سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

میں نے پوچھا حضور کیسی کتاب ہے؟ فرمایانہایت اعلیٰ درجہ کی کتاب ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس کے مصنف کو یا تو لوگ پاگل کہیں گے یا اس سے اگلی صدی کا مجدد ہوگا۔

۴: مرزا سعید الدین احمد خان صاحب بہادرؓ اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر فیروزپور

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ا ٓپؓ کا ذکر براہین احمدیہ حصہ اول کے صفحہ۳ پر نمبر شمار ۱۱ پر کیا ہے۔

آپؓ نواب ضیاء الدین احمد خان نیر رخشاں مرحوم رئیس لوہارو کے بیٹے فخر الدولہ نواب احمد بخش خان بہادر رستم جنگ رئیس فیروز پور کے پوتے تھے۔ آ پؓ کی پیدائش ۱۸۵۳ء میں ہوئی۔ ۱۸۷۹ء میں سر رابرٹ ایجرٹن بہادر لیفٹیننٹ گورنر پنجاب نے بطور قائمقام اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر فیروز پور ضلع پنجاب تعینات کیا۔ والد کی وفات پر گھریلو مناقشات کی وجہ سے ملازمت سے استعفیٰ دے کر خانہ نشین ہو گئے۔ کتاب بینی کا شغل رکھتے تھے۔

نیررخشاں نواب ضیاء الدین احمدخان بہادر نواب احمدبخش خان کے چوتھے بیٹے تھے۔ اپنے والدکی وفات کے وقت یہ چھ برس کے تھے۔فیروزپورجھرکہ میں اکتوبر۱۸۲۱ء میں پیداہوئے۔ تقسیم جائیدادکی رُوسے پرگنہ لوہارو ان کے ساتھ ان کے بڑے بھائی نواب امین الدین احمددونوں کے حصہ میں آیا۔جب تک ضیاء الدین سن بلوغ تک نہیں پہنچے جائیدادکانظم ونسق بڑے بھائی کے پاس رہا۔اور ان کے حصہ کی آمدنی خزانے میں جمع ہوتی رہی۔ بالغ ہونے پرنواب ضیاء الدین نے بڑے بھائی کے برابرکے شریک کیے جانے کامطالبہ کیا یاریاست کودوحصوں میں بانٹ دیے جانے کی تجویزدی، دونوں تجویزیں سرکارسے ردّکی گئیں اور دونوں بھائیوں کی بڑھتی ہوئی کشمکش کے پیش نظر یہ فیصلہ کیاگیا کہ نواب ضیاءالدین کوخزانہ ریاست سے اٹھارہ ہزارروپے سالانہ کا وظیفہ دیاجائے اوروہ ریاست کےمعاملات میں دخل نہ دیں۔اس پر وہ لوہارو سے دہلی منتقل ہوگئے۔ان کی وفا ت کے بعد وظیفہ کم کرکے بارہ ہزارروپے کردیاگیاجوان کے خاندان کوملک کی آزادی تک ملتا رہا۔ مختلف علوم ہیئت،نجوم،تاریخ اور جغرافیہ وغیرہ میں مسلمہ عالم تھے۔نواب ضیاء غالب کے مایہ ناز شاگردتھے۔غالب نے اپنی زندگی میں سندخلافت لکھ دی تھی۔ خلیفہ اول نیررخشاں مقررہوئے اور خلیفہ دوم نواب علاءالدین احمد خان علائی۔نواب ضیاء الدین کانکاح شرف الدولہ قاسم جان کی پوتی اورمرزاقدرت اللہ خان کی بیٹی امتیاززمانی بیگم عرف حاجی بیگم سے ہواتھا۔اولادمیں ایک بیٹی معظم زمانی بیگم اور دوبیٹے شہاب الدین احمدخان ثاقب جوکہ جوانی میں ہی اپنے والدکے حین حیات وفات پاگئے۔جبکہ دوسرے بیٹے نواب سعیدالدین احمد خان طالب تھے۔جوکہ ۱۹۱۹ء میں فوت ہوئے۔(ماخوذ از غالب کی خاندانی پنشن اور دیگرامور،صفحہ۳۰۱تا۳۰۳)

نواب ضیاء الدین صاحب کے متعلق’’ایک تاریخی واقعہ‘‘کے عنوان سے الفضل میں مضمون شائع ہواتھا وہ بھی یہاں درج کرنادلچسپ علمی معلومات سے خالی نہیں ہوگا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے متعلق نواب ضیاء الدین احمد خان (لوہارو) کا بیان

