متفرق مضامین

عورتوں کے حقوق و فرائض (قسط دوم۔ آخری)

(امۃ الباری ناصر)

عورت کا حق ہے کہ بیماری اور معذوری میں اس کا خیال رکھا جائے

اسلا م سے پہلے عورت کی ناقدری اور ذلت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ اپنے مخصوص ایام میں اسے سب گھر والوں سے جدا رہنا پڑتاتھا۔ خاوند کے ساتھ بیٹھنا تو در کنار اہل خانہ بھی اس سے میل جول نہ رکھتے تھے۔ آپؐ نے اس معاشرتی برائی کو دور کیا۔ حیض ایک تکلیف دہ عارضہ ہے ان ایّام میں صرف ازدواجی تعلقات کی ممانعت ہے عام معاشرت ہرگز منع نہیں آپﷺ بیویوں کے مخصوص ایام میں ان کا زیادہ خیال رکھتے۔ ان کے ساتھ مل بیٹھتے۔ بستر میں ان کے ساتھ آرام فرماتے اور ملاطفت میں کوئی کمی نہ آنے دیتے۔

(ابو داؤد کتاب الطهارۃ باب في مواكلۃ الحائض )

عورت کا حق ہے کہ وہ شادی کے بعد علیحدہ گھر کا مطالبہ کرسکتی ہے

سوائے اشد مجبوری کے بیوی کا یہ حق ہے کہ وہ علیحدہ گھر کا مطالبہ کرے اور سسرال سے الگ گھر میں رہے۔

سورت النور کی آیت 62 سے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ استدلال فرماتے ہیں کہ’’ہندوستان میں لوگ اکثر اپنے گھروں میں خصوصاً ساس بہو کی لڑائی کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔ اگر قرآن مجید پر عمل کریں تو ایسا نہ ہو۔ فرماتے ہیں دیکھو(یہ جو کھانا کھانے والی آیت ہے) اس میں ارشاد ہے کہ گھر الگ الگ ہوں، ماں کا گھر الگ اور شادی شدہ لڑکے کا گھرالگ، تبھی تو ایک دوسرے کے گھروں میں جاؤ گے اور کھانا کھاؤ گے۔ ‘‘

عورت کا حق ہے کہ نکاح، شادی، طلاق، خلع کے بارے میں اسے اختیار دیا جائے

اسلام کی تعلیم کے مطابق والدین لڑکی کے ولی کی حیثیت سے لڑکیوں کے لیے مناسب ہم پلہ رشتہ تلاش کرنےکے ذمہ دارہیں مگر فیصلہ میں لڑکی کی رضامندی ضروری قرار دی۔

ظالم، ناکارہ، نا پسندیدہ شوہر کے مقابلے میں عورت کو خلع اور فسخِ نکاح کے وسیع اختیارات دیے۔ بیوہ اور مطلقہ عورت کو نکاح کا حق دیا اور فرمایا کہ وہ اپنی ذات کے بارے میں فیصلہ کے متعلق ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے۔ (بخاری کتاب النكاح)

پھر مہر کا حق بھی اسلام نےعورت کو دیا۔ اسلام نے 1400سال قبل یہ حق عورت کو دیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس نے کسی عورت سے شادی کے لیے مہر مقرر کیا اور نیت کی کہ وہ اسے نہیں دے گا تو وہ زانی ہے اور جس کسی نے قرض اس نیت سے لیا کہ ادا نہ کرے گا تو میں اسے چور شمار کرتا ہوں۔ (مجمع الزوائدجلد4صفحہ131)

عورت کا حق ہے کہ اپنی جائیداد اپنی ملکیت میں رکھے

عورت اگر کماتی ہے تو اس کی کمائی اس کی ملکیت ہوگی۔ مرد کو تصرف کی اجازت نہیں۔ اگر بیوی خوشی سے تحفہ دے تو قبول کرسکتا ہے۔

عورت کا حق ہے کہ اس کی حفاظت کی جائے

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’عورتیں اصل میں مردوں ہی کی تحویل میں ہوا کرتی ہیں ‘‘

(الحکم جلد 7 مورخہ 17؍اپریل 1903ء صفحہ 10)

