حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حقوق کی ادائیگی کی اہمیت کے حوالے سےحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے پُر معارف ارشادات میں سے ایک انتخاب

ایک مومن کو ایسے صالح اعمال بجالانے چاہئیں جن میں اللہ تعالیٰ کے حقوق کے ساتھ بندوں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جاتا ہو۔(حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)

دنیاداروں کو اور حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کو اسلامی تعلیم کی روشنی میں اپنے پیچھے چلنے کی دعوت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اسلامی تعلیمات پر یقین کامل رکھنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’ہم یہ ایمان اور یقین رکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی تعلیم کامل اور مکمل اور ہر زمانے کے مسائل کا حل ہے اور اس پر عمل کیے بغیر نہ ہی دنیا کے مسائل حل ہو سکتے ہیں نہ ہی معاشرے کے مختلف طبقوں کے حقوق ادا ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ہمیں دنیا کے سامنے اس تعلیم کو پیش کرنے کے لیے کسی شرم، جھجک اور احساس کمتری کی ضرورت نہیں۔ ہمیں حقوق کے بارے میں دنیا داروں کے بنائے ہوئے اصول و قواعد کو اپنانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی کسی قسم کا دفاعی انداز اپنانے کی ضرورت ہے بلکہ قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں دنیاداروں کو اور حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کو اسلامی تعلیم کی روشنی میں اپنے پیچھے چلنے کی دعوت کی ضرورت ہے تا کہ ہر لحاظ سے ہر طبقہ کے حقوق کی حفاظت ہو اور دنیا میں امن اور سلامتی کی فضا حقیقت میں پیدا ہو اور قائم ہو۔ یہ یقینی بات ہے کہ معاشرے کے مختلف طبقات کے حقوق اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتے جب تک کہ اس بات پر یقین نہ ہو کہ ہمارا ایک پیدا کرنے والا خدا ہے اور اس کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا کہ’’حق اللہ کیا ہے؟ یہی کہ اس کی عبادت کرنا اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا اور ذِکرُ اللہ میں لگے رہنا۔ اس کے اوامر کی تعمیل اور نواہی سے اجتناب کرنا، اس کے محرمات سے بچتے رہنا۔ ‘‘

(ملفوظات جلد10 صفحہ319)

اور جب خدا تعالیٰ کا یہ تصور ہو گا تو پھر اس کے احکامات پر بھی عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی اور اس کے احکامات کی ایک بہت بڑی اکثریت اس کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی ہے۔ اللہ تعالیٰ جو سب طاقتوں کا مالک ہے، ربّ ہے، ہر چیز دینے والا ہے اس کی شکرگزاری ایک انسان پر لازم ہے کہ کس طرح وہ اپنی ربوبیت، رحمانیت اور رحیمیت کے نظارے دکھاتا ہے۔ اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم سے کوئی نیک سلوک کرے اور تم اس کا شکریہ ادا نہیں کرتے تو تم اللہ تعالیٰ کے بھی شکرگزار نہیں ہو۔

(سنن الترمذی ابواب البرّ والصّلۃ بَابُ مَا جَاءَ فِي الشُّكْرِ لِمَنْ أَحْسَنَ إِلَيْكَحدیث1954)

پس اللہ تعالیٰ نے تو ہر موقع پر ہمیں بتایا کہ تم ایک دوسرے کے حق ادا کرو تبھی میرے حق ادا کرنے والے بنو گے۔

اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کے لیے بھی بندوں کی شکرگزاری کا کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کو بھی بندوں کے حق کی ادائیگی سے مشروط کر دیا۔ پس یہ ہے اسلام کی خوبصورت تعلیم اور یہ ہے اسلام کا خدا جو ایک دوسرے کے حقوق کو اس طرح قائم کرنے کی تلقین فرماتا ہے۔ ‘‘

(اختتامی خطاب بر موقع جلسہ سالانہ یوکے2021ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل21؍ستمبر2021ءصفحہ6)

اس تعلیم کا نہ کوئی اَور دینی تعلیم مقابلہ کر سکتی ہے نہ ہی کوئی دنیاوی تعلیم اور قانون

