جلسہ سالانہ کی اہمیت اغراض و مقاصد اور برکات

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام و خلفائے احمدیت کے ارشادات کی روشنی میں

میں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ احباب جو جلسہ سے واپس جانے والے ہیں انہوں نے جو مفید باتیں یہاں سنی ہیں ان کو قیمتی خزانہ کی طرح باندھ لیں

جلسہ سالانہ کی ابتدا الٰہی اشاروں اور بشارتوں کے تحت ہوئی تھی یہ اپنے اندر اَن گنت برکات اور فوائد سمیٹے ہوئے ہے۔ جلسہ سالانہ کی ایمان افروز تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ 27؍دسمبر 1891ء کو قادیان میں منعقد ہونے والے پہلے جلسہ سالانہ میں 75؍ احباب شامل ہوئے جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شرفِ مصافحہ بخشا اور پھر بعد نماز ظہر مسجد اقصیٰ میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ نے حضرت اقدسؑ کی تصنیف ’’آسمانی فیصلہ‘‘ پڑھ کر سنائی۔ پہلے جلسہ سالانہ کا یہی مکمل پروگرام تھا۔

جلسہ میں شامل ہونے والوں میں سے بارہ افراد نے اُس روز بیعت کرنے کی سعادت بھی پائی۔

جس سرزمین پر یہ جلسہ سالانہ منعقد ہوا یعنی قادیان دارالامان کی اُس زمانہ میں حالت ابتدائی صحابہ کے مطابق یہ تھی کہ یہ ایک نہایت بے رونق بستی تھی۔ بازار خالی پڑے تھے اور سارے بازار سے دو تین روپے کا آٹا یا چار پانچ آنے کا مسالہ نہیں مل سکتا تھا۔ معمولی ضرورتوں کے لیے قریبی قصبے بٹالہ جانا پڑتا تھا۔

پھر جس مقام، یعنی مسجد اقصیٰ، میں یہ جلسہ منعقد ہوا یہاں پہلے سکھوں کی ایک حویلی تھی جو قیدخانے کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والد ماجد حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے سات سو روپے میں اس حویلی کو خرید کر 1876ء میں یہاں مسجد تعمیر کروائی۔ اس مسجد کے پہلے امام محترم میاں جان محمد صاحب تھے جو اکثر اکیلے ہی نماز ادا کیا کرتے تھے۔

بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلے جلسے کے بعد اس جلسے کو مستقل طور پر ہرسال منعقد کرنے کے بارے میں اشتہار شائع فرمایا۔ چنانچہ اگلے سال یعنی 1892ء کے جلسہ سالانہ میں 327؍افراد شامل ہوئے۔ حضور علیہ السلام کی زندگی کا یہ واحد جلسہ سالانہ تھا جو مسجد اقصیٰ میں منعقد نہیں ہوا۔ اس جلسے میں چند تقاریر کے علاوہ مجلس شوریٰ بھی منعقد کی گئی جس میں بہت اہم اور دُوررس فیصلے ہوئے۔ مثلاً فیصلہ کیا گیا کہ یورپ اور امریکہ میں تبلیغ کے لیے ایک رسالہ جاری کیا جائے، قادیان میں اشاعت کے امور کے لیے مطبع (پریس) کا قیام عمل میں لایا جائے اور ایک اخبار بھی جاری کیاجائے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے فیصلے کیےگئے اور بعدازاں 40؍افراد کی بیعت کے بعد دعا کے ساتھ یہ سالانہ جلسہ اختتام پذیر ہوا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میںجلسہ سالانہ کئی بار منعقد ہوا۔ اور آپ نے اس کی اہمیت و افادیت کے حوالہ سے متعد د کتب و اشتہارات میںاحباب کو توجہ دلائی۔ اسی کی پیروی میںخلفاء کرام نےانتھک کوششوں سے اس عظیم الشان جلسہ کو اپنی نئی شان سےمنعقد کیا۔ اور اس کی اہمیت کو واضح کیا

اس حوالے سے قارئین الفضل انٹر نیشنل کے لیےجلسہ سالانہ کی اہمیت و برکات کے حوالہ سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام و خلفاء کرام کے چند حوالجات ازدیاد ایمان کے لیے پیش ہیں۔

جلسہ سالانہ خدا تعالیٰ کا ایک نشان حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں

’’سالانہ جلسہ خدا تعالیٰ کا نشان ہے اور خدا کی طرف سے ہمارے سلسلہ کی ترقی کے سامانوں میں سے ایک سامان ہے، جس کی ایک دلیل تو یہ ہے کہ جو غیر احمدی دوست جلسہ پر آتے ہیں ان میں سے اکثر بیعت کر کے ہی واپس جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جلسہ سے کچھ ایسی برکات وابستہ ہیں کہ جو لوگ اسے دیکھتے ہیں وہ متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ15؍نومبر1929ءمطبوعہ خطباتِ محمود جلد12 صفحہ195)

’’ہمارے سالانہ جلسہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پہلے ہی سے بتا دیا تھا کہ دینی اَغراض کے لئے قادیان میں اس موقع پر اس کثرت سے لوگ آیا کریں گے کہ ان کے اس ہجوم سے جو صرف دین کی خاطر ہو گا قادیان کی زمین اَرضِ حَرم کا نام پائے گی۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍دسمبر 1935ء مطبوعہ خطبات محمود جلد 9صفحہ391)

