خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹؍ستمبر۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے موضوع کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا:جنگِ بدر کے بعد کے واقعات کا ذکرہورہا تھا۔ ان واقعات سے اگر تاریخ پڑھیں تو جہاں ہمیں آنحضرتﷺ کی سیرت اور زندگی کے واقعات کا بھی پتہ چلتا ہے وہاں بعض تاریخی باتیں بھی علم میں آتی ہیں اور بعض غلط روایات کی نشاندہی بھی ہوتی ہے جنہوں نے اسلام کا غلط چہرہ غیروں کے سامنے پیش کیا ہے اور مخالفینِ اسلام اس سے اسلام کو بدنام کرنے کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور شدت پسند مسلمان اپنے مقاصد پورے کرتے ہیں۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت عمیربن وہبؓ کےقبول اسلام کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: بدر کے قیدیوں میں وہب بن عمیر بھی تھا جو بعد میں مسلمان ہو گیا۔ اسے رِفَاعَہ بن رافع نے گرفتار کیا تھا۔ اس کا باپ عُمَیر قریش کے سرغنوں میں سے تھا یعنی عمیر بن وہب جس نے مکہ میں رسول اللہﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ کو بہت زیادہ تکلیفیں پہنچائی تھیں مگر پھر غزوۂ بدر کے بعد یہ مسلمان ہو گیا۔اس کی تفصیل یوں ہے کہ مسلمان ہونے سے پہلے عمیر اور صفوان بن امیہ ایک دن مکہ میں حطیم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ صفوان اس وقت مسلمان نہیں ہوا تھا۔ یہ دونوں جنگِ بدر میں اپنی شکست اور اپنے بڑے بڑے سرداروں کے متعلق باتیں کر رہے تھے جو اس جنگ میں قتل ہو گئے تھے۔ صفوان نے کہا خدا کی قسم! ان سرداروں کے قتل ہو جانے کے بعد زندگی کا مزہ ہی ختم ہو گیا ہے۔ عمیر نے کہا کہ خدا کی قسم!تم سچ کہتے ہو۔ اس نے کہا کہ اگر میرے اوپر ایک شخص کا قرض نہ ہوتا جس کی ادائیگی کا میرے پاس کوئی انتظام نہیں ہو رہا اور پھر اپنے پیچھے اپنے بیوی بچوں کی پریشانی کا خیال نہ ہوتا جو میرے بعد تنگدستی میں مبتلا ہو سکتے ہیں تو میں محمدﷺکے پاس پہنچ کر ان کو قتل کر دیتا کیونکہ میرے وہاں پہنچنے کی وجہ بھی موجود ہے کہ میرا بیٹا ان کے ہاتھوں میں قید ہے۔ یہ سنتے ہی صَفْوان نے عُمیر کے قرض کی ذمہ داری لے لی اور کہا تمہارا قرض میرے ذمہ رہا مَیں اس کو ادا کر دوں گا اور تمہارے بیوی بچے میرے بیوی بچوں کے ساتھ رہیں گے اور جب تک وہ زندہ ہیں مَیں ان کی کفالت اور پرورش کا ذمہ لیتا ہوں۔ تم جاؤ اور محمد (ﷺ)کو نعوذ باللہ قتل کر ڈالو۔ عمیر یہ سنتے ہی جانے پہ راضی ہو گیا۔ اس نے صفوان سے کہا۔ میرے اور تمہارے درمیان جویہ معاملہ ہوا ہے اس کو راز میں رکھنا۔ صفوان نے وعدہ کر لیا۔ اب عمیر نے گھر جا کر اپنی تلوار نکالی اس پہ دھار لگائی، اس کو زہر میں بجھایا اور اس کے بعد مکہ سے روانہ ہو کر مدینہ پہنچا۔جب عمیر مسجد نبویؐ پہنچا تو یہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور غزوۂ بدر کی باتیں کر رہے تھے۔ عمیر نے جونہی مسجد نبویؐ کے دروازے پر اپنی اونٹنی بٹھائی تو حضرت عمرؓ کی اس پر نظر پڑی کہ عمیر تلوار ہاتھ میں لیے اتر رہا ہے۔ حضرت عمرؓ نے اس کو دیکھتے ہی کہا کہ خدا کا دشمن عُمیر بن وہب ضرور کسی بُرے ارادے سے یہاں آیا ہے۔ پھر حضرت عمرؓ فوراً ہی وہاں سے اٹھ کر آنحضرتﷺکے پاس آپؐ کےحجرۂ مبارک میں گئے اور عرض کیا: اے پیغمبرِ خداؐ! خدا کا یہ دشمن عُمیر بن وہب ننگی تلوار لیے آیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا۔ اسے میرے پاس اندر لے آؤ۔ کوئی بات نہیں میرے پاس اندر لے آؤ۔ حضرت عمرؓ سیدھے عمیر کے پاس آئے اور تلوار کا جو پٹکا اس کی گردن میں پڑا ہوا تھا اس کو مضبوطی سے پکڑ کر عمیر کو لے چلے۔ حضرت عمرؓ کے ساتھ اس وقت وہاں جو انصاری مسلمان موجود تھے ان سے حضرت عمرؓ نے کہا کہ میرے ساتھ رسول اللہﷺکے پاس اندر چلو اور آپؐ کے قریب ہی بیٹھو کیونکہ اس کی طرف سے مجھے اطمینان نہیں ہے۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ اسے لے کر آنحضرتﷺکے پاس اندر آئے۔ آنحضرتﷺنے جب دیکھا کہ حضرت عمر ؓ اس حال میں آ رہے ہیں کہ ہاتھ سے عمیر کی تلوار کا وہ پٹکا مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے جو اس کی گردن میں تھا تو آپؐ نے فرمایا۔ عمر! اس کو چھوڑ دو۔ پھر آپؐ نے فرمایا: عُمیر قریب آؤ۔ چنانچہ عمیر قریب آیا اور اس نے جاہلیت کے آداب کے مطابق اَنْعَمُوْا صَبَاحًا کہتے ہوئے سلام کیا۔ آپﷺنے فرمایا۔ عمیر ہمیں اسلام نے تمہارے اس سلام سے بہتر سلام سے سرفراز فرمایا ہے جو جنت والوں کا سلام ہے۔ تم کس لیے آئے ہو؟ عمیر نے کہا میں اپنے اس قیدی یعنی اپنے بیٹے کے سلسلے میں بات کرنے آیا ہوں جو آپ لوگوں کے قبضے میں ہے۔ میری درخواست ہے کہ اس کےسلسلے میں آپ لوگ اچھا اور نیک معاملہ کریں۔ آپؐ نے اس کی ننگی تلوار دیکھ کے فرمایا: پھر اس تلوار کا کیا مطلب ہے؟ عمیر نے کہا خدا اس تلوار کا ناس کرے۔ کیا آپ نے ہمیں کسی قابل چھوڑا ہے؟ اس تلوار نے پہلے کون سا ہمارا ساتھ دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا مجھے سچ سچ بتاؤ تم کس مقصد سے آئے ہو؟ آپؐ کو اس کی بات پہ یقین نہیں آیا۔ عمیر نے کہا میں واقعی اس کے سوا اَور کسی ارادے سے نہیں آیا کہ اپنے قیدی کے متعلق آپ سے بات کروں۔ تب آپﷺنے فرمایا: نہیں بلکہ ایک دن تم اور صَفْوَان بن امیہ حطیم کے پاس بیٹھے تھے اور قریش کے ان مقتولوں کی باتیں کر رہے تھے جن کو جنگِ بدر میں قتل کر کے گڑھے میں ڈالا گیا ہے۔ اس وقت تم نے صفوان سے کہا تھا کہ اگر مجھ پر ایک قرض نہ ہوتا اور اپنے بیوی بچوں کی فکر نہ ہوتی تو میں جا کر محمدؐ کو قتل کر دیتا۔ صفوان نے میرے قتل کی شرط پر تمہارا قرض اتارنے اور بیوی بچوں کی ذمہ داری لے لی تھی۔ آنحضرتﷺکو یہ ساری باتیں اللہ تعالیٰ نے بتا دی تھیں کہ اس طرح ہوا۔ یہ سنا تو اس روایت میں یہ لکھا ہے کہ عمیر فوراً بول اٹھا کہ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسولؐ ہیں۔ یا رسول اللہؐ! آپؐ کے پاس آسمان سے جو خبریں آیا کرتی ہیں اور آپؐ پر جو وحی نازل ہوتی ہے ہم اس کو جھٹلایا کرتے تھے اور جہاں تک اس معاملے کا تعلق ہے تو اس وقت حطیم کے پاس میرے اور صفوان کے سوا کوئی تیسرا شخص موجود نہیں تھا اور نہ ہی کسی اَور کو ہماری اس گفتگو کی خبر ہے۔ اس لیے خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ کے سوا آپؐ کو اَور کوئی اس کی خبر نہیں دے سکتا۔ پس حمد اللہ ہی کے لیے ہے جس نے اسلام کی طرف ہماری راہنمائی اور ہدایت فرمائی اور مجھے اس راہ پر چلنے کی توفیق بخشی۔ اس کے بعد عمیر نے کلمہ شہادت پڑھا۔ پھر آنحضرتﷺنے صحابہؓ سے فرمایا: اپنے بھائی کو دین کی تعلیم دو اور اس کو قرآن پاک پڑھاؤ اور اس کے قیدی کو رہا کر دو۔
