آپؐ نے شفقت اور عفو کا سلوک فرمایا اور وحشی کو معاف فرمایا
ہشام بن زید بن انس روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے انس بن مالکؓ کویہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک مرتبہ ایک یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا اور اس نے اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ کے بجائے اَلسَّامُ عَلَیْکَ یعنی تجھ پر ہلاکت وارد ہو، کہا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا۔ تمہیں پتہ چلا ہے کہ اس نے کیا کہا تھا۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ اس نے اَلسَّامُ عَلَیْکَ کہا تھا۔ صحابہ رِضوان اللّٰہ عَلَیْھِمْ اَجْمَعِیْن نے یہودی کی یہ حرکت دیکھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا۔ کیا ہم اس کو قتل نہ کر دیں؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ اسے قتل نہیں کرنا۔ (بخاری کتاب استتابۃ المرتدین باب اذا عرض الذمی اوغیرہ بسب النبی حدیث نمبر 6926)
ایک سبق یہ بھی دے دیا کہ میری شفقت صرف اپنوں پر نہیں، غیروں پر بھی ہے۔ جو مجھ پر ظلم کرنے والے ہیں ان پر بھی ہے۔ سزا صرف ایسے جرموں کی دینا ضروری ہے جن پر حدود قائم ہوتی ہیں، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سزا مقرر کی ہوئی ہے، جن کا قرآنِ کریم میں واضح حکم دیا ہے یا اللہ تعالیٰ نے جن کے بارے میں آپؓ کو بتایا ہے۔
پھر آپؐ اور آپؐ کے صحابہ کو ایک یہودیہ نے گوشت میں زہر ملا کر کھلانے کی کوشش کی اور اقبالِ جرم کرنے کے باوجود آپ نے اسے معاف فرما دیا۔ صحابہ کو غصہ تھا، انہوں نے پوچھا بھی کہ اس کو قتل کر دیں، آپ نے فرمایا نہیں، بالکل نہیں۔ (بخاری کتاب الھبۃ باب قبول الھدیۃ من المشرکین۔ حدیث2617)یہ ایک لمبی روایت ہے۔ وحشی کہتے ہیں کہ حضرت حمزہؓ کو جنگِ اُحد میں شہید کرنے کے بعد مَیں مکہ میں واپس آ گیا۔ اس نے حضرت حمزہ کو شہید کیا تھا اور یہیں اپنی زندگی کے دن گزارتا رہا، یہاں تک کہ مکہ میں ہر طرف اسلام پھیل گیا۔ پھر مَیں طائف چلا گیا۔ طائف والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے سفیر بھیجے اور مجھے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سفیروں سے انتقام نہیں لیتے۔ چنانچہ مَیں بھی طائف والوں کے سفیروں کے ساتھ ہو لیا۔ یہاں تک کہ مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو دریافت کیا۔ کیا تم وحشی ہو؟ مَیں نے کہا جی، مَیں وحشی ہوں۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تم نے ہی حمزہؓ کو قتل کیا تھا؟ وحشی کہتے ہیں کہ مَیں نے عرض کی۔ جیسے آپؐ نے سنا ہے ایسا ہی معاملہ ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میری خطائیں معاف کرتے ہوئے مجھے کہا کہ کیا تمہارے لئے ممکن ہے کہ تم میرے سامنے نہ آیا کرو؟ وحشی کہتے ہیں کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بعد مَیں مدینہ سے چلا آیا۔ (بخاری کتاب المغازی باب قتل حمزۃ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ حدیث نمبر4072)
آپؐ کے عفو کی انتہا کا اس بات سے مزید پتہ چلتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وحشی سے حضرت حمزہؓ کی شہادت کے بارہ میں مزید سوال کئے کہ کس طرح شہید کیا تھا اور پھر کیا کیا تھا؟ تو صحابہ کہتے ہیں کہ اس وقت آپ ؐکی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ اپنے چچا کی یاد تازہ ہونے پر یقینا ًیہ آنسو نکلے ہوں گے۔ وہ چچا جس نے ابو جہل کے مقابلہ میں آپؐ کا ساتھ دیا تھا اور آپ کے حق میں کھڑے ہوئے تھے لیکن حضرت حمزہ ؓکے قاتل سے قدرت رکھنے کے باوجود آپ نے شفقت اور عفو کا سلوک فرمایا اور وحشی کو معاف فرمایا۔ (الکامل فی التاریخ لابن اثیر۔ سنۃ ثمان ذکر فتح مکۃ صفحہ ۲۵۷-۲۵۸ مطبوعہ بیت الافکار الدولیۃ سعودی عرب)
(خطبہ جمعہ ۱۴؍جنوری ۲۰۱۱ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۴؍فروری ۲۰۱۱ء)