متفرق مضامین

اسلام اور غیر مسلم رعایا (قسط سوم)

(حضرت ملک سیف الرحمان صاحب مرحوم)

کیا یہ پابندیاں کسی شرعی نص سے ثابت ہیں ؟

اب ہم اس سوال کو لیتے ہیں کہ ان پابندیوں کے جواز کی آخر شرعی سند کیا ہے۔ کیا قرآن کریم میں ان پابندیوں کا ذکر ہے یا سنتِ رسولؐ سے ان کا پتہ چلتا ہے۔ فقہاء نے اس سوال کا جو جواب دیا ہے اس کا خلاصہ انہی کے الفاظ میں سنئے۔ فرماتے ہیں:

ان قیل لم یاخذالنّبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بذلک قلنا انّھم فی زمن النّبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانوا معروفین لایشتبہ حالھم … ثمَّ فی زمن عمر وقعت الحاجۃ الیٰ ذٰلک فامر بذٰلک بمحضرمن الصّحابۃ وکانوا یرونہ صوابًا۔ (کنزالدقائق صفحہ 191حاشیہ 8)

(19)’’اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ ذمّیوں پر اس قسم کی پابندیاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عائد نہیں تھیں اس لیے یہ شریعت کے خلاف ہیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپؐ کے زمانے میں ذمّی جانے پہچانے گنے چُنے چند معروف لوگ تھے۔ ان کا اشتباہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا لیکن حضرت عمرؓ کے زمانہ میں اس کی ضرورت کا احساس ہوا اور آپؓ نے حکم دیا کہ اس قسم کی پابندیاں عائد کی جائیں۔ اس وقت متعدد صحابہؓ موجود تھے۔ اور کسی نے حضرت عمرؓ کے اس اقدام پر اعتراض نہیں کیا تھا۔‘‘

اس حوالہ میں فقہاء نے خود یہ اعتراف کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک میں ذمّیوں کے متعلق مذکورہ بالا قسم کی پابندیوں کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ نئے معبدوں کی ممانعت کے متعلق ابن ماجہ کی جو حدیث پیش کی جاتی ہے۔ اور جس کا ذکر چوتھے حکم کی تفصیلات میں آچکا ہے۔ اسے خود محدثین نے ضعیف اور مضطرب مانا ہے۔ بلکہ اس کے ایک راوی کے متعلق امام بخاری نے لکھا ہے کہ وہ بعض اوقات جھوٹ بول جایا کرتا تھا۔ (نصب الرایہ صفحہ 454جلد 3)

اسی طرح فقہاء کو یہ بھی اعتراف ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کا زمانہ بھی ان پابندیوں سے یکسر خالی ہے۔ اب ہم حضرت عمرؓ کے عہدِخلافت میں پہنچتے ہیں۔ تاریخی حقائق آپ کے مبارک عہد کو بھی اس قسم کی پابندیوں سے پاک ٹھہراتے ہیں۔ اس دعویٰ کی تائید میں اندرونی اور بیرونی دونوں قسم کے شواہد موجود ہیں۔ چنانچہ پہلے ہم اندرونی شواہد کو لیتے ہیں۔ فقہاء کی طرف سے ان پابندیوں کے نفاذ کے لیے حضرت عمرؓ کے زمانہ کا جو معاہدہ بیان کیا جاتا ہے اور جسے ابن مندہ نے روایت کیا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں:

غلط بنیاد۔ ایک جعلی معاہدہ

ھذا کتاب لعبداللّٰہ عمر امیرالمومنین من نصارٰی مدنیۃ کذاوکذا انکم قدمتم علینا فسالناکم الامان لانفسنا وذرارینا واموالنا واہل ملّتنا۔ وشرطنالکم علٰی انفسنا ان لانحدث فی مدینتنا ولا فی ماحولھا دیرا و لا کنیسۃ ولاصومعۃ راھبٍ ولانجدّوماضرب منہا ولالحی ماکان منہا فی خطط المسلمین۔ ولانمح کنائسنا ان ینزلھا احدٌ من المسلمین فی لیلٍ و لانھار۔ نوسع ابوابھا للمارّۃ وابن السبیل وان ینزل من مرّینا من المسمین ثلثۃ ایّام نطعمھم وان لانومن فی کنائسنا ولامنازلنا جاسوسا ولانکتم عینا للمسلمین ولانعلّم اولَادنالقران ولانظھرشرکا ولاندعوا الیہ احدا ولا نمنع احدا من اھلنا الدخول فی الاسلام ان ارادوا و ان نوقرالمسلمین وان تقوم لھم من مجالسنا ان ارادوا جلوسا ولانتشبہ لھم فی شیءٍ من لباسھم من قلنسوۃ ولاعمامۃ ولانعلین ولافرق شعر ولانتکلّم لکلامھم ونتکنّی بکناھم ولانرکب السروج ولانُنَقّش خواتینا بالعربیۃ ولانبیعُ الخموروان نجٌزّ مقادیم رؤوسنا وان نلزم زینا حیثما کنّاوان نشدّالزنانیر علی اوساطنا وان لانظھر صُلُبنا وکتبنا فی شیءٍ من طرق المسلمین ولا اسرقھم وان لانظھرالصّلب علیٰ کنائسنا وان لانضرب بناقوس فی کنائسنا بین حضرت المسلمین وان لانخرج سعاتینا ولا یاغوثا ولانرفع اصواتنا مع امواتنا ولانظھر النیران معھم فی شیءٍ من طرق المسلمین ولاتجاورھم موتٰنا شرطنا لکم ذلک … فان نحن خالفنا ماشرطنا لکم فضمناہ علی انفسنا فلاذمّۃ لنا وقد حل لکم من اھل المعاندۃ والشّقاق۔ (کنزالعمّال، صفحہ 302 جلد2 بروایت ابن مندہ فی مزائب لشعبہ)

