متفرق

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب

نیشنل اجتماعات واقفاتِ نو اور واقفین نو یوکے

الحمدللہ!حضور انور نے مورخہ ۲۴ اور ۲۵؍فروری ۲۰۱۸ء کو منعقد ہونے والے نیشنل اجتماعات واقفاتِ نو اور واقفین نو دونوں سے خطاب فرمایا۔

ممبراتِ واقفاتِ نَو سے خطاب کرتے ہوئے حضورِ انور نے فرمایا کہ اس حقیقت پر فخر محسوس کریں کہ آپ کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ آپ آنے والی نسلوں کے معیاروں کو بلند کرنے اور انہیں سب سے اعلیٰ معیار کے نمونوں سے سیکھنے اور ان کی پیروی کرنے کا موقع فراہم کریں۔حضورانور نے مزید فرمایا کہ ہر طرح سےان چیزوں کو اپنائیں جو معاشرے میں اچھی ہیں، لیکن یہ کبھی نہ بھولیں کہ ہمارے لیے حقیقی مشعلِ راہ قرآن پاک ہے اور ہمیشہ رہے گا اور یہ کہ ہمارے لیےحقیقی نمونہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم ہیں۔

وقفِ نَو لڑکوں سے خطاب کے دوران حضور انور نے فرمایا کہ آج کی دنیا میں بہت سے لوگ اسلام کے بارے میں منفی خیالات رکھتے ہیں، لہٰذا یہ آپ سب کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے کہ آپ اس جھوٹے تاثر کا مقابلہ کریں جو پیدا ہو چکا ہے۔ یہ آپ سب کی ذمہ داری ہے کہ آپ دنیا کو دوسروں سے بڑھ کر یہ دکھائیں کہ اسلام امن، محبت اور رحمت کا مذہب ہے۔

خلافت کی محبّت

اجتماعات کے بعد کچھ واقفاتِ نو نے مجھے بتایا کہ حضور انور کے خطاب اور ان کی مسلسل راہنمائی نے ان کی زندگیوں پر کیا اثر مرتب کیا ہے؟

نعیمہ کلارک،جو ایک مبلغ سلسلہ کی اہلیہ ہیں، نے بیان کیا کہ مَیں تین بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہوں اور میری والدہ نے میرےبڑے بھائی اور بہن کے حمل کے دوران بہت مشکلات برداشت کیں، اس لیے انہوں نے میری بہن کی پیدائش کے بعد مزید بچوں کا خیال ترک کر دیا تھا۔ لیکن جب انہوں نے مورخہ ۳؍ اپریل۱۹۸۷ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرّابع رحمہ اللہ کا خطبہ سنا (جس میں انہوں نے وقفِ نو سکیم کے قیام کا اعلان فرمایا تھا)، تو ان میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ وہ ایک اور بچے کو جنم دیں جو اس بابرکت سکیم کا حصہ بن سکے، حالانکہ انہیں حمل کے دوران پیچیدگی کا خطرہ بخوبی معلوم تھا۔

نعیمہ صاحبہ نے کہا کہ اپنے والدین سے یہ کہانی سننے کے بعدمیرے لیے وقفِ نَو کا حصہ بننا اور بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ مَیں جانتی ہوں کہ میری موجودگی مکمل طور پر اس سکیم کی بدولت ہے اور یہی میری زندگی اور میری پہچان ہے۔

حضور انور کی ذاتی راہنمائی کے بارے میں نعیمہ صاحبہ نے بیان کیا کہ مَیں بہت خوش نصیب ہوں کہ حضور انور نے مجھے نہ صرف وقفِ نو کی ممبر کی حیثیت سےبلکہ ایک مبلغ کی بیوی کے طور پر بھی بعض ہدایات سے نوازا اور اس طرح کا ایک واقعہ ہمیشہ مجھے ذہن نشین رہے گا۔

