متفرق مضامین

بہتان طرازی اورالزام تراشی کی شناعت اور اس کی اشاعت سے اجتناب کا حکم

(‘ابو فاضل بشارت’)

دین اسلام ایک پاکیزہ وشائستہ، نظیف ونفیس اورمہذب و متمدن مذہب ہے۔ جوتمام ادیان سے اعلیٰ و افضل اوربالا و برترہے۔ اس پاک دین کے ماننے والوں پرایک ذمہ د اری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس دین کے تقدس اور پاکیزگی کواپنے حسن عمل اور اس کی پاکیزہ اخلاق سے بھی ثابت کریں کیونکہ یہی اسلام اور بانیٔ اسلامﷺ کی تعلیمات ہیں کہ روحانی و جسمانی نفاست و نظافت کوہر مسلمان اپنا شعار بنائے تاکہ اخلاقی گراوٹوں اورگناہوں سےپاک ایک پُرامن اسلامی معاشرے کا قیام ہوسکے۔

روحانی و معاشرتی پاکیزگی کےلیے اللہ تعالیٰ نے جن گناہ کبیرہ سے منع فرمایا ہے ان میں سے ایک بڑا گناہ بہتان طرازی اورالزام تراشی ہے۔ دورحاضر میں سوشل میڈیا کے ذریعہ جہاں روابط میں آسانی اورتعلقات عامہ کادائرہ وسیع ہوگیا ہے وہاں الزام تراشی اور بہتان بافی کی وبا بھی معاشرہ میں عام ہوچکی ہے۔ فضول بات کو تحقیق اور چھان بین کے بغیر اس قدر پھیلا دیا جاتا ہے کہ ہر کس و ناکس اس پر تبصرہ کررہا ہوتا ہے خواہ اس کی بنیاد کوئی نہ بھی ہو۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کوقرآن کریم میں جہاں سورة المومنون کے آغاز میں لغو سے اعراض کا حکم دیا ہے وہاں سورة الحجرات میں بڑا واضح حکم یہ دیا ہے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا(الحجرات: 7)اے وہ لوگو جو اىمان لائے ہو! تمہارے پاس اگر کوئى بدکردار کوئى خبر لائے تو (اس کى) چھان بىن کرلىا کرو۔

اس آیت کریمہ میں ہرسنی سنائی بات پر بغیر تصدیق وتحقیق مان لینے اور اس کو اہمیت دے کر پھیلانے سے منع فرمایا گیا ہے۔ اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کا نتیجہ بھی اللہ تعالیٰ نےاس آیت کے اگلے حصہ میں بیان فرمادیا ہے کہ اَنۡ تُصِیۡبُوۡا قَوۡمًۢا بِجَہَالَۃٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰی مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِیۡنَ (الحجرات: 7)، اىسا نہ ہو کہ تم جہالت سے کسى قوم کو نقصان پہنچا بىٹھو پھر تمہىں اپنے کیے پر پشىمان ہونا پڑے۔

رسول اللہﷺ نے آدمی کے جھوٹا اور گناہگارہونے کی ایک کافی نشانی یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ سنی سنائی بات کو آگے بیان کرتاپھرتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ۔ (صحیح مسلم بَابُ النَّهْيِ عَنِ الْحَدِيثِ بِكُلِّ مَا سَمِعَ)یعنی کسی شخص کےجھوٹاہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہرسنی سنائی بات لوگوں میں بیان کرتا پھرے۔

دوسری روایت میں ہے: كَفَى بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ۔ (سنن ابوداؤد کتاب الادب بَابٌ فِي التَّشْدِيدِ فِي الْكَذِبِ)یعنی کسی شخص کے گناہگارہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہرسنی سنائی بات لوگوں میں بیان کرتا پھرے۔