سوال نمبر۳: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےرئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:علامہ ابن کثیر سورہ بقرہ کی آیت نو، دس کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ جب غزوۂ بدر کا واقعہ پیش آیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے کلمے کو غالب کیا اور اسلام اور اہل اسلام کو عزت دی تو عبداللہ بن ابی بن سلول جو مدینےکا رئیس اور بنوخزرج میں سے تھا اور زمانہ جاہلیت میں ان دونوں قبائل یعنی اوس اور خزرج کا سردار تھا ان لوگوں نے ارادہ کر لیا تھا کہ وہ ان پر حکومت کرے گا۔ یعنی عبداللہ بن ابی کو اپنا سردار بنا رہے تھے۔ایک روایت میں ہے کہ اس کی قوم تاج بنوا کر اسے بادشاہ بنانے کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ اسی دوران بھلائی آ پہنچی یعنی اسلام کا پیغام پہنچ گیا اور لوگوں نے اسلام قبول کر لیا اور اسے بھول گئے۔ اس وجہ سے اسلام اور اہل اسلام اس کے دل میں کھٹکنے لگے۔ جب بدر کا واقعہ ہوا تو وہ کہنے لگا یہ امر تو اب غالب آتا جا رہا ہے۔ پہلے تو اس کا خیال تھا کہ تھوڑے سے لوگ ہیں جب بدر کی جنگ جیتی گئی تو اس سے اس کو فکر پیدا ہوئی چنانچہ اس نے بظاہر اسلام قبول کیا اور اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کے پیروکاروں کی ایک جماعت نے بھی اسلام قبول کر لیا اور بعض اہلِ کتاب بھی ان کے ساتھ تھے۔
اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ نے اس طرح لکھا ہے کہ ’’ابھی تک مدینہ میں قبائل اوس اورخزرج کے بہت سے لوگ شرک پر قائم تھے۔ بدر کی فتح نے ان لوگوں میں ایک حرکت پیدا کردی اوران میں سے بہت سے لوگ آنحضرتﷺکی اس عظیم الشان اورخارق عادت فتح کو دیکھ کر اسلام کی حقانیت کے قائل ہوگئے۔ اور اس کے بعد مدینہ سے بت پرست عنصر بڑی سرعت کے ساتھ کم ہونا شروع ہو گیا مگر بعض ایسے بھی تھے جن کے دلوں میں اسلام کی اس فتح نے بغض وحسد کی چنگاری روشن کردی اور انہوں نے برملا مخالفت کوخلاف ِمصلحت سمجھتے ہوئے بظاہر تو اسلام قبول کر لیا لیکن اندر ہی اندر اس کے استیصال کے درپے ہو کر منافقین کے گروہ میں شامل ہوگئے۔ ان مؤخرالذکر لوگوں میں زیادہ ممتاز عبداللہ بن ابی ابن سلول تھا جو قبیلہ خزرج کاایک نہایت نامور رئیس تھا اور آنحضرتﷺکے مدینہ میں تشریف لانے کے نتیجہ میں اپنی سرداری کے چھینے جانے کا صدمہ اٹھا چکا تھا۔ یہ شخص بدر کے بعد بظاہر مسلمان ہو گیا لیکن اس کادل اسلام کے خلاف بغض وعداوت سے لبریز تھا اوراہلِ نفاق کاسردار بن کر اس نے مخفی مخفی اسلام اور آنحضرتﷺکے خلاف ریشہ دوانی کاسلسلہ شروع کر دیا۔‘‘
