خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 29؍اکتوبر2021ء

ابوبکرؓ اور عمرؓ جنت کے اوّلین اور آخرین کے تمام بڑی عمر کے لوگوں کے سردار ہیں سوائے انبیاء اور مرسلین کے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمر بن خطابؓ اہلِ جنت کے چراغ ہیں

یقیناً پہلی امتوں میں محدثین ہوتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ہے تو وہ عمر بن خطاب ہیں

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا درجہ جانتے ہو کہ صحابہ میں کس قدر بڑا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات ان کی رائے کے موافق قرآن شریف نازل ہو جایا کرتا تھا اور ان کے حق میں یہ حدیث ہے کہ شیطان عمر کے سایہ سے بھاگتا ہے

آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میری اُمّت میں سے اللہ کے دین میں سب سے زیادہ مضبوط عمرؓ ہیں

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

فرشتہ صفت، سادہ طبیعت، کم گو، غریب پرور، عجز و انکسار کے پیکر اور نہایت مہمان نواز محترم ڈاکٹر تاثیر مجتبیٰ صاحب کی وفات پر ان کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 29؍اکتوبر2021ء بمطابق 29؍اخاء1400 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

جن لوگوں کو

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت

عطا فرمائی تھی ان میں حضرت عمرؓ بھی تھے۔ حضرت ابوموسیٰؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے باغوں میں سے ایک باغ میں تھااتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے لیے دروازہ کھولو اور اس کو جنت کی بشارت دو۔ مَیں نے اس کے لیے دروازہ کھولا تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت ابوبکرؓ ہیں۔ میں نے ان کو اس بات کی بشارت دی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔ انہوں نے اَلْحَمْدُلِلّٰہ کہا۔ پھر ایک اَور شخص آیا اور اس نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے لیے دروازہ کھولو اور اس کو جنت کی بشارت دو۔ میں نے دروازہ کھولا تو دیکھتا ہوں کہ حضرت عمرؓ ہیں۔ میں نے ان کو وہ بات بتائی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی انہوں نے اَلْحَمْدُلِلّٰہ کہا۔ پھر ایک اَور شخص آیا دروازہ اس نے کھولنے کے لیے کہا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے لیے دروازہ کھولو اور اس کو جنت کی بشارت دو باوجود ایک مصیبت کے جو اسے پہنچے گی۔ تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ حضرت عثمانؓ ہیں۔ میں نے ان کو وہ بات بتائی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔ انہوں نے بھی اَلْحَمْدُلِلّٰہ کہا۔ پھر کہا مصیبت سے محفوظ رہنے کے لیے اللہ ہی سے مدد طلب کی جا سکتی ہے۔

(صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب مناقب عمر بن الخطاب حدیث 3693)

حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوبکرؓ جنتی ہیں۔ عمر ؓجنتی ہیں۔ عثمانؓ جنتی ہیں۔ یہ دس آدمیوں کے متعلق آپؐ نے فرمایا تھا۔ علی ؓجنتی ہیں۔ طلحؓہ جنتی ہیں۔ زبیرؓ جنتی ہیں۔ عبدالرحمٰن بن عوفؓ جنتی ہیں۔ سعد بن ابی وقاصؓ جنتی ہیں۔ سعید بن زیؓد جنتی ہیں اور ابوعبیدہ بن جراحؓ جنتی ہیں۔

(سنن الترمذی کتاب المناقب باب مناقب عبد الرحمان بن عوف حدیث نمبر 3747)

حضرت ابوہریرہ ؓنے کہا: ایک بار ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا میں نے اپنے آپ کو جنت میں دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک عورت ایک محل کے پاس وضو کر رہی ہے۔ میں نے پوچھا یہ محل کس کا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ عمر بن خطابؓ کا۔ ان کی غیرت کا مجھے خیال آیا تو میں واپس چلا آیا۔ حضرت عمرؓ بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ سن کر آپؓ روئے اور کہا یا رسول اللہ ؐ!کیا مَیں آپؐ سے غیرت کروں گا۔ (صحیح البخاری کتاب بدء الخلق باب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ الجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَ حدیث 3242)کیوں واپس آ گئے، برکت بخشتے!

حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عِلّیِّیْن والوں میں سے کوئی شخص جنت والوں پر جھانکے گا تو اس کے چہرے کی وجہ سے جنت جگمگا اٹھے گی گویا ایک چمکتا ہوا ستارہ ہے۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی ان میں سے ہیں اور وہ دونوں کیا ہی خوب ہیں۔

(سنن ابو داؤد کتاب الحروف والقراءت حدیث3987)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس جنت والوں میں سے ایک شخص آ رہا ہے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے۔ پھر آپؐ نے فرمایا تمہارے پاس جنت والوں میں سے ایک شخص آ رہا ہے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے۔

(سنن الترمذی کتاب المناقب باب اخبارہ عن اطلاع رجل من اہل الجنۃ فاطلع عمر حدیث 3694)

اسی طرح ایک روایت میں ہے حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے بارے میں فرمایا کہ یہ ابوبکرؓ اور عمرؓ جنت کے اوّلین اور آخرین کے تمام بڑی عمر کے لوگوں کے سردار ہیں سوائے انبیاء اور مرسلین کے۔

(سنن الترمذی کتاب المناقب باب اقتدوا بالذین من بعدی حدیث 3664)

پھر حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمر بن خطابؓ اہلِ جنت کے چراغ ہیں۔

(حلیۃ الاولیاء از امام اصفہانی جلد 6 صفحہ 309 روایت 8950 مکتبہ الایمان المنصورہ 2007ء)

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقام کے بارے میں ایک اَور جو روایت ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یوں مروی ہے، حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو ضرور عمر بن خطاب ہوتے۔ (سنن الترمذی کتاب المناقب باب لو کان نبی بعدی لکان عمر۔۔۔ حدیث3686) یعنی یہ فوری بعد نبوت کی بات ہے ورنہ تو آنے والے مسیح اور مہدی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ’نبی اللہ‘ کہہ کر فرمایا ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال و صفتہ و ما معہ حدیث 7373 )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمرؓ کو محدث کہنا۔

اس بارے میں حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یقیناًً پہلی امتوں میں محدثین ہوتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ہے تو وہ عمر بن خطاب ہیں۔

(سنن الترمذی کتاب المناقب باب قد کان یکون فی الامم محدثون ۔۔۔حدیث: 3693)

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے جو امتیں تھیں ان میں ایسے لوگ تھے جو محدث ہوا کرتے تھے اور اگر میری امت میں سے کوئی ایسا ہے تو وہ عمرؓ ہیں۔ محدث وہ ہیں جن کو کثرت سے الہام اور کشوف ہوتے ہیں۔ پھر فرمایا: تم سے پہلے جو بنی اسرائیل سےہوئے ہیں ان میں ایسے آدمی آ چکے ہیں جن سے اللہ کلام کیا کرتا تھا بغیر اس کے کہ وہ نبی ہوتے تھے۔ اگر میری امت میں بھی ان میں سے کوئی ایسا ہے تو وہ عمرؓ ہیں۔

(صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب مناقب عمر بن الخطاب حدیث 3689)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں: ’’خدا تعالیٰ ہمیشہ استعاروں سے کام لیتا ہے اور طبع اور خاصیت اور استعداد کے لحاظ سے ایک کا نام دوسرے پر وارد کر دیتا ہے۔ جو ابراہیم کے دل کے موافق دل رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ابراہیم ہے اور جو عمر فاروقؓ کا دل رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک عمر فاروق ہے۔ کیا تم یہ حدیث پڑھتے نہیں کہ

اگر اس امت میں بھی محدث ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کلام کرتا ہے تو وہ عمرؓ ہے۔

اب کیا اس حدیث کے یہ معنی ہیں کہ محدثیت حضرت عمرؓ پر ختم ہو گئی؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کی روحانی حالت عمرؓ کی روحانی حالت کے موافق ہو گئی وہی ضرورت کے وقت پر محدث ہو گا۔‘‘ پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’چنانچہ اس عاجز کو بھی ایک مرتبہ اس بارے میں الہام ہوا تھا

فِیْکَ مَادَّۃٌ فَارُوْقِیَّۃٌ۔‘‘

(فتحِ اسلام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ11 حاشیہ)

مکمل الہام اس طرح ہے کہ

’’اَنْتَ مُحَدَّثُ اللّٰہِ۔ فِیْکَ مَادَّۃٌ فَارُوْقِیَّۃٌ۔‘‘

یعنی ’’تُو محدث اللہ ہے تجھ میں مادۂ فاروقی ہے۔‘‘

(تذکرہ صفحہ 82 ایڈیشن چہارم)

جیسا کہ پہلے بھی مَیں گذشتہ کئی خطبات میں سے ایک خطبہ میں بیان کر چکا ہوں کہ حضرت عمرؓ نے

