متفرق مضامین

جنّات کی حقیقت (قسط ہشتم)

(لئیق احمد مشتاق ۔ مبلغ سلسلہ سرینام، جنوبی امریکہ)

علماء اور مفسّرین کے مضحکہ خیز عقائد ،تاویل و استدلال کے مقابل

اِمامِ آخرالزّمانؑ اور آپ کے خلفاء کے بیان فرمودہ حقائق و معارف

میں جنّات کی ہستی کا قائل ہوں مگر اس امر کا قائل نہیں کہ وہ کسی کے سر پر چڑھتے ہیں یا میوہ لا کر دیتے ہیں۔ جیسے فرشتے کسی کے سرپر نہیں چڑھتے جِنّات بھی نہیں(حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ)

جنّات کی حقیقت از حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ

’’وہ علومِ ظاہری اور باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘۔مسیح محمدی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اِس پیشگوئی کے مصداق حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی مختلف تصانیف، خطبات اور خطابات میں جنّوں کے مسئلےکو مختلف پیرایوں میں بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہےاور قرآن کریم اور احادیث نبویہﷺ میں بیان تعلیمات کی روشنی میں اس قسم کے جنّوں کے وجود کا کلیۃً ردّ فرمایاجو عوام کے ذہنوں میں موجود ہے کہ وہ لوگوں کے سروں پر چڑھ جاتے ہیں یا بعض لوگوں کے قبضے میں آ جاتے ہیں جو پھر ان جنّوں سے اپنی حسب منشاکام کرواتے ہیں۔چنانچہ جِنّوں کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےایک صاحب کے خط کے جواب میں لکھوایا:’’میں جنّات کی ہستی کا قائل ہوں مگر اس امر کا قائل نہیں کہ وہ کسی کے سر پر چڑھتے ہیں یا میوہ لا کر دیتے ہیں۔ جیسے فرشتے کسی کے سرپر نہیں چڑھتے جِنّات بھی نہیں۔ جس طرح فرشتے انسانوں سے ملاقات کرتے ہیں اسی طرح جِنّات بھی ملاقات کرتے ہیں لیکن جس طرح ان کا وجود ان کو اجازت دیتا ہے۔ رسول کریم ﷺکی تعلیم کی نسبت میں سمجھتا ہوں کہ انسان اور جِنّ سب کےلئے ہے اور آپ پر ایمان لانا جنّا ت کے لئے بھی ضروری ہے۔ آپ کی وحی پر عمل کرنا بھی۔ مگر میرا یہی عقیدہ اس بات کا بھی باعث ہوا ہے کہ میں یہ اعتقاد بھی رکھوں کہ وہ نہ کسی کے سر پر چڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی میوہ لا کر دے سکتے ہیں۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺ پر ایمان لانےوالوں کا فرض تھا کہ وہ آپ کی مدد اور نصرت کریں۔ اگر جنّات میں طاقت ہوتی کہ انسان کی مدد کر سکتے یا نصرت کر سکتے تو کیوں وہ ابو جہل وغیرہ کے سر پر نہ چڑھے۔ ان کو کوئی قربانی بھی نہ کرنی پڑتی تھی۔ لوگ کہتے ہیں کہ جِنّ مٹھائی لاکر دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔پر میں ایسے جِنّوں کا قائل نہیں ہو سکتا جو زید و بکر کو تو مٹھائی لا لا کر کھلاتے ہیں۔ لیکن وہ شخص جس پر ایمان لانا ضروری اور فرض تھا اور بعض جِنّ آپﷺ پر ایمان بھی لائے تھے۔ تین تین دن تک فاقہ کرتا رہتا ہے اور اس کو روٹی بھی لا کر نہیں دیتے۔ اگر محمد رسول اللہﷺ پر ایمان لانا ان کےلئے ضروری نہ ہوتا تو شبہ ہوتا کہ وہ ا نسان کو ضرر پہنچا سکتے ہیں یا نہیں لیکن اب یقینی ہے کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ باقی رہا یہ کہ عورتوں کے سر پر جنّ چڑھتے ہیں یہ سب بیماریاں ہیں یا وہم ہیں یا سائنس کے نتائج ہوتے ہیں۔ جیسے فاسفورس رات کو چمکتی ہے یہ اکثر قبرستانوں میں دکھلائی دیتی ہے۔ کیونکہ ہڈیوں سے فاسفورس نکلتی ہے اور وہ چمکتی ہے اور عوام اس کو جنّوں کی طرف منسوب کرتے ہیں۔‘‘