جلسہ سالانہ کی عظمت اور اسے معمولی نہ سمجھنے کی ہدایت

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں’’اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں۔ یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمۂِ اسلام پر بنیاد ہے۔ اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قومیں طیارکی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات اَنہونی نہیں۔ عنقریب وہ وقت آتا ہے بلکہ نزدیک ہے کہ اس مذہب میں نہ نیچریت کا نشان رہے گا اور نہ نیچر کے تفریط پسند اور اَوہام پرست مخالفوں کا، نہ خوارق کے انکار کرنے والے باقی رہیں گے اور نہ ان میں بیہودہ اور بے اصل اور مخالفِ قرآن روایتوں کو ملانے والے، اور خدا تعالیٰ اس اُمتِ وَسط کے لئے بَین بَین کی راہ زمین پر قائم کر دے گا۔ وہی راہ جس کو قرآن لایا تھا، وہی راہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو سکھلائی تھی۔ وہی ہدایت جو ابتداء سے صدیق اور شہید اور صلحاء پاتے رہے۔ یہی ہو گا۔ ضرور یہی ہو گا۔ جس کے کان سننے کے ہوں سنے۔ مبارک وہ لوگ جن پر سیدھی راہ کھولی جائے۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ 341تا 342)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’آپ لوگوں میں سے کوئی فرد یہ خیال نہ کرے کہ یہاں آنا معمولی بات ہے اور یہ مجلس دنیا کی مجالس کی طرح معمولی مجلس ہے، کیونکہ یہ خیال کرنے والا شخص خداتعالیٰ کے وعدوں پر ایمان نہیں رکھتا اور وہ مومن نہیں ہو سکتا جو یہ یقین نہ رکھے کہ ہم یہاں نئی زمین اور نیا آسمان بنانے کے لئے جمع ہوتے ہیں۔یاد رکھو تم وہ بیج ہو جس سے ایسا عظیم الشان درخت اُگنے والا ہے جس کے سایہ میں تمام دنیا آرام پائے گی۔ تمہارے قلوب وہ زمین ہے جس سے خدا تعالیٰ کی مغفرت کا پودا پھوٹنے والا ہے۔ اگر دنیا یہ بات نہیں دیکھ سکتی تو وہ اندھی ہے اور اگر خدا کے وعدوں کو نہیں سنتی تو بہری ہے۔ مگر تم نے خداتعالیٰ کے وعدوں کو سنا اور ان کو پورےہوتے دیکھا۔ تم میں سے ہر فرد جس نے خدا کے مسیح کے ہاتھ پربیعت کی خواہ براہِ راست کی، خواہ خلفاء کے ذریعہ، وہ آدم ہے جس سے آئندہ نئی نسلیں چلیں گی۔ تم خدا کی وہ خاص زمین ہو جس پر اس کی رحمت کی بارش برسے گی۔ تمہیں خداتعالیٰ وہ درخت بنائے گا جس کے ساتھ ہر سعید بیٹھے گا اور جو تم کو چھوڑے گا وہ نہ دنیا میں آرام پائے گا نہ آخرت میں۔‘‘(انوار العلوم جلد12 صفحہ548)

روحانی فوائد اور ثواب

حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں:’’لازم ہے کہ اس جلسے پر جو کئی بابرکت مصالح پر مشتمل ہے ہرایک ایسے صاحب ضرور تشریف لائیں جو زاد راہ کی استطاعت رکھتے ہوں اور اپنا سرمائی بستر لحاف وغیرہ بھی بقدر ضرورت ساتھ لاویں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی راہ میں ادنیٰ ادنیٰ حرجوں کی پرواہ نہ کریں۔‘‘(اشتہار7؍دسمبر1892ء، مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ341)

خداتعالیٰ کا ایک زندہ نشان

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’یہ جلسہ جیسا کہ میں پہلے بھی متعدد بار بیان کر چکا ہوں اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے۔ قادیان وہ مقام ہے کہ ایک دن اس طرف کوئی رُخ بھی نہیں کرتا تھا۔ کئی لوگ اِس قسم کے تھے جو قادیان اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام سُن کر بڑی بڑی دُور سے قادیان پہنچنے کی خواہش سے روانہ ہوتے تھے مگر بٹالہ یا امرتسر پہنچ کر واپس ہو جاتے تھے کیونکہ انہیں بتایا جاتا تھا کہ قادیان میں بہت بڑا دجّالی فتنہ ہے۔ کئی آدمی ہماری جماعت میں آج بھی ایسے موجود ہیں جو کفِ افسوس مَل رہے ہیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قادیان کیوں نہ آئے وہ بٹالہ یا امرتسر سے محض اس لئے لَوٹ گئے کہ دشمنوں نے ان سے بعض ایسی باتیں کہیں جنہیں سن کر انہوں نے قادیان آنا پسند نہ کیا۔ اگر وہ اُس وقت پہنچ جاتے تو صحابہ میں داخل ہو جاتے۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص کو دیکھ کر احمدیت میں تو داخل کر دیا مگر صحابیت سے محروم رہ گئے۔…

پس یہ بھی ایک نشان ہے جو جلسہ کے دنوں میں نظر آتا ہے کہ لوگ اتنی کثیر تعداد میں یہاں جمع ہوتے ہیں جس کا کبھی وہم و گمان بھی نہ ہو سکتا تھا اور پھر یہ نشان بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ جنہیں جاہل سمجھا جاتا تھا اس چشمہ سے اِس شوق سے پیتے ہیں کہ دوسری قوموں کے پیاسے بھی اس طرح نہیں پی سکتے۔

قادیان کے رہنے والوں کو خدا تعالیٰ نے اس دار کی حفاظت کا ذریعہ بنایا ہے جس کی برکت کے لئے وہ لوگوں کو جمع کر کے یہاں لاتا ہے۔ پس یہاں کی جماعت کے احباب کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ اِس آنے والے دن کے لئے تیاری کریں۔ مکانوں والے مہمانوں کے لئے اپنے مکان دیں اور اس کے علاوہ اپنے اجسام اور اوقات بھی خدمت کے لئے پیش کریں۔ اور جو منتظمین ہیں انہیں میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ جیسا کہ میں نے متواتر کہا ہے کارکنوں کو کام سے پہلے مشق کرائیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍نومبر1930ء مطبوعہ خطباتِ محمود جلد12 صفحہ 509تا 513)

صداقتِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عظیم نشان

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’جلسہ سالانہ بھی ایک بہت بڑا نشان ہے جو ہر سال ہمیں یہ بتاتا ہے کہ دیکھو خد اکی راستباز جماعت کس طرح اُٹھتی اور کامیاب ہوتی ہے اور اس کے مخالف کس طرح ناکام اور نامراد رہتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ قادیان میں ہر وقت ہی جلسہ ہوتا ہے اور ہر وقت ہی لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ پھر یہاں کچھ ہندوستان کے، کچھ پنجاب کے، کچھ افغانستان کے، کچھ بنگال کے ، کچھ یورپ کے، کچھ عرب وغیرہ کے لوگ رہتے ہیں جو ہماری صداقت کی دلیل ہیں لیکن سالانہ اجتماع سے اس کے علاوہ اور بھی بہت سے نتائج حاصل ہوتے ہیں اور وہ یہ کہ جو کوئی خدا کے لئے کھڑا ہوتا ہے خدا اسے ضائع نہیں ہونے دیتا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 31؍دسمبر1915ء مطبوعہ خطبات محمود جلد4 صفحہ 540)

جلسہ پر آنے کی تحریک کریں

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’میں ایک طرف تو جماعت کے دوستوں اور سلسلہ کے اخباروں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ لوگوں کو جلسہ پر آنے کی تحریک کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ آئیں اور اپنے عمل سے خدا کے فضل کے وارث بنیں تا خدا تعالیٰ دکھاوے کہ دشمنی اور کینہ رکھنے والے لوگ سلسلہ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ دوسری بات ساتھ ہی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جتنے زیادہ آدمی جلسہ پر آئیں گے اتنا ہی خرچ زیادہ ہو گا۔ اس لئے قادیان کے لوگوں کو بھی اور باہر کے لوگوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ جو لوگ جلسہ پر آئیں ان کے اخراجات کا انتظام کریں۔ خدا تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ ہے کہ یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ وَیَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ کہ دُور دُور سے تیرے پاس تحائف آئیں گے اور دُور دُور سے لوگ تیر ے پاس آئیں گے۔ آنے والوں کو خداتعالیٰ نے پیچھے رکھا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کے متعلق فرماتے تھے کہ یہ اس لئے رکھا ہے کہ مہمان کے لئے سامان پہلے مہیا ہونا ضروری ہوتا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ18؍نومبر1927ء مطبوعہ خطبات محمود جلد11 صفحہ248)

اللہ کے مہمان

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’پس جو مہمان تمہارے پاس آئے ہیں ان کی خاطر تواضع میں لگ جاؤ۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ میرے مہمان نہیں ہیں، اس لئے مجھے خدمت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں ا ور تم اس کے بندے ہو، تو کیا یہ بندے کا فرض نہیں ہے کہ وہ اپنے آقا کے مہمان کی خبرگیری کرے، ضرور ہے۔ پس یہ مہمان خدا کے گھر اور خدا ہی کی آواز پر آئے ہیں کیونکہ مامور من اللہ کی آواز خدا ہی کی آواز ہوتی ہے۔ تم لوگ ان کی خبرگیری کرو۔ اگر تمہیں کسی سے تکلیف بھی پہنچ جائے تو اس کو برداشت کرو اور کسی کی ہتک کرنے کا خیال بھی دل میں نہ لائو۔ جو مہمان کی ہتک کرتا ہے وہ اپنی ہی ہتک کرتا ہے کیونکہ مہمان ا س کی عزت ہوتا ہے۔ پس اس سے احمق کون ہے جو اپنی عزت آپ برباد کرے یا اپنا گلا آپ ہی کاٹے۔ تم لوگ ہر طرح سے مہمانوں کی خاطر اور تواضع میں لگے رہو۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 25؍دسمبر1914ء مطبوعہ خطبات محمود جلد4صفحہ258،257)

شاملینِ جلسہ کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعائیں

’’ہر یک صاحب جو ا س للہی جلسے کے لیے سفر اختیار کریں خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور ان کو اجرعظیم بخشے اور ان پررحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات ان پر آسان کر دیوے اور ان کے ہم و غم دور فرمائے اور ان کو ہریک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے اور ان کی مرادات کی راہیں ان پرکھول دیوے اور روزِآخرت میں اپنے ان بندوں کے ساتھ ان کو اٹھاوے جن پراس کا فضل ورحم ہے۔ تااختتام سفر ان کے بعد ان کاخلیفہ ہو۔‘‘(اشتہار 7؍دسمبر 1892ء۔مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 342)

اپنے نفس پر دوسروں کو ترجیح دیں

حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں:’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہوسکتا جب تک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہراوے۔ اگر میرا ایک بھائی میرے سامنے باوجود اپنے ضعف اور بیماری کے زمین پر سوتا ہے اور میں باوجود اپنی صحت اور تندرستی کے چارپائی پر قبضہ کرتا ہوں تاوہ اس پر بیٹھ نہ جاوے تو میری حالت پر افسوس ہے اگر میں نہ اُٹھوں اور محبت اور ہمدردی کی راہ سے اپنی چارپائی اس کو نہ دوں اور اپنے لئے فرشِ زمین پسند نہ کروں۔ اگر میرا بھائی بیمار ہے اور کسی درد سے لاچار ہے تو میری حالت پر حَیف ہے اگر میں اس کے مقابل پر امن سے سورہوں اور اس کے لئے جہاں تک میرے بس میں ہے آرام رَسانی کی تدبیر نہ کروں اور اگر کوئی میرا دینی بھائی اپنی نفسانیت سے مجھ سے کچھ سخت گوئی کرے تو میری حالت پر حَیف ہے اگر میں بھی دیدۂ و دانستہ اس سے سختی سے پیش آئوں بلکہ مجھے چاہیئے کہ میں اس کی باتوں پر صبر کروں اور اپنی نمازوں میں اس کے لئے رَو رَو کر دعا کروں کیونکہ وہ میرا بھائی ہے اور روحانی طور پر بیمار ہے۔ اگر میرا بھائی سادہ ہو یا کم علم یا سادگی سے کوئی خطا اس سے سرزد ہو تو مجھے نہیں چاہیئے کہ میں اس سے ٹھٹھا کروں یا چیں برجبیں ہوکر تیزی دکھائوں یا بدنیتی سے اس کی عیب گیری کروں کہ یہ سب ہلاکت کی راہیں ہیں۔کوئی سچا مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل نرم نہ ہو جب تک وہ اپنے تئیں ہریک سے ذلیل تر نہ سمجھے اور ساری مشیختیں دُور نہ ہوجائیں۔ خادِمُ القوم ہونا مَخدوم بننے کی نشانی ہے اور غریبوں سے نرم ہوکر اور جُھک کر بات کرنا مقبولِ الٰہی ہونے کی علامت ہے اور بدی کا نیکی کے ساتھ جواب دینا سعادت کے آثار ہیں اور غصہ کو کھا لینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے۔‘‘(شہادت القرآن روحانی خزائن جلد6 صفحہ396)

