خطاب حضور انور

امیر المومنین سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا جماعت احمدیہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ 2024ء سے معرکہ آرا افتتاحی خطاب

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ کے انعقاد کے جو مقاصد بیان فرمائے ہیں وہ مختصر بیان کر دیتا ہوں۔ ایک مقصد ہے زُہد، پھر تقویٰ، پھر خداترسی، پھر نرم دلی، پھر محبت و مواخات، پھر عاجزی، پھر سچائی اور راستبازی، پھر دینی مہمّات کے لیے سرگرمی دکھانا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد اور خواہش کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے یہ تین دن گزاریں اور پھراسے زندگی کا حصہ بنائیں۔ اگر ہم یہ سوچ نہیں رکھتے اور اس کے لیے کوشش نہیں کرتے تو ہمارا یہاں آنا فضول اور بے فائدہ ہے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا میں رہتے ہوئے جذبات کی قربانی خدا تعالیٰ کی خاطر کی جائے یہ زُہد ہے

دنیا میں رہتے ہوئے دین کو مقدّم کرنے والے ہم بنیں گے تو تبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش اور آپؑ کی توقّعات کو پورا کرنے والے بنیں گے

ہمیں یہ بات بھی ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ صرف یہ کہہ دیناکہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں کافی نہیں اگر تقویٰ کی شرط پوری نہیں

مومن ہر حالت میں عاجزی کا مظاہرہ کرتا ہے اور ہر ایسی جگہ جہاں جذبات کو انگیخت کیا جائے، جہاں بڑائی بیان کر کے مقابلے کی صورت پیدا کی جائے وہاں عاجز لوگ سلام کر کے اٹھ جاتے ہیں۔تکبّر دکھانے والے کو اللہ تعالیٰ نے جاہل ٹھہرایا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ایک مقابلے سے انکار کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو فرمایا: ’’تیری عاجزانہ راہیں اس کو پسند آئیں۔‘‘

اگر بیان کیے گئے اوصاف انسان میں پیدا ہو جائیں تو دین تو خود بخود دنیا پر مقدّم ہو جاتا ہے اور جب یہ ہوگا تو پھر ہی ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو پورا کرنے والے ہو سکتے ہیں، پھر ہی ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے دنیا کو لانے والے بن سکتے ہیں، پھر ہی ہم خدا تعالیٰ کی حکومت دنیا میں قائم کر سکتے ہیں۔ ورنہ ہمارے قول اور فعل کا تضاد ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے محروم کر دے گا۔ ہم نام کے بیعت کرنے والوں میں شامل ہوں گے۔ ہمارے عمل اس کے خلاف گواہی دے رہے ہوں گے

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بابرکت ارشادات کی روشنی میں جلسہ سالانہ کے مقاصد کا بصیرت افروز بیان

(فرمودہ 26؍ جولائی 2024ء بروز جمعۃ المبارک بمقام حدیقۃ المہدی (جلسہ گاہ) آلٹن ہمپشئر۔ یوکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

الحمدللہ۔ اللہ تعالیٰ ایک بار پھر ہمیں جلسہ سالانہ یو کے میں شمولیت کی توفیق دے رہا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی خواہش کے مطابق ہم ایک بار پھر اپنے نفس کی اصلاح اور پاکیزگی اور آپس کی محبت اور بھائی چارے کو بڑھانے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق جلسہ کے انعقاد کا مقصد تھا۔ پس ان تین دنوں میں اس مقصد کو سامنے رکھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ جو فرمایا ہے کہ اسے کوئی معمولی جلسہ نہ سمجھو۔(ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 341) تو یہ مقصد تو تبھی پورا ہو سکتا ہے جب ہم ایک غیر معمولی پاک تبدیلی پیدا کرنے کے لیے اس جلسہ میں شامل ہوں اور اس کے لیے بھرپور کوشش کریں۔ پس

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد اور خواہش کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے یہ تین دن گزاریں اور پھراسے زندگی کا حصہ بنائیں۔ اگر ہم یہ سوچ نہیں رکھتے اور اس کے لیے کوشش نہیں کرتے تو ہمارا یہاں آنا فضول اور بے فائدہ ہے۔

جلسہ کا جو اتنا وسیع نظام کیا گیا ہے اور لاکھوں پاؤنڈز خرچ اور ہزاروں کارکنوں کی ہزاروں گھنٹوں کی محنت ہے یہ صرف دنیاوی میلے کے اظہار کا ذریعہ بنے گی۔ پس

