خطاب حضور انور

جلسہ سالانہ برطانیہ 2024ء کے موقع پر مستورات کے اجلاس سے سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا بصیرت افروز خطاب

ہم نے دنیا میں انقلاب لانا ہے۔ ہم نے دنیا کو سیدھی راہ دکھانی ہے۔ ہم نے دنیا کو خداتعالیٰ کے حضور جھکنے والا بنانا ہے۔ ہم نے دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانے والا بنانا ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنی حالتوں کو بھی تبدیل کرنا ہوگا، اپنی نسلوں کی حالتوں کو بھی تبدیل کرنا ہوگا اور جب یہ ہوگا تو پھر ایک انقلاب ہو گا جو ہم دنیا میں پیدا کرسکیں گے

عبادت کا بہترین طریق اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق نماز کی ادائیگی ہے۔ یعنی پانچ فرض نمازیں اور پھر نوافل

اس زمانے میں بھی ایسی عورتیں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی جماعت کو عطا فرمائی ہیں جو اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے والی ہیں

بچے کے بگڑنے کی وجہ ماں باپ کے رویے ہیں۔ ان کے اللہ تعالیٰ سے تعلق کی دُوری ہے اور ان کے دین کی تربیت کا صحیح حق ادا نہ کرنے کی وجہ ہے

بچے جب ہوش کی عمر میں آتے ہیں تو ماں باپ کے نمونے بھی دیکھتے ہیں۔ اگر وہ ماں باپ نیک نمونے دکھانے والے ہیں، اپنی عبادتوں کے حق ادا کرنے والے ہیں، ایمان میں پختہ ہیں تو بچے بھی دین کی طرف مائل ہوتے ہیں ورنہ دور ہٹتے چلے جاتے ہیں

اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے کے لیے بھی اور اپنے بچوں کا مستقبل اور عاقبت سنوارنے کے لیے بھی دعاؤں کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ اپنی نمازوں کی حفاظت کی ضرورت ہے

اپنے آپ کو جماعت میں شامل کرنے کے مقصد کو سامنے رکھیں۔ جماعت میں شامل ہوئی ہیں تو اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرتے ہوئے اپنے خدا سے زندہ تعلق جوڑنے کی کوشش کریں
یاد رکھیں! اگر خود ہم اللہ تعالیٰ کو بھول گئے، ماں باپ نے اس کا حق ادا نہ کیا اور دنیا کے جھمیلوں میں پڑ گئے تو پھر اگلی نسل کی کوئی ضمانت نہیں

جب بچے بگڑ گئے تو پھر خیال ہوتا ہے کہ ہماری گھریلو ناچاقیاں ہیں لیکن جب یہ خیال آیا اس وقت بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ پس دونوں کو اپنے مستقبل کے بارہ میں سوچنا چاہیے، بچوں کے مستقبل کے بارہ میں سوچنا چاہیے

خدا تعالیٰ سے تعلق مضبوط کر لیں تو خود بھی ہم بچ سکتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی بچا سکتے ہیں۔ خدا کرے کہ ہر ماں اپنے بچوں کے دل میں یہ بات میخ کی طرح گاڑ دے کہ بغیر خدا کے نہ ہماری دنیا ہے نہ عاقبت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرو اور اس کی عبادت کر کے اپنی زندگی کے مقصد کو پہچانو

عبادتیں اللہ تعالیٰ کے مقام کو بلند کرنے کے لیے نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس لیے نہیں کہا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کو کچھ حاصل ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کا مقام اس سے بلند نہیں ہوتا بلکہ یہ عبادتیں خود اس عبادت کرنے والے کی دنیا و عاقبت کو سنوارنے والی ہوتی ہیں

اگر ماں یا باپ یا ان میں سے کوئی ایک بھی اپنے نمونے قائم کر کے تربیت کی طرف توجہ نہیں دے رہا اور بچوں کے لیے دعا نہیں کر رہا تو پھر بچوں کے بگڑنے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ پس یہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ اس طرف ہمیشہ توجہ دینے کی ضرورت ہے

پس ہر عورت کو، ہر مرد کو، مرد بھی میرے مخاطب ہیں، ایک فکر کے ساتھ اپنے بچوں کو سمجھانا چاہیے اور ہر بچی کو بھی جو بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہے اور ہر لڑکے کو بھی جو بلوغت کی عمر کو پہنچ چکا ہے یہ احساس ہونا چاہیے اور ان کو احساس دلانا چاہیے کہ یہ برائیاں ہیں جو مزید گندگیوں میں دھکیلتی چلی جائیں گی اس لیے ان سے بچنا ہے۔

ہر ایسی چیز جس کا ناجائز استعمال شروع ہو جائے وہ لغویات میں شامل ہے

احمدی بچیاں اپنی عصمت کی خاطر، اپنی عزت کی خاطر، اپنے خاندان کے وقار کی خاطر، اپنی جماعت کے تقدس کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے خدا کی رضا کو حاصل کرنے کے لیے ان چیزوں سے بچیں اور ہر احمدی مرد اور لڑکے بھی ان باتوں سے بچیں۔

ہر عورت اور ہر بچی یہ کوشش کرے کہ اس نے دنیا کو متاثر کرنا ہے۔ دنیا کو اللہ تعالیٰ کے قدموں میں لے کے آنا ہے۔ یہی ایک احمدی کی ذمہ داری ہے۔ یہی ایک احمدی کا وہ فرض ہے جس کے لیے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو مانا ہے۔ پس اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے

دورِ حاضر میں تربیتِ اولاد میں درپیش چیلنجز نیز والدین بالخصوص والدہ کی ذمہ داریوں کا پُرمعارف بیان

جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ برطانیہ 2024ء کے موقع پر مستورات کے اجلاس سے سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا بصیرت افروز خطاب

(فرمودہ مورخہ 27؍جولائی 2024ء بروزہفتہ بمقام حدیقۃ المہدی (جلسہ گاہ) آلٹن، ہمپشئر ، یوکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾

اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق دی اور ہم اللہ تعالیٰ کے وعدے کو پورا ہوتا دیکھنے والے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا ہوتا دیکھنے والے اور اس کی تصدیق کرنے والے بن گئے۔ پس یہ بات ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار بنانے والی ہونی چاہیے اور اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری اس کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ذریعہ ہوتی ہے اور