نعیمہ صاحبہ نے مزید کہا کہ میرے شوہر کی جماعت میں پہلی باضابطہ تعیناتی کے بعدہماری ملاقات حضور انور سے ہوئی اور حضور انور نے محبت بھری نصیحت فرمائی کہ اپنے گھر کا ماحول امن اور محبت والا بناؤ۔ ان الفاظ نے ہمارے دلوں میں اتنی گہرائی سے اثر ڈالا کہ ہم نے ان الفاظ کو ایک اقتباس کی صورت میں پرنٹ کرواکر اپنے گھر کی دیوار پر آویزاںکر دیا۔

ایک اور واقفہ نو حمودہ عارف نے کہا کہ حضور انور کا واقفاتِ نَو اجتماع میں خطاب ہمیں جدید دنیا کی چمک دمک سے بچنے کی ایک یاد دہانی تھا۔ یہ یاد دہانی تھی کہ کوئی بھی انسان خواتین کو حقوق نہیں دے سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خواتین کو ان کے حقوق پہلے ہی عطا فرما دیے ہیں۔ حضور انور چاہتے ہیں کہ ہم پُر اعتماد اور مضبوط خواتین بنیں، نہ صرف جماعت بلکہ پوری سوسائٹی کے لیے ایک نیک مثال قائم کریں۔

حمودہ صاحبہ نے مزید کہا کہ حضور انور ہمارے لیے ایک باپ کی مانند ہیں۔ جب مَیں انہیں دیکھتی ہوں تو مجھے سکون ملتا ہے۔ ہر بار جب مَیں ان کے الفاظ سنتی ہوں، مَیں اپنے آپ سے وعدہ کرتی ہوں کہ مَیں خود کو ان طریقوں سے بہتر بناؤں گی جن کا حضور انور نے تذکرہ فرمایا ہے۔ مثال کے طور پر ایک چیز جومَیں نے حضور انور کے فرمودات سے اپنائی ہے وہ پردہ ہے۔ ابتدا میں میرے لیے سیکنڈری سکول میں سکارف پہننا مشکل تھا، لیکن حضور انور کے ارشادات سننے کے بعدمَیں نے اس کی پابندی شروع کر دی۔ یہاں تک کہ جب حضور انور نے ایک مرتبہ تبصرہ فرمایا کہ مَیں ہمیشہ اچھے طریقے سے پردہ کرتی ہوں تو مجھےانتہائی خوشی محسوس ہوئی۔

حضور انور کے خطاب کے بارے میں واقفاتِ نَو کی ایک ممبر، صبیحہ خلعت چیمہ نے کہاکہ آج رُوئے زمین پر انسانیت حضور انور سے زیادہ متاثر کن شخصیت کا مشاہدہ نہیں کر سکتی۔ وہ زمین پر اسلامی اصولوں کے محافظ ہیں اور اپنے کردار کے ذریعے اسلام کی حقیقی تعلیمات کو عملی طور پر پیش کرتے ہیں۔ حضور انور خواتین کے حقوق کے سب سے بڑے علم بردار ہیں اور ان کے الفاظ مجھے اسلام میں خواتین کی قدرو قیمت سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ حضور انور کے خطاب نے مجھے یہ سمجھنے میں مدد دی کہ اس دنیا کی سطحی چمک دمک اور مسلسل بدلتے ہوئے رجحانات کا پیچھا کرنا بے معنی ہے۔

ایک اَور واقفہ نَو غزالہ عباسی نے بتایا کہ حضور انور نے کس طرح ان کی پوری زندگی میں راہنمائی فرمائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اس بات پر بہت خوشی محسوس ہوتا ہے کہ حضور انور ہمیشہ ہمیں اپنے قیمتی وقت میں سے اتنا زیادہ وقت دیتے ہیں۔ اس سےمیرے اندر خواہش پیداہوتی ہے کہ مَیں بہتر سے بہتر کام کروں۔مَیں اس بات سے بہت متاثر ہوں کہ حضور انور ایک عام انسان سے اسی طرح بات کرتے ہیں جیسے کسی معروف سیاستدان سے بات کرتے ہیں۔ یہ صرف ایک خلیفہ ہی کر سکتے ہیں!

