ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل(جلدکے متعلق نمبر ۱۷)(قسط۸۵)
(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ‘‘کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI)
سٹیفی سیگریا
Staphysagria
(Stavesacre)
سٹیفی سیگر یا ایک پودے کے بیجوں سے تیار کی جانے والی دوا ہے۔ اس کا پودا انگور کی بیل کے مشابہ ہوتا ہے جس پر کاسنی اور نیلے رنگ کے پھول کھلتے ہیں۔ قدیم سے ہی اس کے پھل کو کئی بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ معدہ کی صفائی کے لیے قے لانے کے علاوہ اسے بیرونی طور پر خارش اور جوئیں مارنے کے لیے اور مسوں کو دور کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ ہومیو پیتھی میں اس کے بیجوں سے جو دوا تیار کی جاتی ہے سٹیفی سیگریا کہلاتی ہے۔ (صفحہ773)
جلد پر بھی بیماریاں ظاہر ہوتی ہیں۔ سر پر ایگزیما ہو جاتا ہے جس میں کوئی پھوڑا پھنسی وغیرہ نہیں ہوتے لیکن شدید درد اور تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔ جہاں بھی یہ علامات ہوں وہاں یہ دوا کام آتی ہے۔ بعض دفعہ اعصاب پر ابھار اور گومڑ بن جاتے ہیں جن میں شدید درد ہوتا ہے۔ (صفحہ774)
سر میں مہاسے بھی ہوتے ہیں۔ اگر یہ بہت خشک اور حساس ہوں تو سٹیفی سیگریا کی علامت ہے۔ (صفحہ775)
سلفر
Sulphur
(Sublimated Sulphur)
سلفر ان دواؤں میں سے ہے جن کے بغیر ایک ہومیوپیتھک معالج کا گزارا نہیں چل سکتا۔ یہ غیر معمولی طاقتور دوا ہے اور انسانی جسم پر حملہ آور جراثیم کے مقابلہ کی بنیادی صلاحیت رکھتی ہے اور سورک (Psoric)دواؤں میں بہت اونچا مقام رکھتی ہے۔ ( سورا کی تفصیلی بحث کے لیے سورائینم اور مرکری دیکھیے ) سورا کی بیماریوں کو غدودوں سے باہر نکالنے میں سورائینم اور مرکری کی طرح سلفر بھی سرفہرست ہے۔ (صفحہ779)
سلفر کی بو انسان کے عام اخراجات کی بو جیسی ہوتی ہے خواہ کتنی سخت ہی کیوں نہ ہو۔اس کے اخراجات جلد کو چھیلتے ہیں۔عورتوں کے لیکوریا میں بھی جو مرکری یا سلفر کی مریضائیں ہوں یہی علامت پائی جاتی ہے۔(صفحہ780)
سلفر میں تقریبا ًہر قسم کی جلدی امراض ملتی ہیں مثلاً چھالے، خشک خارش، تر خارش، جلد پر خشکی سے ایسے چھلکے بن بن کر اتر نا جیسے مچھلی کی جلد پر ہوتے ہیں، خارش سے خون بہنے کا رجحان، مختلف قسم کے پھوڑے پھنسیاں غرضیکہ ہر قسم کی جلدی امراض جن میں جلن کی علامت نمایاں ہو اور دوسری علامتیں بھی ملیں تو ان میں سلفر اکثر فائدہ دے گی۔ جلدی امراض میں سلفر کی پوری علامتیں نہ بھی ہوں تو بھی بیماری کو نتھار کر اصل کو سامنے لے آتی ہے۔ (صفحہ781)
سلفر کی علامات میں یہ بھی داخل ہے کہ جلد بہت حساس ہوتی ہے اور ذراسی رگڑ لگنے سے بھی زخم بن جاتے یا گٹے پڑ جاتے ہیں۔ سلفر چنبل کی بہترین دواؤں میں سے ہے۔ مگر محض اس پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ (صفحہ781)
بعض اوقات ٹانگوں میں نیلی وریدیں پھول کر جالا سا بنا دیتی ہیں جنہیں Varicose Veins کہتے ہیں۔ وریدوں میں خون گاڑھا ہو کر جمنے لگتا ہے۔ ہو میو پیتھی میں بہت سی ایسی دوائیں ہیں جن کے ذریعہ ان رگوں کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ سلفر انہی دواؤں میں سے ایک ہے۔ (صفحہ782)
ہرپیز (Herpese) یا Shingles جو اعصابی ریشوں پر نکلنے والے چھالوں کی بیماری ہے، اس میں بھی سلفر اچھا کام کرتی ہے۔ (صفحہ784)