عبادت کا بہترین طریق اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق نماز کی ادائیگی ہے۔
یعنی پانچ فرض نمازیں اور پھر نوافل۔

یہ حکم مردوں عورتوں دونوں کے لیے ہے۔ صحابیاتؓ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی سند حاصل کی ان کے متعلق تو روایات میں آتا ہے کہ عبادتوں میں بعض مردوں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتی تھیں۔ ساری ساری رات عبادت کرتی تھیں اور دن میں روزے رکھتی تھیں یہاں تک کہ مردوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ان کو اس طرح عبادت سے روکنے کے لیے عرض کرنی پڑی کیونکہ اسلام ہر قسم کے حقوق کی ادائیگی کی تعلیم دیتاہے۔ بچوں کے بھی حق ہیں۔ گھر کے بھی حق ہیں۔ خاوند کے بھی حق ہیں جو ادا کرنے ضروری ہیں۔ اگر دن اور رات اس طرح عبادتوں میں مصروف رہیں تو یہ حقوق ادا نہیں ہو سکتے۔

پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ پرانی باتیں نہیں ہیں۔

اس زمانے میں بھی ایسی عورتیں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی جماعت کو عطا فرمائی ہیں جو اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے والی ہیں۔

بہت ساری ایسی مثالیں ہیں لیکن

اس وقت میں صرف حضرت اماں جان کی مثال

دیتا ہوں۔ حضرت اماں جان نصرت جہاں بیگم صاحبہ ؓجن سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی دوسری شادی اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوئی اوران سے اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو مبشر اولاد دی یعنی وہ اولاد جس کی خصوصیات کا اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی آپؑ کو علم دے دیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ اولاد ان خصوصیات کی حامل بن کر پیدا ہوئی ہے۔ بہرحال اس وقت میں

حضرت اماں جانؓ کی عبادت کے معیار اور باقاعدگی اور اس کی دوسروں کو تلقین کا ذکر

کرنا چاہتا ہوں۔ آپؓ کو عورتیں ملنے آیا کرتی تھیں۔ آپؓ کے بارے میں اکثر عورتوں نے یہ بیان کیا کہ جب بھی ہم آپ کو ملنے جاتے تا کہ حضرت اماں جانؓ کے روحانی اور علمی مائدے سے فائدہ اٹھائیں۔ یہ مجلس عورتوں کی عام باتوں اور گپ شپ اور ایک دوسرے کے متعلق منفی باتیں کرنے کی مجلس نہیں ہوا کرتی تھی بلکہ روحانی اور علمی باتیں ہوتی تھیں اور روایات بیان کرنے والی کہتی ہیں کہ دورانِ مجلس جب اذان کی آواز آتی تو حضرت اماں جانؓ فوری وہ باتیں چھوڑ کر حالانکہ وہ باتیں دینی باتیں ہو رہی ہوتی تھیں، روحانی باتیں ہو رہی ہوتی تھیں لیکن سب باتیں ختم کر کے فرمایا کرتی تھیں کہ میں اندر جا کے نماز پڑھ رہی ہوں تم لوگ بھی نماز پڑھ لو اور پھر نماز سے واپس آ کر پوچھتیں کہ تم نے نماز پڑھی ہے؟ اکثر خواتین تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک خاص تعلق رکھنے والی تھیں۔

بعض دفعہ بعض خواتین اپنے چھوٹے بچوں کی وجہ سے عذر بھی پیش کر دیتی تھیں۔ ایک خاتون ایسے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ حضرت اماں جانؓ اندر سے نماز پڑھ کر جب واپس آئیں تو پوچھا کہ نماز پڑھ لی؟ وہ خاتون کہتی ہیں کہ میری گود میں چھوٹا بچہ تھا اور بچے کے پیشاب وغیرہ کی وجہ سے شبہ تھا کہ میرے کپڑے گندے نہ ہوں تو میں نے کہا کہ مجھے شبہ ہے شاید بچے کی وجہ سے میرے کپڑے صاف نہ ہوں تو مَیں گھر جا کر نماز پڑھ لوں گی۔ اس پر

حضرت اماں جانؓ نے بڑی ناراضگی کا اظہار کیا کہ اپنے نفس کے بہانوں کو بچوں پر نہ ڈالا کرو۔ بچے اللہ تعالیٰ کا انعام ہوتے ہیں ان کو انعام سمجھو اور انہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں روک نہ بناؤ۔

اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے۔ یہ کوئی بہانہ نہیں ہے کہ میرے کپڑے گندے ہیں۔

(ماخوذ از سیرت حضرت اماں جانؓ از صاحبزادی امۃ الشکور صاحبہ صفحہ 22 شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان)

تو ایسی مائیں جو اس طرح کے عذر تلاش کرتی ہیں ان کے لیے نصیحت ہے کہ بچوں کو انعام سمجھیں اور بچوں کے بعد پہلے سے بڑھ کر اپنی عبادت کی طرف توجہ دیں۔ اللہ تعالیٰ تو بے نیاز ہے، وہ جب دیکھے کہ یہ بچہ میری عبادت میں روک بن رہا ہے تو پھر وہ واپس بھی لے سکتا ہے۔ یا پھر کسی ایسی مشکل میں عورت کو ڈال سکتا ہے جو ساری عمر کے لیے بے چینی کا باعث بنے۔ (اس موقع پر ڈیوٹی پر موجود ایک بچی گر گئی تو حضورانور ایدہ اللہ نے صدر صاحبہ لجنہ کو فرمایا کہ دیکھ لیں اگر یہ کوئی مریضہ ہے تو پھرباہر لے جائیں)۔

پس بڑے خوف سے اور شکر گزاری کے جذبات سے لبریز ہو کر بچوں کی پیدائش کے بعد عبادتوں کی طرف ہر ماں کو توجہ دینی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے کہ پہلے تم لوگ مرد اور عورت دونوں صحت مند بچے کی دعا مانگتے ہو۔ جب اللہ تعالیٰ بچہ دے دیتا ہے تو پھر اسے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں شریک بنا لیتے ہو۔ بچپن میں نہیں تو بڑے ہو کر بچے پھر ماں باپ کے مقابلے میں بھی کھڑے ہو جاتے ہیں اور دین سے بھی ہٹ جاتے ہیں۔ پھر لوگ خط لکھتے ہیں، افسوس کرتے ہیں کہ پتہ نہیں کیا ہوا، ہمارا بچہ بگڑ گیا۔ حالانکہ ان کو پتہ ہے کہ

