حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

ہمارا اصل مقصود تو محبوبِ حقیقی کی رضا حاصل کرنا ہے

تعلیم کتاب کو حکمت پر مقدم کیا گیا ہے یعنی کتاب حکمت سے پہلے رکھی گئی ہے کیونکہ اعلیٰ ایمان والا شخص یہ دیکھتا ہے کہ اس کے محبوب کا کیا حکم ہے۔ وہ دلیلوں کی تلاش میں نہیں رہتا۔ بلکہ سَمِعْنَاوَاَطَعْنَا کہتا ہے کہ ہم نے حکم سن لیا ہے اور ہم اس کے دل سے فرمانبردار ہو چکے ہیں۔ ہمارے پچھلے تجربات بھی یہی ظاہر کرتے ہیں کہ ہر حکم پر عمل کرنے سے ہمارے دلوں کا تزکیہ ہوا ہے۔ اس لئے یقیناً اے نبیﷺ !تیرے پر خداتعالیٰ کی طرف سے اترے ہوئے اس حکم میں بھی کوئی حکمت ہو گی۔ چاہے ہمیں اس کی سمجھ آئے یا نہ آئے۔ ہمارا اصل مقصود تو محبوب حقیقی کی رضا حاصل کرنا ہے جو اس پیارے نبی کے ساتھ جُڑ کر اس کے کہے ہوئے لفظ لفظ پر عمل کرنے سے ملتی ہے۔ پس حکمتیں تو اس حکم کی جو بھی آئے بعد میں سمجھ آتی رہیں گی لیکن اپنے محبوب کی اطاعت ہم ابھی فوری کرتے ہیں۔ یہ فلسفیوں اور کمزور ایمان والوں کا کام ہے کہ حکمتوں کے سراغ لگاتے پھریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دین العجائز اختیار کرنے کی اسی لئے تلقین فرمائی ہے۔ لیکن جہاں تکبر اور فلسفہ میں انسان پڑے گا تو تزکیہ نہیں ہو سکتا اور جب آدمی میں تکبرآ جائے تو پھر ایمان میں ترقی تو کیا قبول کرنے کی بھی توفیق نہیں ملتی۔ پس حکمت کا علم ہونا ایک کامل مومن کے لئے، ایمان لانے کے لئے ضروری نہیں ہے اور جس کا ایمان صرف دلائل کی حد تک ہو اس کو حکمت کی بھی ضرورت ہے اور یہ کمزوریٔ ایمان ہونے کی نشانی ہے۔ پس نبی کا تزکیہ کرنا، اس کا حکم دینا اور اس حکم کو ماننا اور نبی کی باتیں سن کر اپنے دلوں کو پاک کرنے کی کوشش، یہ کامل الایمان لوگوں کا شیوہ ہے۔ اور ناقص ایمان حکمت کا تقاضا کرتا ہے۔ اس لئے ہر قسم کی طبائع کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس عظیم رسولؐ پر وہ تعلیم اتاری جس میں ہر حکم کی حکمت بھی بیان ہوئی ہے۔ پس یہ خاصہ ہے آنحضرتﷺ کی لائی ہوئی تعلیم کا جو ہر قسم کی طبائع اور مزاج کے لوگوں کے لئے مکمل تعلیم ہے۔ کسی کے لئے کوئی فرار کی جگہ نہیں۔ اور جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دین العجائز کو ہی کامل ایمان والوں کا خاصہ فرماتے تھے۔ ہمیں حکمتوں کی بجائے پہلے ایمان میں مضبوطی کی کوشش کرنی چاہئے پھرحکمتیں بھی سمجھ آجاتی ہیں۔

(خطبہ جمعہ یکم فروری ۲۰۰۸ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۲؍فروری ۲۰۰۸ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button