شارح صحیح مسلم علامہ نوویؒ (متوفی: 676ھ)فرماتے ہیں: ’’الْإِنْسَانُ فَإِنَّهُ يَسْمَعُ فِي الْعَادَةِ الصِّدْقَ وَالْكَذِبَ فَإِذَا حَدَّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ فَقَدْ كَذَبَ لِإِخْبَارِهِ بِمَا لَمْ يَكُنْ‘‘(شرح النووي على مسلم جزء1صفحہ75)معمول میں انسان سچی (صحیح)اور جھوٹی(غلط)دونوں قسم کی باتیں سنتا ہے تو جب وہ ہرایسی سنی سنائی بات کو بیان کرے جن کی کوئی حقیقت ہی نہ ہو تو وہ جھوٹ بولتا ہے۔

پس یہ احادیث بے بنیاد الزام تراشی اور بہتان باندھنے کی نفی کی بیّن دلیل ہیں۔ بانیٔ اسلامﷺ نے معاشرتی اصلاح کےلیے ان کی شناعت و قباحت کا ذکر کرکے اس سے اجتناب کا حکم دیا ہے۔

بہتان اور غیبت میں فرق

بہتان بازی یا افتراپردازی ایسا نازک مسئلہ ہے کہ بعض اوقات انسان کو اس کا ادراک ہی نہیں ہوتا کہ وہ اس گناہ کا مرتکب ہورہا ہے اور اپنی دانست میں وہ کسی کی عدم موجودگی میں اس کے متعلق کی گئی بات کواظہار حقیقت امر سمجھتے ہوئےکررہا ہوتا ہے۔ اس لیے رسول اللہﷺ نے اس کا فرق بھی بڑی صراحت سے بیان فرما دیا۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک روز صحابہؓ سے دریافت فرمایا:

’’أَتَدْرُوْنَ مَا الْغِيْبَةُ قَالُوْا: اللّٰهُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ قِيْلَ أَفَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ فِي أَخِي مَا أَقُولُ قَالَ: إِنْ كَانَ فِيْهِ مَا تَقُولُ، فَقَدِ اغْتَبْتَهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ فَقَدْ بَهَتَّهُ‘‘(مسلم کتاب البر والصلة والآداب بَابُ تَحْرِيمِ الْغِيبَةِ)کہ تمہیں معلوم ہےکہ غیبت کیا ہوتی ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسولؐ ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپؐ نےفرمایا: کہ تمہارااپنے بھائی کا اس رنگ میں ذکر کرنا جسے وہ پسند نہ کرتاہو۔ عرض کیا گیاکہ اگر وہ بات جو کہی گئی ہے سچ ہو اور میرے بھائی میں وہ بات موجود ہوتب بھی یہ غیبت ہوگی؟ آپﷺ نے فرمایا: اگر وہ عیب اس میں پایا جاتا ہے جس کا تو نے اس کی پیٹھ پیچھے ذکر کیا ہے تو یہ غیبت ہے اور اگر وہ بات جو تو نے کہی ہے اس میں پائی ہی نہیں جاتی تو یہ اس پر بہتان ہے۔

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں: ’’غیبت کے متعلق بعض لو گوں میں یہ غلط فہمی پا ئی جاتی ہے کہ اگر کسی کا کوئی سچا عیب اس کی عدم موجو دگی میں بیان کیا جائے تو وہ غیبت میں داخل نہیں ہوتا ہا ں اگر جھوٹی بات بیان کی جائے تووہ غیبت ہوتی ہے حا لانکہ یہ صحیح نہیں۔ غیبت کا اطلا ق ہمیشہ ایسی سچی بات پر ہوتاہے جو کسی دوسرے کو بدنام کرنے کے لئے اس کی غیری میں بیان کی جائے اگر جھوٹی بات بیان کی جائے گی تو وہ غیبت نہیں بلکہ بہتان ہو گا۔‘‘(تفسیر کبیر جلد9 صفحہ579)

لغت عرب میں بہتان کے معانی

بہتان ’’بھت‘‘سےہے جس کے معنی ہیں کہ کسی کے بارہ میں ایسی بات کہی جائے جو اس نے کی ہی نہ ہو۔ بہتان سے مراد افترا بھی ہے۔ (لسان العرب جزء2صفحہ 12)

