تعارف کتاب

ہمارا شفیع کون ہے؟ بجواب ’’ہمارا شفیع کون ہے؟‘‘(قسط نہم)

(شیخ مجاہد احمد شاستری۔ ایڈیٹر البدر (ہندی) قادیان)

(مصنفہ حضرت عبد السلام صاحب کاٹھ گڑھی رضی اللہ عنہ)

یہ کتاب عیسائی مذہب کے غلط عقائد خصوصاً عقیدہ کفارے کے ردّ میں لکھی گئی ہے

تعارف مصنف

پنجاب ، ہندوستان کے شہر روپڑ سے تقریباً 10کلو میٹر پہلے ایک گاؤں کاٹھ گڑھ ہے۔ مکرم عبد السلام صاحب کاٹھ گڑھیؓ اس بستی کے ایک فرد تھے۔ آپ کے والد مکرم چودھری محمد حسین خاں صاحب پشاور میں تحصیلدار کے عہدے پر فائز تھے۔ مکرم عبد السلام صاحب ؓ1883ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کا بچپن وہاں گزرا۔چونکہ آپ حضرت مسیح موعود ؑکی کتب کا مطالعہ کر رہے تھے اور اپنے دوست سے بھی جماعت کے متعلق معلومات حاصل کرتے رہتے تھے۔1903ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کرم دین ساکن بھیں کے مقدمے کے سلسلے میں جہلم کا سفر فرمایا اور راستے میں لاہور میں ٹھہرے تو اس دوران حضرت چودھری عبد السلام خاں کاٹھگڑھی صاحبؓ ایک دوست کے ہمراہ حضور علیہ السلام سے ملاقات کے لیے گئے اور حضور ؑکی دستی بیعت سے مشرف ہو کر امام الزمان علیہ السلام کی غلامی کا اعزاز پایا۔علاوہ ازیں آپؓ کو خاندان میں سب سے پہلے احمدیت قبول کرنے کی بھی توفیق ملی۔

البدر اخبار میں زیر عنوان ’’فہرست نو مبائعین کی جنہوں نے حضرت احمد مرسل یزدانی مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دست مبارک پر آ پ کی سفر جہلم میں مقام لاہور اور جہلم اور راستہ میں شرف بیعت حاصل کیا‘‘ میں آپؓ کا نام 73نمبر پر عبد السلام ولد محمد حسین خان کاٹھگڑھی ضلع ہوشیار پور مقام لاہوردرج ہے۔

(بحوالہ البدر23تا30؍جنوری1903ء صفحہ13)

بیعت کے بعد مخالفت ہوئی اس لیےآپ قادیان میں تعلیم کے حصول کے لیے آگئے۔آپ کو حضرت مصلح موعودؓ کے ہم جماعت ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت مصلح موعودؓ ایک موقع پر فرماتےہیں:’’مجھے یاد ہے کہ میں ابھی بچہ ہی تھا کہ کاٹھگڑھ ضلع ہوشیار پور کے ایک دوست عبد السلام صاحب میرے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ وہ کاٹھگڑھ واپس گئے تو انہوں نے ایک پرائمری سکول بنایا۔‘‘

(خطبات محمود جلد 38صفحہ 239)

آپؓ علم دوست شخصیت کے مالک تھے۔ اپنے سارے علاقے میں احمدیت کے پُر جوش مبلغ کے طور پر کام کرتے رہے۔ کاٹھ گڑھ اور ارد گرد کے کئی دیہات میں کئی لوگوں کو تبلیغ کے نتیجے میں جماعت میں شامل کرایا۔ آپؓ کے تفصیلی حالات آپ کے بیٹے مکرم عبد الرحیم صاحب نے الحکم قادیان 21؍جون 1934ءمیں درج کیے ہیں۔پاؤں میں کانٹا لگنے کی وجہ سے آپؓ کچھ عرصہ بیمارر ہے اور 19؍اکتوبر 1931ء کو کاٹھگڑھ میں وفات پائی۔ تاریخ احمدیت میں آپ کا نام ’’جلیل القدر صحابہ کا انتقال ‘‘ کے عنوان کے ذیل میں کچھ یوں لکھا ہے چودھری عبدا لسلام کاٹھگڑھی

( تاریخ وفات 19؍اکتوبر 1931ء)۔(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد5صفحہ309)

ہمارا شفیع کون؟ کتاب لکھنے کی وجہ

حضرت عبد السلام صاحب کاٹھ گڑھی ؓ اس کتاب کو لکھنے کی غرض تحریر کرتےہوئے بیان کرتےہیں کہ’’مجھے ایک پادری صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ان سے کچھ مذہبی با ت چیت ہوئی آخر جب میری بات کاجواب نہ دے سکے تو مجھے دو چار چھوٹے چھوٹے رسالے دئے اور کہا ان کو پڑھو اور غور کرو۔ ان میں ایک رسالہ ہمار شفیع کون ہے۔؟ مصنفہ پادری جی۔ ایچ راؤس صاحب ڈی ڈی تھا۔ اس رسالہ کو میں نے بغور کئی دفعہ پڑھا۔ اس میں کوئی معقول بات نظر نہ آئی۔بہت سی باتیں بلادلیل تھیں اور بہت سے بودے اعتراض اسلام پر کئے ہوئے تھے۔