خَلقی طور پر نازک آبگینے ہونے کی وجہ سے مرد پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی کہ وہ محافظ کا کام کرے۔ بچیاں ماں باپ کے گھر میں باپ کے سائے میں پلتی ہیں بھائی بہنوں کی نگہداشت کرتے ہیں بیویاں اپنے شوہروں کی حفاظت میں ہوتی ہیں ۔

حقوق سلب کرنے والوں کو انتباہ

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے حقوق ادا نہ کرنے والو، یا ظلم سے حق مارنے والو! ہمیشہ یاد رکھو کہ ایک غالب، عزیز خدا تمہارے اوپر ہے اور اس کے حکموں پر عمل نہ کرکے وہ احکام جو حکمت سے پُر احکام ہیں ان پر عمل نہ کرکے تم پھر امن، سلامتی اور پیار قائم کرنے والے معاشرے کے قیام میں روک ڈالنے والے بن رہے ہو۔ اور یہ چیز اس غالب خدا کو کسی صورت میں بھی برداشت نہیں ہے۔ پس توجہ کرو، حکمت اختیار کرو، حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دو تاکہ وہ عزیز خدا جو عزیز و رحیم بھی ہے تم پر رحم کرتے ہوئے صفت عزیز کے نظارے تمہیں تمہارے حق میں دکھائے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ16؍ نومبر 2007ءمطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 9؍ نومبر 2007ء)

عورت کے فرائض

عورت کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے اوپر عائد فرائض کی کما حقہ ادائیگی کی توفیق مانگے اور اپنی کوتاہیوں کی معافی اور پردہ پوشی کے لیے استغفار کرے اور صدقات دے۔

عورت کو اللہ تبارک تعالیٰ نے جو حقوق عطا فرمائے ہیں اور جو عزت کا مقام دیا ہے اس کی شکر گزاری لازم ہے۔ اور شکر کرنے کا طریق یہ ہے کہ وہ اپنے فرائض کو شش کرکے بہترین طور پر ادا کرے۔ یہ مشکل کام ہے اللہ تعالیٰ کی مدد اور توفیق کے بغیر ممکن نہیں۔ کمی کو تاہی رہ جانے کے خوف سے اس کی پناہ مانگنا اور معافی کی خواستگار ہو نا۔ اور صدقہ خیرات سے اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرنا ہمارا معمول ہو۔ آنحضرتﷺ کا ایک ارشاد پڑھ کر روح کانپ جاتی ہے۔ آپؐ معراج کی رات کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرما تے ہیں: مجھے جہنم بھی دکھائی گئی میں نے اس سے زیادہ بھیانک اور خوفناک منظر کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے آگ والوں میں اکثر عورتیں دیکھیں۔ لوگوں نے کہا یا رسول اللہﷺ کس لیے؟ رسول اللہ!ﷺ نے فرمایا خاوند کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان فراموش ہوتی ہیں اگر تو عمر بھر ان میں سے کسی پر احسان کرے پھر اگر وہ تجھ سے ویسی کوئی بات دیکھے تو وہ کہہ دے گی میں نے تجھ سے کبھی بھلائی نہیں دیکھی۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر1052)

اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ رَبِّىْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ

میں اللہ سے اپنے تمام گناہوں کی بخشش مانگتی ہوں جو میرا ربّ ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتی ہوں۔

عورت پر فرض ہے کہ وہ دین کا علم سیکھے

حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر فرض ہے:

طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ وَ مُسْلِمَۃٍ۔ (المعجم الاوسط )

آنحضورﷺ نے عورتوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ اور توجہ دینے کی ہدایت فرما ئی۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تعلیم نسواں کے حامی تھے۔ فرماتے ہیں: ’’ہم تعلیم نسواں کے مخالف نہیں ہیں بلکہ ہم نے تو ایک سکول بھی کھول رکھا ہے مگر یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ پہلے دین کا قلعہ محفوظ کیا جائے تا بیرونی باطل اثرات سے محفوظ رہیں۔ اللہ پاک ہر ایک کو سواء السبیل، توبہ، تقویٰ اور طہارت کی توفیق دے ‘‘( ملفوظات جلد 5 صفحہ 637)