شاملینِ جلسہ ان دنوں میں مکمل طور پر دنیاوی معاملات کو دلوں سے نکال کر اس جلسہ میں شامل ہونے کے مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ کے انعقاد کے جو مقاصد بیان فرمائے ہیں وہ مختصر بیان کردیتا ہوں۔ ایک مقصد ہے زُہد، پھر تقویٰ، پھر خداترسی، پھر نرم دلی، پھر محبت و مواخات، پھر عاجزی، پھر سچائی اور راستبازی، پھر دینی مہمّات کے لیے سرگرمی دکھانا۔

(ماخوذ از شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 394)

پس یہ وہ باتیں ہیں جن کو ان دنوں میں ہر ایک کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔

پہلی بات ہے زُہد۔

زُہد کیا ہے؟ ہم سادہ الفاظ میں کہہ دیں گے کہ زُہد نیکی اور تقویٰ ہے لیکن

زُہد کے حقیقی اور گہرے معنی ہیں کہ ہر قسم کے جذبات کو قربان کرنا۔

ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا اس حالت کو پیدا کرنے کی ہم کوشش کر رہے ہیں یا ہمارے دلو ں میں اس کا خیال پیدا ہوتا ہے۔ پھر

زُہد کے معنی ہیں اپنی دلی خواہش سے اور کسی دعوے سے دستبردار ہونا۔

جو ذاتی خواہشات ہیں ان سے دستبردار ہونا۔ اپنی خواہشات کو خدا تعالیٰ کی خاطر چھوڑنا۔ ہمیں اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کیا ہم یہ حالت پیدا کرنے کی طرف توجہ کرتے ہیں یا کر رہے ہیں یا یہ خواہش ہمارے دل میں ہے کہ ایسا ہو۔ پھر اس کے معنی ہیں مستقل مزاجی سے کسی بھی بری چیز سے بچتے چلے جانا اور اسے سختی سے ردّ کرنا۔ کیا یہ حالت ہمارے اندر ہے یا دنیا کی خواہشات اور برائیاں اور لغویات ہمیں تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کی طرف، دنیاوی خواہشات کی طرف راغب کر دیتی ہیں۔

پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی خواہش نہ کرنا۔ دنیا کمانے سے خدا تعالیٰ نے منع نہیں فرمایا لیکن دنیا کو دین پر مقدم کرنے سے منع فرماتا ہے اور یہ تو ہم اپنے عہد میں، ہر عہد میں کہتے ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا یا عورتیں یہ عہد کرتی ہیں کہ مقدم رکھوں گی لیکن کتنے ہیں جو اس عہد کا پاس کرتے ہیں، اسے ہمیشہ اپنے دل میں رکھتے ہیں۔ اور پھر اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر بعض باتوں سے بچنا اور پھر یہ بھی ہے اس کا مطلب کہ اپنے معاملے خدا تعالیٰ پر چھوڑنا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقصود بنانا۔ نفسانی خواہشات سے مکمل طور پر بچنے کی کوشش کرنا۔ اب

دیکھیں صرف اس ایک لفظ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے لیے اصلاح کے تمام پہلو بیان کر دیے۔ ا گر ہم اس ایک لفظ کی گہرائی کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے لگ جائیں تو ہماری دنیا بھی سنور جائے اور دین و آخرت بھی سنور جائیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت یوں فرمائی کہ اسلام میں رہبانیت کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ (شرح السنۃ از علامہ بغوی جزء 2 صفحہ 371 مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت)آپؐ نے فرمایا: حلال کو اپنے اوپر حرام کر لینا اور اپنے مال کو ضائع کر دینے سے بھی زُہدکا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر کوئی دنیاوی جھمیلوں سے فرار حاصل کر کے جنگل میں چلا جاتا ہے، رشتوں کے حقوق سے بچتا ہے تو یہ بھی زُہد کے خلاف ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا میں رہتے ہوئے جذبات کی قربانی خدا تعالیٰ کی خاطر کی جائے یہ زُہد ہے۔

(ماخوذ از سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب الزھد فی الدنیا حدیث 4100)

اگر کوئی حق چھوڑنا بھی ہے تو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر چھوڑا جائے یہ زُہد ہے۔ دنیا کی خواہشات کو اللہ تعالیٰ کی رضا میں روک نہ بننے دیا جائے یہ زُہد ہے۔ دولت کو دین کی سربلندی کے لیے خرچ کرنا اور حقوق العباد کے لیے خرچ کرنا یہ زُہد ہے۔