حفاظت اور تدوین قرآن کی تجویز

دی تھی۔ اس بارے میں یہاں پہ بھی ذکر کرتا ہوں۔ حضرت ابوبکرؓ کے دور میں جنگ یمامہ میں جب ستّر حفاظِ قرآن شہید ہوئے تو اس بارے میں حضرت زید بن ثابتؓ انصاری روایت کرتے ہیں کہ جب یمامہ کے لوگ شہید کیے گئے تو حضرت ابوبکرؓ نے مجھے بلا بھیجا اور اس وقت ان کے پاس حضرت عمرؓ تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: عمرؓ میرے پاس آئے ہیں اور انہوں نے کہا یمامہ کی جنگ میں لوگ بہت شہید ہو گئے ہیں اور مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں اَور لڑائیوں میں بھی قاری نہ مارے جائیں اور اس طرح قرآن کا بہت سا حصہ ضائع ہو جائے گا سوائے اس کے کہ تم قرآن کو ایک جگہ جمع کر دو اور میری یہ رائے ہے کہ آپؓ قرآن کو ایک جگہ جمع کریں۔ یعنی حضرت عمرؓ نے کہا: میری یہ رائے ہے کہ یہ قرآن کو جمع کریں۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے عمرؓ کو فرمایا کہ میں ایسی بات کیسے کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کی۔ عمرؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! آپؓ کا یہ کام اچھا ہے۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ عمرؓ مجھے بار بار یہی کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے میرا سینہ کھول دیا اور اب مَیں بھی وہی مناسب سمجھتا ہوں جو عمرؓ نے مناسب سمجھا یعنی اس کی تدوین ہو جانی چاہیے اور پھر زید بن ثابتؓ نے اس کی تدوین کا کام شروع کیا۔

(ماخوذ از صحیح البخاری کتاب التفسیر باب قولہ لقد جاء کم رسول من انفسکم … حدیث 4679)

اس کی تفصیل جیسا کہ مَیں نے کہا پہلے مَیں بیان کر چکا ہوں۔

حضرت عمرؓ کے قرآن کریم حفظ کرنے کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’ابوعبیدہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہاجر صحابہؓ میں سے مندرجہ ذیل کا حفظ ثابت ہے۔ ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، طلحہؓ، سعدؓ، ابن مسعودؓ، حُذَیفہؓ، سالمؓ، ابوہریرہؓ، عبداللہ بن سائبؓ، عبداللہ بن عمرؓ ، عبداللہ بن عباسؓ۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن۔ انوار العلوم جلد20 صفحہ 429)

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بعض وحییں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوئیں ان کی وجہ حضرت عمرؓ کی موافقت ہے یا حضرت عمرؓ کی ان وحیوں سے موافقت ہے۔ صحاح ستہ کی روایت میں

حضرت عمرؓ کی موافقات کا ذکر

جن احادیث میں آیا ہے وہاں تین باتوں میں موافقت کا ذکر ملتا ہے تاہم اگر صرف صحاح ستہ کی ان روایات کو یکجائی صورت میں دیکھا جائے تو ان کی تعداد سات تک بنتی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عمرؓ سے ایک روایت مروی ہے کہ حضرت عمرؓ نے کہا تین باتوں میں میری رائے میرے رب کے منشا کے مطابق ہوئی۔ مَیں نے کہا یا رسول اللہؐ! اگر ہم مقام ابراہیم کو نماز گاہ بنا لیں۔ یہ میں نے کہا تو آیت

وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى

نازل ہوئی۔ اور پردے کا حکم۔ میں نے کہا تو پردے کا حکم نازل ہوا۔ مَیں نے کہا یا رسول اللہؐ! اگر آپؐ اپنی بیویوں کو پردہ کرنے کا حکم دیں کیونکہ ان سے بھلے بھی اور برے بھی باتیں کرتے ہیں تو پردے کی آیت نازل ہوئی۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے بوجہ غیرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایکا کیا تو حضرت عمرؓ کہتے ہیں مَیں نے انہیں کہا یعنی ان بیویوں کو جن میں ان کی بیٹی بھی تھیںکہ اگر تمہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم طلاق دے دیں تو مجھے امید ہے کہ ان کا رب تم سے بہتر بیویاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بدلہ میں دے گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی

عَسٰى رَبُّهٗۤ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ يُّبْدِلَهٗۤ اَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنْكُنَّ۔

یعنی قریب ہے کہ اگر وہ تمہیں طلاق دے دے تو اس کا رب تمہارے بدلے اس کے لیے تم سے بہتر ازواج لے آئے۔

(صحیح البخاری کتاب الصلوٰۃ باب ما جاء فی القبلۃ … حدیث نمبر:402)

صحیح مسلم میں ایک روایت ہے کہ حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ

حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تین مواقع پر مَیں نے اپنے رب سے موافقت کی۔

مقام ابراہیم کے بارے میں اور پردے کے بارے میں اور بدر کے قیدیوں کے بارے میں۔

(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابۃباب من فضائل عمر حدیث نمبر6206)

لیکن بدر کے قیدیوں کے بارے میں روایت درست نہیں ہے۔ اس پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی بڑی بحث کی ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی بعض ثبوتوں سے لکھا ہے۔ پرانے علماء اور مفسرین نے بھی لکھا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ بدر کے قیدیوں کو سزا دینے والی روایت صحیح نہیں ہے اور اس کی جو تفصیل ہے مَیں پیچھے ایک خطبہ میں بیان کر چکا ہوں۔

صحیح مسلم میں حضرت عمرؓ کا منافقین کا جنازہ نہ پڑھنے کے بارے میں وحی قرآنی سے موافقت کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابی بن سلول مرا تو اس کا بیٹا عبداللہ بن عبداللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضور سے درخواست کی کہ آپؐ اس کو اپنی قمیص عطا فرمائیں تا کہ وہ اس میں اپنے باپ کو کفنائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قمیص عطا فرمائی۔ پھر اس نے آپؐ سے درخواست کی کہ آپؐ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گئے تا کہ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں۔ اس پر حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے کو پکڑ لیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ؐ!کیا آپؐ اس کی نماز جنازہ پڑھنے لگے ہیں حالانکہ اللہ نے آپ کو اس پر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے اور فرمایا ہے:

اِسْتَغْفِرْ لَھُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَھُمْ

کہ تُو ان کے لیے استغفار کر یا نہ کر۔ اگر تُو ان کے لیے ستر مرتبہ بھی استغفار کرے گا تو فرمایا کہ مَیں ستر سے زیادہ دفعہ استغفار کر لوں گا۔ حضرت عمرؓ نے کہا وہ منافق ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی تب اللہ عزّوجلّ نے یہ آیت اتاری

وَلَا تُصَلِّ عَلٰی أَحَدٍ مِنْھُمْ مَاتَ اَبَدًا۔

اور تُو ان میں سے یعنی منافقین میں سے کسی مرنے والے کی کبھی جنازے کی نماز نہ پڑھ اور کبھی ان کی قبر پر دعا کے لیے کھڑا نہ ہو۔

(صحیح مسلم کتاب الفضائل الصحابۃباب من فضائل عمر حدیث نمبر:6207)

شراب کی حرمت کے بارے میں حضرت عمرؓ کی وحی قرآنی سے موافقت کا ذکر سنن ترمذی میں ملتا ہے۔ حضرت عمر بن خطابؓ نے دعا کی کہ اے اللہ! شراب کے بارے میں ہمارے لیے اطمینان بخش حکم بیان فرما تو سورہ بقرہ کی آیت يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَيْسِرِ نازل ہوئی۔ وہ تجھ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ تُو کہہ دے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ بھی ہے اور لوگوں کے لیے فوائد بھی اور دونوں کا گناہ کا پہلو اُن کے فائدے سے بڑھ کر ہے۔ جب یہ آیت نازل ہو چکی تو حضرت عمرؓ کو یہ آیت پڑھ کر سنائی گئی۔ یہ آیت سن کر عمرؓ نے پھر کہا اے اللہ! ہمارے لیے شراب کا واضح حکم بیان فرما تو سورۂ نساء کی آیت

لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى

نازل ہوئی کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو تم نماز کے قریب نہ جاؤ جب تم پر مدہوشی کی کیفیت ہو یہاں تک کہ اس قابل ہو جاؤ کہ تمہیں علم ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ عمرؓ پھر آئے اور انہیں یہ آیت پڑھ کر سنائی گئی۔ انہوں نے پھر کہا اے اللہ! ہمارے لیے شراب کا حکم صاف صاف بیان فرما دے تو سورۂ مائدہ کی آیت

اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِي الْخَمْرِ وَ الْمَيْسِرِ وَ يَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ الصَّلٰوةِ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ۔

شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ سے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض پیدا کر دے اور تمہیں ذکر الٰہی اور نماز سے باز رکھے تو کیا تم باز آجانے والے ہو۔ عمرؓ پھر آئے اور یہ آیت پڑھ کر ان کو سنائی گئی تو انہوں نے کہا ہم باز رہے۔ ہم باز رہے۔

(سنن الترمذی کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ المائدۃ،حدیث نمبر :3049)

صحاح ستہ میں مذکور ان موافقات کے علاوہ بھی سیرت نگاروں نے متعدد موافقات کا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ

علامہ سیوطی نے بیس کے قریب موافقات کا ذکر کیا ہے۔

(تاریخ الخلفاء صفحہ 98 دار الکتاب العربی بیروت 1999ء)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا درجہ جانتے ہو کہ صحابہ میں کس قدر بڑا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات ان کی رائے کے موافق قرآن شریف نازل ہو جایا کرتا تھا اور ان کے حق میں یہ حدیث ہے کہ شیطان عمر کے سایہ سے بھاگتا ہے۔ دوسری یہ حدیث ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔ تیسری یہ حدیث ہے کہ پہلی امتوں میں محدث ہوتے رہے ہیں اگر اس امت میں کوئی محدث ہے تو وہ عمر ہے۔‘‘

(ازالہ اوہام حصہ اول، روحانی خزائن جلد3 صفحہ219)

حضرت عمرؓ کا غزوات میں مشورہ دینا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے قبول فرمانا،

اس بارے میں روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ یا حضرت ابو سعیدؓ جو روایت کرنے والےہیں۔ اعمش کو شک ہے کہ ان میں سے کون تھا۔ بہرحال وہ کہتے ہیں ان سے روایت ہے کہ جب غزوۂ تبوک کے دن تھے تو لوگوں کو سخت بھوک لگی انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ! اگر آپؐ ہمیں اجازت دیں تو ہم اپنے پانی لانے والے اونٹ ذبح کر لیں اور ہم کھائیں ا ور چکنائی استعمال کریں۔ آپؐ نے فرمایا کر لو۔ کہتے ہیں اس پر حضرت عمرؓ آئے اور عرض کیا یا رسول اللہؐ! اگر آپؐ نے ایسا کیا تو سواریاں کم ہو جائیں گی۔ ہاں لوگوں کو اپنا باقی ماندہ زادِ راہ لانے کا ارشاد فرمائیں۔ جو کچھ بھی کسی کے پاس کھانے کی چیز ہے وہ لے آئے۔ پھر ان کے لیے اس پر برکت کی دعا کریں۔ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت رکھ دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں یہ ٹھیک ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چمڑے کا دستر خوان منگوایا اور اسے بچھا دیا اور پھر ان کے باقی ماندہ زادِ راہ زاد منگوائے۔ جو بھی کھانے کا سامان تھا وہ منگوایا۔ راوی کہتے ہیں کوئی مٹھی بھر مکئی لایا، کوئی مٹھی بھر کھجوریں، کوئی روٹی کا ٹکڑہ وغیرہ لے آیا یہاں تک کہ اس دستر خوان پر اس میں سے کچھ تھوڑا سا اکٹھا ہو گیا۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر برکت کی دعا کی۔ پھر فرمایا اپنے برتنوں میں لے لو۔ انہوں نے برتنوں میں اس کو لے لیا یہاں تک کہ لشکر میں کوئی برتن نہ چھوڑا مگر اس کو بھر لیا۔ پھر سب نے کھایا اور سیر ہو گئے اور کچھ بچ بھی گیا۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں اور جو شخص بغیر کسی شک کے ان دونوں شہادتوں کے ساتھ خدا سے ملے گا وہ جنت سے روکا نہیں جائے گا۔ یہ مسلم کی روایت ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الایمان باب الدلیل علی ان من مات علی التوحید … حدیث: 139)

بخاری میں یہ روایت اس طرح درج ہے۔ یزید بن ابوعُبَید نے حضرت سَلَمہبناَکْوَعرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے کہا کہ ایک سفر میں لوگوں کے زادِ راہ کم ہو گئے اور ان کے پاس کچھ نہ رہا اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے اونٹ ذبح کرنے کے لیے اجازت مانگنے آئے۔ آپؐ نے انہیں اجازت دے دی۔ پھر حضرت عمرؓ ان لوگوں سے ملے اور انہوں نے حضرت عمرؓ کو بتایا تو حضرت عمرؓ نے کہا اپنے اونٹوں کے بعد تم کیسے گزارہ کرو گے؟ یہ کہہ کر حضرت عمرؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور کہا یا رسول اللہؐ! وہ اپنے اونٹوں کے بعد کیسے گزارہ کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں میں منادی کرو کہ سب اپنا بچا ہوا زادِ راہ لے آئیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور اس زادِ راہ کو برکت دی۔ پھر ان کے برتن منگوائے اور لوگوں نے بھر بھر کر لینا شروع کیا یہاں تک کہ جب وہ فارغ ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔

(صحیح البخاری کتاب الجھادوالسیرباب حمل الزادفی الغزو حدیث 2982)

اذان کی جو ابتدا ہوئی ہے اس بارے میں بھی حضرت عمرؓ نے خواب دیکھی تھی۔

حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کی وحی صحابہؓ پر نازل ہوئی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عبداللہ بن زیدؓ ایک صحابی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو وحی کے ذریعہ سے اذان سکھائی تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی کی وحی پر انحصار کرتے ہوئے مسلمانوں میں اذان کا رواج ڈالا تھا۔ بعد میں قرآنی وحی نے بھی اس کی تصدیق کر دی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بھی خدا تعالیٰ نے یہی اذان سکھائی تھی مگر بیس دن تک مَیں خاموش رہا اس خیال سے کہ ایک اَور شخص رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات بیان کر چکا ہے۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک فرشتہ نے مجھے آکر اذان سکھائی اور مَیں اس وقت پوری طرح سویا ہوا نہیں تھا‘‘ یہ حضرت عمرؓ نے فرمایا۔ ’’کچھ کچھ جاگ رہا تھا۔‘‘

(مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ۔ انوار العلوم جلد 23 ۔ صفحہ 282 )

سنن ترمذی کی روایت ہے جو مَیں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں لیکن یہاں بھی بیان کر دیتا ہوں۔ اس کے آخر میں جو الفاظ ہیں وہ بتاتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک حضرت عمرؓ کے خواب کی کتنی اہمیت تھی۔ محمد بن عبداللہ بن زید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور مَیں نے آپ کو خواب سنائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً یہ رؤیا سچی ہے۔ تم بلال کے ساتھ جاؤ۔ یقیناً وہ تم میںسے اونچی اور لمبی آواز والے ہیں۔ ان کو بتاتے جاؤ جو تمہیں بتایا گیا ہے۔ پس وہ اس کی منادی کرے۔ آپؓ یعنی عبداللہ بن زیدؓ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن خطابؓ نے نماز کے لیے حضرت بلالؓ کی اذان سنی تو حضرت عمرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے آئے اور آپؓ یہ کہہ رہے تھے کہ اے رسول اللہؐ! اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے یقیناً مَیں نے بھی وہی دیکھا ہے جیسا اس نے اذان میں کہا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پس تمام حمد اللہ ہی کے لیے ہے۔ پس یہ بات زیادہ پختہ ہے۔ (سنن الترمذی کتاب الصلوٰۃ باب ما جاء فی بدء الاذان حدیث 189 )یعنی اب مزید تصدیق ہو گئی۔

حضرت عمرؓ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب اور احترام

کس طرح کیا کرتے تھے۔ کیا مقام تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا؟ اس بارے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ یعنی حضرت ابن عمرؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے اور حضرت عمرؓ کے ایک اونٹ پر سوار تھے جو منہ زور تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے، ان کی سواری سے آگے بڑھ جاتا تھا۔ اور ان کے والد حضرت عمرؓ انہیں کہتے تھے کہ عبداللہ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے کسی کو بھی نہیں بڑھنا چاہیے۔ یہ تمہاری سواری جو ہے یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری سے آگے نہیں بڑھنی چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ سے فرمایا۔ میرے پاس یہ فروخت کر دو۔ حضرت عمرؓ نے کہا یہ تو آپؐ ہی کا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خرید لیا اور اس کے بعد فرمایا: عبداللہ! یہ اب تمہارا ہی ہے اس سے تم جو چاہو کام لو۔(صحیح البخاری کتاب الھبۃ باب من اھدی لہ ھدیۃ حدیث 2610) لے کے پھر تحفہ دے دیا۔

حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج ڈھل گیا تو تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھی اور منبر پر کھڑے ہوئے اور موعود ہ گھڑی کا ذکر کیا اور فرمایا اس میں بڑے بڑے واقعات ہوں گے۔ پھر فرمایا: جو شخص کچھ پوچھنا چاہے تو پوچھ لے۔ تم جو کچھ بھی مجھ سے پوچھو گے مَیں تمہیں بتاؤں گا جب تک کہ مَیں اپنے اس مقام میں ہوں تو لوگ بہت روئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی دفعہ فرمایا کہ مجھ سے پوچھو۔ اس پر حضرت عبداللہ بن حُذَافہ سَہْمِی اٹھے اور کہا میرا باپ کون ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا حُذَافہ۔ پھر آپؐ نے بہت دفعہ فرمایا کہ مجھ سے پوچھو۔ اس پر حضرت عمرؓ اپنے گھٹنوں کے بل کھڑے ہو گئے اور کہا۔

رَضِيْنَا بِاللّٰهِ رَبًّا، وَبِالْاِسْلَامِ دِيْنًا، وَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا

کہ ہم راضی ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اسلام ہمارا دین اور محمدؐ ہمارے نبی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ پھر فرمایا جنت اور آگ ابھی اس دیوار کی چوڑائی میں میرے سامنے پیش کی گئی تھیں تو مَیں نے ایسا خیر و شر کبھی بھی نہیں دیکھا۔

(صحیح البخاری کتاب مواقیت الصلوٰۃ باب وقت الظہر عند الزوال۔ حدیث 540)

بخاری کی ہی ایک اَور روایت میں اس طرح بھی ذکر ملتا ہے۔ حضرت ابوموسیٰؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض ایسی باتوں کے متعلق پوچھا گیا جن کو آپؐ نے ناپسند کیا۔ جب آپ سے بہت سوال کیے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آیا اور آپؐ نے لوگوں سے کہا: پوچھو مجھ سے جس کے متعلق بھی چاہو۔ تب ایک شخص نے کہا میرا باپ کون ہے؟ فرمایا تمہارا باپ حذافہ ہے۔ اس کے بعد ایک اَور اٹھا اور اس نے کہا یا رسول اللہ ؐ!میرا باپ کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا تمہارا باپ شَیبہ کا آزاد کردہ غلام سالم ہے۔ جب حضرت عمرؓ نے اس تغیر کو دیکھا جو آپؐ کے چہرے پر تھا تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم اللہ عزوجل کے حضور اپنی غلطی سے رجوع کرتے ہیں۔

(صحیح البخاری کتاب العلم باب الغضب فی الموضعۃ … حدیث 92)

پھر بخاری کی ہی ایک دوسری روایت بھی ہے۔یہ زہری سے روایت ہے۔ اس میں آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت انس بن مالکؓ نے مجھے بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو حضرت عبداللہ بن حُذافہ ؓکھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرا باپ کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تمہارا باپ حذافہ ہے۔ پھر آپؐ نے بہت دفعہ فرمایا: پوچھو مجھ سے۔مگر حضرت عمرؓ نے دوزانو ہو کر عرض کیا اور انہوں نے کہا ہم راضی ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اسلام ہمارا دین ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے نبی ہیں۔ اس پر آپؐ خاموش ہو گئے۔

(صحیح البخاری کتاب العلم باب من برک علی رکبتیہ عند الامام او المحدث حدیث 93)

حضرت ابوقتادہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپؐ کے روزے کے بارے میں سوال کیا گیا۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے تو حضرت عمرؓ نے کہا ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر اور اپنی بیعت کے حقیقی بیعت ہونے پر راضی ہیں۔

(صحیح مسلم کتاب الصیام باب استحباب صیام ثلاثۃ ایام من کل شھر و صوم یوم عرفۃ …… حدیث 2747)

صحیح بخاری میں ایک اَور روایت ہے کہ حضرت عمرؓ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بالا خانے میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں مَیں آپؐ کے پاس گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ آپ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں۔ آپ کے اور چٹائی کے درمیان کوئی بچھونا نہیں۔ اس لیے چٹائی نے آپ کے پہلو پر نشان ڈالے ہوئے ہیں۔ ایک چمڑے کے تکیے پر ٹیک لگائے ہوئے ہیں جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی ہے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا تو اللہ کی قَسم! تین کچی کھالوں کے سوا وہاں کوئی چیز نہیں تھی جو مجھے نظر آئی ہو۔ مَیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا۔ اللہ سے دعا کریں کہ وہ آپؐ کی امت کو کشائش دے کیونکہ فارس اور روم کو بہت دولت دی گئی ہے اور انہیں دنیا ملی ہے حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے۔ آپؐ تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خطاب کے بیٹے! کیا ابھی تک تم شک میں ہو۔ وہ ایسے لوگ ہیں جن کو جلدی سے اس دنیا کی زندگی میں ہی ان کے مزے کی جو چیزیں تھیں دی گئی ہیں۔ مَیں نے کہا یا رسول اللہؐ! میرے لیے مغفرت کی دعا کریں۔

(صحیح البخاری کتاب المظالم باب الغرفۃ والعلیۃ المشرفۃ و غیر المشرفۃ…… حدیث 2468)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:’’ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپؐ کے گھر میں گئے اور دیکھا کہ گھر میں کچھ اسباب نہیں اور آپؐ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں اور چٹائی کے نشان پیٹھ پر لگے ہیں۔ تب عمر کو یہ حال دیکھ کر رونا آیا۔ آپؐ نے فرمایا: اے عمر! تُو کیوں روتاہے۔ حضرت عمرؓ نے عرض کی کہ آپ کی تکالیف کو دیکھ کر مجھے رونا آ گیا۔ قیصر اور کسریٰ جو کافر ہیں آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور آپ ان تکالیف میں بسر کرتے ہیں۔ تب آنجناب نے فرمایا کہ مجھے اس دنیا سے کیا کام! میری مثال اس سوار کی ہے کہ جو شدتِ گرمی کے وقت ایک اونٹنی پر جا رہا ہے اور جب دوپہر کی شدت نے اس کو سخت تکلیف دی تو وہ اسی سواری کی حالت میں دم لینے کے لئے ایک درخت کے سایہ کے نیچے ٹھہر گیا اور پھر چند منٹ کے بعد اسی گرمی میں اپنی راہ لی۔‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23صفحہ299-300)

ایک واقعہ ملتا ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کو دعا کے لیے کہا تھا۔ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ مَیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ ادا کرنے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دی اور فرمایا

لَا تَنْسَنَا يَا أُخَيَّ مِنْ دُعَائِكَ،

اے میرے بھائی! ہمیں اپنی دعا میں نہ بھولنا ۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ یہ ایسا کلمہ ہے کہ اگر مجھے اس کے بدلے میں ساری دنیا بھی مل جائے تو اتنی خوشی نہ ہو۔ ایک اَور روایت میں یہ الفاظ اس طرح آتے ہیں کہ

اَشْرِکْنَا يَا أُخَيَّ فِیْ دُعَائِكَ

کہ اے میرے بھائی! ہمیں اپنی دعا میں شامل رکھنا۔

(سنن ابوداؤد کتاب الوترباب الدعاء حدیث 1498)

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کس حد تک عاشقانہ تعلق تھا

اس کا پتہ اس واقعہ سے ملتا ہے۔ پہلے بھی ایک خطبہ میں بیان ہو چکا ہے۔ اس بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو یہ خبر سن کر حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے۔ حضرت عائشہؓ کہتی تھیں حضرت عمرؓ کہا کرتے تھے بخدا میرے دل میں یہی بات آئی تھی اور انہوں نے کہا اللہ آپؐ کو ضرور ضرور اٹھائے گا۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور اٹھائے گا تا بعض آدمیوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ دے ۔ بہرحال پھر جب حضرت ابوبکرؓ آئے تو انہوں نے سورۂ آل عمران کی آیت 145 پڑھی اور حضرت عمرؓ کو حقیقت کو سمجھنے کا کہا اور پھر معاملہ ختم ہوا۔

(صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب قول النبیﷺ لو کنت متخذا خلیلا حدیث 3667 3668-)

اس بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ’’آنحضرت کی وفات پر صحابہؓ کا اجماع بھی اسی مسئلہ پر ہوا ہے کہ کُل انبیاء وفات پا گئے ہیں اور اس کی یہ وجہ ہوئی کہ آپؐ کی وفات پر حضرت عمرؓ کو خیال پیدا ہو گیا تھا کہ آپؐ ابھی زندہ ہیں اور دوبارہ تشریف لائیں گے اور آپؓ کو اپنے اس اعتقاد پر اس قدر یقین تھا کہ آپؓ اس شخص کی گردن اڑانے کو تیار تھے جو اس کے خلاف کہے لیکن حضرت صدیقؓ جب تشریف لائے اور آپ نے کُل صحابہؓ کے سامنے یہ آیت پڑھی کہ

وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْل قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہ الرُّسُلُ

