامی فرقوں میں اتحاد ہو اور دیگر فرقِ اسلامی اس اعلیٰ درجہ کی عملی زندگی، تنظیم اور تبلیغ کو اپنائیں۔ وما علینا الاالبلاغ
ربوہ کی بستی
’’ربوہ ‘‘لاہور سے تقریباً ایک سومیل بجانب جنوب مغرب شہر سرگودھا سے قریب دریائے چناب کے کنارے تین جانب چھوٹی پہاڑیوں سے گھرا ہوا واقع ہے جو جماعت احمدیہ کا صدر مقام ہے۔ یہاں اندرون پاکستان اور مغربی ممالک کی احمدی جماعتوں کے تنظیمی اور تبلیغی شاندار دفاتر ہیں جو سلیقہ سے تعمیر ہوئے ہیں اور خوبصورت لانس اور پھلواریوں سے مزین ہیں۔ اس کی آبادی پندرہ ہزار بتلائی جاتی ہے۔ تقریباً کئی سو مکانات پختہ اور دیدہ زیب ہیں جن میں عصری ضروریات مہیا ہیں۔ باقی مکانات اوسط درجہ کے مگر پختہ ہیں۔ آبادی کو ایک پلان کے تحت بسایا گیا ہے۔ اس کو بسانے کی ابتداء پندرہ برس اُدھر کی گئی اور اس قلیل عرصے میں اس قدر ترقی کارکنان جماعت احمد یہ کی سلیقہ شعاری اور انتھک کوششوں کی دلیل ہے۔ تقسیم ہند کے فوراً بعد نظر تحفظ قادیان کی احمدی آبادی کو بہ ہزار دقت لاہور منتقل کیا گیا۔ حضرت امام صاحب جماعت احمدیہ کوفکر دامنگیر ہوئی کہ اپنی جماعت کو لاہور کی رنگینیوں سے دور رکھا جائے۔ حضرت موصوف نے اس منتقلی آبادی سے پہلے خواب دیکھا تھا کہ وہ ایک ایسے مقام پر ہیں جو بلندی پر واقع ہے اور اس کے ایک جانب دریا بہ رہا ہے اور تین جانب چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں ہیں۔ لاہور آنے کے بعد ایسے مقام کی تلاش کرائی گئی۔ ایک سال کی جستجو کے بعد اس مقام کو بعد معائنہ پسند فرمایا اور حکومت سے تقریبا ًبارہ سو ایکڑ اراضی جو ہمیشہ سے ویران رہتی تھی، خرید لی۔ زمین بہت شور ہے اور بیشتر مقامات پر کھاری پانی دستیاب ہوتا ہے جو پینے کے لئے ناموزوں اور دیگر ضروریات کے لئے بھی غیر مطبوع ہے۔ اس کے باوجود موجودہ لانس اور پھلواریوں کو دیکھ کر بے ساختہ زبان سے نکل جاتا ہے :’’زمینِ شور سُنبل بر نیار د کون کہتا ہے‘‘
ربوہ قرآن کا لفظ ہے اور بلندی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ چونکہ یہ مقام بلندی پر واقع ہے اور قرآن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تعلق سے مستعمل ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ( جنہیں مسیح موعود علیہ السلام مانا جاتا ہے ) کے خلفاء نے ادبی نقطہ ٔنظر سے بھی یہ نام پسند کیا ہو۔
ربوہ کی آبادی لاہور سرگودھا کی شاہراہ پر واقع ہے۔ اس آبادی سے دو تین میل کے فاصلہ پر دریائے چناب بہتا ہے جس پر ریل کا پل ہے جس کے اوپر موٹروں اور دیگر سواریوں کے گزرنے کے لئے سڑک تعمیر کی گئی ہے۔ یہ پل لاہور، لائلپور جیسے مقامات کو سرگودھا سے جو ایک مقام ہے ملاتا ہے۔ اس آبادی کی خصوصیت یہ ہے کہ بغیر حکومت کی امداد کے جماعت احمد یہ نے اس بستی کو اپنے فنڈ سے بسایا ہے۔ سڑکیں مکانات، بازار وغیرہ جماعت کے ذاتی تعمیر کردہ ہیں۔ اس آبادی میں بھی جیسا کہ پنجاب بھر میں قدم قدم پر ہینڈ پمپس ہیں، پانی ہینڈ پمپس سے کثیر مقدار میں فراہم ہوتا ہے۔ انسانی اور حیوانی ضروریات کے علاوہ باغبانی کی ضروریات بھی پوری ہوتی ہیں۔ حکومت کی جانب سے دریائے چناب سے سربراہی آب کی کوششوں کے آثار پائے جاتے ہیں۔ جس کی تکمیل کے لئے کچھ مدت درکار ہو گی۔