حضرت مصلح موعودؓ خواتین کی علمی ترقی خاص طور پر علمِ قرآن کے زبردست داعی تھے۔ فرماتے ہیں: ’’پچھلے دنوں میں نے یہاں کی عورتوں سے ایک سوال کیا تھا کہ تم کسی ایک عورت کا بھی نام بتاؤ جس نے قرآن کریم پر غور کر کے اس کے کسی نکتہ کو معلوم کیا ہو؟

تم قرآن کو قرآن کر کے نہیں پڑھتیں اور نہیں خیال کرتیں کہ اس کے اندر علم ہے، فوائد ہیں، حکمت ہے بلکہ صرف خدائی کتاب سمجھ کر پڑھتی ہو کہ اس کا پڑھنا فرض ہےاسی لیے اس کی معرفت کا دروازہ تم پر بند ہےدیکھو قرآن خدا کی کتاب ہے اور اپنے اندر علوم رکھتا ہے۔ قرآن اس لیے نہیں کہ پڑھنے سے جنت ملے گی اور نہ پڑھنے سے دوزخ بلکہ فرمایا کہ فِیْہِ ذِکْرُکُمْ اس میں تمہاری روحانی ترقی اور علوم کے سامان ہیں۔ قرآن ٹونہ نہیں۔ یہ اپنے اندر حکمت اور علوم رکھتا ہے۔ جب تک اس کی معرفت حاصل نہ کرو گی قرآن کریم تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ ‘‘(مستورات سے خطاب، انوارالعلوم جلد11صفحہ 58)

عورت کا فرض ہے کہ وہ مرد کی فرماں بردار رہے

عورت پیدائشی طور پر صنفِ نازک ہے جبکہ مرد قویٰ کے لحاظ سے مضبوط ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ جس نے ان کو مختلف صلاحیتیں دے کر پیدا کیا ہے اسی نے انتظامی لحاظ سے ان کی تقسیم کار اس طرح فرمائی کہ مرد کو گھر کابادشاہ بنایا اور عورت کو اس کی ملکہ کا درجہ دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ وَّ بِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلۡغَیۡبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ… (النساء: 35)

مرد عورتوں پر نگران ہیں اس فضیلت کی وجہ سے جو اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر بخشی ہے اور اس وجہ سے بھی کہ وہ اپنے اموال (ان پر) خرچ کرتے ہیں۔ پس نیک عورتیں فرمانبردار اور غیب میں بھی ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں جن کی حفاظت کی اللہ نے تاکید کی ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اس کی تشریح میں فرمایا: ’’سب سے پہلے تو لفظ قوّام کو دیکھتے ہیں۔ قوّام کہتے ہیں ایسی ذات کو جو اصلاح احوال کرنے والی ہو، جودرست کرنے والی ہو، جوٹیڑھے پن اور کجی کو سیدھا کرنے والی ہو۔ چنانچہ قوّام اصلاح معاشرہ کے لئے ذمہ دار شخص کو کہا جائے گا۔ پس قوّامون کا حقیقی معنی یہ ہے کہ عورتوں کی اصلاحِ معاشرہ کی اول ذمہ داری مرد پر ہوتی ہے۔ اگر عورتوں کا معاشرہ بگڑنا شروع ہوجائے، ان میں کج رَوی پیدا ہوجائے، ان میں ایسی آزادیوں کی رَو چل پڑے جو ان کے عائلی نظام کو تباہ کرنے والی ہو۔ توعورت پر دوش دینے سے پہلے مرد اپنے گریبان میں منہ ڈا ل کر دیکھیں۔ کیونکہ خدا نے ان کو نگران مقرر فرمایا تھا۔ معلوم ہوتاہے انہوں نے اپنی بعض ذمہ داریاں اس سلسلہ میں ادا نہیں کیں۔ ما فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلیٰ بَعْضٍ(النساء: 35)‘‘

ایک حدیث ہے کہ جس عورت نے پانچوں وقت کی نماز پڑھی اور رمضان کے روزے رکھے اور اپنے آپ کو بُرے کاموں سے بچایا اور اپنے خاوند کی فرمانبرداری کی اور اُس کا کہنا مانا، ایسی عورت کو اختیار ہے کہ جنت میں جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے۔ ‘‘

