ایشیا (رپورٹس)حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ طلباء جامعہ احمدیہ بنگلہ دیش کی (آن لائن) ملاقات

اپنی عبادات کے ساتھ ساتھ لوگوں کے حقوق بھی ادا کریں۔ یہ وہ چیزہے جو آپ کو اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دے گی اور یہ ایسی صفات ہیں جو ایک مربی کو اپنانی چاہئیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ جامعہ احمدیہ بنگلہ دیش کے طلباء کو 13؍فروری 2021ءبروز ہفتہ ایک گھنٹہ پر مشتمل آن لائن ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی۔

یہ پہلا موقع تھا کہ طلباء جامعہ احمدیہ بنگلہ دیش کو حضورِانور کے ساتھ ملاقات کی سعادت ملی۔ حضورِانور نے اس ملاقات کو اپنے دفتر اسلام آباد (ٹلفورڈ) سے رونق بخشی جبکہ طلباء جامعہ احمدیہ نے جامعہ احمدیہ کمپلیکس احمد نگر سے آن لائن شرکت کی ۔

اس ملاقات کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا، جس کے بعد نظم پڑھی گئی۔ حدیث نبویﷺ اور اقتباس از ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد حضورِانور کی خدمت میں جامعہ احمدیہ کی عمارت اور اس کی ہمسائیگی میں رہنے والے احمدیوں پر مشتمل ایک ویڈیو پیش کی گئی۔ پرنسپل صاحب نے جامعہ احمدیہ بنگلہ دیش کی ابتداسے حال تک کی تاریخ پیش کی ۔

ایک طالب علم نے حضورِانور سے جامعہ احمدیہ کے تعلیمی نصاب کو سیکھنے اور پڑھنے کے بہترین طریقے کی بابت راہنمائی طلب کی۔

اس کے جواب میں حضورِانور نے فرمایا کہ پڑھائی کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ نے جو پڑھنا ہے وہ پہلے سے پڑھ کر جائیں۔ اپنے اساتذہ سے پوچھیں کہ اگلے دن آپ نے کیا پڑھنا ہے۔ پھر جو بھی کلاس میں پڑھا یا جائے، جب آپ ہوسٹل جائیں تو اس کو دہرائیں۔ پہلے بھی دہرائیں اور بعد میں بھی۔ یوں آپ کو یہ یاد ہو جائے گا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ سے دعابھی کرنی چاہیے کہ وہ آپ کے ذہن کو جِلا بخشے اور جو آپ پڑھ رہے ہیں اس کو یاد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ایک اَور سوال یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے قریبی تعلق کیسے قائم کیا جائے؟

حضورِانور نے فرمایا کہ اگر آپ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کریں گے تو آپ اس کے محبوب بن جائیں گے۔ محبت دونوں طرف سے ہونی چاہیے۔ آنحضرتﷺ کے صحابہ کیا کرتے تھے؟ صحابہ، قرآن کریم کے حکم کے تحت آپﷺ سے محبت کرتے تھے۔ قرآن کریم میں یہ حکم دیا گیاہے کہ مسلمانوں کو آپﷺ کی فرمانبرادی کرنی چاہیے جیساکہ فرماتا ہے کہ میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔ تو فرمانبرداری کیا ہے؟ یہ آنحضرتﷺ کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرنا ہے اور آپﷺ کے طریق پر یعنی پورے انہماک اور توجہ سے نماز پڑھنا ہے۔

حضورِانور نے مزید فرمایا کہ آنحضرتﷺ نوافل ادا فرماتے تھے اور آپ کو بھی ایسا کرنا چاہیے۔ آپﷺ اللہ کی یاد میں وقت صرف کرتے تھے تو آپ کو بھی کرنا چاہیے۔ آپﷺ لوگوں کو نہایت احسن طریق پر ملتے تھے تو آپ کو بھی اسی طرح ملنا چاہیے۔ اگر ہم اس طرح عمل کریں گے تو ہم اللہ کے محبوب بن جائیں گے۔

