متفرق مضامین

بیواؤں اور یتیموں کے حقوق … آنحضرتﷺ کی تعلیم اور اسوہ (قسط دوم۔ آخری)

(خالد محمود شرما۔ کینیڈا)

حضرت عائشہؓ بيان کرتی ہيں کہ رسول کريمؐ کبھی گھر میں فارغ نہ رہتےيا تو کسی مسکین کے لیے جوتا سی رہے ہوتے يا بيواؤں کے لیے کپڑا سی رہے ہوتے

بیواؤں سے حسن سلوک کے بارے میںاحادیث

آنحضرتﷺ نے بیوگان اور یتامیٰ سے حسن سلوک اور ان کی خبرگیری کی تلقین فرمائی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ

السَّاعِي عَلَى الأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِيْنِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيْلِ اللّٰهِ، أَوْ كَالَّذِي يَصُوْمُ النَّهَارَ وَيَقُومُ اللَّيْلَ۔

(صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ السَّاعِي عَلَى الأَرْمَلَةِ)

بیواؤں اور مسکین کے لیے محنت کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے، یا اس شخص کی طرح ہے جو دن کو روزے رکھتا ہے اور رات کو عبادت کرتا ہے۔

یعنی جہادفی سبیل اللہ، رات کا قیام کرنا اور دن کو ہمیشہ روزے رکھنا یہ تینوں عمل قابل رشک ہیں، جو انسان یہ تینوں بڑے عمل کرنے سے عاجز ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنے معاشرے اور سوسائٹی میں ضرورتمند غریبوں، بیواؤں اور یتیموں کے ساتھ ہمدردی، تعاون ان کی کفالت خبرگیری اوران کے اخراجات کی فکر میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطرمصروف عمل رہے تو ایسا آدمی روز محشر مجاہدین، قیام اللیل اور صائم النہار افراد میں شمار ہوگا، اگر کوئی بھی انسان اپنے اندر بے حسی اور سخت دلی محسوس کرتا ہو تو اس کا روحانی علاج یہ ہے کہ وہ خصوصی طور پر ان افراد کی خدمت وکفالت کرے۔

حضرت ابوبکرؓ جان کنی کے عالم میں تھے آ پ کی صاحبزادی حضرت عائشہؓ نے جذباتی کیفیت میں یہ شعر پڑھا

وَأَبْيَضُ یَستَسْقِیْ الْغَمَامُ بِوَجْهِه مَالُ الْيَتَامٰی عِصْمَةٌ لِـلأَرَامِلِ

کہ آپؓ وہ ہیں جن کے منہ کے صدقے بارش کی دعا کی جاتی ہے۔ آپؓ یتیموں کے والی اور بیواؤں کے سہارا ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے جان کنی کے عالم میں بھی اپنی یہ تعریف گوارا نہ کی اور نہایت انکسار سے فرمایا ’’اے عائشہ!یہ مقام تو آنحضرتؐ کا تھا۔ ‘‘

(بخاری کتاب المغازی، سیرت صحابہ رسولؐ صفحہ28)

حضرت عائشہؓ بيان کرتی ہيں کہ رسول کريمؐ کبھی گھر میں فارغ نہ رہتےيا تو کسی مسکین کے لیے جوتا سی رہے ہوتے يا بيواؤں کے لیے کپڑا سی رہے ہوتے۔

(الوفاء بتعریف فضائل المصطفیٰ لابن جوزی جزء1 صفحہ337)

اور سنن نسائی میں رسول اکرمﷺ کے معمولات زندگی میں جہاں عبادات کا ذکر آتا ہے وہاں یہ بھی آتا ہے:

وَلَا يَأْنَفُ أَنْ يَمْشِيَ مَعَ الأَرْمَلَةِ وَالْمِسْکِيْنِ فَيَقْضِيَ لَهُ الْحَاجَةَ۔

(نسائی، امام احمد بن شعیب، سنن نسائی، حدیث نمبر1414)

نبی کریمﷺ بیواؤں اور مسکینوں کی حاجت روائی کرنے کے لیے اُن کے ساتھ چلنے میں کوئی عار محسوس نہیں فرماتے تھے۔

بیوہ خواتین کی آپ خبر گیری فرماتے لوگوں کو اس کی ترغیب دیتے فتح مکہ کے موقع پر حضرت سراقہ بن جعشمؓ سے فرمایا:

’’کیا میں تم کو بتلاوٴں کہ سب سے بڑا صدقہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا ضرور ارشاد فرمائیں، آپ نے فرمایا :تم اپنی اس بیٹی کا خیال رکھو جو تمہارے پاس لوٹا دی گئی ہو اور تمہارے علاوہ کوئی اس کی نگہداشت کرنے والا نہ ہو۔ ‘‘

(بخاری۔ ادب المفرد حدیث نمبر 80)

یتامیٰ سے حسن سلوک کی تعلیم

بیواؤں کے بچوں سے یعنی یتیموں سےحسن سلوک کی تعلیم بھی بار ہا قرآن کریم اور آنحضرتﷺ کے اسوے سے ہمیں ملتی ہے:

وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡیَتٰمٰی ؕ قُلۡ اِصۡلَاحٌ لَّہُمۡ خَیۡرٌ ؕ وَ اِنۡ تُخَالِطُوۡہُمۡ فَاِخۡوَانُکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ الۡمُفۡسِدَ مِنَ الۡمُصۡلِحِ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَاَعۡنَتَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ۔

(البقرہ: 221)

اور وہ تجھ سے ىتىموں کے بارے مىں پوچھتے ہىں تُو کہہ دے ان کى اصلاح اچھى بات ہے اور اگر تم ان کے ساتھ مل جل کر رہو تو وہ تمہارے بھائى بند ہى ہىں اور اللہ فساد کرنے والے کا اصلاح کرنے والے سے فرق جانتا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تمہىں ضرور مشکل مىں ڈال دىتا ىقىناً اللہ کامل غلبہ والا (اور) حکمت والا ہے۔

ہمارے. پیارے امام حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس آیت کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ’’اس آیت میں یتامیٰ کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے اور یتامیٰ کے تعلق میں قرآن کریم میں اور بھی بہت ساری جگہوں پر ذکر ملتا ہے جس میں ان کے حقوق کی ادائیگی اور ان پر شفقت کا ہاتھ رکھنے کا حکم ہے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ تمہارے بھائی ہیں اور بھائی کے ساتھ ایک نیک فطرت بھائی کیا سلوک کرتا ہے۔ بڑا بھائی ہمیشہ یہی کوشش کرتا ہے کہ میرا بھائی پڑھائی میں بھی اچھا ہو، صحت میں بھی اچھا ہو، اخلاق میں بھی اچھا ہو، جماعتی کاموں میں دلچسپی لینے والا ہو، اس کا اٹھنا بیٹھنا اچھے دوستوں میں ہو۔ جہاں پڑھائی کی طرف توجہ دے وہاں کھیلنے کی طرف بھی توجہ دے تاکہ اس کی صحت بھی اچھی رہے۔ اگر کسی محبت کرنے والے کا بھائی بیمار ہو جائے تو بے چین ہوتا ہے۔ اس کی تیمارداری او ر اس کے علاج کی طرف بھرپور توجہ دیتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے معاشرے کے یتیم تمہارے بھائی ہیں۔ ان سے نیک سلوک کرو، ان کی ضروریات کا خیال رکھو، ہمیشہ یہ بات تمہارے ذہن میں رہے کہ ان کی اصلاح کی طرف بھی توجہ دینی ہے۔ ان کو معاشرے کا ایک فعال حصہ بنانا ہے۔ یہ نہیں کہ اگر ان کے ماں باپ یا بڑے بہن بھائی نہیں ہیں جو ان کو سنبھال سکیں تو ان کو ضائع کر دو۔ فرمایا کہ یہ ایک مومن کا شیوہ نہیں ہے۔ مومن تو وہ ہے جو ان یتیموں کا خیال رکھتے ہوئے انہیں معاشرے کا مفید وجود بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسلام کی جو تعلیم ہے کہ پیار بھی کرو اور سختی کے وقت سختی بھی کرو اور ہمیشہ اصلاح کا پہلو مدنظر رہے۔ یہ چیز اپنے یتیم بھائیوں اور بچوں کے لئے بھی سامنے رکھو، جس طرح تم اپنے بچوں اور چھوٹے بھائیوں کے لئے ہمدردی کے جذبات رکھتے ہو اور یہ جذبات رکھتے ہوئے انہیں بگڑنے سے بچانے کی کوشش کرتے ہو، غلط بات پر ٹوکتے اور سمجھاتے ہو، نیک باتوں کی تلقین کرتے ہو، نہ زیادہ سختی کرتے ہو کہ وہ باغی ہو جائیں اور نہ پیار کا سلوک کرتے ہو کہ وہ لاڈ میں بگڑ جائیں۔ پس قرآن کریم کی پہلی ہدایت یتامیٰ کے بارے میں یہ ہے کہ ان کی اصلاح ہمیشہ مدنظر رکھو تاکہ وہ معاشرے کا فعال جزو بن سکیں۔ اور فرمایا کہ اصلاح اس طرح مدّنظر ہو جس طرح تم اپنے قریبی عزیز اور پیاروں کی اصلاح کی طرف توجہ دیتے ہو۔ ہمیشہ مدنظر ہو کہ وہ تمہارے بھائی ہیں۔ ان کا خیال رکھنا تمہارا فرض ہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ16؍ نومبر 2007ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل7؍دسمبر2007ءصفحہ6)

