متفرق مضامین

دنیا میں پائیدار امن کے قیام کے لیےآنحضورﷺ کے بیان فرمودہ زرّیں اصول اور نمونہ (قسط دوم)

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کر، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ (صحابہؓ نے ) کہا:
یارسول اللہ!مظلوم کی تو ہم مدد کریں گے کیونکہ وہ مظلوم ہے، لیکن ظالم ہو تو اُس کی کیسے مدد کریں؟ آپؐ نے فرمایا: اُس کے ہاتھوں کو پکڑلو

نوع انسان سے حسن سلوک کی تعلیم

رسول کریمﷺ نے صرف گھر کے افراد یا رشتہ داروں سے ہی حسن سلوک کی تعلیم نہیں دی بلکہ آپؐ نے اپنے ماننے والوں کو دنیا کے ہر انسان سے پیار، محبت اور خیرخواہی کی تعلیم دی ہے اور اس میں کسی قسم کے امتیاز کو رَوا نہیں رکھا۔ آپ کا ارشاد مبارک ہے:

مَنۡ لَا یَرۡحَمُ النَّاسَ لَا یَرۡحَمۡہُ اللّٰہُ۔

(جامع ترمذی کتاب البر والصلۃ باب ما جاء فی رحمۃ المسلمین)

جو لوگوں پر رحم نہیں کرے گا اللہ تعالیٰ اُس پر رحم نہیں کرے گا۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: رحم کرنے والوں پر رحمٰن بھی رحم کرتا ہے۔ تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ رحم بھی رحمٰن کی شاخ ہے جس نے اس کو جوڑا اللہ تعالیٰ بھی اس سے رشتہ جوڑ لے گا اور جو اسے قطع کرے گا۔ اللہ بھی اُس سے قطع تعلق کرلے گا۔ (جامع ترمذی کتاب البر والصلۃ باب ما جاء فی رحمۃ المسلمین)

آنحضورﷺ کی امن پسندی کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام کی سب سے اہم عبادت یعنی نمازکے اختتام پر آپؐ نے اللہ تعالیٰ کے اذن سے اَلسَّلَامُ عَلَیۡکُمۡ وَرَحۡمَۃُ اللّٰہِ کے الفاظ شامل فرمائے ہیں۔ اس طرح ہر مسلمان دن میں پانچ مرتبہ اپنی دائیں طرف منہ کرکے سلامتی اور برکت پر مشتمل یہ دعا بلا تفریق رنگ ونسل اور مذہب وملت ہر انسان میں تقسیم کرتا ہے اوراُن سے کہتا ہے کہ سلامتی میں داخل ہوجاؤ اور اللہ کی رحمت سے حصہ پاؤ۔ پھر اُسی وقت سلامتی اور برکت کی یہ دعا بائیں طرف کے لوگوں میں تقسیم کردیتا ہے۔ محسن انسانیتﷺ نے اپنے ماننے والوں کوامن اور سلامتی عطاکرنے والے اس قول خیر کو کثرت سے پھیلانے اور اسے اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی تلقین فرمائی ہے تاکہ ساری دنیا کی فضا امن اورسلامتی کی دعاؤں سے بھر جائے۔ آپﷺ کا ارشاد مبارک ہے: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوسکتے جب تک ایمان نہ لے آؤ اور تم اس وقت تک ایمان نہیں لاسکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں اگر تم وہ کرلو تو آپس میں محبت کرنے لگو گے (وہ یہ ہے کہ )

أَفۡشُوالسَّلَامَ بَیۡنَکُمۡآ

پس میں سلام کو رواج دو۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان بَاب بَیَانِ أَنَّہُ لَا یَدۡخُلُ الۡجَنَّۃَ…)پس نبی کریمﷺ نے امن وسلامتی اور اخوت ومحبت کی طرف جس قدر زور دیا ہے دنیا کے دیگر مذاہب میں اس کا عشر عشیر بھی نظرنہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ نے جماعت مومنین کو یہ حکم دیا ہے کہ

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتًا غَیۡرَ بُیُوۡتِکُمۡ حَتّٰی تَسۡتَاۡنِسُوۡا وَتُسَلِّمُوۡا عَلٰٓی اَھۡلِھَا ذٰلِکَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرَوۡنَ۔ (النّور28)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو یہاں تک کہ تم اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں پر سلام بھیج لو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو۔

قرآن کریم کے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

وَاِذَا حُیِّیۡتُمۡ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوۡا بِاَحۡسَنَ مِنۡھَآ اَوۡرُدُّوۡھَا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیۡئٍ حَسِیۡبًا۔ (النساء: 87)

اورجب تمہیںکوئی خیر سگالی کا تحفہ پیش کیا جائے تو اس سے بہتر پیش کیا کرو یا وہی لَوٹا دو۔ یقیناً اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس آیت کریمہ کا ترجمہ بیان کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے: ’’اور اگر کوئی تمہیں سلام کہے تو اس سے بہتر اور نیک تراس کو سلام کہو۔ ‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 336)

حضرت عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریمﷺ سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپؐ نے فرمایا تم کھانا کھلایا کرو اور ہر کسی کوسلام کیاکرو خواہ تم اسے جانتے ہو یا نہیں جانتے۔

(صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب الطعام من الاسلام حدیث نمبر12)

پس امن اور سلامتی عطا کرنے والے اس قول خیر کو مسلمانوں تک ہی محدود نہیں کیا گیا بلکہ آنحضورﷺ نے اس کا دائرہ کار ساری انسانیت تک بڑھا دیا ہے۔