(اخبار الفضل قادیان دارالامان، مورخہ 2؍مئی 1921ء صفحہ7۔ شمارہ 82 جلد 8)

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورۃ الحجر کی آیت نمبر 28کی تشریح کرتے ہوئےجِنّات کی حقیقت،حیثیت اور ان کے بارے میں پائے جانے والے مختلف عقائد اور توہمات پر بہت تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:

’’الۡجَآنَّ۔جَنَّ یُجِنّ، جَنًّا وجُنُوْنًا

کے معنی ہیں

سَتَرہُ وَ اَظْلَمَ عَلَیْہِ

پردہ ڈال دیا اور اندھیرا کر دیا۔

جَنَّ اللَّیْلُ: اَظْلَمَ وَاخْتَلطَتْ ظُلمتُہُ۔

رات کی تاریکی چھا گئی۔ وَجَنّ الْجَنِیْنُ فی الرَّحْمِ استتر۔جنین رحم میں پوشیدہ ہو گیا۔ وَالجانُّ اسْم فاعلٍ۔اور جان ّاسم فاعل ہے۔ یعنی اندھیرا کر دینے والا، یا پوشیدہ ہو جانے والا…

السّمُوْم۔سَمَّ یُسمَّ سمًّا سے اسم ہے۔ سَمَّ الطَّعَامَ کے معنی ہیں جَعَلَ فِیْہ السَّمَّ کھانے میں زہر ڈال دیا …سموم گرم ہوا کو بھی کہتے ہیں۔…اور سموم اس شدت کی گرمی کو بھی کہتے ہیں جو مسامات میں گھس جانے والی ہو۔(اقرب) محیط میں لکھا ہے کہ ابن عباسؓ نے کہا ہے سموم اس شعلہ والی آگ کو کہتے ہیں جس میں دھواں نہ ہو۔ یعنی شعلہ والی آگ یا انگار والی۔ ان سارے معنوں کو مدنظر رکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ السَّموم اس چیز کو کہتے ہیں جو باریک طور پر اندر گھس جائےاور پھر اثر کرے۔ زہر کو بھی سَمْ اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی عروق کے ذریعہ جلد انسان کے جسم میں سرایت کر جاتا ہےاور فوراً انسانی زندگی کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ چنانچہ بعض ایسے زہر بھی ہیں جو صرف سونگھنے سے یا جسم پر ملنے سے اثر کر جاتے ہیں۔

تفسیر۔ جانّ جیسا کہ لغت سے ظاہر ہے جِنّ کا اسم جنس ہے اور اس کے معنی پردہ ڈالنے یا اندھیرا کر دینے والے کے ہیں۔اور تاریک ہو جانے اور پوشیدہ ہونے کے بھی۔پس وضع لغت کے لحاظ سے ہر وہ شے جو دوسری شے کو پوشیدہ کر دے، اس پر پردہ ڈال دے یا تاریک کر دے وہ جِنّ ہے۔ یا ہر وہ شےجو خود تاریکی میں بڑھ جائے یا نظروں سے پوشیدہ ہو یا ہو جائے جِنّ ہے۔ عام خیال کے مطابق جِنّ ایسی مخلوق ہے جو انسانوں کو نظر نہیں آتی سوائے اس کے کہ خود اپنے آپ کو ظاہر کرے۔ اس قِسم کی مخلوق کے متعلق دنیا میں عام خیال پایا جاتا ہے، بعض قومیں یہ عقیدہ رکھتی ہیں کہ فرشتے ہی اچھے اور برے ہو جاتے ہیں۔ اور اس طرح وہ فرشتوں اور شیطانوں یا جِنّوں کو فرشتوں کی دو قسمیں قرار دیتے ہیں۔ہندوؤں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ گندھروا اور اپسرا دو قسم کی ارواح ہیں جو نظر نہیں آتیں۔ گندھرواخشکی کی روحیں ہیں اور اپسرا سمندری روحیں ہیں۔ دونوں کے ملنے سے نسلِ انسانی چلی۔چنانچہ ان کے نزدیک گندھروا اور اپسرا سے مایا اور اس کی توام بہن یامی پیدا ہوئی۔ یہ پہلا انسانی جوڑا تھا۔ گندھروا کے متعلق ان کا خیال ہے کہ ان کی الگ زمین ہے اور الگ گھوڑے ہیں، اور دریائے سندھ کے اس پار رہتے تھے۔ چنانچہ ان کے نزدیک ٹیکسلا کا شہر گندھروا دیسا میں ہے۔ (انسائیکلو پیڈیا، برٹینیکا جلد 10زیر لفظ گندھروا، اور جلد دوم زیر لفظ اپسرا)