حضورِانور نے مزید فرمایا کہ اس لیے پوری احتیاط سے نماز پنجوقتہ ادا کریں، قرآن کریم کی تلاوت کریں اور اس کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اپنی عبادات کے ساتھ ساتھ لوگوں کے حقوق بھی ادا کریں۔ یہ وہ چیزہے جو آپ کو اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دے گی اور یہ ایسی صفات ہیں جو ایک مربی کو اپنانی چاہئیں۔ جب آپ یہ صفات اپنا لیں گے تو آپ ایک کامیاب مربی بن جائیں گے۔ آپ ان لوگوں میں سے بن جائیں گے جو لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں اور آپ ان لوگوں میں سے بن جائیں گے جو حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانے والے ہوں گے۔ آپ کو پہلےخود اپنے اعلیٰ اخلاقی معیار کا اظہار کرنا ہوگا، تب ہی آپ ایک کامیاب مربی بن سکتے ہیں۔ یہی وہ چیزہے جو آپ کو اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دے گی۔

ایک اَور طالب علم نے سوال کیاکہ وہ وقف زندگی کی حقیقی روح اپنے میں کس طرح پیدا کر سکتےہیں؟

اس کے جواب میں حضورِانور نے فرمایا کہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا تھا کہ ’تیری عاجزانہ راہیں اس کو پسند آئیں‘۔ اس لیے عاجزی اختیار کریں۔ اپنے علم پر تکبر نہ کریں۔ اس کے علاوہ پوری عاجزی اختیار کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلا م کے الفاظ کو ہمیشہ ذہن نشین رکھیں کہ

’میں تھا غریب و بے کس و گمنام و بے ہنر‘۔

حضورِانور نے مزید فرمایا کہ اس لیے اپنے اندر اس بات کا ادراک پید اکریں کہ میں کچھ بھی نہیں تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ صلاحیت عطا فرمائی کہ میں جامعہ آیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے جامعہ سے ڈگری حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور اسی نے مجھے خدمت کرنے اور دوسروں کی اخلاقی تربیت کرنے کی توفیق عطا کی۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کا پیغام پھیلانے کی توفیق عطا فرمائی اور دین کی تعلیم سکھانے کی توفیق دی۔ اگر آپ اس طرح سے سوچیں گے تو پھر یہ چیز آپ کو فطری طور پر عاجزی میں بڑھائے گی اور آپ کو اللہ تعالیٰ کے قریب کر دے گی۔

ایک اَور طالب علم نے سوال کیا کہ جب حضور مختلف ملکوں کے وزرائےاعظم سے ملتے ہیں یا پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہیں تو کون سی دعائیں کرتے ہیں؟

حضورِانور نے فرمایا کہ ایک تو یہ کہ کسی سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم احمدی ہیں اور ہمیں پتہ ہے کہ ایک احمدی مسلمان کو کسی کے رعب میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ فرمایا تھا کہ نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ۔ کہ مجھے مدد دی گئی ہے رعب کے ساتھ۔ اس لیے ہمارا رعب دنیا پہ قائم ہے، ہمیں کسی کے رعب میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ باقی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مدد کرے، سینہ کھولے اور باقی عام دعائیں پڑھ کے اور اللہ کا نام لے کے خطاب کر لیتے ہیں بس۔ کوئی خوفزدہ ہونے کی ضرورت ہی نہیں کسی چیز سے۔ ہمارے تو جو مبلغین ہیں، اچھے مبلغین، تجربہ کار وہ بھی بڑے بڑے لوگوں سے مل لیتے ہیں اور بغیر ڈرے ملتے ہیں۔ ان کو پتہ ہے کہ ہم نے دنیا کو گائیڈ کرنا ہے۔ یہ ذہن میں رکھو کہ ہم نے دنیا کی راہنمائی کرنی ہے ہم نے دنیا کو گائیڈ کرنا ہے۔ جب یہ پتہ ہو کہ ہم نے دنیا کی راہنمائی کرنی ہے، ہم نے دنیا کو گائیڈ کرنا ہے اور یہ بھی پتہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہمارے ساتھ ہے تو پھر کسی قسم کے خوف کی ضرورت ہی نہیں ۔ یہ بھی پتہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ کیا ہے کہ میں تمہاری نصرت، مدد اور تائید فرماؤںگا۔ تو بس پھر یہ سارا کچھ پتہ ہو تو دعا کرو اور اللہ تعالیٰ کا نام لو، بسم اللہ پڑھو اور یہ بھی دعا پڑھا کرو کہ

رَبِّ هَبْ لِیْ حُكْمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَۙ وَ اجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَۙ۔

