خلاصہ خطبہ جمعہ

غزوۂ خندق کے تناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان:خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍ستمبر۲۰۲۴ء

٭… درجہ لقا ميں بعض اوقات انسان سے ايسے اُمور بھي ظاہر ہوتے ہيں کہ جو بشري طاقتوں سے بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہيں اور الٰہي طاقت اپنے اندر رکھتے ہيں

٭… آپؐ نے فرماياکہ اے مومنو کي جماعت! اللہ تعاليٰ کي مدد اور نصرت کے ساتھ خوش ہوجاؤ۔ مجھے يقين ہے کہ ايک وقت آئے گا کہ مَيں خانہ کعبہ کا طواف کر رہا ہوں گا اور اس کي کنجياں ميرے ہاتھ ميں ہوں گي اور قيصر و کسريٰ ضرور ہلاک ہوجائيں گے

٭… خدام الاحمدیہ کا اجتماع بھی شروع ہورہا ہے۔ خدام اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں

٭… جن دعاؤں اور درود کي طرف مَيں نے توجہ دلائي تھي اور تحريک کي تھي ان دنوں ميں اس طرف خاص توجہ رکھيں اور ہميشہ انہيں دہراتے رہيں

٭…مکرم حبیب الرحمٰن زیروی صاحب (واقفِ زندگی )آف ربوہ ، مکرم ڈاکٹر شیخ ریاض الحسن صاحب ابن مکرم بریگیڈیئرڈاکٹر ضیاء الحسن صاحب مرحوم،

مکرم پروفیسر عبدالجلیل صادق صاحب آف ربوہ اور مکرم ماسٹر منیر احمد صاحب آف جھنگ کا ذکر خیر اور نمازہ جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۰؍ستمبر۲۰۲۴ء بمطابق۲۰؍تبوک ۱۴۰۳ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۰؍ستمبر ۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمدصاحب (مربی سلسلہ) کے حصے ميں آئي۔تشہد،تعوذاورسورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:

جنگِ احزاب میں رسول اللہﷺ کی سیرت کے حوالےسے ذکر ہورہا تھا

گذشتہ خطبے میں مَیں نے کھانے میں برکت کے واقعے کا ذکر کیا تھااسی طرح کا کھجوروں میں برکت کا بھی واقعہ ملتا ہے۔ حضرت بشیر بن سعد ؓکی بیٹی بیان کرتی ہیں کہ میری ماں نےمیرے کپڑوں میں تھوڑی سی کھجوریں دے کر مجھے کہا کہ یہ اپنے باپ اور ماموں کو دے آؤ اور کہنا کہ یہ تمہارا صبح کا کھانا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ مَیں وہ کھجوریں لے کر اپنے والد اور ماموں کو ڈھونڈتے ہوئے آنحضورﷺ کے پاس سے گزری تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے لڑکی! یہ تیرے پاس کیا چیز ہے؟ مَیں نے عرض کی کہ یہ کھجوریں ہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ لاؤ! یہ کھجوریں مجھے دے دو۔ مَیں نے وہ کھجوریں آپؐ کے دونوں ہاتھوں میں رکھ دیں۔ آپؐ نے ان کھجوروں کو دو کپڑوں سے ڈھانپ دیا۔ پھر آپؐ نے ایک شخص کو کہا کہ سب لوگوں کو کھانے کے لیے بلالو، چنانچہ

سب لوگ آگئے اور کھجوریں کھانے لگے اور وہ کھجوریں زیادہ ہونے لگیں یہاں تک کہ جب سب کھا چکے تو کھجوریں کپڑے کے کناروں سے گِر رہی تھیں۔

کھانے میں برکت کا ایک اَور واقعہ بیان کرنے کے بعد حضورِانور نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے حوالے سے ’سالک‘کے مقام اور ’لقا‘کے مرتبے کے متعلق فرمایا کہ وہ خدا کا ایسا قرب حاصل کرلیتا ہے کہ جیسے آگ لوہے کے رنگ کو اپنے نیچے ایسے چھپا لیتی ہے کہ بظاہر بجز آگ کے کچھ نظر نہیں آتا۔ فرمایا کہ اس درجہ لقا میں بعض اوقات انسان سے ایسے اُمور بھی ظاہر ہوتے ہیں کہ جو بشری طاقتوں سے بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور الٰہی طاقت اپنے اندر رکھتے ہیں جیسےہمارے سید و مولیٰ سیدالرسل حضرت خاتم الانبیاء ﷺ نے جنگِ بدر میں ایک سنگریزوں کی مٹھی کفار پر چلائی اور وہ مٹھی کسی دعا کے ذریعے سے نہیں بلکہ اپنی روحانی طاقت سے چلائی مگر اس مٹھی نے الٰہی طاقت دکھلائی اور مخالف کی فوج پر ایسا خارق عادت اس کا اثر پڑا کہ کوئی ان میں سے ایسا نہ رہا کہ جس کی آنکھ پر اس کا اثر نہ پہنچا ہو۔اس طرح کے اور بھی بہت سے معجزات ہیں جو صرف ذاتی اقتدار کے طور پر آنحضرتﷺ نے دکھلائے جن کے ساتھ کوئی دعا نہ تھی۔