زردشتیوں میں بھی یہ خیال پایا جاتا ہے مگر کسی قدر اختلاف کے ساتھ۔ان کے نزدیک خدا دو ہیں، ایک نیکی کا خدا اور اس کا نام اہر مزد ہے۔ اور ایک بدی کا خدا، اور اس کا نام اہرمن ہے۔ نیکی کے خدا کا بھی ایک لشکر ہے جن کو فرشتے کہنا چاہیئے۔ اسی طرح اہرمن کا بھی ایک لشکر ہے، جسے ہماری اصطلاح میں شیطانوں کی جماعت کہنا چاہیئے۔

یونانیوں میں بھی بعض اچھی اور بُری ارواح کا خیال پایا جاتا ہے۔ چنانچہ فیثا غورث اور افلاطون کے تابعین میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ انسانوں کے علاوہ بعض نہ نظر آنے والی ارواح ہیں جن میں کچھ بد اور کچھ نیک ہیں۔

(انسائیکلو پیڈیا ببلیکاجلد اوّل زیر لفظ ڈیمن)

یہود میں فرشتوں اور شیطانوں کی صورت میں نہ نظر آنے والی ہستیوں کے وجود کا اقرار پایا جاتا ہے۔ چنانچہ صحف موسیٰ میں فرشتوں کا ذکر بھی موجود ہے اور شیطانوں کا بھی اور گندی ارواح کا بھی۔ چنانچہ فرشتوں کا ذکر حضرت یعقوب کی خواب میں ہے:’’ اور خواب دیکھا اور کیا دیکھتا ہے کہ ایک سیڑھی زمین پر دھری ہے اور اُس کا سر آسمان کو پہنچا ہے، اور دیکھو خدا کے فرشتے اس پر چڑھتے اُترتے ہیں۔‘‘(پیدائش باب 28آیت12)شیطان کا ذکر حضرت آدم کے قصّہ میں آتا ہے۔ جب شیطان نے حضرت حوّا کو ورغلا کر ممنوع درخت کا پھل کھلایا۔ اس جگہ اس کا نام سانپ رکھا ہے لیکن مراد شیطان ہی ہے۔ اور سانپ سے جِنّ یا بد روحوں کو مراد لینا قدیم محاورہ ہے۔ عربی زبان میں بھی سانپ کا ایک نام جانّ ہے۔ اورہندوؤں یونانیوں وغیرہ میں بھی یہ خیال پایا جاتا ہےکہ بعض سانپ جِنّات کی قِسم ہیں۔

بد ارواح کا ذکر استثناء باب 32آیت 17 میں یوں آتا ہے ’’ انہوں نے شیطانوں کے لئے قربانیاں گزرانیں، نہ خدا کے لئےبلکہ ایسے معبودوں کے لئے جن کو آگے وے نہ پہنچاتے تھے، جو نئے تھے اور حال میں معلوم ہوئے، اور ان سے تیرے باپ دادےنہ ڈرتے تھے۔‘‘ان شیطانوں سے مراد بَد ارواح ہیں کیونکہ لکھا ہے کہ بنی اسرائیل انہیں پہلے نہ جانتے تھے۔ورنہ شیطانوں کو تو وہ جانتے تھے۔بائبل کے علاوہ یہود کے لٹر یچر میں جِنّات پر خاص زور ہے۔ شرکی ربّی الیعذر نے لکھا ہے کہ جِنّ شمالی علاقوں میں رہتے ہیں، اور میگاتی میں لکھا ہے کہ وہ فرشتوں کی طرح اُڑتے ہیں، شبات طالمود میں لکھا ہے۔انسان ان سے تعلق رکھ سکتے ہیں اور وہ آسمان کی خبریں سن لیتے ہیں۔

(جیوئش انسائیکلو پیڈیا زیر لفظ ڈیمن)