یہ دعا بھی پڑھا کرو۔

رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي ۔ وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي۔

یہ بھی پڑھا کرو تو یہ ساری دعائیں بھی پڑھتے رہا کرو اور سمجھو کہ تم نے دنیا کو لیڈ (lead)کرنا ہے، تم نے راہنمائی کرنی ہے تو یہ چیزیں جو ذہن میں ہوں گی تو کبھی کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ ٹھیک ہے؟ تو مجھے تو اللہ کے فضل سے کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی چاہے بڑے سے بڑا لیڈر ہو۔ امریکہ میں جب مَیں گیا ہوں مَیں نے کیپیٹل ہل میں خطاب سے ایک دن پہلے وہاں کے ٹاپ کے تین پادری جو ان کی آرمی میں بھی اور سروسز میں بھی خطاب کرتے ہیںا ور بڑے منجھے ہوئے لوگ تھے وہ ایک دن پہلے آئے، میرے سے ملاقات کی تو مجھے کہنے لگے کہ کل تمہارا خطاب ہے پارلیمنٹ کیپیٹل ہل میں تو تم میں کوئی خوف پیدا ہو رہا ہو گا یا کوئی تیاری کر رہے ہوگے۔تو میں نے اسے کہا مجھے کوئی خوف نہیں۔ میں نے تو قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں، اللہ رسول کے حکموں کی روشنی میں بات کرنی ہے اور مجھے پتہ ہے کہ وہ بات ایسی ہے اس کا مقابلہ تم لوگ نہیں کر سکتے۔ کہتا ہے اچھا ہم تو بڑے منجھے ہوئے ہیں اور سالہا سال سے سروسز میں بھی کام کرتے ہیں اور بڑے بڑے پارلیمنٹ میں جا کے وہاں کیپیٹل میں بھی بعض دفعہ ہمیں بولنا پڑتا ہے لیکن ہر دفعہ جب ہم جاتے ہیں ہمارے اندر ڈر ہوتا ہے کہ پتہ نہیں ہم کس طرح بولیں گے لیکن تم تو کہتے ہو مجھے ڈر ہی کوئی نہیں۔ میں نے کہا: مجھے ڈرنے کی ضرورت کوئی نہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اس لیے کوئی پروا کی ضرورت نہیں اور اللہ پھر ساتھ دیتا ہے۔

ایک اَور طالب علم نے عرض کی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا تھا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ اس بارے میں پیارے حضور کی مبارک زبان سے کچھ سننا چاہتے ہیں۔

حضور انورنے فرمایا کہ کیا سننا چاہتے ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے تو اس کا مطلب ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہر کام میں، ہر بات میں، ہر چیز میں اور کپڑوں میں برکت ہے۔ اس لیے جو بڑے بڑے بادشاہ ہیں وہ بھی اس بات کو اپنے لیے اعزاز سمجھیں گے اور یہ قابلِ قدر چیز سمجھیں گے کہ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑوں کا کوئی تحفہ ملے اور برکت ملے۔ اب آج کل وہ برکت تو مل نہیں سکتی۔ ساری دنیا میں ہر احمدی کو تو برکت نہیں پہنچ سکتی اور نہ ہر بادشاہ تک اب وہ برکت کپڑوں کی صورت میںپہنچ سکتی ہے۔ اگر ہم نے برکت عملی صورت میں ڈھونڈنی ہے تو اس کے لیے یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو تعلیم ہے اس کو ہم اپنے اوپر پہلے لاگو کریں جو آپ نے ہمیں بتایا، آپ کا جو مشن ہے اس کو ہم پورا کرنے کی کوشش کریں اور یہی برکت ہے مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی برکت اور آپ کے ذریعہ سے احیائے نو کی برکت، آپ کے ذریعہ سے اسلام کی نشأۃ ثانیہ کی برکت، آپ کے ذریعہ سے اسلام کا جھنڈا دنیا میں لہرانے کی برکت، آپ کے ذریعہ سے خدائے واحد کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنے کی برکت ،آپ کے ذریعہ سے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے دنیا کو لانے کی برکت۔ یہ برکات تو آپؑ ہمیں دے گئے ان کو اب ہم نے حاصل کر کے ان سے فائدہ اٹھا کے دنیا میں پھیلانا ہے۔ باقی کپڑوں کی برکت ہے وہ اپنی جگہ ہے، عملی طور پہ اَور اَور چیزوں کی بھی برکت ہے۔ اب یہ مَیں نے انگوٹھی پہنی ہوئی ہے اَلَیْسَ اللّٰہ کی۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انگوٹھی ہے۔ وہی پہلے والی انگوٹھی جب الہام ہوا تھا اور آپ نے بنوائی تھی اور آپ نے پہنی۔ یہ میں نے برکت کی خاطر پہنی ہوئی ہے تو جس کو تو برکت عملی شکل میں کپڑوں سے یا کسی چیز سے ملتی ہے اس کو حاصل کرنی چاہیے لیکن اس کے علاوہ جس طرح کہ میں نے بتایا ان برکات کو پھیلانا، آپ کی تعلیم کو پھیلانا اور آپ کے مقصد کو پورا کرنا، آپ کے مشن کو پورا کرنا یہ بھی برکات ہیں، جامعہ کے ہر سٹوڈنٹ کا کام ہے کہ وہ ان کو پھیلائے۔ خود حاصل کرے اور آگے پھیلائے۔