بچے کے بگڑنے کی وجہ ماں باپ کے رویے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے ان کے تعلق کی دُوری ہے اور ان کے دین کی تربیت کا صحیح حق ادا نہ کرنے کی وجہ ہے۔

اگر بچپن سے ہی بچوں کے لیے دعا کریں اور ان کے سامنے اپنے نمونے قائم کریں، اور جن ماؤں کے یہ نمونے ہوتے ہیں الا ماشاء اللہ ان کے بچے نیکیوں پر قائم ہوتے ہیں اور ماں باپ کے بھی اطاعت گزار ہوتے ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ

بچے جب ہوش کی عمر میں آتے ہیں تو ماں باپ کے نمونے بھی دیکھتے ہیں۔ اگر وہ ماں باپ نیک نمونے دکھانے والے ہیں، اپنی عبادتوں کے حق ادا کرنے والے ہیں، ایمان میں پختہ ہیں تو بچے بھی دین کی طرف مائل ہوتے ہیں ورنہ دور ہٹتے چلے جاتے ہیں۔

بچے سوال لکھ کر مجھے بھیج دیتے ہیں، پوچھتے بھی ہیں کہ ہم کیوں اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں؟ اگر ماں باپ نے بچپن سے ہی ان کے کان میں ڈالا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی شکرگزاری کے لیے اور شکر گزاری کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں اور پھر گھر کے ماحول کو بھی ایسا رکھیں کہ دینی سوالوں کے جواب دیں تو پھر یہ سوال بچوں کے دل میں پیدا نہ ہوں اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب خود بھی ماں باپ علاوہ عبادتوں کی طرف توجہ دینے کے اپنے دینی علم کو بھی بڑھائیں لیکن عموماً دیکھا گیا ہے کہ اس طرف ماں باپ کی توجہ نہیں ہے۔ ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

باپ کو پیسہ کمانے اور باہر کی دنیا سے دلچسپی ہے۔ اس کو اسی سے فرصت نہیں ہے اور ماں کو بھی، بہت ساری ایسی مائیں ہیں جن کو اپنی مجلسیں جمانے سے فرصت نہیں۔ ڈراموں اور فضول پروگراموں کو دیکھنے سے فرصت نہیں یا پھر یہ بھی ہے کہ آجکل کی دنیا میں کمانے کی، دولت کمانے کی جو دوڑ لگی ہوئی ہے اس میں یہ بھول جاتی ہیں کہ ہماری بنیادی ذمہ داریاں کیا ہیں اور دنیا کمانے کی طرف توجہ شروع ہو جاتی ہے۔ اگر قناعت ہو تو جو ملتا ہے اس میں بھی گزارا ہو سکتا ہے۔ بچوں کو اپنا سب سے بڑا سرمایہ سمجھیں۔ تو ایسی مائیں پھر بچوں کے حق بھی مار رہی ہوتی ہیں۔ جب بچے گھر آئیں تو ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ اسی طرح عبادتوں کا حق ادا نہ کرکے اللہ تعالیٰ کا حق بھی مار رہی ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا حق بھی اس کا جو تقاضا ہے اس طرح ادا نہیں کر رہی ہوتیں۔ پس

اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے کے لیے بھی اور اپنے بچوں کا مستقبل اور عاقبت سنوارنے کے لیے بھی دعاؤں کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ اپنی نمازوں کی حفاظت کی ضرورت ہے۔

اس بات کو اپنے بچوں کے ذہنوں میں اچھی طرح راسخ کرنے اور بٹھانے کی ضرورت ہے اور یہ چیز ایک مومنہ مسلمان احمدی عورت کا وصف ہونا چاہیے ورنہ زمانے کے امام کو ماننے کے دعوے بالکل کھوکھلے ہیں۔ پس

اپنے آپ کو جماعت میں شامل کرنے کے مقصد کو سامنے رکھیں۔ جماعت میں شامل ہوئی ہیں تو اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرتے ہوئے اپنے خدا سے زندہ تعلق جوڑنے کی کوشش کریں۔

پھر یہی نہیں کہ صرف اپنا تعلق جوڑنا ہے بلکہ اپنے بچوں کا بھی تعلق جوڑنا ہے۔ لڑکے ہوں یا لڑکیاں ان کو خداتعالیٰ کے قریب لانے والا بنانا ہے اور یہ اسی صورت میں ہے کہ بچوں سے بھی آپ کا ایسا دوستانہ تعلق ہو کہ وہ ہر بات آپ سے کریں۔ آجکل جس طرح دنیا میں لغویات سکھائی جا رہی ہیں ان حالات میں ضروری ہے کہ ماں باپ کو بچوں کی ہر حرکت اور ہر مجلس کا علم ہو اور وہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ان میں یہ اعتماد ہو کہ ہم اپنے ماں باپ سے بات کریں گے تو وہ ہماری باتیں سن کر ہماری اصلاح کے لیے ہماری بہتری کے لیے ہمیں سمجھائیں گے۔ (مجھے لگتا ہے کہ گونج پیدا ہو رہی ہے۔ ساؤنڈ سسٹم والے یہ دیکھ لیں)

بہرحال ان حالات میں اصلاح کے لیے ماں باپ کا کردار بہت اہم ہے جبکہ دنیا میں ہر طرف لغویات پھیلی ہوئی ہیں اور سکولوں میں بھی ایسا ماحول ہے جہاں بچے دنیاوی تعلیم تو بیشک حاصل کرتے ہیں لیکن لغویات کی طرف بھی ان کی بہت توجہ ہوتی ہے لیکن

یاد رکھیں! اگر خود ہم اللہ تعالیٰ کو بھول گئے، ماں باپ نے اس کا حق ادا نہ کیا اور دنیا کے جھمیلوں میں پڑ گئے تو پھر اگلی نسل کی کوئی ضمانت نہیں۔