پس دولت کمانے سے منع نہیں کیا گیا لیکن اس میں ہر ایک کا حق رکھنا اور اسے ادا کرنا ایک مومن کے لیے شرط رکھی گئی ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے خرچ کی یہ حالت آج بھی ہمیں بہت سے احمدیوں میں نظر آتی ہے۔ پس یہ وہ زُہد ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں اور جلسہ کے مقاصد میں بھی اسے شامل فرمایا۔ اگر یہی ایک بات ہم میں حقیقت میں پیدا ہو جائے تو ایک انقلاب ہم اپنی زندگیوں میں بھی لا سکتے ہیں اور اپنے ماحول میں بھی لا سکتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’دین اور دنیا ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے سوائے اس حالت کے جب خدا چاہے تو کسی شخص کی فطرت کو ایسا سعید بنائے کہ وہ دنیا کے کاروبار میں پڑ کر بھی اپنے دین کو مقدم رکھے۔ اور ایسے شخص بھی دنیا میں ہوتے ہیں۔‘‘ اگر اللہ چاہے تو پھر ہی دین کو دنیا پر انسان مقدم رکھ سکتا ہے اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا ضروری ہے۔ بہرحال آپؑ فرماتے ہیں: ’’چنانچہ ایک شخص کا ذکر تذکرۃ الاولیاء میں ہے کہ ایک شخص ہزارہا روپیہ کے لین دین کرنے میں مصروف تھا ایک ولی اللہ نے اس کو دیکھا اور کشفی نگاہ اس پر ڈالی تو اسے معلوم ہوا کہ اس کا دل‘‘ یعنی اس کاروبار کرنے والے کا دل ’’باوجود اس قدر لین دین روپیہ کے خدا تعالیٰ سے ایک دم غافل نہ تھا۔ ایسے ہی آدمیوں کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ لَا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ [النور:38] کوئی تجارت اور خریدو فروخت ان کو غافل نہیں کرتی اور انسان کا کمال بھی یہی ہے کہ دنیوی کاروبار میں بھی مصروفیت رکھے اور پھر خدا کو بھی نہ بھولے۔ وہ ٹٹو کس کام کا ہے جو بروقت بوجھ لادنے کے بیٹھ جاتا ہے اور جب خالی ہو تو خوب چلتا ہے وہ قابلِ تعریف نہیں۔ وہ فقیر جو دنیوی کاموں سے گھبرا کر گوشہ نشین بن جاتا ہے وہ ایک کمزوری دکھلاتا ہے۔ اسلام میں رہبانیت نہیں۔ ہم کبھی نہیں کہتے کہ عورتوں کو اور بال بچوں کو ترک کر دو اور دنیوی کاروبار کو چھوڑ دو۔ نہیں بلکہ ملازم کو چاہیے کہ اپنی ملازمت کے فرائض ادا کرے اور تاجر اپنی تجارت کے کاروبار کو پورا کرے لیکن دین کو مقدم رکھے۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ صفحہ 105-106)

پس دنیا میں رہتے ہوئے دین کو مقدّم کرنے والے ہم بنیں گے تو تبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش اور آپؑ کی توقّعات کو پورا کرنے والے بنیں گے۔

پس جیسا کہ میں نے کہا خلاصہ یہ کہ زُہد کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنا ضروری ہے۔ لغویات کو ردّ کرنا ضروری ہے۔ بداخلاقی سے رکنا اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنا یہ زُہد ہے۔ رنجشوں کو دُور کر کے صلح کی بنیاد ڈالنا یہ زُہد ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر محبت اور بھائی چارے کو فروغ دینا یہ زُہد ہے۔ یہ میں نے زُہد کے متعلق مختصر بتایا ہے۔ اس کی مزید تفصیل میں جائیں تو مزید نیکی کے راستے کھلتے چلے جائیں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ کے مقاصد میں سے یہ ایک عظیم مقصد بیان فرمایا۔ جیسا کہ میں نے کہا اگر ہم یہ باتیں اپنے اندر پیدا کریں تو ایک روحانی انقلاب پیدا کرنے والے ہوں گے۔ باقی باتیں جو آپؑ نے بیان فرمائیں وہ زُہد کی ہی مزید تفصیل ہے۔ فرمایا:

ایک مقصد جلسہ کا تقویٰ پیدا کرنا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ ایک مصرعہ فرمایا کہ

’’ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے۔‘‘

ابھی نظم میں بھی یہ شعرپڑھا گیا ۔تو اس پر الہام ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ

’’اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 228۔ ایڈیشن 2022ء)

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بےشمار جگہ تقویٰ کی طرف توجہ دلائی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو قرآن کی حکومت دنیا میں قائم کرنے آئے تھے آپؑ کو بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنے ماننے والوں کو بتادو کہ نیکی کی جڑ کو پکڑ لو جو تقویٰ ہے تو پھر خدا ملے گا اور دنیا بھی مل جائے گی۔ اگر صرف دنیا کے پیچھے دوڑتے رہے تو شاید دنیا کا عارضی فائدہ تو حاصل کر لو لیکن خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کا کوئی انتظام نہیں ہوگا۔