مسیحیوں میں بد ارواح کا ذکر خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اناجیل میں بدروحوں کے نکالنے کو یسوع کا خاص کام بتایا گیا ہے بلکہ ان کے بعد اُن کے حواری بھی بدروحوں کو نکالتے رہے۔اناجیل کے بیان کے مطابق تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانہ میں جِنّات دیوانےہو رہے تھے ہر شہر اور ہر قصبہ میں لوگوں پرآکر قبضہ کر لیتے تھے اور بعض دفعہ تو سینکڑوں آدمیوں پر یکدم قبضہ کر لیتے تھے۔

(دیکھو متی باب 8آیت6و28۔مرقس باب 1آیت 32و34)

مسلمانوں کا عام عقیدہ یہ ہے کہ نظر نہ آنے والی ارواح تین قِسم کی ہیں (1)فرشتے جو سب نیک ہیں بعض کے خیال میں ان میں سے بعض بَدّ بھی ہو جاتے ہیں جیسے کہ شیطان کہ وہ پہلے فرشتہ تھا یا ہاروت ماروت۔(2) شیطان کہ وہ سب بُرے ہوتے ہیں۔ (3)جنّ کہ وہ نیک بھی ہوتے ہیں اور بد بھی۔ جو جِنّ بد ہوتے ہیں وہ لوگوں پر قبضہ کر لیتے ہیں اور بعض تدابیر سے جِنّوں پر قبضہ بھی کیا جا سکتا ہے اور ان سے کام بھی لیا جاسکتا ہے۔

قرآن مجید میں جہاں تک الفاظ کا تعلق ہے فرشتوں شیطانوں اور جِنّوں تینوں کا ذکر موجود ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جِنّ نیک بھی ہوتے ہیں اور بد بھی۔ جیسا کہ سورۃ جِنّ میں آتا ہے

مِنَّا الصّٰلِحُوۡنَ وَ مِنَّا دُوۡنَ ذٰلِکَ (الجن :12)

یعنی جِنّوں نے ایک دوسرے سے کہا ہم میں سے نیک بھی ہیں اور بُرے بھی۔ اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جِنّ انسانوں کے تابع بھی ہو جاتے ہیں اور ان کے کام کرتے ہیں جیسا کہ حضرت سلیمانؑ کے بارے میں آتا ہے

وَ مِنَ الۡجِنِّ مَنۡ یَّعۡمَلُ بَیۡنَ یَدَیۡہِ بِاِذۡنِ رَبِّہٖ(سباء :13)

یعنی جِنّوں میں سے بھی کچھ افراد حضرت سلیمان ؑ کے حکم کے ماتحت اور اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ان کے کام کیا کرتے تھے۔یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جِنّ حضرت موسی ؑپر بھی ایمان لائے تھے اور رسول کریم ﷺپر بھی ایمان لائے۔(سورۃ الجِنّ ع1)

احادیث میں بھی جِنّوں کا ذکر ہے۔ لکھا ہے کہ جِنّوں کا ایک قافلہ رسول کریم ﷺ سے ملنے کے لئے آیا۔(مسلم جز اوّل باب الجہر با لقرأۃ فی الصبح) اور یہ بھی آتا ہے کہ ہڈی گوبر وغیرہ جِنّوں کی غذا ہیں اس لئے ان سے استنجا نہیں کرنا چاہیئے۔(ترمذی جلد اوّل ابواب الطہارت، ابو داؤد کتاب الطہارت)۔علامہ سندھی مصنّف مجمع البحار لکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہؓ کا یہ مذہب تھا کہ نیک جنّات صرف عذاب سے نجات پائیں گے جَنّت میں نہیں جائیں گے۔لیکن امام مالک ؒاور امام بخاری ؒکا یہ مذہب تھا کہ وہ جَنّت میں بھی جائیں گےاور انہیں ثواب ملے گا۔ مجمع البحار میں ہی ابن عربی کا قول نقل کیا ہے کہ سب مسلمانوں کا یہ مسلّمہ مسئلہ ہے کہ جِنّ کھاتے پیتے اور نکاح کرتے ہیں۔(جلد اوّل زیر لفظ جِنّ)

