حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

یومِ میلاد النبیؐ اور سیرت النبی ﷺ کا پُر معارف ذکر

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۱۳؍مارچ۲۰۰۹ء)

دو تین دن پہلے 12؍ربیع الاوّل تھی جو آنحضرتﷺ کی پیدائش کا دن ہے اور یہ دن مسلمانوں کاایک حصہ بڑے جوش وخروش سے مناتاہے۔ پاکستان میں بلکہ برصغیر میں بھی بعض بڑا اہتمام کرتے ہیں۔ بعض لوگ جو ہمارے معترضین ہیں، مخالفین ہیں، ان کا ایک یہ اعتراض بھی ہوتاہے۔ مجھے بھی لکھتے ہیں، احمدیوں سے بھی پوچھتے ہیں کہ احمدی کیوں یہ دن اہتمام سے نہیں مناتے؟تو اس بارہ میں آج مَیں کچھ کہوں گا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بارہ میں کیا ارشادت فرمائے؟ (وہ بیان کروں گا) جن سے واضح ہو گا کہ اصل میں احمدی ہی ہیں جو اس دن کی قدر کرنا جانتے ہیں۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباس سے پہلے مَیں یہ بھی بتادوں کہ مولود النبیؐ جوہے، یہ کب سے منانا شروع کیا گیا۔ اس کی تاریخ کیا ہے؟مسلمانوں میں بھی بعض فرقے میلادالنبیؐ کے قائل نہیں ہیں۔ اسلام کی پہلی تین صدیاں جو بہترین صدیاں کہلاتی ہیں ان صدیوں کے لوگوں میں نبی کریمﷺ سے جو محبت پائی جاتی تھی وہ انتہائی درجہ کی تھی اور وہ سب لوگ سنت کا بہترین علم رکھنے والے تھے اور سب سے زیادہ اس بات کے حریص تھے کہ آنحضرتﷺ کی شریعت اور سنت کی پیروی کی جائے۔ لیکن اس کے باوجود تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ کسی صحابیؓ یا تابعی جو صحابہؓ کے بعد آئے، جنہوں نے صحابہؓ کو دیکھا ہوا تھا، کے زمانے میں عیدمیلادالنبیؐ کا ذکر نہیں ملتا۔ وہ شخص جس نے اس کا آغاز کیا، اس کے بارے میں کہا جاتاہے کہ یہ عبداللہ بن محمد بن عبداللہ قداح تھا۔ جس کے پیرو کار فاطمی کہلاتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اور اس کا تعلق باطنی مذہب کے بانیوں میں سے تھا۔ باطنی مذہب یہ ہے کہ شریعت کے بعض پہلو ظاہر ہوتے ہیں، بعض چھپے ہوئے ہوتے ہیں اور اس کی یہ اپنی تشریح کرتے ہیں۔ ان میں دھو کے سے مخالفین کو قتل کرنا، مارنا بھی جائز ہے اور بہت ساری چیزیں ہیں اور بے انتہا بدعات ہیں جو انہوں نے اسلام میں داخل کی ہیں اور ان ہی کے نام سے منسوب کی جاتی ہیں۔ پس سب سے پہلے جن لوگوں نے میلاد النبیﷺ کی تقریب شروع کی وہ باطنی مذہب کے تھے اور جس طرح انہوں نے شروع کی وہ یقیناً ایک بدعت تھی۔ مصر میں ان کی حکومت کا زمانہ 362 ہجری بتایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اَوربھی بہت سارے دن منائے جاتے تھے۔ یوم عاشورہ ہے۔ میلاد النبیؐ تو خیر ہے ہی۔ میلاد حضرت علیؓ ہے۔ میلاد حضرت حسنؓ ہے۔ میلاد حضرت حسینؓ ہے۔ میلا د حضرت فاطمۃ الزہرا ؓہے۔ رجب کے مہینے کی پہلی رات کو مناتے ہیں۔ درمیانی رات کو مناتے ہیں۔ شعبان کے مہینے کی پہلی رات مناتے ہیں۔ پھر ختم کی رات ہے۔ رمضان کے حوالے سے مختلف تقریبات ہیں اور بے تحاشا اور بھی دن ہیں جو مناتے ہیں اور انہوں نے اسلام میں بدعات پیدا کیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا مسلمانوں میں سے ایک گروہ ایسا بھی ہے جو بالکل اس کو نہیں مناتے اور عید میلا دالنبیؐ کوبدعت قرار دیتے ہیں۔ یہ دوسرا گروہ ہے جس نے اتنا غلو سے کام لیا کہ انتہا کر دی۔