ہمیں یہ بات بھی ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ صرف یہ کہہ دیناکہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں کافی نہیں اگر تقویٰ کی شرط پوری نہیں۔

خدا تعالیٰ کا خوف اور اس سے محبت کے لوازمات پورے نہیں ہوتے۔ جب یہ ہو گا تو پھر ہی حقیقی نمازیں بھی ہوں گی۔ جس شدت سے ہم ذاتی ضرورت کے وقت دنیاوی ضرورت کے لیے دعا کرتے ہیں۔ اس شدّت سے دینی بہتری کے لیے، اپنے اندر روحانیت پیدا کرنے کے لیے، تقویٰ میں بڑھنے کے لیے دعا نہیں کرتے تو پھر ایسی نمازوں اور دعاؤں کی اللہ تعالیٰ پروا نہیں کرتا۔ پس ہمیں اس لحاظ سے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم یہ جائزے لیں گے تو تبھی ہم اپنے مقصد کو پانے والے ہوں گے اور جماعتی لحاظ سے بھی اس شر سے محفوظ رہیں گے جو مخالفین ہمارے خلاف اکثر پھیلاتے رہتے ہیں۔ کہنے کو تو مخالفین بھی نمازیں پڑھتے ہیں اور پاکستان میں مخالفین کہتے ہیں کہ نماز پڑھنے کا حق صرف ہمیں ہے۔ احمدی نماز نہیں پڑھ سکتے لیکن ان مخالفین کی نیتوں میں فتور ہے۔ تقویٰ سے عاری ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک تو ایسے لوگوں کی عبادتیں قبول نہیں ہوتیں جو ظلم کرنے والے ہیں اور ظلم پھیلانے والے ہیں اور ظلم کی تعلیم دینے والے ہیں، جو کلمہ گوؤں کو قتل کے فتوے دینے والے ہیں اور اس پر عمل کرنے والے ہیں۔ پس ایسے لوگ تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اپنی آخرت برباد کرنے والے ہیں نہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے۔

پس جب ایسے لوگوں کے نمونے ہم دیکھتے ہیں تو پھر ہمیں اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کرتے ہوئے تقویٰ میں مزید بڑھنے اور ایمانوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تبھی ہماری نمازیں بھی مقبول ہوں گی اور تبھی ہم اپنی دنیا و آخرت سنوارنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم ہمیشہ حقیقی نیکی کی تلاش میں رہیں اور اسے بجا لانے کی کوشش کرتے رہیں۔ وہ نیکی جو ایک حقیقی مومن کا خاصہ ہے۔ وہ نیکی جو خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور کیے گئے رکوع و سجود سے ملتی ہے۔ وہ نیکی جس میں اخلاص اور سوز و گداز ہے اور اس سوز و گداز سے کیے گئے رکوع و سجود ہوں۔ وہ نیکی جو ہمارے صبح و شام اللہ تعالیٰ کے ذکر سے زبانوں کو تر کرنے والا بنانے والی ہو۔ وہ نیکی جس میں عبادت کے اعلیٰ معیار ہم حاصل کرنے والے ہوں۔ وہ نیکی جس میں نفس کی ملونی نہ ہو۔ وہ نیکی جس میں حقیقی رنگ میں حقوق العباد ادا کرنے کا جوش ہو۔ ان سے ہمدردی اور محبت کا جذبہ ہو۔ تقویٰ پر چلتے ہوئے غریبوں، یتیموں اور بےکسوں کی محبت میں ترقی کرنے والے ہوں اور یہ سب حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایمان باللہ میں ترقی کرو۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان میں ترقی کرو گے تو یہ چیزیں ملیں گی۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان کامل ہو گا تو برائیوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کی طرف بھی انسان توجہ کرے گا۔

اس کو سمجھنے کے لیے پھر یوم آخرت پر ایمان ہے۔ یہ قوی ہو گا تو برائیوں سے بچنے کی طرف بھی توجہ ہو گی کیونکہ یہی بات آخرت کے انجام کی طرف توجہ دلاتی ہے اور ان باتوں کو سمجھنے کے لیے قرآن کریم پڑھنے کی طرف توجہ ضروری ہے۔ اگر یہ ہے اور یہ توجہ قائم رہے گی اور اسے سمجھنے کی طرف توجہ ہو گی تو اللہ تعالیٰ کے احکامات کا بھی پتہ چلے گا اور اس پر عمل کر کے انسان پھر تقویٰ میں بڑھتا ہے اور یہ وہ باتیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں ورنہ صرف بیعت کر لینا اور کہہ دینا کہ الحمد للہ ہم احمدی مسلمان ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آنے والے مسیح موعود اور مہدی معہود کو ماننے والے ہیں کافی نہیں۔ پس