ایک طالب علم نے (کپڑوں سے برکت ڈھونڈنے والے الہام کے بارے میں پوچھا کہ ) حضور کیا یہ کینیڈا کے وزیر اعظم پر چسپاں ہو سکتا ہے؟

حضورِانور نے فرمایا کہ وہاں اس پہ کس طرح چسپاں کرنا ہے۔ کیا دل میں کوئی بات ہے ذرا کھل کے بتاؤ۔

طالب علم نے عرض کیا کہ میں نے سنا ہےکہ وہ ہماری تقریب میں آتے ہیں اور آپ کے ساتھ ملاقات بھی کرتے تھے۔

حضورِانور نے فرمایا کہ ہماری تقریب بعض اور وزیراعظم بھی آتے ہیں۔ کیلگری مسجد کا مَیں نے افتتاح کیا تو کینیڈا کا جو اس سے پہلے وزیراعظم تھا اس نے کہیں جاپان میں جی سیون کی کانفرنس میں جانا تھا وہ تین چار گھنٹے کا بائی ایئر سفر کر کے پہلے رُکا، مجھے ملا، تقریب میں شامل ہوا پھر آگے گیا۔ دوسری پارٹی کا پریذیڈنٹ تھا وہ بھی ملا مجھے اور تقریب میں آیا۔ بڑی عزت کرتے تھے، یہ بھی کرتے ہیں۔ یہاں یوکے کا پرائم منسٹر جو تھا وہ بھی مجھے ملا۔ اب جو پرائم منسٹر ہے یہ بھی پہلے مل چکا ہے۔ تو لوگ تو بڑے بڑے ہیں ملتے ہیں، تقریب میں آتے ہیں۔ اَور ملکوں کے بعضوں کے پرائم منسٹر اور صدر ملتے ہیں تو بڑی عزت کرتے ہیں تو ہر ایک پہ چسپاں اس وقت ہو جب وہ احمدی ہو جائیں۔ ٹھیک ہے۔ باقی یونہی تو ملنے سے ہر بات چسپاں نہیں ہو جاتی ۔ ہاں یہ ان کا بڑا پن ہے کہ وہ ملتے ہیں اور محبت کا اظہار کرتے ہیںا ور جماعت کے کاموں کو سراہتے ہیں اور شامل ہوتے ہیں۔ کچھ ان کے پولیٹیکل انٹرسٹ ہوتے ہیں، کچھ دلی جذبہ اور جوش بھی ہوتا ہے، دوستی کا حق بھی ادا کرتے ہیں تو دنیا کے اَور ملک بھی تو ہیں، افریقہ کے بہت سارے ملکوں کے صدران ہیں، بہت اخلاص سے ملتے ہیں بلکہ بعض دفعہ میرے سےفون پہ بات بھی کر لیتے ہیں۔ تو ان کو کیوں نہ برکت ہوئی جو صرف کینیڈا پہ لاگو کر رہے ہو۔ ٹھیک ہے؟ چلو بیٹھو۔ صرف بڑے آدمیوں سے مرعوب نہ ہوا کرو چھوٹے آدمیوں کا بھی خیال رکھا کرو۔