بہرحال ہم دیکھیں گے کہ اس زمانے کے امامؑ نے جن کو اللہ تعالیٰ نے حکم اور عدل کرکے بھیجا ہے انہوں نے اس بارے میں کیا ارشاد فرمایا۔

ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مولو د خوانی پر سوال کیا تو آپؑ نے فرمایا کہ’’آنحضرتﷺ کا تذکرہ بہت عمدہ ہے بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ انبیاء اور اولیاء کی یاد سے رحمت نازل ہوتی ہے اور خود خد انے بھی انبیاء کے تذکرہ کی ترغیب دی ہے۔ لیکن اگر اس کے ساتھ ایسی بدعات مل جاویں جن سے توحید میں خلل واقع ہو تو وہ جائز نہیں۔ خدا کی شان خدا کے ساتھ اور نبی کی شان نبی کے ساتھ رکھو۔ آج کل کے مولویوں میں بدعت کے الفاظ زیادہ ہوتے ہیں اور وہ بدعات خدا کے منشاء کے خلاف ہیں۔ اگر بدعات نہ ہوں تو پھر تووہ ایک وعظ ہے۔ آنحضرتﷺ کی بعثت، پیدائش اور وفات کا ذکر ہو تو موجب ثواب ہے۔ ہم مجاز نہیں کہ اپنی شریعت یا کتاب بنا لیویں‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ۱۵۹-۱۶۰۔ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

آنحضرتﷺ کی سیرت اگربیان کرنی ہے تو یہ بڑی اچھی بات ہے۔ لیکن آج کل ہوتا کیا ہے؟ خاص طور پر پاکستان اور ہندوستان میں ان جلسوں کو سیرت سے زیادہ سیاسی بنا لیا جاتا ہے، یا ایک د وسرے مذہب پہ یا ایک دوسرے فرقے پہ گند اچھالنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں جو کوئی جلسہ یہ لوگ کرتے ہیں، اس میں یہ نہیں ہوا کہ سیرت کے پہلو بیان کرکے صرف وہیں تک بس کر دیا جائے بلکہ ہر جگہ پر جماعت احمدیہ کے خلاف اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات پر بے انتہابیہودہ اور لغو قسم کی باتیں کی جاتی ہیں اور آپؑ کی ذات کو تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

گزشتہ دنوں ربوہ میں ہی مولویوں نے بڑا جلسہ کیا، جلوس نکالا۔ اور وہاں کی جورپورٹس ہیں اس میں صرف یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جلسہ سیاسی مقصد کے لئے اور ا حمدیوں کے خلاف اپنے بغض و عناد کے اظہار کے لئے منعقد کیا گیا تھا۔ تو اس قسم کے جو جلسے ہیں ان کا تو کوئی فائدہ نہیں۔ آنحضرتﷺ کی ذات تو وہ بابرکت ذات ہے کہ جب آپؐ آئے تو رحمۃللعالمین بن کے آئے۔ آپؐ تو دشمنوں کے لئے بھی رو رو کر دعائیں کرتے رہے۔

ایک صحابیؓ سے روایت ہے کہ ایک رات مجھے آنحضرتﷺ کے ساتھ تہجد کی نماز پڑھنے کا موقع ملا تو اس میں آپؐ یہی دعا مستقل کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کو بخش دے اور عقل دے۔ (سنن النسائی کتاب الافتتاح باب تردید الآیۃ حدیث نمبر 1010)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button