صحت ِ نیت اور حسنِ ثمرات

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’دل تو یہی چاہتا ہے کہ مبائعین محض لِلّٰہ سفر کرکے آویں اور میری صحبت میں رہیں اور کچھ تبدیلی پیدا کرکے جائیں کیونکہ موت کا اعتبار نہیں۔ میرے دیکھنے میں مبائعین کو فائدہ ہے مگر مجھے حقیقی طور پر وہی دیکھتا ہے جو صبر کے ساتھ دین کو تلاش کرتا ہے اور فقط دین کو چاہتا ہے ،سو ایسے پاک نیت لوگوں کا آنا ہمیشہ بہتر ہے… اور یہ جلسہ ایسا تو نہیں ہے کہ دنیا کے میلوں کی طرح خواہ نخواہ التزام اس کا لازم ہے بلکہ اس کا انعقاد صحت نیت اور حسنِ ثمرات پر موقوف ہے ورنہ بغیر اس کے ہیچ اور جب تک یہ معلوم نہ ہو اور تجربہ شہادت نہ دے کہ اس جلسہ سے دینی فائدہ یہ ہے اور لوگوں کے چال چلن اور اخلاق پر اس کا یہ اثر ہے تب تک ایسا جلسہ صرف فضول ہی نہیں بلکہ اس علم کے بعد اس اجتماع سے نتائج نیک پیدا نہیں ہوتے، ایک معصیّت اور طریقِ ضلالت اور بدعتِ شنیعہ ہے۔ میں ہرگز نہیں چاہتا کہ حال کے بعض پیرزادوں کی طرح صرف ظاہری شوکت دکھانے کے لئے اپنے مبائعین کو اکٹھا کروں بلکہ وہ علتِ غائی جس کے لئے میں حیلہ نکالتا ہوں اِصلاح ِخلق اللہ ہے۔‘‘(شہادت القرآن روحانی خزائن جلد6 صفحہ395)

اخلاقِ حسنہ کی تخلیق

’’اس جلسہ سے مدعا اور اصل مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلّی جھک جائیں اور ان کے اندر خداتعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زُہد اور تقویٰ اور خدا تَرسی اور پرہیزگاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور اِنکسار اور تواضع اور راستبازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں۔‘‘(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد6 صفحہ394)

حقائق و معارف اور معرفت میں ترقی

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’اس جلسہ میں ایسے حقایق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کیلئے ضروری ہیں اور نیز ان دوستوں کیلئے خاص دعائیں اور خاص توجہ ہوگی اور حتی الوسع بَدَرگاہِ اَرحَم ُالراحمین کوشش کی جائے گی کہ خدائے تعالیٰ اپنی طرف ان کو کھینچے اور اپنے لئے قبول کرے اور پاک تبدیلی اُن میں بخشے۔ اور ایک عارضی فائدہ ان جلسوں میں یہ بھی ہوگا کہ ہر یک نئے سال مین جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں داخل ہوں گے۔وہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو کر اپنے پہلے بھائیوں کے منہ دیکھ لیں گے اور رُوشناسی ہو کر آپس میں رشتہ تَوَدُّد و تعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا اور جو بھائی اس عرصہ میں اس سَرائے فانی سے انتقال کر جائے گا۔ اس جلسہ میں اس کے لئے دعائے مغفرت کی جائے گی اور تمام بھائیوں کو روحانی طور پر ایک کرنے کیلئے ان کی خشکی اور اَجنبیت اور نفاق کو درمیان سے اٹھا دینے کیلئے بدرگاہِ حضرتِ عزت جَلَّ شَانُہ کوشش کی جائے گی اور اس روحانی جلسہ میں اور بھی کئی روحانی فوائد اور منافع ہوں گے جو اِن شَاء اللّٰہُ القَدِیر وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہیں گے۔‘‘(آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد4صفحہ376)

’’اس جلسہ کے اغراض میں سے بڑی غرض تو یہ ہے کہ تا ہر ایک مخلص کو بِالْمَوَاجِہ دینی فائدہ اٹھانے کا موقع ملے اور ان کے معلومات وسیع ہوں اور خدا تعالیٰ کے فضل و توفیق سے ان کی معرفت ترقی پذیر ہو۔ پھر اس کے ضمن میں یہ بھی فوائد ہیں کہ اس ملاقات سے تمام بھائیوں کا تعارف بڑھے گا اور اس جماعت کے تعلقاتِ اُخوت استحکام پذیر ہوں گے۔ ماسوا اس کے جلسہ میں یہ بھی ضروریات میں سے ہے کہ یورپ اور امریکہ کی دینی ہمدردی کے لئے تدابیر حسنہ پیش کی جائیں۔ کیونکہ اب یہ ثابت شدہ امر ہے کہ یورپ اور امریکہ کے سعید لوگ اسلام کے قبول کرنے کے لئے طیار ہو رہے ہیں اور اسلام کے تفرقہ مذاہب سے بہت لرزاں اور ہراساں ہیں……