مسلمان معاشرے میں امن کا قیام

نبی کریمﷺ نے اپنے ماننے والوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دے کر ہر ضرورت کے وقت اُس کی مدد کی تعلیم دی ہے تاکہ ان کے باہمی تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہیں اور اُن میں تعاون کا جذبہ فروغ پاتا رہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی یہ نشانی بیان فرمائی ہے کہ اُن کے اندرایثار کا جذبہ پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے نفسوں پردوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جس سے باہمی الفت ویگانگت میں اضافہ ہوتا ہے اور دل دلوں کے قریب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جماعت مومنین کی یہ خوبی بیان فرمائی ہے کہ

وَیُؤۡثِرُوۡنَ عَلٰٓی اَنۡفُسِھِمۡ وَلَوۡ کَانَ بِھِمۡ خَصَاصَۃٌ (الحشر: 10)

اور خود اپنی جانوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے تھے باوجود اس کے کہ انہیں خود تنگی درپیش تھی۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے۔ وہ نہ اس کی خیانت کرتا ہے اور نہ اس سے جھوٹ بولتا ہے اور نہ اسے بے یارومددگار چھوڑتا ہے۔ مسلمان کی ہر چیز دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ اس کی عزت بھی۔ اس کا مال بھی اور اس کا خون بھی۔ (حضورؐ نے دل کی طرف اشارہ کرکے فرمایا) تقویٰ یہاں ہے۔ کسی شخص کے شر کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔

(جامع ترمذی کتاب البر والصلۃ بَاب مَا جَآءَ فِیۡ شَفۡقَۃِ الۡمُسۡلِمِ عَلَی الۡمُسۡلِمِ)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کر، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ (صحابہؓ نے ) کہا: یارسول اللہ!مظلوم کی تو ہم مدد کریں گے کیونکہ وہ مظلوم ہے، لیکن ظالم ہو تو اُس کی کیسے مدد کریں؟ آپؐ نے فرمایا: اُس کے ہاتھوں کو پکڑلو۔

(صحیح بخاری کتاب المظالم بَاب أَعِنۡ أَخَاکَ ظَالِمًا أَوۡ مَظۡلُوۡمًا حدیث2443)

حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مومنوں کی مثال ایک دوسرے سے محبت کرنے اور ایک دوسرے پر رحم کرنے اور ایک دوسرے پر شفقت کرنے میں ایک بدن کی سی ہے جب ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو اس کی وجہ سے باقی سارا بدن بیداری اور بخار میں شامل ہوتا ہے۔

عَنِ النُّعۡمَانِ بۡنِ بَشِیرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ الۡمُسۡلِمُونَ کَرَجُلٍ وَاحِدٍ اِنِ اشۡتَکَی عَیۡنُہُ اشۡتَکَی کُلُّہُ وَ اِنِ اشۡتَکَی رَأۡسُہُ اشۡتَکَی کُلُّہُ۔ (صحیح مسلم کتاب البروالصلۃ والآداب بَاب تَرَاحُمِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ تَعَاطُفِھِمۡ وَ تَعَاضُدِھِمۡ حدیث4673)

حضرت نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمام مسلمان فردِ واحد کی طرح ہیں اگر اس کی آنکھ میں تکلیف ہو تو اس کا سارا وجود تکلیف اٹھاتا ہے اور اگر اس کے سر میں تکلیف ہوتو سارا (وجود) تکلیف اٹھاتا ہے۔

آنحضورﷺ نے دنیا میں قیام امن کے لیے انسانی نفسیات کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے اپنے ارشادات میں انسانی فطرت کو اپیل کرنے والے پہلوؤں کو اجاگرکیا ہے تاکہ ہر انسان اپنی سمجھ اور استطاعت کے مطابق اُن سے فائدہ اُٹھا سکے۔ آپؐ نے دنیا کوبتایا کہ اللہ تعالیٰ کی ذت اقدس وراء الوراء ہستی ہے۔ اگرچہ اُس کی کوئی شکل وصورت نہیں لیکن وہ چاہتا ہے کہ اُس کی چہرہ نمائی ہو اور دنیا اُس کو پہچانے۔ اِس لیے اُس نے اس دنیا میں کارفرما اپنی صفات حضرتِ انسان میں ودیعت کردی ہیں۔ آنحضورﷺ کا ارشاد مبارک ہے:

خَلَقَ اللّٰہُ اٰدَمَ عَلٰی صُوۡرَتِہٖ

(صحیح بخاری، کتاب الاستیذان باب بدء الاذان)

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اُس کے بندے اُس کی صفات کو اپنا کر اُن کی چہرہ نمائی کریں۔ اب یہ حضرت انسان کا کام ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی صفات کوکس قدر اپناتااور اُس کے مطابق اللہ تعالیٰ کے مقدس چہرے کو اپنے اچھے اعمال کے ذریعہ ظاہر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

صِبۡغَۃَ اللّٰہِ وَمَنۡ اَحۡسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبۡغَۃً (البقرۃ: 139)

اللہ کا رنگ پکڑو۔ اور رنگ میں اللہ سے بہتر کون ہوسکتا ہے۔ پس جو انسان جس قدر اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنائے گا وہ اُسی قدر اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہونا شروع ہوگااور اس کا لازمی نتیجہ یہ ظاہر ہو گا کہ وہ انسان اُسی قدر نافع الناس وجود بنتا جائے گا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ’’اَلسَّلَامُ‘‘ بیان ہوئی ہے یعنی وہ ذات اقدس امن وسلامتی کامنبع ہے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ کرنے والے ہر انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس صفت سے متصف ہواور اس صفت کا رنگ اپنے اوپر چڑھا لے اور دنیا کے امن اور سلامتی کی علامت بن جائے۔

