کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

شکر لِلّٰہ کہ اس وقت خدا نے آسمان سے اسلام کا ہاتھ پکڑ لیا

خوب یاد رکھو کہ تمام خرابی اور تباہی جو اسلام میں پیدا ہوئی۔ یہاں تک کہ اس ملک ہندوستان میں ۲۹ لاکھ انسان مرتد ہو کر عیسائی ہوگیا۔ اس کا سبب یہی تھا۔ کہ مسلمان حضرت عیسیٰ کی نسبت بے جا اور مبالغہ آمیز امیدیں رکھ کر اور ان کو ہریک صفت میں خصوصیّت دے کر قریب قریب عیسائیوں کے پہنچ گئے۔ یہاں تک کہ جو کچھ بعض انسانی صفات وہ حضرت سیدنا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت تجویز کرتے ہیں اگر کسی تاریخی کتاب میں اسی قسم کے صفات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت لکھے ہوں تو توبہ توبہ کر اُٹھتے ہیں۔ مثلاً ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات بیمار بھی ہو جاتے تھے اور آپ کو تپ بھی آجاتا تھا اور آپ دوا بھی کرتے تھے اور بسا اوقات سنگھیاں پچھ کیساتھ لگواتے تھے۔ لیکن اگر اسی کے مشابہ حضرت مسیح کی نسبت لکھا ہو کہ وہ تپ میں یا کسی اور بیماری میں گرفتار ہوگئے۔ اور ان کو اٹھا کر کسی ڈاکٹر کے پاس لے گئے تو فی الفور چونک اُٹھیں گے کہ یہ مسیح کی شان سے بعید ہے۔ حالانکہ وہ صرف ایک عاجز انسان تھا اور تمام انسانی ضعفوں سے پورا حصہ رکھتا تھا۔ اور وہ اپنے چار بھائی حقیقی اور رکھتا تھا۔ جو بعض اس کے مخالف تھے اور اس کی حقیقی ہمشیرہ دو تھیں کمزور سا آدمی تھا جس کو صلیب پر محض دو میخوں کے ٹھوکنے سے غش آگیا۔ ہائے افسو س اگر مسلمان حضرت عیسیٰ کی نسبت قرآن شریف کے قول پر چلتے اور ان کو وفات یافتہ یقین رکھتے اور جیسا کہ قرآن کا منشا ہے ان کا دوبارہ آنا ممتنع سمجھتے تو اسلام میں یہ تباہی نہ آتی جوآگئی اور عیسائیت کا جلد تر خاتمہ ہو جاتا۔ شکر لِلّٰہ کہ اس وقت خدا نے آسمان سے اسلام کا ہاتھ پکڑ لیا۔

یہ وہ باتیں تھیں جو میں نے صاحبزادہ مولوی عبداللطیف صاحب سے کیں اور وہ امر جو آخر میں ان کو سمجھایا وہ یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں مذہبی پہلو کے رُو سے سولہ خصوصیتیں ہیں (۱)اوّل یہ کہ وہ بنی اسرائیل کیلئے ایک موعود نبی تھا جیسا کہ اس پر اسرائیلی نبیوں کے صحیفے گواہ ہیں۔ (۲)دوسری یہ کہ مسیح ایسے وقت میں آیا تھا جبکہ یہودی اپنی سلطنت کھو چکے تھے یعنی اس ملک میںیہودیوں کی کوئی سلطنت نہیں رہی تھی۔ گو ممکن تھا کہ کسی اور ملک میں جہاں بعض فرقے یہود کے چلے گئے تھے کوئی حکومت ان کی قائم ہوگئی ہو جیسا کہ سمجھا جاتا ہے۔ کہ افغان اور ایسا ہی کشمیری بھی یہودمیں سے ہیں جن کا اسلام قبول کرنے کے بعد سلاطین میں داخل ہونا ایک ایسا واقعہ ہے جس سے انکار نہیں ہو سکتا۔ بہرحال حضرت مسیح کے ظہور کے وقت اس حصہ ملک سے یہود کی سلطنت جاتی رہی تھی اور وہ رومی سلطنت کے ماتحت زندگی بسر کرتے تھے اور رومی سلطنت کو انگریزی سلطنت سے بہت مشابہت تھی۔

(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ25تا 26)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button