(مجمع الزوائد۔ کتاب النکاح۔ باب فی حق الزوج علی المرأ ۃ)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ کوئی عورت نیک نہیں ہوسکتی جب تک اپنے خاوند کی فرمانبرداری نہ کرے اور دلی محبت سے اس کی تعظیم بجا نہ لائے اور پسِ پشت یعنی اس کے پیچھے اس کی خیر خواہ نہ ہو اور پیغمبر خُداﷺ نے فرمایا ہے کہ عورتوں پر لازم ہے کہ اپنے مردوں کی تابعدار رہیں ورنہ ان کا کوئی عمل منظور نہیں اور نیز فرمایا ہے کہ اگر غیر خدا کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو مَیں حکم کرتا کہ عورتیں اپنے خاوندوں کو سجدہ کریں اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے حق میں کچھ بد زبانی کرتی ہے اور اِہانت کی نظر سے اس کو دیکھتی ہے اور حکمِ ربّانی سُن کر پھر بھی باز نہیں آتی تو وہ لعنتی ہے خدا اور رسول اس سے ناراض ہیں عورتوں کو چاہئے کہ اپنے خاوندوں کا مال نہ چراویں اور نامحرم سے اپنے تئیں بچاویں ‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 48)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’عورت پر اپنے خاوند کی فرماں برداری فرض ہے نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر عورت کو اس کا خاوند کہے کہ یہ ڈھیر اینٹوں کا اُٹھا کر وہاں رکھ دے اور جب وہ عورت اُس بڑے اینٹوں کے انبار کو دوسری جگہ پر رکھ دے تو پھر اُس کا خاوند اُس کو کہے کہ پھر اس کو اصل جگہ پر رکھ دے تو اس عورت کو چاہئے کہ چون و چرا نہ کرے بلکہ اپنے خاوند کی فرماں برداری کرے ‘‘(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 30)

عورت کا فرض ہے کہ سب سے پہلے گھروں کے سکون کی طرف توجہ دے

بچے کی پیدائش سے پہلے نیک اولاد کی دعا کے ساتھ اپنی کوکھ میں پال کر جنم دینے والی ماں کا فرض ہے کہ وہ اولاد کی نیک تربیت کرے۔ بچے بالعموم باپ کی نسبت ماں سے زیادہ قریب ہوتے ہیں اور اپنا زیادہ وقت ماں کے ساتھ گزارتے ہیں۔ ماں کی گود ان کا پہلا مدرسہ ہوتی ہے ماں اپنی اعلیٰ لذات اپنے خدا میں رکھے تو بچوں میں فطری طور پر خدا کی محبت سرایت کرجائے گی۔ مائیں خود اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق اپنے گھروں کو عبادتوں اور ذکر الٰہی سے سجائے رکھیں۔ ایسے زندہ گھر میں زندہ بچے پروان چڑھیں گے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’ہمیشہ اولاد کی فکر کے ساتھ تربیت کرنی چاہئے اور ان کی رہنمائی کرنی چاہئے۔ عورتوں کو اپنے گھروں میں وقت گزارنا چاہئے۔ مجبوری کے علاوہ جب تک بچوں کی تربیت کی عمر ہے ضرورت نہیں ہے کہ ملازمتیں کی جائیں۔ کرنی ہیں تو بعد میں کریں۔ بعض مائیں ایسی ہیں جو بچوں کی خاطر قربانیاں کرتی ہیں حالانکہ پروفیشنل ہیں، ڈاکٹر ہیں اور اچھی پڑھی لکھی ہیں لیکن بچوں کی خاطر گھروں میں رہتی ہیں اور جب بچے اس عمر کو چلے جاتے ہیں جہاں ان کو ماں کی فوری ضرورت نہیں ہوتی، اچھی تربیت ہو چکی ہوتی ہے تو پھر وہ کام بھی کر لیتی ہیں۔ تو بہرحال اس کے لئے عورتوں کو قربانی کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو جو اعزاز بخشا ہے کہ اس کے پاؤں کے نیچے جنت ہے وہ اسی لئے ہے کہ وہ قربانی کرتی ہے۔ عورت میں قربانی کا مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ جو عورتیں اپنی خواہشات کی قربانی کرتی ہیں ان کے پاؤں کے نیچے جنت ہے۔ ‘‘

