خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲؍ستمبر۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے)

سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے موضوع کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب:فرمایا: کچھ عرصہ پہلے غزوۂ بدر کے دوران آنحضرت ﷺ کے اس غزوےسے تعلق میں واقعات بیان کیے تھے۔ آج بدر کے حوالے سے ہی بعض متعلقہ باتیں اور واقعات پیش کروں گا۔

سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط کے قتل کی بابت کیا بیان فرمایا ؟

جواب: فرمایا: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں بدر کے قیدیوں میں سے قتل ہونے والے ان دونوں کا جو ذکر کیا ہے وہ اس طرح ہے کہ ’’بعض مؤرخین نے قید ہونے والے رؤساء میں عقبہ بن ابی معیط کا نام بھی بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ بعد میں آنحضرتﷺ کے حکم کے ماتحت حالتِ قیدمیں قتل کردیا گیا تھا مگر یہ درست نہیں ہے۔ حدیث اورتاریخ میں نہایت صراحت کے ساتھ یہ روایت آتی ہے کہ عقبہ بن ابی معیط میدانِ جنگ میں قتل ہوا تھا۔‘‘ جنگ کے دوران ہوا تھا، قیدی نہیں بنا تھا۔ ’’اور ان رؤساء مکہ میں سے تھا جن کی لاشیں ایک گڑھے میں دفن کی گئی تھیں؛ البتہ نضر بن حارث کا حالتِ قید میں قتل کیا جانا اکثر روایات سے ظاہر ہوتا ہے اور اس کے قتل کی وجہ یہ تھی کہ وہ ان لوگوں میں سے تھا جوان بےگناہ مسلمانوں کے قتل کے براہِ راست ذمہ دارتھے جو مکہ میں کفار کے ہاتھ سے مارے گئے تھے۔ اور اغلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے ربیب حار ث بن ابی ہالہ جوابتداء اسلام میں نہایت ظالمانہ طورپر آنحضرتﷺکی آنکھوں کے سامنے قتل کئے گئے تھے، ان کے قتل کرنے والوں میں نضر بن حارث بھی شامل تھا۔ لیکن یہ یقینی ہے کہ نضر کے سوا کوئی قیدی قتل نہیں کیا گیا اور نہ ہی اسلام میں صرف دشمن ہونے اورجنگ میں خلاف حصہ لینے کی وجہ سے قیدیوں کے قتل کرنے کا دستور تھا؛ چنانچہ اس کے متعلق بعد میں ایک معین حکم بھی قرآن شریف میں نازل ہوا۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ گو بہت سی روایات میں نضر بن حارث کے قتل کئے جانے کاذکر آتا ہے لیکن بعض ایسی روایتیں بھی پائی جاتی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ قتل نہیں کیا گیا تھا بلکہ بدر کے بعد مدت تک زندہ رہا اور بالآخر غزوۂ حنین کے موقعہ پر مسلمان ہو کر آنحضرت ﷺ کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہو گیا تھا مگر مقدم الذکر‘‘ یعنی پہلی ’’روایات کے مقابلہ میں یہ روایتیں عموماً کمزور سمجھی گئی ہیں۔ واللہ اعلم بہرحال اگرقیدیوں میں سے کوئی شخص قتل کیا گیا تو وہ صرف نضر بن حارث تھا جو قصاص میں قتل کیا گیا تھااوراس کے متعلق بھی یہ روایت آتی ہے کہ جب اس کے قتل کے بعد آنحضرت ﷺ نے اس کی بہن کے وہ دردناک اشعارسنے جن میں آپؐ سے رحم کی اپیل کی گئی تھی تو آپؐ نے فرمایا کہ اگریہ اشعار مجھے پہلے پہنچ جاتے تو میں نضرکو معاف کر دیتا۔