ایک دوسری جگہ یتیموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَ لۡیَخۡشَ الَّذِیۡنَ لَوۡ تَرَکُوۡا مِنۡ خَلۡفِہِمۡ ذُرِّیَّۃً ضِعٰفًا خَافُوۡا عَلَیۡہِمۡ ۪ فَلۡیَتَّقُوا اللّٰہَ وَ لۡیَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا۔

(النساء: 10)

اور وہ لوگ اس بات سے ڈریں کہ اگر وہ اپنے پیچھے کمزور اولاد چھوڑ جاتے تو اُن کے بارہ میں خوف کھاتے۔ پس چاہئے کہ وہ اللہ سے ڈریں اور صاف سیدھی بات کہیں۔

اس آیت کی روشنی میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ جماعت کو نصیحت کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ’’پس ہمیشہ یتیموں کی ضرورتوں کا خیال رکھو اور خاص طور پر جو دین کی خاطر جان قربان کرتے ہیں ان کا تو بہت زیادہ خیال رکھنا چاہئے تاکہ ان کے بچوں کے دل میں کبھی یہ خیال نہ آئے کہ ہمارے باپ نے دین کی خاطر جان قربان کرکے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا ہے۔ بلکہ ہر شہید کی اولاد کو اس بات پر فخر ہو کہ ہمارے باپ نے دین کی خاطر جان قربان کرکے دائمی زندگی پا لی اور ہمارے سر بھی فخر سے اونچے ہو گئے۔ ہمیشہ ایسے بچوں کو یہ خیال رہے کہ دنیاوی لحاظ سے جماعت نے اور افراد جماعت نے ہمیں یوں اپنے اندر سمو لیاہے اور ہماری ضروریات اور ہمارے حقوق کا یوں خیال رکھا ہے جس طرح ایک بھائی اپنے بھائی کا رکھتا ہے۔ جس طرح ایک باپ اپنے بچے کا رکھتا ہے۔ ہمیشہ ان بچوں میں یہ احساس رہے کہ ہماری تربیت کا ہمارے بھائیوں نے بھی اور جماعت نے بھی حق ادا کر دیا ہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ16؍ نومبر 2007ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل7؍دسمبر2007ءصفحہ6)

یتیموں کا مال کھانے کی ممانعت

پھر یتیموں کے اموال کےبارے میں ہمارے پیارے امام فرماتے ہیں کہ’’اگر کسی بچے کا باپ اس کے لئے جائیداد چھوڑ کر مرا ہے تو اس کے قریبی اور ارد گرد کے لوگ اس کی جائیداد پر نظر رکھتے ہوئے اسے ہڑپ کرنے کی کوشش نہ کریں، ختم کرنے کی کوشش نہ کریں۔ جھوٹے طریقے سے یتیم کو اس کے باپ کی جائیداد سے محروم کرنے کی کوشش نہ کریں۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ احتیاط سے استعمال کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّہٗ(بنی اسرآئیل: 35)