ان جلسہ کے دنوں میں ہر ایک کو اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ کس حد تک ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر عمل کرنے والے ہیں۔ جلسہ ہمیں کیا سکھا رہا ہے اور کیا انقلابی تبدیلی ہے جو ہم اپنے اندر پیدا کر رہے ہیں؟

کیا ہماری نمازوں اور عبادتوں کے معیار بلند ہوئے ہیں؟ کیا ہماری توجہ اب نماز کے دوران خالص اللہ تعالیٰ کی طرف رہتی ہے؟ اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کا معیار پہلے سے بلند ہوا ہے؟ حقوق العباد کی ادائیگی کا معیار پہلے سے بلند ہوا ہے؟ کیا ہمیں اپنے عہد پورا کرنے کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ ہوئی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں تمہارے عہدوں کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا۔

پس جیسا کہ میں نے کہا ہے ہم دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کرتے ہیں تو اس بات کا جائزہ لیں کہ کیا جب اللہ تعالیٰ ہمارے سے ہمارے عہد کے بارے میں پوچھے تو ہم اس کامثبت جواب دے سکیں گے کہ ہاں ہم نے اس کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کی یا ادھر ادھر کے بہانے تلاش کریں گے۔

پھر آپس کے معاہدات میں عہد ہیں۔ انہیں بھی پورا کرنا ایک مومن کے لیے ضروری ہے۔ یہ احکام تو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیے ہیں۔ جب ہم قرآن کریم کو اس توجہ اور نیت سے پڑھیں گے کہ اس پر عمل کرنا ہے تبھی ہم حقیقی ایمان لانے والے اور تقویٰ پر چلنے والے کہلا سکتے ہیں۔ پھر

تقویٰ پر چلنے والے کے لیے ملکی قانون کی پاسداری بھی ضروری ہے سوائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکموں سے ٹکرائے جیسا کہ پاکستان میں احمدیوں کو نماز، قرآن پڑھنے سے روکنے کا حکم ہے۔ قانون میں مناسک دین ادا نہ کرنے کا حکم ہے۔

دین کے بارے میں حکومتوں کو دخل دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ملکی قانون پر عمل کرنا اور ملک سے وفا کا عہد ہے جسے ہر احمدی کو پورا کرنا چاہیے۔ بہرحال ہر بات جو اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلانے والی اور اس کی مخلوق کے حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلانے والی ہے وہ تقویٰ ہے اور تقویٰ پر عمل کرنا ہر احمدی مسلمان کا فرض ہے۔

پھر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے

ایک مقصد نرم دلی پیدا کرنا

فرمایا ہے، اس طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ اگر یہاں آ کر اس بارہ میں اپنی اصلاح نہیں کی تو پھر یہاں آنا بے مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جنت کی خوشخبری انہیں دی ہے جن کے بارے میں فرمایا: وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ (آل عمران: 135) کہ یہ لوگ غصہ کو دبانے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں۔ پس غصہ دبانا اور معاف کرنا ایک بہت بڑا وصف ہے۔

وہ لوگ جن کے دلوں میں رنجشیں ہیں اور ایک دوسرے کی باتوں سے وہ دل غصہ سے بھرے ہوئے ہیں انہیں چاہیے کہ اس ماحول میں آ کر اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر غور کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے مطابق دلوں میں نرمی اور عاجزی پیدا کریں۔

صلح کی بنیاد ڈالیں اور اس ماحول کو بھی اور بعد میں اپنی زندگیوں میں جہاں بھی وہ جائیں، جہاں بھی وہ رہیں اس ماحول کو بھی وہ ماحول بنائیں جو اسلامی معاشرے کا حقیقی نمونہ ہے۔ اس سے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنیں گے۔ معاف کرنے کا خلق اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند ہے کہ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی محبت کی خواہش نہ رکھتا ہو۔

پس جن کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے کسی بھی قسم کی رنجشیں ہیں وہ ان دنوں کو معافی کے دن بنا کر رنجشوں کو ختم کرنے کی کوشش کریں اور سچے دل سے ایک دوسرے کو معاف کر کے سب کدورتیں دُور کریں۔ تب ہی ایک خوبصورت اسلامی معاشرے کو ہم قائم کر سکتے ہیں ورنہ حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کی بیعت میں آنے کا مقصد پورا نہیں ہوتا بلکہ صرف رنجشیں دُور کرنے کا ہی حکم نہیں ہے بلکہ حکم تو یہ ہے کہ اس سے بھی آگے قدم بڑھاؤ اور احسان کا سلوک کرو۔ جب احسان کا سلوک ہو گا تو دوسرے کے دل میں بھی شرمندگی کے ساتھ حقیقی معافی کا خیال پیدا ہو گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت پیدا کرنے کے لیے ایک علاج ایک دوسرے کو تحفے دینے کا بھی بتایا ہے۔

