تعارف کتاب

’’تحفۃ الندوۃ‘‘

(ابو سلطان)

اس رسالےکو لکھنے کی وجہ یہ ہوئی کہ ندوۃ العلماء نے 9؍تا 11؍ اکتوبر 1902ء کو امرتسر میں جلسہ کے انعقاد کا اعلان کیا۔

تعارف

یہ رسالہ 6؍اکتوبر 1902ء کو شائع ہوا۔اس کا پیش لفظ ’التبلیغ ‘ عربی زبان میں ہے۔اس (التبلیغ) میں اہل دارالندوۃ کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ قرآن مجید کو حَکم بنائیں اور حضور علیہ السلام نےا پنے مسیح موعود علیہ السلام ہونے کا ذکر کیا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے پر حَلف اٹھایا ہے۔اس رسالےکو لکھنے کی وجہ یہ ہوئی کہ ندوۃ العلماء نے 9؍تا 11؍ اکتوبر 1902ء کو امرتسر میں جلسہ کے انعقاد کا اعلان کیا۔ حافظ محمد یوسف صاحب نے حضور علیہ السلام کے نام ایک اشتہار دیا جس میں اس خیال کی تائید کی گئی تھی کہ ایسے مفتری جو مامور من اللہ ہونے یا نبی ہونے کا جھوٹا دعویٰ کریں وہ تئیس برس یا اس سے بھی زیادہ زندہ رہے جو آپ ﷺ کی نبوت کا زمانہ ہے۔ پھر اس قول کی تائید میں ایک دوست ابو اسحاق محمد دین نامی نے قطع الوتین نام ایک رسالہ بھی لکھا ہے جس میں مدعیان کے نام مع مدت دعویٰ تاریخی کتابوں کے حوالہ سے درج ہیں۔ نیز اس اشتہار میں حافظ صاحب نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ حضور علیہ السلام ندوۃ العلماء کے سالانہ جلسے میں بمقام امرتسر شریک ہوں اور ہندوستان کے مشاہیر علماء رسالہ الوتین میں پیش کردہ نظائر کو صحیح قرار دے دیں تو حضور علیہ السلام کو اسی جلسہ میں توبہ کرنی چاہیے۔ حضور علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا کہ میرا ان لوگوں پر حسن ظن نہیں ہے اور نہ میں ان کو متقی سمجھتا ہوں اور نہ عارف قرآن پھر ان کا حَکم ہونا کس وجہ سے منظور کرلوں۔ بعد ازاں حضور علیہ السلام نے قادیان سے ایام جلسہ میں امرتسر ایک وفد بھیجا تو امرتسر پہنچ کر وفد کو معلوم ہوا کہ حافظ صاحب نے ندوۃ العلماء والوں کے مشورے کے بغیر از خود اشتہار دے دیا تھا۔ لہٰذا قادیان سے جانے والے وفد نے لوگوں کو خوب تبلیغ کی ۔

مضامین کا خلاصہ

التبلیغ:حضور علیہ السلام نے اس عربی پیش لفظ میں اہلِ دارالندوۃ کو قرآن کو حاکم بنانے کی طرف توجہ دلائی ہے۔پھر اپنے مامور من اللہ ہونے اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ فرمایا ہے۔ پھر فرمایا کہ میں صدی کے سر پر مبعوث ہوا ہوں اور سورج اور چاند گرہن نے میری گواہی دی ہے۔ پھر (انذاری رنگ میں) طاعون پھوٹ پڑا۔پھر فرمایا کیا تم سورت نور، سورت التحریم اور سورت الفاتحہ کو نہیں پڑھتے (کہ میری سچائی کے دلائل پر غور کر سکو)۔ آخر پر فرمایا کہ میں نمائندے تمہاری طرف بھجواتا ہوں تاکہ دیکھوں کہ تم کیا سلوک کرتے ہو۔