اور تم یتیم کے مال کے پاس اس کے جوانی کے پہنچنے تک بے احتیاطی سے نہ جاؤ۔ یعنی یہ نہ ہو کہ پرورش کے بہانے اس کا مال سارا لُٹا دو۔ اگر تمہارے حالات اچھے ہیں تو جہاں اپنے بچوں کو کھلاتے پہناتے ہو اس کے لئے بھی خرچ کرو۔ اور اگر حالات ایسے نہیں کہ پرورش کر سکو اور یتیم کے ماں باپ نے اگر کوئی مال چھوڑا ہے تو پھر اس میں سے احتیاط سے صرف اتنا ہی خرچ کروجس سے اس کی ضرورت، جو حقیقی ضرورت ہے پوری ہو جائے اور جب وہ ہوش وحواس کی عمر کو پہنچ جائے تو پھر اس کا مال اسے واپس کر دو۔ بعض دفعہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض قریبی بھی یتیم کا مال اس کی بلوغت کو پہنچنے کے بعد اس کے حوالے نہیں کرتے۔ ماں باپ کی چھوڑی ہوئی جائیداد پر مستقل تصرف کئے رکھتے ہیں کہ ہم نے اس پر خرچ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ چیز انتہائی ناپسند ہے یتیم کی پرورش کے لئے نیت صاف ہونی چاہئے۔ اگر نیتوں میں فتور آ جائے تو باوجود اس کے کہ بظاہر ایک شخص یتیم کی پرورش کر رہا ہوتا ہے، دوسروں کی نظر میں بڑا قابل تعریف ہوتا ہے کہ اس نے اپنے قریبی یا کسی بھی یتیم کی اچھی پرورش کی ہے یا کر رہا ہے لیکن اصل میں تو اس یتیم کے پیسے سے ہی پرورش کر رہا ہوتا ہے، ہر ایک کو تو نہیں پتہ ہو گا۔ اور نہ صرف یہ کہ وہ پیسہ پرورش میں استعمال کر رہا ہوتا ہے بلکہ اس سے خود بھی فائدہ اٹھا رہا ہوتا ہے۔ زیادہ مقصد خود فائدے اٹھانے کا ہوتا ہے۔ اور جب یتیم کو بڑے ہو کر پتہ چلتا ہے کہ اس کی جائیداد تو اس کی پرورش کے نام پر اس کی پرورش کرنے والا ختم کر چکا ہے، یا حیلوں بہانوں سے اسے دینا نہیں چاہتا توپھر فساد شروع ہو جاتا ہے۔ بھائیوں بھائیوں میں دُوریاں پیدا ہو جاتی ہیں، ماموؤں، چچاؤں اور بھائیوں بھتیجوں میں دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں، رنجشیں بڑھتی ہیں، مقدمہ بازیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ جماعتی نظام کے تحت اگر آتے ہیں تو مقدمے قضاء میں آ جاتے ہیں یا پھر عدالتوں میں چلے جاتے ہیں۔ بعض لوگ جو خود ہی معاملات اندر ہی سمیٹنا چاہتے ہیں وہ پھر بعض دفعہ اصلاح احوال کے لئے مجھے لکھتے ہیں کہ ہمارے حق دلوائے جائیں۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کو تو دھوکا نہیں دے سکتے۔ اللہ اصلاح کرنے والے کا فساد کرنے والے سے فرق جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور اس کا علم کامل ہے۔ وہ انسان کی پاتال تک سے واقف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یتیم کی پرورش کے شوق کے پیچھے نیت کیاہے۔ معاشرے کو تو دھوکا دیا جا سکتا ہے، عدالتوں میں تومقدے جیتے جا سکتے ہیں لیکن خداتعالیٰ کو دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ تو ایک مومن سے یہ توقع رکھتا ہے کہ یتیم کا مال کھانے کا تو سوال ہی نہیں، تم ایک محبت کرنے والے بھائی کی طرح یتیم سے سلوک کرو۔ نہ صرف اس کی پرورش کرو بلکہ اگر ہو سکے تو ان کو ان کے پاؤں پر کھڑا کرنے میں اگر توفیق ہے تو اپنے پاس سے بھی خرچ کر دو۔ ان کو کسی کام پر، کسی کاروبار میں لگاؤ تاکہ وہ معاشرے کا فعال اور مفید حصہ بن سکیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَلَوْ شَآءَ اللّٰہُ لَاَعْنَتَکُمْ

اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا۔ تمہیں ایسا حکم دیتا جس سے تمہیں تکلیف ہوتی۔ تمہیں حکم دیتا کہ اگر کسی یتیم کا باپ جائیدادچھوڑ گیاہے تو تم نے پھر بھی اس پر تصرف نہیں کرنا اور یتیم کی جائیداد کی ایک ایک پائی اسے واپس لوٹانی ہے اور پرورش پر بھی خود خرچ کرنا ہے۔ پس اللہ نے اگر تمہیں کسی تکلیف میں نہیں ڈالا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ جو جائز سہولت دی ہے کہ یتیم کے مال میں سے اس کی پرورش پر خرچ کر سکتے ہو اس سے ناجائز فائدہ اٹھاؤ اور اس کا مال دونوں ہاتھوں سے لُٹادو۔ پس ہمیشہ یاد رکھو کہ ناجائز طریقے سے یتیم کا مال کھانے سے تم پکڑ کے نیچے آؤ گے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ16؍ نومبر 2007ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل7؍دسمبر2007ءصفحہ6)

یتیموں سے حسن سلوک کے بارے میںاحادیث

یتیموں کے ساتھ حسنِ سلوک کے معنی یہ ہیں کہ ان بچّوں کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کیا جائے، جیسا اپنے سگے بچّوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ان کی تعلیم، لباس، رہن سہن، کھانے، پینے سمیت دیگر تمام سہولتوں کا خصوصی خیال رکھا جائے۔ ان کے ساتھ محبت، پیار و شفقت کا برتاؤ کیاجائے، تاکہ وہ کسی بھی طرح کی احساسِ محرومی کا شکار نہ ہوں۔ شفقتِ پدری سے محروم ان بچّوں کے ساتھ حسنِ سلوک، جنّت کے حصول کا ذریعہ ہے۔ امام الانبیاء، خاتم النبییّن، سیّدالمرسلین، شاہِ عرب و عجم، سرکارِ دوعالم، رحمتِ دوجہاں، محسنِ انسانیت، سرورِ کائنات، حضور رسالت مآب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم حالتِ یتیمی میں دُنیا میں جلوہ افروز ہوئے۔

رسول اللہﷺ نے اپنے اسوہ ٔکامل سےیتیموں کے ساتھ حسن سلوک اورانصاف کرنے کا حکم دیا۔ اور اس یتیم کی کفالت کا اجر بیان کرتے ہوئے فرمایا:

’’یتیم کی کفالت کرنے والا اور میں جنت میں دو انگلیوں کی طرح ملے ہوں گے اورآپؐ نے اپنی انگشت شہادت اور وسطی انگلی کو ملاکر دکھایا۔ ‘‘

(بخاری کتاب الادب باب 24ومسند احمد جلد 2صفحہ375)

حضرت ابو امامہؓ کی روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا: جس شخص نے کسی یتیم بچے کے سر پر محض خدا کی خاطر ہاتھ پھیرا تو ہر بال کے عوض جسے اس کے ہاتھ نے چھوا اُسے کئی نیکیاں عطاکی جائیں گی اور جس نے کسی یتیم بچی کی عمدہ تربیت یا اپنے زیر پرورش کسی یتیم بچے سے حسن سلوک کیا۔ میں اوروہ جنت میں ان دو انگلیوں کی طرح اکٹھے ہوں گے اور آپؐ نے وسطی انگلی اور انگشت شہادت میں فرق ڈال کر دکھایا۔

(مسند احمد جلد 5صفحہ250 بحوالہ اسوۂ انسان کامل صفحہ491)

