متفرق مضامین

لیوٹالسٹائی اور جماعت احمدیہ کے روابط۔ مسیحائی عزائم اور حقیقی مسیح روبرو

(آصف محمود باسط)

حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود کے ابتدائی صحابہ میں سے تھے، جنہوں نے اپنے حضورؑ کی خدمت میں ہمہ وقت حاضر رہنے کے لیے اپنی سرکاری ملازمت ترک کر دی۔ حضرت مفتی صاحب بہت سی صلاحیتوں کے حامل وجود تھےاور آپ کو انگریزی زبان میں بھی مہارت تھی جس کی وجہ سے آپ ؓ حضرت مسیح موعودؑ کے مغربی دنیا سے رابطوں کا ذریعہ بنتے رہے۔

لندن میں جان ہیو اسمتھ پگٹ کا دعویٰ الوہیت ہو،یا امریکہ میں الیگزنڈر ڈوئی کے ایلیاہ ہونے کی خبر، آپؓ ہی حضرت مسیح موعودؑ کے پیغام رساں بنے، الغرض مغربی دنیا کے مذہبی ماحول کی فضا اکثر مفتی صاحب ہی حضور ؑ کے علم میں لایا کرتے تھے۔ان کی ذمہ داریوں کو موجودہ زمانہ میں ’’پرائیویٹ سیکرٹری ‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ اپنی اسی حیثیت سے مفتی صاحب نے مغربی دنیا کی متعدد بااثر شخصیات کو بڑے پیمانے پر خطوط لکھے اور انہیں حضرت مسیح موعود ؑ کی تعلیمات سے متعارف کرایا، اور انہیں بتایا کہ آپ ؑ ہی وہ موعود اقوام عالم ہیں جس نے آخری زمانہ میں ایمان کی تجدید کے لئے مبعوث ہونا تھا۔ (مفتی محمدصادق صاحب کی تبلیغی مساعی کےلئے ان کی مرتب کردہ کتاب ’’ذکر حبیب‘‘ ملاحظہ ہو)

 ایسی ہی ایک شخصیت جس سے مفتی صادق کا رابطہ ہوا وہ کاؤنٹ لیو ٹالسٹائی تھا جو بالعموم ایک ناول نگار کے طور پر دنیا میں جانا جاتاہےلیکن درحقیقت گہری مذہبی دلچسپی رکھنے والے شخص تھا۔

ٹالسٹائی کی زندگی پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ  ایک قدامت پسند عیسائی تھا اور پھر عیسائیت سے وابستہ رہتے ہوئے  امن پسندانہ طریق پر اصلاح معاشرہ کی کوششوں کا داعی بنا اور بالآخر ایک سماجی مصلح بننے کی کوشش میں سرگرداں رہا۔ٹالسٹائی کو 1901 میں اس کے ’’غلط‘‘ عقائد کی وجہ سے روسی آرتھوڈوکس چرچ سے بے دخل کردیا گیا تھا۔اور ٹالسٹائی کی مذہبی اور فکری زندگی میں یہ اہم واقعہ حضرت مفتی صادق صاحب کے ان سے رابطہ کرنے سے محض دو سال قبل یہ واقعہ ہوا تھا۔

(Tolstoy’s Religion in The Open Court, Vol 28, 1, pp 1-12)

ٹالسٹائی پر تحقیق کرنے والے بعض ماہرین کاماننا ہے کہ ٹالسٹائی کو چرچ نے خارج نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے خود ہی رضاکارانہ طور پر اس عیسائیت سے راہیں جدا کر لی تھیں جو محض لگے بندھے اداروں کی طرز پر کام کرنے لگی تھی۔ لیکن یہاں جو بھی معاملہ ہو، ٹالسٹائی کی چرچ سے یہ علیحدگی کئی دہائیوں کے عمل کا نتیجہ تھا، اور کچھ بھی راتوں رات نہیں ہوا تھا۔کہا جاتا ہے کہ ٹالسٹائی کا مشہور ناول ‘Resurrection’ اس سلسلہ میں اہم محرک تھا۔

ٹالسٹائی کی خود نوشت سوانح عمری میں 1870 ء کے حالات کے ضمن میں ایک ایسے اخلاقی اور جذباتی بحران کا ذکر ملتا ہے جسے وہ ایک ایسی در پردہ نعمت کے طور پر دیکھتا رہاجس نے اس کے قلب و روح میں روحانی بیداری پیدا کردی تھی۔ اوریہی وہ خاص مرحلہ عمرتھا جب ٹالسٹائی کا آرتھوڈوکس عیسائیت کے روایتی عقائد اور مذہبی رسومات پر ایمان و یقین جاتا رہا اور اس نے یسوع اور ان کی تعلیمات کی اپنی ذاتی سمجھ بوجھ کے مطابق پرکھنا شروع کیا۔ ٹالسٹائی نے اپنے عقائد 1884ء میں لکھی اپنی کتاب ‘What I Believe’ میں بیان کیا، جس میں اس نے حضرت عیسیٰ ؑ کی اخلاقی تعلیمات کو’’پہاڑی وعظ ‘‘ وغیرہ کے حوالے سے سمجھنے پر زور دیااور ’’ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسرا گال پیش کرنےمیں تشدد کے جواب میں پر امن رد عمل کی تعلیم دیکھی۔

ٹالسٹائی نے اپنی تمام زندگی ایک عیسائی کے طور پر گزاری، اگرچہ اس نے 18 سال کی عمر میں آرتھوڈوکس عیسائی عقائد کو ترک کر دیا تھا۔ وہ زندگی کے بہتر معانی کی تلاش میں تھا جو آرتھوڈوکس عیسائیت میں میسر نہ تھی۔ مایوس نوجوان ٹالسٹائی نے تنظیمی کلیسا سے وابستہ اپنے عقائدکو توڑ دیا تھا، لیکن جذباتی تعلقات برقرار رہے اور 1877 میں لگ بھگ اس کی بھٹکتی روح کو افسردگی نے آلیا۔ کیونکہ اس برس مذکورہ بالا اخلاقی بحران کے دور میں جبکہ اسے ایک روحانی بیداری نصیب ہورہی تھی، اس نے Optina Pustin Monastery کا دورہ کیا،اوردوبارہ عیسائیت سے متاثر ہونے لگا۔ لیکن تعلقات کی یہ دوبارہ بحالی بھی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی اور چند سالوں بعد ہی وہ اپنے ایمان کو عقل اور منطق  کے ضابطوں کے مطابق ڈھالنے میں مصروف ہوگیا۔

ٹالسٹائی نے اپنی روحانی زندگی کے اس ناہموار سفر کو یاد کرتے ہوئے، 1884ء میں لکھا:

’’میں نےاپنی زندگی کے 56 سال گزاردیئے ہیں۔ بچپن کے ابتدائی دور کے 14 یا 15 سالوں کے علاوہ، میری زندگی کے 35 سال نائہلزم (nihilism) میں گزرے ہیں یعنی تب میں نہ تو سوشلسٹ تھا اور نہ ہی انقلابی۔ میرے لیے نائہلزم کا عام معنوں میں مطلب یہی تھا ہر قسم کے مذہب کی عدم موجودگی‘‘

 (What I believe by Leo Tolstoy)

اس کے بعد جس نتیجے پر وہ پہنچا، اس کے بارہ میں لکھا:

’’میں ایک ایسے خدا پر یقین رکھتا ہوں جو انسانی فہم سے وراء ہے اور مہربان ہے۔ میں روح کی بقا اور ہمارے اعمال کے لیے ابدی جزا و سزا پر یقین رکھتا ہوں۔ میں تثلیث کی گتھی اور خدا کے بیٹے کی پیدائش کو نہیں مانتا۔۔۔‘‘

ٹالسٹائی کے خودنوشت سوانحی شذرات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسیحائی عزم (messianic ambitions) کا حامل تھا، جس میں اس نے ’’ایک نئے مذہب کے قیام کا تصور پیش کیا جو انسان کی شعوری ترقی کی سطح کے مطابق ہو۔۔۔‘‘

اس نے کھل کر اس خواہش کا اظہار کیا کہ ’’میں شعوری طور پر اس امر کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں کہ انسان کو دوبارہ مذہب کی طرف لایا جائے، یہی وہ بنیاد ہے جس کے بارے میں مجھے امید ہے کہ یہ میری دلچسپی کا محور بنے گی۔‘‘

