متفرق مضامین

’’جنگ بدر کا قصہ مت بھولو‘‘

(عبد السمیع خان۔ گھانا)

عظیم الشان پیشگوئیوں پر مشتمل حضرت مسیح موعودؑ کا الہام

’’جنگ بدر کا قصہ مت بھولو ‘‘

حقائق اور واقعات کی روشنی میں

بدری صحابہ کے متعلق حضرت امیر المومنین کے خطبات سے الہام ایک نئی شان سے پورا ہو رہاہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو 17؍فروری 1904ء کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا: ’’جنگ بدر کا قصہ مت بھولو‘‘۔ (تذکرہ صفحہ668) پس بدر کا قصہ ہمارے ذہنوں میں ہمیشہ مستحضر رہنا چاہیے کیونکہ اس کا احمدیت کی فتوحات سے گہرا تعلق ہے۔

بدر کے متعلق آیات اور احادیث کا حضرت مسیح موعودؑ کے قلب صافی پر نزول اور ان کے نظارے

آج سے 1441سال قبل 17؍رمضان 2ھ کو بدر کی وادی میں ایک ایسا معرکہ برپا ہوا جو اس وقت کی دنیا کی نظر میں ہلال کی طرح معمولی اور ناقابل ذکر تھا مگر آج وہ اسلام کی تاریخ میں بدر یعنی چودھویں کے چاند کی طرح دمک رہا ہے۔

یہ جنگ بدر جس میں 313 فدایانِ رسولؐ اور ایک ہزار منکرین اسلام یعنی 1300کے قریب افراد نے چند گھنٹوں کے لیے شرکت کی اور جس میں چند درجن افراد گھائل اور زخمی ہوئے مگر اس کے اثرات اور نتائج آج بھی زندہ اور تابندہ ہیں۔ آیئے جنگ بدر کے قصہ کی موٹی موٹی باتوں کو دہرائیں۔

بدر کی قرآنی تفاصیل

رسول کریمﷺ نے 17 کے قریب غزوات میں عملاً لڑائی میں حصہ لیا مگر غزوۂ بدرکو تمام غزوات کے مقابل پر غیرمعمولی امتیازات حاصل ہیں جنہیں خداتعالیٰ نے یاد رکھنے کی تلقین فرمائی ہے۔ فرماتا ہے: ’’اور یقیناً اللہ بدر میں تمہاری نصرت کرچکا ہے جبکہ تم کمزور تھے۔ پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم شکر کرسکو۔

جب تو مومنوں سے یہ کہہ رہا تھا کہ کیا تمہارے لیے کافی نہیں ہوگا کہ تمہارا رب تین ہزار اتارے جانے والے فرشتوں سے تمہاری مدد کرے؟

کیوں نہیں۔ اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو جبکہ وہ اپنے اسی جوش میں (کھولتے ہوئے) تم پر ٹوٹ پڑیں تو تمہارا رب پانچ ہزار عذاب دینے والے فرشتوں کے ساتھ تمہاری مدد کرے گا۔

اور اللہ نے یہ (وعدہ) محض تمہیں خوشخبری دینے کے لیے کیا ہے اور تاکہ اس سے تمہارے دل اطمینان محسوس کریں اور (امرواقعہ یہ ہے کہ) مدد محض اللہ ہی کی طرف سے ملتی ہے جو کامل غلبہ والا (اور) حکمت والا ہے۔

تاکہ وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا وہ ان کے ایک حصہ کو کاٹ پھینکے یا ان کو سخت ذلیل کر دے پس وہ نامراد واپس لوٹیں۔ ‘‘(آل عمران: 124تا128)

پھر سورۃ الانفال میں فرمایا: ’’(ان کا ایمان ایسا ہی حق ہے) جیسے تیرے رب نے تجھے حق کے ساتھ تیرے گھر سے نکالا تھا حالانکہ مومنوں میں سے ایک گروہ اسے یقیناً ناپسند کرتا تھا۔

وہ حق کے بارہ میں تجھ سے بحث کررہے تھے بعد اس کے کہ حق (ان پر) کھل چکا تھاگویا انہیں موت کی طرف ہانک کے لے جایا جارہا تھا اور وہ (اسے اپنی آنکھوں سے) دیکھ رہے تھے۔

اور (یاد کرو) جب اللہ تمہیں دو گروہوں میں سے ایک کا وعدہ دے رہا تھا کہ وہ تمہارے لیے ہے اور تم چاہتے تھے کہ تمہارے حصہ میں وہ آئے جس میں ضرر پہنچانے کی صلاحیت نہ ہو اور اللہ چاہتا تھا کہ وہ اپنے کلمات کے ذریعے حق کو ثابت کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے۔

تاکہ وہ حق کو ثابت کردے اور باطل کا بطلان کر دے خواہ مجرم لوگ کیسا ہی ناپسند کریں۔