امام راغب اپنی مفردات میں اس کے معنے یوں لکھتے ہیں: بھت کے معنی ہیں حیران وششدر ہوکر مبہوت ہوجانا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيْمٌ(النور17) یعنی ایسا جھوٹ جس سے سننے والا حیرت زدہ اور حیران و ششدر ہوکر مبہوت ہوجائے۔ (مفردات امام راغب جزء1صفحہ148)

قرآن کریم میں ’’بُهْتانٌ‘‘ کا لفظ بطور اسم چھ د فعہ استعمال ہوا ہے۔ سورة النساء میں تین دفعہ جس میں سے ایک دفعہ آیت157میںحضرت مریمؑ پر بہتان کا ذکر ہے، سورة النور میں آیت17میں واقعہ افک کے موقع پر اورسورةالاحزاب آیت 59میں مومنین اور مومنات کو ایذا دینے کے ضمن میں اورپھرسورة الممتحنة کی آیت 13میں جہاں رسول اللہﷺ کو مومنات کی بیعت لیتے وقت کسی پر جھوٹا الزام نہ لگانے پر بھی بیعت لینے کا حکم ہے۔

بہتان طرازی اور الزام تراشی کی شناعت و قباحت

کسی بے گناہ پر بہتان باندھنا اشاعت فحشاء کے زمرہ میں ہی آتا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحِبُّوۡنَ اَنۡ تَشِیۡعَ الۡفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ۙ فِی الدُّنۡیَا وَالۡاٰخِرَۃِ ؕ وَاللّٰہُ یَعۡلَمُ وَاَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ(النور:20)ىقىناً وہ لوگ جو پسند کرتے ہىں کہ ان لوگوں مىں جو اىمان لائے بے حىائى پھىل جائے اُن کے لئے دردناک عذاب ہوگا دنىا مىں بھى اور آخرت مىں بھى اور اللہ جانتا ہے جبکہ تم نہىں جانتے۔

اوراشاعت فحشاءکا حکم کون دیتا ہے؟ شیطان۔ اور شیطان کے قدموں پر چلنے سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا: وَلَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ۔اِنَّمَا یَاۡمُرُکُمۡ بِالسُّوۡٓءِ وَالۡفَحۡشَآءِ وَاَنۡ تَقُوۡلُوۡا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ۔ (البقرة169-170)اور شىطان کے قدموں کے پىچھے نہ چلو ىقىناً وہ تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے۔ ىقىناً وہ تمہىں محض برائى اور بے حىائى کى باتوں کا حکم دىتا ہے اور ىہ کہ تم اللہ کے خلاف اىسى باتىں کہو جن کا تمہىں کوئى علم نہىں۔

رسول اللہﷺ نے بہتان باندھنے کو کبائرگناہ میں شامل کرتے ہوئے فرمایا: ’’خَمْسٌ لَيْسَ لَهُنَّ كَفَّارَةٌ: الشِّرْكُ بِاللّٰهِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ بِغَيْرِ حَقٍّ، أَوْ بَهْتُ مُؤْمِنٍ، أَوِ الْفِرَارُ يَوْمَ الزَّحْفِ، أَوْ يَمِيْنٌ صَابِرَةٌ يَقْتَطِعُ بِهَا مَالًا بِغَيْرِ حَقٍّ ‘‘ (مسند احمد جزء14صفحہ351)پانچ اعمال ایسے ہیں جن کا(سچی توبہ کے علاوہ )کوئی کفّارہ نہیں: اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، کسی کو ناحق قتل کرنا، کسی مومن پر بہتان لگانا، دوران جہاد پیٹھ پھیر کر فرار ہونا، جھوٹی قسم سے کسی کا مال ناحق ہڑپ کرنا۔

اسی طرح محصنات مومنات پر الزام لگانے کو سبع موبقات میں سے شمار کیا ہے یعنی ہلاک کردینے والی باتوں میں سے۔ (بخاری کتاب الحدود باب رمی المحصنات)

