خلاصہ خطبہ جمعہ

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پُر معارف ارشادات کی روشنی میں قرآن کریم کے فضائل، مقام و مرتبہ اور عظمت کا بیان: خلاصہ خطبہ جمعہ ۳۱؍ مارچ ۲۰۲۳ء

سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳۱؍مارچ۲۰۲۳ء

٭…روزوں کا حقیقی فیض اُٹھانا ہے تو قرآن کریم پڑھنے اور سُننےکی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیے

٭…اگر ہم نے رمضان کا حقیقی فیض پانا ہے تو ہمیں قرآن کریم کی تلاوت اور اس پر غور کی طرف خاص توجہ دینی چاہیےاور اس کا درس بھی سُننا چاہیے

٭… ہر احمدی کو ہر شر سے بچانے اورناقابل اصلاح لوگوں کو عبرت کا نشان بنانے کے لیے رمضان المبارک میں خاص دعاؤں کی تحریک

٭… مولانا منور احمد خورشید صاحب مبلغ سلسلہ ، مکرم اقبال احمدمنیر صاحب مربی سلسلہ پاکستان ،

سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ قادیان کی وفات پر مرحومین کا ذکرِ خیر اور نماز جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳۱؍مارچ۲۰۲۳ء بمطابق۳۱؍امان ۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۳۱؍مارچ ۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔

تشہد،تعوذاورسورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:

آج کل ہم رمضان کے مہینے سے گزر رہے ہیں۔یہ ایسا مہینہ ہے جس میں ایک روحانی ماحول بن جاتا ہے۔ روزوں کے ساتھ عبادتوں کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے۔ قرآن کریم پڑھنے اور سننے کی طرف توجہ ہوتی ہے۔

روزوں کا حقیقی فیض اُٹھانا ہے تو قرآن کریم پڑھنے کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیے۔ رمضان کو قرآن کریم کے ساتھ خاص نسبت ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ۔یعنی رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا وہ قرآن جو تمام انسانوں کے لئے ہدایت بنا کر بھیجا گیا ہے۔

۲۴؍رمضان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی ہوئی۔ ہر رمضان میں جبرئیل علیہ السلام آپؐ کے ساتھ قرآن کریم کا دور مکمل کیا کرتے تھے اور آخری رمضان میں دو مرتبہ یہ دور مکمل ہوا۔

ہمیں بھی اس مہینے میں خاص طور پر قرآن کریم پڑھنے،اس کی تفسیر پڑھنے اورسُننے کی طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔ ایم ٹی اے پربھی قرآن کریم کا درس آتا ہےاسے بھی سُننا چاہیے۔قرآن کریم کے ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ اور تفسیر پڑھیں گے تو تب ہی ہم اُن احکامات کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں جو اس میں بیان ہوئے ہیں،انہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنا سکتے ہیں،اپنی زندگی کو قرآنی تعلیم کے مطابق ڈھال سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بن سکتےہیں۔پس اگر ہم نے رمضان کا حقیقی فیض پانا ہے تو ہمیں قرآن کریم کی تلاوت اور اس پر غور کی طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کو بار بار پڑھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم صحیح طور پر قرآن کریم کی تعلیم کا اِدراک حاصل کرسکیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی حکمتیں اور احکام دو قسم کے ہوتے ہیں۔بعض مستقل اور دائمی ہوتے ہیں اوربعض آنی یعنی وقتی ضرورتوں کےلحاظ سے صادر ہوتے ہیں اگرچہ اپنی جگہ ان میں بھی ایک استقلال ہوتا ہے۔مثلاً سفر میں نماز یا روزے کے متعلق اور احکام ہیں اور حالتِ قیام میں اور احکام ہیں۔سفر میں نماز جمع کرنے یا قصر کرنے کی اجازت ہے جبکہ عام حالات میں پوری پڑھنی ہے۔آپؑ فرماتے ہیں کہ توریت اور انجیل کے احکام وقتی ضرورتوں کے موافق تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جوشریعت اور کتاب لے کر آئے تھے وہ مستقل اور ابدی شریعت ہے۔اس میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ کامل اور مکمل ہے۔قرآن شریف قانونِ مستقل ہے اورتوریت انجیل اگر قرآن شریف نہ بھی آتا تب بھی منسوخ ہوجاتیں کیونکہ وہ مستقل اور ابدی قانون نہ تھےجبکہ قرآن کریم کی تعلیم مکمل اور احکام اور ہدایات ہر زمانے کے لیے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آنے کی غرض اور قرآن کریم کی مکمل شریعت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ

میرے مبعوث ہونے کی علت غائی اور میرے آنے کامقصدصرف اسلام کی تجدید اور تائید ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پرشریعت اور نبوت کا خاتمہ ہوچکا ہے۔اب کوئی شریعت نہیں آسکتی۔ قرآن کریم خاتم الکتب ہے اس میں اب ایک شوشہ یا نکتہ کی کمی بیشی کی گنجائش نہیں ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض اور برکات اور قرآن شریف کی تعلیم اور ہدایات کے ثمرات کا خاتمہ نہیں ہوگیا۔وہ ہر زمانے کے لیے تازہ بتازہ موجود ہیں اور اُنہی فیوضات اور برکات کے ثبوت کے لیے خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے علم پاکرسب کو مخاطب کرکے فرمایا کہ قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَا۔(الاعراف:۱۵۹)تُو کہہ دے کہ اے انسانو! یقیناًمیں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ اس لیے ضروری تھا کہ قرآن شریف اُن تعلیمات کا جامع ہوتا جو وقتاًفوقتاً جاری رہ چکی تھیں اور اُن تمام صداقتوں کو اپنے اندر رکھتا جو آسمان سےمختلف نبیوں کے ذریعہ زمین کے باشندوں کوپہنچائی گئی تھیں۔قرآن کریم کے مدنظر تمام نوع انسان تھا نہ کہ کوئی خاص قوم اور ملک اور زمانہ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ اعلان کہ میں سب دنیا کی طرف اللہ کا رسول ہوں یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ قرآن کریم تمام دنیا کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

قرآن شریف حکمت ہے اور مستقل شریعت ہے اور ساری تعلیموں کا مخزن ہے۔ اس طرح پرقرآن شریف کا پہلا معجزہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہےاور دوسرا معجزہ اس کی عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی ساری پیشگوئیوں سے بھری ہوئی ہے۔پھرتیرہ سو سال بعد قائم ہونے والے سلسلے کی اور اُس وقت کے آثار و علامات کی پیشگوئیاں کیسی عظیم الشان اور لانظیر ہیں یعنی مسیح موعودؑ کے زمانے کی پیشگوئیاںا ور ابھی تک اس شان سے پوری ہورہی ہیں۔ دنیا کی کوئی کتاب ان پیشگوئیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں جابجا تاکید ہے کہ عقل فہم تدبر اور ایمان سے کام لیا جائے۔

قرآن مجید اور دوسری کتابوں میں یہی مابہ الامتیاز ہےاورکسی کتاب نے اپنی تعلیم کو عقل اور تدبراور آزاد نکتہ چینی کے آگے ڈالنے کی جرأت ہی نہیں کی۔

قرآن شریف ایک محفوظ کتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یقیناًیہ ایک عزت والا قرآن ہےاس کا وجود کاغذوں تک ہی محدودنہیں بلکہ وہ ایک چھپی ہوئی کتاب میں ہے جس کو صحیفۂ فطرت کہتے ہیں۔اس کی تعلیم کتھا کہانی نہیں جو مٹ جائے بلکہ جواسے سمجھے گا اور عمل کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرے گا۔اس کے اثرات اور اس کی گہرائی پاک لوگوں پر ہی کھلتی ہےاور اس کے لیے پاک لوگوں کی صحبت سے فیضیاب ہونے کی ضرورت ہے۔اس زمانے میں یہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ہی ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے علم پاکر جو بیان فرمایا اس کو ہمیں دیکھنا اورغور کرنا چاہیے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

قرآن کریم کا نام ذکر رکھا گیا ہے اس لیے کہ وہ انسان کی اندرونی شریعت یاد دلاتا ہے