رسالہ تحفۃ الندوہ : فرمایا:’’آج 2؍اکتوبر 1902ء کو ایک اشتہار مجھے ملا جو حافظ محمد یوسف صاحب کی طرف سے میرے نام پر شائع ہوا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ میں ایک دفعہ زبانی اقرار کر چکا ہوں کہ جن لوگوں نے نبی یا رسول ہونے کا دعویٰ کیا تو وہ لوگ ایسے افتراء کے ساتھ تئیس برس تک جو آنحضرت ﷺ کے ایام بعثت کا کامل زمانہ ہے، زندہ رہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔‘‘ پھر اسی قول کی تائید میں ایک دوست ابو اسحاق محمد دین نام قطع الوتین کا ایک رسالہ بھی پیش کیا ہے۔ فرمایا معلوم ہوتا ہے کہ حافظ صاحب کو قرآن کریم کی آیت لَوۡ تَقَوَّل پر ایمان نہیں ہے اور نہ آیت

وَ اِنۡ یَّکُ کَاذِبًا فَعَلَیۡہِ کَذِبُہٗ

پر ان کا عقیدہ ہے۔ نیز ان کے نزدیک مندرجہ ذیل آیات بھی منسوخ شدہ ہیں۔

وَ قَدۡ خَابَ مَنِ افۡتَرٰی۔اِنَّ الَّذِیۡنَ یَفۡتَرُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ لَا یُفۡلِحُوۡنَ۔فَبَدَّلَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا قَوۡلًا غَیۡرَ الَّذِیۡ قِیۡلَ لَہُمۡ فَاَنۡزَلۡنَا عَلَی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا رِجۡزًا مِّنَ السَّمَآءِ۔

نیز آیت

وَ لَوۡ تَقَوَّلَ عَلَیۡنَا بَعۡضَ الۡاَقَاوِیۡلِ

بھی گویا رسالہ الوتین سے رد ہو گئی۔

پھر جبکہ حافظ صاحب کے نزدیک جھوٹے پیغمبروں کی بھی اس قدر تائید ہو سکتی ہے تو سچے نبیوں کا یہ معجزہ کہ خدا کا انہیں ہزاروں دشمنوں کے صد ہا ارادوں اور فریبوں میں زندہ رکھنا اور دین کو زمین پر جما دینا کچھ بھی قابل اعتبار نہ رہا اور سچے نبی کی سچائی پر کوئی علامت قاطعہ باقی نہ رہی۔ فرمایا:’’ حافظ صاحب یاد رکھیں کہ جو کچھ رسالہ قطع الوتین میں جھوٹے مدعیان نبوت کی نسبت بے سروپا حکایتیں لکھی گئی ہیں وہ حکایتیں اس وقت تک ایک ذرہ قابل اعتبار نہیں جبکہ یہ ثابت نہ ہو کہ مفتری لوگوں نے اس دعویٰ پر اصرار کیا اور توبہ نہ کی‘‘۔ نیز فرمایا: ’’تقّول کا لفظ قطع اور یقین کے متعلق ہے۔‘‘

دعویٰ مسیح موعود کو نہ ماننے والاقابلِ مواخذہ ہے

فرمایا:’’میں نےبار بار بیان کردیاہےکہ یہ کلام جو میں سناتا ہوں یہ قطعی او ر یقینی طور پر خدا کا کلام ہے جیساکہ قرآن اور توریت خدا کا کلام ہے اور میں خدا کا ظلی اور بروزی طور پر نبی ہوں اور ہر ایک مسلمان کو دینی امور میں میری اطاعت واجب ہے اور مسیح موعود ماننا واجب ہے اور ہر ایک جس کو میری تبلیغ پہنچ گئی ہے گو وہ مسلمان ہے مگر مجھے اپنا حَکم نہیں ٹھہراتا اور نہ مجھے مسیح موعود مانتا ہے اور نہ میری وحی کو خدا کی طرف سے مانتا ہے وہ آسمان پر قابل ِ مواخذہ ہے۔‘‘

پھر فرمایا:’’میں یہ بھی کہتا ہوں کہ موسیٰ اور عیسیٰ اور داؤد اور آنحضرت ﷺ کی طرح میں سچا ہوں اور میری تصدیق کے لئے خدا نے دس ہزار سے بھی زیادہ نشان دکھلائے ہیں، قرآن نے میری گواہی دی ہے ، رسول اللہ ﷺ نے میری گواہی دی ہے…میرے لئے آسمان نے بھی گواہی دی اور زمین نے بھی اور کوئی نبی نہیں جو میرے لئے گواہی نہیں دے چکا…اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں فرماتا ہے