(یاد کرو) جب تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے تو اس نے تمہاری التجا کو قبول کرلیا (اس وعدہ کے ساتھ) کہ میں ضرور ایک ہزار قطار درقطار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا۔

اور اللہ نے اسے (تمہارے لیے) محض ایک بشارت بنایا تھا اور اس لیے کہ تمہارے دل اس سے مطمئن ہو جائیں جبکہ کوئی مدد نہیں (آتی) مگر اللہ ہی کی طرف سے۔ یقیناً اللہ کامل غلبہ والا (اور) بہت حکمت والا ہے۔‘‘ (الانفال: 6تا11)

مزید فرمایا: ’’اور تم جان لو کہ جو بھی مال غنیمت تمہارے ہاتھ لگے تو اس کا پانچواں حصہ اللہ (یعنی دین کے کاموں کے لیے) اور رسول کے لیے اور اقرباء کے لیے اور یتامیٰ اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے، اگر تم اللہ پر ایمان لاتے ہو اور اس پر جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلہ کر دینے کے دن اتارا تھا جس دن دو جمعیتوں کا تصادم ہوا تھا اور اللہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔

(یاد کرو) جب تم (وادی کے) ورلے کنارے پر تھے اور وہ پرلے کنارے پر اور قافلہ تم دونوں سے نیچے کی طرف تھا اور اگر تم (کسی گروہ سے لڑائی کا) باہم پختہ عہد بھی کر لیتے تب بھی اس کا (وقت) معین کرنے میں تم اختلاف کرتے۔ لیکن یہ اس لیے (ہوا) کہ اللہ اس کام کا فیصلہ نپٹا دے جو بہرحال پورا ہو کر رہنے والا تھا۔ تاکہ کھلی کھلی حجت کی رو سے جس کی ہلاکت کا جواز ہو وہی ہلاک ہو اور کھلی کھلی حجت کی رو سے جسے زندہ رہنا چاہیے وہی زندہ رہے اور یقیناً اللہ بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔

(یاد کرو) جب اللہ تجھے ان کو تیری نیند کی حالت میں کم دکھا رہا تھا اور اگر وہ تجھے ان کو کثیر تعداد میں دکھاتا تو (اے مومنو!) تم ضرور بزدلی دکھاتے اور اس اہم معاملہ میں اختلاف کرتے۔ لیکن اللہ نے (تمہیں) بچالیا۔ یقیناً وہ سینوں کے رازوں کو خوب جانتا ہے۔

اور (یاد کرو) جب وہ تمہیں ان کو، جب تمہاری ان سے مڈھ بھیڑ ہوئی، تمہاری نظروں میں کم دکھا رہا تھا اور تمہیں ان کی نظروں میں بہت کم دکھا رہا تھا تاکہ اللہ اس کام کا فیصلہ نپٹا دے جو بہرحال پورا ہو کر رہنے والا تھا اور اللہ ہی کی طرف تمام امور لوٹائے جاتے ہیں۔ ‘‘(الانفال: 42تا45)

آیئے ان آیات کی روشنی میں جنگ بدر پر نگاہ ڈالیں۔

یوم الفرقان

غزوۂ بدر کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اسے قرآن کریم نے یوم الفرقان قرار دیا ہے یعنی حق و باطل میں امتیاز کا دن، سچ اور جھوٹ نکھر کر سامنے آگیا۔ رحمانی اور شیطانی قوتیں صف آرا ہوئیں اور بدر کا دن فتح مکہ کا دروازہ قرار پایا۔ اگر سکندر اور تیمور کی فتوحات نہ ہوتیں تو تاریخ انسانی کو کوئی خاص فرق نہ پڑتا۔ لیکن اگر بدر کی جنگ نہ ہوتی تو مکہ فتح نہ ہوتا اور دنیا کی تاریخ کا عظیم ترین علمی، روحانی، سائنسی، ثقافتی اور اخلاقی انقلاب برپا نہ ہوتا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ لفظ الفرقانکا مطلب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’قرآن سے مجھے اس کے یہ معنے معلوم ہوئے کہ فرقان نام ہے اس فتح کا جس کے بعد دشمن کی کمر ٹوٹ جائے اور یہ بدر کا دن تھا۔ ‘‘(حقائق الفرقان جلد1 صفحہ306)

فرشتوں کا نزول اور بدری صحابہ کا مقام

اس جنگ میں خدا نے فرشتوں کے ذریعہ مومنوں کی غیرمعمولی تائید فرمائی۔ 3ہزار اور 5 ہزار فرشتوں نے ان کے دلوں کو سکینت بخشی۔ خواب میں کافر مسلمانوں کو کثیر اور طاقتور اور مسلمان کافروں کو قلیل اور کمزور دیکھتے تھے جس کے نتیجے میں دبلے پتلے مسلمانوں نے جری اور پہلوان قسم کے کافروں کو رسیوں سے جکڑ لیا اور وہ منہ دیکھتے رہ گئے۔ اسی لیے جنگ بدر میں شامل صحابہ سب صحابہ سے افضل اور جنگ بدر میں شامل فرشتے سب فرشتوں سے افضل قرار پائے۔