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15؍مئی 2015ء)

عورت گھر کی مناسب دیکھ بھال کرے تو جہاد جتنا ثواب ملتا ہے آنحضورؐ کے زمانے میں تلوار سے جہاد ہورہا تھا اس کے ثواب کی حرص میں عورتوں کا بھی دل چاہتا تھا کہ مردوں کی طرح وہ بھی ثواب حاصل کریں۔ آپؐ نے فرمایا کہ مردوں کے گھر سے جانے کے بعد گھر اور بچے سنبھالنے کا ثواب بھی جہاد جتنا ہے۔

آنحضورﷺ نے فرمایا: کسی عورت کے لیے اچھی بیوی بننا، خاوند کی رضا جوئی اور اس کے موافق چلنا، مردوں کی ان تمام نیکیوں کے برابر ہے۔ (تفسیر الدر المنثور)

عورت کو شوہر کی مرضی کے خلاف گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہے

عورت کا فرض ہے کہ وہ مرد کی آمدنی میں کفایت اور صبر شکر سے گزارہ کرے

خاوند سے کامل وفا یہ ہے کہ اس کی آمد میں قناعت سے گزارہ کیا جائے۔سہیلیوں یاہمسایوں کی بہتر حالت دیکھ کر اپنے خاوندوں سے شکوہ شکایت اور مطالبے کرنا درست نہیں کیونکہ بے صبری میں لڑائی جھگڑا کی نوبت آجا تی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل رکھیں ہر ضرورت میں اس کے آگے جھکیں تو اللہ پاک کمی پوری کردیتا ہے۔ مطالبات اور طعن و تشنیع سے گھبرا کر مرد قرض لے کر ایک ایسی دلدل میں پھنس جاتے ہیں جس سے چھٹکارا مشکل ہوجاتا ہے۔ احمدیت نے تحریک جدید کے مطالبات متعارف کرواکے کئی قسم کے بے جا اخراجات کو کم کیا ہے۔

عورت کا فرض ہے کہ وہ مرد کی دوسری شادی پر برا نہ منائے

اسلام سے پہلے شادیوں کی تعداد پر کوئی قدغن نہیں ہوتی تھی اسلام نے بعض شرائط کے ساتھ مرد کو چار شادیوں تک محدود کیا۔ چار شادیاں کرنے کا حکم نہیں دیا۔ جائز ضرورت پر تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے۔ سب ازواج میں انصاف سے برابر حقوق ادا کرتے ہوئے اجازت دی ہے۔ شوق اور عیاشی کے لیے اجازت نہیں ہے۔ ایک شرعی حکم پر بُرا ماننا مناسب نہیں۔ قرآن ہر زمانے اور ہر جگہ کے لیے نازل ہوا ہے۔ جس میں ہر قسم کے حالات کے لیے احکام موجود ہیں اس حکم میں لاتعداد حکمتیں ہیں جہاں تک ہر انسان کا ذہن نہیں پہنچتا اس لیے اعتراض جائز نہیں۔

اسلام نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ شادی سے قبل عورت مرد سے یہ عہد لے سکتی ہے کہ آئندہ جو بھی حالات ہوں وہ دوسری شادی نہیں کرے گا جس کے بعد وہ اس کا پابند ہو گا۔