اور یہی مسیحائی عزم اُس کی باقی زندگی پر شدت سے حاوی رہا اور غالبا یہی وہ سبب تھا جس کے لئے ٹالسٹائی نے  اسلام، بہائیت، اور ہندومت جیسےمذاہب سے متعارف ہونے کی کوشش کی۔

اور آخر کار ٹالسٹائی اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ خیال ہرگز معقول نہیں ہے کہ ’’کبھی خدا زمین پر اترااور پھر آسمان پر ہی واپس چلا گیا‘‘۔اور نہ ہی ٹالسٹائی یسوع مسیح کے واقعہ صلیب کے بعد دوبارہ جی اٹھنے اور آسمانوں پر چلے جانے کے عقیدہ پر یقین کرنے کے لیے تیار تھا کیونکہ اس کے خیال میں ’’آسمان پر جانا، ناممکن ہے کیونکہ  آسمان تو کوئی شے ہی نہیں،بلکہ صرف ہمارے تخیل کی تخلیق کردہ ایک چھت ہے۔۔۔‘‘

حقیقی عیسائیت کی تلاش میں، ٹالسٹائی کا ماننا تھا کہ عیسائیت کے اصل عقائد کو کلیسا  نے اپنے سیاسی اور اقتصادی ایجنڈے پورے کرنے کے لئے بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔

یوں ٹالسٹائی لاشعوری طور پر عیسائیت کے حوالے سے حضرت مرزا غلام احمد قادیان، مسیح موعودؑ کی تعلیمات کے بہت قریب پہنچ چکا تھا اور یہی وہ وقت تھا جب حضرت مفتی صاحب ؓنے ٹالسٹائی سے رابطہ کیا اور اُس کے سامنے مسیح موعود کی تعلیمات پیش کیں، جنہوں نے نہ صرف عیسائیوں کے یسوع کی حقیقت کو واضح کیا تھا، بلکہ  مسلمانوں کے مزعومہ مسیح موعود کو بھی۔

راقم یہاں ٹالسٹائی کی تین مختلف لوگوں سے خط و کتابت کا جائزہ پیش کرے گا اور اس کے بعد مفتی صاحب کے ذریعے جماعت احمدیہ کے ساتھ ہونے والی خط و کتابت پر بات ہوگی۔

ٹالسٹائی اور بہائی مذہب

ٹالسٹائی نےگو 1901 ءمیں پہلی بار بہائی مذہب کے بارے میں سنا، اگرچہ وہ پہلے بھی بابی تحریک سے واقف تھا اور باب اللہ کے عقائد سے متاثر بھی تھا۔یہ امر ہمیں ٹالسٹائی کے اس جوابی خط سے معلوم ہوتا ہے جو اس نے ایک شامی نژاد فرانسیسی اور بہائی، گیبریل ساسی(Gabriel Sacy) کو لکھا تھا۔

ساسی نے 13 مئی 1901 کو ٹالسٹائی کو خط لکھتے ہوئے ذکر کیا کہ اسے ٹالسٹائی کے ہمہ گیر ایمان کے تصور پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ اور ٹالسٹائی کی مدح سرائی کرتے ہوئے ساسی نے عیسائیت کے بارے میں اسی پہلو پر بات کی جو ٹالسٹائی کو زیادہ پسند تھا بلکہ اس سے تو آگے بڑھتے ہوئے یہاں تک لکھا کہ یسوع ’’الٰہی جوہر کی ایک بہت اہم تجلیات میں سے ایک ہیں، جو انسانیت کو ترقیات بخشنے کے لیے بھیجے گئے۔۔۔‘‘

اس پر ٹالسٹائی نے 10 اگست 1901 ءکو اپنے نئے بہائی دوست کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ اس نے بابیت پر سب کچھ پڑھ لیا ہے، لیکن ’’یہ بہائی کیا ہے؟‘‘

ٹالسٹائی کے لئے بھی اپنی امنگوں کو مخفی رکھنا مشکل ہورہا تھا، اُس نے ساسی کو لکھا کہ ’’آپ کا مسیحائی عزم  متاثر کن ہے، نیز بابیت بھی جس سے آپ کا تعلق ہے۔‘‘

ٹالسٹائی نے بابیت؍ بہائیت  کواپنے تصورِمسیحیت سے مشابہ پایا اور خیال کیا کہ ’’۔۔۔ یہ دونوں قوتیں جلد یا بدیر یکجا ہوجائیں گی۔‘‘

اس خط کے چند ماہ بعد، ٹالسٹائی سے ایک اور بہائی، ایک فارسی تاجر، مرزا عزیز اللہ جادھب خراسانی سے ملاقات ہوئی، ٹالسٹائی نے اس ملاقات کا تفصیلی احوال اپنی ڈائری میں نہیں لکھا، مگر جادھب نے مکمل ریکارڈ درج کرتے ہوئے بتایا کہ وہ 17 ستمبر کو بمقام یاسنیا پولیانہ(Yasnaya Polyana) پہنچا اور اگلے دن 18 ستمبر 1902 ٹالسٹائی سے ملاقات ہوئی۔

اس ملاقات میں ٹالسٹائی نے اس بات میں گہری دلچسپی ظاہر کی کہ بہائی عقائد کیا ہیں اور کیا غیر مسلم اقوام اس کو قبول کر رہی ہیں؟ اس پر جادھب نے بھی اسی جو ش و خروش سے وضاحت کی کہ

’’یہودیوں میں بہت سے لوگوں نے بہائی عقیدہ کو قبول کیا ہے،ایران کے علاقوں ہمدان، یزد، تہران، خراسان میں، اسی طرح روس کے علاقہ قفقاز اور امریکہ میں بھی یہودی متوجہ ہورہے ہیں۔ اور بتایا کہ میں خود خراسان کا یہودی ہوں۔ اسی طرح زرتشتیوں میں سے بہت سے لوگ نے بہائیت کو قبول کیا ہے۔ نیز  ایران اور بمبئی دونوں میں عیسائیوں میں سے کچھ لوگ بہائی ہوئے ہیں، امریکہ، پیرس، جرمنی اور لندن کے علاوہ مصر میں بھی بہائی موجود ہیں۔‘‘

اس ملاقات کے اختتام پر ٹالسٹائی سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ بہاء اللہ کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟

ٹالسٹائی کہتا ہے کہ ’’میں اس کا کیسے انکار کر سکتا ہوں۔ مگر صورت حال یہ ہے کہ ابھی میں نے چند روسیوں کو ہی کچھ سکھانا شروع کیا تھا کہ  مجھے گھر میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔ میرے گھر کے آس پاس پولیس کے اہلکار تعینات کردیئے گئے تا کوئی مجھ سے ملنے نہ آسکے۔ ظاہر ہے یہ سلسلہ ضرور پوری دنیا کو فتح کر لے گی۔ میں خود محمد [ﷺ] کو قبول کر چکا ہوں۔‘‘

یہاں ٹالسٹائی بہائیت کا نہیں بلکہ اپنی خود ساختہ مسیحائی تحریک کاذکر کررہا ہے جو ضرور ’’دنیا کو فتح کرے گی۔‘‘

لگتا ہے کہ ٹالسٹائی کے بہائیوں کے ساتھ یہ رابطے محض حالات کا جائزہ لینے کے لئے تھے۔ کیونکہ حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ اگلے چند سالوں (1903-1906) میں ہی ٹالسٹائی نےنہ صرف بہائی عقائد میں دلچسپی لینا ترک کردی، بلکہ اسے بہائیت سے ایک انقباض اور بعد پیدا ہوگیا۔

4 اپریل 1904 کوفرانس سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل ہپولائٹ ڈریفس (Hippolyte Drefus) نے ٹالسٹائی کو بہاء اللہ کی تصنیف ’’کتاب الایقان‘‘ کا ترجمہ بھیجا، جو اس نے Le Livre de la Certitude کے عنوان سے خود تیار کیا تھا۔اس پر ٹالسٹائی نے جوابی خط میں جو تبصرہ بھیجا، اس سے ٹالسٹائی کے بہائی مداح تو یقینا چونک گئے ہونگے، لکھا:

’’بہاء اللہ کی کتاب بھیجنے پر آپ کا شکریہ۔ مجھے افسوس ہے کہ میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ اس کتاب کو پڑھنے سے میں بہاء اللہ کی تعلیمات سے بالکل دور ہو گیا ہوں۔ اس کتاب میں درج جملے معمولی اور محض تکلف کی پیداوار ہیں جن کا مقصد پرانے توہمات کی تصدیق کے سوا کوئی نہیں ہے اور درحقیقت یہ کتاب کسی اعلیٰ پائے کے اخلاقی اور دینی مواد سے بالکل خالی ہے۔ ‘‘

صاف نظر آرہا ہے کہ ٹالسٹائی تو محض اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کر رہا تھا کہ آیا بہائیت اس کو اس کی اپنی مسیحی تحریک کے لیے بنیاد اور ماحول فراہم کر سکتا ہے یا نہیں؟ اور کوئی امکان نظر نہ آنے کے بعد، اس نے 31 جولائی 1904 کو اپنے دوست، امریکی مصنف ارنسٹ کروسبی (Ernest Crosby)کو لکھا:

’’عزیز دوست! مجھے بہائیت سے بہت دلچسپی تھی، اور میرے پاس اس کے بارے جامع معلومات ہیں، جن کی بنیاد پر مجھے یقین ہے کہ اس فرقے کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔۔۔۔۔‘‘

(مندرجہ بالا اقتباسا ت اور مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: Leo Tolstoy and the Baha’i Faith by Luigi Stendardo)

یوں بہائیت اور ٹالسٹائی کی پینگیں بڑھیں ضرور مگر، باوجود اس کے کہ طرفین نے بے حد چاپلوسی کا بھی سہار ا لیا، مگر جلد ہی دونوں کی راہیں جدا ہوگئیں۔ کیونکہ دونوں کو ہی ایک دوسرے میں اپنے درپردہ مقاصد کی تکمیل کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ کیونکہ جب ایک طرف ٹالسٹائی کا اپنا عالمی مسیحائی نظریہ تھا جہاں وہ خود مرکزی کردار تھا، اور اس کے مقابل پر بہائیت کا اپنا دام تزویر تھا، جہاں بہاء اللہ کو چھوڑ کر ٹالسٹائی کے لئے بطور ایک مرکزی شخصیت کوئی گنجائش نہ تھی۔

ٹالسٹائی اور اسلام

ٹالسٹائی کی مرزا عزیز اللہ جادھب سے ہونے والی گفتگو میں مذکور ہے کہ ٹالسٹائی اسلام کی خوبیوں کا معترف تھا اور وہ ذکر تھا کہ ٹالسٹائی نے پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کو ’’قبول‘‘ کر لیاتھا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس کے سیماب صفت طبیعت کی وجہ سے اس کے نظریات جلد ہی بدل گئے ہیں۔کیونکہ ٹالسٹائی اور اس کے پرجوش مداح ایس ڈی نکولائیف (SD Nikolayev)کے درمیان ہونے والی گفتگومیں یکسر مختلف کہانی ابھرتی ہے، اس اہم گفتگو کا راوی ٹالسٹائی کا ڈاکٹر ماکووِٹسکی(Makovitsky) تھاجس نے بتایا کہ ٹالسٹائی اسلام کے بارہ میں کہا کرتا تھا کہ

’’میں اسلام کو عیسائیت کی ایک شکل سمجھتا ہوں، جو کہ مسیحی روایات سے ابھرا ہے۔۔۔۔ جو کچھ بھی اسلام میں ہے وہ عیسائیت میں بہتر شکل میں موجود ہے، اور جو کچھ محمد(ﷺ) لائے ہیں وہ غیر لطیف اور بھدا ہے۔۔۔ اور مسلمانوں کے بابی فرقوں کا نظریہ خالصتاً مسیحی ہے۔‘‘

اب یہاں ہمیں واضح الفاظ میں ٹالسٹائی نہ صرف اسلام، بلکہ عیسائیت اور بابیت کو بھی رد کرتانظر آرہا ہے۔یاد رہے کہ بابیت کی اصطلاح کو ٹالسٹائی نے اپنی تحریروں میں بہائیت کے مترادف کے طور پر استعمال کیا ہے۔

پھر ٹالسٹائی کو1904 ءکے موسم گرما کے اوائل میں، محمد عبدہ (ولادت:1849-وفات:1905) کا ایک خط موصول ہوتا ہے، یہ خط لکھنے والا دور جدید میں مسلمانوں کا ایک بااثر اورمقبول شخص تھا جو بعد میں مصر کا مفتی اعظم بھی بنا۔

محمد عبدہ کی وجہ شہرت تمام مذاہب کے اتحاد کی کوشش تھی۔وہ اس خیال کا مضبوط حامی تھا کہ دیگر مذاہب اور عقائد کو قریب لانے سے پہلے اسلام کے اندر فرقہ واریت کا خاتمہ ضروری ہے۔ دراصل محمد عبدہ کے اپنے وطن مصر میں اسلام کے بعد عیسائیت دوسرا بڑا مذہب تھا، اور اسی کے زیر اثر محمد عبدہ کا خیال تھا کہ ابراہیمی مذاہب میں باہمی ہم آہنگی اور اتحاد ہونا ضروری ہے۔

جمال الدین افغانی کے زبردست حامی اور شاگرد، محمد عبدہ اپنے وقت میں اسی نہج پر کوشش کرتے رہے جو آج بطور ’’ سیاسی اسلام ‘‘معروف ہے۔ ایک عالمگیر اورمضبوط اسلامی نظریہ لیکر عبدہ اٹھا، اور چاہتا تھا کہ اسلام اور اس کی تعلیم ہی دنیا پر غالب قرار پائے، عقائدو تعلیمات سے لے کر سیاسی نظریات تک، معاشیات سے لے کر معاشرے کے سماجی ڈھانچے تک، قانون سازی سے لے کر عدالتی نظم و نسق تک ہر جگہ اسلام کی برتر تعلیم کا اظہار ہو۔

لیکن ہوا یوں کہ مصر کے اندرتو فکری مجالس میں عبدہ کو بہت سے پیروکار اس طرف راغب ہوتے نظر آئے مگر ان نظریات کی وجہ سے اسے مصر کے ریاستی علما کےغیض و غضب کا نشانہ بننا پڑا، کیونکہ ان لوگوں نے نہ صرف محمد عبدہ کو مسترد کیا بلکہ اسے کافر قرار دیاگیا، اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ کئی سال تک اسےپیرس میں جلاوطنی کی زندگی گزارنی پڑی۔

محمد عبدہ اسلام کے عالمگیر مذہب ہونے کے نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کی خواہش میں اس قدر مُصر تھا، اس نے نہ صرف فری میسنوں کی رکنیت اختیار کی اور ان کے نظام کا ایک فعال رکن بھی بن گیا۔

محمد عبدہ پیرس میں اپنی جلاوطنی کے عرصہ میں ٹالسٹائی کے کاموں، نظریات اور اس کی مسیحی سوچ سے آگاہ ہوچکا ہوگا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ 1904ء تک ٹالسٹائی سے رابطہ کرنے سے رکے رہے،اور پہلی بار عبدہ کا خط ایک دوست سڈنی کاکریل Sidney Cockrell جو فنون لطیفہ کی تاریخ میں بھی گہرا درک رکھتا تھا، کے ذریعے ٹالسٹائی تک پہنچا، اور ٹالسٹائی نے بھی پہلے اس ثالث کو جوابی خط لکھا :

’’ مجھے مفتی (محمد عبدہ) کا خط مل گیا ہے اور میں اسے بھیجنے پر آپ کا بہت مشکور ہوں۔ مفتی کا خط تعریف و توصیف میں اس قدر مشرقی طرز کا ہے کہ اس کا جواب دینا میرے لیے مشکل ہے۔ لیکن میں جواب دینے کی کوشش کروں گا اور مجھے ایسے دلچسپ شخص کے ساتھ رابطہ رکھنے میں خوشی ہے۔‘‘

(Tolstoy 1956, vol 75, pp 88-89)

اگلے روز، 13 مئی 1904کو، ٹالسٹائی نے براہ راست محمد عبدہ کو خط لکھا، جو اس وقت مصر کے مفتی اعظم تھے۔