حضرت رفاعہؓ بیان کرتے ہیں کہ جبریل رسول کریمﷺ کے پاس آئے اور پوچھا کہ آپ کے ہاں بدری صحابہ کا کیا مقام ہے؟ تو رسول اللہؐ نے فرمایا: وہ سب سے افضل مسلمان ہیں۔ اس پر جبریل نے کہا ہمارے ہاں بدر میں شامل ہونے والے فرشتوں کا بھی یہی مقام ہے۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب شھود الملائکۃ بدراً حدیث نمبر3692)

بدری صحابہ پر متعدد کتب لکھی گئیں اور کیا ہی خوش قسمت وہ وجود ہیں جن کا ذکر 1441سال بعدخدا کا خلیفہ اپنے خطبات جمعہ میں کر رہا ہے اور وہ ذکر تمام دنیا میں بیک وقت نئی زندگی کے قیام اور صحابہ کے درجات کی بلندی کا موجب ہو رہا ہے۔

کفر کا استیصال

بدر میں کافروں کی جڑ کاٹ دی گئی۔ نوخیز نوجوانوں نے سالار لشکر ابوجہل کو باز کی طرح جھپٹ لیا۔ غلام بلالؓ نے آقا امیہ کی گردن قلم کر دی۔ 14 بڑے رؤسائے قریش سمیت 70 دشمن مارے گئے اور مکہ میں گھر گھر ماتم برپا ہوگیا۔

رسول اللہؐ کی دعا

رسول کریمﷺ کی دردناک دعاؤں نے بازی الٹا دی اور عبادت گزاروں کی زندگی کی ضمانت خدا سے حاصل کرلی۔ آپؐ نے عرض کیا: ’’اے خدا اگر تو نے اس معمولی گروہ کو ہلاک کر دیا تو زمین تیری پرستش سے ہمیشہ کے لیے خالی ہو جائے گی۔ ‘‘(صحیح مسلم کتاب الجہاد باب الامداد بالملائکۃ حدیث نمبر3309)

ان دردمندانہ دعاؤں کے بعد آپ سجدہ سے اٹھے اور خدائی بشارت سَیُہۡزَمُ الۡجَمۡعُ وَیُوَلُّوۡنَ الدُّبُرَ پڑھتے ہوئے سائبان سے باہر تشریف لائے۔ یعنی لشکر کفار ضرور پسپا ہوگا اور پیٹھ دکھائے گا۔ یہ سورت قمر کی آیت 46ہے جو مکہ میں ہجرت سے پہلے بطور پیشگوئی کے نازل ہوئی تھی اور بدر میں خداتعالیٰ نے آپؐ کی زبان پر دوبارہ جاری کرکے بتایا کہ اب وہی موعود ساعت کفار کے لیے آگئی ہے۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب قصۃ غزوہ بدر حدیث نمبر3659)

کنکروں کی مٹھی

پھر آپؐ نے کنکروں کی ایک مٹھی دشمن کی طرف پھینکی اور فرمایا شَاھَتِ الوُجُوْہُ دشمن کے چہرے بگڑ جائیں گے۔ چنانچہ یہ مٹھی بھر مٹی تیز آندھی میں تبدیل ہوگئی اور اس کو ہراساں کردیا۔ (سیرت ابن ہشام جلد1 صفحہ628 باب رمی الرسول)

یہ ایک عجیب معجزہ تھا جس کی تفصیل اور حکمتیں بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’پس تم نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ ہے جس نے انہیں قتل کیا ہے اور (اے محمد!) جب تو نے (ان کی طرف کنکر) پھینکے تو تو نے نہیں پھینکے بلکہ اللہ ہے جس نے پھینکے اور یہ اس لیے ہوا کہ وہ اپنی طرف سے مومنوں کو ایک اچھی آزمائش میں مبتلا کرے۔ یقیناً اللہ بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔

یہ تھا تمہارا حال اور یہ (بھی حق ہے) کہ اللہ ہی کافروں کی تدبیر کو کمزور کرنے والا ہے۔

(پس اے مومنو!) اگر تم فتح طلب کیا کرتے تھے تو فتح تو تمہارے پاس آگئی ہے اور (اے منکرو! اب بھی) اگر تم باز آجاؤ تو تمہارے لیے بہتر ہے اور اگر تم (شرارت کا) اعادہ کرو گے تو ہم بھی (عذاب کا) اعادہ کریں گے اور تمہارا جتھا تمہارے کسی کام نہ آئے گا خواہ کتنا ہی زیادہ ہو اور یہ (جان لو) کہ اللہ مومنوں کے ساتھ ہے۔ ‘‘(الانفال: 18تا20)