میرے نزدیک جِنّ کا لفظ قرآن کریم اور احادیث میں کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔اور یہ مختلف استعمال جِنّ کے مختلف معنوں پر مبنی ہیں، یعنی ’’ مخفی ہونے والا’’یا ‘‘ مخفی کرنے والا‘‘۔ ان معنوں کی رُو سے مختلف اشیاء یا ارواح یا انسان جو عام طور پر نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔یا وہ اشیاء یا ارواح یا انسان جو دوسری اشیاء پر پردہ ڈالتے ہیں جِنّ کہلاتے ہیں۔ اور چونکہ یہ فعل مختلف وجودوں سے ظاہر ہوتا ہے۔اس لئے مختلف چیزوں یا ہستیوں کا نام اسلامی اصطلاح میں جِنّ رکھا گیا ہے۔ قرآن کریم میں جِنّات کا ذکر مندرجہ ذیل مقامات پر آتا ہے

(1)سورۃ حجر کی زیر تفسیر آیت کہ اس میں جِنّات کی پیدائش کا ذکر ہے کہ وہ نارِ سَمُوْم سے پیدا ہوئے۔

(2)سورۃ رحمٰن [آیت 16]میں فرماتا ہے

وَ خَلَقَ الۡجَآنَّ مِنۡ مَّارِجٍ مِّنۡ نَّارٍ

جِنّوں کو ہم نے ایک لپٹیں مارنے والے آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ہے۔

(3)ابلیس کی نسبت آتا ہے کہ اُس نے اللہ تعالیٰ سے کہاکہ

خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ(سورۃ الاعراف آیت 13، سورۃ ص آیت 77)

تونے مجھے تو آگ سے پیدا کیا ہے اور آدم کو پانی ملی ہوئی مٹی سے۔

(4)پھر ابلیس کی نسبت یہ بھی آتا ہے کہ

کَانَ مِنَ الۡجِنِّ فَفَسَقَ عَنۡ اَمۡرِ رَبِّہٖ (سورۃ الکہف آیت 51)

وہ جِنّوں میں سے تھا پھر وہ اللہ کی اطاعت سے نکل گیا۔ معلوم ہوا کہ ابلیس کی ناری طینت اس کے جِنّوں میں سے ہونے کے سبب تھی۔

(5)جِنّ شہوانی قوتیں بھی رکھتے ہیں چنانچہ سورۂ رحمٰن میں جَنّت کی عورتوں کی نسبت فرماتا ہے

لَمۡ یَطۡمِثۡہُنَّ اِنۡسٌ قَبۡلَہُمۡ وَ لَا جَآنٌّ (آیت 57)

ان کو نہ انسانوں نہ جِنّوں نے اس سے پہلے کبھی چھؤا ہوگا۔(یہ ذکر اس رکوع میں دو دفعہ آیا ہے)

(6)سورۂ رحمٰن میں ایک یوم حساب کا ذکر ہے۔ اس کے ذکر میں فرماتا ہے

فَیَوۡمَئِذٍ لَّا یُسۡـَٔلُ عَنۡ ذَنۡۢبِہٖۤ اِنۡسٌ وَّ لَا جَآنٌّ (سورۃ رحمٰن آیت 40)

اس دن انسانوں یا جِنّوں سے ان کے گناہوں کے بارہ میں پوچھا نہ جائے گا بلکہ ان کے گناہوں کی وجہ سے ایک عام تباہی ان پر لائی جائے گی۔

(7)جِنّ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں، فرماتا ہے

وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ (سورۃ الذاریات آیت 57)

(8)مشرک لوگ اللہ تعالیٰ اور جِنّات کے درمیان رشتہ داری بتاتے ہیں

وَجَعَلُوۡا بَیۡنَہٗ وَ بَیۡنَ الۡجِنَّۃِ نَسَبًا (سورة الصافات آیت 159)

(9)مشرک لوگ جِنّوں کو خدا کا شریک بتاتے ہیں

وَ جَعَلُوۡا لِلّٰہِ شُرَکَآءَ الۡجِنَّ وَ خَلَقَہُمۡ وَ خَرَقُوۡا لَہٗ بَنِیۡنَ وَ بَنٰتٍۭ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ (سورۃ الانعام آیت 101)

انہوں نے جِنّوں میں سے اللہ تعالیٰ کے شریک تجویز کئے ہوئے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا ہے۔ اور بغیر کسی علم کے انہوں نے اللہ کے لئے لڑکے اور لڑکیاں اپنے خیالوں میں بنا رکھی ہیں۔ اسی طرح آتا ہے