جناب مالک رام صاحب ایم اے دہلی لکھتے ہیں: ’’چند دن ہوئے ہیں ابوالمعظم نواب سراج الدین احمد خان صاحب سائل کی خدمت میں حاضر ہوا۔جناب سائل مدظلہٗ خاندان(لوہارو)کے چشم و چراغ ہیں۔اس وقت ان کی عمر ۷۶ برس سے زیادہ ہے۔چونکہ ان کے والد نواب شہاب الدین احمد خان ثاقب کی وفات عین عنفوان شباب میں ہوگئی تھی۔اس لئے ان سب بھائی بہنوں کی پرورش اور تعلیم وتربیت ان کے دادا نواب ضیاء الدین احمد خان کی زیرنگہداشت ہوئی۔نواب ضیاء الدین احمد خان صاحب مرحوم نہایت فاضل اور علوم شرقیہ کے باخبر عالم تھے۔وہ اردو اور فارسی دونوں زبانوں کے نغز گو شاعر بھی تھے۔اردو میں نیّر اور فارسی میں رخشاں تخلص کرتے تھے۔مرزا غالب کے نہایت محبوب شاگرد تھے۔غالب نے زین العابدین خان عارف کا جومرثیہ لکھا ہے اس کے مندرجہ ذیل شعر میں نیّر سے نواب ضیاء الدین احمد خان ہی کی طرف اشارہ ہے؂

مجھ سے تمہیں نفرت سہی نیّر سے لڑائی
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشہ کوئی دن اور

ملازم نے باہر کا کمرہ میرے لئے کھول دیا۔جناب سائل مدظلہٗ آئےاور فرمانے لگے اندر مہمان ہیں۔آج ہمیں باہر ہی بیٹھنا پڑے گا۔میں نے پوچھا’’ کہیں باہر سے کوئی لوگ آئے ہیں کیا؟‘‘ فرمایا ہاں۔لیڈی ذوالفقار علی خاں صاحب اور ان کی بعض عزیز مستورات آئی ہیں۔لیڈی ذوالفقار علی خان جناب سائل مدظلہٗ کے بڑے بھائی نواب بہاؤالدین خان صاحب مرحوم کی صاحبزادی ہیں۔اب گفتگو کا سلسلہ جو چلا تو مالیر کوٹلہ خاندان مالیر کوٹلہ نواب سر ذوالفقارعلی خان صاحب مرحوم اور ان کے چاروں بھائیوں سے ہوتا ہوا نواب محمد علی خان صاحب قبلہ تک پہونچا۔اور آخر میں وہاں سے گریز ہوکر احمدیت سے متعلق بات چیت ہونے لگی۔

میں نے جناب سائل مدظلہٗ سے پوچھا۔آپ نے حضرت مرزا صاحب کو تو دیکھا ہوگا۔فرمایا کیوں نہیں۔نہایت شاندار شخص تھے۔ان کی دوسری شادی کی تقریب میں جو یہاں دہلی میں ہوئی میں بھی شامل تھا۔ بلکہ زیادہ درست تو یہ ہے کہ میر ناصر نواب مرحوم سے ہماری کچھ دُور کی عزیز داری بھی تھی۔میں نے پھر پوچھا۔آپ کا ان کے دعاوی کے متعلق کیا خیال ہے؟فرمایا۔میرا عقیدہ یہی ہے کہ خاتم النبیین کی رُو سے نبوت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ختم ہوگئی۔اور اب کوئی نبی نہیں آسکتا۔میں نے کہا اور آنے والا مسیح۔وہ محض ہمارا امام ہوگا نبی نہیں ہوگا۔میں نے عرض کیا نبی اللہ تو انہیں خود حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کہا ہے۔کہنے لگے میں مباحثہ نہیں کرنا چاہتا اور تم کیا جانو ان باتوں کو۔بھلا اس کا جواب میں کیا دے سکتا تھا۔ادب سے چپ ہورہا۔

اس کے بعد فرمانے لگے۱۸۸۲ء یا۱۸۸۳ء کا واقعہ ہے ان دنوں میری عمر۲۱،۲۰برس کی ہوگی۔میری بہن کی شادی ہونے والی تھی۔نواب صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ لدھیانہ جاؤ اور اپنے ماموں جان کو شادی کا بلاوا دے آؤ۔میں حسب الحکم وہاں گیا۔ان دنوں براہین احمدیہ کا ہر جگہ چرچا تھا۔ایک مجلس میں اس کے متعلق جو گفتگو ہوئی تو مجھے اس کے متعلق شوق پیدا ہوا۔میں نے بازا ر سے اس کی پہلی جلد منگوائی۔میں لدھیانہ میں دو ایک روز ہی ٹھہرا۔اور ا س اثناء میں مشکل سے چند صفحے پڑھ سکا۔مگر جتنا کچھ بھی میں نے پڑھا اس سے میرا اشتیاق اور بھی بڑھ گیا۔میں نے ملازم سے کہاکہ جاؤ باقی تینوں جلدیں بھی بازار سے خرید لاؤ۔وہ خالی ہاتھ لوٹا اور کہنے لگا حضور کتاب نہیں ملی۔دوکاندار کہتا ہے کہ ختم ہوگئی ہےاس پر میں نے ماموں جان سے کہا کہ باقی تینوں جلدیں جس قدر جلد ممکن ہو لے کر مجھے دہلی بھجوادیں اور خود دہلی واپس چلا آیا۔