بعض عورتوں کے بڑے درد بھرے خط ہوتے ہیں، خود بھی آ کر بیان کر دیتی ہیں کہ سب بچے، لڑکے بھی اور لڑکیاں بھی، مختلف برائیوں میں پڑ گئے ہیں اور معاشرے کی برائیوں کے اندر بہت زیادہ ڈوب گئے ہیں اور اس کی وجہ ایک یہ بھی ہوتی ہے کہ میاں بیوی کی آپس کی چپقلش ہے۔ دنیا کی باتوں میں الجھنے اور دین کو پیچھے کرنے کی وجہ سے آپس میں ان کی چپقلشیں ہوتی ہیں، خواہشات بڑھی ہوئی ہوتی ہیں، خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں۔ ہر ایک اپنے حق کو فوقیت دے کر اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ عورت کہتی ہے یہ میرا حق ہے، مرد کہتا ہے یہ میرا حق ہے اور نقصان بچوں کا ہو رہا ہوتا ہے اور یہ بھول جاتے ہیں کہ بچوں کے حقوق ادا کرنے کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے جو آپس میں مل جل کر ادا ہو سکتے ہیں۔ نہ عورت اس طرف توجہ دیتی ہے، نہ مرد اس طرف توجہ دیتا ہے۔

جب بچے بگڑ گئے تو پھر خیال ہوتا ہے کہ ہماری گھریلو ناچاقیاں ہیں لیکن جب یہ خیال آیا اس وقت بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ پس دونوں کو اپنے مستقبل کے بارہ میں سوچنا چاہیے، بچوں کے مستقبل کے بارہ میں سوچنا چاہیے

اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے بار بار نکاح کے وقت تقویٰ پر چلنے کی طرف توجہ دلائی ہے اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس میں، نکاح کے خطبہ میں، یہ بھی فرمایا کہ اپنے مستقبل کو دیکھو۔ اس طرف دیکھنے کی اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے۔

پس بعد میں رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

خدا تعالیٰ سے تعلق مضبوط کر لیں تو ہم خود بھی بچ سکتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی بچا سکتے ہیں۔ خدا کرے کہ ہر ماں اپنے بچوں کے دل میں یہ بات میخ کی طرح گاڑ دے کہ بغیر خدا کے نہ ہماری دنیا ہے نہ عاقبت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرو اور اس کی عبادت کر کے اپنی زندگی کے مقصد کو پہچانو۔

اگر دلوں میں یہ بات بیٹھ جائے تو پھر آپ بہت حد تک اس فکر سے آزاد ہو جائیں گی کہ باہر کے ماحول کے زیراثر ہمارے بچے مذہب سے دور نہ ہو جائیں۔ بہرحال یہ ماؤں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ یہ نہ سمجھیں کہ یہاں بچے پڑھ لکھ کر دنیاوی لحاظ سے قابل بن جائیں تو یہ کافی ہے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ جب ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو مانا ہے، جب ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ ہم حقیقی اسلام کی پہچان کرنے والے بنیں گے تو ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پھر ہم نے اس عہد کو پورا بھی کرنا ہے۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد کو پورا کر کے ہی ہم اپنے ایمان کی مضبوطی کا دعویٰ کر سکتے ہیں ورنہ اگر کمزور حالت ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی پروا نہیں کرتا۔ پس بڑی توجہ اور خوف سے اس طرف توجہ دینے کی ضرور ت ہے۔

نمازوں کی اہمیت

کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِ۔(العنکبوت:46) یعنی یقیناً نماز تمام بری باتوں اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کی جائے نہ کہ دنیا دکھاوے کے لیے اور نہ ہی گلے پڑا ایک فرض سمجھ کر اس کو اتارا جائے۔ جلدی جلدی نماز ختم کر لی۔ ایسی نمازیں کچھ فائدہ نہیں دیتیں بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کاہلی اور سستی سے ادا کی گئی نمازیں ہیں جو بغیر توجہ کے ادا کی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے تو پھر ایسی نمازوں کو اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا ہے۔ پس بہت خوف کا مقام ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مَیں نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے لیکن ان کا حق بھی ہم نے ادا کرنا ہے۔ یہ

عبادتیں اللہ تعالیٰ کے مقام کو بلند کرنے کے لیے نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس لیے نہیں کہا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کو کچھ حاصل ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کا مقام اس سے بلند نہیں ہوتا بلکہ یہ عبادتیں خود اس عبادت کرنے والے کی دنیا و عاقبت کو سنوارنے والی ہوتی ہیں

کیونکہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے مجھے تمہاری عبادتوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ تمہیں ضرورت ہے۔ پس آپ جن کے ہاتھوں میں مستقبل کی نسلوں کو سنوارنے کی ذمہ داری ہے آپ کا کام ہے کہ اپنی نمازوں کی حفاظت کریں۔ اپنے آپ کو بھی ایک خدا کی عبادت کرنے والا بنائیں اور اپنے بچوں کے لیے بھی اپنے نمونے قائم کرتے ہوئے ان کی بھی نگرانی کریں تا کہ ان کو اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو۔ یہ دیکھیں کہ یہ تعلق پیدا ہو رہا ہے کہ نہیں۔ ہر موقع پر آپ کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بچوں کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کی عمر کے ساتھ ساتھ اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کس طرح ان کی دینی ماحول میں تربیت ہو رہی ہے اور کس حد تک ان کا دین سے تعلق پیدا ہو رہا ہے، اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو رہا ہے۔

بعض لوگ اظہار کرتے ہیں، خاص طور پر مائیں یہ اظہار کرتی ہیں کہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ایک عمر کے بعد بچے اس طرح دین کی طرف توجہ نہیں دیتے جس طرح پہلے دے رہے ہوتے ہیں۔ تیرہ چودہ پندرہ سال کی عمر میں لڑکے لڑکیاں بہت حد تک دین سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں لیکن جب وہ جوانی کی عمر کو پہنچتے ہیں تو ایک دم جماعت سے بھی ہٹ جاتے ہیں، دین سے بھی ہٹ جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ سے بھی دور ہو جاتے ہیں اور معاشرے کے گند میں پڑ جاتے ہیں۔ بعض بچے بلوغت کی عمر کو پہنچ کر جب یہاں کا قانون آزادی دے دیتا ہے تو گھروں سے نکل بھی جاتے ہیں، اس میں لڑکیاں بھی شامل ہیں، لڑکے بھی شامل ہیں۔ بہرحال یہ جو ماں باپ کہتے ہیں کہ پتہ نہیں کیا ہوتا ہے جیسا کہ میں نے پہلے کہا اس کی وجہ یہی ہے کہ ماں باپ بچوں سے صحیح تعلق نہیں رکھتے اور ایک عمر کے بعد پھر بچے باہر کے ماحول سے متاثر ہو کر اپنی خاندانی عزت اور وقار اور اپنے گھر کی عزت اور وقار کو بھول جاتے ہیں، خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں اور یہی سمجھتے ہیں کہ جو باہر کی دنیا ہے وہی اصل دنیا ہے اور اسی کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوتی ہے لیکن اس کے لیے بھی دعا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے بھی اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