پھرآپﷺ نے فضول باتیں کرنے کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: ’’إِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ: عُقُوْقَ الْأُمَّهَاتِ،وَ وَأْدَ البَنَاتِ، وَمَنَعَ وَهَاتِ، وَكَرِهَ لَكُمْ قِيلَ وَقَالَ، وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ، وَإِضَاعَةَ المَالِ‘‘ (بخاری کتاب المساقاة بَابُ مَا يُنْهَى عَنْ إِضَاعَةِ المَالِ)ماؤں کی نافرمانی اور بیٹیوں کا زندہ گاڑنا اور خود تو نہ دینا لیکن دوسروں سے مانگنا؛ ان سب باتوں کو اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام کیا ہے۔ اسی طرح فضول باتیں کرنے اور بہت سوال کرنے اور مال برباد کرنے کو تمہارے لیے ناپسند کیا ہے۔

اسی طرح حضرت علیؓ سے روایت ہےکہ’’الْبُهْتَانُ عَلَى الْبَرِئِ أَثْقَلُ مِنَ السَّمَوات‘‘۔ (نوادرالاصول فی احادیث الرسول للحکیم الترمذی جزء1صفحہ193)بے گناہ پر الزام لگانا آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے۔

بہتان باندھنے سے اجتناب کا حکم

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے بہتان باندھنے اور الزام تراشی سے سختی سے منع کیا ہے کیونکہ یہ ایک شخص کی عزت و وقار پر حملہ ہوتا ہے اور اسلام اس بات کی قطعی اجازت نہیں دیتا کہ کسی کی جان و مال اور عزت پر وَار کیاجائے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ‘‘(مسلم کتاب البر والصلة والآداب بَابُ تَحْرِيمِ ظُلْمِ الْمُسْلِمِ، وَخَذْلِهِ، وَاحْتِقَارِهِ وَدَمِهِ، وَعِرْضِهِ، وَمَالِهِ)یعنی ہر مسلمان کا خون، اس کامال اوراس کی عزت دوسرے مسلمان پرحرام ہے۔

اسی طرح حجة الوداع کے موقع پر رسول اللہﷺ نے جوتاکیدی نصائح فرمائیں ان میں بھی سرفہرست یہ تھی کہ’’فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا‘‘(بخاری کتاب الحج بَابُ الخُطْبَةِ أَيَّامَ مِنًى)یعنی تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں اسی طرح سے تمہارے اوپر حرام ہیں جیسے کہ یہ دن، یہ شہر (مکہ)اور یہ ماہ (ذو الحجہ)حرمت والا ہے۔

بہتان باندھنےوالوں کادنیاوی انجام

اللہ تعالیٰ نے بہتان باندھنے یا الزام تراشی کرنے والوں کے بارہ میں تین احکامات نازل فرمائے جو یہ ہیں:

وَالَّذِیۡنَ یَرۡمُوۡنَ الۡمُحۡصَنٰتِ ثُمَّ لَمۡ یَاۡتُوۡا بِاَرۡبَعَۃِ شُہَدَآءَ فَاجۡلِدُوۡہُمۡ ثَمٰنِیۡنَ جَلۡدَۃً وَّلَا تَقۡبَلُوۡا لَہُمۡ شَہَادَۃً اَبَدًا ۚ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ۔ اِلَّا الَّذِیۡنَ تَابُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ وَاَصۡلَحُوۡا ۚ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ۔ (النور 5-6)وہ لوگ جو پاک دامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہىں پھر چار گواہ پىش نہىں کرتے تو انہىں اَسّى کوڑے لگاؤ اورآئندہ کبھى ان کى گواہى قبول نہ کرو اورىہى لوگ ہىں جو بدکردار ہىں۔ مگر وہ لوگ جنہوں نے اس کے بعد توبہ کرلى اور اپنى اصلاح کر لى تو ىقىناً اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