(20)’’شام اور فلاں فلاں شہر کے عیسائیوں نے اللہ تعالیٰ کے غلام امیر المومنین حضرت عمرؓکی خدمت میں یہ معاہدہ لکھا کہ تمہاری فوجیں ہم پر غالب آئیں۔ اس لیے ہم نے تم سے اپنے لیے، اپنے اہل و عیال اور اپنے اموال اور اپنی قوم کے لیے امان چاہی اور اس کے عوض مندرجہ ذیل شرائط کو اپنے لیے خود پسند کیا۔ ہم اپنے شہر اور اس کے مضافات میں اپنا کوئی معبد اور اپنی کوئی خانقاہ تعمیر نہیں کریں گے نہ پُرانے معبدوں کو از سرِ نو بنائیں گے۔ اسی طرح باہر سے آنے والے مسلمانوں کو معبدوں میں قیام کرنےسے بھی نہیں روکیں گے۔ وہ دن کے وقت آئیں یا رات کے وقت ان کے لیے ان کے دروازے ہر وقت کھلے رہیں گے۔ تین دن تک ہم ان کی مہمان نوازی کے فرض کو بھی بجا لائیں گے۔ اپنے گرجوں میں مسلمانوں کے خلاف کسی جاسوس کو پناہ نہیں دیں گے۔ اپنی اولاد کو قرآن کریم نہیں پڑھائیں گے۔ شرک و بدعت کا نہ خود ارتکاب کریں گے اور نہ ہی اس کی تبلیغ کریں گے۔ کسی کو اسلام قبول کرنے سے بھی نہیں روکیں گے۔ مسلمانوں کی عزت کریں گے اور اگر وہ ہماری مجلس میں بیٹھنا چاہیں تو ہم اٹھ کھڑے ہوں گے اور ان کے لیے جگہ خالی کر دیں گے۔ مسلمانوں کے لباس کی نقل نہیں کریں گے۔ نہ ٹوپی پہنیں گے نہ پگڑی، نعلیں کی طرز جوتی کا استعمال بھی نہیں کریں گے۔ اسی طرح اپنے بالوں میں مانگ بھی نہیں نکالیں گے۔ عربی زبان نہیں بولیں گے اور نہ ہی مسلمانوں کی سی کنیت کا اپنے ہاں رواج ہونے دیں گے۔ کاٹھی پر سواری نہیں کریں گے اور اپنی انگوٹھیوں میں عربی حروف کندہ نہیں کروائیں گے مسلم آبادی میں شراب کی خریدو فروخت نہیں کریں گے۔ بطور علامت اپنے ماتھے کے اگلے بال کٹوا دیں گے اور اپنے مخصوص لباس کا التزام کریں گے۔ اپنی کمروں میں زنّار باندھیں گے۔ مسلم علاقوں میں اپنی صلیب اور کتب کا جلوس نہیں نکالیں گے۔ مسلمانوں کی موجودگی میں اپنے گرجوں میں نہ صلیب کا مظاہرہ کریں گے اور نہ ہی ناقوس بجائیں گے۔ اپنی مورتیوں کا جلوس بھی نہیں نکالیں گے۔ (رواہ ابن مندہ فی غرائب الشعبہ)

اس معاہدہ کے جعلی ہونے کے ثبوت

یہ معاہدہ سند کے لحاظ سے انتہائی مشتبہ ہے۔ غرائب الشعبہ حدیث کی کوئی مستند کتاب نہیں ہے۔ نیز اس کتاب کی کوئی تاریخی اہمیت بھی نہیں۔ علاوہ ازیں ابن مندہ کا روایت کردہ یہ معاہدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس امان نامہ کے بھی سراسر خلاف ہے جو آپ نے سینٹ کیتھرائن کے راہبوں کو لکھ کر دیا تھا۔ اور جس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ باقی حضرت عمرؓ پر یہ الزام لگانا کہ نعوذ باللہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی یا ان کو اس معاہدہ کا علم نہ تھا۔ خود الزام لگانے والے کی نادانی اور کمزوریٔ ذہن کی دلیل ہے۔ پھر عبارت کی ژولیدگی اور اس کا اندرونی بے ربط ڈھانچہ خود اس معاہدہ کے جعلی ہونے کو قطعی طور پر ثابت کر رہا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں کبھی بھی یہ پابندیاں عائد نہیں ہوئیں کہ غیر مسلم قرآن کی تعلیم حاصل نہ کریں بلکہ اس کے برعکس قرآن کریم نے بار بار مخالفین کو غور و فکر کی دعوت دی ہے۔ فرمایا: ۔

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ

(کیا تم قرآن پر غور و فکر نہیں کرتے)پھر کہا: ۔

وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ

(یعنی ہم نے قرآن کو آسان بنایا ہے۔ کیا کوئی نصیحت قبول کرلے گا)جو قرآن یہ دعوت دیتا ہے وہ اپنے مطالعہ پر اس پابندی کی کیسے حمایت کر سکتا ہے۔ اسی طرح عربی زبان کے سیکھنے پر بھی کبھی پابندی نہیں لگائی گئی۔ سینکڑوں غیر مسلم عربی کے فاضل ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب شام کے علاقہ جابیہ میں تشریف لے گئے تو وہاں آپ نے ایک تقریر کی جس میں آپ کا ترجمان ایک عیسائی پادری تھا جو بشپ کا نائب اور جاثلیق کے عہدہ پر فائز تھا۔ (ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء مقصد دوم صفحہ 135)

اسی طرح اخطل کے شاعرانہ کمال سے کون واقف نہیں۔ یہ بنو امیہ کے دربار کا مایہ ناز عیسائی شاعر تھا۔ مشہور عیسائی ابن اثال حضرت امیر معاویہؓ کا طبیب خاص اور درباری ترجمان تھا۔

پھر مسلمانوں نے ہمیشہ غیر مسلموں کے معبدوں کا احترام کیا ہے اور اس کے کبھی روادار نہیں بنے کہ وہ ان معبدوں میں رہائش اختیار کریں۔ اس کے برعکس مختلف معاہدوں میں خود مسلمانوں کی طرف سے یہ شرط موجود ہے کہ وہ غیر مسلم معبدوں میں قیام نہیں کریں گے۔ چنانچہ بیت المقدس کے عیسائیوں سے جو معاہدہ ہوا اس میں یہ شرط موجود ہے۔ یہ معاہدہ خود حضرت عمرؓکی موجودگی میں طے پایا تھا۔

اس معاہدے کے بعض اہم حصے ہم اپنے دعویٰ کی تائید میں یہاں نقل کرتے ہیں۔ چنانچہ لکھا ہے:

ھذا ما اعطی عبداللّٰہ عمر امیرالمومنین اھل ایلیاء من الامان اعطاھم امانًا لانفسہم واموالھم وکنائسہم وصُلبانہم وسقیمہا وبریئہا وسائر ملّتہا انّہ لایسکن کنائسھم ولاتُملَم ولایُنتقض منہا ولامن حیّزھا لامن صُلُبھم ولامن شیءٍ من اموالھم ولایکرھون علٰی دینہم ولایضار احد منھم … وعلٰی ما ھذا الکتاب عھداللّٰہ وذمّۃ رسولہٖ وذمۃ الخلفاء وذمّۃالمومنین اذا اعطوا الذی علیھم من الجزیۃ۔ (کتاب الخراج صفحہ 82)

(21)’’یہ وہ امان ہے جو خدا تعالیٰ کے غلام امیر المومنین حضرت عمرؓ نے ایلیا کے لوگوں کو دی۔ یہ امان ان کی جان و مال، گرجا اور صلیب، ان کے تندرست اور بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لیے ہے۔ ان کے گرجوں میں نہ سکونت اختیار کی جائے گی اور نہ وہ ڈھائے جائیں گے۔ نہ ان کو نہ ان کے احاطہ کو کچھ نقصان پہنچایا جائے گا۔ ان کے مال میں بھی کچھ کمی نہیں کی جائے گی۔ مذہب کے بارہ میں ان پر کوئی جبر نہیں کیا جائے گا۔ اور نہ ان میں سے کسی کو کوئی تکلیف دی جائے گی…جو کچھ اس معاہدہ میں ہے اس پر خدا کے رسول کے خلفاء اور مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ بشرطیکہ یہ لوگ مقررہ جزیہ ادا کرتے رہیں۔ ‘‘