اِنۡ یَّکُ کَاذِبًا فَعَلَیۡہِ کَذِبُہٗ ۚ وَ اِنۡ یَّکُ صَادِقًا یُّصِبۡکُمۡ بَعۡضُ الَّذِیۡ یَعِدُکُمۡ…

اب اس معیار کی رو سے جو خدا کے کلام میں ہے مجھے آزماؤ اور میرے دعویٰ کو پر کھو۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ان مولوی صاحبان نے میرے تباہ کرنے کے لئے کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ کفر نامہ تیار کرتے کرتے ان کے پیر گھس گئے…میرے پر خون کے مقدمات بنائے گئے…بعض میرے متبعین غیر ممالک کے اپنے ممالک میں قتل کئے گئے…مگر کچھ خبر ہے کہ اس کا نتیجہ آخر کار کیا ہوا؟ یہ ہوا کہ میں ترقی کرتا گیا۔‘‘

فردِ واحد سے بمطابق پیشگوئی ایک لاکھ کی جماعت بننا معجزہ ہے یا نہیں؟

فرمایا :’’براہین کے زمانہ میں میں صرف اکیلا تھا۔پھر خدا نے پچاس سے زیادہ پیشگوئیوں میں مجھے خبر دی کہ اگرچہ تو اس وقت اکیلا ہے مگر وہ وقت آتا ہے کہ تیرے ساتھ ایک دنیا ہوگی۔بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے، خدا پاک ہے جو چاہتا ہے کرتا ہےوہ تیرے سلسلہ کو اور تیری جماعت کو زمین پر پھیلائے گا ۔خدانے مجھے یہ دعا سکھلائی کہ

رَبِّ لَا تَذَرۡنِیۡ فَرۡدًا وَّ اَنۡتَ خَیۡرُ الۡوٰرِثِیۡنَ۔

میں اس وقت ایک گمنام آدمی تھا مگر آج باوجود مخالفانہ کوششوں کے ایک لاکھ سے زیادہ میری جماعت مختلف مقامات میں موجود ہے۔ پس کیا یہ معجزہ ہے یا نہیں۔ ‘‘

فرمایا:’’اگر میں صاحب معجزہ نہیں تو جھوٹا ہوں۔ اگر قرآن سے ابن مریم کی وفات ثابت نہیں تو میں جھوٹا ہوں۔ اگر حدیث معراج نے ابن مریم کو مردہ روحوں میں نہیں بٹھا دیا تو میں جھوٹا ہوں۔ اگر قرآن نے سورۃ نور میں نہیں کہا کہ اس امت کے خلیفے اس امت میں سے ہوں گے تو میں جھوٹا ہوں۔ اگر قرآن نے میرا نام ابن مریم نہیں رکھا تو میں جھوٹا ہوں۔‘‘

پھر فرمایا:’’دوسرا جزو اس آیت کا دیکھو

وَ اِنۡ یَّکُ صَادِقًا یُّصِبۡکُمۡ بَعۡضُ الَّذِیۡ یَعِدُکُمۡ۔

یہ معیار بھی کیسا اعجازی رنگ میں پورا ہوا۔ خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ

اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ،

اب ان مولویوں سے پوچھ لو کہ انہوں نے میرے مقابل پر خدا کے حکم سے کوئی ذلت بھی دیکھی ہے یا نہیں۔ قرآن کریم نے بعض کے لفظ سے جتلا دیا کہ وعید کی پیشگوئی کے لئے بعض کا نمونہ ہی کافی ہے۔ غلام دستگیر قصوری اپنی کتاب فتح رحمانی میں یعنی صفحہ 29 میں میرے پر عام لفظوں میں بد دعا کرکے یعنی فریقین میں سے کاذب پر بددعا کرکے خود ہی چند روز کے بعد مر گیا۔ محمد حسن بھیں نے اپنی تحریر میں لعنت اللہ علی الکاذبین کا لفظ میرے مقابل پر بولا وہ کتاب پوری نہ کرنے پایا کہ سخت عذاب سے مرا۔ پیر مہر علی شاہ نے اپنی کتاب میں میرے مقابل پر لعنت اللہ علی الکاذبین کہا، وہ معاً جرم سرقہ میں گرفتار ہو ا کہ اس نے ساری کتاب محمد حسن مردہ کی چرائی اور کہا کہ میں نے بنائی ہے اور اس کا نام سیف چشتیائی رکھا۔‘‘