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غزوہ بدرکےبعدآنحضرتﷺکی قبائل بنوسلیم و غطفان کی طرف پیش قدمی کرنےکی کیاتفصیل بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا:حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں اس طرح لکھا ہے کہ ’’ہجرت کے بعد قریشِ مکہ نے مختلف قبائلِ عرب کادورہ کرکے بہت سے قبائل کومسلمانوں کا جانی دشمن بنادیا تھا۔ ان قبائل میں طاقت اورجتھے کے لحاظ سے زیادہ اہم عرب کے وسطی علاقہ نجد کے رہنے والے دوقبیلے تھے جن کا نام بنوسُلیم اور بنوغطفان تھا اورقریش مکہ نے ان دوقبائل کو خصوصیت کے ساتھ اپنے ساتھ گانٹھ کرمسلمانوں کے خلاف کھڑا کردیا تھا،چنانچہ سرولیم میور لکھتے ہیں کہ’’قریش مکہ نے اب اپنی توجہ اس نجدی علاقہ کی طرف پھیری اوراس علاقہ کے قبائل کے ساتھ آگے سے بھی زیادہ گہرے تعلقات قائم کر لئے اور اس وقت کے بعد قبائل سلیم وغطفان محمد (ﷺ) کے سخت دشمن ہو گئے اوران کی اس دشمنی نے مسلمانوں کے خلاف عملی صورت اختیار کر لی۔ چنانچہ قریش کی اشتعال انگیزی اور ابوسفیان کے عملی نمونہ کے نتیجہ میں انہوں نے مدینہ پر حملہ آور ہونے کی تجویز پختہ کرلی۔ …چنانچہ جب آنحضرتﷺبدر سے واپس تشریف لائے تو ابھی آپؐ کو مدینہ میں پہنچے ہوئے صرف چند دن ہی ہوئے تھے کہ آپؐ کو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ قبائل سُلَیم وغَطفان کا ایک بڑا لشکر مدینہ پر حملہ آور ہونے کی نیت سے قَرقرہ الکُدر میں جمع ہو رہا ہے۔جنگِ بدر کے اس قدر قریب اس اطلاع کا آنا یہ ظاہرکرتا ہے کہ جب قریش کا لشکر مسلمانوں کے خلاف حملہ آور ہونے کی نیت سے مکہ سے نکلا تھا تو رؤساء قریش نے اسی وقت قبائل سُلَیم وغطفان کویہ پیغام بھیج دیا ہوگا کہ تم دوسری طرف سے مدینہ پرحملہ آور ہو جاؤ۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ جب ابوسفیان اپنے قافلہ کے ساتھ بچ کرنکل گیا، تو اس نے کسی قاصد وغیرہ کے ذریعہ ان قبائل کومسلمانوں کے خلاف نکلنے کی تحریک کی ہو۔ بہرحال ابھی آنحضرتﷺجنگِ بدر سے فارغ ہو کر مدینہ میں پہنچے ہی تھے کہ یہ وحشت ناک اطلاع موصول ہوئی کہ قبائل سُلَیم وغطفان مسلمانوں پر حملہ کرنے والے ہیں۔ یہ خبر سن کر آپؐ فوراً صحابہؓ کی ایک جمعیت کوساتھ لے کر پیش بندی کے طور نجد کی طرف روانہ ہو گئے لیکن جب آپؐ کئی دن کا تکلیف دہ سفرطے کرکے موضع الکُدر کے قَرقَرہ یعنی چٹیل میدان میں پہنچے تومعلوم ہوا کہ بنو سلیم اوربنوغطفان کے لوگ لشکر اسلام کی آمد کی خبر پا کر پاس کی پہاڑیوں میں جا چھپے ہیں۔ آنحضرتﷺنے ان کی تلاش میں مسلمانوں کاایک دستہ روانہ فرمایا اور خود بطن وادی کی طرف بڑھے مگر ان کا کچھ سراغ نہیں ملا۔ البتہ ان کے اونٹوں کاایک بڑا گلہ ایک وادی میں چرتا ہوا مل گیا جس پر قوانین جنگ کے ماتحت‘‘ جو اس وقت کے قوانینِ جنگ تھے ’’صحابہؓ نے قبضہ کر لیا اور اس کے بعد آنحضرتﷺمدینہ کو واپس لوٹ آئے۔ ان اونٹوں کاچرواہا ایک یسار نامی غلام تھا جو اونٹوں کے ساتھ قید کرلیا گیا تھا۔ اس شخص پرآنحضرتﷺکی صحبت کا ایسا اثرہوا کہ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ وہ مسلمان ہو گیا اور گو آنحضرتﷺنے حسبِ عادت اسے بطور احسان کے آزاد کر دیا مگر وہ مرتے دم تک آپؐ کی خدمت سے جدا نہیں ہوا۔‘‘
٭…٭…٭