اگر ماں یا باپ یا ان میں سے کوئی ایک بھی اپنے نمونے قائم کر کے تربیت کی طرف توجہ نہیں دے رہا اور بچوں کے لیے دعا نہیں کر رہا تو پھر بچوں کے بگڑنے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ پس یہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ اس طرف ہمیشہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

پھر گھروں کے ماحول کو جب آپ پاک کر لیں گی تو پھر آپ اس کوشش میں بھی رہیں گی کہ زمانے کی لغویات اور فضولیات اور بدعات آپ کے گھروں پر اثر انداز نہ ہوں کیونکہ یہی چیزیں ہیں جو ان پاک تبدیلیوں کی کوششوں کو ختم کر دیتی ہیں،گھن کی طرح کھا جاتی ہیں۔ یہاں اس معاشرے میں جس کو آجکل تہذیب یافتہ معاشرہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہاں ترقی یافتہ ملکوں کی ہر چیز تہذیب یافتہ نہیں، بعض باتیں ایسی سکھائی جاتی ہیں جو آزادی کے نام پر تہذیب سے دور لے جانے والی ہیں، اخلاق سے دور لے جانے والی ہیں، برائیوں میں ڈالنے والی ہیں۔ یہی بعض لوگ جو یہاں کے بڑے ترقی یافتہ لوگ کہلاتے ہیں لہو و لعب میں پڑے ہوئے ہیں اور برائیوں میں پڑے ہوئے ہیں اور ان برائیوں کو یہ آزادی سمجھتے ہیں۔ آزادیٔ خیال اور آزادیٔ ضمیر کے نام پر سڑکوں، گلیوں، بازاروں میں بیہودہ حرکتیں ہو رہی ہوتی ہیں۔ آجکل گرمی کے دن ہیں تو آپ دیکھیں گے کہ نہ ہونے کے برابر لباس ہے۔ ان ننگے لباسوں کو یہ لوگ، یہ دنیا دار تہذیب کہتے ہیں، آزادی کہتے ہیں اور فرانس وغیرہ میں تو اب اس کی پابندی ہے کہ اگر ہمارے ملکوں میں رہنا ہے تو ہماری طرح بنو۔ کسی قسم کا حجاب بھی منع ہے۔ حالانکہ انہی ملکوں میں چند سو سال پہلے یا کچھ دہائیاں پہلے بھی شرافت تھی تو اکثریت ڈھکے ہوئے لباس پہنا کرتی تھی۔ ان کے لباس مناسب ہوتے تھے۔ اب کہنے کو تو یہ کہتے ہیں کہ ہم بڑے تہذیب یافتہ ہیں، ہم ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہیں اور اس وجہ سے ہم بڑی ترقی کر گئے ہیں لیکن یہ ننگ جو ہے ان کو تہذیب سے دور لے جا رہا ہے، جو اس تہذیب سے دور لے جا رہا ہے جو برائیوں کو روکنے والی ہے۔ غیر ترقی یافتہ ملکوں میں، جنگلوں میں رہنے والے لوگوں کی حالت جب ہم دیکھتے ہیں کہ جب وہ لباس نہیں پہنتے یا کم لباس ہوتا ہے تو انہیں یہی لوگ غیرتہذیب یافتہ کہتے ہیں۔ ٹھیک ہے ان کی علمی قابلیت اتنی زیادہ نہیں ہوتی لیکن پھر بھی ان میں تہذیب ہے۔ اپنے مطابق تو ان کی تہذیب ہے۔ اگر وہاں ان کے رواج ہیں تو وہ اپنے موسم کے لحاظ سے ان کے بعض رواج ہیں لیکن بہرحال یہ لوگ ان کو غیر تہذیب یافتہ لوگ اس لیے کہتے ہیں اور ایک وجہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ دیکھو جی یہ ننگے رہتے ہیں لیکن وہی حرکتیں لباس کے لحاظ سے اپنے ننگ کو ڈھانکنے کے لحاظ سے اس میں کمی کے لحاظ سے جب ان میں ظاہر ہوتی ہیں تو یہ لوگ اس کو پھر تہذیب کہتے ہیں اور ہم لوگ ایسے لوگ ہیں ہم میں سے جن میں احساس کمتری ہے وہ ان کی باتوں کو تہذیب سمجھ کر اس میں مبتلا ہونے کی کوشش کرتے ہیں یا آزادی کے نام پر ان کی باتیں سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پس اگر ہمارے گھروں میں دینی ماحول ہو گا، اگر ہماری دعاؤں کی طرف توجہ ہو گی تو ہم ان چیزوں سے بچنے والے ہوں گے۔ پس آجکل کے ماحول میں خاص طور پر اس بات پر نظر رکھیں۔ یہ لغویات جو ہیں ہمارے گھروں میں بھی بہت زیادہ آ گئی ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ سے، ٹی وی کے ذریعہ سے اب تو ہر ایک کے ہاتھ میں آئی فون یا آئی پیڈ یا ٹیبلٹس وغیرہ ہوتے ہیں ان کے ذریعہ سے کوئی بھی گندی اور لغو فلمیں اور ننگی تصویریں دیکھ سکتے ہیں اور یہی چیز دجال کی وہ چالیں ہیں جو خدا تعالیٰ سے دُور کرنے والی ہیں اور لوگوں کو دین سے ہٹانے والی ہیں۔ دنیا داروں کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ ہم تو یہ باتیں اس لیے سکھاتے ہیں کہ بچوں کو جنسی تعلقات کا پتہ لگے تا کہ وہ ان برائیوں سے بچ سکیں حالانکہ بچنے کے بجائے جس عمر میں یہ باتیں سکھائی جاتی ہیں اس عمر میں بعض دفعہ بعض بچوں کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھتے ہیں کہ یہ باتیں ہمیں کیوں سکھائی جا رہی ہیں جس کا ہمیں پتہ ہی نہیں ہے اور جو زیادہ جوانی کی عمر میں قدم رکھتے ہیں تو پھر وہ اس سے بچنے کی بجائے ان کو اختیار کرنے کی طرف توجہ کرتے ہیں جس سے پھر ان میں مزید برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ پس یہ چیزیں ہیں جو ہمارے اخلاق کو بھی تباہ کر رہی ہیں اور ہمیں دین سے بھی دور ہٹا رہی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا کہ اپنے تمام اعضاء کو زنا سے بچاؤ۔