اس خیال سے کہ عام لوگوں کو دھوکہ نہ لگے مَیں نے اس کا جواب لکھا ہے۔اگر چہ رسالہ جس کا جواب لکھا گیا ہے چھوٹا سا ہے۔اور اس کا جواب بڑاہے۔ میںبہت چاہا کہ رسالہ کاحجم چھوٹا ہو مگر چونکہ سوال ہمیشہ چھوٹا سا ہوتا ہے اور اس کا جواب بڑا ہوتا ہے۔ اسلئے اس رسالہ کا حجم کچھ بڑھ گیاہے۔‘‘

یہ کتاب پہلی بار انوار احمدیہ مشین پریس قادیان سے 700 کی تعداد میں شائع ہوئی۔ اس کا سن اشاعت درج نہیں ہے۔ لیکن کتاب کےمضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کےزمانہ مبارک میں یہ کتاب شائع ہوئی۔درمیانہ سائز میں یہ کتاب50 صفحات پر مشتمل ہے۔

کتاب کے مضامین کا مختصر تعارف

یہ کتاب عیسائی مذہب کے غلط عقائد خصوصاً عقیدہ کفارے کے ردّ میں لکھی گئی ہے۔اس عقیدے کے مطابق عیسائی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے گناہ کرنے کے نتیجے میں تمام آدم زاد گناہ گار ہو گئےہیں لہٰذا ان کے گناہوں کو دور کرنے اور شفاعت کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بیٹے حضرت عیسیٰ کو ابن اللہ بنا کر بھیجا۔ آپ نے صلیب پر اپنی جان دے کر لوگوںکے گناہوں کا کفارہ ادا کیا۔

حضرت عبد السلام صاحبؓ کاٹھ گڑھی نےبہت آسان اور سہل پیرایہ میں اناجیل کے دلائل کے ساتھ مدلل ہو کر عیسائیت کے اعتراضوں کو جواب دیا ہے۔ کتاب کی کچھ بغلی سرخیاںدرج ہیں۔ جس سے مضمون کےبارے میں اندازہ ہو تا ہے۔

کیا واقعی یسوع مسیح صلیب پر مر گیا۔مسیح کا کفارہ محدود ہے۔ کفارہ نیچر کے خلاف ہے۔ کیا مسیح نے خوشی سے صلیب قبول کی؟ وغیرہ وغیرہ

شفاعت کیا ہے ؟

اس سوال کے جواب میں آپ تحریر کرتےہیں کہ’’شفاعت کا لفظ شفع سے نکلا ہے۔ جس کے معنی ہیں جفت۔ پس اس میں کیا شک ہوسکتا ہے کہ تمام برکات شفع سے ہی پیدا ہوئے ہیں ۔اور ہو رہے ہیں۔ ایک انسان کے اخلاق اور قوت اور صورت دوسرے انسان میں اسی ذریعہ سے آجاتے ہیں۔ یعنی وہ ایک جوڑ کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔ایسا ہی ایک حیوان جو دوسرے سے پیدا ہوتاہے مثلاًبکری،بیل ،گدھا وغیرہ اور تمام قوائے جو ایک حیوان سے دوسرے میں منتقل ہوتے ہیں ۔وہ بھی درحقیقت ایک جوڑ کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔ پس یہی جوڑ جب ان معنوں سے لیا جاتا ہے کہ ایک ناقص ایک کامل سے روحانی تعلق پیدا کر کے۔ اس کی روح سے اپنی کمزوری کا علاج پاتا ہے اور نفسانی جذبات سے محفوظ رہتا ہے تب اس جوڑ کا نام شفاعت ہے جیسا کہ چاند سورج کے مقابل ہو کر ایک قسم کا اتحاد اور جوڑاس سے حاصل کرتا ہے۔ تو معاً اس نورکو حاصل کر لیتا ہے۔ جو آفتاب میں ہے اور چونکہ اس روحانی جوڑ کو جو پرمحبت دلوں کو انبیاء کے ساتھ حاصل ہوتا ہے اس جسمانی جوڑ سے ایک مناسبت ہے۔ جو زید کو مثلاً اپنے باپ سے ہے۔ اس لئے روحانی فیضان بھی خدا کے نزدیک اولاد کہلاتے ہیں اور اس تو لد کو کامل طور پر حاصل کرنے والے ہی نقوش اور اخلاق اور برکات حاصل کرلیتے ہیں جو نبیوں میں موجود ہوتے ہیں۔ دراصل یہی حقیقت شفا عت ہے۔‘‘

عیسائیوںکی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بطور شافع پیش کرنے کے جواب میں حضرت عبد السلام صاحبؓ تحریر کرتےہیں کہ