’’مجھے آپ کا بہت اچھا اور بے حد قابل تعریف خط موصول ہوا، میں آپ کو یقین دلانے کے لئے جلد جواب دے رہا ہوں کہ مجھے ایک روشن خیال انسان کے ساتھ رابطے میں آنے پر بہت خوشی ہے، اگرچہ میرا آپ سے عقیدہ مختلف ہے،کیونکہ میں آپ سے ایک مختلف مذہب میں پیدا ہوا اوراسی میں میری پرورش ہوئی ہے۔ لیکن میرے نزدیک ہم دونوں ہم عقیدہ ہیں، کیونکہ دنیا میں مختلف مذاہب ہیں اور ان سے مزید بہت سے عقائد جنم لیتے ہیں، لیکن صرف ایک ہی عقیدہ سچا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں آپ کے خط کے مضمون سے یہ سمجھنے میں اگر غلطی نہیں کر رہا ہوں کہ جو میرا عقیدہ ہے، وہی آپ کا ایمان ہے، اور وہ یہ ہے کہ خدا اور اس کے قانون کو تسلیم کیا جائے، اپنے پڑوسی سے محبت ہو اور دوسروں سے وہ سلوک کیا جائے جس کی آپ خواہش رکھتے ہو کہ آپ کے ساتھ بھی ویسا کیا جائے۔ میرا ماننا ہے کہ اس سے ہی تمام حقیقی مذہبی اصول نکلے ہیں اور یہی امور یہودیوں، برہمنوں، بدھوں، عیسائیوں اور مسلمانوں میں یکساں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذاہب میں جتنے زیادہ عقائد، اصول و ضوابط، معجزات اور توہمات ہونگے، اتنا ہی زیادہ وہ مذاہب لوگوں کو آپس میں تقسیم کرتے جائیں گے یہاں تک کہ باہمی الفت کو ہی ختم کردیتے ہیں اور اس کے برعکس، مذاہب جتنے زیادہ شفاف ہونگے، اتنے ہی وہ انسانیت کے مثالی مقصد کے ہمیں قریب تر کرنے والے ہونگے۔ اور وہ مقصد باہمی اتحاد کا قیام ہے۔ اس لیے آپ کا خط میرے لیے بہت خوشگوار تھا، اور میں آپ کے ساتھ رابطے میں رہنا چاہتا ہوں۔‘‘

 (Tolstoy, 1956, vol 75, p91-92)

مورخین اور ٹالسٹائی کے مداح اور محققین اس بارہ میں سوال اٹھاتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان باہمی خط و کتابت کا خاص محرک اورپہلو کیا تھا اور اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہے۔لیکن اس سلسلہ میں محمد عبدہ کو سمجھنا ضروری ہے۔

دراصل عبدہ کا ایک قریبی اور معتمد دوست ولفرڈ بلنٹ(Wilfrid Blunt) تھا۔انگریزی زبان کا شاعر، سیاحت اور گھوڑوں کی نسلوں کے علم کا شوقین یہ شخص بھی بالکل ٹالسٹائی کی طرح، کوئی بھی ایک عقیدہ اختیار کرنے میں ساری عمر گومگو کا شکار اور سرگرداں رہا۔ وہ ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوا اور اس کی اچھی پرورش کی گئی،بعد میں ملحد ہو گیا،ایک قیاس یہ ہے کہ اس نے اسلام قبول کرلیا تھا، لیکن بستر مرگ پر ایک پادری سے دعائیں لے کر رخصت ہوا۔

بلنٹ کی ایک وجہ شہرت سامراجی قوتوں کی مخالفت، مصرکی قوم پرست تحریکوں اور بغاوتوں کی حمایت بھی کی۔ وہ مصر کے قونصل جنرل کرومر (Cromer)کے قریب سمجھا جاتا تھا اور اس نے ہی مصر کی برطانوی بیوروکریسی کے حلقوں میں عبدہ کو ترقی دی۔ بلنٹ اور اس کی بیوی دونوں ہی ٹالسٹائی کے جنون کی حد تک مداح تھے۔

اپنی ڈائری میں، جو بعد میں My Diaries کے نام سے شائع ہوئی، بلنٹ 28 نومبر 1895 کو لکھتا ہےکہ

’’آج، میں قاہرہ گیا اور لارڈ کرومر سے ملا۔۔۔اس کے بعد انہوں نے علاوہ دوسرے معاملات کے محمد عبدہ کے محکمہ اوقاف کے سربراہ بن جانے کے امکان پر بات کی۔ یقیناً میں نے عبدہ کی بے حد تعریف کی‘‘ (ص206)

ایک آزاد خیال اسلام کے بارے میں عبدہ کے تخیل نے اسے انگریزوں سے قریب کردیا، اور خاص طور پر لارڈ کرومر کے، جس کا نہایت سختی سے موقف تھا کہ مصر اسلام سے تعلق توڑے بغیر جدید دنیا کے ساتھ چل ہی نہیں سکتا۔ عبدہ، جیسا کہ وہ سیاسی لحاظ سے قابل قبول اسلام کے بارے میں آواز اٹھا رہا تھا، یقیناً ویسے نوآبادیاتی ایجنڈوں میں ایک مددگار کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔

بلنٹ کی ڈائری میں قوم پرستوں اور خدیووغیرہ کے متعلق عبدہ کی طرف سے فراہم کی جانے والی انٹیلی جنس کا جا بجا ذکر ہے، اور بلنٹ یہی معلومات کرومر اور دیگر اربابِ اختیار تک پہنچا رہا ہے۔

بلنٹ اور اس کی بیوی این (Anne)کا ایک دوست کاکریل(Cockerell) بھی تھا جو 1904 کے اوائل میں قاہرہ میں ان میاں بیوی سے ملنے گیا۔ اس سفر کے دوران، اس کا تعارف عبدہ سے ہوا، جیساکہ 2 مئی 1904 کو کاکریل کے ٹالسٹائی کو لکھے گئے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ عبدہ نے ٹالسٹائی کو دینے کے لئے کاکریل کو ایک خط دیا تھا۔

اور یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا تھا جب ٹالسٹائی کا روسی آرتھوڈوکس چرچ نے اخراج کردیا تھا اور اب وہ ایک متحدہ مذہب کے اپنے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تحریک قائم کرنے میں پوری طرح سرگرم تھا، تا اس کی مسیحائی امنگیں دنیا بھر میں متعارف ہوں۔

 کاکریل، جو ٹالسٹائی کا بہت مداح تھا، اپنے مذکورہ بالا خط میں لکھتا ہے کہ

’’میں حال ہی میں قاہرہ گیا ہوا تھا اور [عبدہ] نے مجھے اپنا یہ لف ہذا خط سپرد کیا تھا جو آپ کو ارسال کیا جائے گا۔۔۔۔

’’ایسے وقت میں جب مشرقی دنیا میں ایک افسوس ناک تنازعہ کے بارے میں آپ کے دلیر بیانات نے شاید بہت سے لوگوں کو آپ کا دشمن بنا دیا ہے، ایسے میں ہو سکتا ہے کہ آپ کو ایک دوسرے مذہب کے ایک سمجھدار آدمی کی طرف سے ہمدردی اور حمایت مل جائے، اور اس شخص کو اپنے نظریات کی وجہ سے ہمیشہ ہی نقصان اٹھانا پڑا ہے کیونکہ اس کے اصولوں سے اس کے اپنے اہل وطن ہی آگاہ نہیں ہیں۔‘‘

صاف معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں ٹالسٹائی کے نظریات کے حامی موجود تھے جو کسی بھی مسیحائی نظریے کو ٹالسٹائی کے مسیحائی عزائم سے جوڑنے کی کوشش کر تے رہتے۔ لیکن مضمون اس حصے کو مکمل کرنے سے پہلے، ایک نظر مفتی اعظم کے ٹالسٹائی کے خط پر ڈالنا ضروری ہے جس میں عیاں ہے کہ کس طرح خوشامد کا مظاہرہ کیاگیا:

’’گو ہمیں آپ سے بالمشافہ ملنے کی خوشی نہیں ملی، لیکن آپ کی روحانی بالیدگی ہم سے واقف ہے۔ آپ کے خیالات کا نور ہم پر چمکا ہے اور آپ کے خیالات کا سورج آسمانوں پر طلوع ہوا ہے جس نے آپ کو روشن دماغ اور ہم خیال لوگوں سے جوڑ دیا ہے۔

’’خدانے آپ کو انسانی فطرت کے اسرار کو سمجھنے کا راستہ دکھایا ہے، جس کے مطابق اس نے انسانوں کو پیدا کیا، اور اس نے آپ کو اس مقصد کے بارے میں وہ خاص روشنی بخشی ہے جس کی طرف وہ نسل انسانی کی رہنمائی کر رہا ہے۔۔۔

مذہب کی طرف متوجہ ہوکر آپ نے کج رو روایات کے پردے چاک کردیئے ہیں اور توحید کے جوہر کو سمجھ لیا ہے۔۔۔آپ نے لوگوں کو اس بات کی طرف بلانے کے لیے آواز بلند کی جس کے لیے خدا نے آپ کو ہدایت دی ہے۔ آپ خود اوّلاً اس راستے پر چلنے والے ہیں، اور انھیں اپنے ساتھ چلا رہے ہیں۔۔۔‘‘

ٹالسٹائی نے یونہی نہیں لکھا تھا کہ ’’مفتی (عبدہ) کا خط اس قدر مشرقی جذبات سے بھرا ہے کہ اس کا جواب دینا میرے لیے مشکل ہے۔۔۔حتی کہ میرے لئے اس کو نقل کرنا بھی مشکل ہورہا ہے۔۔۔‘‘

صاف نظر آرہا ہےکہ یہ خط مثالی خوشامدسے بھرا ہے۔ اور اس میں جہاں محمد عبدہ ٹالسٹائی سے اپنے لئے کسی گنجائش کی تلاش میں ہے، وہاں بدلے میں ٹالسٹائی بھی عبدہ کے منفرد نظریات کی مدد سے اپنے مخصوص مسیحی عزائم کے لیے سیڑھی مانگ رہا ہے۔

ایسے صرف دو خطوط کاہی تبادلہ ہوا تھا کہ ان دو احیاء پسندوں کاباہمی رابطہ ختم ہو گیا۔ وہ ایک دوسرے سے اپنے درپردہ مطلوبہ نتائج کے لئے مدد کے طلبگار ہی رہے مگر نتیجہ کوئی نہ نکلا۔

ٹالسٹائی اور ہندو ازم

برصغیرمیں ہندومعاشرے کے متنوع سماجی حالات کی وجہ سے کارل مارکس اور اینگلز(Engels) سے لے کر ٹالسٹائی تک سب کو ہی ہندوستان میں نوآبادیاتی حکمرانی کا تجزیہ کرنا مرغوب رہا۔

اگر ایک طرف ہندوستان کے مستقبل کے بارہ میں کارل مارکس کانظریہ تھا،تو ٹالسٹائی کا مانناتھا کہ پرامن طریق اختیا ر کرکے نوآبادیاتی تسلط سے ہندوستان کی آزادی ممکن ہے۔اسی طرح ٹالسٹائی جو عیسائیت سے نکل کر ایک خاص عالمی مذہب بنانے کا خواہاں تھا، یہ سمجھتا تھا کہ اس کے خودساختہ عالمگیر مذہب کے نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہندوستان ایک ایسی تجربہ گاہ ہوسکتی ہے جہاں اس کے نظریات زیادہ کامیابیاں سمیٹ سکتے ہیں۔

ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ ٹالسٹائی مذہب کے نام پر ایک سماجی، سیاسی، اقتصادی تحریک شروع کرنے کے لیےبےتاب ہے اور اس سلسلہ میں دو ہندوؤں کے ساتھ خط و کتابت شروع کرتا ہے، جس کا آغاز ٹالسٹائی نے ’’ایک ہندوکے نام خط‘‘ سے کیا۔

تارکناتھ داس، بنگال سے تعلق رکھنے والا ایک انقلابی تھا جو نوآبادیاتیات کی مخالفت میں سرگرم کارکن اور مذہباً ہندوتھااور کینیڈا ہجرت کر کے  آباد ہو گیا تھا۔ اس نے Free Hindustan کے نام سے ایک جریدہ شروع کیا۔ ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے لیے ہر ممکن طریقے آزماتے ہوئے، داس نے ٹالسٹائی تک پہنچنے کا فیصلہ کیا تاکہ اس کے عالمی اثر و رسوخ کو استعمال کرسکے۔

داس نے 24 مئی 1908 ءکو ٹالسٹائی کو خط لکھا جس میں ہندوستان کے مسئلہ پر مداخلت کی دعوت دی:

’’۔۔۔آپ نے روس کے بارے میں بہت اچھا ادبی کام کیا ہے۔ ہم آپ سے متمنی ہیں کہ اگر آپ کے پاس وقت ہو تو ہندوستان کے بارے میں ایک مضمون لکھیں اور ہندوستان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کریں۔۔

بھوک کے ہاتھوں ستائے لاکھوں لوگوں کے نام پر میں آپ کے مسیحی جذبے سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ اس معاملہ پر بھی اپنا قلم اٹھائیں۔۔۔(A letter to a Hindooصفحہ 15)

ٹالسٹائی نے ایک طویل مقالے کی صورت میں جواب دیا اور اس کو عنوان دیا:

ایک ہندو کے نام خط

اب صورت حال یوں ابھرتی ہے کہ داس تو ٹالسٹائی سے ہندوستانی مسائل پر کسی انقلابی حل کی توقع کر رہا تھا،جبکہ ٹالسٹائی اس کے برعکس مشورہ دے رہا تھا کہ ہندوستان کے مسئلے کا حل عدم تشدد پر مبنی جوابی کارروائی میں ہے۔اور لکھا کہ ’’برائی کرنے والوں کے مقابل پر زبردستی ا ور طاقت سے بھری مزاحمت ایسا تضاد ہے جو محبت کے پورے احساس اور معنی کو بالکل تباہ کر دیتا ہے۔‘‘

ٹالسٹائی کا جواب شاید تارکناتھ داس کی توقعات پر تو پورا نہ اترا، لیکن اس نے یقیناً موہن داس کرم چند گاندھی کے دل کو چھو لیا، جو تب ایک نوجوان وکیل کے طور پر جنوبی افریقہ میں اور اپنے آبائی ملک ہندوستان میں نوآبادیاتی مظالم کے خلاف آواز بلند کررہے تھے۔

گاندھی جب لندن میں تھےتو وہ دسمبر 1908 میں شائع ہونے والی اس خط و کتابت سے بہت زیادہ متاثر ہوئے، کیونکہ وہ تو پہلے ہی ٹالسٹائی کے افسانوی ادب کے مداح تھے، اورٹالسٹائی کی روحانیت اور ادب سے مزین تصنیف The Kingdom of God is Within You پر فریفتہ تھے۔

ٹالسٹائی کامذکورہ بالا خط پڑھ کر، جو کہ گاندھی کے مقصود معاملات اور رجحانات سے بھی قریب تر تھا، اسے خط لکھنے کی ترغیب ہوئی۔ اور یوں ان دونوں افراد کی آپس میں خط و کتابت کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا جو اگلے دو سال کے عرصے جاری رہا، یہاں تک کہ نومبر 1910ء میں ٹالسٹائی کا انتقال ہو گیا۔

یکم اکتوبر 1909 ءکو ٹالسٹائی کے نام  پہلے خط میں نظر آتاہے کہ گاندھی تشدد اور ظلم کے مقابل پر عدم تشدد کے خیالات سے گہرے متاثر تھے۔

’’۔۔۔ ہم میں سےبعض لوگوں نے توواضح طور پر دیکھ لیا ہے کہ امن کے قیام کی خاطر عدم تشدد والی مزاحمت بہت حد تک کامیاب ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے۔ اسے سے وحشیانہ طاقت کو ناکام کیا جانا چاہئے۔‘‘ (صفحہ 54)

ٹالسٹائی کو گاندھی کی صورت میں ایک وفادار شاگرد ملنے والا تھا، کیونکہ اسی خط میں گاندھی نے ٹالسٹائی کو درست سیاسی سمجھ بوجھ کے ساتھ چلنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