آمد ورفت کی سہولتیں
شاہراہ پر ہر وقت بسیں چلتی ہیں۔ جو سر گودھا اور لائلپور کو ملاتی ہیں۔ بسیں آرام دہ اور تیز رفتار ہیں کرائے کم ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں ریلوے اسٹیشن بھی ہے جو حال میں تعمیر ہوا ہے۔ اور مقامی ضروریات کے لئے کافی ہے۔ ریلوے لائن آبادی کو دوحصوں میں تقسیم کرتی ہے جس پر تیز رفتار ٹرینیں بھی چلتی ہیں اور یہاں سے لاہور اور کراچی کو بھی آسانی سے جایا جا سکتا ہے۔ اس لائن پر درمیانی اسٹیشنوں کے لئے ریل کاریں بھی چلائی جاتی ہیں۔ ایک ڈاکخانہ اور تار گھر بھی ہے۔ جماعت کے اخراجات سے ایک اچھا ہاسپٹل بھی تعمیر کیا گیا ہے جس میں اطراف و اکناف کے لوگ بغرض علاج آتے ہیں۔ یہ دواخانہ قابل ڈاکٹروں کی زیر نگرانی ہے۔
شہر کا نقشہ
آبادی کے وسط میں ایک گول بازار ہے جس میں سے پانچ چھ سڑکیں نکلتی ہیں اور ان سڑکوں کے بازوؤں میں مکانات و دفاتر تعمیر کئے گئے ہیں۔ ۲۳ محلے ہیں اور ہر محلے میں ایک مسجد ہے۔ ایک کمیٹی ہے جو آپسی جھگڑوں کے علاوہ محلے کے لوگوں کے نماز و روزہ کی بھی نگرانی کرتی ہے۔ آبادی میں اگر چہ پولیس کی چوکی بھی ہے مگر یہاں کے لوگ اپنے تصفیے محلے کی کمیٹی سے طے کراتے ہیں جس کا مرافعہ جماعت کی ایک اعلیٰ کمیٹی کرتی ہے جس میں جماعت کے زعماء ہوتے ہیں۔
سڑکوں کے ہر دو طرف درخت لگائے گئے ہیں جو یہاں کی شدید گرمی میں بہت آرام دہ ثابت ہوتے ہیں۔ گرمیوں میں سخت گرمی اور سردیوں میں سخت سردی ہوتی ہے اور کچھ عرصے سے درختوں کی وجہ سے بارش کی اوسط میں اضافہ ہوا ہے۔
اخلاق و آداب
سڑک سے آبادی میں داخل ہونے کے راستہ پر ایک تختی لگی ہے کہ ’’اندرون آبادی سگریٹ نوشی نہ فرمائیے۔‘‘
کوئی شخص سڑکوں پر یا بازاروں میں سگریٹ پیتا ہوا دکھائی نہیں دیتا اور نہ بازار میں کسی دوکان پر سگریٹ فروخت ہوتے ہیں۔ آبادی میں منشیات کی دوکانیں نہیں ہیں۔ حتی کہ ایک سینما گھر بھی نہیں۔ اس جماعت کے لوگ سینما نہیں دیکھتے اور اگر کوئی شخص کسی دوسرے مقام پر سینما د یکھتے ہوئے پایا جائے تو اسے تو بہ اور استغفار کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ ریڈیو گھر میں ہیں مگر گانا سننے کی ممانعت ہے۔ اگر کوئی شخص سننا بھی چاہے تو اپنے گھر میں اس قدر آواز سے سن سکتا ہے کہ ہمسائے کے گھر میں آواز سنائی نہ دے۔ خوش اخلاقی، ہمدردی اور دیانتداری یہاں کے لوگوں کا شعار ہے۔ دنیوی معاملات میں بھی راستباز ہیں۔ احکام خدا اور سنت رسولؐ پر چلنے کی ہر شخص کوشش کرتا ہے اور ہر کام اور ہر بات میں خدا کا ذکر کرتا ہے۔ اس آبادی میں جرائم نہیں ہوتے عورتیں خواہ کسی عمر کی ہوں برقعے اور نقاب میں دکھائی دیتی ہیں۔ کالج کی طالبات بھی شعار اسلامی کی پابند ہیں۔ چست لباس کہیں دیکھنے میں نہیں آتا۔ ربوہ پہنچنے سے پہلے دوست احباب اور ساتھ کے مسافروں نے بتلایا کہ ربوہ میں جنت بنائی گئی ہے جس میں حور یں روِشوں پر ٹہلتی اور جھولوں پر جھولتی ہیں وغیرہ وغیرہ مگر یہاں صرف اسلام کی پابندی ہی دکھائی دی !
