یقینی معرفت کے حاصل کرنے کے لئے ایمان ایک زینہ ہے
خدا تعالیٰ کا کلام ہمیں یہی سکھلاتا ہے کہ تم ایمان لاؤ تب نجات پاؤ گے یہ ہمیں ہدایت نہیں دیتا کہ تم ان عقائد پر جو نبی علیہ السلام نے پیش کئے دلائل فلسفیہ اور براہین یقینیہ کا مطالبہ کرو اور جب تک علوم ہندسہ اور حساب کی طرح وہ صداقتیں کھل نہ جائیں تب تک ان کو مت مانو۔ ظاہر ہے کہ اگر نبی کی باتوں کو علوم حسیہ کے ساتھ وزن کر کے ہی ماننا ہے تو وہ نبی کی متابعت نہیں بلکہ ہریک صداقت جب کامل طور پر کھل جائے خود واجب التسلیم ٹھہرتی ہے خواہ اس کو ایک نبی بیان کرے خواہ غیر نبی بلکہ اگر ایک فاسق بھی بیان کرے تب بھی ماننا ہی پڑتا ہے جس خبر کو نبی کے اعتبار پر اور اس کی صداقت کو مسلّم رکھ کر ہم قبول کریں گے وہ چیز ضرور ایسی ہونی چاہیے کہ گو عند العقل صدق کا بہت زیادہ احتمال رکھتی ہو مگر کذب کی طرف بھی کسی قدر نادانوں کا وہم جاسکتا ہو تاہم صِدق کی شق کو اختیار کر کے اور نبی کو صادق قرار دے کر اپنی نیک ظنی اور اپنی فراست دقیقہ اور اپنے ادب اور اپنے ایمان کا اجر پالیویں یہی لُب لباب قرآن کریم کی تعلیم کا ہے جو ہم نے بیان کردیا ہے لیکن حکماء اور فلاسفر اس پہلو پر چلے ہی نہیں اور وہ ہمیشہ ایمان سے لاپروا رہے اور ایسے علم کو ڈھونڈتے رہے جس کا فی الفور قطعی اور یقینی ہونا ان پر کھل جائے مگر یاد رہے کہ خدا تعالیٰ نے ایمان بالغیب کا حکم فرما کر مومنوں کو یقینی معرفت سے محروم رکھنا نہیں چاہا بلکہ یقینی معرفت کے حاصل کرنے کے لئے ایمان ایک زینہ ہے جس زینہ پر چڑھنے کے بغیر سچی معرفت کو طلب کرنا ایک سخت غلطی ہے لیکن اس زینہ پر چڑھنے والے معارف صافیہ اور مشاہدات شافیہ کا ضرور چہرہ دیکھ لیتے ہیں جب ایک ایماندار بحیثیت ایک صادق مومن کے احکام اور اخبار الٰہی کو محض اس جہت سے قبول کر لیتا ہے کہ وہ اخبار اور احکام ایک مخبر صادق کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے اس کو عطا فرمائے ہیں تو عرفان کا انعام پانے کے لئے مستحق ٹھہر جاتا ہے اسی لئے خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے یہی قانون ٹھہرا رکھا ہے کہ پہلے وہ امور غیبیہ پر ایمان لا کر فرمانبرداروں میں داخل ہوں اور پھر عرفان کا مرتبہ عطا کر کے سب عُقدے ان کے کھولے جائیں لیکن افسوس کہ جلد باز انسان ان راہوں کو اختیار نہیں کرتا۔
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵صفحہ ۲۵۱ تا ۲۵۳،حاشیہ)