تو حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ میرے پاؤں کانپ گئے اور مَیں صدمہ کے مارے زمین پر گر گیا اور صحابہؓ فرماتے ہیں کہ ہمیں یوں معلوم ہوا کہ جیسے یہ آیت آج ہی اتری ہے اور ہم اس دن اس آیت کو بازاروں میں پڑھتے پھرتے تھے۔ پس اگر کوئی نبی زندہ موجود ہوتا تو یہ استدلال درست نہیں تھا کہ جب سب نبی فوت ہو گئے تو آپؐ کیوں فوت نہ ہوتے۔ حضرت عمرؓ کہہ سکتے تھے کہ آپؓ کیوں دھوکا دیتے ہیں۔ حضرت مسیحؑ ابھی زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں۔ وہ زندہ ہیں تو کیوں ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نہیں رہ سکتے ؟مگر سب صحابہؓ کا سکوت اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سب صحابہ کا یہی مذہب تھا کہ حضرت مسیحؑ فوت ہو گئے ہیں۔‘‘

(تحفة الملوک انوار العلوم جلد 2 صفحہ 128)

اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بیان فرمایا ہے وہ تفصیل مَیں پہلے ایک خطبہ میں بیان کر چکا ہوں۔

حضرت عمرؓ کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے تھے

اس بارے میں حضرت ابنِ عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرِ اسود کی طرف منہ کیا۔ پھر اپنے ہونٹ اس پر رکھ دیے اور دیر تک روتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مڑ کر دیکھا تو حضرت عمر بن خطابؓ کو بھی روتے پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمر! یہ وہ جگہ ہے جہاں آنسو بہائے جاتے ہیں۔

(سنن ابن ماجہ کتاب المناسک باب استلام الحجرحدیث 2945)

عابس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ وہ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اس کو چوما اور کہا مَیں خوب جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہی ہے نہ نقصان دے سکتا ہے نہ نفع۔ اگر مَیں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے ہرگز نہ چومتا۔

(صحیح البخاری کتاب الحج باب ما ذکر فی الحجر الاسود حدیث 1597)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک دفعہ طواف کر رہے تھے کہ آپؓ حجرِاسود کے پاس سے گزرے اور آپؓ نے اس سے اپنی سوٹی ٹھکرا کر کہا کہ مَیں جانتا ہوں تو ایک پتھر ہے اور تجھ میںکچھ بھی طاقت نہیں مگر میں خدا کے حکم کے ماتحت تجھے چومتا ہوں۔ یہی جذبۂ توحید تھا جس نے ان کو دنیا میں سربلند کیا۔ وہ خدائے واحد کی توحید کے کامل عاشق تھے۔ وہ یہ برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے کہ اس کی طاقتوں میں کسی اَور کو شریک کیاجائے۔‘‘ یعنی خدا تعالیٰ کی طاقتوں میں۔ ’’بےشک وہ حجرِ اسود کا ادب بھی کرتے تھے مگر اس لیے کہ خدا تعالیٰ نے کہا ہے اس کا ادب کرو، نہ اس لیے کہ حجرِ اسود کے اندر کوئی خاص بات ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر خدا تعالیٰ ہمیں کسی حقیر سے حقیر چیز کو چومنے کا حکم دے دے تو ہم اس کو چومنے کے لیے بھی تیار ہیں کیونکہ ہم خدا تعالیٰ کے بندے ہیں کسی پتھر یا مکان کے بندے نہیں۔ پس وہ ادب بھی کرتے تھے اور توحید کو بھی نظر انداز نہیں ہونے دیتے تھے اور یہی ایک سچے مومن کا مقام ہے۔ ایک سچا مومن بیت اللہ کو ویسا ہی پتھروں کا ایک مکان سمجھتا ہے جیسے دنیا میں اور ہزاروں مکان پتھروں کے بنے ہوئے ہیں۔ ایک سچا مومن حجرِ اسود کو ویسا ہی پتھر سمجھتا ہے جیسے دنیا میں اور کروڑوں پتھر موجود ہیں مگر وہ بیت اللہ کا ادب بھی کرتا ہے۔ وہ حجرِ اسود کو چومتا بھی ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میرے رب نے ان چیزوں کے ادب کرنے کا مجھے حکم دیا ہے مگر باوجود اس کے وہ اس مکان کا ادب کرتا ہے۔ باوجود اس کے کہ وہ حجرِ اسود کو چومتا ہے پھر بھی وہ اس یقین پر پوری مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتا ہے کہ میں خدائے واحد کا بندہ ہوں کسی پتھر کا بندہ نہیں۔ یہی حقیقت تھی جس کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اظہار فرمایا۔ آپؓ نے حجرِ اسود کو سوٹی ماری اور کہا میں تیری کوئی حیثیت نہیں سمجھتا۔ تُو ویسا ہی پتھر ہے جیسے اور کروڑوں پتھر دنیا میں نظر آتے ہیں مگر میرے رب نے کہا ہے کہ تیرا ادب کیا جائے اس لیے مَیں ادب کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھے اور اس پتھر کو بوسہ دیا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد10 صفحہ130)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا جبکہ آپؐ طائف سے واپس آنے کے بعد جِعْرَانَہمیں تھے اور عرض کیا یا رسول اللہؐ! مَیں نےجاہلیت میں مسجد حرام میں ایک روز اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی۔ آپؐ کا کیا ارشاد ہے؟ آپؐ نے فرمایا: جاؤ اور ایک دن کا اعتکاف کرو۔ بہر حال

جو جائز نذر ہے وہ کسی بھی زمانے میں ہو اسے پورا کرنا چاہیے

یہ سبق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا۔ پھر راوی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خُمس میں سے ایک لڑکی دی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے قیدی آزاد کیے اور حضرت عمرؓ نے ان کی آوازیں سنیں اور وہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کر دیا تو حضرت عمرؓ نے پوچھا کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے قیدی آزاد کر دیے ہیں تو حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے کو کہا کہ اے عبداللہ! تم اس لڑکی کے پاس جاؤ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی اور اسے آزاد کر دو۔

(صحیح مسلم کتاب الایمان باب نذر الکافر وما یفعل فیہ اذا اسلم۔ حدیث 4294)

حضرت حُذَیفہ ؓکو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رازدار کہا جاتا تھا۔ غزوۂ تبوک کے دوران کا ایک واقعہ ہے کہ حضرت حُذَیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری سے نیچے اترے تو اُس وقت آپؐ پر وحی نازل ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری بیٹھی ہوئی تھی تو وہ کھڑی ہو گئی اور اس نے اپنی مہار کو کھینچنا شروع کر دیا۔ مَیں نے اس کی مہار پکڑ لی اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لا کر بٹھا دیا۔ پھر مَیں اس اونٹنی کے پاس بیٹھا رہا یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور مَیں اس اونٹنی کو آپ کے پاس لے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کون ہے؟ تو مَیں نے جواب دیا کہ حُذَیفہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَیں تمہیں ایک راز سے آگاہ کرنے والا ہوں اور تم اس کا کسی سے ذکر نہ کرنا۔ مجھے فلاں فلاں شخص کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع کیا گیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کی ایک جماعت کا نام لیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں جب کوئی شخص فوت ہو جاتا جس شخص کے متعلق حضرت عمرؓ یہ سمجھتے تھے کہ وہ منافقین کی اس جماعت سے تعلق رکھتا ہے تو آپؓ حضرت حُذَیفہ ؓکا ہاتھ پکڑ کر انہیں نماز جنازہ پڑھنے کے لیے ساتھ لے جاتے۔ اگر تو حضرت حُذَیفہؓ آپؓ کے ساتھ چل پڑتے تو حضرت عمرؓ بھی اس شخص کا نماز جنازہ ادا کر لیتے اور اگر حضرت حُذَیفہؓ اپنا ہاتھ حضرت عمرؓ کے ہاتھ سے چھڑوا لیتے تو حضرت عمرؓ بھی اس کی نماز جنازہ ترک کر دیتے۔

(السیرۃ الحلبیہ (مترجم) جلد 3 نصف اوّل صفحہ 440-441 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 2009ء)

حضرت عمرؓ کا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو ظاہراً پورا کرنے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عمرؓ جو صدق اخلاص سے بھر گئے تھے انہوں نے یہ مزہ پایاکہ ان کے بعد خلیفہ ثانی ہوئے۔ غرض اس طرح پر ہر ایک صحابی نے پوری عزت پائی۔ قیصرو کسریٰ کے اموال اور شاہزادیاں ان کے ہاتھ آئیں۔ لکھا ہے ایک صحابی کسریٰ کے دربار میں گیا۔ ملازمان کسریٰ نے سونے چاندی کی کرسیاں بچھوا دیں اور اپنی شان وشوکت دکھائی۔ اس نے کہا کہ ہم اس مال کے ساتھ فریفتہ نہیں ہوئے۔ ہم کو تو وعدہ دیا گیا ہے کہ کسریٰ کے کڑے بھی ہمارے ہاتھ آجائیں گے۔ چنانچہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے وہ کڑے ایک صحابی کو پہنادیئے تاکہ وہ پیشگوئی پوری ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ46)

حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’سونا پہننا مردوں کے لئے جائز نہیں لیکن

حضرت عمرؓ نے کسریٰ کے کڑے ایک صحابی کو پہنائے

اور جب اس نے ان کے پہننے سے انکار کیا تو اس کو آپؓ نے ڈانٹا اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تیرے ہاتھوں میں مجھے کسریٰ کے کڑے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح ایک موقعہ پر کسریٰ کا تاج اور اس کا ریشمی لباس جب غنیمت کے اموال میں آیا تو حضرت عمرؓ نے ایک شخص کو اس لباس اور اس تاج کے پہننے کا حکم دیا اور جب اس نے پہن لیا تو آپ رو پڑے اور فرمایا: چند دن ہوئے کسریٰ اس لباس کو پہن کر اور اس تاج کو سر پر رکھ کر ملک ایران پر جابرانہ حکومت کرتا تھا اور آج وہ جنگلوں میں بھاگا پھر رہا ہے۔ دنیا کا یہ حال ہوتا ہے۔ اور یہ حضرت عمرؓ کا فعل ظاہر بین انسان کو شاید درست معلوم نہ ہو کیونکہ ریشم اور سونا پہننا مردوں کے لئے جائز نہیں لیکن ایک نیک بات سمجھانے اور نصیحت کرنے کے لئے حضرت عمرؓ نے ایک شخص کو چند منٹ کے لئے سونا اور ریشم پہنا دیا۔ غرض اصل شئے تقوی اللہ ہے احکام سب تقویٰ اللہ کے پیدا کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ اگر تقویٰ اللہ کے حصول کے لئے کوئی شئے جو بظاہر عبادت معلوم ہوتی ہے چھوڑنی پڑے تو وہی کار ثواب ہو گا۔‘‘

(ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب ۔ انوار العلوم جلد3 صفحہ 28)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خواب میں مجھے دکھایا گیا کہ میں ایک کنویں پر کھڑا ڈول سے جو چرخی پر رکھا ہوا تھا پانی کھینچ کر نکال رہا ہوں۔ اتنے میں ابوبکرؓ آئے اور انہوں نے ایک یا دو ڈول کھینچ کر اس طور سے نکالے کہ ان کو کھنچنے میں کمزوری تھی اور اللہ ان کی کمزوری پر پردہ پوشی کرے گا اور ان سے درگزر فرمائے گا۔ پھر عمر بن خطابؓ آئے اور وہ ڈول بڑے ڈول میں بدل گیا تو میں نے کوئی شہ زور نہیں دیکھا جو ایسا حیرت انگیز کام کرتا ہو جیسا عمرؓ نے کیا۔ اتنا پانی نکالا کہ لوگ سیر ہو گئے اور اپنے اپنے ٹھکانوں پر جا بیٹھے۔

(صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیؐ باب مناقب عمر بن الخطاب … حدیث 3682)

حضرت ابن عمرؓ نے کہا کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپؐ فرماتے تھے۔ ایک بار میں سویا ہوا تھا کہ اس اثنا میں میرے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا اور مَیں نے اتنا پیا کہ مَیں نے اس کی طراوت کو اپنے ناخنوں سے پھوٹتے ہوئے دیکھا۔

پھر مَیں نے اپنا بچا ہوا دودھ حضرت عمر بن خطابؓ کو دیا۔

صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ ؐ!آپؐ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علم۔

(صحیح البخاری کتاب العلم باب فضل العلم حدیث :82)

حضرت زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ ’’فضل العلم سے اس جگہ مراد علم کی فضیلت نہیں بلکہ علم کا بچا ہوا حصہ۔ فضیلت علم کے متعلق الگ باب باندھا گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیا اور اس کی تعبیر سے نیز ان واقعات سے جن سے کہ اس رؤیا کی تصدیق ہوئی یہ استدلال کرنا مقصود ہے کہ دنیاوی فتوحات اور عظمت جو مسلمانوں کو حضرت عمرؓ کے ذریعہ سے نصیب ہوئی وہ علم نبوی کا ایک بچا ہواحصہ تھا جو حضرت عمرؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا تھا۔ قرآن مجید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بوجہ آپ کی اس جامع حیثیت کے مجمع البحرین (دنیوی اور اخروی بہبودی کے علوم کا جامع) کہا گیا ہے …… امام بخاریؒ نے سیاست کو العلم میں شمار کر کے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامل راستی لائے جو انسان کے حسنات الدارین پر حاوی ہے جیسا کہ مسیحؑ نے آپؐ کے متعلق پیشگوئی کی تھی کہ ’جب وہ روح حق آئے گی تو کامل سچائی لائے گی‘۔ (یوحنا باب 16 آیت 12-13) حضرت عمرؓ کے واقعات کا مطالعہ کرنے سے اس بچے ہوئے دودھ کی حقیقت کا پتہ چل سکتا ہے جو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان سے پیا۔‘‘

(صحیح البخاری ترجمہ وتشریح از سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب جلد1صفحہ156-157)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے خواب کی حالت میں دودھ کا پیالہ ملنے کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا اس سے مراد علم ہے۔‘‘

(خطبات محمود جلد23 صفحہ467)

حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپؐ فرماتے تھے: مَیں سویا ہوا تھا مَیں نے لوگوں کو دیکھا کہ میرے سامنے پیش کیے گئے ہیں اور انہوں نے قمیصیں پہنی ہوئی ہیں تو ان میں سے بعض کی قمیصیں چھاتیوں تک پہنچتی ہیں اور ان میں سے بعض اس کے نیچے تک اور عمرؓ بھی میرے سامنے پیش کیے گئے انہوں نے قمیص پہنی ہوئی تھی جس کو وہ گھسیٹ رہے تھے۔ صحابہ نے کہا آپؐ نے اس سے کیا مراد لی تو آپؐ نے فرمایا: دین۔

(صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیؐ باب مناقب عمر بن خطاب… حدیث 3691)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر مختلف صحابہ کی خصوصیات بیان فرماتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں فرمایا کہ

میری امت میں سے اللہ کے دین میں سب سے زیادہ مضبوط عمرؓ ہیں۔

(سنن ابن ماجہ کتاب السنۃ باب خباب حدیث 154)

حضرت مالک بن مِغْوَل سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے کیونکہ یہ زیادہ آسان ہے۔ یا فرمایا تمہارے حساب کے لیے زیادہ آسان ہے اور اپنے نفس کو تولو قبل اس کے کہ تمہیں تولا جائے اور سب سے بڑھ کر بڑی پیشی کے لیے تیاری کرو۔

يَوْمَىِٕذٍ تُعْرَضُوْنَ لَا تَخْفٰى مِنْكُمْ خَافِيَةٌ

یعنی اس دن تم پیش کیے جاؤ گے کوئی مخفی رہنے والی تم سے مخفی نہیں رہے گی۔

(اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابہ جلد 4صفحہ 161مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)

حضرت حسنؓ کبھی حضرت عمرؓ کا ذکر کرتے تو فرماتے۔ اللہ کی قسم! اگرچہ وہ پہلے اسلام لانے والوں میں سے نہیں تھے اور نہ ہی اللہ کے راستے میں خرچ کرنے والوں میں سب سے زیادہ افضل تھے لیکن وہ دنیا سے بے رغبتی میں اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے معاملے میں سختی میں لوگوں پر غالب تھے اور اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے تھے۔

(مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الفضائل جلد 11 صفحہ 120 حدیث 32546 مکتبۃ الرشد ناشرون الریاض 2004ء)

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کی قسم !حضرت عمر بن خطابؓ اسلام لانے میں ہم سے مقدم نہ تھے لیکن مَیں نے جان لیا کہ آپ کس چیز میں ہم سے افضل تھے۔

آپؓ ہمارے مقابلے میں سب سے زیادہ زاہد اور دنیا سے بے رغبت تھے۔

(مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الفضائل جلد 11 صفحہ 121 حدیث 32548 مکتبۃ الرشد ناشرون الریاض 2004ء)

