مومن …خدا کی محبت سے مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھانا کھلاتے ہیں
وَلَا تُؤۡتُوا السُّفَہَآءَ اَمۡوَالَکُمُ الَّتِیۡ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمۡ قِیٰمًا وَّارۡزُقُوۡہُمۡ فِیۡہَا وَاکۡسُوۡہُمۡ وَقُوۡلُوۡا لَہُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا۔ وَابۡتَلُوا الۡیَتٰمٰی حَتّٰۤی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ ۚ فَاِنۡ اٰنَسۡتُمۡ مِّنۡہُمۡ رُشۡدًا فَادۡفَعُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ اَمۡوَالَہُمۡ ۚ وَلَا تَاۡکُلُوۡہَاۤ اِسۡرَافًا وَّبِدَارًا اَنۡ یَّکۡبَرُوۡا ؕ وَمَنۡ کَانَ غَنِیًّا فَلۡیَسۡتَعۡفِفۡ ۚ وَمَنۡ کَانَ فَقِیۡرًا فَلۡیَاۡکُلۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ فَاِذَا دَفَعۡتُمۡ اِلَیۡہِمۡ اَمۡوَالَہُمۡ فَاَشۡہِدُوۡا عَلَیۡہِمۡ ؕ وَکَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیۡبًا(النساء:۷-۶) وَلۡیَخۡشَ الَّذِیۡنَ لَوۡ تَرَکُوۡا مِنۡ خَلۡفِہِمۡ ذُرِّیَّۃً ضِعٰفًا خَافُوۡا عَلَیۡہِمۡ ۪ فَلۡیَتَّقُوا اللّٰہَ وَلۡیَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا۔ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ اَمۡوَالَ الۡیَتٰمٰی ظُلۡمًا اِنَّمَا یَاۡکُلُوۡنَ فِیۡ بُطُوۡنِہِمۡ نَارًا ؕ وَسَیَصۡلَوۡنَ سَعِیۡرًا (النساء:۱۱-۱۰)ترجمہ: یعنی اگر کوئی ایسا تم میں مالدار ہو جو صحیح العقل نہ ہو مثلاً یتیم یا نابالغ ہو اور اندیشہ ہو کہ وہ اپنی حماقت سے اپنے مال کو ضائع کر دے گا تو تم (بطور کورٹ آف وارڈس کے) وہ تمام مال اس کا متکفل کے طور پر اپنے قبضہ میں لے لو اور وہ تمام مال جس پر سلسلہ تجارت اور معیشت کا چلتا ہے ان بیوقوفوں کے حوالہ مت کرو اور اس مال میں سے بقدر ضرورت ان کے کھانے اور پہننے کے لئے دے دیا کرو اور ان کو اچھی باتیں قول معروف کی کہتے رہو یعنی ایسی باتیں جن سے ان کی عقل اور تمیز بڑھے اور ایک طور سے ان کے مناسب حال ان کی تربیت ہو جائے اور جاہل اور ناتجربہ کار نہ رہیں۔ اگر وہ تاجر کے بیٹے ہیں تو تجارت کے طریقے ان کو سکھلاؤ اور اگر کوئی اور پیشہ رکھتے ہوں تو اس پیشہ کے مناسب حال ان کو پختہ کر دو۔ غرض ساتھ ساتھ ان کو تعلیم دیتے جاؤ اور اپنی تعلیم کا وقتاً فوقتاً امتحان بھی کرتے جاؤ کہ جو کچھ تم نے سکھلایا انہوں نے سمجھا بھی ہے یا نہیں۔ پھر جب نکاح کے لائق ہو جاویں یعنی عمر قریباً اٹھارہ برس تک پہنچ جائے اور تم دیکھو کہ ان میں اپنے مال کے انتظام کی عقل پیدا ہوگئی ہے تو ان کا مال ان کے حوالہ کرو اور فضول خرچی کے طور پر ان کا مال خرچ نہ کرو اور نہ اس خوف سے جلدی کر کے کہ اگر یہ بڑے ہو جائیں گے تو اپنا مال لے لیں گے،ان کے مال کا نقصان کرو۔ جو شخص دولتمند ہو اس کو نہیں چاہیے کہ ان کے مال میں سے کچھ حق الخدمت لیوے لیکن ایک محتاج بطور معروف لے سکتا ہے۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد۱۰صفحہ۳۴۵-۳۴۶)
وَیُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّیَتِیۡمًا وَّاَسِیۡرًا۔ اِنَّمَا نُطۡعِمُکُمۡ لِوَجۡہِ اللّٰہِ لَا نُرِیۡدُ مِنۡکُمۡ جَزَآءً وَّلَا شُکُوۡرًا(الدھر:۹۔۱۰)یعنی مومن وہ ہیں جو خدا کی محبت سے مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھانا کھلاتے ہیں اور انہیں کہتے ہیں کہ ہم محض خدا کی محبت اور اس کے منہ کے لئے تمہیں دیتے ہیں۔ ہم تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتے اور نہ شکر گذاری چاہتے ہیں۔ غرض قرآن شریف ایسی آیتوں سے بھرا پڑا ہے جہاں لکھا ہے کہ اپنے قول اور فعل کے رو سے خدا کی محبت دکھلاؤ اور سب سے زیادہ خدا سے محبت کرو۔
(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۲۶)