بَلۡ کَانُوۡا یَعۡبُدُوۡنَ الۡجِنَّ(سورۃ سباء آیت 42)

قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھے گا کہ کیا مشرک انسان تم کو پُوجتے تھے، تو وہ کہیں گے نہیں بلکہ یہ جِنّوں کو پُوجتےتھے۔

(10)جِنّوں میں سے ایک گروہ لوگوں کو گمراہ بھی کرتا ہے

الَّذِیۡ یُوَسۡوِسُ فِیۡ صُدُوۡرِ النَّاسِ مِنَ الۡجِنَّةِ وَ النَّاسِ (سورۃ الناس آیت 7،6)۔

نیز

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا رَبَّنَاۤ اَرِنَا الَّذَیۡنِ اَضَلّٰنَا مِنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ نَجۡعَلۡہُمَا تَحۡتَ اَقۡدَامِنَا لِیَکُوۡنَا مِنَ الۡاَسۡفَلِیۡنَ (سورۃ حم سجدہ آیت 30)

اور کفار کہیں گےکہ اے ہمارے رب ہمیں ذرا وہ جِنّ اور انسان جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا دکھا تو سہی۔ کہ ہم انہیں اپنے قدموں تلے روندیں تاکہ وہ ذلیل ترین وجود ہو جائیں۔ نیز فرمایا

وَکَذٰلِکَ جَعَلۡنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیۡنَ الۡاِنۡسِ وَ الۡجِنِّ یُوۡحِیۡ بَعۡضُہُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ زُخۡرُفَ الۡقَوۡلِ غُرُوۡرًا (سورۃ الانعام آیت 113)

اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بنائے ہیں جِنّ شیطان بھی اور انسان شیطان بھی۔ وہ ایک دوسرے کو دھوکا دینے کے لئے جھوٹی باتیں سناتے رہتے ہیں۔ نیز فرمایا

یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ قَدِ اسۡتَکۡثَرۡتُمۡ مِّنَ الۡاِنۡسِ(سورۃ الانعام آیت 129)

اے جِنّوں کی جماعت تم نے بہت سے انسانوں کو خراب کیا۔

(11)جِنّ دوزخ میں بھی جائیں گے، فرماتا ہے

قَالَ ادۡخُلُوۡا فِیۡۤ اُمَمٍ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ فِی النَّارِ (سورۃ الاعراف آیت 39)

یعنی جب فرشتے کفار کی جان نکالتے ہیں تو اُن سے کہتے ہیں، تم سے پہلے جو جِنّ اور انسان فوت ہوچکے ہیں ان کے ساتھ تم بھی دوزخ میں داخل ہو جاؤ۔ نیز فرمایا

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ حَقَّ عَلَیۡہِمُ الۡقَوۡلُ فِیۡۤ اُمَمٍ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا خٰسِرِیۡنَ (سورۃ احقاف آیت 19)

یعنی یہ کفار بھی ان گروہوں میں جاشامل ہوں گے جو جِنّوں اور انسانوں میں سے پہلے گزر چکے ہیں، اور جن پر اللہ تعالیٰ کی حجت پوری ہو چکی ہے، اور وہ عذاب کے مستحق قرار پا چکے ہیں۔ یہ سب لوگ گھاٹا پانے والے ہو گئے۔ یہی الفاظ حَقّ سے لےکر خَاسِرِیْن تک سورۃ حم سجدہ آیت 27میں بھی مذکور ہیں۔ نیز فرماتا ہے

وَ لَقَدۡ ذَرَاۡنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ ۫ۖ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ (سورۃ الاعراف آیت 180)

اور ہم نے بہت انسانوں اور جِنّوں کو دوزخ کے لئے پیدا کیا ہے۔اور یہ وہ ہیں جن کو دل دئے گئے مگر انہوں نے ان سے سمجھنے میں کام نہ لیا۔ انہیں آنکھیں دی گئیں مگر انہوں نے ان سے دیکھا نہیں۔ انہیں کان تو دئے گئے لیکن انہوں نے ان سے سنا نہیں۔

(12)بعض انسان بعض جِنّات کی پناہ میں رہتے ہیں، اور اس وجہ سے جِنّ مغرور ہو جاتے ہیں

وَّ اَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الۡاِنۡسِ یَعُوۡذُوۡنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الۡجِنِّ فَزَادُوۡہُمۡ رَہَقًا (سورۃ جن آیت 7)