’’میں بھی ایک تجویز پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ اختتامی پیراگراف میں ایسا لگتا ہے کہ آپ قاری کوتناسخ کے عقیدے سے باز رہنےکا مشورہ دیتے ہیں۔۔۔

’’تناسخ یا تعددِ جنم کا عقیدہ ہندوستان میں لاکھوں لوگوں کوبہت عزیز ہے، بلکہ ملک چین میں بھی۔

’’یہ لکھنے میں میرا مقصد آپ کو نظریہ تناسخ کی سچائی پر قائل کرنا نہیں ہے، بلکہ آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ کیا آپ براہِ کرم’تناسخ‘ کے عقیدہ کے رد والا حصہ اپنی اس تحریر سے حذف کر دیں گے؟‘‘

ٹالسٹائی نے اپنے جوابی خط مرقومہ 7 اکتوبر 1909 میں، گاندھی کی اس تجویز کو دل و جان سے قبول کیا کہ ’’ایک ہندو کے نام خط‘‘ کا ہندوستانی زبان میں ترجمہ کیا جائے اور اس کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی جائے۔ اورایسا کرتے ہوئے، ٹالسٹائی نے سیاسی درستگی کے لیے گاندھی کی تجویز کو بھی شامل کیا:

’’۔۔۔یقیناً، اگر آپ پسند کریں تو، میں آپ کو ان اقتباسات کو حذف کرنے کی اجازت دیتا ہوں۔اور آپ کے تعاون اور مدد کرنے سے مجھے بہت خوشی ہوگی۔ ہندوستانی زبانوں میں ترجمہ شدہ میری تحریروں کی اشاعت اور ترویج میرے لیے خوشی کی بات ہے۔ ‘‘

1904 کے موسم بہار تک  ٹالسٹائی اور گاندھی کے باہمی تعلقات نئی حدوں کو چھونے لگے تھے، مثلا گاندھی نے 4 اپریل کے اپنے خط میں خود کو ٹالسٹائی کے ’’عقیدت مند پیروکار‘‘کے طور پر لکھنے لگے تھے اور 1910 کے موسم گرما میں یہ صورت حال تھی کہ جب گاندھی نے اپنے دوست H Kallenbach کے تعاون سے جنوبی افریقہ میں پر امن آزادی کے نظریہ پر عمل پیرا سیاسی کارکنوں کےلیے ایک آشرم بنایا، تو ان کے 15 اگست 1910 کے خط سے پتہ چلتا ہے کہ اس کو جگہ کو Tolstoy Farm کا نام دیا۔

گاندھی جی کے توسط سے ٹالسٹائی کی ہندوستان تک رسائی کا یہ محض ایک نمونہ ہے۔ جس میں صرف دونوں کی نہ صرف باہمی خط و کتابت رہی بلکہ دو’’مہاتماؤں‘‘کے درمیان باہمی تعاون کا بھی اظہار تھا، کیونکہ یہ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ مسیحائی عزائم سے سرشار تھے۔

ٹالسٹائی اور جماعت احمدیہ

مضمون کے آخر پر حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے ساتھ ٹالسٹائی کی خط و کتابت کا ذکر ہے، کیونکہ جماعت احمدیہ کی خط و کتاب کی نوعیت مذکورہ بالا تین مذہبی تحریکوں سے مختلف ہے۔جماعت احمدیہ کے قیام کے اولین برسوں میں ٹالسٹائی جیسے عظیم مفکر اور ادیب کے ساتھ رابطہ کی تفصیل بہت دلچسپ ہے۔

اس خط و کتابت کا آغاز ظاہر ہےحضرت مفتی صادق نے ہی کیا،لیکن اس کی کیا ضرورت پیش آئی، وہ پرکھنا اگرچہ مقصود نہیں۔ تاہم، اس معاملہ میں پہل کرنے کے پیچھے چند وجوہات کا قیاس ضرور کر سکتے ہیں۔

روسی آرتھوڈوکس چرچ سے اخراج کے ردعمل میں، ٹالسٹائی نے ایک جواب لکھا جس کا عنوان تھا:

My reply to the Synod.

ٹالسٹائی نے اس میں اپنے خلاف لگائے گئے الزامات پر بات کی ہے اور اس وجہ پر بھی قلم اٹھایا ہے کہ جس کی بناء پر اس کو چرچ سے نکالا گیا تھا۔ یہاں صرف ٹالسٹائی کے جواب میں سے ایک پیراگراف درج کردیناہی کافی ہے کہ تب وہ اپنے عقائدکے لحاظ سے تب کہاں کھڑا تھا:

’’ پھر کہا گیا ہے کہ ’میں خدا کا انکار کرتا ہوں جس کی عبادت تثلیث کے عقیدہ کے مطابق کی جاتی ہے، جو کائنات کا خالق اور مصور ہے۔ مگر میں تو خُداوند یسوع مسیح کا انکار کرتا ہوں، جو خدا بھی تھا اور انسان تھا، نجات دہندہ اور دنیا کا نجات دہندہ، جس نے ہم لوگوں کے لیے اور ہماری نجات کے لیے دُکھ اُٹھایا، اور مُردوں میں سے جی اُٹھا۔اور میں تو خُدا کی مقدس ماں کے انسانی تصور، جو یسوع کی پیدائش سے پہلے بھی کنواری تھی اور اُس کی پیدائش کے بعد کنواری رہی، کا انکار کرتا ہوں۔

’’اور اسی طرح میں اس ناقابل فہم عقیدہ تثلیث کا انکار کرتا ہوں، جو ہمارے موجودہ دور میں قطعی طور پر بودہ ہوچکا ہے۔ مثلاً پہلےپہل آدم کی مزعومہ غلطی کا افسانہ، نیز نسل انسانی کو چھڑانے کے لیے ایک کنواری کے بطن سے پیدا ہونے والے خدا کی توہین آمیز کہانی۔ ‘‘

ٹالسٹائی نے مزید کہا کہ وہ بپتسمہ اور عشائے ربانی جیسی رسومات اور ان سے منسلک تمام توہمات پر یقین نہیں رکھتا تھا، اور یہ بھی کہ اس کو قیامت اور دوبارہ جی اٹھنے کا تصوربھی،محض غیر معقول لگتا ہے۔

حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓنے ٹالسٹائی میں ایک اصل عیسائیت کا پیرو دیکھا جو کلیسا کی کہانیوں سے بیزار تھااور گمان کیا کہ اگرا س کی درست رہنمائی کی جائے تو وہ بالآخر ایک سچا مسلمان بن سکتا ہے اور اسی باعث اس سے رابطہ کیا۔

ٹالسٹائی کے خطوط کے مجموعہ میں اُس کے جوابی خطوط تو شامل ہیں لیکن ٹالسٹائی کے نام مفتی صادق صاحب کے لکھے گئے خطوطاس مجموعے میں میسر نہیں۔ البتہ مفتی صاحب نے اپنا ابتدائی خط اپننے خودنوشت حالات ’’ذکرِ حبیب‘‘ میں درج کیاہے :

’’جناب !

 میں نے آپ کے مذہبی خیالات کتاب برٹش انسائیکلو پیڈیا کی جلد33 میں پڑھے ہیں جو کہ انہیں دنوں میں انگلستان میں طبع ہوئی ہے۔ اور اس بات کے معلوم کرنے سے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ یورپ اور امریکہ کے ممالک پر جو تاریکی تثلیث نے ڈال رکھی ہے۔ اس کے درمیان کہیں کہیں خالص موتی بھی پائے جاتے ہیں جو کہ خدائے قادر ازلی ابدی ایک بچے معبود کے جلال کے اظہار کے لئے جھک رہے ہیں۔ سچی خوش حالی اور دُعا کے متعلق آپ کے خیالات بالکل ایسے ہیں جیسے کہ ایک مومن مسلمان کے ہونے چاہئیں۔ میں آپ کے ساتھ ان باتوں میں بالکل متفق ہوں۔ کہ عیسی مسیح ایک روحانی معلم تھے۔ اور کہ اس کو خدا سمجھنا یا خدا سمجھ کر پرستش کرنا سب سے بڑا کفر ہے۔ علاوہ ازیں میں آپ کو اس امر سے بھی بخوشی اطلاع دیتا ہوں کہ حضرت عیسی کی قبر کے مل جانے سے کافی طور پر ثابت ہو گیا ہے کہ وہ مر گیا یہ قبر کشمیر میں ملی ہے۔ اور اس تحقیقات کا اشتہار حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے کیا ہے۔ جو کہ توحید الہی کے سب سے بڑھ کر محافظ ہیں اور جن کو خدائے قادر کی طرف سے مسیح موعود ہونے کا خطاب عطاء کیا گیا ہے کیونکہ ایک بچے خدا کی بچی محبت میں وہ کامل پائے گئے ہیں۔ وہ اس زمانہ میں منجانب اللہ ملہم مصلح اور خدا کے نیچے رسول ہیں۔ وہ سب جو اس مسیح پر ایمان لائیں گے۔ خدا کی طرف سے برکتیں پائیں گے۔ پر جو کوئی انکار کرے گا۔ اس پر غیور خدا کا غضب بھر کے گا۔ میں آپ کو ایک علیحدہ پیکٹ میں خدا کے اس مقدس بندے کی تصویر جمعہ یسوع کی قبر کی تصویر کے روانہ کرتا ہوں۔ آپ کا جواب آنے پر میں بخوشی اور کتا ہیں آپ کو ارسال کروں گا۔