تکلیفیں اٹھائیں لیکن ملک کا امن برقرار رکھا

آنحضو رﷺ ایک ایسی قوم کی طرف مبعوث ہوئے جو جہالت کی تاریکیوں میں گم اور تنزل کی اتھاہ گہرائیوں میں گری ہوئی تھی۔ آپﷺ نے چاہا کہ اس قوم کی اصلاح کریں اور اسے جہالت کے مہیب سایوں سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کردیں لیکن آپ کی قوم مخالفت پر کمربستہ ہوگئی اور قوم کا بچہ بچہ مخالفت پر اُتر آیا۔ اصلاح خلق کی کوئی بھی تحریک انہیں سیخ پا کردیتی اوروہ آپ کی بات سننے کی بجائے سختی پر اُتر آتے بلکہ اُن کی اکثریت آپ کی جان کے درپے ہوگئی۔ آپ کے ماننے والے بھی ان ظلموں کا نشانہ بننے لگے، مردوں کو بےعزت کیا جاتااور عورتوں کی بے حرمتی روز کا معمول بن گیا۔ ان انتہائی مشکل اور نازک حالات میں بھی آپؐ نے اپنا مشن جاری رکھا اور حق بات کا پرچار کرتے رہے۔ آپؐ تیرہ سال تک ایک ظالم، جابر، دینی شعائر کی بے حرمتی کرنے والی اور دین کے معاملات میں جبر سے کام لینے والی حکومت کے ماتحت زندگی گزارتے رہے لیکن نہ تو حکومت کے خلاف کوئی سازش کی اورنہ ہی کوئی خفیہ تحریک چلائی۔ بلکہ ملک کے امن کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیشہ صبروتحمل کا مظاہرہ کیا اور اپنے ماننے والوں کو بھی اسی کی نصیحت فرماتے رہے۔

ایک مرتبہ آنحضرتﷺ نے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اللہ کی راہ میں جتنا مجھے ڈرانے کی کوشش کی گئی کسی اَور کے لیے ایسی کوشش نہیں ہوئی اور راہ مولیٰ میں جتنی اذیت مجھے دی گئی اتنی کسی اَور کو نہیں دی گئی۔

(جامع ترمذی کتاب القیامۃ حدیث2396)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنے آقا ومولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ پر ہونے والے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ مکہ معظمہ میں کئی مرتبہ کفّارِ قریش آنحضرتؐ کے اقدام قتل کے مرتکب ہوئے تھے اور ہر ایک مرتبہ میں ناکام رہے۔ ‘‘

(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 235)

نیز فرمایا: ’’جو مصیبتیں اور مشکلات ہمارے سیدو مولا آنحضرتﷺ کی راہ میں آئیں۔ اس کی نظیر انبیاء علیہم السلام کے سلسلے میں کسی کے لئے نہیں پائی جاتیں۔ آپؐ نے اسلام کی خاطر وہ دکھ اٹھائے کہ قلم ان کے لکھنے اور زبان ان کے بیان سے عاجز ہے۔ اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کیسے جلیل الشان اور اولوالعزم نبی ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ کی تائیدونصرت آپؐ کے ساتھ نہ ہوتی تو ان مشکلات کے پہاڑ کو اٹھانا ناممکن ہوجاتا اور کوئی اور نبی ہوتا تو وہ بھی رہ جاتا۔ ‘‘

(الحکم 17؍اکتوبر 1906ء)

امن کی خاطرحبشہ کی طرف ہجرت

کفار مکہ کی شدید مخالفت کے باوجود نبی کریمﷺ بڑی ثابت قدمی سے امن اورسلامتی کے پیغام کو پھیلاتے رہے۔ جب مسلمانوں کی تعداد بڑھنے لگی تو کفار مکہ نے اسے اپنے لیےبہت بڑا خطرہ جانا اورمخالفت میں مزید شدت پیدا کردی۔ مسلمانوں کوسخت تکالیف میں دیکھ کر نبی کریمﷺ نے صحابہؓ کے مشورےسے فیصلہ فرمایا کہ لڑائی جھگڑے کی بجائے جو لوگ آسانی سے ہجرت کرسکتے ہیں وہ اللہ کی خاطر اپنا پیارا وطن چھوڑ کر پڑوسی ملک حبشہ میں پناہ لے لیں۔ چنانچہ دو مختلف مواقع پر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اپنا وطن چھوڑ کر حبشہ میں پناہ گزیں ہوگئی۔ ہجرت حبشہ کے واقعات کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کے مردوزن پرمشتمل دو وفودپہلے بارہ اور پھر اسّی اصحاب حبشہ ہجرت کر گئے۔ قریش نے وہاں بھی مسلمانوں کا تعاقب جاری رکھا اورنجاشی اور اس کے سرداروں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا۔ عادل نجاشی نے اپنے دربار میں مسلمانوں کو بلا کر ان کا موقف سنا۔ حضرت جعفر طیارؓ نے مسلمانوں کے نمائندے کے طور پر سورت مریم کی تلاوت کر کے اسلام کی تعلیم پیش کی۔ بادشاہ پر اس کابہت گہرا اثر ہوا اور وہ بھی بالآخر مسلمان ہوگیا۔