رسول اللہ ﷺ حقیقی شافع ہیں

’’اب میں دیکھتا ہوں کہ جس مسئلہ عصمت اور شفاعت کو عیسائیوں کی طرف سےباربار پیش کیا جاتا ہے۔ وہ ایک سراسر دھوکا ہے۔ جو عیسائیوں کو لگا ہوا ہے۔ اگر معصوم کے یہ معنی ہوں کہ کوئی دشمن کسی کی عملی زندگی کی نسبت کوئی نکتہ چینی نہ کرے۔ تو آؤ ہم یہود کی کتابیں دکھلاتے ہیں۔ جنہوںنے حضرت مسیح اور ان کی ماں کے چال چلن پر بہت نکتہ چینی کی ہے اور اگر معصوم ہونے کے یہ معنی ہیں کہ کوئی شخص اپنے منہ سے یہ کہے کہ میںنیک ہوں۔پس جب کہ خود مسیح ابن مریم کی عصمت کسی طور سے ثابت نہیں ہو سکی۔بلکہ انجیلوں سے بعض حرکات اس کی عصمت کے برخلاف ثابت ہوتی ہیں۔جیسا کہ شراب پینا انجیل کے ابدی احکام حرمت خنزیر و ختنہ وغیرہ کا توڑنا ناحق دوسروں کے مالوں کا نقصان پہنچانا فقہیوں فریسوں کا گالیاں دینا بدکردار عورتوں کو جسم چھونے کا موقع دینا حرام کا تیل سر پر ملوانا۔ شاگردوں کو غیر لوگوں کے کھیتوں سے خوشے توڑنے سے منع نہ کرنا۔اب بتلاؤ کہ تمام امور گناہ ہیں یا نہیں۔ اگر شراب پینا اچھا کام تھا تو یوحنا نے شراب پینے سے کیوں نفرت کی۔ دانیال نے کہا شراب پینے والوں پر آسمان کے دروازے بند رہتے ہیں۔ ختنہ جو ابدی حکم تھا۔ اس سے کیوں روک دیا۔ حالانکہ آج کل کی تحقیقات کی رو سے بھی وہ بہت سے امراض کو مفید ہے۔ ایسا ہی سؤر ہمیشہ کے لئے حرام تھا۔ اس کو کھانے کا کیوںفتویٰ دیا۔ اور خود کہا کہ توریت منسوخ نہیںہوئی۔ اور پھر آپ ہی اسے منسوخ کیا۔ اور یاد رکھنا چاہیے کہ مسیح ابن مریم کی عصمت انجیل کی رو سے ثابت کرنا ایسا ہی مشکل ہے جیسا کہ اس مسلول کی صحت ثابت کرنا جس کا مرض ذبول اور دستوں کی حالت تک پہنچ چکا ہے۔ کیا ضروری نہ تھا کہ پہلے حضرت مسیح کی عصمت ثابت کرلیتے پھر دوسروں پر نکتہ چینی کرتے۔ قرآن شریف میں استغفار کا لفظ دیکھ کر فی الفور یہ دعویٰ کر دینا کہ اس سے گناہ گار ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اور انجیل کے اس لفظ کو ہضم کر جاناکہ میں نیک نہیں ۔ کیا یہ ایمانداری ہے۔

پھر ان سب باتوںکے بعد ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ آخرت کا شفیع وہ ثابت ہو سکتا ہےجس نے دنیا میںکوئی شفاعت کانمونہ دکھایاہو۔ سو اس معیار کو آگے رکھ کر جب ہم…حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر نظر ڈالتے ہیں تو آپ کا شفیع ہونا اجلیٰ بدیہات معلوم ہوتا ہے کیونکہ آپ کی شفاعت کا ہی اثر تھا کہ وہ لوگ باوجود اس کے کہ بت پرستی اور شرک میں نشو ونما پایاتھا ایسے موحد ہو گئےجن کی نظیر کسی زمانہ میں نہیں ملتی۔ اور پھر آپ کی شفاعت کا ہی اثر تھا کہ اب تک آپ کی پیروی کرنے والے خدا کاسچا الہام پانے والے ہیں۔خدا ان سے ہم کلام ہوتا ہے۔ مگرمسیح ابن مریم میں یہ تمام ثبوت کیوں کر اور کہاں سے مل سکتے ہیں۔

ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی شفاعت پر اس سے بڑھ کر اور زبردست شہادت کیا ہوگی کہ ہم اس جناب کے واسطے سے جو کچھ خدا سے پاتے ہیں ہمارے دشمن وہ نہیںپا سکتے۔ اگر وہ اس فیصلہ کی طرف آویں تو چند روز میں فیصلہ ہو سکتا ہے۔ مگر وہ فیصلہ کے خواہاںنہیںہیں۔ وہ اسی خدا کو ماننے کے لئے ہمیں مجبور کرتےہیں جو نہ بول سکتا نہ دیکھ سکتا ہے۔ اور نہ پیش ازوقت کچھ بتلا سکتا ہےمگر ہمارا خدا ان سب باتوں پر قادر ہے۔ مبارک وہ جو ایسے کا طالب ہو۔‘‘

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button