حضرت ابو طالب نے حضورؐ کی انتہائی درجہ کی حمایت کی
حضرت ابو طالب نے حضورﷺکی انتہائی درجہ کی حمایت کی، یہاں تک کہ حضورﷺ کی خاطر وہ اپنی قوم کی مخالفت اٹھانے کو بھی تیار ہو گئے۔ لیکن انہوں نے اپنی قوم کے دین کو نہیں چھوڑا اور حضورﷺکے اصرار کے باوجود کلمہ پڑھ کر توحید کا اقرار کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ رئوسائے مکہ کی شکایت پر حضرت ابو طالب کے حضورﷺکو اس کام سے باز آنے کی تلقین کرنے اور پھر حضورﷺ کے جواب پر حضرت ابو طالب کی طرف سے حضورﷺکی حمایت کے اعلان کے واقعہ کا ذکر کرنے کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں:ابوطالب کے اس جواب کی اہمیت کا پورا اندازہ وہ لوگ نہیں کر سکتے جو تاریخ سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ایک اور واقعہ کو نہیں جانتے جس سے ابوطالب کی قلبی کیفیت کا پتہ چلتا اور یہ معلوم ہوتا کہ انہیں اپنی قوم سے کتنی محبت تھی۔ جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو چونکہ رسول کریمﷺ کو ان سے بہت ہی محبت تھی ان کی قربانیوں اور حسن سلوک کی وجہ سے، اس لئے آپؐ کو سخت دکھ تھا کہ آپ مسلمان ہوئے بغیر مر رہے ہیں۔ آپؐ کبھی ان کے دائیں جاتے اور کبھی بائیں اور کہتے کہ اے چچا! اب موت کا وقت قریب ہے لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰه ِکہہ دیجئے مگر ابو طالب خاموش رہے اور کچھ جواب نہ دیا۔ آخر رسول کریمﷺنے بہت اصرار کیا آپؐ پر رقت طاری تھی اور آپ بار بار کہتے تھے کہ اے چچا! ایک دفعہ کلمہ پڑھ لیں تا کہ میں خدا کے حضور کہہ سکوں کہ آپ نے اسلام قبول کر لیا تھا لیکن ابو طالب نے آخر میں یہی جواب دیا کہ میں اپنی قوم کے دین کو نہیں چھوڑ سکتا۔ گویا ان کو اپنی قوم سے اتنی محبت تھی کہ وہ اس کے بغیر جنت میں بھی جانا نہ چاہتے تھے۔ اسی قوم سے اس قدر شدید محبت رکھنے والے شخص پر رسول کریمﷺکے بہادرانہ جواب کا یہ اثر ہوا کہ اس نے کہہ دیا کہ اچھا اگر قوم مجھے چھوڑتی ہے تو چھوڑ دے میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا۔ (خطبات محمود جلد۱۷ صفحہ ۲۶۴، مورخہ یکم مئی ۱۹۳۶ء)
پس ایک طرف تو حضرت ابو طالب نے اپنی آخری سانسوں تک حضورﷺکا ساتھ دیا لیکن دوسری طرف حضورﷺ اور آپ کے دین کو سچا جانتے ہوئے بھی انہوں نے کلمہ پڑھ کر توحید کا اقرار کرنے سے انکار کر دیا۔
… حضرت ابو طالب اگرچہ شرک کے زمانہ میں پیدا ہوئے اور انہوں نے آنحضورﷺکی کوشش اور خواہش کے باوجود توحید کا اقرار نہیں کیا لیکن وہ ایسے شرک میں مبتلا نہیں تھے جس شرک میں وہ مشرکین مبتلا تھے جو توحید اور خدا تعالیٰ کے دشمن تھے اور کھلم کھلا شرک کا اظہار کرتے تھے اور خدا تعالیٰ اور آنحضورﷺکی مخالفت میں دن رات کمربستہ تھے۔ اس لیے حضرت ابوطالب اپنی نیک فطرت اور آنحضورﷺکی مدد اور حمایت کرنے کی وجہ سے نیز قیامت کے روز حضورﷺکی شفاعت کی بدولت خدا تعالیٰ کے دشمن مشرکین کی طرح نہ جہنم کا ایندھن بنیں گے اور نہ ہی لمبا عرصہ جہنم میں رہیں گے۔ ہاں جس طرح ایک معمولی بیماری کا شکار انسان علاج کی خاطر کچھ وقت کے لیے ہسپتال جاتا ہے، حضرت ابوطالب کو بھی اسی طرح کچھ وقت کے لیے علاج کی خاطر جہنم کی آگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی حقیقت کو حضورﷺکے ارشاد میں بیان کیا گیا ہے۔
(بنیادی مسائل کے جوابات قسط۶۴ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۳؍نومبر ۲۰۲۳ء)