سو بھائیو یقینا ًسجھو کہ یہ ہمارے لئے ہی جماعت طیار ہونے والی ہے۔ خدا تعالیٰ کسی صادق کو بے جماعت نہیں چھوڑتا۔ ان شاء اللہ القدیر سچائی کی برکت ان سب کو اس طرف کھینچ لائے گی۔ خدا تعالیٰ نے آسمان پر یہی چاہا ہے اور کوئی نہیں کہ اس کو بدل سکے۔ سو لازم ہے کہ اس جلسہ پر جو کئی بابرکت مصالح پر مشتمل ہے ہر ایک ایسے صاحب ضرورت تشریف لاویں جو زَادرَاہ کی اِستطاعت رکھتے ہوں۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد1 صفحہ 341،340)

نئے احباب سے تعارف

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتےہیں:’’اور ایک عارضی فائدہ ان جلسوں میں یہ بھی ہوگا کہ ہریک نئے سال جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں داخل ہوں گے وہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہوکر اپنے پہلے بھائیوں کے منہ دیکھ لیں گے اور روشناسی ہو کر آپس میں رشۃٔ تودّدوتعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا…اور اس روحانی جلسے میں اور بھی کئی روحانی فوائد اور منافع ہونگے جو انشاء اللہ القدیر وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہیں گے۔‘‘(آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد4 صفحہ376)

تعلقات میں وسعت

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں’’دنیا کا تمام کارخانہ تعاون کے ساتھ چل رہا ہے۔ اگر تعاون نہ ہو تو تمام کارخانہ بگڑ جاتا ہے اور تعاون کا بہترین ذریعہ آپس کے تعلقات ہیں جو جلسہ کی تقریب پر بھی پیدا ہوتے ہیں۔ جلسہ کے فوائد میں سے بہت بڑا فائدہ تعلقات کا پیدا ہونا ہے۔ ان کے ذریعہ سے تعاون اور ترقی کی صورتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ گویا سال بھر کے لئے ترقی کا راستہ کھل جاتا ہے۔ جلسہ کی و جہ سے ہر سال نئے آدمیوں سے واقفیت ہوتی ہے اور تعلقات قائم ہوتے ہیں اور اس طرح سلسلہ کی ترقی کے لئے وہ مدد اور سہولتیں میسر ہوجاتی ہیں جو اس کے بغیر بہت سے خرچ کرنے سے بھی میسر نہیں ہوسکتیں۔ لوگ تو تعلقات قائم کرنے کے لئے خود سفر کرتے اور دوسروں کے پاس پہنچتے ہیں لیکن یہاں تو اللہ تعالیٰ خود ہمارے گھر پر لوگوں کو کھینچ کھینچ کر لاتا ہے اور بیٹھے بٹھائے ہمیں دوستوں کے حالات سے واقفیت بہم پہنچتی ہے اور تعلقات کے ذریعے ہمارے لئے کام کرنے کے رستے کھل جاتے ہیں اور کاموں میں سہولتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍دسمبر1926ء مطبوعہ خطبات محمود جلد10 صفحہ288،287)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’جلسہ سالانہ کی غرض کو سامنے رکھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود بیان فرمائی ہے اور یہ غرض وہی ہے جو بیعت کی غرض ہے۔ بیعت کرنے کے بعد دنیاوی دھندوں میں پڑ کر انسان عموماً اپنے اصل مقصد کو بھول جاتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے بار بار نصیحت کرنے کو ضروری قرار دیا ہے کہ اس سے ہر اُس شخص کو جس کے دل میں ایمان ہے، فائدہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔فَاِنَّ الذِّکْرَ تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ (الذاریٰت: 56) پس یقیناً نصیحت مومنوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔

پس یہ جلسہ بھی نصیحت کرنے، یاد دہانی کروانے کے لئے منعقد کیا جاتا ہے یا یہ جلسے دنیا میں ہر جگہ منعقد کئے جاتے ہیں۔ یہ بتانے کے لئے منعقد کئے جاتے ہیں کہ اس زمانے کے امام کی بیعت میں آ کر پھر اپنے عہد کو یاد کرو، اپنے عہد بیعت کو یاد کرو۔ اگر دنیاوی مصروفیات کی وجہ کچھ کمزوریاں پیدا ہو گئی ہیں تو اب نئے سرے سے نصائح سن کر علمی اور تربیتی وعظ و نصائح اور تقاریر سن کر پھر اپنی دینی حالتوں کی طرف توجہ کرو۔ اکٹھے مل بیٹھ کر ایک دوسرے کی نیکیاں جذب کرنے کی کوشش کرو اور برائیوں کو دور کرو۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ جلسے کے دوران اپنی ذاتی باتوں کی طرف توجہ نہ ہو بلکہ تمام پروگرام، جتنے بھی ہیں، ان کو سننے کے دوران بھی اور ان کے بعد بھی زیادہ تر وقت دعاؤں اور ذکرِ الٰہی میں گزارنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ یہ سوچ کر شامل ہونا چاہئے کہ ہم اس روحانی ماحول میں دو تین دن گزار کر اپنے عہدِ بیعت کی تجدید کر رہے ہیں تا کہ ہمارے ایمان مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جائیں۔ تا کہ ہم تقویٰ میں ترقی کریں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ18؍مئی 2012ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل8؍جون2012ء صفحہ 5)

حقیقی برکات کا وارث بننا

’’یہ جلسے جو ہر سال دنیا کے مختلف ممالک میں وہاں کی جماعتیں منعقد کرتی ہیں اُس جلسے کی تتبع میں ہیں جن کا آغاز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا۔ جس کا مقصد افرادِ جماعت کو اُن حقیقی برکات کا وارث بنانا تھا جو افرادِ جماعت کی دنیا و عاقبت سنوارنے کا باعث بنیں اور جن کو وہ اپنی زندگیوں کا مستقل حصہ بنا کر ان برکات کے وارث بنتے چلے جائیں اور یہ برکات حقیقی تقویٰ اختیار کرنے سے حاصل ہوتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ میں شامل ہونے والے ہر احمدی سے اس معیار کے حاصل کرنے کی توقع کی ہے اور ان معیاروں کو حاصل کرنے کی طرف توجہ نہ دینے والوں سے سخت بیزاری کا اظہار فرمایا ہے۔