اسی طرح حضرت عمرؓکی طرف سے حکومت کے افسران کو یہ مستقل ہدایت تھی کہ وہ اس بات کی سختی سے نگرانی کریں کہ مسلمان ذمّیوں پر ظلم نہ کرنے پائیں اور نہ ان کے نقصان کے درپے ہوں اور ان کے اموال، مسلمانوں کی دست بُرد سے محفوظ رہیں اور جس قدر شرطیں ان سے طے ہوئی ہیں وہ سب پوری کی جائیں۔ (کتاب الخراج صفحہ 82)

اسی طرح ’’ماہ دینار‘‘ والوں سے جو معاہدہ ہوا اس کا ایک حصہ یہ تھا ’’ذمّیوں کا مذہب نہیں بدلا جائے گا اور نہ ان کی مذہبی رسوم میں کسی قسم کی مداخلت کی جائے گی۔‘‘(طبری صفحہ 2633)

غرض تاریخ کی معتبر کتب میں جتنے بھی معاہدے نقل ہوئے ہیں ان سب میں ذمّیوں کے مال و جان اور ان کے مذہب کی حفاظت کا یقین دلایا گیا ہے۔ ان کے قومی لباس سے تعرض نہیں کیا گیا اور نہ ان کی تمدنی آزادی پر کوئی پابندی عائد کی گئی ہے۔ البتہ اس میں شک نہیں کہ بعض اوقات سیاسی مصالح کے پیش نظر ذمّیوں کو فوجی لباس پہننے اور ہتھیار بند ہونے سے ضرور منع کیا گیا ہے۔ لیکن یہ کوئی قابل اعتراض اقدام نہیں تھا۔ آج کل کی تمام متمدن حکومتیں اس قسم کی پابندیاں اپنے اپنے مصالح کے پیش نظر رعایا پر عائد کرتی ہیں۔ اس سلسلہ میں حضرت امام ابو یوسفؒ کتاب الخراج میں لکھتے ہیں:

صرف فوجی وردی پہننے پر پابندی تھی!

ولھم کل مالبسوا من الزیّ الّا ذی الحرب من غیران یتشبّھوا بالمسلمین۔ (کتاب الخراج صفحہ 85)

(22 ) ’’فوجی وردی اور اسلحہ بندی کے سوا ذمّی ہر قسم کا لباس پہن سکتے ہیں۔ البتہ فوجی لباس میں مسلمانوں سے ان کی مشابہت برداشت نہیں کی جائے گی‘‘

اصل بات یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ درحقیقت مسلمانوں پر یہ زور دیتے تھے کہ وہ سادہ زندگی بسر کریں اور موٹا کھدّر کی طرز کا لباس پہنیں، محنت اور مستعدی کو اپنا شعار بنائیں اور عجمیوں کی طرح آرام طلب اور عیش پسند نہ بنیں۔ کیونکہ اسی وجہ سے وہ کاہل اور فرض ناشناس بن چکے ہیں۔ اور ان عادات نے انہیں شکست خوردہ ذہنیت والا بنا دیا ہے۔

روی البغوعن ابی عثمان الھندی یقولُ اتانا کتاب عمر بن الخطّاب و نحنُ باذربیجان مع عتبۃ بن فرقد اما بعد فاتّزروا وارتدوا وانتعلوا واتقوا الخفاف والتقوا السراویلات وعلیکم بلباس ابیکم اسماعیل۔ وایاکم والتنعم وزی العجم وعلیکم بالشمس فانھاحمام العرب … واخشو شنوا (اراد المخشونۃ فی الملبس والمطعم)(ازالۃالخفاء من خلافۃالخلفاء مقصد دوم صفحہ 207)

(23)چنانچہ ابی عثمان الہندی کی روایت ہے کہ ہم عتبہ بن فرقد کے زیر کردگی ایک سرحدی مہم کے سلسلہ میں آذربائیجان میں مقیم تھے۔ حضرت عمرؓکا خط ہمیں موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ تہبند باندھو، چادر استعمال کرو، چپل پہنو، موزے اور شلواریں پہننا چھوڑ دو۔ یعنی اپنے باپ اسماعیل کا لباس اختیار کرو اور عجمی طرز بودو باش سے پرہیز کرو کہ وہ آرام طلبی اور عیش پرستی کا عادی بنا دیتی ہے۔ کھلے آسمان اور دھوپ میں رہو کہ یہ عرب کا حمام ہے اور ان فاسد مواد کوخارج کر دیتا ہے جو بیماری لاتے ہیں۔ غرض کھردری اور سخت زندگی اختیار کرو۔

یہ تھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک عام ہدایت لیکن بدقسمتی سے بعد میں حضرت عمرؓکی اس ہدایت کی اصل روح کو لوگوں نے بھلا دیا اور غلط فہمی سے اس کے یہ معنی لے لیے گئے کہ گویا عجمیوں کے لیے مذہباً کوئی مخصوص لباس تجویز کیا گیا تھا جس کا ان کو پابند بنانا شرعاً ضروری تھا۔

پس یہ سارے حوالے ثابت کر رہے ہیں کہ شروع میں ذمی عام شہری لباس پہننے میں بالکل آزاد تھے اور ان پر اسلام کی طرف سے کسی قسم کی کوئی معاشرتی پابندی عائد نہ تھی۔ البتہ خلافت راشدہ کے بعد بنو امیّہ کے زمانہ میں بعض سیاسی مصالح کے پیش نظر بیشک بعض قسم کی پابندیاں عائد کی گئیں اور بعد میں فقہاء نے بنو امیّہ کے ان اقدامات کو مذہبی رنگ دے دیا۔ چنانچہ مشہور حنفی فاضل علامہ کاسانی اپنی شہرہ آفاق کتاب بدائع الصناع میں پابندیوں کے جواز کے متعلق بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

والاصل فیہ ماروی ان عمر بن عبدالعزیزؓ مرّعلی رجالٍ رکوبٍ ذوی ھیئۃ فظنّھم مسلمین فسلّم علیہم فقال لہ رجل من اصحابہ اصلحک اللّٰہ تدری من ھولآء قال من ھم فقال ھؤلآء نصارٰی بن تغلب فلما اتی منزلہ امران ینادٰی فی الناس ان لایبقیٰ نصرانی الاعقد ناصیۃ ورکب الاکاف ولم یُنتعل انّہ انکر علیہ احد فیکون کالاجماع۔ (بدائع الصناع صفحہ 113جلد7باب 1یوخذبہ اہل الذمۃ)

(24)’’ذمّیوں پر پابندیوں کا آغاز یوں ہوا کہ ایک دفعہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کچھ سواروں کے پاس سے گزرے۔ یہ سوار بڑے معزز نظر آتے تھے۔ آپ نے انہیں مسلمان سمجھا اور السلام علیکم کہا۔ ساتھیوں میں سے کسی نے آپ کو توجہ دلائی کہ یہ لوگ تو عیسائی تھے۔ آپ کو یہ بات بُری لگی اور جب واپس گھر پہنچے تو آپ نے یہ اعلان کرنے کا حکم دیا کہ آئندہ تمام عیسائی بطور علامت زنّار باندھیں اور پالان نما کاٹھی پر سوار ہوں۔ یعنی گھوڑے پر سوار ہونے کی انہیں اجازت نہ ہوگی۔ آپ کے اس اعلان پر کسی مسلمان نے بُرا نہ منایا اور اس طرح اس اعلان کو ایک اجتماعی حیثیت حاصل ہوگئی۔‘‘