تعلیمی حالت
جماعت احمد یہ کئی لاکھ اشخاص پر مشتمل ہے جو دنیا کے ہر حصے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ زیادہ ترتجارت و زراعت پیشہ اور ملازمین ہیں جن میں سے بعض نہایت اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ اس جماعت کا تعلیمی معیار دیگر جماعتوں سے بہت اونچا ہے جس کی وجہ ان کی تنظیم ہے۔ اکثر و بیشتر افراد انگلستان اور امریکہ کے تعلیم یافتہ ہیں جو ملک اور جماعت کی خدمت میں منہمک ہیں۔ مقامی طور پر مدارس ثانوی کے علاوہ مردوں اور عورتوں کے ڈگری کالج ہیں جن کے طلباء امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ عورتوں کے لئے دستکاری کا مدرسہ بھی ہے۔ عمارتیں پختہ اور عمدہ ہیں۔
تعلیم دینے والے قابل لوگ ہیں۔ آجکل مغربی اعلیٰ تعلیم کے بعد مذہبی رجحان اور عمل مفقود ہے لیکن اس جماعت کا ہر وہ شخص بھی جس نے مغربی اعلیٰ تعلیم انگلستان اور امریکہ میں پائی ہے نہایت خوش خُلق اور پابند مذہب ہے اور کہیں سے بھی نہیں معلوم ہوتا کہ یہ شخص امریکہ یا انگلینڈ زدہ ہے۔ باوجود اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ خدمات پر فائز ہونے کے رعونت و تکبر مزاج میں نہیں پایا جاتا۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کو بھی خدا اور مذہب کی ویسی ہی ضرورت ہے جیسے متوسط طبقے کو ہوتی ہے۔
اس آبادی کا چھوٹا بڑا ہر شخص پابند صوم و صلوٰةہے۔ پانچ وقت مسجد میں نمازیں ہوتی ہیں اور محلے کا ہر شخص ان میں شرکت کرتا ہے اور یہاں کا بازار نماز عشاء کے لئے بند ہوتا ہے تو صبح ہی کھلتا ہے۔ جمعہ کی نماز واقعی ایسی ہوتی ہے جیسے نماز عید ہوتی ہے۔ کثیر تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں۔ عورت مرد سبھی نماز میں شریک ہوتے ہیں۔ مسجد میں ایک چوتھائی حصہ عورتوں کے لئے مختص ہے۔ مردانہ اور زنانہ حصہ کے درمیان قنات ہوتی ہے۔ حضرت امام صاحب خود پنجوقتہ نماز پڑھاتے ہیں۔ ماہ رمضان میں عبادت کی بہار دیکھنے کے قابل ہوتی بیان کی جاتی ہے۔
رسومات سے اجتناب
یہ کام عام طور پر مسلمانوں میں نہ صرف خوفناک بلکہ تباہ کن ہوتا ہے۔ کئی مسلمانوں کے خاندان ایسے ہیں جو شادی کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے اور ان کی لڑکیاں بن بیاہی رہ جاتی ہیں۔ مگر جماعت احمد یہ نے اس کام کو نہایت آسان کر دیا ہے۔ ان کے یہاں نہ جوڑے گھوڑے کے بارے میں تکرار ہوتی ہے اور نہ جہیز کے متعلق سوال و جواب۔
دلہن والے اپنی حیثیت سے جو بھی دیں قابل قبول۔ جو کچھ دیا جاتا ہے وہ دلہن کو نہ کہ دولہے کو۔ نکاح کی تاریخ اور وقت کا اعلان ہو جاتا ہے۔ مکان پر دوست احباب جمع ہوجاتے ہیں۔ نکاح ہونے کے بعد شرکا ء عقد دونوں کو دعا دے کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ البتہ ولیمہ حسب حیثیت ضرور کیا جاتا ہے۔ کسی قسم کی رسومات شادی سے پہلے اور بعد میں نہیں کئے جاتے۔ عقد کو ضرورت شرعی تصور کیا جاتا ہے اور اس طرح سے اسراف سے چھٹکارا ہو جاتا ہے۔ شادی کے بعد نہ قرض خواہوں کے تقاضے ہوتے ہیں اور نہ عدالتی ڈگریوں کے ماتحت گھر کا اسباب نیلام ہوتا ہے۔