پس ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اُس دلی خواہش کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے جو جلسہ میں شامل ہونے والوں کی حالت کے بارے میں آپ کے دل میں تھی، اُس مقصد کے حصول کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے جو جلسہ سالانہ کے منعقد کرنے کا آپ کے دل میں تھا اور جس کا اظہار آپ نے ان الفاظ میں بھی کیا ہے کہ ‘‘اس دنیا سے زیادہ آخرت کی طرف توجہ ہو۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ29؍جون2012ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل20؍جولائی2012ءصفحہ5)

جلسہ کے اَیام میں ذکر الٰہی

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’میں احباب کو نصیحت کرتاہوں کہ ان دنوں خدا کی یاد میں کثرت سے مشغول رہیں۔ اور دعاؤں میں خوب لگے رہیں۔ اور اگر اپنے سلسلہ کے مبلغوں کی کامیابی کے لئے دعائیں کریں تو بہت مفید نتیجہ نکل سکتا ہے۔ پس تم لوگ جہاں اپنے نفس کے لئے دعائیں کرتے ہو وہاں مبلغین کے لئے کیوں نہیں کرتے؟ ان کے لئے بھی ضرور کرو اور یاد رکھو کہ جب ان کے لئے کرو گے تو وہ تمہارے اپنے ہی لئے ہوں گی کیونکہ خدا تعالیٰ کہے گا کہ جب یہ میرے اُن بندوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں جو میری راہ میں نکلے ہوئے ہیں تو میں اُن کے کام پورے کر دیتا ہوں۔ خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔ آمین‘‘(انوار العلوم۔ جلد4 صفحہ526)

قیمتی وقت کو ضائع نہ کرنا

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’میں اپنی اصل تقریر شروع کرنے سے پہلے چند امور کا بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اوّل تو یہ کہ میں ان دوستوں کو جو یہاں آکر بھی اس جلسہ کے موقع پر اپنا وقت ضائع کرتے ہیں اور تقریروں کے سننے میں پورا حصہ نہیں لیتے ملامت کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کل اپنی تقریر کے آخری حصہ میں دیکھا کہ دو ہزار کے قریب دوست قریباً ساڑھے پانچ بجے جلسہ گاہ سے اُٹھ کر گئے اور ساڑھے سات بجے تک ان کو واپس آنے کی توفیق نہیں ہوئی جو نہایت قابلِ افسوس بات ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ لمبی دیر تک بیٹھنا گراں ہوتا ہے اور انسان دیر تک بیٹھنے سے اُکتا جاتا ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دیر تک بولنا اس سے بھی بہت زیادہ مشکل کام ہے، پھر اگر ایک شخص باوجود صحت کے نہایت کمزور ہونے اور اس عضو کے مائوف ہونے کے جس پر کام کا دارومدار ہے متواتر چھ گھنٹے تک بول سکتا ہے تو میں ہرگز یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ دوسرا آدمی اس سے زیادہ دیر تک سننے کی بھی قابلیت نہیں رکھتا۔‘‘(انوارالعلوم جلد9 صفحہ 439)

جلسہ کے لئے سفر اختیار کرنے والوں کے لیےدعائیں

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’ہر َیک صاحب جو اِس لِلّٰہی جلسہ کے لئے سفر اختیار کریں، خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور ان کو اجرِ عظیم بخشے اور ان پر رحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات ان پر آسان کر دیوے اور ان کے ہم و غم دُور فرماوے اور ان کو ہریک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے اور اُن کی مرادات کی راہیں اُن پر کھول دیوے اور روزِ آخرت میں اپنے ان بندوں کے ساتھ ان کو اٹھاوے جن پر اس کا فضل و رحم ہے اور تا اختتامِ سفر اُن کے بعد اُن کا خلیفہ ہو۔ اے خدا اے ذُوالْمَجْدِ وَالْعَطَاء اور رحیم اور مشکل کشایہ تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہر یک قوت اور طاقت تجھ ہی کو ہے۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ 342)

جلسہ سے واپس جانے والوں کے لئے نصائح

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’میں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ احباب جو جلسہ سے واپس جانے والے ہیں انہوں نے جو مفید باتیں یہاں سنی ہیں ان کو قیمتی خزانہ کی طرح باندھ لیں۔ گھر جائیں تو اپنے عزیزو اقارب ،دوستوں اور محلہ والوں اور شہر والوں کو سنائیں۔ کیونکہ بہترین تحفہ حق کی باتیں ہوتی ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کَلِمَۃُ الْحِکْمَۃِ ضَآلَّۃُ الْمُوْمِنِ اَخَذَھَا حَیْثُ وَجَدَھَا حکمت کی بات مومن کی گم شدہ چیز ہے اس کو جہاں پائے لے لے۔ پس یہاں سے بہترین تحفہ جو آپ لوگ لے جا سکتے ہیں یہی مفید باتیں ہیں جو تمہارے لئے اور تمہارے قریبیوں کے لئے مفید ہیں۔ ان سے تمہارے اور دوسروں کے علوم میں اضافہ اور روحانیت میں ترقی ہو گی۔ جب دوسروں کو سناؤگے توتمہیں بھی فائدہ پہنچے گا۔ کیونکہ محض سننے کی نسبت دوسروں کو سنانے سے بات اچھی طرح یاد ہو جاتی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ واپس جاتے ہوئے سفر میں بہت دعائیں کریں۔ خاص طور پر سلسلہ کے لئے دعائیں کرتے جائیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍دسمبر1922ءمطبوعہ خطبات ِمحمود جلد7 صفحہ434)