یہ حوالہ اس امر کا بیرونی شاہد ہے کہ کم از کم حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے زمانہ تک مسلمانوں اور ذمّیوں میں کوئی امتیاز قائم نہیں ہوا تھا اور ان پابندیوں کے عائد کرنے کا حکم حضرت عمربن خطابؓ نے نہیں بلکہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے دیا تھا۔

اس کے بعد حضرت عثمانؓ اور دوسرے صحابہؓ کے سلوک کو ہم دیکھتے ہیں تو اس میں بھی ہمیں کوئی خاص معاشرتی تفاوت نظر نہیں آتا۔ حضرت عثمانؓ کی ایک بیوی عیسائی تھی۔ اس طرح حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شام کی ایک یہودیہ سے شادی کی ہوئی تھی۔ چنانچہ علامہ جصاص لکھتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ نے ایک عیسائی عورت نائلہ بنت فرا فضہ کلبیہ سے دوسری مسلمان بیویوں کی موجودگی میں شادی کی تھی۔ اسی طرح حضرت طلحہؓ کے متعلق روایت ہے کہ انہوں نے شام کی ایک یہودی عورت سے عقد ازدواج استوار کیا تھا۔ (احکام القرآن جلد 3 صفحہ 398 مطبوعہ مصر)

امّ المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے متعلق ان کی ایک باندی نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس شکایت کی کہ وہ یہودیوں سے تعلقات رکھتی ہیں اور سبت کے دن کی تعظیم کرتی ہیں۔ حضرت عمرؓ کا حکام کی طرف سے یہودیوں کے متعلق جو رپورٹیں ملتی تھیں ان کی وجہ سے آپ یہودیوں سے کچھ زیادہ مطمئن نہ تھے۔ اس لیے آپ نے حضرت صفیہؓ سے اس شکایت کے بارہ میں دریافت کرنا مناسب خیال کیا۔ امّ المومنین صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا جمعہ کے بابرکت دن کے ہوتے ہوئے سبت کے دن کی تعظیم بھلا میں کیسے کر سکتی ہوں۔ باقی رہی یہودیوں سے تعلق رکھنے کی شکایت تو وہ میرے رشتہ دار ہیں اور صلہ رحمی کے لحاظ سے میرے لیے ان سے حسن سلوک کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ اس جواب پر مطمئن ہوگئے۔ بعد میں حضرت صفیہؓ نے اس باندی سے شکایت کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا۔ یونہی شیطان نے بہکا دیا تھا۔ اس پر آپ نے اس باندی کو آزاد کر دیا۔ اسی طرح حضرت صفیہؓ نے وفات کے وقت اپنی جائیداد کے تیسرے حصے کی اپنے بھانجے کے حق میں وصیت کی تھی۔ ان کا یہ بھانجا یہودی تھا۔(ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء مقصد دوم صفحہ 81 و زرقانی جلد 3 صفحہ 296، اصابہ جلد 8 صفحہ 227)

عہد شکنی کا بے بنیاد الزام

بعض مخالفین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے اپنے مفتوحین سے معاہدے تو بے شک اچھے کیے لیکن بعد میں وہ ان معاہدوں پر قائم نہ رہے۔ چنانچہ مدینہ، خیبر اور نجران کے یہودیوں اور عیسائیوں کو معاہدہ کے باوجود گھروں سے جلاوطن کیا گیا اور جو امان انہیں دی گئی تھی وہ واپس لے لی گئی۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ہر معاہدہ میں طرفین پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اگر وہ ذمہ داریاں ادا نہ کی جائیں تو معاہدہ کی کوئی قدروقیمت ہی باقی نہیں رہتی۔ اب سوال یہ ہے کہ ان ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کس کی طرف سےکوتاہی ہوئی۔ معاہدے اور صلحنامہ کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ معاہدہ ہوجانے اور امان مل جانے کے بعد مفتوح جو شرارت چاہیں کریں، جس طرح چاہیں فساد برپا کریں اور قائم شدہ حکومت کے خلاف سازشوں میں حصہ لیں اور ان سے کسی قسم کی باز پُرس نہ کی جائے۔ مدینہ کے یہودیوں نے معاہدہ کرتے ہوئے یہ وعدہ کیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کے وفادار اور پُرامن شہری بن کر رہیں گے۔ آپ کے دشمنوں سے کوئی ساز باز نہیں رکھیں گے۔ اور نہ ان کی کوئی مدد کریں گے۔ لیکن اس وعدہ کو یہودیوں نے کس طرح نبھایا۔ اس کا اندازہ تاریخ کے اوراق الٹنے سے بخوبی ہوسکتا ہے۔ معاہدہ میں ایک شر ط یہ تھی کہ دشمن سے تصادم کی صورت میں یہودی مسلمانوں کی مدد کریں گے۔ لیکن جب بدر کا معرکہ پیش آیا تو مدد کی بجائے اُلٹا انہوں نے مسلمانوں کی حوصلہ شکنی کی۔ طرح طرح کی افواہیں اُڑائیں تاکہ مسلمان ڈر جائیں اور مسلمانوں کی کمزوریوں سے قریش کو اطلاع دی گویا پہلی ہی آزمائش میں یہودیوں نے اپنے اندرونے کو ظاہر کر دیا۔ یہیں پر بس نہیں بلکہ یہود نے کئی بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوکاسے قتل کرنے کی سازش کی۔ ایک دفعہ آپ ایک مشترکہ قومی کام کے سلسلہ میں یہود مدینہ کے مشہور قبیلہ بنونظیر سے مشورہ کرنے کے لیے ان کے محلہ میں گئے باہمی بات چیت ہو رہی تھی کہ ان میں سے ایک شخص اٹھا اور چھت پر چڑھ کر اوپر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر چکّی کا پاٹ گرانے کی کوشش کرنے لگا۔ حضورؐ نیچے دیوار کے سایہ میں بیٹھے تھے۔ آپؐ کو اس سازش کا بروقت علم ہوگیا اور آپؐ وہاں سے اٹھ کر چلے آئے۔ خندق کی لڑائی میں بنو قریظہ نے عرب لشکر کی خفیہ مدد کی اور مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گونپنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ یہودیوں کو یہ وہم و گمان بھی نہ تھا کہ مسلمان اس لشکرِ جرّار کو ناکام لوٹنے پر مجبور کر دیں گے اس لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کو معاہدۂ دوستی یاد دلایااور انہیں اس انتہائی نازک موقع پر باوفا اور دیانتدار رہنے کی ترغیب دی تو وہ صاف مُکر گئے۔ اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصدوں سے کہا۔ معاہدہ کیا؟ ہم میں اور تم میں دوستی ہی کب ہوئی تھی؟