(المعجم الاوسط جلد 4 صفحہ 219 حدیث 5775 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

پس اسے بھی استعمال کرنا چاہیے۔ غیر لوگ جو احمدی نہیں ہیں ہم سے بہت متاثر ہوتے ہیں اور اکثر دفعہ کہتے ہیں کہ ہم میں یعنی جماعت احمدیہ کے افراد میں ایک بھائی چارہ ہے اور ڈسپلن ہے۔ اس اثر کو ہر احمدی کو حقیقی زندگی میں قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ صرف یہ دکھاوا دوسروں کے سامنے نہ ہو بلکہ حقیقت میں ہماری زندگیوں کا یہ حصہ بن جائے۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر جب ہم غصہ کا گھونٹ پی لیتے ہیں اور بدلہ نہیں لیتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کا اتنا بڑا اجر ہے کہ کسی اَور چیز کا نہیں۔

(سنن ابی داؤد کتاب الادب باب من کظم غیظاً حدیث 4777)

پس یہ ہے وہ معیار کہ خدا تعالیٰ کی خاطر ہم نے اپنی ذاتی رنجشوں کو دُور کرنا ہے پھر وہ ثواب ملے گا جو اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہو کر اس کے فضلوں کا وارث بناتا ہے۔ پھر

خوش قسمت ہیں وہ جو اس پر عمل کرتے ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں گے ورنہ دلوں کی سختی آہستہ آہستہ نرم دلی کو بالکل ختم کر دیتی ہے اور وہ نمونہ ہم قائم نہیں کر سکتے جس کے قائم کرنے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ارشاد فرمایا۔

پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا: اس خلق کے معیار بڑھانے کی اس جلسہ میں کوشش کرو تبھی تم اس کے مقصد کو پورا کرنے والے بنو گے۔ پھر

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ پر آنے کا ایک مقصد آپس میں محبت و مواخات کا پیدا ہونا بتایا ہے۔

مومنوں کی یہ خوبی بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ (الفتح :30) کہ آپس میں بے انتہا رحم کرنے والے ہیں۔ جب ہر ایک اس کا اظہار کر رہا ہو گا تو لازمی نتیجہ نکلے گا کہ محبت اور پیار بڑھے گا۔ بھائی چارے کی فضا قائم ہو گی اور انتظامیہ کے سامنے بھی جو جھگڑے پیش ہوتے ہیں وہ اگر ختم نہیں ہوتے تو نہ ہونے کے برابر رہ جائیں گے اور یہ معاشرہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلام کی تعلیم کی روشنی میں قائم کرنے آئے تھے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہاں ہیں وہ لوگ جو میرے جلال اور میری عظمت کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آج جبکہ میرے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہیں میں انہیں اپنے سایہ رحمت میں جگہ دوں گا۔

(صحیح مسلم کتاب البر و الصلۃ والآداب باب فی فضل الحب فی اللّٰہ حدیث 6548)

کیا ہی خوش قسمت ہیں وہ جو اس ارشاد پر عمل کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے وارث بنتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سائے کے نیچے آتے ہیں۔ پھر

جس بات کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے توجہ دلائی ہے وہ ہے عاجزی کا خُلق۔

اس خُلق کا اظہار بھی اس وقت ہوتا ہے جب لوگوں سے واسطہ ہو۔ کہنے کو تو بہت لوگ ملتے ہیں عاجزی کا اظہار کرتے ہیں لیکن جب اپنے مفاد سے ٹکراؤ ہوتا ہے تو عاجزی پیچھے رہ جاتی ہے اور بڑائی اور تکبّر سامنے آ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو عباد الرحمٰن کی یہ نشانی بتائی ہے کہ وہ عاجز ہوتے ہیں جیسا کہ وہ فرماتا ہے: وَعِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا وَّ اِذَا خَاطَبَہُمُ الۡجٰہِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا (الفرقان:64) اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو جواباً کہتے ہیں سلام۔ پس

مومن ہر حالت میں عاجزی کا مظاہرہ کرتا ہے اور ہر ایسی جگہ جہاں جذبات کو انگیخت کیا جائے، جہاں بڑائی بیان کر کے مقابلے کی صورت پیدا کی جائے وہاں عاجز لوگ سلام کر کے اٹھ جاتے ہیں۔ تکبّر دکھانے والے کو اللہ تعالیٰ نے جاہل ٹھہرایا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ایک مقابلے سے انکار کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو فرمایا:

’’تیری عاجزانہ راہیں اس کو پسند آئیں۔‘‘

(تذکرہ صفحہ 595۔ ایڈیشن چہارم)