جلسہ سالانہ کی رُوح پروَرکیفیات

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’جلسہ سالانہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کو لے کر آیا اور اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل اور برکات بانٹتا ہوا چلا گیا۔ کئی لوگوں نے خطوط میں اور زبانی بھی اظہار کیا کہ ایک عجیب روحانی کیفیت تھی جوہم اپنے اندر محسوس کرتے رہے۔ خدا کرے کہ یہ روحانی کیفیت عارضی نہ ہو بلکہ ہمیشہ رہنے والی اور دائمی ہو۔ ہم ہمیشہ اس کوشش میں رہیں کہ اللہ تعالیٰ کے جن فضلوں کو ہم نے سمیٹا ہے ان کو اپنی زندگی پر لاگو بھی کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرتے رہیں۔ مقررین کی باتیں ان مقررین کی طرح نہ ہوں جن کے جوشیلے خطابات کا صرف وقتی اثر تو ہوتا ہے لیکن مجلس سے اٹھتے ہی وہ اثر زائل ہو جاتا ہے۔ یہی دنیا اور اس کے دھندوں میں انسان کھویا جاتا ہے۔ ترقی کرنے والی اور انقلاب پیدا کرنے کا دعویٰ کرنے والی قوموں کے یہ طریق نہیں ہوا کرتے۔ وہ جب ایک کام کرنے کا عزم لے کر اٹھتی ہیں تو پھر اس کو انتہا تک پہنچانے کی بھی کوشش کرتی ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہفرمودہ6؍اگست 2004ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل20؍اگست2004ء)

جلسہ سالانہ کینڈا2006ء میںشمولیت کے بعد سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ میںجلسہ کے حوالہ سے بیان فرمایا کہ’’الحمدللہ کہ جماعت احمدیہ کینیڈا کا جلسہ سالانہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ اتوار کو بخیروخوبی اپنے اختتام کو پہنچا تھا۔ ان جلسوں کی بھی اپنی ایک فضا ہوتی ہے جس میں مختلف ماحول اور طبقات کے لوگ ایک مقصد کی خاطر جمع ہوتے ہیں۔ جماعت سے کمزور تعلق والے بھی جب ایک دفعہ جلسے پر آ جائیں تو اپنے اندر جماعت اور خلافت سے اخلاص، تعلق اور وفا میں اضافہ اور بہتری دیکھتے ہیں۔ پھر مختلف شعبہ جات کی ڈیوٹیاں ہیں جن میں سے بعض شعبے میرے یہاں قیام کی و جہ سے ابھی تک جاری ہیں، کام کر رہے ہیں۔ ان میں بھی مختلف طبیعتوں کے مالک افراد جن کا عام زندگی میں جلسے کے دنوں میں سپرد کردہ ڈیوٹیوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، وہ ایسی ڈیوٹیاں انجام دے رہے ہوتے ہیں جو عام زندگی میں اس سے بالکل مختلف کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اچھے بھلے پڑھے لکھے، کھاتے پیتے لوگ، جلسے کے مہمانوں کی خدمت کرکے ایک فخر محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔…مَیں ذکر کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ خیر سے گزر گیا اور اس جلسے میں جو کمزور تعلق والے احمدی ہیں وہ بھی جب آ جاتے ہیں تو ان کو بھی ایک خاص تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔ اور پھر ڈیوٹیوں کا ذکر تھا کہ مختلف قسم کے لوگ، مختلف طبقات کے لوگ ڈیوٹیاں دے رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ سب لوگ ایک جذبے کے ساتھ مہمانوں کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں اور اس لئے کہ آنے والے مہمان حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے مہمان ہیں، خدا کی باتیں سننے کے لئے آنے والے مہمان ہیں۔ پھر بہت سے احمدی جو کہ پیس ویلج (Peace Village) میں رہنے والے ہیں بلکہ مَیں کہوں گا کہ تقریباً ہر گھر انے نے اپنے گھر مہمانوں کے لئے پیش کئے ہوئے تھے اور اس میں خوشی محسوس کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جلسے کے مہمانوں کی خدمت کی توفیق دے رہا ہے۔ بلکہ اس کے علاوہ بھی اور جگہوں پر بھی احمدی گھروں میں مہمان ٹھہرے ہوئے تھے اور سب خوشی سے مہمانوں کی خدمت کر رہے تھے۔ پیس ولیج میں شائد اس لئے بھی زیادہ مہمان آئے ہوں کہ میرا قیام اس جگہ تھا۔

تو بہرحال یہ نظارے جماعت میں محبت اور اخلاص اور ایک دوسرے کی خدمت اور مہمان نوازی کے اس لئے نظر آتے ہیں کہ جماعت ایک لڑی میں پروئی ہوئی ہے۔ اور نظام ِخلافت سے ان کو محبت اور تعلق ہے۔ اور خلیفۂ وقت کے اشارے پر اٹھنے اور بیٹھنے والے لوگ ہیں۔ یہ نظارے ہمیں جماعت احمدیہ سے باہر کہیں نظر نہیں آ سکتے۔ افراد جماعت کا خلافت سے تعلق اور خلیفۂ وقت کا احباب سے تعلق ایک ایسا تعلق ہے جو دنیاداروں کے تصور سے بھی باہر ہے۔ اس کا احاطہ وہ کر ہی نہیں سکتے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے بڑا سچ فرمایا تھا کہ جماعت اور خلیفہ ایک ہی وجود کے دو نام ہیں۔ بہرحال یہ تعلق جو جماعت اور خلافت کا ہے ان جلسوں پر اور ابھر کر سامنے آتا ہے۔ الحمدللّٰہ، مجھے اس بات کی خوشی ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کینیڈا بھی اس اخلاص و وفا کے تعلق میں بہت بڑھی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کا یہ تعلق مزید بڑھاتا چلا جائے اور یہ وقتی جوش اور جذبے کا تعلق نہ ہو۔ آپ لوگوں نے ہمیشہ محبت اور وفاکا اظہار کیا ہے۔ 27مئی کو جب مَیں نے خلافت کے حوالے سے خطبہ دیا تھا تو جماعتی طور پر بھی اور مختلف جگہوں سے ذاتی طور پر بھی، سب سے پہلے اور سب سے زیادہ خطوط وفا اور تعلق کے مجھے کینیڈا سے ملے تھے۔ اللہ کرے یہ محبت اور وفا کے اظہار اور دعوے کسی وقتی جوش کی و جہ سے نہ ہوں بلکہ ہمیشہ رہنے والے اور دائمی ہوں اور آپ کی نسلوں میں بھی چلنے والے اور قائم رہنے والے ہوں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جولائی 2005ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل15؍جولائی2005ء)