عورت کا فرض ہے کہ وہ حجاب میں رہے

قرآنی ارشاد ہے ’’ایماندار عورتوں کو کہہ دے کہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو نامحرم مَردوں کے دیکھنے سے بچائیں اور اپنے کانوں کو بھی نامحرموں سے بچائیں یعنی ان کی پُرشہوت آوازیں نہ سنیں اور اپنے ستر کی جگہ کو پردہ میں رکھیں اور اپنی زینت کے اعضاء کو کسی غیر محرم پر نہ کھولیں اور اپنی اوڑھنی کو اس طرح سر پر لیں کہ گریبان سے ہوکر سر پر آجائے یعنی گریبان اور دونوں کان اور سر اور کنپٹیاں سب چادر کے پردہ میں رہیں اور اپنے پیروں کو زمین پر ناچنے والوں کی طرح نہ ماریں۔ یہ وہ تدبیر ہے کہ جس سے پابندی ٹھوکر سے بچاسکتی ہے۔ ‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ444)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’اسلام نے جو یہ حکم دیا ہے کہ مرد عورت سے اور عورت مرد سے پردہ کرے اس سے غرض یہ ہے کہ نفس ِانسانی پھسلنے اور ٹھوکر کھانے کی حد سے بچا رہے۔ کیونکہ ابتداء میں اس کی یہی حالت ہوتی ہے کہ وہ بدیوں کی طرف جھکا پڑتا ہے اور ذرا سی بھی تحریک ہو تو بدی پر ایسے گرتا ہے جیسے کئی دنوں کا بھوکا آدمی کسی لذیذ کھانے پر۔ یہ انسان کا فرض ہے کہ اس کی اصلاح کرے…یہ ہے سِرّ اسلامی پردہ کا اور میں نے خصوصیت سے اسے ان مسلمانوں کے لئے بیان کیا ہے جن کو اسلام کے احکام اور حقیقت کی خبر نہیں۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ443)

روزمرہ پہننے والا لباس بھی اسلامی وقار کے مطابق باحیا ہو۔ حیا ایمان کا حصہ ہے۔

عورت کا فرض ہے کہ وہ ساس سسر کی تابعداری کرے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’جب لڑکی بیاہی جاتی ہے تو اس کے ہاتھ میں دو چابیاں ہوتی ہیں ایک صلح کے دروازے کی اور ایک لڑائی کے دروازے کی چابی۔ وہ جس دروازے کو چاہے کھول سکتی ہے۔ خوش نصیب ہوتی ہیں وہ عورتیں جنہوں نے صلح کا دروازہ کھولا۔ لڑکی کو اپنے ساس، سسر کی نہایت تابعداری کرنی چاہئے کیونکہ بعد از شادی لڑکی کا تعلق اپنے والدین سے بڑھ کر اپنے ساس سسر سے ہوجاتا ہے۔ اسی واسطے ان کے ادب کو ہر وقت ملحوظ رکھنا چاہئے۔ تعلیم کا یہی فائدہ ہے لڑکی اپنے آپ کو نہایت درجہ تابعدار ثابت کرے۔ سخت ہی بد بخت ہیں وہ عورتیں جو کہ اپنے شوہروں کو ان کے والدین سے برگشتہ کرنے کی تجویزیں کرتی ہیں۔ ان کو کبھی فلاحِ دارین نصیب نہیں ہوگا ‘‘

(سیرت و سوانح سیدہ نواب مبارکہ بیگم صفحہ 343)

خانگی مشکلات کا حل

حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’بعض عورتوں کو اپنے گھروں اور سسرال کے حالات کی وجہ سے شکوے پیدا ہوجاتے ہیں۔ بے صبری کا مظاہرہ کر رہی ہوتی ہیں اور بعض دفعہ تکلیف بڑھنے کے ساتھ ردِّ عمل بھی اِس قدر ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سےبھی شکوے پیدا ہوجاتے ہیں۔ تو بجائے شکووں کو بڑھانے کے اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ٹھیک ہے میرے علم میں بھی ہے بعض دفعہ خاوندوں کی طرف سے اس قدر زیادتیاں ہوجاتی ہیں کہ ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہیں۔ تو ایسی صورت میں نظام سے، قانون سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اکثر دعا، صدقات اور رویّوں میں تبدیلی سے شکوے کی بجائے اُس کی مدد مانگنے کے لئے اُس کی طرف مزید جُھکنا چاہئے۔ آنحضرتﷺ نے ایک موقع پر فرمایا: اے عورتوں کے گروہ! صدقہ کیاکرو اور کثرت سے استغفار کیا کرو۔

(صحیح مسلم۔ کتاب الایمان، باب بیان نقصان الایمان بنقص الطاعات)

(جلسہ سالانہ جرمنی خطاب ازمستورات فرمودہ 23؍اگست 2003ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل18؍نومبر2005ء)

رَبَّنَا ھَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا۔ (الفرقان: 75)

اے ہمارے رب! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے۔ آمین اللھم آمین۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button