پس یہ وہ معیار ہے جسے ہمیں بھی اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بننے کی کوشش کرنی چاہیے اور معاشرے میں نیک نمونہ قائم کرکے اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے اور یہ کوشش ہو کہ حکمت اور نرمی سے اصلاح کی جائے۔ یہ تکبر اور بڑائی کے اظہار ہیں جو جھگڑوں کو بڑھاتے ہیں۔ پس تم رحمان خدا کے بندے بن کر اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے عمل اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کو جذب کرنے والے بنانے کی کوشش کرو اور یہ چیز معاشرے میں امن و سلامتی کی بنیاد ہے۔ معاشرے میں ہر طرح کے سکون تکبر کی وجہ سے، جھوٹی اناؤں کی وجہ سے برباد ہوتے ہیں۔ آج دنیا جس فساد میں مبتلا ہے، ملک ملک پر چڑھائی کر رہے ہیں اس کی وجہ اپنی بڑائی اور برتری ثابت کرنا ہی ہے۔ جب تکبر پیدا ہوتا ہے تو پھر دوسرے کے حق مارنے میں بھی یہ لوگ بڑھتے ہیں۔ یہی آجکل ان بڑی طاقتوں کا حال ہے اور یہی چیز دنیا کو عالمی جنگ کی طرف لے جا رہی ہے۔ پس ان دنوں میں جہاں یہ صفات اپنے اندر پیدا کریں یعنی عاجزی کی اور تکبر سے بچنے کی وہاں دنیا کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو عقل دے اور اپنی انا کی خاطر دنیا کو تباہ نہ کریں۔ انسان کی حیثیت کچھ نہیں لیکن سمجھتا ہے کہ میرے پاس تھوڑی سی جو طاقت آ گئی ہے تو میں سب کچھ بن گیا ہوں اور دوسرے کی میرے سامنے کوئی حیثیت نہیں۔ ہمیں عاجزی کی تلقین کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ؎

’’بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں
شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں‘‘

(نصرۃ الحق، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 18)

پس اگر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے تو پھر عاجزی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ تکبّر دنیا داروں کا شیوہ ہے اور ہم نے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت اللہ تعالیٰ کا قُرب پانے کے لیے کی ہے۔ پس اس اہم بات کو ہمیشہ سامنے رکھیں۔

پھر

سچائی کی اور راستی کی تعلیم

ہے۔ اس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے توجہ دلائی ہے اور یہ حقیقی مومن اور احمدی مسلمان کا خاصہ ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی خاص تاکید فرمائی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:

’’جس قدر راستی کے التزام کے لیے قرآن شریف میں تاکید ہے میں ہرگز باور نہیں کر سکتا کہ انجیل میں اس کا عُشر عشیر بھی تاکیدہو۔‘‘

(نور القرآن نمبر 2 ، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 402)

پس ایک مومن کا شیوہ راستبازی ہے۔ جھوٹ اور دھوکا دہی سے مفاد حاصل کرنا دنیا دار کا کام ہے۔ پس ہمیں جائزہ لینا ہوگا کہ کیا ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے سچائی کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہیں؟ اگر ہم یہ معیار حاصل کر لیں تو ہمارے گھروں کے مسائل بھی ختم ہو جائیں اور معاشرے کی لڑائیوں کے مسائل بھی حل ہو جائیں۔ رشتوں میں دراڑیں بھی سچائی میں کمی کی وجہ سے ہی پڑتی ہیں۔ پس اس بات پر ہر ایک کو بہت توجہ کی ضرور ت ہے۔ پھر آپؑ نے فرمایا کہ دین کو دنیا پر مقدم کرو اور دینی مہمات کے لیے ایک جوش اور سرگرمی دکھاؤ۔

(ماخوذ از شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 394)

اگر پہلے بیان کیے گئے اوصاف انسان میں پیدا ہو جائیں تو دین تو خود بخود دنیا پر مقدّم ہو جاتا ہے اور جب یہ ہوگا تو پھر ہی ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو پورا کرنے والے ہو سکتے ہیں۔ پھر ہی ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے دنیا کو لانے والے بن سکتے ہیں۔ پھر ہی ہم خدا تعالیٰ کی حکومت دنیا میں قائم کر سکتے ہیں ورنہ ہمارے قول اور فعل کا تضاد ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے محروم کر دے گا۔ ہم نام کے بیعت کرنے والوں میں شامل ہوں گے۔ ہمارے عمل اس کے خلاف گواہی دے رہے ہوں گے۔