ایسے سنہری موقع کو اپنے ہاتھ سے گنوانا کہاں کی عقلمندی ہے؟ جلسہ سالانہ کےساتھ خدا تعالیٰ نے خاص برکات وابستہ فرمائی ہیں۔ اس حوالہ سے حضرت مولوی محمد الیاس خاں صاحب (متوفی 1948ء) کا ایک نہایت ایمان افروز اور روح پرور واقعہ ہدیۂ قارئین ہے۔

حضرت مولوی صاحب صوبہ سرحد (خیبرپختونخواہ) کے ایک پاک نفس، پیکر صبر و حیا اور صاحب کشف و الہام بزرگ تھے جنہیں 1909ء میں چارسدہ میں سب سے پہلے احمدیت میں داخل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ قادیان جلسہ سالانہ پر جاتے ہوئے کوئٹہ میں عموماً آپ کا مختصر قیام ہوتا۔ ایک دفعہ جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کے لیے جاتے ہوئے جب آپ چند دن کے لیے کوئٹہ میں فروکش ہوئے تو ڈاکٹر عبداللہ صاحب امیر جماعت کوئٹہ نے حضرت مولوی صاحب سے فرمایا کہ کل کا خطبہ جمعہ آپ دیں اور دوستوں کو قادیان جلسہ سالانہ پر جانے کی تلقین کریں۔ کیونکہ گزشتہ سال کوئٹہ میں آنے والے زلزلے کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مالی تنگی کی وجہ سے دوست کم جائیں گے۔ چنانچہ حضرت مولوی صاحب نے خطبہ میں دیگر امور کے علاوہ جلسہ سالانہ پر جانے کے لیے ایسے زور دار الفاظ میں تحریک فرمائی کہ جس سے احباب جماعت کے دلوں میں جلسہ سالانہ پر جانے کا جوش پیدا ہوا اور کافی دوست جلسہ سالانہ پر گئے۔ یہ خطبہ حضرت مولوی صاحب کے تعلق باللہ کی بھی شاندار مثال ہے۔ آپ نے فرمایامحمد الیاس کو چند اہم امور درپیش تھے۔ بہت دعائیں کیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تیری دعا قبول ہو گی مگر تین شرطوں کے ساتھ۔ پہلی یہ کہ تم بیس ہزار احمدیوں کو بلاؤ اور تین دن کی ان کی دعوت کرو، رہائش کا انتظام کرو۔ دوسری یہ کہ صحابہ کرام کو بلاؤ، وہ بھی آئیں۔ اور تیسری یہ کہ خلیفہ وقت کو بھی بلاؤ اور ان سب سے عرض کرو کہ تمہارے لیے رو رو کر دعا کریں۔ میں نے اپنے خدا سے عرض کی میری حقیر حیثیت کوتُو خوب جانتا ہے۔ میں تو تین آدمیوں کو تین دن بھی کھانا نہیں دے سکتا اور نہ رہائش کا انتظام کر سکتا ہوں۔ پھر میری حیثیت کیا ہے کہ میں بیس ہزار احمدیوں کو بلاؤں۔ جواب میں لوگ کہیں گے ہمیں فرصت نہیں۔ پھر صحابہ کرام اور خلیفۂ وقت کی خدمت میں کیسے عرض کروں کہ میرے یہ اہم کام ہیں؟ آپ ان امور کی انجام دہی کے لیے رو رو کر خدا سے میرے لیے دعا کریں۔ ممکن ہے جن امور کو میں اہم سمجھتا ہوں وہ ان کو کوئی اہمیت نہ دیتے ہوں۔ مَیں اللہ تعالیٰ کے حضور بہت رویا کہ اے اللہ! یہ شرائط بہت سخت ہیں… یہ شرائط میری وسعت سے باہر ہیں، مجھ پر رحم فرما۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ محمد الیاس! یہ سب انتظام میں نے تمہارے لیے کر دیا ہے۔ تم قادیان جلسہ سالانہ پر جاؤ۔ وہاں بیس ہزار احمدی بھی آئیں گے۔صحابہ کرام بھی آئیں گے، خلیفۂ وقت بھی موجود ہو گا۔ ان کی خوراک اور رہائش کا انتظام بھی میں کروں گا۔ جلسہ سالانہ کی افتتاحی اور اختتامی دعا میں جب جلسہ سالانہ کے تمام احباب مع خلیفۂ وقت روئیں گے، تم بھی رونا اور اپنا مدعا پیش کرنا،میں قبول کروں گا۔

پھر آپ نے فرمایا: مَیں احباب جماعت سے پوچھتا ہوں۔ کیا یہ سودا مہنگا ہے؟ کیا تم لوگوں کی کوئی ضروریات نہیں ہیں اور تم ہر چیز سے بے نیاز ہو؟

اٹھو اور جلسہ سالانہ پر جانے کی تیاری کرو کہ یہ وقت پھر ایک سال بعد ہاتھ آئے گا۔ کس کو پتا اس وقت کون زندہ ہو گا؟ ایسے سنہری موقع کو اپنے ہاتھ سے گنوانا کہاں کی عقلمندی ہے؟(حیات الیاس صفحہ 87-85)

آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو جلسہ سالانہ کے عظیم الشان مقاصد کے حصول کی توفیق عطا کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہشات پورا کرنے اور خلفاء احمدیت کی نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے تاکہ ہم جلسہ سالانہ سے وابستہ روحانی وجسمانی برکات سے متمتع ہوسکیں۔آمین ثم آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button