(ماخوذ از اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 342-343)

پس ہر عورت کو، ہر مرد کو ،مرد بھی میرے مخاطب ہیں، ایک فکر کے ساتھ اپنے بچوں کو سمجھانا چاہیے اور ہر بچی کو بھی جو بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہے اور ہر لڑکے کو بھی جو بلوغت کی عمر کو پہنچ چکا ہے یہ احساس ہونا چاہیے اور ان کو احساس دلانا چاہیے کہ یہ برائیاں ہیں جو مزید گندگیوں میں دھکیلتی چلی جائیں گی اس لیے ان سے بچنا ہے۔ ہر ایسی چیز جس کا ناجائز استعمال شروع ہو جائے وہ لغویات میں شامل ہے۔

مثلاً انٹرنیٹ کے بارے میں مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کئی دفعہ کہ یہ اس زمانے کی ایجاد ہے۔ یہ ایجاد اللہ تعالیٰ نے مسیح موعودؑ کے زمانے میں مقدر کی ہوئی تھی۔ قرآن کریم میں مختلف ایجادات کا اعلان بھی فرما دیا۔ انٹرنیٹ بھی ان میں سے ایک ہے اور ٹیلیفون کا نظام جو ہے وہ بھی اس میں سے ایک ہے۔ ٹیلیویژن کا نظام ہے وہ بھی اس میں سے ایک ہے جنہیں اس زمانے میں اشاعت اسلام کے لیے کام آنا تھا لیکن اگر ان ایجادات کا غلط استعمال کریں گی تو یہ لغویات میں شمار ہوں گی اور ایسی لغویات سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور اس سے بچنے کا بھی حکم دیا ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے۔ مومن کی تعریف یہ ہے کہ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ (المؤمنون:4)۔ جو لغو باتوں سے اعراض کرنے والے ہیں، لغویات سے بچنے والے ہیں۔ جب انٹرنیٹ پر دوسروں کا مذاق اڑانے اور پھکڑ توڑنے کے لیے دوستوں سے چیٹ کریں گے اور اس میں ایک دوسرے کے خلاف باتیں کریں گے تو یہ برائیوں کی طرف لے جانے والی باتیں ہوں گی۔ یہ رشتوں میں دراڑیں پیدا کرنے کا ذریعہ بنیں گی۔ کسی دوسری عورت کی زندگی کو بربادکرنے کے لیے بھی یہ باتیں بعض دفعہ ذریعہ بن جاتی ہیں۔ اسی طرح ان میں ایک دوسرے کی چغلیاں بھی ہو رہی ہوتی ہیں یہی کارآمد چیز جو ہے یہ لغویات میں شمار ہو جاتی ہے اور پھر اس لحاظ سے گناہ بن رہی ہوتی ہے۔

پھر آجکل موبائل پر ٹیکسٹ پیغامات دیے جاتے ہیں۔ وٹس ایپ پر اور میسنجر اور وائبر اور ساری قسم کی سائٹس بنی ہوئی ہیں۔ یہ بھی آجکل گپیں مار کر وقت ضائع کرنے کا اور نامحرموں سے باتیں کرنے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ بڑے آرام سے کہہ دیا جاتا ہے کہ ٹیکسٹ میسج تھا، کون سی بات کر لی؟ ایک دوسرے سے رابطے اسی طرح بڑھتے ہیں۔ ایک سہیلی نے اپنے دوستوں میں سے کسی کو فون دے دیا یا اپنے دوستوں کو اپنی سہیلی کا فون دے دیا یا پھر کسی اَور ذریعہ سے نمبر ہاتھ لگ گیا اور پھر ٹیلیفون پر ٹیکسٹ میسج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اب بارہ تیرہ چودہ سال کے بچے بچیاں پھر رہے ہوتے ہیں، ایک دوسرے کو میسج دے رہے ہوتے ہیں اور یہی عمر ہے جو خراب ہونے کی عمر ہے اور پھرآخر کار انجام ایسی حد تک چلا جاتا ہے کہ جہاں وہ جو لغو ہے، وہ گناہ بن جاتا ہے۔ اس لیے

احمدی بچیاں اپنی عصمت کی خاطر، اپنی عزت کی خاطر، اپنے خاندان کے وقار کی خاطر، اپنی جماعت کے تقدس کو مدنظر رکھتے ہوئے، اپنے خدا کی رضا کو حاصل کرنے کے لیے ان چیزوں سے بچیں اور احمدی مرد اور لڑکے بھی ان باتوں سے بچیں۔

اب بعض لوگ مجھے لکھتے ہیں، بعض بچیاں بھی لکھتی ہیں کہ ہم نے صرف میسج کیا تھا، دوست نے ہمارے فلاں دوست کا ایڈریس دیا تھا لیکن ہمارے ماں باپ نے دیکھ لیا تو ان کو پسند نہیں آیا۔ اگر ان کو پسند نہیں آیا تو انہوں نے صحیح کیا۔ یقینا ًان کو پسند نہیں آنا چاہیے تھا کیونکہ بارہ ،تیرہ ،چودہ سال کی عمر میں جب ایسے میسج ہوں گے تو پھر غلط قسم کی باتیں بھی ان میں شروع ہو جائیں گی۔ خود بعض لکھنے والی بچیاں لکھتی ہیں کہ یہ ٹھیک ہے کہ اکثر جو ہماری چیٹنگ ہوتی ہے اس میں سیکس کی باتیں ہو رہی ہوتی ہیں۔ بیہودہ لغو باتیں ہو رہی ہوتی ہیں۔ اب اس عمر میں سیکس کا کیا تعلق ہے حالانکہ اس عمر میں تو بچوں کو اپنی پڑھائی کی طرف توجہ دینی چاہیے اور پھر دینی علم حاصل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اگر ماں باپ اس طرف توجہ دے رہے ہوں گے تو بچے بھی اس طرف توجہ رکھیں گے۔