صحابہؓ کی جاں نثاری

اس جنگ میں صحابہؓ نے اپنی فدائیت اور جاں نثاری کے خوب مظاہرے دکھائے۔ انہوں نے کہا یارسول اللہ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوہ بدر حدیث نمبر3658)

خدا نے ان کی تمناؤں اور عزائم کو قبول کیا اور انہیں لافانی فتح عطا کی۔

بدر کے دو زمانے

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر خداتعالیٰ نے یہ راز کھولا کہ امت محمدیہ کے لیے بدر کے دو زمانے مقدر تھے ایک وہ جو رمضان 2ھ میں گزرا اور دوسرا وہ جو بدر کے لغوی معنوں کے مطابق 14ویں صدی ہجری میں رونما ہوا۔

آیات کا دوبارہ نزول

چنانچہ بدر کے متعلق آیت قرآنی لَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدۡرٍ وَّاَنۡتُمۡ اَذِلَّۃٌ حضرت مسیح موعودؑ کو دو دفعہ الہام ہوئی۔ یکم جون 1904ء کے الہام میں آیت کے شروع میں ’و‘ہے۔ (تذکرہ صفحہ432)

جبکہ 1906ء کے الہامات مطبوعہ حقیقۃ الوحی میں ’و‘کے بغیر ہے۔ (تذکرہ صفحہ561)

نیز بدر کے موقع پر رسول اللہ ؐکی دعا: اللّٰھُمَّ اِنْ اَھْلَکْتَ ھٰذِہِ الْعِصَابَۃَ فَلَنْ تُعْبَدَفِیْ الْاَرْضِ اَبَدًا بھی مئی 1902ء میں الہام ہوئی۔ (تذکرہ صفحہ352)

بدر کے موقع پر رسول اللہﷺ کی زبان مبارک پر جو پیشگوئی جاری کی گئی تھی۔ سَیُہۡزَمُ الۡجَمۡعُ وَیُوَلُّوۡنَ الدُّبُرَ وہ حضرت مسیح موعودؑ کو چاردفعہ الہام ہوئی۔ 1877ء، 1883ء، 1899ء، 1906ء۔ (تذکرہ صفحہ660,543,58,23)

اسی طرح بدر کے موقع پر رسول اللہﷺ کا ارشاد شَاھَتِ الوُجُوْہُ پانچ دفعہ ہوا۔ سال 1888ء، 1899ء، 1900ء (2دفعہ)، 1905ء۔ (تذکرہ صفحہ664,472,305,276,130)

ایک موقع پر اس الہام کی تفصیل میں حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’26؍اگست 1905ء۔ دیکھا کہ ایک شخص سامنے کھڑا ہے۔ اس نے نہایت زور کے ساتھ قلم چلایا جیسا کہ کوئی دیا سلائی رگڑتا ہے اور اس کے قلم کے لکھنے کی آواز بھی آئی۔ اس نے لکھا: شَاھَتِ الْوُجُوْہُ

فرمایا: ’’اس کے معنے ہیں دشمنوں کے منہ کالے ہوگئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی عظیم الشان نشان کے ذریعہ سے دشمنوں کو رو سیاہ کرنا چاہتا ہے‘‘۔ (تذکرہ صفحہ472)

جنگ بدر میں عظیم الشان معجزہ پر مشتمل آیت مَا رَمَیۡتَ اِذۡ رَمَیۡتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی حضرت مسیح موعوؑد کوتین دفعہ الہام ہوئی۔ سنہ 1882ء، 1885ء، 1893ء۔ (تذکرہ صفحہ194,104,35)