جو انسان کے اندر مختلف طاقتوں کی صورت میں رکھی ہے۔حلم،ایثار،شجاعت، جبر،غضب اور قناعت وغیرہ۔ غرض جو فطرت باطن میں رکھی تھی قرآن نے اُسے یاد دلایا ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآن پر غور کرو، تدبر کرو، اس پر عمل تمہیں انسانی فطرت کے اعلیٰ معیار دکھائے گا۔پس اس نظر سے ہمیں قرآن کریم پڑھنا اورسمجھنا چاہیے۔

آج کل آزادی کے نام پر بچوں اور بڑوں کے ذہنوں کو جو زہر آلود کیا جارہا ہےاس سے بھی ہم بچ سکیں گے۔اگر ہم جماعتی لٹریچر اور قرآن کریم کی تفاسیر پڑھیں گے تو والدین بچوں کے سوالات کا جواب بھی دے سکیں گے۔

اب زمانہ آگیا ہے جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ لوگ قرآن پڑھیں گےلیکن اُن کے حلق سے نیچےقرآن نہ اُترے گا۔ یہی ہم دیکھتے ہیں کہ بےشمار قاری ہیں بےشمار پڑھنے والے ہیں لیکن عمل کوئی نہیں۔کاش مسلمان عقل کریں اوراُس شخص کی طرف توجہ کریں جسے خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے اُس کی بات سُنیں، اپنے اندرونے دیکھیں، زمانے کی ضرورت دیکھیں، مسلمانوں کے عمومی حالات دیکھیں۔صرف ظاہری فتووں سے زور دے کر اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش نہ کریں۔ قرآن کریم کی حقیقت کو سمجھیں۔بہرحال

ہم احمدیوں کو اپنے ہر وقت جائزے لیتے رہنا چاہیے کہ ہم کس حد تک قرآن کریم کی تعلیم کی حقیقت کو سمجھتےاور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا کررہے ہیں۔

آج کل سوشل میڈیا پر بعض چھوٹے چھوٹے پروگرام یا کلپ سے پتا چلتا ہے کہ لوگوں کو اسلام کی بنیادی تعلیم اور تاریخ کا ہی نہیں پتا۔بس مولوی کے کہنے پر ناموس رسالت یا قرآن یا صحابہؓ کے نام پر جماعت احمدیہ کے خلاف نعرے لگانے اور نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔بنگلہ دیش سے کسی نےمجھے لکھا کہ جب جلوس آیا اورانہوں نے حملہ کیا تو ایک لڑکا پتھر ماررہا تھا۔ ہمارے ایک احمدی نے کہا کہ کیا یہ قرآن میں لکھا ہے ؟ کیا یہ اسلام کی تعلیم ہے؟ ہم تو کلمہ پڑھنے والے ہیں۔اُس نے فوراً پتھرنیچے پھینک دیا۔پس ایسے لوگ مولویوں کےجوش دلانے پر کام کرنے لگ جاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ان شریروں کے شر سے ہمیں محفوظ رکھے اور ہمیں یہ توفیق دے کہ ہم اس رمضان میں بھی اور بعد میں بھی قرآن کریم کو سمجھنے، سیکھنے اور عمل کرنے والے ہوں۔

حضور انور نے رمضان میں خاص طور پر افراد جماعت کو دعاؤں کی طرف توجہ دلائی۔حضورِ انور نے فرمایا:

رمضان میں دعاؤں کی طرف بھی خاص توجہ دیں۔ اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہر احمدی کو ہر شر سے بچائے اور اللہ تعالیٰ کی نظر میں جو ناقابل اصلاح ہیں ان کو عبرت کا نشان بنائے تاکہ دوسرے لوگ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے بن سکیں۔دنیا کے لیے عمومی طور بھی دعا کریں، اللہ تعالیٰ جنگ کی آفت سے دنیا کو بچائے۔ (آمین)

حضور انور نے آخر میں مولانا منور احمد خورشید صاحب مبلغ سلسلہ، اقبال احمدمنیر صاحب مربی سلسلہ آف پاکستان، سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ آف قادیان کی وفات پر ان کے ذکر خیر اور ان کی جماعتی خدمات کا تذکرہ کرنے کے بعد ان کے نماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان کیا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button