متفرق مضامین

سفرِ قادیان کے حوالہ سے ایک ایمان افروز واقعہ

(عطاء المجیب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)

۱۹۶۵ءکی بات ہے۔ ماہ اگست کے آخر میں مجھے اکیلے قادیان دارالامان جانے کا موقع ملا۔ غالباً ہفتہ عشرہ وہاں قیام کیا اور اللہ کے فضل سے بیت الدعا، بہشتی مقبرہ اور دیگر مقامات مقدسہ میں دعائیں کرنے کا خوب موقع ملا۔ میرا قیام لنگر خانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں تھا۔

یکم ستمبر کی رات کو دس گیارہ بجے کے قریب میں سونے کی تیاری کر رہا تھا کہ دروازہ پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو ایک جماعتی کارکن نے بتایا کہ انہیں حضرت مولانا عبدالرحمٰن جٹ صاحب امیر مقامی نے میرے لیے یہ پیغام دیا ہے کہ میں کل صبح سویرے قادیان سے واپس پاکستان چلا جاؤں۔ میں نے پوچھا کہ کیا اس ارشاد میں کچھ زائد وقت کی گنجائش ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ حضرت امیر صاحب مقامی نے مجھے فرمایا ہے کہ اگر صبح روانگی کسی وجہ سے مشکل ہو تو پھر ۳؍ستمبر ۱۹۶۵ءکولازمی طور پر روانہ ہو جائیں۔ میں نے کہا حضرت امیر صاحب مقامی سے جا کر عرض کر دیں کہ میں آپ کے ارشاد پر ۳؍ستمبر کو لازماً واپس پاکستان چلا جاؤں گا۔ ان شاء اللہ

اگلے روز ۲؍ستمبر کو دفتر کھلنے پر میں حضرت امیر صاحب مقامی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ہمیشہ کی طرح بہت شفقت اور احترام سے ملے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کا پیغام مل گیا ہے۔ اور میں ان شاء اللہ کل پاکستان کے لیے روانہ ہو جاؤں گا۔ آپ نے فرمایا کہ بالکل ٹھیک ہے۔ پھر آپ نے خود ہی اس ہدایت کا پس منظر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ کل رات ریڈیو پاکستان پر پاکستان کے صدر جنرل محمد ایوب خان صاحب کی تقریر میں نے سنی ہےان کے انداز خطاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے باہمی تعلقات میں تنا ؤ بہت ہے اور صورتِ حال جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے اگر خدا نخواستہ جنگ شروع ہو جائے تو عام دستور ہے کہ کسی بھی اور ملک سے آئے ہوئے لوگوں کو فوری طور پر گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ اس امکانی خطرہ کے پیش ِنظر میں نے آپ کو یہ پیغام بھجوایا تھا۔ میں نے آپ کا دلی شکریہ ادا کیا اور دعا کی درخواست کے ساتھ رخصت ہوا۔

۲؍ستمبر کا دن قادیان میں بہت مصروف گزرا۔ مسجد مبارک اور مسجد اقصیٰ میں نمازوں اور نوافل کے علاوہ بیت الدعا میں بھی نوافل اور دعاؤں کا خوب موقع مل گیا۔ بہشتی مقبرہ میں بھی حاضر ہو کر دعائیں کرنے کی توفیق ملی۔ دیگر احباب سے ملاقات کرنے میں اور چھوٹے چھوٹے کام کرنے میں دن کا وقت بہت جلدی گزر گیا۔ رات کو میں نے سفر کی تیاری مکمل کر لی اور ۳؍ستمبر کی صبح کو گاڑی کے ذریعہ قادیان سے روانہ ہو گیا۔