پھر اپنے دعویٰ کے اثبات میں فرمایا:’’اگر میں نے جھوٹ بولا ہو تو مجھ پر بھی خدا کی لعنت ہو جیسا کہ میں اپنی کتابوں میں یہی الفاظ اپنے نسبت لکھ چکا ہوں۔یہ تو ایک ادنیٰ سی بات ہے کہ جھوٹوں کے ساتھ میرا موازنہ نہ کیا جائے مگر میں تو اس سے بھی بڑھ کر اپنا ثبوت رکھتا ہوں۔

1)بھلا بتائیں کہ میرے بغیر کس کے لئے بموجب حدیث دار قطنی کے کسوف خسوف ہوا۔

2)کس کے لئے بموجب احادیث صحیحہ کے طاعون پڑی۔

3)کس کے لئے ستارہ ذو السنین نکلا۔

4)کس کے لئے لیکھرام وغیرہ کے نشان ظاہر ہوئے۔‘‘

حافظ صاحب اور ان کے حقیقی بھائی کاقادیان کے بارے میں بیان

فرمایا :’’کیا آپ وہی حافظ نہیں جنہوں نے مجھ کو بلاواسطہ دیگرے کہا تھا کہ مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کہتے تھے کہ قادیان پر ایک نور نازل ہوا جس سے میری اولاد محروم رہ گئی۔پھر کیا میاں محمد یعقوب آپ کے حقیقی بھائی نہیں ہیں، ان سے بھی تو ذرا پوچھ لیا ہوتا کہ ان کو بھی مولوی عبد اللہ غزنوی نے قادیا ن کاہی حوالہ دیا تھا کہ نور قادیان میں ہی نازل ہوگا اور وہ غلام احمد ہے۔‘‘

تمام مسلمانوں اورتمام سچائی کے بھو کوں اور پیاسوں کے لیے بڑی خوشخبری

عیسائیوں کے عقائد کہ حضرت عیسیٰ کا خارق عادت زندگی اور خلاف نصوص قرآنیہ مع جسم آسمان پر جانا اور پھر مسلمانوں کا نادانی سے ان کو مان لینا ، ایک قرض تھا اور خاص طور پر جب عیسائی اعتراض کرتے کہ ربنا یسوع آسمان پر زندہ جسم چڑھ گیا ، بڑی طاقت دکھائی مگر تمہارا نبی تو ہجرت کے وقت مدینہ تک بھی پرواز نہ کرسکا، غار ثور میں تین دن تک چھپا رہا ، پھر بڑی مشکل سے مدینہ پہنچا مگر زندگی نے دس سال سے زیادہ وفا نہ کی اور وہیں مدفون ہوئے۔ مگر یسوع زندہ آسمان پر گیا اور ہمیشہ زندہ رہا اور وہی دوبارہ اتر کر دنیا میں انصاف کرے گا۔

اس کا جواب مسلمانوں کو کچھ نہیں آتا تھا اور شرمندہ اور ذلیل ہوتے تھے۔ اب (میرے آنے سے) یسوع مسیح کی خوب خدائی ظاہر ہوئی اور آسمان پر چڑھنے کا خوب بھانڈا پھوٹ گیا۔ اول تو مرہم عیسیٰ جو رومیوں ، یونانیوں ، مجوسیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کی کتابوں میں ہے وہ سب کے بیان کے مطابق حضرت عیسیٰ کے صلیبی زخموں کے لئے بنائی گئی۔ پھر کشمیر میں حضرت عیسیٰ کی قبر بھی پیدا ہوگئی۔ پھر حال میں بمقام یروشلم پطرس حواری کا دستخطی ایک کاغذ پرانی عبرانی میں لکھا ہوا ملا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح صلیب کے واقعہ کے تخمیناً پچاس سال بعد اسی زمین میں فوت ہو گئے تھے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button