میں ہوں آپ کا خیر خواہ مفتی محمد صادق از قادیان

28 ا پریل1903ء ‘‘

ریویو آف ریلجنز 2002 کے اسی شمارہ میں ٹالسٹائی کا جواب بھی درج ہے:

’’بخدمت مفتی محمد صادق صاحب

 آپ کا خط معہ مرزا غلام احمد صاحب کی تصویر اور میگزین ریویو آف ریلجنز کے ایک نمونے کے پرچے کے ملا۔ وفات مسیح کے ثبوت اور اس کی قبر کی تحقیقات میں مشغول ہونا بالکل بے فائدہ کوشش ہے کیونکہ عقلمند انسان حیات عیسیٰ کا قائل کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔

’’ہمیں معقول مذہبی تعلیم کی ضرورت ہے۔ اور اگر مرزا احمد صاحب کوئی نیا معقول مسئلہ پیش کریں گے۔ تو میں بڑی خوشی سے اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ میگزین کے نمونے کے پرچے میں مجھے دو مضمون بہت ہی پسند آئے۔ یعنی گناہ سے کس طرح آزادی ہو سکتی ہے۔ اور آئندہ زندگی کے مضامین خصوصاً دوسرا مضمون مجھے بہت پسند آیا۔ نہایت ہی شاندار اور صداقت سے بھرے ہوئے خیالات ان مضامین میں ظاہر کئے گئے ہیں۔ میں آپ کا نہایت ہی شکر گزار ہوں۔ کہ آپ نے مجھے یہ پرچہ بھیجا۔ اور آپ کی چٹھی کے سبب بھی میں آپ کا بہت ہی شکر گزار ہوں۔

 میں ہوں آپ کا مخلص ٹالسٹائی – از ملک روس

15 جون 1903ء ‘‘

گو راقم الحروف کو تاحال ریویو آف ریلجنز کے مذکورہ شمارے میں پیش کیے گئے ٹالسٹائی کے جوابی خط کے معین الفاظ تونہیں مل سکے ہیں۔ تاہم یہ ضرورمعلوم ہوا ہے کہ ٹالسٹائی کے خطوط کو ایک سے زیادہ ماخذوں سے دوبارہ مرتب کرکے ان کا ترجمہ تیار کیا گیا ہے۔ حضرت مفتی صادق کا خط اور اس کے بعد ٹالسٹائی کا جواب سب سے پہلے اردو زبان کے اخبار الحکم میں انگریزی سے ترجمہ ہو کر اردو زبان میں شائع ہوا۔اورپھر جماعتی رسالہ Review of Religions میں اردو سے انگریزی ترجمہ کیا گیا ہے کیونکہ تب ان کے پاس الحکم میں شائع شدہ خط کا اردو ترجمہ ہی میسر تھا۔

ٹالسٹائی کے خطوط کے متن میں معمولی سا فرق شائد اختصار کرنے کی وجہ سے ہو،اور اب ہم رشئین اسٹیٹ لائبریری کی جلد 74 میں محفوظ خطوط سے استفادہ کرسکتے ہیں، جن کو State Publishing House of Fiction نے مرتب کرکے شائع کیا ہے۔ ذیل میں خاکسار روس کی اسٹیٹ لائبریری کا شائع کردہ خط درج کرتا ہے:

“То Mufti Muhammad Sadig.

Dear Sir, I received your letter as well as the leaflet with the portrait of Mirza Ghulam Ahmad and lately a specimen number of the”Review of Religions”.

The proofs of the death of Jesus and the pretended discovery of his tomb are quite useless because no reasonable man can believe in resurrection. What belongs to the man Mirza Ghulam Ahmad, w[h]ich you call the promised Messiah, all what you write about him and what is written in the leaflet has no interest whatever for me.

“We need no Messiah, we need only reasonable religious teaching and if Mirza Ahmad can teach men some new and reasonable doctrine I will be very glad to profit by it, but I know nothing of it. In the “Specimen Number” I approuved very much two articles: “How to get rid of sin” and “The life to come”, especially the second. The idea is very profound and very true.

“Thank you very much for sending this specimen, as well as for your letter.

“Yours truly

“Leo Tolstoy

“5 Juny [sic] 1903.”

ٹالسٹائی کے اس جوابی خط سے یہ بالکل واضح ہوجاتا ہے اور جیسا کہ پیوٹر سٹاونسکی (Piotr Stawinski) نے بھی اسی کی تصدیق کی ہے، کہ ٹالسٹائی جماعت احمدیہ، اس کے بانی اور جماعت کے عقائدو تعلیمات سے واقف نہیں تھااگر ایسا ہوتا تو  مسیح کے دوبارہ جی اٹھنے کے عقیدے پر تنقید کی کوئی وجہ نہیں تھی۔

ٹالسٹائی کا اگلا جوابی خط مورخہ 23 اگست 1903 کا ہے، مگر ہمارے پاس حضرت مفتی صادق صاحب کے بھیجے گئے خط کا متن نہیں ہے، ٹالسٹائی لکھتا ہے :

’’مفتی محمد صادق! مجھے آپ کا خط اور ریویو آف ریلیجنز کا 12 نمبر ملا ہے اور دونوں کے لیے آپ کا شکریہ۔ بہت سے مضامین بہت دلچسپ ہیں، لیکن مجھے افسوس ہے کہ وہ زیادہ تر کلیسیاؤں کے خلاف بحث کرتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ قائل نہیں ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ بیکار ہیں۔ میں نے ’ مسیح موعود کی تعلیمات‘ بھی پڑھی۔ یہ بالکل درست ہے کہ ان میں کوئی بھی چیز خلاف عقل نہیں ہے لیکن میں نے ان میں ابھی کچھ نہیں پایا اور نہ ہی اُس سے بہتر کچھ ظاہر کیا گیا ہے جتنا پہلے معلوم شدہ ہے۔

’’میں آپ سے متفق ہوں کہ ہمارے زمانے کا سب سے بڑا المیہ سچے مذہب کی عدم موجودگی ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر وہ شخص جو اپنے آپ میں مذہبی احساس رکھتا ہے، اسے ہر طرح سے اپنے پڑوسیوں تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے، خاص طور پر ایک اچھی زندگی کے ذریعے۔ اور یہی ہے جو ہم چاہتے ہیں اور اس وقت کی ضرورت ہے۔

آپ کا، لیو ٹالسٹائی۔ 23 اگست 1903ء‘‘

ایسا لگتا ہے کہ یہ باہمی خط و کتابت 1908 تک جاری رہی، اور حضرت مفتی صادق نے اولالعزم کی طرح ٹالسٹائی کو ریویو آف ریلیجنز کی ترسیل جاری رکھی۔ اور ٹالسٹائی جب جوابی خط لکھتا ہے تو دل کی تبدیلی بھی نظر آتی ہے:

’’محترم جناب!