بہتان باندھنےوالوں کا اخروی انجام

دنیاوی سزا کے علاوہ اخروی زندگی میں بھی ان بہتان باندھنے والوں کا انجام اچھا نہ ہوگا اور ان کے لیے اللہ کا عذاب عظیم مقدر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡ بِالۡاِفۡکِ عُصۡبَۃٌ مِّنۡکُمۡ ؕ لَا تَحۡسَبُوۡہُ شَرًّا لَّکُمۡ ؕ بَلۡ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ؕ لِکُلِّ امۡرِیًٴ مِّنۡہُمۡ مَّا اکۡتَسَبَ مِنَ الۡاِثۡمِ ۚ وَالَّذِیۡ تَوَلّٰی کِبۡرَہٗ مِنۡہُمۡ لَہٗ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ۔ (النور 12)ىقىناً وہ لوگ جو جھوٹ گھڑ لائے تم ہى مىں سے اىک گروہ ہے اس (معاملہ) کو اپنے حق مىں بُرا نہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے لئے بہتر ہے ان مىں سے ہر شخص کےلئے ہے جو اُس نے گناہ کماىا جبکہ ان مىں سے وہ جو اس کے بىشتر کا ذمہ دار ہے اس کے لئے بہت بڑا عذاب (مقدر)ہے۔

رسول اللہﷺ نے ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا: جس نے اللہ کی حدود میں سے کسی حد کو روکنے کی سفارش کی تو گویا اس نے اللہ کی مخالفت کی اور جو جانتے ہو ئے کسی باطل امر کے لیے جھگڑے تو وہ اللہ کی ناراضگی میں رہے گا یہاں تک کہ اس جھگڑے سے دستبر دار ہو جائےاور جس نے کسی مومن کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جوا س میں نہیں تھی تو اللہ اس کا ٹھکانہ جہنمیوں میں بنا ئے گا یہاں تک کہ اپنی کہی ہوئی بات سے تو بہ کرلے۔(سنن ابوداؤد کتاب الاقضیة بَابٌ فِيمَنْ يُعِينُ عَلَى خُصُومَةٍ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَعْلَمَ أَمْرَهَا)

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: معراج میں مَیں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے۔ مَیں نے پوچھا: اے جبرئیل! یہ کون ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں کا گوشت نوچ نوچ کر کھایا کرتے تھے اور ان کی عزت و آبرو پرحملہ کرتے تھے۔ (ابوداؤد کتاب الادب باب فی الغیبۃ)

حقیقی مفلس

حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میری امت میں سے حقیقی مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ آئے گا اور اس نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر بہتان لگایا ہو گا اور کسی کا مال کھایا ہو گا اور کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا۔ پس اس کی نیکیاں ان لوگوں کو دے دی جائیں گی جن کے ساتھ اس نے یہ سلوک کیا ہو گا۔ اگر اس کی نیکیاں اس کا حساب برابر ہونے سے قبل ختم ہو گئیں تو ان لوگوں کے جو گناہ ہیں اس ظلم کرنے کی وجہ سے اس کے سر پہ ڈال دیے جائیں گے اور پھر اس کو آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ باب تحریم الظلم)

بہتان باندھنا یا الزام تراشی منافقین کا وطیرہ

قرآن کریم جو تاریخ اسلام کا بنیادی ماخذ ہے اس کے مطالعہ سے یہ بات بخوبی واضح ہے کہ الزام تراشی اور بہتان باندھنا منافقین کا شیوہ ہے جس میں ان کے ناپاک عزائم پنہاں ہوتے ہیں۔ واقعہ افک اس کی بدیہی مثال ہے۔ لیکن ایک ماہ کی اذیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے سورت نور کے ذریعہ بانیٔ اسلامؐ اور مسلمانوں کی اس پریشانی کا خاتمہ فرمایا اور منافقین کے اس فتنہ کی سرکوبی کی اوران کے اصل چہرے سامنے آئے۔ مگر ساتھ یہ بات بھی کھل گئی کہ اُس طرح کے منافق صفت لوگ ہر دوراور ہر زمانے میں پائے جائیں گے۔