ایک اَور واقفہ نَو ماہدہ رحمٰن نے مجھے بتایا کہ وہ اس بات پر حیران تھیں کہ حضور انور نے مغربی دنیا میں جاری خواتین کے جنسی استحصال کے سکینڈل پر اتنی کھل کر بات کی۔

ماہدہ رحمٰن نے کہا کہ حضور انور کے خطاب کا وہ حصہ جو مجھے سب سے زیادہ متاثر کر گیا وہ یہ تھا کہ حضور انور نے موجودہ حالات پر بات کی اور ہالی وڈ اور دنیا کے دیگر حصوں میں جاری خواتین کے استحصال کے موجودہ سکینڈلز اور مہمات یعنی (me too)مہم کا ذکر کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ حالانکہ یہ ایک بہت ہی حساس اور کسی حد تک مشکل موضوع ہے، لیکن حضور انور نے اس مسئلے پر بصیرت افروز روشنی ڈالی اور وضاحت فرمائی کہ معاشرے میں ایسی مشکلات کی جڑیں اخلاقی تعلیمات سے دُوری سے پیدا ہوتی ہیں اور اسلامی تصورات جیسے پردہ وغیرہ کی حکمت بیان فرمائی۔

لجنہ اماء اللہ و ناصرات الاحمدیہ امریکہ کے ایک وفد سےملاقات

مورخہ ۴؍ مارچ ۲۰۱۸ء کو حضورِ انور ایّدہ الله نے امریکہ سے تشریف لائی ہوئی تقریباً ایک سو young لجنہ اور ناصرات پر مشتمل ایک وفد کو شرفِ ملاقات بخشا، ان میں سے کچھ ممبرات کو پہلے کبھی حضرت صاحب سے ملاقات کی سعادت حاصل نہیں ہوئی تھی۔

پردے کا ایک سبق

ملاقات کے اختتام پر صدر لجنہ امریکہ، صالحہ ملک صاحبہ نے حضورانور سے گروپ فوٹو کی درخواست کی۔ حضور نے جواباً ارشاد فرمایا کہ مَیں ہر خاندان کے ساتھ الگ الگ تصویر بنواؤں گا۔

اس پر صدر صاحبہ نےعرض کیا کہ وہ گروپ فوٹو پر راضی ہیں کیونکہ اس سے حضور کا وقت بچے گا۔

تاہم حضور انور نے دوبارہ ارشاد فرمایا کہ بہتر یہی ہے کہ تصاویر ہر فیملی کے ساتھ الگ الگ لی جائیں۔

حضور انور نے مزید فرمایا کہ اگر مَیں کہہ رہا ہوں کہ تصاویر فیملی کے ساتھ ہونی چاہئیں تو اس کا مطلب ہے کہ مَیں دراصل آپ کو ایک پیغام دے رہا ہوں کہ اپنے پردے کا تقدس برقرار رکھیں۔

حضورانور کی اس بات کو سن کر مَیں نے عرض کیا کہ میری رائے میں حضرت صاحب کا مقصد یہ ہے کہ اگر گروپ فوٹو لی گئی تو ہرلجنہ ممبر اپنے خاندان کو تصویر دکھائے گی اور اسے اپنے گھر میں آویزاں کرے گی، حالانکہ اس میں دوسرے خاندانوں کی خواتین بھی شامل ہوں گی۔ اس طرح لوگوں کے پاس ایسی احمدی خواتین کی تصاویر بھی ہوں گی جو ان کے خاندان سے یا اُن کی رشتہ دار نہیں ہیں۔

حضورانور نے تصدیق فرمائی کہ ہاں!یہی وجہ تھی۔

یہ واقعہ اس بات کی عمدہ مثال ہے کہ حضور انور ہمہ وقت اسلامی اقدار کی حفاظت کے لیے تیار رہتے ہیں۔

پردے کے معیار میں کسی بھی امکانی کمزوری کے احتمال کی بجائے حضور انور نے اپنے قیمتی وقت کی قربانی دیتے ہوئے انفرادی تصاویر میں شامل ہونے کو ترجیح دی۔

اپنے وقت کی قربانی دے کرحضور انور لجنہ کے لیے ایک مثال قائم کر رہے تھے اور انہیں پیغام دے رہے تھے کہ ہر وقت انہیں حجاب کے اعلیٰ ترین معیار پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔

(مترجم:قمر احمد ظفر۔انتخاب:مدثرہ ثروت)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button