خسرہ میں بھی سلفر بہت اچھا کام کرتی ہے۔ اگر جلن اور بے چینی بہت بڑھ جائے لیکن دانے باہر نہ نکلیں اور خدشہ ہو کہ بیماری اندرونی جھلیوں پر حملہ نہ کر دے تو سلفر کے علاوہ آرسینک بھی بہت کارآمد ہوتی ہے۔ سلفر میں آرسینک جیسی بےچینی نہیں ہوتی۔ ہاں جلن اور آگ کا احساس آرسینک سے مشابہ ہوتا ہے۔ (صفحہ784)
ہر قسم کے ایگزیما اور خارش میں بھی سلفر مفید ہے۔(صفحہ785)
خشکی سے بال بھی گرتے ہیں۔(صفحہ786)
سلفیوریکم ایسیڈم
Sulphuricum acidum
(Sulphuric Acid)
سلفیورک ایسڈ میں کالے رنگ کا خون بہنے کا بھی رحجان ہوتا ہے۔ناخن کی پوروں اور جہاں جلد اندرونی جھلیوں سے ملتی ہے ان جوڑوں سے کالا خون بہنے لگتا ہے جیسے سانپ کا زہر جسم میں سرایت کرنے سے ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ جلد کے اندر خون کا اخراج ہو جانے کی وجہ سے اس خون میں طبعاً باہر کی طرف نکلنے کار جحان ملتا ہے۔ بعض دفعہ جلد پر بلا وجہ سرخ خون کے دھبے پڑ جاتے ہیں۔ یہ دھبے سیاہی مائل بھی ہوتے ہیں جو کچے کچے اور بہت بد زیب نظر آتے ہیں۔ چہرے پر بعض بہت سی ایسی بیماریاں ظاہر ہوتی ہیں جن کی تشخیص معالجین کے لیے بہت مشکل کام ہے۔ سلفیورک ایسڈ کے مزاج میں اس قسم کا اندرونی جریان خون داخل ہے لیکن اس کے علاوہ اور ادویہ میں بھی یہ رجحان ملتا ہے۔ سلفیورک ایسڈ بہت سی جلدی امراض میں مفید ہے۔ اگر عمومی دواؤں کا مزاج معلوم ہو تو ضرور فائدہ پہنچتا ہے۔ سلفیورک ایسڈ کی بعض علامتیں سلفر سے بھی ملتی ہیں۔ (صفحہ78۸،78۷)
آرنیکا کی طرح جسم میں چوٹوں کا احساس، درد، کمزوری اور سردی سلفیورک ایسڈ میں بھی پائی جاتی ہیں۔ جلد پر خون دھبوں کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے ان دھبوں کا رنگ سیاہی مائل یا نیلا ہوتا ہے لیکن ایک علامت آرنیکا میں نہیں ہے جو اس میں ہے کہ خون اندر سے ابل کر جلد کے نیچے خلیوں کو بھر دیتا ہے جس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ جلد پر بھی خون کے چھالے سے بن جاتے ہیں اور پھیلنے لگتے ہیں جو اندرونی بیماری کا مظہر ہیں۔ اس مرض میں سلفیورک ایسڈ ایک بہت اہم دوا ہے۔ اگر سلفیورک ایسڈ کی عمومی علامتیں موجود ہوں تو ایک دو خوراکوں سے ہی آرام آجاتا ہے۔ سلفیورک ایسڈ کے مریض کے اعصاب جلد جواب دے جاتے ہیں اور خون کا نظام معمولی بے احتیاطی سے بھی بگڑ جاتا ہے۔ اس میں خون کی گہری خرابیاں پائی جاتی ہیں۔ جلد پر پھوڑے بھی بننے لگتے ہیں۔ کمزوری محسوس ہوتی ہے۔ رنگت خراب ہو جاتی ہے اور مریض بہت حساس ہو جاتا ہے۔(صفحہ788)
ٹیرینٹولا ہسپانیہ
Tarentula hispania
(Spanish Spider)
وقت کی پابندی کرنے کا تعلق عموماً جانوروں کے زہروں سے ہوتا ہے۔ مثلاً اکثر سانپوں کا زہر ہمیشہ موسم بہار ہی میں اثر دکھاتا ہے جس کی وجہ سے سانپ کے بار بار کاٹنے کی بہت سی دیو مالائی کہانیاں بن گئی ہیں۔ حالانکہ سانپ بار بار اسی موسم میں نہیں کا ٹتا بلکہ اس کاٹے کے پرانے زخم دوبارہ ہرے ہو جاتے ہیں۔ اگر موسم بہار میں سانپ نے کاٹا ہو تو ہر موسم بہار میں مریض کو یہی احساس ہوتا ہے کہ اسے دوبارہ سانپ کاٹ گیا ہے۔ ایسے زخموں سے مستقل نجات کے لیے اور پرانے زخموں کے نشان دور کرنے کے لیے لیکیسس سے بہتر کوئی دوانہیں جو اونچی طاقت میں دینی چاہیے۔ (صفحہ792)