پس ہم نے اگر بیعت کا حق ادا کرنا ہے تو ہمیں اپنے اندر عملی تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی۔ بندے کو خدا تعالیٰ کی پہچان کروانے اور خدا تعالیٰ کے نزدیک کرنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانے اور دنیا کو اسلام کی حقیقی تعلیم سے روشناس کروانے کے لیے ہر احمدی کو اپنی تمام تر استعدادیں اور صلاحیتیں بروئےکار لاتے ہوئے اپنے اندر ایک خاص تبدیلی پیدا کرنی ہوگی۔ اپنی حالتوں کو بدلتے ہوئے ایک نئے عزم کے ساتھ دنیا کو اسلام کا خوبصورت پیغام پہنچانے کی کوشش کرنی ہوگی۔ جہاں اپنے لیے دعاؤں کی طرف توجہ دینی ہو گی وہاں دنیا کی اصلاح کے لیے بھی دعائیں کرنی ہوں گی۔ جب ہمارے مردوں، عورتوں، بوڑھوں، بچوں کی دعائیں ایک درد کے ساتھ عرش تک جائیں گی تب ہی ہم دنیا میں انقلاب لانے والے بن سکیں گے، تب ہی ہم دشمن کے مخالفانہ حملوں اور گھٹیا حملوں سے بچ سکیں گے۔ تب ہی ہم فتوحات کے نظارے دیکھیں گے۔ پس یہ بہت بڑا کام ہے جس کے کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ہم سے توقع کی ہے۔ اگر ہم خود ہی زُہد و تقویٰ سے دُور ہیں، اگر ہمارے اندر اعلیٰ اخلاق نہیں ہیں، اگر ہم میں وہ درد پیدا نہیں ہو رہا جس سے ہم تبلیغ کے میدان میں آگے بڑھنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں تو پھر ہم اپنے عہد بیعت کو بھی ادا نہیں کر رہے اور اس کا حق ادا نہیں کر رہے۔

پس اس جلسہ میں اپنے اندر وہ پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہیے جو ہمیں ان مقاصد کے حاصل کرنے والا بنائے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد ہے ورنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں یہ جلسہ ایک معصیت اور طریقہ ضلالت ہے اور بدعت شنیعہ ہے۔

(ماخوذ از شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 395)

بڑے سخت الفاظ میں آپؑ نے تنبیہ فرمائی۔ پس اپنی عملی حالتوں کی بہتری کے لیے بہت دعا اور کوشش کی ضرورت ہے ورنہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ جلسہ فائدہ مند نہیں ہے بلکہ گمراہی ہے۔ پس کتنے سخت الفاظ ہیں یہ۔ اور فرمایا یہ جلسہ ایک بدعت ہے۔ پہلے تھوڑی بدعات ہیں جو دنیا میں رائج ہو چکی ہیں جو ایک اَور کا اضافہ کر دیا جائے جلسہ کی صورت میں ۔

پس ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہیے کہ اس جلسہ کو ہم برکات کا ذریعہ بنائیں نہ کہ گمراہی کا ، نہ کہ بدعات کو پھیلانے کا، نہ کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے کا۔ اسے دنیا میں انقلاب کا ذریعہ بنائیں نہ کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا ذریعہ اور یہ عہد کریں اور اس کے لیے ان دنوں میں دعائیں بھی کریں کہ ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک دنیا میں خدا تعالیٰ کی حکومت قائم نہ کر دیں۔ شیطان اور شیطان کے چیلوں کا خاتمہ نہ کر دیں۔ دنیا کو گمراہی سے نہ نکال دیں۔ یہ بہت بڑا کام ہے لیکن ہماری نیت اگر نیک ہے، ہم نے اپنی حالتوں کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق کر لیا ہے، اللہ تعالیٰ سے دعائیں کر رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ یقیناً ہمارے کام میں برکت عطا فرمائے گا۔ پس دنیا کے ہر کونے میں بیٹھے ہوئے ہر احمدی کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ اس کے حصول کے لیے ہم نے اپنے وسائل کے مطابق کوششیں کرنی ہیں اور اس کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور خاص تضرّع اور زاری کرنی ہے۔

ان دنوں میں درود بھی بہت پڑھیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ان نیک مقاصد کے حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس کے لیے یہ جلسہ منعقد کیا گیا ہے اور ہم حقیقی معنوں میں اپنے اندر ایک پاک تبدیلی کا اظہار کرنے والے بن جائیں اور دنیا کے لیے ایک نمونہ بن جائیں۔

ان دنوں میں مظلوم فلسطینیوں کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں۔

اللہ تعالیٰ ان کے لیے بھی جلد آسانیاں پیدا فرمائے۔

پاکستان کے مظلوم احمدیوں کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں

جنہیں جلسوں سے محروم کر دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ جلد ان کے لیے بھی آزادی اور آسانی کے سامان پیدا فرمائے۔ اب دعا کر لیں۔

٭٭دعا٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button