پھر میں نے لباس کی بات کی ہے۔ اس کا دوبارہ ذکر کر دوں کہ ہر قسم کی بیہودگی اور ننگ کا احساس ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ماں باپ کہہ دیتے ہیں کوئی بات نہیں بچیاں ہیں۔ فیشن کرنے کا شوق ہے کر لیں ۔کیا ہرج ہے؟ ٹھیک ہے فیشن کریں لیکن فیشن میںجب لباس ننگے پن کی طرف جا رہا ہو تو وہاں بہرحال روکنا چاہیے۔ اسی طرح بعض دفعہ دین کے نام پر بھی فیشن ہو جاتا ہے جو غلط ہے۔ دین کے نام پر فیشن کیا ہے؟ مثلاً برقع ہے، برقع میں جو کوٹ پہنا جاتا ہے وہ اس قدر تنگ ہوتا ہے کہ مردوں کے سامنے جانے کے قابل ہی نہیں ہوتا۔ تو ایسے فیشن بھی منع ہیں۔ برقعے کا کوٹ ڈھیلا ڈھالا ہونا چاہیے نہ یہ کہ بالکل جسم کے ساتھ چمٹا ہو کیونکہ پھر نہ یہ دین رہے گا اور نہ دین میں فیشن کی اس حد تک اجازت رہے گی جس سے عورت کی حیا قائم رہے کیونکہ یہ بے حیائی بن جائے گی۔ پھر آہستہ آہستہ سارے حجاب اٹھ جائیں گے اور اسلام حیا کا حکم دیتا ہے۔ پس اپنی حیا اور حجاب کا خیال رکھیں اور اس کی حدود میں رہتے ہوئے جو فیشن کرنا ہے کریں۔ فیشن سے منع نہیں کیا جاتا لیکن فیشن کی بھی کوئی حدود ہوتی ہیں، اس کا بھی خیال رکھیں۔ فیشن کا اظہار اپنے گھر والوں اور شریف عورتوں کی مجلسوں میں کریں۔ بازار میں اور باہر ایسی جگہوں پر جہاں مردوں کا سامنا ہو وہاں فیشن کے اظہار ایسے نہیں ہونے چاہئیں جس سے بلا وجہ کی برائیاں پیدا ہونے کا امکان ہو۔

اسلامی پردے کی تعریف قرآن کریم نے بڑی کھول کر بیان کر دی ہے۔ اس کو پڑھیں۔ اس پر عمل کریں۔ اس بارہ میں مَیں پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکا ہوں۔ مجھ سے پہلے خلفاء بھی اس بارے میں سمجھا چکے ہیں۔ اس پر ہمیں عمل کرنا چاہیے۔ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں جماعت بڑی سختی کرتی ہے۔ یہ جماعت احمدیہ کا موقف نہیں ہے۔ یاد رکھیںکہ یہ قرآن کریم کی تعلیم ہے کہ اپنے پردے کا خیال رکھو، اپنے سروں کو ڈھانپو، اپنے چہروں کو ڈھانپو، اپنے جسم کو ڈھانپو اور کوئی زینت کی چیز نظر نہ آئے۔ چادر سے بھی اگر کسی نے پردہ کرنا ہے تو سر اور بال ڈھکے ہوں، گال ڈھکے ہوں، ٹھوڑی ڈھکی ہو، سینہ ڈھکا ہو پھر ہی وہ صحیح پردہ ہے۔ نہیں تو وہ صحیح پردہ نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ کا حیا کو قائم رکھنے کے لیے اور اپنی عزت اور عصمت کو قائم رکھنے کے لیے حکم تو یہاں تک ہے کہ عورت مردوں سے بات بھی ایسے رنگ میں کرے، ایسے لہجے میں کرے جس سے کسی قسم کی نرم آواز کا اظہار نہ ہو، تا کہ مردوں کے دل میں بھی کبھی غلط خیال پیدا نہ ہو کجا یہ کہ مردوں سے کھلے عام میل جول رکھا جائے یا دوستیاں کی جائیں۔

ایک عمر کے بعد بچیاں اپنے کلاس فیلوز اور سکول فیلوز لڑکوں سے بھی ایک حجاب پیدا کریں۔ جب بھی پڑھائی کے تعلق سے ضرورت ہو تو حجاب کے اندر رہتے ہوئے بات کرنی چاہیے اور لڑکیوں کو خود بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے اور ماں باپ کو بھی، خاص طورپر مائیں جو ہیں، ان کو اس بات کی نگرانی کرنی چاہیے اور بچیوں کو سمجھاتے بھی رہنا چاہیے اور دلیل سے ان سے بات کریں تو بچیاں سمجھ جاتی ہیں۔ ایک عمر کے بعد اگر لڑکی دوسرے گھر میں جاتی ہے، کسی اپنے دوست کے گھر میں جاتی ہے یا رشتہ داروں کے گھر میں بھی جاتی ہے تو محرم رشتوں کے ساتھ جائے اور جس گھرمیں کسی سہیلی کے بھائی کسی وقت موجود ہوں تو خاص طور پر ان اوقات میں ان گھروں میں نہیں جانا چاہیے جبکہ بڑے بھی وہاں موجود نہ ہوں۔ پھر بعض جگہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی احساس نہیں دلایا جاتا تو جو کلاس فیلو لڑکے ہوتے ہیں وہ گھروں میں بڑی عمر تک آتے چلے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ بہت سے احمدی گھرانے ایسے ہیں جو ان باتوں کا خیال رکھتے ہیں اور لڑکیاں خود بھی یہ چیزیں پسند نہیں کرتیں اور مائیں بھی ان کو سمجھاتی رہتی ہیں لیکن اب یہ برائیاں معاشرے میں اتنی عام ہو گئی ہیں کہ پھیلتی چلی جارہی ہیں اور خود دنیاداروں کو بھی اس کا احساس پیداہونا شروع ہو گیا ہے کہ یہ اب برائیاں بن رہی ہیں اور جماعت میں بھی اس کی شکایات بڑھتی چلی جا رہی ہیں اس لیے اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ ہم نے، ہر لڑکی نے، اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کرنی ہے اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے۔ یہ بات ہمارے ذہنوں میں اچھی طرح بیٹھ جانی چاہیے۔ لجنہ کے انتظام کو بھی اس کے لیے کوشش کرتے رہنا چاہیے اور ہر پروگرام میں یہ بات اچھی طرح بچیوں کے ذہن میں ڈالنی چاہیے کہ تمہارا ایک تقدس ہے اور اس معاشرے میں جس میں جنسی بے راہ روی بہت زیادہ ہے تم اب شعور کی عمر کو پہنچ گئی ہو اس لیے خود اپنی طبیعت میں حجاب پیدا کرو جو تمہارے اور تمہارے خاندان کے اور جماعت کے لیے نیک نامی کا باعث ہو اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے والا ہو۔ اگر یہ چیزیں پیدا ہوں گی تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ ہم دنیاوی برائیوں سے محفوظ رہیں گے اور اگر یہ کوشش ہو گی تو پھر ان شاءاللہ الا ماشاء اللہ تمام بچیاں نیکی کی راہ پر قدم مارنے والی ہوں گی۔

