سلامتی پہنچانے کے طریقے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ معاشرے پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سلامتی کے پیغام کو دوسروں تک پہنچاؤ۔ جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ اپنوں میں بھی اور غیروں میں بھی سلام کو رواج دو۔ جب کوئی مسلمان کسی کو سلام کرے تو مسلمان کے لئے یہ حکم ہے کہ اس کو پہلے سے بڑھ کرسلامتی لوٹاؤ۔ ایسی سلامتی جب ایک مسلمان معاشرے میں، جب ایک احمدی معاشرے میں لوٹائی جا رہی ہو گی تو ہر قسم کے جھگڑوں اور فسادوں اور لڑائیوں اور رنجشوں کی بیخ کنی ہو جائے گی، وہ ختم ہو جائیں گے… ایک دفعہ ایک مجلس میں ایک شخص آیا جس نے آنحضرتﷺ کو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا اور بیٹھ گیا۔ آنحضورﷺ نے جواب دیا: وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللّٰہ، پھر دوسرا شخص آیا اس نے کہا:اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ۔ آپؐ نے فرمایا: وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ، تیسرا شخص آیا اس نے کہا : اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ۔ آپؐ نے فرمایا: وَعَلَیْکُمُ اَلسَّلَامُ یا شاید وَعَلَیْکُمْ۔ اس پر ایک قریب بیٹھے ہوئے صحابی نے پوچھا کہ باقی دو کو تو آپ نے دعائیہ کلمات کہے اور بڑا اچھا جواب دیا۔ اس کو صرف وَعَلَیْکُمْ کہا ہے تو آپؐ نے فرمایا کہ انہوں نے جتنا سلام کیا تھا اس میں گنجائش تھی کہ بہتر کرکے لوٹا سکتا، اس لئے ان کو مَیں بہتر کرکے سلام واپس کرتا رہا ہوں۔ اس شخص نے بہترین دعائیہ کلمات کہے اس کے علاوہ کچھ اور جواب بنتا نہیں تھا تو مَیں نے کم از کم اس حکم کے تحت کہ وہی چیز لوٹا دو مَیں نے وَعَلَیْکُم کہہ کر اسی طرح کا اس کو سلام واپس کر دیا۔ (مجمع الزوائد للہیثمی کتاب الادب باب حد السلام حدیث نمبر 12748)
تو یہ ہے سلامتی پہنچانے کے طریقے اور آنحضرتﷺ کا اُسوہ۔(خطبہ جمعہ یکم جون 2007ء)