متفرق مضامین

حضرت بایزیدؒ

(م۔ الف۔ کاہلوں)

یہی کامل اتباع اور بروزی اور ظلی مرتبہ ہی توتھا جس سے بایزیدؒ محمد کہلایا اور اس کے کہنے پرستر مرتبہ کفر کا فتویٰ ان کے خلاف دیا گیا

حضرت اقدس مسیح موعودؑ اپنے ایک شعر میں آپ کا ذکر یوں فرماتے ہیں:

بود ہاروں پاک و ایں کرمے پلید

کے بماند با یزیدے بایزید!

(درثمین فارسی ،نظم 50،صفحہ331)

ہارون ایک پاک انسان تھا اور قارون ایک گندا کیڑا۔بایزیدؒ یزید سے کس طرح برابر ہوسکتا ہے

آپ کا اصل نام طیفور اور کنیت ابویزید تھی۔والد کا نام عیسیٰ تھا۔ایران کی قریہ بسطام میں سن 804ء میں پیدا ہوئے اور بایزید بسطامی کے نام سے شہرت پائی۔آپ حضرت امام جعفرصادقؒ اور حضرت ذوالنون مصریؒ کی آغوش تربیت اور صحبت میں پروان چڑھے۔ابتدا سے ہی تصوف کی طرف میل و میلان تھا۔صحبت صالحین سے سلوک کی منازل طے کیں۔دوام مراقبہ و حضور،استیلاغلبہ شوق اور محبت و وفا سے روحانیت میں ترقی کی۔غلبہ شہود ہستی باری تعالیٰ اپنے وجود کونابود خیال کیا۔شہود تام کی حالت نے آپ کو بے خبری کے عالم میں پہنچا دیا تھا۔اور ان کے منہ سے ایسے کلمات ادا ہوئے کہ نام نہاد حامیان دین اور مفتیان شرع متین نے کفر کا فتویٰ آپ پر تھوپ دیا۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’غرض یہ یقیناً یاد رکھو کہ کامل اتباع کے ثمرات ضائع نہیں ہوسکتے۔یہ تصوف کا مسئلہ ہے۔اگر ظلی مرتبہ نہ ہوتا تو اولیاء امت تو مرجاتے۔ یہی کامل اتباع اور بروزی اور ظلی مرتبہ ہی توتھا جس سے بایزیدؒ محمد کہلایا اور اس کے کہنے پرستر مرتبہ کفر کا فتویٰ ان کے خلاف دیا گیا اور انہیں شہر بدر کیا گیا۔‘‘

(ملفوظات جلد4صفحہ 406، ایڈیشن1988ء)

حضرت جنیدبغدادیؒ ان کے بارےمیں فرماتے ہیں: بایزید ہمارے درمیان ایسے ہیں جیسے ملائکہ میں جبرائیل۔اپنے تزکیہ نفس اور پاکیزگی سیرت کی بنا پہ سلطان العارفین کا لقب پایا۔تصوف میں نفیٔ وجود کے تصورکو ترقی و ترویج دی جو بقا(روحانی حیات) کو مستلزم ہے۔

زندگی کے آخری ایام میں کسی نے دریافت کیا کہ آپ کی عمر کتنی ہے؟فرمایا۔چار سال کا ہوں۔سائل کو حیرت ہوئی۔فرمایا۔میری عمری چوہتر برس ہے ۔لیکن ستر سال غفلت میں بسرہوئے ہیں۔

آپ کی شاعری میں عارفانہ رنگ پایا جاتا ہے۔فرماتے ہیں:

آنکہ ہوائے بہشت داشتہ باشد مرد نیست

مردآں است کہ بہشت آرزوئے دیدن وی را داشتہ باشد

یعنی مرد وہ نہیں جو بہشت کی خواہش رکھے۔مرد وہ ہے جس کو دیکھنے کی بہشت آرزو رکھے۔

آپ کی وفات 15؍شعبان 231ہجری/261 بمطابق874ء ہوئی وصال کے وقت یہ کلمات زبان پر تھے:الٰہی ما ذکرتک الا عن غفلۃ وما خدمتک الاعن فترۃ۔ الٰہی میں نے سوائے غفلت کے تجھے یاد نہیں کیا۔اور میں نے سوائے نقصان کے تیری خدمت نہیں کی۔

خدا رحمت کنند ایں عاشقان پاک طینت را

(نوٹ:دائرۃ المعارف اور ویکیپیڈیا سے استفادہ کیا گیا ہے۔)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button