ربوہ، ربوہ ہے!

(آصف محمود باسط)

ربوہ، ربوہ ہے!

بزبان حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ

کچھ روز قبل الفضل آن لائن میں ایک مضمون پڑھا جس میں لکھا تھا کہ ربوہ کے ذکر پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’لوگ کہتے ہیں لاہور، لاہور اے!مگر میں تو کہتا ہوں کہ ربوہ ،ربوہ ہے!یہ پڑھ کر دل کی جو کیفیت تھی، وہ بزبانِ حضور منظوم شکل میں پیش ہے۔(خاکسار،آصف محمود باسط)

وہ بستی رات کے سجدوں سے جب ابھرتی تھی

صدائے صل علیٰ  سے سحر اترتی تھی

گلی گلی کئی جگنو سے جگمگاتے تھے

نمازیوں کے قدم مسجدوں کو جاتے تھے

ابھی اندھیرا ہی ہوتا، دکانیں کھل جاتیں

تمام چیزیں ضرورت کی ان سے مل جاتیں

ضرورتیں بھی ہماری کہاں زیادہ تھیں؟

کہ زندگی کی ادائیں بہت ہی سادہ تھیں

تلاوتوں کی صداؤں سے دن نکلتا تھا

یوں شب گزیدہ  اندھیرا سحر میں ڈھلتا تھا

جہاں افق پہ ذرا روشنی نظر آتی

تو زندگی بھی در و بام پر اتر آتی

پھر آفتاب جو ہمراہ لے کے دھوپ آتا

ہمارے شہرِ محبت پہ کیسا روپ آتا

کہیں پہ جانبِ مکتب رواں دواں ہیں قدم

ہیں نونہال اگرچہ، مگر جواں ہیں قدم

لو دفتروں کی عمارت میں گھنٹہ گونج اٹھا

حیاتِ نو سے بدن ذرہ ذرہ گونج اٹھا

اور اب تو شام تک کارِ جہاں کا راج ہوگا

سبھی کے سر پہ وقارِ عمل کا تاج ہوگا

کوئی اشاعت و تصنیف میں مگن ہوگا

کوئی فتاویٰ کی تالیف میں مگن ہوگا

کہیں پہ دین کی تدریس چل رہی ہوگی

کہیں کتاب میں تحقیق ڈھل رہی ہوگی

کہیں پہ روز کے اخبار چھپ رہے ہوں گے

خیال تجربہ گاہوں میں کھپ رہے ہوں گے

سوال کوئی کسی کو ہوا ہے ذہن نشین

تو کتب خانے میں جا کر ہوا پناہ گزین

اسی طرح مری بستی میں دن گزرتا تھا

ہر ایک، کام سے صبح کو شام کرتا تھا

ہر ایک کام نمازوں کے گِرد گھومتا تھا

وہ شہر عشقِ الہی میں جیسے جھومتا تھا

_______

میں اپنی بستی سے باہر بھی جاتا رہتا تھا

پر اس کی یاد کا دریا بھی ساتھ بہتا تھا

جہاں کہیں بھی گیا، لوٹ کر وہیں پہنچا

واں ابتلا بھی گر آیا، تو دکھ نہیں پہنچا

پھر ایک دن مجھے بستی سے دور جانا پڑا

اک امتحان تھا، مجھ کو ضرور جانا پڑا

مجھے یقین تھا میں جلد لوٹ آؤں گا

بھلا میں چھوڑ کر اس کو کہاں پہ جاؤں گا

بچھڑتے وقت میں جوں جوں قدم اٹھاتا تھا

وہ شہر میرے بدن سے لپٹتا جاتا تھا

کہ جیسے کہتا ہو کیوں جا رہے ہو، لوٹ آؤ

خدارا مجھ کو تم ایسے نہ چھوڑ کر جاؤ

مگر وہ وقت کڑا تھا، سو میں بھی چلتا رہا

وہ بن کے ریت مرے ہاتھ سے پھسلتا رہا

ہزاروں میل کی لمبی اڑان تھی درپیش

کسے خبر تھی کہ رہنی ہے یہ ہمیشہ ہمیش

مرے وجود سے مَس ہو گیا تھا حرفِ کُن

مشامِ جاں میں بسا دی گئی تھی ایک ہی دھُن

خدا کی ذات کا دنیا کو میں نشاں دے دوں

میں کُل جہان میں توحید کی اذاں دے دوں

میں شہر شہر گیا، اپنے شہر جا نہ سکا

جو لوٹ آنے کا وعدہ تھا، وہ نبھا نہ سکا

مگر وہ شہر مرے روح و تن میں بستا ہے

میرا خیال اسی کے چمن میں بستا ہے

_______

جہاں بھی جاؤں، تجھے دل میں لے کے جاتا ہوں

میں مُلک مُلک، ترا بیج بو کے آتا ہوں

کہ تیرے جیسا نہیں کوئی، یہ صدا ہے مری

کہ تیری شان سلامت رہے، دعا ہے مری

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button