ہِشام بن عُروة اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ شام تشریف لائے تو آپؓ کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہوئی تھی۔ وہ ایک موٹی اور سُنْبُلَانِی قمیص تھی۔ سُنْبُلَانِی ایسی قمیص جو اتنی لمبی ہو کہ زمین کے ساتھ لگ رہی ہو اور اس طرح کی قمیص روم کی طرف بھی منسوب کی جاتی ہے۔ بہرحال آپؓ نے اس قمیص کو اَذرِعَاتیا اَیْلَہ والوں کی طرف بھیجا۔ اَیلہ شام کی طرف ایک شہر ہے اور شام کے ساتھ بحیرہ قلزم کے ساحل پر واقع ایک شہر ہے۔ بہرحال راوی کہتے ہیں کہ پس اس نے اس قمیص کو دھویا اور اس میں پیوند لگا دیا اور حضرت عمرؓکے لیے قُبْطُری قمیص بھی تیار کر دی۔ قُبْطُری کَتَّانْ سے بنا ہوا سفید باریک کپڑا ہوتا ہے۔ پھر ان دونوں قمیصوں کو لے کر حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور آپؓ کے سامنے قُبْطُری قمیص پیش کی۔ حضرت عمرؓ نے اس قمیص کو پکڑا اور اس کو چھوا اور فرمایا: یہ زیادہ نرم ہے اور اس کو اسی آدمی کی طرف پھینک دیا اور فرمایا: مجھے میری قمیص دے دو کیونکہ وہ قمیصوں میں سے پسینہ کو زیادہ چوسنے والی ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ کتاب البعوث والسرایا جلد 11 صفحہ 580-581 حدیث 34427 مکتبۃ الرشد ناشرون الریاض 2004ء)(تاج العروس زیر مادہ سنبل)پھٹی ہوئی جو تم نے مرمت کی ہے وہی بہتر ہے۔

حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے حضرت عمر بن خطابؓ کو اس وقت دیکھا جب آپؓ امیر المومنین تھے کہ آپؓ کے کندھوں کے درمیان قمیص میں تین چمڑے کے پیوند لگے ہوئے تھے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں۔ میں نے حضرت عمرؓ کے کندھوں کے درمیان قمیص میں چار چمڑے کے پیوند دیکھے۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 249 دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)

بہرحال حضرت عمرؓ کا یہ ذکر ابھی چل رہا ہے۔ ان شاء اللہ آئندہ بیان ہو گا۔

اس وقت میں ایک مرحوم کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں اور جنازہ بھی انشاءاللہ جمعہ کی نماز کے بعد پڑھاؤں گا۔ یہ ذکر ہے

ڈاکٹر تاثیر مجتبیٰ صاحب

کا جو فضل عمر ہسپتال میں ڈاکٹر تھے۔ گذشتہ دنوں ستّر سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کو مختلف عوارض تو تھیں لیکن بہرحال ایک دم ان کی طبیعت خراب ہوئی اور اس کے بعد پھر بگڑ گئی اور ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

ڈاکٹر صاحب کے خاندان میں احمدیت ان کے والد کے کزن سید فخر الاسلام صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے آئی تھی لیکن ڈاکٹر تاثیر مجتبیٰ صاحب کے والد غلام مجتبیٰ صاحب نے اپنی طالب علمی کے زمانے میں 1938ء میں بیعت کی اور احمدی ہوئے تھے۔ جب حضرت خلیفة المسیح الثالث ؒنے نصرت جہاں سکیم کے تحت وقف کی تحریک فرمائی تو ڈاکٹر تاثیر کے والد ڈاکٹر غلام مجتبیٰ صاحب کراچی میں سول سرجن کے طور پر کام کر رہے تھے تو اس تحریک پر انہوں نے وہاں سے پنشن لی اور وقف کر کے 1970ء میں افریقہ چلے گئے اور 1999ء تک وہاں گھانا میں، نائیجیریا میں، سیرالیون میں خدمات سرانجام دیں۔ ڈاکٹر تاثیر مجتبیٰ صاحب نے بھی اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد میڈیسن کی۔ کچھ دیر دو سال کے قریب فوج میں کام کیا۔ پھر سول ہسپتال کراچی میں کام کیا۔ پھر جناح ہسپتال کراچی میں کچھ عرصہ کام کیا اور 1982ء میں انہوں نے تین سال کے لیے وقف کیا تو ان کو گھانا بھجوا دیا گیا۔ وہاں ایک ٹیچی مان ہسپتال ہے یہ وہاں رہے۔ یہ پھراَوسے کورے (Asokore) ہسپتال میں ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ یہ ہسپتال ان کے والد نے ہی شروع کیا تھا ۔ انہوں نے اپنے والد کے ساتھ تین سال کام کیا اور ان سے ہی سرجری بھی سیکھی، وہ بڑے اچھے سرجن تھے۔ گھانا میں ڈاکٹر تاثیر صاحب کو تقریباً تئیس سال خدمت کی توفیق ملی۔ اس کے بعد سترہ سال فضل عمر ہسپتال ربوہ میں ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ اس طرح کل تقریباً چالیس سال کا عرصہ ان کو خدمت کی توفیق ملی۔

ان کی شادی سید داؤد مظفر شاہ صاحب اور صاحبزادی امة الحکیم صاحبہ کی بیٹی امةالرؤوف سے ہوئی۔ صاحبزادی امة الحکیم حضرت مصلح موعود ؓکی بیٹی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہیں۔ ان کی بیٹی میری بہو بھی ہے۔

ان کی اہلیہ امة الرؤوف کہتی ہیں کہ جب مَیں بیماری کے دنوں میں ان سے ملنے گئی ہوں تو انہوں نے کہا کہ حضور کو سلام کہنا۔ مجھے سلام بھجوایا اور کہتی ہیں اس دفعہ ایسا رنگ تھا کہ مجھے لگا جیسے کوئی الوداعی سلام کہہ رہے ہیں۔ پھر لکھتی ہیں کہ گھانا میں ایک دفعہ بہت سخت بیمار ہو گئے۔ بڑی تکلیف میں رات گزری اور بڑی خطرناک حالت تھی۔ فجرکے وقت کہنے لگے کسی نے سلام کیا ہے دیکھو کون ہے؟ میں نے کہا دروازہ بند ہے کوئی اندر نہیں آ سکتا۔ ایک گھنٹے کے بعد پھر مجھے انہوں نے کہا کہ مجھے سلام کی آواز آئی ہے۔ کسی نے سلام کیا ہے۔ اور اس کے بعد پھر اللہ کے فضل سے ان کی طبیعت بہتر ہونا شروع ہوئی اور ٹھیک ہو گئے۔ اس کے بعد کہتی ہیں میں نے ان کے لیے دعا بھی کی تو اس طرح گھانا میں مجھے یہی بتایا گیا کہ ان کی عمر لمبی ہو گی۔ کہتی ہیں کہ بہت عاجز، بے نفس اور بے ضرر انسان تھے۔ کبھی کسی کی برائی اور غیبت یا شکایت نہیں کی۔ اگر کوئی کر بھی رہا ہوتا تو بالکل خاموش رہتے۔

ڈاکٹر صاحب کے بھائی لکھتے ہیں کہ ہم نے دیکھا کہ مریضوں کو چھٹی کے بعد بھی چیک کر رہے ہوتے تھے اور کہتے یہ تھے کہ باقی ڈاکٹر کیونکہ کم دیکھتے ہیں اور مریض ہسپتال میں آتے ہیں تو بجائے اس کے کہ یہ مریض اسی طرح بغیر علاج کے واپس چلے جائیں تو اس لیے مَیں دیکھ لیتا ہوں اور باقی ڈاکٹروں کا بوجھ بھی اپنے اوپر لے لیتا ہوں۔ بہت شریف النفس اور کم گو شخصیت کے مالک تھے۔ سیکیورٹی کا عملہ اور ہسپتال کے کارکنان نے بتایا کہ ہمیشہ مسکرا کر حال پوچھا کرتے اور گزرتے۔ عموماً مریضوں سے خاص طور پر احمدیوں سے ان کا بہت زیادہ حسن سلوک ہوتا تھا اور اگر کوئی ہسپتال کے وقت کے علاوہ پاس آ جاتا تو عموماً فیس لیے بغیر ہی معائنہ کیا کرتے تھے۔ جامعہ احمدیہ ربوہ کے پرنسپل مبشر صاحب لکھتے ہیں کہ بعض موقعوں پر ان کے ساتھ بیٹھنے کی توفیق ملی اور بہت کم گو انسان تھے۔ بڑی نرمی سے اور شگفتگی سے اور محبت سے اور عجز و انکسار سے بات کرتے تھے اور کہتے ہیں ایسی عاجزی اور انکساری اور سادگی مَیں نے کسی میں نہیں دیکھی۔ کہتے ہیں ہسپتال میں بھی لوگوں سے، غریب لوگوں سے بھی مَیں نے سنا ہے اور ایسے ایسے واقعات سنے ہیں کہ رشک آتا تھا اور خوشی بھی ہوتی تھی کہ ہسپتال میں ایسے ڈاکٹر موجود ہیں۔ اور پھر کہتے ہیں جیسا کہ پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب مریضوں کو دیکھ لیتے تھے بلکہ بعض دفعہ ہسپتال کا وقت ختم ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب اٹھ کرباہر چلے گئے۔ اپنے کمرے سے باہر نکل رہے تھے تو پھر کوئی مریض آ گیا تو کہتے ہیں اس کو واپس اپنے کمرے میں اس طرح لے کے آتے تھے جیسے اسی کا انتظار کر رہے ہوں۔ غریب پروری بہت زیادہ تھی۔