اس آیت کا ایک مظہر شہب ثاقبہ گرنے کا نظارہ بھی تھا جس کے متعلق حضورؑ فرماتے ہیں: ’’28 نومبر 1885ء کی رات کو یعنی اس رات کو جو 28؍نومبر 1885ء کے دن سے پہلے آئی ہے اس قدر شہب کا تماشا آسمان پر تھا جو مَیں نے اپنی تمام عمر میں اس کی نظیر کبھی نہیں دیکھی اور آسمان کی فضا میں اس قدر ہزارہا شعلے ہر طرف چل رہے تھے جو اس رنگ کا دنیا میں کوئی بھی نمونہ نہیں تا میں اس کو بیان کرسکوں۔ مجھ کو یاد ہے کہ اُس وقت یہ الہام بکثرت ہوا تھا کہ مَا رَمَیۡتَ اِذۡ رَمَیۡتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی سو اس رمی کو رمی شہب سے بہت مناسبت تھی۔ یہ شہب ثاقبہ کا تماشا جو 28؍نومبر 1885ء کی رات کو ایسا وسیع طور پر ہؤا جو یورپ اور امریکہ اور ایشیا کی عام اخباروں میں بڑی حیرت کے ساتھ چھپ گیا لوگ خیال کرتے ہوں گے کہ یہ بےفائدہ تھا لیکن خداوند کریم جانتا ہے کہ سب سے زیادہ غور سے اس تماشا کے دیکھنے والا اور پھر اس سے حظ اور لذت اٹھانے والا میں ہی تھا۔ میری آنکھیں بہت دیر تک اس تماشا کے دیکھنے کی طرف لگی رہیں اور وہ سلسلہ رمی شہب کا شام سے ہی شروع ہو گیا تھا جس کو میں صرف الہامی بشارتوں کی وجہ سے بڑے سرور کے ساتھ دیکھتا رہا کیونکہ میرے دل میں الہاماً ڈالا گیا تھا کہ یہ تیرے لئے نشان ظاہر ہؤا ہے۔ ‘‘(تذکرہ صفحہ104)

پس بدر کے متعلق قرآنی آیات اور ارشادات رسولؐ کا مسیح موعودؑ کے قلب صافی پر نزول اس زمانہ کو بدر کے مشابہ قرار دیتا ہے۔

بدر اور چودھویں صدی

چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’جب رسول اللہﷺ کی مماثلت موسیٰ سے ہے تو اس مماثلت کے لحاظ سے ضروری ہے کہ اس صدی کا مجدد مسیح ہو کیونکہ (مسیح) چودھویں صدی پر موسیٰ کے بعد آیا تھا۔ اور آجکل چودھویں صدی ہے چودہ کے عدد کو بڑی مناسبت ہے چودھویں صدی کا چاند کامل ہوتا ہے۔ اسی کی طرف اللہ نے لَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدۡرٍ وَّاَنۡتُمۡ اَذِلَّۃٌ میں اشارہ کیا ہے یعنی ایک بدر تو وہ تھا جبکہ رسول اللہﷺ نے اپنے مخالفوں پر فتح پائی۔ اس وقت بھی آپ کی جماعت قلیل تھی اور ایک بدر یہ ہے بدر میں چودھویں صدی کی طرف اشارہ ہے اس وقت بھی اسلام کی حالت اذلہ کی ہورہی ہے۔ سو ان سارے وعدوں کے موافق اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا ہے۔ ‘‘(الحکم 17؍جنوری 1903ء صفحہ3)

پھر فرمایا: ’’دیکھو کہ صحابہ کو بدر میں نصرت دی گئی اور فرمایا گیا کہ یہ نصرت ایسے وقت میں دی گئی جبکہ تم تھوڑے تھے اس بدر میں کفر کا خاتمہ ہو گیا۔ بدر پر ایسے عظیم الشان نشان کے اظہار میں آئندہ کی بھی ایک خبر رکھی گئی تھی اور وہ یہ کہ بدر چودھویں کے چاند کو بھی کہتے ہیں اس سے چودھویں صدی میں اللہ تعالیٰ کی نصرت کے اظہار کی طرف بھی ایما ہے اور یہ چودھویں صدی وہی صدی ہے جس کے لیے عورتیں تک کہتی تھیں کہ چودھویں صدی خیروبرکت کی آئے گی۔ خدا کی باتیں پوری ہوئیں اور چودھویں صدی میں اللہ تعالیٰ کے منشا کے موافق اسم احمد کا بروز ہوا اور وہ میں ہوں جس کی طرف اس واقعہ بدر میں پیشگوئی تھی۔ جس کے لیے رسول اللہﷺ نے سلام کہا۔ مگر افسوس کہ جب وہ دن آیا اور چودھویں کا چاند نکلا تودوکاندار، خود غرض کہا گیا۔ افسوس! ان پر جنہوں نے دیکھا اور نہ دیکھا، وقت پایا اور نہ پہچانا۔ وہ مرگئے جو منبروں پر چڑھ چڑھ کر رویا کرتے تھے کہ چودھویں صدی میں یہ ہوگا اور وہ رہ گئے جو کہ اب منبروں پر چڑھ کر کہتے ہیں کہ جو آیا ہے وہ کاذب ہے!!! ان کو کیا ہوگیایہ کیوں نہیں دیکھتے اور کیوں نہیں سوچتے۔

اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے بدر ہی میں مدد کی تھی اور وہ مدد اذلۃکی مدد تھی جس وقت 313 آدمی صرف میدان میں آئے تھے اور کل دو تین لکڑی کی تلواریں تھیں اور ان 313 میں زیادہ تر چھوٹے بچے تھے اس سے زیادہ کمزوری کی حالت کیا ہوگی اور دوسری طرف ایک بڑی بھاری جمعیت تھی اور وہ سب کے سب چیدہ چیدہ جنگ آزمودہ اور بڑے بڑے جوان تھے۔ آنحضرتﷺ کی طرف ظاہری سامان کچھ نہ تھا اس وقت رسول اللہﷺ نے اپنی جگہ پر دعا کی: اللّٰھُمَّ اِنْ اَھْلَکْتَ ھَذِہِ الْعِصَابَۃَ یعنی اے اللہ! اگر آج تو نے اس جماعت کو ہلاک کر دیا تو پھر کوئی تیری عبادت کرنے والا نہ رہے گا۔

سنو! مَیں بھی یقیناً اسی طرح کہتا ہوں کہ آج وہی بدر کا معاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح ایک جماعت طیار کررہا ہے وہی بدر اور اذلۃکا لفظ موجود ہے۔ کیا یہ جھوٹ ہے کہ اسلام پر ذلت نہیں آئی؟ نہ سلطنت ظاہری میں شوکت ہے، ایک یورپ کی سلطنت منہ دکھاتی ہے تو بھاگ جاتے ہیں اور کیا مجال ہے جو سراٹھائیں، اس ملک کا حال کیا ہے؟ کیا اذلۃنہیں ہیں؟ ہندو بھی اپنی طاقت میں مسلمانوں سے بڑھے ہوئے ہیں۔ کوئی ایک ذلت ہے جس میں ان کا نمبر بڑھا ہوا ہے۔ جس قدر ذلیل سے ذلیل پیشے ہیں وہ ان میں پاؤ گے، ٹکڑگدا مسلمان ہی ملیں گے، جیل خانوں میں جاؤ تو جرائم پیشہ گرفتار مسلمان ہی پاؤ گے، شراب خانوں میں جاؤ کثرت سے مسلمان۔ اب بھی کہتے ہیں ذلت نہیں ہوئی؟ کروڑہا ناپاک اور گندی کتابیں اسلام کے رد میں تالیف کی گئیں، ہماری قوم میں مغل، سید کہلانے والے اور شریف کہلانے والے عیسائی ہو کر اسی زبان سے سید المعصومین خاتم النبیّینﷺ کو کوسنے لگے، صفدر علی اور عماد الدین وغیرہ کون تھے؟ امہات المومنین کا مصنف کون ہے؟ جس پر اس قدر واویلا اور شور مچایا گیا اور آخر کچھ بھی نہ کرسکے۔ اس پر بھی کہتے ہیں کہ ذلت نہیں ہوئی کیا تم تب خوش ہوتے کہ اسلام کا اتنا رہا سہا نام بھی باقی نہ رہتا تب محسوس کرتے کہ ہاں! اب ذلت ہوئی ہے!!! آہ! میں تم کو کیونکر دکھاؤں جو اسلام کی حالت ہورہی ہے دیکھو! میں پھر کھول کر کہتا ہوں کہ یہی بدرکا زمانہ ہے، اسلام پر ذلت کا وقت آچکا ہے مگر اب خدا نے چاہا ہے کہ اس کی نصرت کرے چنانچہ اس نے مجھے بھیجا ہے کہ میں اسلام کو براہین اور حجج ساطعہ کے ساتھ تمام ملتوں اور مذہبوں پر غالب کرکے دکھادوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس مبارک زمانہ میں چاہا ہے کہ اس کا جلال ظاہر ہو اب کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔ (الحکم 24؍جنوری 1901ء صفحہ4تا5)

نیا یوم الفرقان

پس اے سعادت مندو!

تاریخ عالم پر نظر دوڑاؤ۔ آج سے 127 سال قبل اسلام پھر دشمن کے نرغہ میں تھا اور قریب تھا کہ زمین خدا کے سچے عابدوں سے خالی ہو جاتی تب خدا نے اپنا وعدہ یاد کرکے چودھویں کے چاند مسیح موعود کو بھیجا۔ اور بےشمار فرشتے ہمراہ کیے۔ جنہوں نے سعادت مندوں کو حوصلہ اور عزم بخشا انہیں کفر کے سامنے ڈٹ جانے اور مرمٹ جانے کا درس دیاتب پھر ایک یوم الفرقان کا آغاز ہوا۔ ایک نئی فتح مکہ کی داغ بیل ڈالی گئی۔

حضرت مسیح موعودؑ کی آمد سے صلیب کی چمکار ماند پڑ گئی اور شرک اور عیسائیت اور تمام مذاہب باطلہ کی جڑوں پر تبر رکھ دیا گیا۔ شیطانی اور دجالی طاقتوں کے ایوانوں میں زلزلہ برپا ہوگیا۔

حضرت مسیح موعوؑد کی دعائیں یاجوج اور ماجوج کو پگھلا رہی ہیں۔ مَا رَمَیۡتَ اِذۡ رَمَیۡتَ کا منظر پھر زندہ ہورہا ہے اور مخلصین اپنے تن من دھن سے قربانیاں کرکے بدری صحابہ کی یاد کو زندہ کررہے ہیں۔