بہتان کی اشاعت کرنا سنگین گناہ

منافقین کی طرف سے باندھے گئے بہتان کی اشاعت کرنا بھی بڑاسنگین گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِذۡ تَلَقَّوۡنَہٗ بِاَلۡسِنَتِکُمۡ وَتَقُوۡلُوۡنَ بِاَفۡوَاہِکُمۡ مَّا لَیۡسَ لَکُمۡ بِہٖ عِلۡمٌ وَّتَحۡسَبُوۡنَہٗ ہَیِّنًا ٭ۖ وَّہُوَ عِنۡدَ اللّٰہِ عَظِیۡمٌ۔ (النور 16)جب تم اُس (جھوٹ) کو اپنى زبانوں پر لىتے تھے اور اپنے مونہوں سے وہ کہتے تھے جس کا تمہىں کوئى علم نہىں تھا اور تم اس کو معمولى بات سمجھتے تھے حالانکہ اللہ کے نزدىک وہ بہت بڑى تھى۔

اس لیےبہتان اور الزام تراشیوں کی اشاعت سے مجتنب ہی رہنا چاہیے ۔اگر کوئی ایسی بات کرتا ہے تو اسے اپنی زبانوں پر لے کر اپنے مونہوں سے بیان کرکے اس گناہ عظیم میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔

بہتان اور الزام تراشی کے مواقع پر مومنین کا شیوہ

ایسے نازک مواقع پر مومنین اور مومنات کا شیوہ اور طرۂ امتیازکیا ہوناچاہیے۔ اس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے بڑی واضح راہنمائی فرمائی ہے کہ حسن ظنی کی جائے۔ چنانچہ فرمایا:

لَوۡلَاۤ اِذۡ سَمِعۡتُمُوۡہُ ظَنَّ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتُ بِاَنۡفُسِہِمۡ خَیۡرًا(النور:13)اىسا کىوں نہ ہوا کہ جب تم نے اُسے سنا تو مومن مرد اور مومن عورتىں اپنوں کے متعلق حُسنِ ظن کرتے۔

پھر اللہ تعالیٰ نے مومنین کو دوسراطرزعمل یہ سکھلایا:

وَلَوۡلَاۤ اِذۡ سَمِعۡتُمُوۡہُ قُلۡتُمۡ مَّا یَکُوۡنُ لَنَاۤ اَنۡ نَّتَکَلَّمَ بِہٰذَا ٭ۖ سُبۡحٰنَکَ ہٰذَا بُہۡتَانٌ عَظِیۡمٌ۔ (النور:17)اور اىسا کىوں نہ ہوا کہ جب تم نے اسے سُنا تو تم کہہ دىتے ہمىں کوئى حق نہىں کہ ہم اس معاملے مىں زبان کھولىں پاک ہے تُو (اے اللہ!) ىہ تو اىک بہت بڑا بہتان ہے۔

سورة النور کی آیات بے شک ایک خاص واقعہ کے بارہ میں ہیں لیکن اس میں موجود احکامات قیامت تک کےلیے بیان فرمود ہ ہیں۔

اس آیت میں مسلمانوں کو یہ باور کروایا گیا ہے کہ جب کبھی بھی ایسا واقعہ درپیش ہو توان کا رد عمل یہ ہونا چاہیے کہ صاف کہہ دیں کہ ایسی کسی بات کوبلا کسی دلیل کے زبان سے نکالنا بھی ہمارے لیے جائز نہیں ہے اور یہ توبہتان عظیم ہے۔ اس کی ایک حکمت یہ ہے کہ اسلام حسن ظنی کی تعلیم دیتاہے اور بلا دلیل حسن ظنی کے نتیجہ میں دوہراثواب ملتا ہے۔

بہتان اور الزام و تہمت لغو یات میں شامل ہیں

ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’رہائی یافتہ مومن وہ لوگ ہیں جو لغو کاموں اور لغو باتوں اور لغو حرکتوں اور لغو مجلسوں اور لغو صحبتوں سے اور لغو تعلقات سے اور لغو جوشوں سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔‘‘ (تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم سورۃ النحل تا سورۃ یٰس صفحہ359)