سوال نمبر۳: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غزوہ بدر کے مشرک قیدیوں کے حوالے سے کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:صحیح بخاری میں ایک روایت میں مذکور ہے کہ نبی کریم ﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ نے بدر کے دن مشرکوں کے ایک سو چالیس آدمیوں کا نقصان کیا تھا یعنی ستر قیدی اور ستر مقتول تھے۔مشرکین کے قیدی جو جنگِ بدر کے بعد اسلام میں شامل ہوئے انہوں نے اسلام قبول کیا، ان کے بارے میں لکھا ہے کہ صحابہ کرامؓ رسول اللہ ﷺ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اسیرانِ بدر سے بہت حسن سلوک سے پیش آتے تھے۔ ان قیدیوں میں کچھ خوش نصیب ایسے تھے جو اسلام کی تعلیمات اور صحابہ کرامؓ کے اخلاقِ عالیہ سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گئے۔ ان میں سے بعض کے اسمائے گرامی انہوں نے تفصیل سے لکھے بھی ہیں۔ عباس بن عبدالمطلب، عقیل بن ابوطالب، نوفل بن حارث ، ابوالعاص بن ربیع، ابو عزیز ان کا نام زُرَارہ بن عُمیر عَبْدَرِی تھا سائب بن ابو حُبَیش، خالد بن ہِشام مخزومی، عبداللہ بن ابوسائب، مُطَّلِب بن حَنْطَبْ ابو وَدَاعَہ سَہْمِی، عبداللّٰہ بن اُبَی بِنِ خَلَف جُمَحِّی، وَہْب بن عُمیر جُمَحّی،سُہَیل بن عمرو عَامِرِی، عبداللہ بن زَمْعَہ جو ام المومنین حضرت سودہ بنت زمعہؓ کے بھائی تھے۔ قیس بن سائِب اور نِسْطَاس جو امیہ بن خَلَف کا غلام تھا۔ سائب بن عُبَید۔ان سب نے بدر کے دن اپنا فدیہ ادا کر کے اسلام قبول کر لیا تھا۔

سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے رومی سلطنت کی فتح اور بدر کی فتح کےتعلق کے حوالے سے کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:جب اللہ تعالیٰ نے سورة الروم کی ابتدائی آیات نازل فرمائیں تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ مکے کے اطراف میں اس سورت کی ان آیات کو پڑھتے ہوئے اعلان کرنے لگے کہ الٓمّٓ غُلِبَتِ الرُّومُ فِی اَدنَی الاَرضِ وَھم مِّن بَعدِ غَلَبِہِم سَیغلِبُونَ۔ فِی بِضْعِ سِنِینَ (الروم:2تا 5) یعنی اہلِ روم مغلوب کیے گئے قریب کی زمین میں اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد پھر ضرور غالب آ جائیں گے تین سے نو سال کے عرصے تک۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو یہ مکّے کی بات ہے، مکّہ کے جو مشرکین تھے پسند کرتے تھے کہ اہلِ فارس اہلِ روم پر غالب آ جائیں کیونکہ یہ اور وہ بت پرست تھے۔ فارس کے لوگ، ایرانی لوگ بت پرست تھے، آتش پرست تھے اور مکّے کے لوگ بھی بت پرست تھے۔ وہ پسند کرتے تھے کہ فارس کے لوگ غالب آ جائیں اور مسلمان پسند کرتے تھے کہ اہلِ روم اہلِ فارس پر غالب آجائیں اس لیے کہ وہ اہلِ کتاب تھے۔ انہوں نے اس کا ذکر حضرت ابوبکرؓسے کیا اور حضرت ابوبکرؓنے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپؐ نے فرمایا وہ ضرور غالب آ جائیں گے یعنی رومی غالب آ جائیں گے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس کا ذکر مشرکین سے کیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارے درمیان اور اپنے درمیان ایک مدت مقرر کر لو یعنی شرط رکھ لو۔ اگر ہم غالب آ گئے تو ہمارے لیے یہ اور یہ ہو گا اور اگر تم غالب آگئے تو تمہارے لیے یہ اور یہ ہو گا تو انہوں نے پانچ سال کی مدت رکھی۔ ایک روایت کے مطابق چھ سال کی مدت رکھی۔ شرح سنن الترمذی تحفة الاحوذی میں لکھا ہے کہ روم کے فارس پر غلبے کے دن مومن خوش ہوئے اور انہیں اس بات کا علم بدر کے دن ہوا جب جبرئیل علیہ السلام اس غلبے کی خبر کے ساتھ ان کی یعنی مشرکین کے خلاف بدر میں ان کی مدد کی خوشخبری لے کر نازل ہوئے تھےیہ تعلق ہے بدر کے ساتھ اس کا کہ جس دن بدر کی فتح ہوئی ہے اسی دن رومیوں کی فتح کی بھی خوشخبری ملی۔

سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے اہل فارس اور اہل روم کی بادشاہتوں کا کیا موازنہ بیان فرمایا ؟

جواب: فرمایا:آنحضرت ﷺ نے جن واقعات کی پیشگوئی کی ہے ان میں سے ایک صاف اور صریح اور معرکةالآراء غلبۂ روم کی پیشگوئی تھی۔عرب کے دونوں اطراف میں روم اور فارس کی حکومتیں قائم تھیں۔ اس وقت ایران کا تاجدار خسرو اور روم کا فرمانروا ہرقل تھا۔ ان دونوں سلطنتوں میں ایک مدت سے معرکہ آرائیوں کا سلسلہ قائم تھا۔ بعثت نبویؐ کے پانچویں سال 614ء میں ان دونوں ہمسایہ سلطنتوں میں ایک خونریز جنگ شروع ہو گئی۔ اگرچہ ان دونوں قوموں میں کسی قوم نے مذہبِ اسلام قبول نہیں کیا تاہم رومی حضرت عیسیٰؑ کے پیرو اور اہلِ کتاب تھے اور ایرانیوں کے عقائد مشرکین مکہ کے عقائد کے ساتھ مطابقت رکھتے تھے اس لیے لازمی طور پر مسلمانوں کو رومی عیسائیوں کے ساتھ اور مشرکین مکہ کو ایرانیوں کے ساتھ ہمدردی تھی۔ اس لیے مسلمانوں اور کفار قریش دونوں کو جنگ کے نتیجہ کا شدت کے ساتھ انتظار تھا۔ ان دونوں سلطنتوں کےحدوددریائے دجلہ اور فرات کے کناروں پر آ کر ملتے تھے۔ رومی سلطنت مشرق میں ایشیائے کوچک حدود عراق، شام، فلسطین اور مصر میں پھیلی ہوئی تھی۔ ایرانیوں نے دو طرفہ حملہ کیا۔ ایک طرف تو وہ دجلہ اور فرات کے کنارے سے شام کی طرف بڑھے اور دوسری طرف ایشیائے کوچک کی جانب آذربائیجان سے آرمینیا ہو کر موجودہ اناطولیہ میں داخل ہو گئے اور دونوں طرف سے رومیوں کو پیچھے ہٹاتے ہٹاتے سمندر میں ان کو دھکیل دیا۔ شام کی سمت میں انہوں نے یکے بعد دیگرے اس ارضِ مقدس کا ایک ایک شہر رومیوں سے چھین لیا۔ 614ء میں فلسطین اور اس کا مقدس شہر یروشلم ایرانیوں کے زیر سایہ آگیا۔کنیسوں کو مسمار کر دیا گیا۔ مذہبی شعائر کی توہین کی گئی۔ شہنشاہِ ایران کے قصرِ اقامت کی تیس ہزار مقتول سروں سے آرائش کی گئی، قتل کر کے ان کے سر قصر میں رکھے گئے۔ ایرانی فتوحات کا سیلاب اس سے آگے بڑھ کر 616ء میں پوری وادیٔ نیل یعنی مملکتِ مصر پر محیط ہو گیا اور آخر اسکندریہ کے ساحل پر جا کر تھما اور دوسری طرف تمام ایشیائے کوچک کو زیروزبر کرتا ہوا باسفورس کے ساحل پر جا کر رکااور قسطنطنیہ کی دیواروں سے جا ٹکرایا۔ شہنشاہِ روم کے دارالسلطنت کے سامنے ایران کے فاتح لشکر نے جا کر اپنے خیمے کھڑے کر دیے اور اب رومیوں کے بجائے عراق و شام اور فلسطین و مصر و ایشیائے کوچک کے وسیع علاقوں میں ایرانی حکومت قائم ہو گئی…ایرانیوں کا فاتح سپہ سالار قسطنطنیہ کے دروازے پر پہنچ کر رومیوں کے سامنے حسبِ ذیل شرائط پیش کرتا ہے کہ رومی باج ادا کریں۔ ایک ہزار ٹالنٹ سونا، ایک ہزار ٹالنٹ چاندی، (ٹالنٹ قدیم یونانی پیمانہ ہے جو آجکل کے تقریباً تیئس کلو گرام وزن کے برابر ہے) ایک ہزار ریشم کے تھان، ایک ہزار گھوڑے اور ایک ہزار کنواری لڑکیاں ایرانیوں کے حوالے کریں۔ رومیوں کی کمزوری کی یہ حالت تھی کہ انہوں نے ان شرمناک شرائط کو قبول کر لیا۔

سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے شہنشاہ روم ہرقل کے متعلق مؤرخ ایڈورڈگبن کے کیا تاثرات بیان فرمائے ؟

جواب: فرمایا: تاریخِ زوالِ روم کا مشہور مصنف اور مؤرخ ایڈورڈ گبن(Gibbon)ہرقل کے احوال بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ’’شہنشاہ جو اپنی ابتدائی اور آخری زندگی میں مستی، عیاشی اور اوہام کا غلام اور رعایا کے مصائب کا نامرد تماشائی تھا۔ جس طرح صبح و شام کا کہر آفتاب نصف النہار کی روشنی سے پھٹ جاتا ہے دفعةً 621ء میں محلوں کا آرکاڈیوس (Arcadius)، میدانِ جنگ کا سیزر (Caesar) بن گیا۔ یعنی یہی شہنشاہِ روم جو تھا اور روم وہرقل کی عزت چھ مہمات کے ذریعہ نہایت شاندار طریقے سے بچا لی گئی۔‘‘انہوں نے آرکاڈیوس کی جو مثال دی ہے یہ رومی سلطنت کا ایک بادشاہ تھا جس کا زمانہ 408قبل مسیح اور 378قبل مسیح تک ہے۔بڑا مضبوط تھا۔ اسی طرح سیزر بھی ایک پرانا فوجی جرنیل تھا۔بہرحال جس وقت ہرقل اپنی بقیہ فوج لے کر قسطنطنیہ سے چلا لوگوں کو معلوم ہوتا تھا کہ عظیم روما کے آخری لشکر کا منظر دنیا کے سامنے ہے لیکن عرب کے نبیٔ اُمی کی پیشگوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور عین اس وقت جب مسلمانوں نے بدر کے میدان میں قریش کو شکست دی رومیوں نے ایرانیوں پر غلبہ حاصل کیا۔ مشرقی مقبوضات کا ایک ایک شہر واپس لے لیا اور ایرانیوں کو باسفورس اور نیل کے کناروں سے ہٹا کر پھر دجلہ و فرات کے ساحلوں کی طرف دھکیل دیا۔اس عظیم الشان پیشگوئی کی صداقت کے اثر نے دنیا کو محو حیرت کر دیا۔ قریش کے بہت سے لوگ اس صداقت کو دیکھ کر مسلمان ہو گئے اور جو غیر ہیں وہ اس پیشگوئی کے قائل ہو رہے ہیں۔ اس حیرت ناک پیشگوئی کی سچائی سے متحیر ہو کر واقعہ کے ساڑھے بارہ سو برس کے بعد ایڈورڈ گبن کہتا ہے،جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’محمد (ﷺ )مشرق کی دو عظیم الشان سلطنتوں کے ڈانڈے پر بیٹھ کر ان دونوں کی ایک دوسرے کو تباہ کر دینے والی روز افزوں کوششوں کی ترقی کو دلی مسرت کے ساتھ بغور مطالعہ کر رہا تھا اور عین اس وقت جبکہ ایرانیوں کو پیہم کامیابیاں حاصل ہو رہی تھیں اس نے اس پیشگوئی کی جرأت کی کہ چند سال میں فتح و ظفر رومی عَلم پر سایہ فگن ہو گی۔جس وقت یہ پیشگوئی کی گئی تھی کوئی پیشگوئی اس سے زیادہ دُور از قیاس نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ یقین ہی کوئی نہیں کر سکتا تھا کیونکہ ہرقل کی بارہ سال کی حکومت نے اس بات کا اعلان کر دیا تھا کہ رومی شہنشاہی کا شیرازہ جلد بکھر جائے گا۔‘‘

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button