لوائے احمدیت میں چودھویں کے چاند یعنی بدر کے گرد دائرہ میں یہ آیت لکھی گئی ہے کہ ولَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدۡرٍ وَّاَنۡتُمۡ اَذِلَّۃٌ۔

تین سو تیرہ کا مبارک عدد اور جماعت احمدیہ

بدری صحابہ کے برابر تعداد کا ذکراسلام سے پہلے بھی ملتا ہے۔ حضرت براءؓ بیان کرتے ہیں کہ بدری صحابہ ذکر کرتے تھے کہ ان کی تعداد اتنی ہی ہے جنہوں نے طالوت کے ساتھ نہر عبور کی تھی، جس کا ذکر سورۃ البقرۃ آیت 250میں ملتاہے۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی، باب غزوہ بدرحدیث نمبر 3957)

جماعت احمدیہ میں اس مبارک عدد 313کا ذکر متعدد مواقع پر ملتا ہے۔

-1 حدیث میں ہے کہ امام مہدی کدعہ یعنی قادیان سے نکلے گا اور اس کے پاس ایک چھپی ہوئی کتاب ہو گی جس میں اس کے تین سو تیرہ اصحاب کا نام درج ہو گا۔ (قلمی نسخہ جواہر الاسرار صفحہ 43 از شیخ علی حمزہ بن ملک الطوسی840ھ)

چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ نے 313 صحابہ کے نام انجام آتھم میں شائع فرمائے۔ (انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11صفحہ 324تا325)

-2قادیان سے ہجرت کے بعد313کے قریب درویشوں نے قادیان کے مقدس مقامات کی حفاظت کا بیڑہ اٹھایا، ان کے نام بھی عزت و احترام سے لیے جاتے ہیں۔

-3کئی مالی تحریکوں میں 313 چندہ دہندگان کے لیے مطالبہ کیا گیا یا یہ کہ 313روپیہ چندہ پیش کریں اور ان کے نام دیواروں پر کندہ کیے گئے۔

بدری فتوحات کے اعترافات

مذاہب عالم اور ان کے لیڈروں کے مقابلہ پر حضرت مسیح موعوؑد اور آپ کی جماعت کو جو عظیم الشان کامیابیاں عطا ہوئی ہیں۔ غیرمتعصب دانشوروں نے کھل کر اس کا اعتراف کیا ہے اور سینکڑوں صفحات میں کیا ہے۔ ذیل میں اس کے محض چند نمونے مختصر فقرات کی شکل میں پیش کیے جارہے ہیں۔

مشہور صحافی سید حبیب صاحب ایڈیٹر اخبار ریاست نے لکھا: ’’مرزا صاحب نے مخالفین کے دانت کھٹے کر دیئے۔‘‘ (تحریک قادیان صفحہ207)

مولوی ارشاد علی نے جو عیسائیت سے توبہ کرکے دوبارہ مسلمان ہوئے تھے۔ پادری صفدر علی صاحب کے نام خط میں لکھا: ’’مولوی غلام احمد قادیانی نے میدان مناظرہ میں کھڑے ہو کر بہادر شیر کی طرح ان کو للکارا۔ اس چیلنج کا آپ لوگوں پر اس قدر اثر تھا کہ کسی پادری کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ آپ کے مقابلہ پر آتا۔ ‘‘(رسالہ دستکاری امرتسر 18؍جون 1899ء)

ابوالکلام آزاد ایڈیٹر اخبار وکیل امرتسر نے لکھا: ’’آریہ سماج کی زہریلی کچلیاں توڑنے میں مرزا صاحب نے اسلام کی بہت خاص خدمت سرانجام دی ہے۔ ‘‘(وکیل امرتسر 30؍مئی 1908ء)

اسی ضمن میں مولوی ثناء اللہ امرتسری نے لکھا: ’’آریہ سماج بحیثیت دھرم کے مر گئی‘‘(اخبار اہلحدیث 9؍اکتوبر 1925ء بحوالہ الفضل 5؍ فروری 1926ء)

خود آریہ اخبار آریہ ودیر لکھتا ہے: ’’آریہ سماج کے اندر اور باہر ایک آواز سنائی دیتی ہے کہ آریہ سماج شتھل ہورہا ہے۔ آریہ سماج میں جیون (زندگی) نہیں ‘‘۔ (آریہ و دیر 22؍فروری 1926ء۔ بحوالہ الفضل 5؍ مارچ 1926ءصفحہ4)

ہندوستان میں قلمی جنگ کا ایک عظیم مظاہرہ جلسہ مذاہب عالم لاہور 1896ء میں ہوا جس میں مختلف مذاہب نے اپنے عقائد اور مسلک کے حق میں تقاریر کیں اور حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ اسلام کو ایک عظیم الشان فتح نصیب ہوئی۔