’’میں ’ریویو آف ریلجنز ‘کے لیے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔مجھے آپ کے کام میں بہت دلچسپی ہے۔

کیا آپ بہاء اللہ کے عقیدہ کے بارے میں جانتے ہیں اور اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

’’آپ کا،لیو ٹالسٹائی۔2 فروری 1904۔ ‘‘(جلد 75، ص 16)

ٹالسٹائی کے ذاتی معالج، ڈی پی ماکووتسکی(DP Makovitsky) نے ٹالسٹائی کے اقوال اور خیالات پر مبنی ایک ڈائری لکھی۔ اس کی ڈائریوں میں بھی ہمیں جا بجا ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ کا ذکر ملتا ہے،جہاں ٹالسٹائی ریویو کے مضامین کی تعریف کیا کرتا۔ گو بعض دفعہ کچھ احتیاط کے ساتھ۔

اس ڈائری میں 17 مئی 1905 کو، ٹالسٹائی کی یہ بات لکھی :

’’ریویو آف ریلیجنز میں مسلمانوں میں شادی کے موضوع پر ایک مضمون ہے۔جب نیکولایف (Nikolayev) آئے، تو ضروری ہوگا کہ اسے یہ مضمون [ٹالسٹائی کا] ترجمہ کرنے کو کہا جائے مسلمانوں میں سب سے اعلیٰ اور پسندیدہ فعل ایک بیوی سے شادی ہے، اور صرف کمزوروں کے لیے ایک نظام کے ماتحت ایک سے زائد شادیوں کی اجازت ہے۔ اس مضمون کا مصنف یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ چرچ کے عیسائیوں سے برتر ہیں جن کے یہاں حقیقی طور پر کئی بیویاں رکھنے کا رواج ہے۔ اور ایک خاص طور پر اچھا مضمون ڈاکٹروں کی طرف سے خواتین کی شرم کی کمی پر توجہ نہ دینے کے بارے میں ہے۔‘‘

ٹالسٹائی ریویو آف ریلجنز کے اس مضمون کے زیر اثر رہا، اور ماکووتسکی کی 25 مئی 1905 کی ڈائری میں لکھا ہے:

’’L.N. (ٹالسٹائی) نے دوبارہ ریویو آف ریلیجنز میں شائع ہونے والے اس مضمون کی تعریف کی جو اسلامی نقطہ نظر سے شادی کے بارے میں تھا، جو عیسائیوں میں یک زوجگی کے منافقت کے خلاف تھا۔‘‘

اسی طرح ٹالسٹائی نے نومبر میں بھی ریویو آف ریلیجنز کے انہی  مضامین کا حوالہ دیا، اور ماکووتسکی نےاپنی 9 نومبر 1905 ء کی ڈائری میں لکھا:

’’محمدیوں (تاتاریوں اور دیگر) میں کیاہی وقار، عظمت اور سکون ہوتا ہے۔ ریویو آف ریلیجنز، محمدیوں کا جریدہ (ایک سادہ سا رسالہ ہے جس میں ہر مضمون عیسائیت کے ہی خلاف ہے، اور ان کا ایک کسی قسم کا نبی ہے) اس میں عیسائی جھوٹی یک زوجگی کے خلاف متعدد مضامین تھے۔ محمدیوں کے ہاں اصولی طور پر یک زوجگی ہے، لیکن بعض حالات میں، کمزوری کی وجہ سے (امیر افرادکو) کئی شادیوں کی اجازت ہے۔ لیکن دوسری طرف، ان کے ہاں عیسائیوں کی طرح بدکاری کے اڈے نہیں ہیں۔‘‘

اس موقع پر، ٹالسٹائی سے ہم کلام سوخوتین(Sukhotin)، نے پوچھا:

لیکن وہ تو غیر شادی شدہ ہیں، کیا ایسا نہیں؟

جس پر ٹالسٹائی نے جواب دیا:

’’اور یہی تو شادی ہے۔ کئی شادیاں۔ سو سال بعد لوگ یہ جان کر کتنے حیران ہوں گے کہ بدکاری کے اڈے ہوا کرتے تھے۔

14 اپریل 1907 کو، ٹالسٹائی کی جماعت احمدیہ کے رسالے میں دلچسپی بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے:

’’L. N. نے مجھے ہدایت دی کہ میں چرٹکوف (Chertkov)سے کہوں کہ وہ اس [ٹالسٹائی] کی تحریریں محمدیوں کے رسالہ ریویو آف ریلیجنز کے ایڈیٹر (قادیان، ضلع گورداس پور، ہندوستان) کو بھیج دیں۔۔۔‘‘

راقم کی اب تک کی تحقیق کے مطابق ٹالسٹائی اورجماعت احمدیہ کے درمیان یہ باہمی رابطہ اور خط و کتابت کا سلسلہ کم از کم 1908 تک جاری رہا ہے۔

اختتامیہ

قارئین نے محسوس کیا ہوگا کہ اوپر بطور نمونہ پیش کئے گئے اکثر خطوط میں نظر آرہا ہے کہ ٹالسٹائی کی کسی بھی مذہب میں توجہ اور دلچسپی اس امر پر مرکوز رہی،کہ کیا اس مذہب میں وہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ مذہب اُس عالمی نظام میں ڈھل سکے جس کاٹالسٹائی تصور کر رہا تھا۔

ٹالسٹائی کی بہائیت میں بڑھتی ہوئی دلچسپی شاید اس ظاہری لچک کی وجہ سے تھی جو یہ مذہب اپنے ماننے والوں کو دیتا ہے۔ لیکن جیسے ہی ٹالسٹائی نے کتاب الایقان میں دیکھا کہ بہایت میں بہااللہ کے علاوہ کسی کومرکزی حیثیت حاصل کرنے کی گنجائش نہیں، تو اس کی دلچسپی ختم ہو گئی۔

اسی طرح اگر محمد عبدہ ایک ایسے اسلام کا حامی تھا جہاں کوئی بھی آزادی کے ساتھ فری میسنز کے ساتھ گھل مل سکے اور فری میسن کے طور پر شمولیت اختیار کر سکتا ہو، تو ٹالسٹائی بھی خوشی سے اسے اپنے مسیحائی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کے لیے تیار تھا۔ لیکن عبدہ کے  عزائم کے ساتھ کلیۃًشامل ہوجانے پر بھی ٹالسٹائی آمادہ نہ تھا۔

اسی طرح جب گاندھی کی روحانیت اپنی سیاسی آمیزش کے ساتھ سامنے آئی تو یہ ساتھ بھی پروان نہ چڑھ سکا۔ نیز بھارت ماتا کےماننے والوں کے دل و دماغ میں قیادت کے لیے کسی روسی پیشوا کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی تو یہ باب بھی بند ہوگیا۔

جیسا کہ مذکورہ بالا پہلے تینوں افراد نے ٹالسٹائی کو انتہائی خوشامد بھرے خطوط لکھے اوروہ ٹالسٹائی کی دلچسپی بڑھانے اور توجہ سمیٹنے میں کامیاب رہے۔ جبکہ دوسری طرف، جماعت احمدیہ کے مبلغ کی خط و کتابت میں خوشامد کا کوئی نشان نہیں تھا، بلکہ انہوں نے ایک آسان اور سیدھے سادے طریق پر حضرت اقدسؑ مسیح موعود ؑ کے ذریعہ برپا ہونے والے احیا ئے دین کی طرف دعوت دی۔

ٹالسٹائی کی اسلام احمدیت کے لئے ناگواری کی اصل وجہ اس وقت کھل کر سامنے آجاتی ہے جب وہ بڑی ناپسندیدگی کے ساتھ کہتا ہے: ’’۔۔۔ ان کاتو اپنا ایک  نبی ہے۔‘‘

لیکن یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ ایک شخص، جس کے اپنے مسیحائی نظریات ہوں، وہ کسی ایسے شخص کو ردّ کر دے جو حقیقت میں بڑی جرأت کے ساتھ اُس دور کا مسیحا ہونے کا دعویدار تھا۔

یاد رہے کہ حضرت مفتی صادقؓ نے ٹالسٹائی کے ساتھ اپنی خط و کتابت ہر گز اُس سے اسلام احمدیت کی توثیق چاہنے کے لئے نہیں کی تھی، بلکہ مفتی صاحب نے تو دیگر مشاہیر عالم کو احمدیت کی تبلیغ کرنے کی طرح ٹالسٹائی کو بھی احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے رابطہ کیا تھا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button