غرض اس انتہائی نازک موقع پر یہودیوں کی سازش نےمسلمانوں کو دوہری مصیبت میں ڈال دیا اور مسلمان اندر اور باہر دونوں طرف سے سخت مشکلات میں گھر گئے۔ علاوہ ازیں جنگ احزاب اصل میں یہودیوں کے سازش اور جدوجہد کا ہی نتیجہ تھی۔ انہوں نے اپنے کارندے بھیج کر ملک کے کونے کونے میں مسلمانوں کے خلاف آگ کو بھڑکایا اور قبائل عرب کو مسلمانوں کے خلاف متحدہ کوشش کرنے کی ترغیب دی۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خیبر فتح کیا تو وہاں کے یہودیوں نے آپ سے درخواست کی کہ آپؐ انہیں وہیں رہنے دیں اور یہاں کی زمینیں بٹائی پر انہیں دے دیں۔ آپؐ نے ان کی اس درخواست کو منظور فرمالیا اور فرمایا اقرکم ما اقرکم اللّٰہ! یعنی جب تک تمہیں اللہ تعالیٰ یہاں رکھے اور تمہیں وفادار اور پُرامن رہنے کی توفیق دے اس وقت تک ہم تمہیں رہنے دیں گے اور اگر تم وفا پر قائم نہ رہےتو پھر ہم جب چاہیں گے تم کو یہاں سے نکال دیں گے۔ اس امان نامہ کے باوجود خیبر کے یہود شرارت سے باز نہ آئے۔ ان کی طرف سے مسلسل شکایتیں موصول ہوتی رہیں۔ ایک دفعہ انہوں نے سازش سے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو مکان کی چھت سے نیچے گرا دیا اور آپ کے ہاتھ پاؤں توڑ ڈالے۔

نجران کے عیسائیوں نے باوجود معاہدۂ امن کے خفیہ طور پر اسلحہ جمع کیا۔ گھوڑوں کی خریداری میں سرگرمی دکھائی۔ بغاوت کے ارادے ظاہر کیے اور حبشہ اور حجاز میں درمیانی ریاست بننے کے خواب دیکھنے لگے۔ مسلمان جب دو بڑی طاقتوں سے لڑائی لڑ رہے تھے۔ ملک کے اندر چالیس ہزار نصرانیوں کی ایسی جمعیت کیا کچھ نہ کر سکتی تھی۔ پس ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں بعض یہودیوں اور عیسائیوں کے خلاف اسلامی حکومت کی طرف سے محاسبہ اور جلاوطنی کی کارروائی کسی لحاظ سے بھی اصولِ عدل و انصاف کے منافی نہیں کہی جاسکتی۔ امن و امان قائم رکھنا ہر حکومت کی بنیادی ذمہ واری ہے۔ اور کوئی حکومت بھی کسی کو اندرون ملک میں کھلی سازشیں کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ پھر ان اندرونی قوتوں کے خلاف جو کارروائی کی گئی وہ اتنی نرم اور ہمدردانہ تھی کہ اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ بنونظیر کو اجازت تھی کہ وہ اپنے اسلحہ کے علاوہ اپنا سارا سامان ساتھ لے جاسکتے ہیں۔ خیبر کے یہودیوں کی زمینیں پوری قیمت پر ان سے حکومت نے خرید لیں اور انہیں مال و اسباب اور سفر کے لیے سواریاں مہیا کی گئیں۔ نجران کے نصاریٰ کو جب جلاوطن کیا گیا تو ان کے سفر کے سارے اخراجات ریاست نے خود اٹھائے۔ جہاں سے وہ گزرے وہاں حکامِ ریاست نے انہیں ہر قسم کی سہولتیں حکومت کی ہدایت کے مطابق بہم پہنچائیں اور انہیں اختیار دیا گیا کہ وہ عراق یا شام کے جس حصہ میں آباد ہونا چاہیں آباد ہوجائیں اور جہاں وہ آباد ہوئے وہاں انہیں مفت زمینیں دی گئیں اور دو سال تک قطعاً ان سے کسی قسم کا کوئی ٹیکس وصول نہ کیا گیا۔ یہ تمام تفصیلات فتوح البلدان، بلاذری، ابن ہشام، فتح الباری جلد سات اور کتاب الخراج میں موجودہیں۔

خلاصہ یہ کہ تمام وہ معاہدے جو تاریخ کی مستند کتابوں میں منقول ہیں اور اسلام کے اصولِ سیاست نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے صحابہؓ اور خلفائے راشدین کا عملی نمونہ یہ سارے تاریخی حقائق ایک اور ایک دو کی طرح ثابت کر رہے ہیں کہ اسلام میں ذمّیوں سے بے نظیر رواداری کا سلوک کیا گیا اور اس زمانہ میںاقلیتوں کے مشکل ترین مسئلہ کو انتہائی کامیابی کے ساتھ حل کیا گیا۔

اسلام کے نزدیک تبلیغ کے معنی

اب ہم آزادیٔ تبلیغ کے سوال کو لیتے ہیں۔ یعنی کیا اسلام نے غیر مسلموں کو اپنے مذہب کی تبلیغ کا حق دیا ہے۔ تبلیغ کے معنی یہ ہیں کہ دل نشیں پیرایہ میں لوگوں کو اپنے مذہب کی خوبیاں بتائی جائیں تاکہ لوگ ان خوبیوں کو دیکھ کر اس مذہب کو قبول کریں۔ اور اگر کوئی شخص اس مذہب یا اس کے کسی اصول پر اعتراض کرے تو ایسے اچھے طریق سے اس اعتراض کا جواب دیا جائے کہ اس سے محبت اور باہمی خیر سگالی کے جذبہ کو فروغ حاصل ہو اور آپ میں نفرت کا خاتمہ ہوجائے۔ چنانچہ اس بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ۔ وَ لَا تَسۡتَوِی الۡحَسَنَۃُ وَ لَا السَّیِّئَۃُ ؕ اِدۡفَعۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ فَاِذَا الَّذِیۡ بَیۡنَکَ وَ بَیۡنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیۡمٌ۔ وَ مَا یُلَقّٰہَاۤ اِلَّا الَّذِیۡنَ صَبَرُوۡا ۚ وَ مَا یُلَقّٰہَاۤ اِلَّا ذُوۡحَظٍّ عَظِیۡمٍ۔ وَ اِمَّا یَنۡزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیۡطٰنِ نَزۡغٌ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ۔ (حم السجدہ: 34تا37)

(25)’’اُس شخص سے زیادہ اچھی بات کس کی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف بڑے اچھے انداز میں بلاتا ہے اور خود بھی اس کے حکم کے مطابق اچھے کام کرتا ہے۔ اور یہ کہتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے اطاعت شعار بندوں میں سے ہوں۔ اچھے انداز میں کہی ہوئی اچھی بات جس کے پیچھے جذبۂ ہمدردی کام کر رہا ہے۔ اور بُرے انداز میں کہی ہوئی بات متساوی الاثر نہیں (دونوں کے اثرات میں زمین و آسمان کا فرق ہے)اس لیے ضرورت پیش آنے پر اچھے انداز میں ہی اسلام کی طرف سے دفاع پیش کر۔ اگر تو ایسا کرے گا تو وہ معترض جس کے اور تیرے درمیان اس وقت دشمنی ہے۔ اس اندازِتبلیغ سے تیرا ایسا گرویدہ ہوجائے گا کہ گویا وہ تیرا جگری دوست ہے۔ لیکن اس طرزِ عمل کو وہی اختیار کر سکتے ہیں جو صابر اور اعلیٰ اخلاق سے بڑا حصہ رکھتے ہیں (ورنہ عام طور پر تو طنز آمیز باتوں چست فقروں اور سختی اور طاقت کو ہی کامیابی کا ذریعہ یقین کیا جاتا ہے۔ لیکن اس ذریعہ سے منافقوں کا گروہ تو پیدا ہوسکتا ہے۔ مخلص مومن میسر نہیں آسکتے) اس لیے اگر کبھی شیطان کی طرف سے تجھے اس غلط طرزِ تبلیغ کی اُکساہٹ ہو اور تو اپنے دل کو اس پر آمادہ پائے تو اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ۔ کیونکہ صحیح عمل کی توفیق کے لیے وہ دعا کو سننے والا اور نیتوں کو جاننے والا ہے۔ ‘‘