یعنی حقیقت یہ ہے کہ کچھ مرد انسانوں میں سے جِنّوں کے مَردوں کی پناہ لیتے تھے۔ اس طرح انہوں نے جِنّوں کو اور بھی ظلم اور گناہ میں بڑھا دیا۔

(13)جِنّ انسانوں کی طرح کام بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت سلیمانؑ کے ماتحت وہ کام کرتے تھے، فرماتا ہے

وَ حُشِرَ لِسُلَیۡمٰنَ جُنُوۡدُہٗ مِنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ( سورۃ نمل آیت 18)

سلیمان کے حکم کو پورا کرنے کے لئے جِنّوں اور انسانوں کے لشکر جمع کئے گئے۔نیز فرماتا ہے

وَ مِنَ الۡجِنِّ مَنۡ یَّعۡمَلُ بَیۡنَ یَدَیۡہِ بِاِذۡنِ رَبِّہٖ (سورۃ سباء آیت 13)

اور جِنّوں میں سے بھی ایک جماعت ان کی نگرانی میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے کام میں لگی ہوئی تھی۔ نیز فرماتا ہے

قَالَ عِفۡرِیۡتٌ مِّنَ الۡجِنِّ اَنَا اٰتِیۡکَ بِہٖ قَبۡلَ اَنۡ تَقُوۡمَ مِنۡ مَّقَامِکَ(سورۃ نمل آیت 40)

اور جِنّوں میں سے ایک نہایت سمجھ دار کار گذار جِنّ نے کہا میں آپ کی مطلوبہ شئے (ملکہ سبا کا تخت) آپ کے اس مقام سے کوچ کرنے سے پہلے حاضر کر سکتا ہوں۔

(14)جِنّ قرآن کی مثال نہیں بنا سکتے۔ فرماتا ہے

قُلۡ لَّئِنِ اجۡتَمَعَتِ الۡاِنۡسُ وَ الۡجِنُّ عَلٰۤی اَنۡ یَّاۡتُوۡا بِمِثۡلِ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لَا یَاۡتُوۡنَ بِمِثۡلِہٖ وَ لَوۡ کَانَ بَعۡضُہُمۡ لِبَعۡضٍ ظَہِیۡرًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 89)

تو کہہ دے کہ اگر انسان اور جِنّ مل کر بھی اس قرآن کی مثیل بنانا چاہیں تو نہیں بنا سکتے خواہ وہ دونوں مل کر ایک دوسرے کی مدد ہی کیوں نہ کریں۔

(15)جِنّ محمد رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں آئے، اور قرآن سنا۔ فرماتا ہے

وَ اِذۡ صَرَفۡنَاۤ اِلَیۡکَ نَفَرًا مِّنَ الۡجِنِّ یَسۡتَمِعُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ ۚ فَلَمَّا حَضَرُوۡہُ قَالُوۡۤا اَنۡصِتُوۡا ۚ فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوۡا اِلٰی قَوۡمِہِمۡ مُّنۡذِرِیۡنَ (سورۃ الاحقاف آیت 30)

اور جب کہ ہم جِنّوں کی ایک جماعت کو تحریک کرکے تیرے پاس لائے تاکہ وہ قرآن سُنیں۔ پھر جب وہ قرآن سُنانے کی مجلس میں حاضر ہوئے تو انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ خاموش (ہوکر قرآن سُنو)۔ پھر جب قرآن کی تلاوت ختم ہوئی تو وہ اپنی قوم کی طرف چلے گئے اور تاکہ وہ انہیں ہوشیار کریں۔ سورۃ جِنّ میں بھی فرمایا ہے

اُوۡحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسۡتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الۡجِنِّ فَقَالُوۡۤا اِنَّا سَمِعۡنَا قُرۡاٰنًا عَجَبًا (سورۃ جِنّ آیت 2)

میری طرف وحی کی گئی کہ کچھ جِنّوں نے قرآن سُنا تو اپنی قوم کو جا کر کہا کہ ہم نےعجیب(پُرلطف)تلاوت سنی ہے۔

(16)جِنّات آپ پر ایمان لائے۔ چنانچہ اوپر کی آیت کے بعد ہی ان جِنّوں کا قول بیان کیا ہے فَاٰمَنَّا بِہٖ ہم اس کلام پر ایمان لے آئے ہیں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد4صفحہ57تا62)

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button