موت واقع ہو جانے کی صورت میں مسجد میں اعلان ہوجاتا ہے۔ دوست احباب اور عزیز و اقارب پُر سہ کے لئے گھر پر جمع ہو جاتے ہیں۔ صرف مرنے والے کے لئے کفن اور قبر کے اخراجات حسب حیثیت کئے جاتے ہیں جو زیر بارکُن نہیں ہوتے۔ البتہ مرنے والے کے عزیز واقارب قبر پر جا کر مرنے والے کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں۔ چہلم کے روز چالیس قسم کے کھانوں سے یہ حضرات محروم ہیں۔
اس جماعت کی عورتیں پردہ کی پابندی کرتی ہیں گھر سے باہر برقعے کے بغیر کوئی عورت دکھائی نہیں دیتی۔
اردو زبان
باوجود پنجابی ہونے کے اس آبادی کے چھوٹے بڑے کی زبان اردو ہے اور شستہ اردو بولتے ہیں۔ نے کا استعمال کافی تعداد میں اردو گرامر کے خلاف ہوتا ہے۔ بایں ہمہ اردو میں مروجہ فارسی و عربی کے الفاظ گفتگو میں صحیح طور پر استعمال کئے جاتے ہیں۔ قرآن مجید کی تفسیر اردو میں کئی جلدوں میں لکھی گئی ہے اور بیشتر تصنیفات اردوہی میں ہیں۔
جذبہ ایثار و قربانی
یہ جذبہ اس جماعت میں درجہ کمال کو پہنچا ہوا ہے۔ جب کبھی جماعت کو اپنی جماعت کے کسی شخص کی خدمات کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ حضرت امام صاحب کے حکم کی تعمیل میں فورا ًاپنے نفع و نقصان کا خیال کئے بغیر جماعت کی خدمت کے لئے حاضر ہو جاتا ہے۔ اس وقت ربوہ میں کئی ایسے افراد ہیں جو بڑی بڑی ملازمتیں چھوڑ کر جماعت کی خدمت کر رہے ہیں گو جماعت ان کی خدمت کا قلیل معاوضہ دیتی ہے۔ کئی اشخاص ایسے ہیں جنہوں نے اپنی جائدادیں جماعت کے حق میں ہبہ کر دیں۔ چو ہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے ایثار اور قربانی کی مثال نہ صرف قابل تعریف ہے بلکہ ہر فرقہ کے صاحب جاہ و ثروت کے لئے قابل تقلید ہے۔ ان کی جائداد کا اکثر حصہ جماعت کے حق میں وقف ہے اور آمدنی کا بھی بڑا حصہ جماعتی کاموں پر صرف ہو رہا ہے۔ انہی پر موقوف نہیں ہے بلکہ جماعت کے بڑے سے بڑے آدمی پر لازم ہے کہ ہ ہ کم از کم پندرہ روز مواضعات میں جا کر درسِ کلام مجید دے اور وہ بھی اپنے صرفہ پر۔ جائے غور ہے کہ ہر سال اپنے کاروبار کو چھوڑ کر خدمت دین کرنا کس قدر بڑا ایثار و قربانی ہے۔ کیا اس کی مثال کسی دوسرے فرقہ میں مل سکتی ہے؟
دینی کارنامے
اس جماعت نے اپنے ۲۳ محلوں میں ہر محلہ کے لئے ایک ایک مسجد تعمیر کر دی ہے اور ایک بہت شاندار مسجد جس کا نام مسجد اقصیٰ ہے۔سالانہ اجتماع کے میدان میں زیر تعمیر ہے۔ جس کی تعمیر کے اخراجات ایک صاحب ِخیر نے اپنے ذمے لئے ہیں جس کا اندازہ پانچ چھ لاکھ روپیہ ہے اور اس نے اپنا نام پردہ اخفا میں رکھنے کی خواہش کی ہے۔ ربوہ کے علاوہ بیرون ملک مثلاً امریکہ، انگلستان، ڈنمارک، جرمنی، جنوبی افریقہ کے بیشتر مقامات میں مساجد تعمیر کروائی ہیں۔ بیرونی ممالک میں کسی قدر اخراجات ہوئے ہوں گے ہر پڑھا لکھا شخص انداز ہ کر سکتا ہے۔ کلام مجید کے یورپ کی چودہ زبانوں میں ترجمے کئے گئے ہیں۔ ہندی کا ترجمہ ابھی زیر تکمیل ہے۔ اسلامیات پر کئی کتا بیں مختلف زبانوں میں لکھی گئی ہیں اور ان کے لئے ایک بڑی شاندار لائبریری کی تعمیر کے لئے چندہ جمع کیا جا رہا ہے۔ اسلامیات پر مبلغین کو تعلیم دے کر مختلف ممالک کو روانہ کیا جاتا ہے اور وہاں کے طلباء ربوہ مذہبیات میں درس لینے آتے ہیں جن کے اخراجات جماعت برداشت کرتی ہے اور انہیں سکالر شپ دئے جاتے ہیں۔
تنظیم
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے بڑے تعمیراتی کام، تراجم، تبلیغی اخراجات اور کتب کی طباعت وغیر ہ کس فنڈ سے کی جاتی ہے۔
بیان کیا جاتا ہے کہ جماعت کے ہر فرد پر لازم ہے کہ وہ سوا چھ فیصد سے لے کر دس فیصد تک اپنی آمدنی بطور چندہ جماعت کو دے۔ جس کا انداز ہ تقریبا ًایک کروڑ روپیہ سالا نہ ہوتا ہے۔ ان تنظیمی کاموں کے انصرام کے لئے متعدد دفاتر قائم کئے گئے ہیں۔ جن کی شاندار عمارتیں ہیں اور ان میں کام انجام پاتا ہے۔ مختلف محکمہ جات ہیں جن میں اردو عربی اور انگریزی جاننے والے اہلکار اور عہدہ دار ہیں۔ اور اپنے فرائض منصبی فرض شناسی سے انجام دیتے ہیں۔ اگر کوئی رکن چھ ماہ تک چندہ ادا نہ کرے تو آئند ہ اس کا چند ہ قبول کرنے سے انکار کیا جاتا ہے جو اس کے لئے جسمانی سزا سے کہیں بدتر ہے۔ اس کو توبہ و استغفار کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ جس کے بعد اس کی کوتاہی کو معاف کیا جاتا ہے۔
احکام کی خلاف ورزی کی صورت میں سزائیں بھی دو قسم کی دی جاتی ہیں ایک یہ کہ چند ہ لینے سے انکار کیا جاتا ہے دوسرے یہ کہ بلحاظ نو عیت جرم کرنے والے کو مسجد میں چند دن تو بہ واستغفار کرنی پڑتی ہے۔ قابل صد آفرین ہیں وہ لوگ جو جماعت کے احکام کی پابندی کرتے ہیں کیونکہ حکومتوں کی عبرتناک سزاؤں کے باوجود بھی لوگ جرم کرنے کی جسارت کرتے رہتے ہیں۔
سالانہ اجتماع
سالانہ اجتماع ماہ دسمبر کے آخری ہفتہ میں ہوتا ہے اور بیان کیا جاتا ہے کہ ستر اسی ہزار آدمی شرکت کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا اس قدر کثیر تعداد میں لوگ اس چھوٹی سی بستی میں کیونکر ٹھہرائے جاتے ہیں جبکہ سردیاں اپنے شباب پر ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں اتنے اشخاص کے کھانے پینے کا انتظام کیونکر کیا جاتا ہے؟ بیان کیا جاتا ہے ہر ایک کو گھنٹے، ڈیڑھ گھنٹے میں کھانا تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ اس سے انداز ہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس جماعت میں کس قدر منظم طریقہ پر کام ہوتا ہے اس اجتماع میں امیر سے امیر اور غریب سے غریب کھانا لنگرخانہ سے کھاتا ہے اور ان میں ہزاروں افراد ایسے ہوں گے جو اپنے گھروں میں نفاست سے کھانے کے عادی ہوں گے۔
مہمان خانہ یا لنگر خانہ