ایک اور جگہ فرمایا:

اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ۔ وَ اِنۡ عَاقَبۡتُمۡ فَعَاقِبُوۡا بِمِثۡلِ مَا عُوۡقِبۡتُمۡ بِہٖ ؕ وَ لَئِنۡ صَبَرۡتُمۡ لَہُوَ خَیۡرٌ لِّلصّٰبِرِیۡنَ۔ (النحل: 126تا127)

(26)’’اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو حکمت اور دل سے نکلی ہوئی اچھی باتوں کے ذریعے بُلا اور احسن پیرایہ میں ان سے تبادلہ خیالات کر۔ یقیناً تیرا ربّ اُن کو جانتا ہے جو اس کے راستے سے بھٹک گئے ہیں۔ اور ان کو بھی جانتا ہے جو ہدایت پانے والے ہیں (لہٰذا سختی کی کیا ضرورت ہے) اور اگر اس مصالحانہ روش کے باوجود تم پر کوئی زیادتی کرتا ہے تو تم بھی اس زیادتی کے برابر بدلہ لے سکتے ہو(لیکن اگر بدلہ نہ لینے میں فائدہ ہو اور اس کے بغیر ہی ان کی شرارتوں کا تدارک ہوجائے تو اس طرح) صبر کرنے والوں کے لیے بلحاظ نتائج یہ سب سے بہتر حکمت عملی ہے۔‘‘

اس زمانہ کے بہت بڑے مصلح حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ جن کا مقصدِ زندگی ہی اشاعت اسلام تھا اور جنہوں نے تبلیغ اسلام کا ایک عظیم الشان نظام قائم کیا۔ انہوں نے قرآن کریم کے ان ارشادات کی روشنی میں تبلیغ کے جو اصول تجویز فرمائے ان کا خلاصہ یہ ہے:

(1)اصولاً یہ تسلیم کرلیا جائے کہ تمام قدیم مذاہب اپنے آغاز کے لحاظ سے سچے ہیں اور ہر قوم میں ڈرانے والے اور حق کی راہ دکھانے والے برگذیدہ وجود آئے۔ جن کی ایک عرصۂ دراز سے مقبولیت ان کی صداقت کا ایک واضح ثبوت ہے۔

(2)مذہب کا ہر داعی جس کتاب کا پابند ہے اور جس کو وہ اپنی ربانی اور الہامی کتاب مانتا ہے وہ اپنا ہر مذہبی نظریہ اسی کتاب سے پیش کرے۔ اور اسی کتاب کے حوالے سے جواب دے۔ اور اپنی وکالت کے اختیارات کو ایسا وسیع نہ کرے گویا کہ وہ ایک نئی کتاب بنا رہا ہے یا دوسرے مذہب کے نظریات اور دلائل کو اپنے مذہب کے نظریات اور دلائل بنانے کی فکر میں ہے۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ 19)

(3)ہر داعی صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے اور دوسرے فریق پر ہرگز حملہ نہ کرے۔ کیونکہ دوسرے مذہب کے نقائص ثابت کرنے سے یہ ثابت نہیں ہوجاتا کہ اس کا اپنا مذہب بڑا اچھا اور تمام خوبیوں کا جامع ہے۔ (براہین احمدیہ جلد 2صفحہ 101)

(4)ہر قوم کے مسلمہ مذہبی مباحث کے وقت تہذیب و شائستگی کا خاص خیال رکھے اور اگر اعتراض بھی کرنا ہو تو صرف ان کتب کی رُو سے کیا جائے جو دوسرے فریق کی مسلمہ ہوں نہ کہ قصّے کہانیوں کی بناء پر۔ اعتراض بھی وہ کرے جو اس کی اپنی مسلمہ کتابوں اور اصولوں پر وارد نہ ہوسکتے ہوں۔ ورنہ پہلے اسے اپنی کتابوں کی فکر کرنی چاہیئے اور پھر اس کے بعد دوسروں کی کتابوں کے مثالب کی طرف رجوع کرنا چاہیئے۔ (تبلیغ رسالت جلد 7 صفحہ 16)

(5)ذاتی کردار اور حقیقی ہمدردی کے ساتھ ساتھ مذہب کے مقصد اس کی حیات بخش تاثیر اور اللہ تعالیٰ سے محبت اور اس سے تعلق کے آسمانی نشانوں کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرائی جائے۔ اور دعا کو سہارا بنانے کی ترغیب دی جائے۔ کیونکہ جس طرح ظاہری روشنی آسمان سے اُترتی ہے اسی طرح ہدایت کا سچا نور بھی آسمان سے اترتا ہے۔ انسان کی اپنی ہی باتیں اور اس کی اپنی ہی اٹکلیں سچا گیان نہیں بخش سکتیں۔ وہ خدا سچا خدا نہیں ہے جو خاموش ہے۔ بلکہ کامل اور زندہ خدا وہ ہے جو اپنے وجود کا آپ پتہ دیتا ہے اور زندہ مذہب کی طرف خود ہی راہنمائی کرتا ہے۔ بشرطیکہ راہنمائی حاصل کرنےکی تڑپ دل میں ہو۔ اور آسمانی روشنی دیکھنے کےلیے آنکھیں کھلی رہیں۔ پس سچا اور زندہ مذہب وہ ہے جسے قبول کرنے سے خدا بندہ سے قریب ہو اور اس کے اندر بولے۔ اس کے دل میں اپنا تخت بنائے اور اسے وہ تمام نعمتیں عطا کرے جو پہلوں کو دی گئیں۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ 180)