اخبار جنرل وگوہر آصفی کلکتہ نے جلسہ اعظم مذاہب منعقدہ لاہور اور فتح اسلام کے عنوان سے لکھا: ’’اگر اس جلسے میں حضرت مرزا صاحب کا مضمون نہ ہوتا تو اسلامیوں پر غیرمذاہب والوں کے روبروذلت و ندامت کا قشقہ لگتا ہے۔ مگر خدا کے زبردست ہاتھ نے مقدس اسلام کو گرنے سے بچالیا۔ بلکہ اس کو اس مضمون کی بدولت ایسی فتح نصیب فرمائی کہ موافقین تو موافقین مخالفین بھی سچی فطرتی جوش سے کہہ اٹھے کہ یہ مضمون سب پر بالا ہے۔ بالا ہے۔ ‘‘(اخبار جنرل و گوہر آصفی 24؍جنوری 1897ء)

مفکر احرار چودھری افضل حق نے لکھا: ’’مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں تو کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لیے پیدا نہ ہوسکی۔ ہاں ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اٹھا۔ ایک مختصر سی جماعت اپنے گرد جمع کرکے اسلام کی نشرواشاعت کے لیے بڑھا۔ … اپنی جماعت میں وہ اشاعتی تڑپ پیدا کرگیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لیے قابل تقلید ہے بلکہ دنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کے لیے نمونہ ہے‘‘۔ (فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلابازیاں صفحہ22تا24)

ایڈیٹر صاحب اخبار تیج دہلی نے لکھا: ’’بلامبالغہ احمدیہ تحریک ایک خوفناک آتش فشاں پہاڑ ہے۔ ‘‘(تاریخ احمدیت جلد5صفحہ371)

ایڈیٹر صاحب اخبار بندے ماترم نے لکھا: ’’مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ احمدی لوگ ہندو جاتی کے سب سے زیادہ خوفناک حریف ہیں۔ ‘‘(بندے ماترم 18؍ستمبر 1927ء)

نوٹ: اخبارات کے حوالے زیادہ تر مندرجہ ذیل کتاب سے اخذ کیے گئے ہیں۔ (مسیح موعود اور جماعت احمدیہ انصاف پسند احباب کی نظر میں۔ از مولوی عبدالمنان شاہد)

امریکن اولین ہفتہ وار رسالہ لائف نے 9؍مئی 1955ء میں اسلام پر ایک مبسوط مضمون قلم بند کیا اور خاص طور پر جماعت کی خدمات کا کھل کر اعتراف کرتے ہوئے لکھا: ’’بعض علاقوں میں جہاں آج کل عیسائی مشنری اور مسلمان مبلغ ایک دوسرے کے بالمقابل اپنے اپنے مذہب کی اشاعت میں مصروف ہیں حالت یہ ہے کہ عیسائیت قبول کرنے والے ایک شخص کے مقابلے میں دس حبشی اسلام قبول کرتے ہیں۔ ‘‘ (تاریخ احمدیت جلد18صفحہ288)

ناقابل تسخیر

اخبار مشرق گورکھپور نے ’’حضرت امام جماعت احمدیہ کے احسانات‘‘ کے عنوان سے لکھا: ’’اس وقت ہندوستان میں جتنے فرقے مسلمانوں میں ہیں۔ سب کسی نہ کسی وجہ سے انگریزوں یا ہندوؤں یا دوسری قوموں سے مرعوب ہورہے ہیں۔ ایک احمدی جماعت ہے جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح کسی فرد یا جمعیت سے مرعوب نہیں ہے اور خاص اسلامی کام سرانجام دے رہی ہے‘‘۔ (اخبار مشرق 23؍ستمبر1927ء)

یہ فتوحات تو میدان بدر کی طرح ابتدائی فتوحات کا رنگ رکھتی ہیں جو شمال اور جنوب اور مشرق و مغرب میں بہار دین دکھلا رہی ہیں۔

خدا کرے کہ فتح مکہ کا دن جلد آئے جب تمام دشمن سرجھکائے کھڑے ہوں اور معافی پا کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے غلاموں میں شامل ہو جائیں۔

اقبال نے کہا تھا:

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

مگر اس کی کوتاہ بین نگاہ یہ نہیں دیکھ سکی کہ بد ر کا زمانہ لوٹ آیا ہے، مگر مختلف شکل میں اور نئے رنگ میں۔ بدری صحابہ کی قربانیاں بھی ہیں، ابو جہل کے لشکر بھی ہیں، بدر کے نئے نئے میدان بھی ہیں اور خدا کے فرشتے بھی پہلے کی طرح قطار اندر قطار اتر رہے ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button