ٹیرینٹولا کے مریض کی پیٹھ پر اکثر پھوڑے نکلتے ہیں گردن کی پشت پر اور دائیں یا بائیں کندھے کے اوپر کار بنکل نکل آتا ہے۔ کار بنکل اکثر ذیابیطس کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر ٹیرینٹولا کی دیگر علامتیں پائی جائیں تو دونوں تکلیفوں کو شفا دے سکتا ہے۔ (صفحہ795)
ٹیرینٹولا میں تکلیفیں عموماً رات کو بڑھ جاتی ہیں۔تمام جسم میں خارش اور جلن ہوتی ہے۔(صفحہ795)
ٹیوبر کیولینم
Tuberculinum
A Nosode from Tubercular Abscess
ٹیوبر کیولینم کو اینٹی سورک (Anti-Psoric) دوا کہا جاتا ہے۔ جلدی امراض سورک امراض کہلاتی ہیں۔ (صفحہ798)
ایک اور بات یاد رکھنی چاہیے کہ سل اور آتشک (Syphilis)دونوں کے مریض بیماری بڑھنے پر پاگل بھی ہو جاتے ہیں مگر دونوں کے پاگل پن میں فرق ہوتا ہے۔ سل کے مریض عموماً سر میں شدید درد کے دوروں اور سینے کے اندرونی زخموں کی تاب نہ لا کر پاگل ہو جاتے ہیں۔ سفلس کے مریض کا سارا جسم زخموں اور ناسوروں سے بھر جاتا ہے جو ہڈیاں بھی گلا دیتے ہیں۔ ناک کی ہڈی گل کر بالکل بیٹھ جاتی ہے۔ یہ مرض براہ راست دماغ پر بھی حملہ آور ہوتا ہے اور مریض کو مکمل طور پر پاگل کر دیتا ہے۔ (صفحہ798)
رنگ ورم (Ringworm)یعنی ددری یا داد میں چھوٹے چھوٹے دانوں کا ایک چکر سا بن جاتا ہے جو اگر بالوں میں ہو جائے تو بالوں کو جڑ سے اکھیڑ دیتا ہے۔ اس کو ایلو پیشیا (Alopecia)کی بیماری کہتے ہیں جو بالوں کو گچھوں کی شکل میں گول گول دائروں کی صورت میں اتارتی رہتی ہے۔ اس بیماری میں ٹیوبرکولینم یا بیسیلینم دونوں بہت مفید ہیں۔ ڈاکٹر برنٹ کا خیال ہے کہ اس کی بنیادی وجہ سلی مادہ ہی ہے اور اگر کسی کو یہ بیماری ہو تو اس کو لا ز ما ًبیسیلینم یا ٹیوبر کیولینم دینی چاہیے۔ پکرک ایسڈ بھی ایلو پیشیا اور داد کی بہت قوی دوا ہے۔ (صفحہ799)
ایشیائی اور افریقن ممالک میں غربت کی وجہ سے ملیریا عام ہے۔ چہرے زرد، پھیکے اور بے رنگ پڑ جاتے ہیں۔ (صفحہ800)
زنکم
Zincum metallicum
(Zinc)
اگر ایسی وبائی امراض پھیلی ہوں جن کے مریضوں کی شناخت کے لیے ان کی علامتوں کا جلد پر ظاہر ہونا ضروری ہوتا ہے مثلاً خسرہ اور چیچک وغیرہ تو زنکم کے مریض میں علامتیں ظاہر نہ ہونے کی وجہ سے اس کی تشخیص نہیں ہو سکے گی۔ کیونکہ اس کے مریض میں بیماری کا حملہ اندر تو ہو جائے گا مگر اس کی علامتیں ظاہر نہیں ہوں گی۔ ہومیوپیتھک زنک دینے سے اس کی بیماری کی علامات باہر آجائیں گی۔ (صفحہ805)
اگر جلدی بیماری دب جائے یا بہت سست رفتاری سے جلد پر ظاہر ہو اور آہستہ آہستہ دانے نکلیں تو زنک کی ایک دو خوراکیں ان کے ظاہر ہونے کی رفتار کو تیز کردیتی ہیں۔ (صفحہ806)
زنک کے ٹکسالی کے مریض کا چہرہ زردی مائل اور جھری دار ہوتا ہے۔ ایسا مریض ہمیشہ ٹھنڈا رہتا ہے۔ (صفحہ807)
زنک کا مریض اگر مفلوج ہو جائے تو اس کے چہرے پر جو بڑھاپے کے آثار ظاہر ہوتے ہیں اگرچہ وہ اسے بھرپور بڑھاپے سے پہلے ہی بوڑھا دکھانے لگتے ہیں لیکن زنک کے مریض میں جوانی کے عالم میں یہ علامتیں ظاہر نہیں ہوا کرتیں۔یہ سارسپریلا اور ایگیریکس کا خاصا ہے کہ چھوٹی سی عمر میں ہی مریض بوڑھا دکھائی دے گا۔ سارسپریلا میں تو بعض بچے بھی بوڑھے لگتے ہیں۔(صفحہ807)
(نوٹ ان مضامین میں ہو میو پیتھی کے حوالے سے عمومی معلومات دی جاتی ہیں۔قارئین اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر کوئی دوائی لینے سے قبل اپنے معالج سے ضرورمشورہ کرلیں۔)