خندق کی کھدائی کے دوران کئی منافقین نے رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کے ساتھ کھدائی کے کام میں سُستی کی

اور وہ تھوڑا سا کام کرتے اور رسول اللہﷺ کو بتائے اور اجازت لیے بغیر گھروں کو کھسک جاتے۔ جبکہ مومنوں کو اگر کوئی حاجت پیش آتی تو وہ رسول اللہﷺ سے اجازت طلب کرتے اور آنحضرتﷺ انہیں اجازت دے دیتے۔

روایات کے مطابق ابوسفیان کے لشکر کی آمد سے تین دن قبل خندق تیار ہوچکی تھی۔ اب منصوبے کے مطابق بچوں اور نَوجوانوں کو اُن قلعوں کی جانب بھیج دیا گیا جہاں عورتوں کو حفاظت کے لیے منتقل کیا گیا تھا البتہ

جن کی عمر پندرہ برس سے زائد تھی انہیں اجازت دی گئی کہ اگر چاہیں تو یہاں رہیں اور چاہیں تو قلعوں کی طرف چلے جائیں۔

آنحضرتﷺ نے مدینے میں اپنا نائب ابن امِّ مکتومؓ  کو بنایا۔ خندق کے پاس آنحضرتﷺ کے لیے چمڑے کا خیمہ لگایا گیا۔ مہاجرین کا پرچم حضرت زید بن حارثہؓ جبکہ انصار کا پرچم حضرت سعد بن عبادہؓ کے پاس تھا۔

مسلمانوں کی تعدادکے متعلق مؤرخین نے بہت اختلاف کیا ہے اور یہ تعدادسات  سَو سے لے کر تین ہزار تک بیان ہوئی ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ  کمال فراست سے ان تمام روایات میں تطبیق کرتے ہوئے فرماتے ہیںکہ جنگِ احزاب کے تین حصّے تھے ایک حصّہ اس کا وہ تھا جب ابھی دشمن مدینے کے سامنے نہیں آیا تھا اور خندق کھودی جارہی تھی۔

اس کام میں کم سے کم مٹی ڈھونے کی خدمت بچّے بھی کرسکتے تھے اور بعض عورتیں بھی یہ کام کرسکتی تھیں۔

پس جب تک خندق کھودنے کا کام رہا مسلمان لشکر کی تعداد تین ہزار تھی۔ پھر جب دشمن آگیا اور لڑائی شروع ہوئی تو آنحضرتﷺ نے اُن تمام لڑکوں کو جو پندرہ سال سے کم عمر تھے انہیں چلے جانے کا حکم دیا اور جو پندرہ سال کے تھے انہیں اجازت دی کہ خواہ ٹھہریں خواہ چلے جائیں۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ خندق کھودنے کے وقت مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی اور جنگ کے وقت کم ہوگئی۔ بارہ سَو کی تعداد اس وقت کی ہے جب جنگ شروع ہوگئی۔ جب جنگ کے دوران میں بنو قریظہ کفار کے لشکر سے مل گئے اورانہوں نے ارادہ کیا کہ مدینے پر اچانک حملہ کردیں تو رسول اللہﷺ نے مدینے کی اس جہت کی حفاظت بھی ضروری سمجھی جس سمت بنو قریظہ تھے۔

تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر آپؐ نے دو لشکر عورتوں کی حفاظت کے لیے روانہ کیے جن میں سے ایک لشکر دوسَو جبکہ دوسرا لشکر تین سَو سپاہیوں پر مشتمل تھا۔اس طرح جب بارہ سو سپاہیوں میں سے پانچ سو سپاہی عورتوں کی حفاظت کے لیے چلے گئے تو بارہ سو کا لشکر سات سو کا رہ گیا۔

ابو سفیان کی قیادت میں قبائل کی فوج نے مدینے پہنچ کرخندق کے گرد ڈیرے ڈال دیے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ جب لشکرِ کفار مدینے کے قریب پہنچا تو اپنے سامنے خندق کو پاکر حیران رہ گیا۔ چنانچہ کفار نے خندق کے گرد محاصرے کے رنگ میں ڈیرے ڈال لیے اور خندق کے کمزور حصّوں سے حملہ آور ہونے کے مواقع تلاش کرنے لگا۔

جب دشمن خندق عبور کرنے میں ناکام رہا تو اور چالیں چلنے لگا۔ مشرکین نے باہم فیصلہ کیا کہ قبیلہ بنو قریظہ کو اپنے ساتھ ملایا جائے

تاکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ کیے اپنے عہد کو توڑ دیں اور مسلمانوں پر اندر سے حملہ آور ہوجائیں۔ چنانچہ اس بھیانک سازش کو عملی جامہ پہنانے کےلیے حُیی بن اخطب بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد کے پاس گیا۔ ابتدا ءًکعب نے حُیی کے لیے دروازہ بھی نہ کھولا اور صاف جواب دیا کہ مَیں محمد ﷺ کے ساتھ معاہدہ کرچکا ہوں اور مَیں نے محمدﷺ کو ہمیشہ وعدوں کو پورا کرنے والا پایا ہے۔ تاہم حُیی کے بےحد اصرار پر کعب نے نہ صرف دروازہ کھول دیا بلکہ اس کی تحریک پر مسلمانوں کے خلاف اس بھیانک سازش میں شامل بھی ہوگیا اور مسلمانوں کے ساتھ کیے ہوئے عہد کو توڑ دیا۔

اس مرحلے پر بنو قریظہ کے یہود میں سے چند افرادجو نیک فطرت تھے وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس چلےگئے اور اسلام بھی قبول کرلیا۔

جب عمربن خطابؓ کے ذریعے رسول اللہﷺ کو بنو قریظہ کی عہد شکنی کی خبر ملی تو آپؐ نے بنو قریظہ کے پاس سعد بن معاذؓ اور سعدبن عبادہ ؓکو بعض دیگر صحابہ کے ساتھ بھجوایا اور انہیں ہدایت کی کہ اگر یہ خبر درست ہو تو سب کے سامنے بلند آواز سے نہ بتانا بلکہ اشارے کنایے میں بات بتانا۔ جب یہ لوگ بنو قریظہ کے پاس پہنچے تو کعب بن اسد ان لوگوں کے ساتھ بہت حقارت سے پیش آیا اور معاہدے سے صاف منکر ہوگیا۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ

وہ بد بخت (کعب بن اسد) اس وفد سے نہایت مغرورانہ انداز سے ملا اور سعدین کی طرف سے معاہدے کے ذکر پر اس نے اور اس کے قبیلے کے لوگوں نے کہا کہ جاؤ! ہمارا تمہارا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔

کعب بن اسد کا جواب سننے کے بعد اس وفد نے واپس آکر اشارے کنایے میں آنحضورﷺ کو بنو قریظہ کی معاہدہ شکنی کے متعلق بتادیا۔ آنحضورﷺ ان اعصاب شکن اور ہوش و حواس کھودینے والے لمحات میں کچھ دیر خاموش رہے اور اس خبر کا آپؐ پر کوئی اثر نہ ہوا، کوئی عام آدمی ہوتا تو اس کے اعصاب ٹوٹ جاتے۔ تھوڑی دیر توقف کے بعد آپؐ نے فرمایاکہ

اے مومنو کی جماعت! اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کے ساتھ خوش ہوجاؤ۔ مجھے یقین ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ مَیں خانہ کعبہ کا طواف کر رہا ہوں گا اور اس کی کنجیاں میرے ہاتھ میں ہوں گی اور قیصر و کسریٰ ضرور ہلاک ہوجائیں گے۔

جنگِ خندق کی تفصیل آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا کہ

آج سے خدام الاحمدیہ کا اجتماع بھی شروع ہورہا ہے۔
خدام اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں

گوکہ موسم کی پیش گوئی یہی ہے کہ شاید بارشیں ہوتی رہیں لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور تمام پروگرام ان کے آرام سے ہوجائیں۔خدام ان دنوں میں روحانی اور علمی معیار بڑھانے کی بھی کوشش کریں۔ جن دعاؤں اور درود کی طرف مَیں نے توجہ دلائی تھی اور تحریک کی تھی ان دنوں میں اس طرف خاص توجہ رکھیں اور ہمیشہ انہیں دہراتے رہیں۔

خطبے کے آخری حصّے میں حضورِانور نے درج ذیل چارمرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا:

۱.مکرم حبیب الرحمٰن زیروی صاحب (واقفِ زندگی ) آف ربوہ جو گذشتہ دنوں ۷۳؍سال کی عمر میں وفات پاگئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔مرحوم بوقتِ وفات نائب ناظر دیوان کے طور پر خدمت کی توفیق پارہے تھے۔

۲.مکرم ڈاکٹر شیخ ریاض الحسن صاحب ابن مکرم بریگیڈیئرڈاکٹر ضیاء الحسن صاحب مرحوم گذشتہ دنوں وفات پاگئے تھے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مرحوم کو بطور واقفِ زندگی تقریباً بیس برس سے زائد عرصہ افریقہ اور پاکستان میں خدمتِ انسانیت کی توفیق ملی۔

۳.مکرم پروفیسر عبدالجلیل صادق صاحب ربوہ۔ آپ گذشتہ دنوں ۸۰؍برس کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مرحوم بوقتِ وفات صدر انجمن احمدیہ ربوہ میں بطور انچارج ترتیب و ریکارڈ (نائب ناظر ) خدمت کی توفیق پارہے تھے۔

۴.مکرم ماسٹر منیر احمد صاحب آف جھنگ۔ آپ گذشتہ دنوں ۸۲؍برس کی عمر میں وفات پاگئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مرحوم کو لمبا عرصہ مختلف جماعتی خدمات کی توفیق ملتی رہی۔ اسیران کی خدمت کے حوالے سے مرحوم کو نہایت قابلِ قدر خدمات کی توفیق ملی۔

حضورِانور نے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button