ایک وسیع کمپونڈ میں پختہ عمارت ہے جس کے جانبِ مغرب طویل اور وسیع ڈائننگ ہال ہے اور جانب شمال کئی کمرے ہیں جن میں مہمان ٹھہرائے جاتے ہیں۔ جانب جنوب بڑے بڑے ہال اور جانب مشرق پانچ چھ فیملی کوارٹر ہیں جن میں ایسے مہمان جن کے ساتھ اہل وعیال ہوں مقیم رہ سکتے ہیں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اسی لنگرخانہ سے سالانہ اجتماع کے خورونوش کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔ ملازمین مہمان خانہ منکسر المزاج، ہمدرد اور فرض شناس ہیں جو مہمان کی ضروریات کی فوری تکمیل کرتے ہیں۔ اس لنگر خانے کا سالانہ بجٹ ایک لاکھ ر و پے بیان کیا جاتا ہے۔
قبرستان
آبادی کی جانب مشرق سڑک کے اس پار پہاڑیوں کے دامن میں قبرستان کے لئے ایک وسیع میدان ہے جس میں موجود ہ امام صاحب کے پیشرو کی قبر ہے۔مزار مبارک کے اطراف دیگر قبریں ہیں جن کی خصوصیت یہ ہے کہ کتبہ پر مرنے والے کی زندگی کے اہم واقعات کندہ ہیں۔ قبریں سلیقہ سے بنائی گئی ہیں اور قطار در قطار ہیں۔ اس کو خوبصورت بنانے کے لئے پھولوں کے اور سایہ دار درخت لگائے جا رہے ہیں۔
حضرت امام جماعت احمد یہ
حضرت صاحب (حضرت مرزا ناصر احمد صاحب، خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ۔ ناقل)علوم مشرقیہ کے ماہر ہیں اور علوم مغربی کی تعلیم انگلستان میں پا کر فارغ التحصیل ہونے پر امامت پر فائز ہونے سے پیشتر درس و تدریس میں مشغول رہے۔ مقامی کالج کے پرنسپل تھے۔ اس وقت سن شریف ساٹھ، دراز قامت، گٹھیلا جسم، خوبصورت ہنس مکھ چہرہ، جس سے تقدس ٹپکتا ہے۔ اپنی جماعت کے تقریباً ہر فرد کی نجی زندگی سے واقف اور اس کے اچھے برے حالات میں اس کے ساتھی ہیں۔ آپ کی رہائش گاہ کے متصلہ بڑی مسجد ہے اس میں پانچ وقت نماز پڑھاتے ہیں۔ اور باقی وقت انتظاماتِ مقامی و ممالک بیرونی میں مشغول رہتے ہیں۔ مبلغین کی ساری رپورٹیں بذات خود ملاحظہ فرما کر ہدایات تحریر فرماتے ہیں۔ ملاقات کے متمنی اشخاص سے خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں۔ وسیع معلومات سے ان کے علمی تبحر کا پتہ چلتا ہے۔ علاوہ دنیوی اور دینی کے علم الابدان سے واقف ہیں۔ طب یونانی اور انگریزی بھی جانتے ہیں۔ باوجود کثیر جائیداد کے مالک ہونے کے نہایت ساده زندگی بسر کرتے ہیں۔ اور اپنی جائیداد کا معتد بہ حصہ جماعت کی فلاح و بہبود پر صَرف فرماتے ہیں۔ کئی زبانوں پر بھی عبور رکھتے ہیں۔ ان کی مقناطیسی شخصیت اور کردار نے ساری جماعت کو مسحور کر رکھا ہے اور ان کی راہنمائی اور قیادت میں ساری جماعت شرع محمدیؐ پر کار بند اور عامل ہے۔ جماعت کا اخلاقی معیار بہت بلند ہے اور احکام اسلام کی پابندی کا فیصد تقریبا ًصد فی صد ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ہر فرقے میں خال خال شخصیتیں پابند شرع ہوتی ہیں مگر پوری جماعت کو اسلامی تعلیمات کا نمونہ بنانا آپ کی ایک کرامت ہے…‘‘
(’راہب منصور‘)
٭…٭…٭