(مسند احمد بن حنبل جلد5صفحہ229مطبوعہ بیروت)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’دنیا کا کام امن پر موقوف ہے۔ اور اگر امن دنیا میں قائم نہ رہے تو کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ جس قدر امن ہوگا اُسی قدر اسلام ترقی کرے گا۔ اس لیے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم امن کے ہمیشہ حامی رہے۔ آپؐ نے طوائف الملوکی میں جو مکہ معظمہ میں تھی اور عیسائی سلطنت کے تحت جو حبشہ میں تھی۔ ہم کو یہ تعلیم دی کہ غیر مسلم سلطنت کے ماتحت کس طرح زندگی بسر کرنی چاہیئے۔ اس زندگی کے فرائض سے ’’امن‘‘ہے۔ اگر امن نہ ہوتو کسی طرح کا کوئی کام دین ودنیا کا ہم عمدگی سے نہیں کرسکتے۔ ‘‘

(حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ 453تا454)

شعب ابی طالب میں قیدوبند

حبشہ کی طرف ہجرت سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد امن میں آگئی لیکن قریش کا غیض وغضب مزید بڑھ گیا اور وہ مسلمانوں کی تبلیغی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے منصوبے بنانے لگے۔ چنانچہ نبوت کے ساتویں سال ستمبر 615ء میں کفار مکہ نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کے خلاف ایک معاہدہ طے کیا اور انہیں شعب ابی طالب میں محصورکردیا۔ مسلمانوں کے ساتھ بنوہاشم اور بنومطلب کے ایسے افراد بھی محصور کردیے گئے جو ابھی مسلمان تو نہ ہوئے تھے لیکن اپنے دلوں میں مسلمانوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ قریش مکہ نے اس معاہدہ میں لکھا کہ جب تک محمدؐ کو ہمارے حوالے نہ کیا جائے مسلمانوں اور ان کے حامیوں کے ساتھ شادی بیاہ ہوگا نہ خرید و فروخت۔ مسلمانوں کے ساتھ لین دین اور میل ملاپ بھی بند کردیا گیا۔ بغرض توثیق یہ معاہدہ خانہ کعبہ میں آویزاں کردیاگیا۔

(السیرۃ النبویہ لابن ہشام جلد1صفحہ386)

مسلمانوں کا یہ معاشرتی مقاطعہ محرم 10؍نبوی تک تقریباً تین سال تک جاری رہا۔ رسول کریمﷺ اور آپ کے ساتھیوں نے نہایت تکلیف دہ اورمشکل حالات میں یہ وقت گزارا۔ آپؐ کے ساتھیوں کو بسا اوقات بھوک مٹانے کے لیے درختوں کی جڑیں کھانا پڑتیں اور کبھی پیٹ پر چمڑا باندھنا پڑتا لیکن ان مشکل حالات کے باوجود امن عالم کے داعی اعظمﷺ نے نہ تو کبھی حکومت وقت کے خلاف کسی قسم کی کوئی سازش تیار کی اور نہ ہی ملکی نظم ونسق کو خراب کرنے کی کوئی ادنیٰ سی کوشش کی۔

امن کی خاطر وطن سے بے وطن

جب کفار مکہ کے مظالم حد سے بڑھ گئے تو شاہ مکی ومدنیﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہجرت کا فیصلہ فرمایااور امن کی خاطر اپنی خوابوں کی بستی کوچھوڑ کر مدینے میں جابسے۔ رسول کریمﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہود، مشرکین اور دیگر قبائل مدینہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو میثاق مدینہ کے نام سے معروف ہے۔ یہ معاہدہ مذہبی آزادی اور حریّت ضمیر کی بہترین ضمانت ہے۔ اس معاہدے میں درج مذہبی آزادی سے متعلق چند شقوں کو اس جگہ درج کیا جارہا ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ آپ مذہبی آزادی اور امن کے کس قدر حامی تھے۔

اس معاہدے کی بنیادی شرط یہ تھی کہ یہود کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ اس معاہدے کے نتیجے میں کچھ حقوق انہیں حاصل ہوں گے اور کچھ ذمہ داریاں ان پر عائد ہوں گی۔

دوسری اہم شق یہ تھی کہ مدینہ کے مسلمان مہاجرین وانصار اور یہود اس معاہدے کی رُو سے ’’اُمّتِ واحدہ‘‘ہوں گے۔ یعنی سب اپنی اپنی جگہ مذہبی آزادی کے ساتھ اپنے دین پر عمل کرتے ہوئے سیاسی طور پر ایک تصور کیے جائیں گے۔

تیسری شق میں صراحت ہے کہ بنی عوف کے یہود مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک سیاسی امت ہوں گے۔ یہود کو اپنے دین کی آزادی اور مسلمانوں کو اپنے دین میں مکمل آزادی ہوگی۔

چوتھی شق کے مطابق مسلمانوں اور یہود کو مدینہ پر حملے کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد لازم تھی۔ مسلمان اور یہود اپنے اخراجات کے ذمہ دار خود ہوں گے البتہ جنگ میں باہم مل کر خرچ کریں گے۔

پانچویں شق کے مطابق فریقین ایک دوسرے سے خیرخواہی کریں گے اور نقصان نہیں پہنچائیں گے۔

(السیرۃ النبویہ لابن ہشام جلد 2صفحہ 147تا150)

اس معاہدے کے متعلق سیرت ابن ہشام میں لکھا ہے کہ آنحضرتﷺ کی ہجرت مدینہ کے بعد مسلمانوں اور دیگر قبائل کے درمیان میثاق مدینہ طے پایا جس کی ایک شق یہ تھی کہ یہود، بنی عوف مومنوں کے ساتھ مل کر ایک قوم ہوں گے۔ یہود کو اپنے دین پر اور مسلمانوں کو اپنے دین پر قائم رہنے کی آزادی ہے۔ وہاں جو ظلم کرے اور گناہ کرے وہ اپنے نفس کو اور اپنے اہل بیت کو نقصان پہنچائے گا۔

(سیرت ابن ہشام جلد 1صفحہ 503۔کتابہ بین المہاجرین والانصار موادعۃ یہود)