ایک اَور طالب علم نے عرض کیاکہ حضور میرا سوال یہ ہے کہ معاشرے میں عموماً دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ اول جن کو مذہب سے کوئی دلچسپی نہیں، دوم جن کو دلچسپی تو ہے لیکن وہ مذہبی شدت پسند ہیں۔ حضور ہم ان لوگوں کو کیسے تبلیغ کر سکتے ہیں؟

حضورِانور نے فرمایا کہ مذہب سے جن کو دلچسپی نہیں وہ مادیت پرست ہوچکے۔ آج کل دنیا میں بڑی تعداد کو مذہب سے دلچسپی نہیں رہی اور اس میں سے بھی دنیا کے جو یورپین ممالک ہیں یا دوسرے مذاہب کے لوگ ہیں، مسلمانوں میں اظہار کم ہے لیکن عملاً ان کا بھی یہی حال ہے لیکن دوسرے لوگ جو ہیں دوسرے مذاہب کے لوگ وہ اظہار بھی کر دیتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کو نہیں مانتے۔ اس لیے دہریت زیادہ پھیل رہی ہے۔ دہریوں کی تعداد دنیا میں بڑھ رہی ہے ۔ دوسرے رہ گئے مسلمان وہ لوگ جو اپنے آپ کو مذہبی کہلاتے ہیں یا عیسائی وہ لوگ جو اپنے آپ کو مذہبی کہلاتے ہیں لیکن مذہب سے دلچسپی نہیں کیونکہ مذہبی تعلیم سے دلچسپی نہیں ہے اور مادیت میں ڈوبے ہوئے ہیں اور دنیا داری ان پر غالب آگئی ہے اور یہی آخری زمانے کے حالات کا نقشہ کھینچا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اسی آخری زمانے کے حالات کا نقشہ جو کھینچا تھا تو اس میں اس وقت مسیح موعود نے آنا تھا اور انہی لوگوں کے لیے سورۂ جمعہ میں آیات نازل ہوئی تھیں اور یہودیوں کی مثال دے کر کہا گیا تھا کہ دیکھو تم لوگ ویسے نہ ہو جانا اور سورۂ جمعہ کی آخری رکوع کی جو تین آیات ہیں اس میں یہی فرمایا کہ دنیا داری میں پڑے ہوئے ہیں اور نمازیں اور عبادتیں چھوڑ کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ پھر یہ تو پہلی قسم کے لوگوں کی دو قسمیں ہو گئیں۔ اور تیسری قسم یہ ہے جو شدت پسند ہو گئے۔ اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے پہلے تو مسلمان اسلام کو بھول چکے تھے۔ اسی لیے عیسائیوں نے یہاں آکے جو subcontinent ہے بنگلہ دیش، ہندوستان اور پاکستان اس میں تبلیغ کی اور تیس لاکھ مسلمانوں کو عیسائی بنا لیا۔ بڑے بڑے مسلمان مولوی جو تھے وہ عیسائی ہوگئے کیونکہ اسلامی تعلیم نہیں تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آکے ان کو تھوڑا سا ابھارا۔ اب حضرت مسیح موعودؑ کی مخالفت میں جب یہ اٹھے تو پھر انہوں نے اپنے اندر ایک طبقے میں ایک لہر اسلام کے حق میں تو پیدا کرلی لیکن ساتھ ہی شدت پسندی بھی پیدا کرلی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہی فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کے مولوی جو مخالفین ہیں ان میں بھی اسلام میری مخالفت کی وجہ سے آیا ہے۔ ان میں پہلے کوئی نہیں تھا، اسلام بھول چکے تھے یہ۔ اب ان شدت پسندوں کو ہمیں بتانا ہے کہ اسلام کی اصل خوبصورت تعلیم کیا ہے اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہی چیزیں ہمیں ساروں کو بتانی چاہئیں اور یہی دومقصد ہیں میری آمد اور بعثت کے ۔ ایک یہ ہے کہ بندے کو خدا کے قریب لانا، اس کو عبادت کرنے والا اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنیو الا بنانا ،یہ ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو دہریت کی طرف مائل ہیں اور ان لوگوں کی طرف بھی ہے جو دنیا پرستی کی طرف چلے گئے لیکن اپنے آپ کو مذہبی کہتے ہیں۔ اور دوسرا بندے کو بندے کے حقوق ادا کرنے والا بنانا۔ یہ ان لوگوں کے لیے بھی ہے یہ تینوں کیٹیگریز کے لیے ہے، دہریت والوں کو بھی بتانا کہ بندوں کے حقوق کیا ہیں۔ جو مذہب کو ماننے والے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے ان کو بھی بتانا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے بعد دوسرا فرض ایک دوسرے کے حق ادا کرنا یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ قرآن کریم اس تعلیم سے بھرا پڑا ہے۔ تیسرے وہ لوگ جو شدت پسند ہیں ان کو بتانا کہ شدت پسندی اسلام کی تعلیم نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی تو لوگوں پہ احسان کرتے ہوئے گزر گئی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین فرمایا۔ جب رحمۃ للعالمین ہیں تو تم لوگ تو لوگوں کے لیے زحمت بن رہے ہو۔ کوئی ایک واقعہ بیان کر دو جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود initiative لے کے لوگوں پہ جنگیں ٹھونسی ہوں۔ کہیں بھی نہیں آیا۔ قرآن کریم میں جہاں پہلی دفعہ جنگ کرنے کا حکم آیا سورۃ الحج میں چالیسویں اکتالیسویں آیت ہے وہاں یہی حکم آیا کہ دیکھو تمہیں اس لیے اذن دیا جاتا ہے، تمہیں اس لیے اجازت دی جاتی ہے کہ یہ لوگ اب حد سے بڑھ گئے ہیں اور ان کے ہاتھوں کو روکنا ضروری ہے۔ بعضوںکو بعض کے ذریعہ ہم روکتے ہیں۔ اگر یہ اسی طرح جاری رہے تو پھر نہ کوئی چرچ باقی رہے گا، نہ کوئی یہودیوں کا synagogue باقی رہے گا، نہ کوئی ٹیمپل باقی رہے گا، نہ کوئی مسجد باقی رہے گی۔ تو اللہ تعالیٰ نے تو قرآن کریم میں یہ حکم جب جنگ کا دیا تو مذاہب کی حفاظت کے لیے دیا۔ شدت پسندوں کو کہو کہ تم نے کہاں سے یہ تعلیم لے لی۔ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ مذہب کی حفاظت کرو، دوسرے مذہبوں کی بھی حفاظت کروکیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو واضح فرما دیا۔ مذہب کے مخالف لوگ جو مذہب کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور تم پہ حملہ کرتے ہیں تب ان سے جنگ کرو۔ یہ نہیں ہے کہ تم اپنے انٹرسٹ کے لیے یہودیوں پہ حملہ کر دو یا عیسائیوں پہ حملہ کر دو یا بدھسٹ پہ حملہ کر دو یا ہندوؤں پہ حملہ کر دو اور ان کو بلاوجہ مارنا شروع کر دو۔ اسلام شدت پسندی کی مخالفت کرتا ہے اور اس کی تعلیم نہیں دیتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اس پر گواہ ہے کہ آپؐ نے کوئی ایسی بات نہیں کی اور ہمیشہ لوگوں کو معاف فرمایا اور آپ کی معافی کا ہی ہم نظارہ دیکھتے ہیں۔ فتح مکہ کے بعد بھی

لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ

ان لوگوں کو کہا جنہوں نے بےشمار ظلم کیے تھے۔ تو ہمیں اس چیز کو لوگوں کو بتانا ہو گا، ان شدت پسندوں کو کہ تم لوگ کس غلط کام میں پڑ گئے ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تعلیم نہیں تھی۔ بعض شدت پسند نہیں سننا چاہتے لیکن اس کے لیے ایک لمبا وقفہ چاہیے، تعلقات چاہئیں اپنے ذاتی تعلقات ان سے بنائیں، ان کے پاس بیٹھیں، ان کو قائل کریں پھر یہ سنیں گے۔ تو قرآن کریم سارا اس بارے میں بھرا پڑا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، آپؐ کا اسوہ، آپؐ کا اٹھنا بیٹھنا، آپؐ کی زندگی کا ہر لمحہ اس بات کا گواہ ہے کہ آپؐ نے پیار،امن، محبت اور شانتی کی تعلیم دی ہے۔ ٹھیک ہے؟ یہ باتیں بتانی ہوں گی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button