یہ تمام لغویات جن کی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نشان دہی فرمائی ہے یہ کیا ہیں؟ جیسا کہ ایک حدیث میں آیا کسی پر الزام تراشی کرنا، بغیر ثبوت کے کسی کو بلاوجہ بدنام کرنا، اس کے افسران تک اس کی غلط رپورٹ کرنا، عدالتوں میں بلاوجہ اپنی ذاتی انا کی وجہ سے کسی کو کھینچنا، گھریلو جھگڑوں میں میاں بیوی کے ایک دوسرے پر گندے اور غلیظ الزامات لگانا پھر سینما وغیرہ میں گندی فلمیں (گھروں میں بھی بعض لوگ لے آتے ہیں ) دیکھنا، تو یہ تمام لغویات ہیں …۔

آجکل بعض ویب سائٹس ہیں جہاں جماعت کے خلاف یا جماعت کے کسی فرد کے خلاف گندے غلیظ پراپیگنڈے یا الزام لگانے کا سلسلہ شروع ہوا ہوا ہے۔ تو لگانے والے تو خیر اپنی دانست میں یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں، اپنی عقل کے مطابق کہ یہ مغلظات بک کے وہ جماعت کو کوئی نقصان پہنچا رہے ہیں حالانکہ اُن کی اِن لغویات پر کسی کی بھی کوئی نظر نہیں ہوتی۔ جماعت کا شاید اعشاریہ ایک فیصد بھی طبقہ اس کو نہ دیکھتا ہو، اس کو شاید پتہ بھی نہ ہو۔ تو بہرحال یہ تمام لغویات ہیں اس لئے وہ جو ان گندے غلیظ الزاموں کے جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں، بعض نوجوانوں میں یہ جوش پیدا ہو جاتا ہے تو اس جوش کی وجہ سے وہ جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں ان کوبھی اس سے بچنا چاہئے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍اگست 2004ء)

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ فرماتے ہیں: ’’ہر ایک زانی، فاسق، شرابی، خونی، چور، قمار باز، خائن، مرتشی، غاصب، ظالم، دروغ گو(یعنی جھوٹ بولنے والا) جعل ساز اور ان کا ہم نشین (ان میں بیٹھنے والا بھی) اور اپنے بھائیوں اور بہنوں پر تہمتیں لگانے والا جو اپنے افعال شنیعہ سے توبہ نہیں کرتا اور خراب مجلسوں کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے‘‘۔ (کشتی ٔ نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ19)

ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت مسیح موعودؑ کا مندرجہ بالا حوالہ بیان کرنےکے بعد فرماتے ہیں: ’’حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تمام بڑے بڑے گناہ کرنے والوں، لوگوں کے حق مارنے والوں، لوگوں پہ ظلم کرنے والوں، جھوٹ بولنے و الوں، دھوکا دینے والوں، لوگوں پر الزام تراشیاں کرنے والوں، بری مجلس میں بیٹھنے والوں کو ایک ہی زمرے میں شمار کیا ہے۔ اور فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کا پھر مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پس ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ایمان کے دعوے کے بعد ہم میں کہیں کوئی برائی تو نہیں۔ یا ہم ایسی برائیاں کرنے والوں کے ساتھ بیٹھنے والوں میں سے تو نہیں۔ ہماری مجالس پاکیز ہ ہیں، ہمارے اعمال ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والے ہیں، ہم اس کے حکموں پر عمل کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق دے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍اگست 2004ء)

پس ہمیں خاص طور پرقال اللہ وقال الرسول اور ارشادات حضرت مسیح موعودؑ و خلفائے احمدیت اور ہمارے پیارے موجودہ امام حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی قیمتی راہنمائی پر سَمِعْنَا وَ اطَعْنَا کہہ کر عمل پیرا ہونا چاہیے اور فضول باتوں سے احتراز برتتے ہوئے مومنین کا شیوہ اپناتے ہوئے دعاؤں کے ساتھ اعلیٰ نمونہ دکھاناچاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ ہم سب کوحصار امن میں متحدرکھتے ہوئے جماعت احمدیہ کے لیے بہتری اور ترقیات کے سامان پیدا فرمائے۔ آمین اللہّٰم آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button