تبلیغ کے متعلق اس اصولی تشریح کے بعد طرزِ تبلیغ کے عملی نمونہ کی چند مثالیں پیش کرنا خالی از فائدہ نہ ہوگا۔ چنانچہ روایت ہے کہ قبائل یمامہ کے ایک سردار ثمامہ بن اثال نے کئی اسلامی مہموں کو شدید نقصان پہنچایا تھا۔ آخر ایک مہم میں وہ گرفتار ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پیش ہوا۔ آپ نے مسجد نبوی کے ایک ستون کے ساتھ اسے بندھوا دیا۔ مقصد یہ تھا کہ مسجد میں مسلمانوں کی آمد ورفت اور ذکر و عبادت سے اسے واقفیت ہوجائے اور اسلامی معاشرہ پر اسے غور و فکر کرنے کا موقع مل سکے۔ جب بھی حضور اس کے پاس سے گزرتے تو اُس سے دریافت فرماتے ’’سنائیے ثمامہ کیا حال ہے؟ اور تم کیا چاہتے ہو؟‘‘۔ وہ جواب دیتا ہے ’’اچھا ہوں۔ اگر آپ مجھے معاف کر دیں تو آپ کا احسان یاد رکھوں گا اور آپ مجھے کبھی ناشکرگزار نہیںپائیں گے۔ اوراگر آپ مجھے قتل کر دیں تو اس سزا کا مستحق ہوں اور اگر مالی معاوضہ چاہیے تو فرمائیے جو آپ فرمائیں گے وہ ادا کردوں گا‘‘۔ تین دن تک آپؐ نے اسے اسی حالت میں مسجد میں رکھا۔ اور تینوں دن یہی سوال و جواب ہوا۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا’’ثمامہ کو چھوڑ دیا جائے۔ اب وہ اپنے گھر جاسکتا ہے۔ ثمامہ رہائی پانے کے بعد مسجد کے قریب ہی ایک تالاب میں جا کر نہایا اور واپس آکر عرض پرداز ہوا۔ خدا کی قسم! اس سے پہلے روئے زمین پر سب سے زیادہ آپ مجھے بُرے لگتے تھے۔ لیکن آپ کے اخلاق کریمانہ اور حسن معاشرت دیکھ کر اب میں آپ کا اس قدر گرویدہ ہوگیا ہوں کہ اب ساری زمین پر آپؐ سے زیادہ مجھے کوئی پیارا نہیں ہے۔ خدا کی قسم! سب سے زیادہ مجھے آپ کا مذہب ناپسند تھا۔ لیکن اب مجھے اس سے زیادہ پیارا مذہب کوئی نظر نہیں آتا۔ خدا کی قسم! آپؐ کا شہر مجھے سخت ناپسند تھا اور اب اس جیسا پیارا اور اچھا شہر میرے نزدیک روئے زمین پر کوئی نہیں۔ اب میں مسلمان ہوتا ہوں۔ اور گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اس کے برگزیدہ بندے اور رسول ہیں۔

اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اجازت سے ثمامہ مکہ میں عمرہ کے لیے گئے۔ اہل مکہ نے کہا ’’اے ثمامہ! سُنا ہے تو بددین ہوگیا ہے۔ اس لیے ہم تجھے قتل کرتے ہیں۔‘‘ ثمامہ نے کہا ’’میں بد دین نہیں ہوا بلکہ سب سے بہترین دین محمدؐ کے دین میں داخل ہوا ہوں۔ خدا کی قسم ! تمہارے لیے سارا غلہ یمامہ سے آتا ہے۔ اگر تم نے مجھے تنگ کیا تو تمہیں وہاں سے گندم کا ایک دانہ بھی نہیں مل سکے گا۔ اس پر قریش ڈر گئے۔ لیکن پھر بھی انہوں نے اپنی قوم کو کہا۔ خبردار مکہ والوں کے ہاتھ غلّے کا ایک دانہ بھی فروخت نہ کیا جائے۔ اہل مکہ اس گرفت سے بہت تنگ ہوئے۔ اور بھوکوں مرنے لگے۔ اس پر انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں عریضہ بھیجا کہ صلہ رحمی میں آپ کا مقام تو بہت ہی ممتاز ہے۔ پھر کیا بات ہے کہ باہمی جنگوں میں ہمارے باپ تو قتل ہوگئے۔ اب ان کی اولاد کو بھی آپ بھوک سے ہلاک کر رہے ہیں۔ اس پر آپ نے ثمامہ کو لکھا کہ اہل مکہ کے ساتھ حسبِ دستور سابق خریدو فروخت جاری رکھو اور ان کا غلہ بند نہ کرو۔ کیونکہ دشمن کا بھوکا مارنا اچھی بات نہیں۔ (تجرید بخاری جلد 2 صفحہ 293 و سیرۃ ابن ہشام حصہ دوم)

صفوان بن امیہ قریش کا بہت بڑا سردار تھا۔ کون سے ظلم تھے جو اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور مسلمانوں پر روا نہ رکھے۔ فتح مکہ کے وقت وہ جدّہ بھاگ گیا کہ جان بچ جائے۔ حضور کو جب اطلاع ہوئی تو امان کی علامت کے طور پر اپنا عمامہ دے کر عمیرؓ کو ان کے پاس بھیجا۔ عمیرؓ گئے اور ڈرے ہوئے، سہمے ہوئے دشمن کو مطمئن کر کے لے آئے۔ وہ مسرت و نشاط کے ساتھ واپس آیا۔ لیکن مسلمان نہ ہوا۔ حنین کی مہم میں آپ کو کچھ ہتھیاروں اور زرہوں کی ضرورت پیش آئی۔ معلوم ہوا کہ صفوان کے پاس ان کا کافی ذخیرہ ہے۔ آپؐ نے پیغام بھیجا لیکن صفوان نے جواب دیا چھیننا مقصد ہے یا عاریتًا چاہئیں۔ آپؐ نے فرمایا نہیں عاریتا ًمطلوب ہیں اور ان کی واپسی کے ہم ذمہ دار ہیں۔ (سیرۃ ابن ہشام جلد دوم و طبقات ابن سعد جز ثانی، عام الفتح صفحہ 98)بالآخر صفوان مسلمان ہوگیا۔

سردار مکہ ابوسفیان فتح مکہ کے روز جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حضور حاضر ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ابوسفیان تیرا بُرا ہو۔ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تو خدا کی وحدانیت کا اقرار کرے؟‘‘ ابوسفیانؓ نے کہا ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ کس قدر حکیم و کریم اور رشتہ کے ملانے والے ہیں۔ بے شک میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اگر خدا کے ساتھ کوئی اور معبود ہوتا تو ضروور مجھ کو کوئی نفع پہنچاتا۔ کیونکہ میں اس کی پوجا کرتا تھا۔‘‘ پھر حضورؐ نے فرمایا ’’افسوس ہے اے ابوسفیان ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تو میری رسالت کا اقرار کرے؟‘‘ ابوسفیان نے کہا کہ ’’بے شک آپ حکیم و کریم اور رشتے کا پاس کرنے والے ہیں۔ قسم ہے خدا کی اس وقت تک دل میں کچھ ہے۔‘‘آپ نے پھر بھی ابوسفیان کو معاف فرما دیا۔ بعد میں ابوسفیانؓ مسلمان ہوگئے۔

(سیرت ابن ہشام حصہ دوم و طبقات ابن سعد جزو ثانی۔ عام الفتح)

آپ کا ایک یہودی خادم تھا جو وضو کا پانی لانے، وضو کرانے اور نعلین مبارک اٹھانے کی خدمت پر مامور تھا۔ ایک دفعہ وہ شدید بیمار ہوگیا۔ آپ کو خبر ہوئی تو آپ اس کی عیادت کے لیے اس کے گھر تشریف لے گئے۔ خادم کا باپ اس کے سرہانے کھڑا تھا۔ مزاج پُرسی کے بعد باتوں باتوں میں آپ نے اسے اسلام قبول کرنے کی ترغیب دی۔ اس پر اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا۔ گویا وہ اپنے باپ سے اجازت چاہتا ہے۔ دو تین بار اس نے اسی طرح ملتجیانہ نگاہ اٹھائی آخر باپ نے اجازت دیتے ہوئے کہا ’’محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کا کہا مان لو‘‘۔ چنانچہ وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔ اس سے آپ کو بے حد خوشی ہوئی اور فرمایا