رسول کریمﷺ نے ہجرت مدینہ کے بعد سربراہِ مملکت اور حاکم وقت کے طور پر دس سال تک عملاً امورِ مملکت چلائے۔ یہاں تک کہ مدینہ کی محدود شہری مملکت ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے پورے عرب کی وسعتوں پر چھاگئی۔ محسن انسانیتﷺ کی زیر نگرانی چلنے والی مملکت میں ہر خاص و عام اور مسلم و غیر مسلم کے معاشی تحفظ اور اُن کی معاشرت کاخاص خیال رکھا گیا۔ یہاں تک کہ مملکت کی حدود میں بسنے والے تمام باشندے بلا امتیاز ہر قسم کی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور مذہبی سہولتوں سے متمتع ہوتے رہے۔ آپؐ نے آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے اسلامی شریعت کے جامع اُصول و ضوابط بیان فرمائے اور انہیں باور کرایا کہ حقوق انسانی کی ادائیگی اسلام کی بنیادی تعلیم ہے۔

مسلط کی گئی جنگوں میں امن کی تلاش

آنحضورﷺ اور آپ کے صحابہؓ مسلسل تیرہ سال تک کفار مکہ کے ہاتھوں، اذیتیں، دکھ اور تکالیف اُٹھاتے رہے۔ اُن میں سے بعض شہید بھی کردیے گئے لیکن آپؐ اپنے ماننے والوں کو ان مظالم کا جواب دینے کی بجائے انسانوں سے شفقت اور ملکی امن کی خاطر صبر سے کام لینے کی تلقین فرماتے رہے۔ اگر کبھی صحابہؓ نے آنحضورﷺ سے دشمنوں کے ساتھ مقابلے کی اجازت مانگی تو آپؐ نے انہیں جواب دیا اِنِّیۡ اُمِرۡتُ بِالۡعَفۡوِ(النسائی)مجھے تو عفو، درگزر اور معاف کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لیے مَیں کیونکرتمہیں مقابلے کی اجازت دے سکتا ہوں۔ آنحضورﷺ ہمیشہ جنگ وجِدال اور لڑائی سے بچتے تھے۔ آپؐ نے مسلمانوں کو بھی یہی تلقین فرمائی ہے کہ وہ جنگ کی خواہش نہ کیا کریں۔ آپﷺ کا ارشاد مبارک ہے:

لَا تَمَنَّوۡا لِقَاءَ الۡعَدُوِّفَاِذَا لَقِیۡتُمُوۡھُمۡ فَاصۡبِرُوۡا

(صحیح مسلم کتاب الجھادوالسیربَاب کَرَاھَۃُ تَمَنِّی لِقَاء الۡعَدُوِ…)دشمن سے مقابلہ کی تمنا نہ کرو اور جب ان سے مڈھ بھیڑ ہوجائے تو ثابت قدم رہو۔ پس مسلسل تیرہ سال تک آپؐ اور صحابہؓ ہر طرح کے مظالم برداشت کرتے رہے لیکن لڑائی جھگڑے اور فساد پھیلانے میں حصہ نہ لیااور بالآخر ملکی امن کی خاطر اپنے آباء واجداد کے وطن کو چھوڑ کر مدینہ میں آباد ہوگئے۔ مسلمانوں کی ہجرت کے بعد بھی مشرکین مکہ کا غیض و غضب کم نہ ہوا بلکہ اسلام کوصفحہ ہستی سے مٹانے کی آگ مزید شعلہ زن ہوگئی۔ چنانچہ انہو ں نے مدینہ پر حملہ کرکے مسلمانوں کو تباہ وبرباد کرنے کی تیاریاں شروع کردیں۔ ابھی مسلمانوں کو ہجرت کیے ایک سال ہی گزرا تھاکہ کفار مکہ ایک ہزار جنگجوؤں پر مشتمل لشکرلے کر مدینہ پر حملہ کے لیے روانہ ہوگئے۔ مسلمان اُن کی جنگی تیاریوں سے لاعلم تھے جیسے ہی اُنہیں کفار مکہ کے لشکر کا علم ہوا انہوں نے رسول کریمﷺ کے حکم سے اپنے دفاع کے لیے 313 افراد پر مشتمل دستہ تیار کیا اور بدر کے مقام پر دشمن کا سامنا کیا۔ اس طرح نہتے مسلمانوں نے مجبوری کے عالم میں 17؍رمضان 2؍ہجری بمطابق 14؍مارچ 624ء کو ان حملہ آوروں کے خلاف پہلی دفاعی جنگ لڑی۔ اس جنگ میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریمﷺ کی دعاؤں کو قبو ل فرماتے ہوئے مسلمانوں کو نمایاں فتح عطا فرمائی۔ بدر کی لڑائی کو ابھی ایک سال گزرا تھا کہ گھمنڈی دشمن ایک بارپھر مدینہ پر حملہ آور ہوگیا۔ مورخہ 7؍شوال 3؍ہجری بمطابق 23؍مارچ 625ء کو مسلمانوں کو اسلام کی بقا کی خاطر دوسری دفاعی جنگ لڑنا پڑی۔ اسلام کی امن پسندی کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہﷺ کی لائی ہوئی تعلیم میں مذہبی جنگوں کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے جبکہ مسلمانوں کو صرف دفاعی جنگ کی اجازت دی گئی ہے:

وَ قَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ وَ لَا تَعۡتَدُوۡاؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ۔ (البقرۃ: 191)

اور اللہ کی راہ میں ان سے قتال کرو جو تم سے قتال کرتے ہیں اور زیادتی نہ کرو۔ یقیناً اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