آنحضرتﷺ کی حیات مبارکہ سےیتیموں سے حسن سلوک کے بے شمار واقعات ہمیں ملتے ہیں۔

چنانچہ ایک غزوے سے واپسی پرجب آپؐ کے لشکر کے پاس پانی ختم ہو گیاتو صحابہؓ اس کی تلاش میں نکلے۔ ایک عورت اونٹ پر پانی لاتی ہوئی ملی۔ معلوم ہوا کہ بیوہ عورت ہے جس کے یتیم بچے ہیں۔ رسول کریمؐ نے دعا کر کے اس کے پانی کے اونٹ پر سے ایک مشکیزہ لے کراس پر برکت کے لیے دعا کی پھر اس کے پانی سے تمام لشکر نے پانی لیا مگرپھر بھی وہ کم نہ ہوا۔ رسول اﷲؐ نے اس بیوہ عورت سے حسن سلوک کی خاطر صحابہ کے پاس موجود زادراہ جمع کروالی اوراس بیوہ عورت کو کھجوریں اور روٹیاں عطا کرتے ہوئے فرمایا :ہم نے تمہارا پانی ذرا بھی کم نہیں کیا اوریہ زادراہ تمہارے یتیم بچوں کے لیے تحفہ ہے۔ اس عورت نے اپنے قبیلے میں جا کرکہا کہ میں ایک بڑے جادوگر کے پا س سے ہو کر آ ئی ہوں یا پھر وہ نبی ہے۔ یوں اس عورت کی بدولت اﷲ تعالیٰ نے اس قبیلےکو ہدایت کی توفیق عطا فرمائی اور وہ مسلمان ہو گئے۔

(بخاری کتاب المناقب باب 22 بحوالہ اسوہ ٔانسان کامل صفحہ496)

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی مسلمان یتیم بچے کے کھانے پینے کی کفالت کرے اللہ تعالیٰ ضرور اُسے جنت میں داخل کرے گا سوائے اس کے کہ وہ کوئی ایسا (شرک جیسا) گناہ کرے جس کی بخشش نہ ہو۔

(الترمذي في السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء في رحمة اليتيم وکفالته)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں میں سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اُس کے ساتھ نیک سلوک کیا جاتا ہو اور سب سے بدترین گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اُس کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو۔

( ابن ماجه في السنن، کتاب الأدب، باب حق اليتيم )

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے دل کے سخت ہونے کا ذکر کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تم اپنے دل کو نرم کرنا چاہتے ہو تو مسکین کو کھانا کھلاؤ اور یتیم کے سر پر ہاتھ رکھو۔

(أحمد بن حنبل في المسند)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ

’’مسلمانوں کو چاہیے کہ سچے دل سے خدا تعالیٰ کے احکام بجا لاویں۔ نماز کےپابند ہوں۔ ہر فسق و فجور سے پرہیز کریں۔ توبہ کریں اور نیک بختی اور خدا ترسی اور اﷲ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوں۔ غریبوں اور ہمسایوں اور یتیموں اور بیواؤں اور مسافروں اوردرماندوں کے ساتھ نیک سلوک کریں اور صدقہ اور خیرات دیں اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں اور نماز میں اس بلا سے محفوظ رہنے کے لیے رو رو کر دعا کریں۔ پچھلی رات اُٹھیں اور نماز میں دعائیں کریں۔ غرض ہر ایک قسم کے نیک کام بجالائیں اور ہر قسم کے ظلم سے بچیں۔ ‘‘

(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد14 صفحہ373)

حرف آخر

آپﷺ نے اپنے عمل کے ذریعے تمام مسلمانوں کو یتیموں اور بیوگان کے مقام کا تحفظ فراہم کرنے کا شعور عطا فرمایا، ان مظلوموں کو سر اٹھانے کا موقع ملا، افراط وتفریط ختم ہوئی، جور وستم میں پسنے والی اس نازک صفت کو معاشرے کا ایک فرد گردانا، اور ان کے واجبی حقوق متعین فرمائے، نیز انسانیت کو بیوہ عورتوں اور یتیموں کی کفالت اور غمخواری کرنے کا درس دیا اور اپنے فرامین مبارک میں اس مظلوم طبقہ کی خدمت کو عظیم نیکی قرار دیتے ہوئے راہ خدا میں جہاد کے برابر، اور رات بھر نفل نمازیں پڑھنے، اور ہمیشہ روزہ رکھنے والے کا درجہ عطا فرمایا۔ یہی وہ آنحضرتﷺ کا اسوہ مبارک ہے جس سے معاشرے کا امن قائم ہوتاہے۔ گھروں کا سکون قائم ہوتاہے۔ نیکیاں پھیلتی ہیں۔ اس پُرحکمت تعلیم کا حسن دوبالا ہو کر پھیلتا چلا جاتاہے۔ لیکن اگر ان باتوں کی طرف توجہ نہیں ہوگی تو جہاں معاشرے کا امن برباد ہوگا وہاں ایسا شخص پھر اس عزیز اور غالب خدا کی پکڑ میں بھی آئے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پُرحکمت تعلیم کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button