جب میں 2004ء میں افریقہ کے دورے پہ گیا ہوں تو اطہر زبیر صاحب یہاں جرمنی کے چیئرمین ہیومینٹی فرسٹ ہیں وہ کہتے ہیںکہ گھانا میں بھی اور باقی جگہوں پر بھی ڈاکٹر صاحب میرے ساتھ دورے پہ رہے ہیں۔ بینن بھی گئے تھے۔ اطہر زبیر صاحب کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی ایک عورت پہ نظر پڑی جو کچھ بے چین سی نظر آئی۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے کہا کہ اس سے پوچھو کیا وجہ ہے؟ تو اس نے کہا کہ میں تو خلیفة المسیح کو ملنے آئی ہوں۔ جو کچھ میرے پاس تھا وہ میں نے خرچ کر دیا ہے۔ واپسی کے پیسے میرے پاس نہیں تو ڈاکٹر صاحب نے کہا اچھا! اس کو تیس ہزار فرانک سیفا دے دو۔ کہتے ہیں اس وقت اس زمانے میں یہ تقریباً ایک مہینے کی ایک عام آدمی کی تنخواہ کے برابر رقم تھی جو ڈاکٹر صاحب نے فوراً ادا کر دی۔

حنیف محمود صاحب بھی لکھتے ہیں کہ انتہائی میانہ روی اور انکساری نظر آتی تھی۔ واقفین کے ساتھ بہت پیار اور محبت کا سلوک کرتے تھے۔ ایک دفعہ ان کی اہلیہ بیمار ہوئیں تو ان کا علاج کیا بلکہ کہتے ہیں کہ ہم ویسے مشورے کے لیے گئے تھے دکھانے تو گئے نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ پرچی؟ ہم نے کہا پرچی نہیں بنی تو فوری طور پہ اپنے مددگار کو بلایا اور اپنی جیب سے سو روپیہ نکال کے اس کو دیا کہ جا کے ان کی پرچی بنوا کے لے آؤ اور ہمارے کہنے کے باوجود بھی پیسے نہیں لیے۔ لکھتے ہیں کہ معصوم چہرے کے ساتھ انسان کے روپ میں ایک چلتا پھرتا فرشتہ تھے۔ خاموش طبع وجود تھے اور مسجد مبارک میں بھی نماز پڑھنے آتے تو بڑی خاموشی کے ساتھ آتے اور لمبی نمازیں ادا کرتے۔

ڈاکٹر مظفر چودھری صاحب جو یورالوجسٹ ہیں یہاں یوکے میں رہتے ہیں۔ یہ بھی وہاں وقف عارضی پہ جاتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں خاموش طبع، نہایت شفیق، ہمدرد انسان تھے۔ نئی چیزیں سیکھنے کا بہت شوق تھا تا کہ لوگوں کی مدد کر سکیں اور کہتے ہیں جب بھی میں وقف عارضی پہ گیا تو آپ کے دفتر میں بیٹھتا تھا اور آپ اپنی کرسی پہ مجھے بٹھاتے تھے اور باوجود میرے زور دینے پر کہ آپ اپنی جگہ بیٹھیں آپ دوسری جگہ جا کے بیٹھ جاتے تھے۔

وکیل المال اول تحریک جدید ربوہ لقمان صاحب کہتے ہیں کہ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ مالی قربانی کا خاص شغف رکھتے تھے ۔ کہتے ہیں جب سے پاکستان میں آئے ہیں تحریک جدید کا چندہ ہر سال اول وقت میں اعلان ہونے کے فوراً بعد خود آ کر دفتر مال اول میں جمع کروا دیتے تھے۔ پھر لکھتے ہیں کہ ڈاکٹری ان کا پیشہ تھا لیکن ہمیشہ انسانیت کی خدمت ان کا مطمح نظر معلوم ہوتا تھا۔ اگر ضرورت پڑے تو یہ نہیں ہے کہ ایلوپیتھک کے علاوہ کوئی دوسرا علاج قابل قبول نہیں ہے ہومیوپیتھک علاج بھی کر دیا کرتے تھے۔

ڈاکٹر نعیم صاحب جو آج کل اوسو کورے (Asokore) ہسپتال کے انچارج ہیں، وہ کہتے ہیں کہ بطور انچارج مشنری ڈاکٹر اوسو کورے (Asokore) میں اکیس سال خدمات بجا لاتے رہے اور کہتے ہیں آج ان کی وفات کی خبر سن کے بہت سارے لوگ اس قصبے کے بھی اور اس علاقے کے بھی آئے اور ان کا تعلق ڈاکٹر صاحب کے ساتھ تھا۔ سارے بہت رنجیدہ تھے اور خاص طور پر تعزیت کر رہے تھے اور کہتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب بہت سادہ طبیعت، کم گو اور اپنے کام میں مگن رہنے والے غریب پرور اور نہایت مہمان نواز شخصیت کے حامل تھے۔ اسی طرح ان کو دنیاوی علم کے ساتھ جماعتی کتب اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے کا بھی گہرا لگاؤ تھا۔ پھر ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے احمدیہ ہسپتال اوسو کورے (Asokore) میں بلا شبہ سرجری کے میدان میں بہت بہترین خدمات انجام دیں جس کا پھل آج بھی ہم ان مریضوں کی صورت میں دیکھتے ہیں جو مغربی افریقہ کے مختلف ممالک سے اس ہسپتال میں علاج اور شفا کی غرض سے آتے ہیں اور اپنی سادہ افریقن زبان میں مجتبیٰ کا ذکر کرتے ہیں ۔ تاثیر مجتبیٰ ان کا نام تھا تو ڈاکٹر مجتبیٰ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ان کے والد بھی یہاں کچھ سال رہے ہیں۔ اسی نام سے پھر یہ نام آگے بھی چلتا رہا۔ انہوں نے ہسپتال کے کمپاؤنڈ میں ایک خوبصورت مسجد بھی بنوائی۔

بہرحال ڈاکٹر صاحب ایک بے نفس اور خدمتِ خلق کرنے والے انسان تھے اور اپنے پیشے کو انہوں نے اسی کام کے لیے استعمال کیا۔ ان کے والد صاحب میں اور ان میں مَیں نے یہ خصوصیت خود بھی دیکھی ہے کہ غریب مریضوں کو علاج کے علاوہ مفت دوائی کے ساتھ خوراک کے لیے بھی رقم دے دیتے تھے بلکہ انڈے اور دودھ منگوا کے رکھتے تھے جو مریضوں کو دیتے تھے کہ تمہاری کمزوری دور کرنے کے لیے ضروری ہے۔ دوائیاں بھی مفت دیتے تھے۔ ساتھ خوراک بھی مفت دیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ استعمال کرو تا کہ تمہاری صحت ٹھیک ہو۔

ڈاکٹر غلام مجتبیٰ صاحب نے بھی گھانا میں بڑی خدمت کی ہے لیکن ڈاکٹر تاثیر مجتبیٰ نے اس کام کو اَور بھی آگے بڑھایا اور میں خود بھی کئی گھانینوں سے، ان لوگوں سے واقف ہوں جو ان کی بڑی تعریف کرتے تھے۔ بہرحال انہوں نے حقیقی وقف کی رو سے خدمات سرانجام دیں اور واقفین زندگی کے لیے جب بھی وہ جاتے تو خاص طور پر ان کو دیکھتے، ان کا علاج کرتے اور اپنے گھر مہمان بھی ٹھہراتے۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ جب دورے پر گئے ہیں تو انہوں نے بھی ان کے ہاں قیام فرمایا تھا اور مہمان نوازی ان کی ایک خاص خصوصیت تھی۔

حنیف صاحب نے لکھا ہے کہ ایک فرشتہ تھے۔ یقیناً ایک چلتا پھرتا فرشتہ تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت کرے۔ درجات بلند کرے۔ مہمان نوازی کے ضمن میں مَیں یہ بھی کہہ دوں کہ مہمان نوازی بھی مرد اسی وقت کر سکتا ہے جب گھر کی عورت بھی کر رہی ہو تو ان کی بیوی بھی، اہلیہ بھی بہت مہمان نواز ہیں، خدمت کرنے والی تھیں۔ ان کی عمر اور صحت کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمر اور صحت میں برکت ڈالے اور ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے اور وہ بھی اپنی ماں کی خدمت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔

(الفضل انٹرنیشنل 19؍نومبر2021ءصفحہ 5-11)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button