رسول کریمﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں تیسری مرتبہ حنین کے مقام پر دشمنوں سے جنگ لڑی جو شوال 8؍ہجری بمطابق جنوری فروری 630ء میں لڑی گئی۔ اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہر انسان بخوبی جان سکتا ہے کہ ہجرت کے بعددس سالہ دَور نبوت میں 77کے قریب ایسے مواقع پیش آئے جو جنگ کا پیش خیمہ بن سکتے تھے لیکن نبی کریمﷺ کی انسان دوست اور امن پسند طبیعت نے نہایت فراست اور کامیاب حکمت عملی سے دشمن کی چالوں کو ناکام بنایا اور ان خونریز جنگوں کو ٹال دیا۔ پس رسول کریمﷺ کے عمل سے ثابت ہے کہ آپ جنگوں کے لیے نہیں بلکہ انسانوں کو انسانوں کے قریب کرنے اور انہیں خدا تعالیٰ کا عبد بنانے کے لیے مبعوث ہوئے ہیں۔ اگرچہ آنحضورﷺ کو خود حفاظتی کی خاطر مجبوراً جنگیں بھی لڑنا پڑیں لیکن اُن جنگوں کے دوران بھی آپ کی یہی خواہش ہوتی تھی کہ کسی طرح جنگ ٹل جائے، خونریزی نہ ہواور امن کی فضا پیدا ہوجائے۔

صلح حدیبیہ کے ذریعہ امن کی کوشش

آنحضرتﷺ نے 11؍ستمبر 622ء میں مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ ہجرت کے چھ سال بعد628ء میں آپﷺ 1400صحابہ کے ہمراہ مدینہ سے مکہ کی طرف عمرہ کے ارادہ سے روانہ ہوئے۔ اُس وقت کے عرب رواج کے مطابق غیر مسلح افراد خواہ وہ دشمن ہی کیوں نہ ہوں کعبہ کی زیارت اور حج و عمرہ کرسکتے تھے۔ مسلمانوں کا قافلہ حدیبیہ کے مقام پر پہنچا تو عرب کے رواج کے بر خلاف مشرکین مکہ کے دو سو مسلح سواروں نے اُسے روک لیا۔ اس موقع پر رسول اللہﷺ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو سفیر بناکر مکہ بھیجا۔ اہل مکہ نے انہیں وہاں روک لیا۔ جب اُن کی واپسی میں تاخیر ہوئی تو رسول اللہﷺ نے صحابہؓ سے بیعت لی جو بیعت رضوان کے نام سے مشہور ہے۔ اس بیعت میں آنحضورﷺ نے صحابہؓ سے عہد لیا کہ وہ مرتے دم تک حضورﷺ کا ساتھ دیں گے۔ اس دوران حضرت عثمانؓ واپس آگئے۔ جب کفار مکہ کو اس بیعت کی خبر ہوئی تو وہ صلح پر آمادہ ہوگئے۔ چنانچہ رسول کریمﷺ نے امن کی خاطر مکہ والوں کی شرائط پر معاہدہ قبول فرمالیا۔ اس معاہدے کی بنیادی شق یہ تھی کہ دس سال تک جنگ نہیں لڑی جائے گی اوریہ کہ مسلمان اس سال واپس چلے جائیں گے اور اگلے سال عمرہ کے لیے آئیں۔ مسلمان اپنے ساتھ تلوار کے علاوہ کوئی ہتھیار نہ لائیں اور وہ بھی نیام میں رہے گی۔ ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی مسلمان مکہ کے لوگوں کے پاس چلا جائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا لیکن اگر کوئی مشرک مسلمان ہوکر اپنے گھر والوں کی اجازت کے بغیر مدینہ چلا جائے تو اسے واپس کیا جائے گا۔ قبائل عرب کو اختیار ہوگا کہ وہ فریقین میں سے جس کے ساتھ چاہیں دوستی کا معاہدہ کرلیں۔ اس معاہدے کی شرائط بظاہر مسلمانوں کے لیے نہایت کڑی تھیں لیکن آنحضورﷺ نے صلح اور امن کی خاطر ان کڑی شرائط کو منظور فرمالیا۔ اس طرح جنگ کا خطرہ فوری طور پر ٹل گیااور ملک میں امن کے حالات پیدا ہوگئے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں مسلمانوں کو بہت فائدہ ہوا، مختلف وفود مدینہ آنے لگے۔ جس کی وجہ سے تبلیغ اسلام کی راہ ہموار ہوگئی اورمسلمانوں کی ترقی کی رفتار بہت تیز ہوگئی۔ قرآن کریم میں اس معاہدے کو فتح مبین قرار دیا گیاہے۔ کچھ ہی عرصہ بعد کفار مکہ نے اس معاہدہ سے روگردانی کرتے ہوئے اسے توڑ دیا اور اس طرح فتح مکہ کی راہ ہموار ہوگئی۔