گاڑی چلی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیاری بستی قادیان دار الامان کو بہت محبت اور چاہت کے ساتھ مڑمڑ کر دیکھا۔ دعائیں کرتے ہوئے سفر کا آغاز کیا۔ کچھ دیر میں بٹالہ اسٹیشن آگیا۔ پھر وہاں سے روانہ ہو کر امرتسر پہنچ گیا۔ غالباً وہاں سے دوسری گاڑی لی جو براہ راست لاہور جاتی تھی۔ میں اکیلا تھا۔ کوئی اور واقف کار یا دوست ساتھ نہ تھا۔ دعاؤں کا اچھا موقع مل گیا۔ راستہ میں ادھر اُدھر باہر کے نظارے دیکھتا رہا اور کچھ دیر کے بعد ٹرین اٹاری اور واہگہ سے گزرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوئی۔ جلد ہی لا ہور ا سٹیشن آ گیا۔ میرے پاس مختصر سا سامان تھا۔ میں وہ لے کر پلیٹ فارم پر اترا۔ تو ایک باوردی سرکاری افسر مجھے ملا۔ اور اس نے اپنا تعارفی بیج دکھایا کہ وہ C.I.D کا افسر ہے۔ اس نے کہا کہ آپ میرے ساتھ الگ کمرہ میں آجائیں۔ میں کچھ باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں۔

میں اس افسر کے ساتھ ایک کمرہ میں بیٹھ گیا۔ اس نے بڑے اچھے انداز میں بات کا آغاز کیا کہ آپ کو سیاسی حالات کا تو علم ہوگا۔ اس حوالہ سے میں آپ سے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ نے اس سفر کے دوران ہندوستان کے بارڈر کے قریب کوئی فوجی نقل و حرکت تو نہیں دیکھی ؟ میں نے کہا کہ میں تو ایک طالب علم ہوں۔ ان سیاسی یا فوجی امور سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ نہ میں نے اس خیال سے گاڑی سے باہر دائیں بائیں نظر کی ہے۔ البتہ آپ کے سوال کرنے پر یاد پڑتا ہے کہ ہندوستانی بارڈر کے قریب کچھ فوجی ٹرکوں کی نقل و حرکت ضرور دیکھی ہے۔ اس نے پوچھا کہ ان ٹرکوں کے رنگ کیا تھے ؟ ان کی نمبر پلیٹ پر کیا لکھا تھا ؟ وغیرہ وغیرہ۔ نیز یہ پوچھا کہ معین طور پر کس جگہ پر آپ نے نقل و حرکت دیکھی۔ میں نے جواباً بتایا کہ میں نے اٹاری کے سٹیشن کے بعد قریباً ۷ منٹ کے سفر کے بعد ٹرک دیکھے۔ لیکن ان کے اوپر کی نمبر پلیٹ یا کمپنی کا نام نہیں دیکھ سکا۔ الغرض اس طرح کی باتیں وہ مجھ سے پوچھتا رہا۔ اور میں اپنے مشاہدہ کی حد تک صحیح صحیح باتیں انہیں بتا تا رہا۔ اس نے میرا شکر یہ ادا کیا کہ جو باتیں آپ نے بتائی ہیں۔ وہ ہمارے لیے بہت مفید ہیں۔

میں وہاں سے رخصت ہو کر دوسرے پلیٹ فارم پر آیا اور ربوہ جانے والی ریل کا ر پر سوار ہو کر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے شام کو بخیریت ربوہ پہنچ گیا۔ الحمد للہ

۲ روز کے بعد ۶؍ستمبر کو صبح ریڈیو کی خبروں سے معلوم ہوا کہ آج علی الصبح ہندوستانی افواج نے پاکستان پر حملہ کر دیا ہے۔ ہر طرف خوف اور پریشانی کا عالم تھا۔

آج ایک لمبے عرصہ کے بعد یہ نوٹ لکھتے ہوئے میرا دل اللہ تعالیٰ کے شکر سے لبریز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس عاجز کو ایک انتہائی خوفناک صورتِ حال سے بال بال بچالیا۔ اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ ساتھ یہ بھی سوچتا ہوں کہ اگر اس موقع پر حضرت مولانا عبد الرحمٰن جٹ صاحبؓ امیر مقامی مجھے اس وقت فوری طور پر واپس جانے کا مشورہ اور ہدایت نہ فرماتے تو کیا صورتِ حال ہو جاتی؟ آپؓ کی مومنانہ فراست، بالغ نظری اور ہمدردی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے محض اپنے خاص فضل وکرم سے مجھے ایک بہت بڑے خطرہ اور ابتلا سے بچالیا۔ فالحمد لله رب العالمین۔

کس طرح تیرا کروں اے ذوالمنن شکر و سپاس

وہ زباں لاؤں کہاں سےجس سے ہو یہ کاروبار

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button