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ أَخْرَجَہُ بِیْ مِنَ النَّارِ۔

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے میری بات میں اثر پیدا کیا اور اس طرح اسے آگ سے نجات دی۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 3صفحہ 175)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ سے واپس تشریف لا رہے تھے۔ راستہ میں آرام کے لیے آپ نے ایک جگہ پڑاؤ کیا۔ صحابہ پھیلے ہوئے درختوں کے سائے میں چلے گئے۔ آپ بھی تھکے ہوئے تھے۔ تنہاایک درخت کے سائے میں لیٹے اور سو گئے۔ تلوار اتار کر ایک درخت کی شاخ سے لٹکا دی تھی۔ ایک کافر تعاقب میں تھا۔ وہاں سے گذرا تو اس نے دیکھا کہ تلوار لٹک رہی ہے۔ اور آپؐ بے خبری کی نیند سو رہے ہیں۔ خوش ہوا۔ تلوار اتاری اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جگایا اور رعب دار آواز بنا کر کہا ’’اے محمدؐ ! اب تجھے کون مجھ سے بچا سکتا ہے؟‘‘۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ منظر دیکھا اور پورے اطمینان سے کہا۔ ’’اللہ‘‘۔ وہ کافر یہ غیر متوقع جواب سن کر چکرا گیا۔ کانپا اور اس کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی۔ آپ نے بڑھ کر تلوار اٹھالی اور پوچھا ’’بتاؤ اب تجھے کون بچا سکتا ہے؟‘‘ کافر ہکا بکا کھڑا تھا۔ اسے کچھ نہ سوجھا اور نہ کچھ کہہ سکا۔ صرف اتنا اس کے منہ سے نکلا ’’آپؐ ہی رحم کریں ‘‘۔ آپؐ نے کہا ’’کم بخت اب بھی تجھے سبق نہیں آیا۔ اب تو اللہ تعالیٰ کا نام لے دیتا۔ جا میں کسی سے بدلہ لینے کا عادی نہیں ہوں ‘‘۔ کہتے ہیں اس واقعہ سے متاثر ہو کر بعد میں وہ مسلمان ہوگیا۔ (تجرید بخاری غزوہ ذات الرقاع جلد 2 صفحہ 257 مطبوعہ لاہور)

عمران بن حصین کی روایت ہے کہ ہم ایک مہم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم سفر تھے۔ پانی ساتھ تھا نہیں۔ راستہ میں سخت پیاس لگی۔ لوگوں نے اس تکلیف کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت کی۔ آپ سواری سے اُتر پڑے اور حضرت علیؓ اور ایک اور شخص کو بلا کر پانی کی تلاش میں روانہ کیا۔ یہ اِدھر اُدھر پھرتے رہے۔ آخر اُنہیں ایک عورت ملی جو اپنے اونٹ پر دو مشکیزے لادے خود ان کے درمیان بیٹھے چلی جارہی تھی۔ انہوں نے اس عورت سے پوچھا ’’پانی کہاں ملے گا؟‘‘ اس نے کہا ’’پانی یہاں سے اتنی دور ہے کہ کل اس وقت وہاں سے پانی لے کر چلی ہوں گویا چلتے ہوئے چوبیس گھنٹے ہوچلے ہیں۔ اور ابھی ہمارے دوسرے لوگ مجھ سے کہیں پیچھے ہیں ‘‘۔ ان دونوں نے اس عورت کو کہا ’’ہمارے ساتھ چلو‘‘۔ وہ کہنے لگی ’’کہاں چلوں ؟‘‘ انہوں نے کہا ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور‘‘۔ عورت نے پوچھا ’’وہی جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ بے دین ہوگیا ہے‘‘ انہوں نے کہا ’’ہاں وہی جن کے متعلق تم یوں کہتی ہو‘‘۔ پھر وہ دونوں اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے اور ساری بات آکر سنائی۔ عورت کو اونٹ سے اتارا گیا۔ اور ایک بڑا برتن لا کر مشکیزوں کا منہ اس میں کھول دیا گیا۔ لوگ آئے اور اپنی اپنی ضرورت کے لیے پانی لے گئے۔ اس طرح کئی سو افراد اس سے سیراب ہوئے۔ ایک شخص کو نہانے کی حاجت تھی۔ اس نے بھی پانی لیا۔ عورت حیران و ششدر کھڑی سارا نظارہ دیکھ رہی تھی۔ راوی کہتا ہے ’’خدا کی قسم جب پانی لینا بند کیا گیا تو یوں نظر آتا تھا جیسے دونوں مشکیزے پہلے سے بھی زیادہ بھرے ہوئے ہیں ‘‘۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معجزانہ برکت سے پانی کی مقدار میں باوجود استعمال کے کوئی کمی نظر نہ آتی تھی۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس عورت کے لیے کچھ جمع کر دو‘‘۔ چنانچہ لوگوں نے کھجوریں، آٹا، ستّو وغیرہ ایک اچھی خاصی مقدار میں جمع کر کے ایک کپڑے میں باندھ دیے۔ اور عورت کے حوالے کر کے اسے اونٹ پر سوار کر ا دیا۔ جب وہ چلنے لگی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا’’ تم جانتی ہو کہ ہم نے تمہارے پانی سے کچھ کم نہیں کیا۔ یہ تو ایک ظاہری واسطہ تھا۔ ورنہ ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے ہی پلایا ہے‘‘؟ عورت وہاں سے اپنے قبیلے میں آئی۔ لوگوں نے اس سے پوچھا ’’اتنی دیر کہاں رہی ہو؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’ایک عجیب و غریب حیرت ناک نظارہ دیکھ کر آئی ہوں ‘‘۔ اور سارا واقعہ ان سے بیان کرتے ہوئے کہا ’’خدا کی قسم! یہ شخص یا تو روئے زمین کا سب سے بڑا جادو گر ہے یا پھر واقعی اللہ تعالیٰ کا سچا رسول ہے‘‘۔ اس کے بعد مسلمان اردگرد کے مشرکوں کے خلاف مختلف مہمیں سر کرتے رہے۔ لیکن وہ اس عورت کے قبیلے سے کوئی تعرض نہ کرتے۔ آخر ایک دن اس عورت نے اپنے قبیلے والوں سے کہا کہ ’’مسلمانوں کی پاسداری دیکھئے ہمارے اردگرد کے سارے مشرکین گرفت میں آچکے ہیں۔ لیکن صرف اس وجہ سے کہ ایک دفعہ انہوں نے مجھ سے پانی لیا بطور اظہار پاسداری وہ ہم سے کوئی تعرض نہیں کرتے۔ ایسے اچھے حاکموں سے الگ رہنا بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے۔ آؤ ہم سب مسلمان ہوجائیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں۔ چنانچہ سارے قبیلے نے اس کی بات مان لی اور اسلام میں داخل ہوگئے۔ (تجرید بخاری کتاب التیمّم جلد 2 صفحہ 94)

یہ تھی

اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ

کی عملی تفسیراور ظاہر ہے کہ اس طرزِ تبلیغ اور اس قسم کے عملی نمونہ پر کوئی معقول انسان اعتراض نہیں کر سکتا۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button