فتح مکہ کے روزعام معافی کے ذریعہ امن کا قیام

کفار مکہ کی فتنہ پروری کا اندازہ ’’صلح حدیبیہ ‘‘کے نام سے معروف معاہدے کو توڑنے سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اس معاہدے کی زیادہ تر شقیں مسلمانوں کے خلاف اور کفار مکہ کے حق میں تھیں لیکن امن کے دشمن اس معاہدے کو بھی ہضم نہ کرپائے اور انہوں نے معاہدہ توڑ دیا۔ چنانچہ آنحضورﷺ نے دسمبر 629ء کو دس ہزار صحابہؓ کے ساتھ مکہ کی طرف کوچ کیا۔ امن عالم کے پیامبر آنحضورﷺ کسی قسم کا تصادم اور خونریزی نہ چاہتے تھے۔ چنانچہ آپؐ کی کامیاب حکمت عملی سے 20؍رمضان المبارک بمطابق 10؍جنوری630ء کو شہر مکہ پر امن طور پر فتح ہوگیا۔ فتح مکہ کے موقع پررحمت عالمﷺ نے یک جنبش زبان اپنے خون کے پیاسوں کو معاف فرماکر دشمنوں سے حسن سلوک کی ایسی اعلیٰ مثال قائم فرمائی جو رہتی دنیا تک ایک ناقابل فراموش حقیقت کا روپ دھارچکی ہے۔ رسول کریمﷺ نے خانہ کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر فرمایا: ’’اے قریش کے گروہ تم مجھ سے کس قسم کے سلوک کی امید رکھتے ہو؟ ‘‘انہوں نے کہا خیر کی۔ آپؐ ہمارے معزز بھائی ہیں اور ایک معزز بھائی کے بیٹے ہیں۔ اس پر رسول کریمﷺ نے فرمایا: ’’جاؤ آج تم پر کوئی گرفت نہیں تم آزاد ہو۔ ‘‘

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ55/ طواف الرسول بالبیت وکلمتہ فیہ)

پس سالہا سال تک دشمنانِ اسلام کے ظلم سہنے کے بعد جب بدلہ لینے کا موقع ہاتھ آیا تواس وقت بھی رحمۃللعالمینﷺ نے ایک لمحہ توقف کیے بغیر اپنے جانی دشمنوں کو معاف کردیااور انہیں امان دے دی۔ اس طرح آپ نے مکہ والوں کے دلوں کو نرمی اور اپنے اعلیٰ اخلاق سے جیت کر سارے عرب میں امن کی صورت پیدا فرمادی۔

عدل و انصاف کے ذریعہ امن کا قیام

دنیا کے امن کو تباہ کرنے میں ناانصافی کا بہت عمل دخل ہے جس کی وجہ سے رقابتوں میں اضافہ ہوتا ہے، عداوتیں بڑھتی ہیں اور نفرتیں پھولتی پھلتی ہیں۔ اسلام نے بلاتفریق مذہب وملت انصاف سے بڑھ کر احسان کا حکم دیا ہے تاکہ دلوں میں نفرتوں کی بجائے محبتوں کی کھیتیاں پھولیں پھلیں، امن کی فصلیں پروان چڑھیں اور وہ ایک دوسرے کے قریب ہوں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے

اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی (النحل: 91)

یقیناً اللہ عدل کا اور احسان کا حکم دیتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کریمہ کا تفسیری ترجمہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یعنی خدا کا حکم یہ ہے کہ تم عام لوگوں کے ساتھ عدل کرو۔ اور اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم احسان کرو۔ اور اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم بنی نوع سے ایسی ہمدردی بجالاؤ جیسا کہ ایک قریبی کو اپنے قریبی کے ساتھ ہوتی ہے۔ ‘‘

(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد 12صفحہ 11تا12)

دنیا میں عام دستور چلا آرہاہے کہ جب قوم کا کوئی بااثر فرد جرم کرے تو اُسے معاف کر دیا جاتا ہے لیکن کمزورطبقے کو چھوٹے چھوٹے جرائم میں سزا ئیں دی جاتی ہے۔ آنحضورﷺ نے ناانصافی کے اس طریق کونہ صرف سخت ناپسند فرمایاہے بلکہ آپؐ نے معاشرے کے ہر فرد کے لیے عدل وانصاف کے یکساں اصول متعین فرمائے اور انہی کے مطابق عمل بھی کروایا۔ آپ کا ارشاد مبارک ہے:

اِنَّمَا اَھۡلَکَ الَّذِیۡنَ قَبۡلَکُمۡ اِنَّھُمۡ کَانُوۡا اِذَا سَرَقَ فِیۡھِمُ الشَّرِیۡفُ تَرَکُوۡہُ وَاِذَا سَرَقَ فِیۡھِمُ الضَّعِیۡفُ اَقَامُوۡا عَلَیۡہِ الۡحَدَّ۔ وَاَیۡمُ اللّٰہِ لَوۡ اَنَّ فَاطِمَۃَ بِنۡتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتۡ لَقَطَعۡتُ یَدَھَا۔

(صحیح بخاری۔ کتاب احادیث الانبیاء۔ باب حدیث الغار۔ روایت نمبر 3475)

تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہوئے کہ جب ان کا کوئی بڑا اور بااثر آدمی چوری کرتا تو اس کو چھوڑدیتے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اس کو سزا دیتے۔ خدا کی قسم ! اگر فاطمہ بنت محمدﷺ بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ آنحضورؐکی سیرت کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’آنحضرتﷺ کے پیارے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ ہجرت کے وقت تک مشرف بہ اسلام نہ ہونے کی وجہ سے غزوۂ بدر میں قریش مکہ کے ساتھ تھے اور شکست کے بعد بنائے جانے والے جنگی قیدیوں میں شامل تھے۔ انہیں بھی دیگر قیدیوں کی طرح مسجد نبوی میں ایک ستون کے ساتھ کَس کر باندھ دیا گیا۔ یہاں تک کہ آپ شدت تکلیف سے کراہنے لگے۔ آپ کی کراہنے کی آواز سن کر آنحضرتﷺ بے چین ہوگئے۔ آپﷺ کو نیند نہ آرہی تھی اور کروٹوں پر کروٹیں بدلتے جارہے تھے۔ چنانچہ آپﷺ کی بے چینی اور تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے قیدیوں کے نگران نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی رسیاں ڈھیلی کردیں جس سے انہوں نے کراہنا اچانک بند کردیا۔ ان کے کراہنے کی آواز اچانک بند ہوجانے پر آپﷺ کی پریشانی اور بڑھی تو آپﷺ کے دریافت کرنے پر عرض کیا گیا کہ آپﷺ کی تکلیف کے پیش نظر حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی رسیاں ڈھیلی کردی گئی ہیں۔ آنحضرتﷺ نے یہ سن کر ناراضگی کا اظہار فرمایا اور حکم دیا کہ اگر عباس کی رسیاں ڈھیلی کردی گئی ہیں تو پھر باقی تمام قیدیوں کی رسیاں بھی ڈھیلی کردی جائیں کیونکہ تمہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ تم اُن کے ساتھ دیگر قیدیوں کی نسبت کوئی امتیازی سلوک روا رکھو۔‘‘