دہلی پہنچنے کے چند دن بعد کتاب کا پارسل آگیا۔نواب صاحب مرحوم کی ڈاک کا تھیلہ علیحدہ ہوتا تھا اور چونکہ کتاب میرے نام انہی کے پتہ سے آئی تھی۔اس لئے جب ان کے ملازم محمد حسین نے تھیلہ کھولا تو نواب صاحب کی نظرسب سے پہلے اس پارسل پر پڑی۔پوچھا یہ اتنا بڑا بنڈل کاہے کا ہے۔محمد حسین نے عرض کی۔حضور سراج میاں کے نام ہے۔کہا ذرا کھولو تو اسے یہ کیا ہے۔اس نے جب کھولا تو براہین احمدیہ کی تینوں جلدیں نکلیں۔حکم ہؤاسراج کو تو بلاؤ۔میں حاضر خدمت ہؤا۔پوچھا میاں یہ کتاب کیسی ہے۔میں نے سارا واقعہ بیان کیا۔تو فرمایا اچھا تو پہلی جلد دیکھ چکے ہو تم؟میں نے عرض کیا حضور ابھی کچھ حصہ باقی ہے۔حکم دیا۔ یہ جلدیں تم اپنے کمرے میں اٹھا لے جاؤ۔اور وہ پہلا حصہ میرے پاس لے آؤ۔ذرا میں بھی تو دیکھوں یہ کیا چیز ہے۔میں نے کتاب لاکر حاضر خدمت کردی۔اگلے دن پھر میری طلبی ہوئی فرمایا وہ باقی تینوں جلدیں بھی لے آؤ۔ میں یہ ساری کتاب دیکھنا چاہتا ہوں۔میں نے وہ بھی لاکر پیش کردیں۔ہفتہ بھر کے بعد ایک دن فرمایا۔سراج میں نے وہ کتاب ختم کردی۔اگر پڑھنا چاہو تو اسے پڑھ لو۔مگر اس کے بعد اسے میری لائبریری میں رکھ دینا۔میں نے پوچھا حضور کیسی کتاب ہے؟ فرمایا نہایت اعلیٰ درجہ کی کتاب ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس کے مصنف کو یا تو لوگ پاگل کہیں گے یا اس سے اگلی صدی کا مجدد ہوگا۔

میں نے جناب سائل مدظلہٗ سےپوچھا۔پھر آپ نے براہین احمدیہ پڑھی فرمایا ہاں بڑی معرکہ کی کتاب ہے میں نے پھر جرأت کی۔اور کہا نواب صاحب مرحوم کا قول سچ نکلا۔آج حضرت مرزا صاحبؑ کے مخالفوں کا ایک طبقہ انہیں پاگل کہتا ہے اور ان کے ماننے والوں میں سے ایک گروہ انہیں مجدد مانتا ہے۔اور دوسرا نبی۔آپ کا کیا خیال ہے فرمایا میں انہیں مجدد تسلیم کرتا ہوں۔اور میں اس میں ان کے مجدد ماننے والے گروہ کی تقلید نہیں کرتا۔بلکہ وہ ہماری تقلید کرتے ہیں کیونکہ ہم نے تو اس گروہ کے عالم وجود میں آنے سے پہلے حضرت مرزا صاحبؑ کے مجدد ہونے کا فیصلہ کردیا تھا۔

اس کے تھوڑی دیر بعد میں واپس چلا آیا۔سارا راستہ میر ادماغ مختلف خیالات کی جولان گاہ بنا رہا۔کبھی نواب ضیاء الدین احمد خان صاحب مرحوم کی ژرف نگاہی کا خیال آتا۔اور کبھی مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء کی بے بصری کا۔کہ آخر ان لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی صحبت میں اتنی مدت رہ کر کیا حاصل کیا۔محض مجدد تو ان لوگوں نے بھی تسلیم کرلیا جنہوں نے صرف براہین احمدیہ پڑھی۔اور آپ کے دیکھنے کا انہیں موقع نہیں ملا تھا۔پھر ان حضرات کی ان لوگوں پر فوقیت کیا ہوئی؟فتدبروا یا اولی الابصار‘‘(روزنامہ الفضل قادیان دارالامان مورخہ ۵؍مارچ ۱۹۳۷ء نمبر۵۲جلد۲۵صفحہ ۴)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button