یہی باتیں لڑکوں کو بھی اپنے سامنے رکھنی چاہئیں بلکہ ایک عمر کے بعد لڑکے ایسی باتوں میں زیادہ ملوث ہوتے ہیں جو برائیاں ہیں۔

پھر ہر بچی اور ہر عورت یاد رکھے کہ اس نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو مان کر اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کے عہد کی تجدید کی ہے۔ یہ عہد کیا ہے کہ اپنے آپ کو دوسروں سے ممتاز کروں گی۔ میرے میں اور دوسروں میں ایک فرق نظر آئے گا۔ کوئی انگلی ہماری طرف اس اشارے کے ساتھ نہیں اٹھ سکتی کہ یہ لڑکی بڑی دنیادار ہے، دین سے ہٹی ہوئی ہے اور لغو حرکات کرنے والی ہے۔ ہر عورت بھی اگر اس کا خیال رکھے گی کہ مَیں نے زمانے کے امام کے ساتھ ایک عہد کیا ہے، میں نے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنی ہے، اپنی اولاد کے اندر بھی پاک تبدیلی پیدا کرنی ہے اور اس کے لیے اپنی کوشش کرنی ہے تو ان شاء اللہ تعالیٰ ایسی عورتیں اور ایسی بچیاں معاشرے میں ایک مقام حاصل کرنے والی ہوں گی اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے ان کوششوں کے ساتھ جب وہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے اس کی عبادت کرنے والی ہوں گی تو پھر اللہ تعالیٰ ہم میں وہ پاک تبدیلیاں پیدا کر دے گا، آپ کی اولادوں میں وہ پاک تبدیلیاں پیدا کر دے گا جس سے آپ کو معاشرے میں ایک مقام حاصل ہو گا جہاں آپ کا اور آپ کے بچوں کا نام بڑے احترام سے لیا جائے گا۔ خدا تعالیٰ ہم سب کو یہ مقام حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو ہماری آئندہ نسلوں کی پاکیزگی کی ضمانت ہواور ہم اس زمانے کے امام سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرنے والے ہوں۔

آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’اس سلسلہ میں داخل ہو کر تمہارا وجود الگ ہو اور تم بالکل ایک نئی زندگی بسر کرنے والے انسان بن جاؤ۔ جو کچھ تم پہلے تھے وہ نہ رہو۔

یہ مت سمجھو کہ تم خدا تعالیٰ کی راہ میں تبدیلی کرنے سے محتاج ہو جاؤ گے یا تمہارے بہت سے دشمن ہو جائیں گے۔ نہیں، خدا کا دامن پکڑنے والا ہرگز محتاج نہیں ہوتا۔ اس پر کبھی برے دن نہیں آ سکتے۔ خدا جس کا دوست اور مددگار ہو اگر تمام دنیا اس کی دشمن ہو جاوے تو کچھ پروا نہیں۔

مومن اگر مشکلات میں پڑے تو وہ ہرگز تکلیف میں نہیں ہوتا بلکہ وہ دن اس کے لیے بہشت کے دن ہوتے ہیں۔ خدا کے فرشتے ماں کی طرح اسے گود میں لے لیتے ہیں۔ مختصر یہ کہ خدا خود ان کا محافظ اور ناصر ہو جاتا ہے۔ یہ خدا جو ایسا خدا ہے کہ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر ہے، وہ عالم الغیب ہے، وہ حیّ و قیوم ہے۔ اس خدا کا دامن پکڑنے سے کوئی تکلیف پا سکتا ہے؟ کبھی نہیں۔ خدا تعالیٰ اپنے حقیقی بندے کو ایسے وقتوں میں بچا لیتا ہے کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد3 صفحہ263،ایڈیشن 1984ء)حقیقی بندہ بننا شرط ہے۔

پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ جب ہم نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کیا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تم نے حقیقت میں اس عہد کو پورا کیا ہے تو اللہ تعالیٰ تمہارا نگہبان ہو گا اور تمہیں بچالے گا۔ دنیا سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ دنیا سے متاثر ہونے کی کوشش نہ کرو بلکہ

ہر عورت اور ہر بچی یہ کوشش کرے کہ اس نے دنیا کو متاثر کرنا ہے۔ دنیا کو اللہ تعالیٰ کے قدموں میں لے کے آنا ہے۔ یہی ایک احمدی کی ذمہ داری ہے۔ یہی ایک احمدی کا وہ فرض ہے جس کے لیے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو مانا ہے۔ پس اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہم نے دنیا میں انقلاب لانا ہے۔ ہم نے دنیا کو سیدھی راہ دکھانی ہے۔ ہم نے دنیا کو خداتعالیٰ کے حضور جھکنے والا بنانا ہے۔ ہم نے دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانے والا بنانا ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنی حالتوں کو بھی تبدیل کرنا ہوگا، اپنی نسلوں کی حالتوں کو بھی تبدیل کرنا ہوگا اور جب یہ ہوگا تو پھر ایک انقلاب ہو گا جو ہم دنیا میں پیدا کرسکیں گے

اور اس کے لیے احمدی عورتوں اور احمدی لڑکیوں اور احمدی بچیوں کو خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ آپ ہی ہیں جو لڑکوں کی بھی اصلاح کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام آئے تھے اور یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے ہم نے آپؑ کی بیعت کی ہے ورنہ بیعت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق دے کہ اس بیعت کا حق ادا کرنے والی ہوں۔ اپنی اصلاح کرنے والی ہوں اور دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے حکم پر چلتے ہوئے دنیا میں ایک انقلاب لانے والی بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ اب دعا کر لیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button