(الطبقات الکبریٰ جلد نمبر 4صفحہ 325۔ ناشر داراحیاء التراث العربی، بیروت لبنان۔ 1996۔ بحوالہ عدل، احسان اور ایتاء ذی القربیٰ صفحہ 146۔ اسلام انٹرنیشنل ٹلفورڈ یوکے 2009ء)

آنحضورﷺ کی طرف سے پیش کی گئی تعلیم میں مسلمان حکمرانوں اور صاحب اقتدار لوگوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ معاشرے کے تمام لوگوں کے درمیان انصاف قائم کریں اور جب بھی کوئی فیصلہ کریں اس میں انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کریں تاکہ حق دار کو اس کا حق ملے اور معاشرے میں کسی قسم کی بے چینی اور اضطراب پیدا نہ ہو۔ اس طرح سب لوگ امن اور سکون کی زندگی بسر کرسکیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے صاحب اختیارمسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ اقتدارکی مسند پر فائز ہوں تو انصاف کے ساتھ حکومت کریں۔

وَاِذَا حَکَمۡتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡکُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ۔ (النساء: 59)

اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو۔

اسی طرح اُنہیں ہر فیصلے کے وقت انصاف سے کام لینے کا حکم دیا ہے:

وَ اِنۡ حَکَمۡتَ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَہُمۡ بِالۡقِسۡطِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ۔ (المائدۃ: 43)

اور اگر تو فیصلہ کرے تو ان کے درمیان انصاف سے فیصلہ کر۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

اسلام کا یہ حکم صرف مسلمانوں تک محدود نہیں بلکہ انصاف کے معاملے میں ہر فرد بشراس میں شامل ہے بلکہ اسلام نے دشمنی کے باوجود دشمن قوم سے انصاف کا حکم دے کر ایک ایسی تعلیم پیش فرمائی ہے جودنیا کو امن عالم کی طرف دعوت دینے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ۔ (المائدۃ: 9)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو!اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جائو اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہر گز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ یقیناً اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 22؍اکتوبر 2008ء کو برطانوی پارلیمنٹ ہاؤس آف کامنزمیںممبران پارلیمنٹ کے سامنے ایک تاریخ ساز خطاب فرمایاجس میں مندرج بالا آیت کریمہ اور اس کا ترجمہ پیش کرنے کے بعد فرمایا: ’’یہ وہ تعلیم ہے جو معاشرہ میں امن قائم کرتی ہے۔ فرمایا کہ اپنے دشمن کے معاملہ میں بھی عدل کو نہ چھوڑو۔ ابتدائی تاریخ اسلام بتاتی ہے کہ اس تعلیم پر عمل کیا گیا تھا اور عدل وانصاف کے تمام تقاضے پورے کیے گئے تھے… تاریخ اس حقیقت پر شاہد ہے کہ فتح مکہ کے بعد حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ نے ان لوگوں سے کوئی انتقام نہیں لیاتھا جنہوں نے آپ کو شدید تکالیف دی تھیں۔ آپؐ نے نہ صرف انہیں معاف کردیا تھا بلکہ اجازت دی تھی کہ وہ اپنے اپنے دین پر قائم رہیں۔ آج بھی امن صرف اسی صورت میں قائم ہوسکتا ہے جب دشمن کے لیے بھی عدل کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں۔ اور ایسا صرف مذہبی انتہا پسندی کے خلاف جنگوں میں ہی نہیں بلکہ دیگر جنگوں میں بھی کیا جانا چاہئے۔ اس طرح جو امن حاصل ہوگا درحقیقت وہی پائیدار امن ہوسکتا ہے۔

گزشتہ صدی میں دو عالمی جنگیں لڑی گئی ہیں۔ اُن کی جو بھی وجوہات تھیں اگر غور سے دیکھا جائے تو ایک ہی وجہ سب سے نمایاں دکھائی دیتی ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلی مرتبہ عدل کو صحیح رنگ میں قائم نہیں کیا گیا تھا۔ اور پھر وہ آگ جو بظاہر بجھی ہوئی معلوم ہوتی تھی دراصل سلگتے ہوئے انگارے تھے جن سے بالآخر وہ شعلے بلند ہوئے جنہوں نے دوسری مرتبہ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آج بھی بے چینی بڑھ رہی ہے۔ وہ جنگیں اور دیگر اقدامات جو امن کو قائم کرنے کی خاطر کیے جارہے ہیں ایک اور عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن رہے ہیں۔ موجودہ اقتصادی اور سماجی مسائل اس صورتحال میں اور بھی زیادہ ابتری کا باعث بن رہے ہیں۔ ‘‘

(عالمی بحران پر اسلامی نقطۂ نظر صفحہ 14تا15۔ ناشر اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنزاسلام آباد ٹلفورڈ، سرے، یوکے 2015ء)

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button