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’آج کل روشن خیالی کے نام پر آزادیٔ اظہار و عمل کا ایسا تصور پیدا ہو گیا ہے جو روشن خیالی کم اور اندھیروں کی طرف لے جانے والی زیادہ ہے۔ ایسا تصور ہے جو مصنوعی اور سطحی ہے۔ جس کے فوائد اور نقصان کا موازنہ کرنے کی تکلیف ہی گوارا نہیں کی گئی۔ اس نام نہاد آزادی اور روشن خیالی کے بعض پہلوؤں کے فوائد کی بجائے نقصان زیادہ ہیں۔ یہ دیکھا ہی نہیں جا رہا کہ روشن خیالی اور آزادیٔ اظہار و عمل کے نام پر ہم اپنی نسل کے مستقبل داؤ پر لگا کر خود بھی اندھیروں کی گھاٹیوں کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اپنی نسل کو بھی اس میں دھکیلنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اس نام نہاد آزادی کو سوشل میڈیا کے ذریعہ سے آج کل اس قدر exploitکیا جا رہا ہے، اس کی تشہیر کی جا رہی ہے، غلط رنگ میں پیش کیا جا رہا ہے کہ یہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ہی ختم ہو گئی ہیں کہ ہم کس تباہی کو آواز دے رہے ہیں۔ بہرحال دنیا دار جب دنیاوی نظر سے دیکھتے ہوئے چاہے نیک نیتی سے ہی سہی، اول تو نیک نیتی بہت کم ہوتی ہے، ایک برائی کو ختم کرنا چاہتے ہیں یا اس سے بچنا چاہتے ہیں تو دوسری برائی میں گرفتار ہو جاتے ہیں کیونکہ روحانی آنکھ ان کی بند ہوتی ہے اور پھر آج کل دنیا داری نے اور دین سے دوری نے اس حد تک دین سے متنفر کر دیا ہے کہ یہ لوگ دین کی نظر سے دیکھنا بھی نہیں چاہتے اور اسلام کے خلاف تو عام طور پر سخت تنقید کی جاتی ہے اور اسلام کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اور اس کی تعلیم کو پرانی، دقیانوسی تعلیم کا نام دیا جاتا ہے جس کا آج کل کی ترقی یافتہ دنیا میں کوئی مقام نہیں ہے، یہ کہا جاتا ہے اسلام کے بارے میں۔ حالانکہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو ایسی تعلیم دیتاہے جو ہر ایک کے حقوق بتاتی ہے، آزادیٔ اظہار و عمل کا بھی پتہ دیتی ہے اور ہر ایک کی حدود اور قیود کا بھی ذکر کرتی ہے اور اس کو اعتدال پر رکھنے کے لیے ہدایت بھی دیتی ہے۔

2019ء کے جلسہ کی آخری تقریر میں مَیں نے اسلام میں مختلف طبقوں کے حقوق کا ذکر کیا تھا اور یہ ذکر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ کس طرح اسلام حقوق دیتا ہے۔ کچھ کی ان شاء اللہ آئندہ بھی نشاندہی کروں گا لیکن اس وقت میں یہاں عورتوں کے حوالے سے کچھ باتیں کہنی چاہتا ہوں۔

عموماً اسلام پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام عورت کو آزادی نہیں دیتا۔ لیکن یہ اسلام کی تعلیم سے لاعلمی یا اعتراض برائے اعتراض ہے۔

اسلام کی خوبصورت تعلیم کا بنیادی اصول یہ ہے کہ صرف حقوق لینے پر زور نہ دو بلکہ اگر معاشرے میں امن اور سکون کی فضا پیدا کرنی ہے تو حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ کرو اور ہر ایک کے ذمہ جو فرائض ہیں ان کو ادا کرنے کو بھی اہمیت دو۔ تبھی حقیقی امن اور سلامتی کی فضا قائم ہو سکتی ہے جو اگر ہر طبقہ کے حقوق، اختیارات کو واضح کرتی ہے تو ان کی ذمہ داریوں کی بھی بات کرتی ہے۔ عورت کو صرف یہ نہیں کہتی کہ تم اپنے حقوق حاصل کرو بلکہ اپنے مقام کو سمجھنے اور غلط چیزوں سے بچنے کے لیے بھی ہوشیار کرتی ہے۔ پس یہ وہ سموئی ہوئی تعلیم ہے جو حقیقت میں ہر طبقے کے حقوق قائم کرنے اور آزادی ٔعمل و اظہار کی ضامن ہے۔ پس اس تعلیم کا نہ کوئی اَور دینی تعلیم مقابلہ کر سکتی ہے نہ ہی کوئی دنیاوی تعلیم اور قانون مقابلہ کر سکتا ہے۔ ‘‘

(مستورات سے خطاب برموقع جلسہ سالانہ یوکے2021ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل7؍ستمبر2021ءصفحہ6)

ایک مومن کو ایسے صالح اعمال بجالانے چاہئیں جن میں اللہ تعالیٰ کے حقوق کے ساتھبندوں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جاتا ہو

حقیقی مومنین اور کامل الایمان لوگوں کی تعریف کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’ایک مومن کو ایسے صالح اعمال بجالانے چاہئیں جن میں اللہ تعالیٰ کے حقوق کے ساتھ بندوں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جاتا ہو۔ اگر یہ بات ایک انسان میں پیدا ہو جائے تو یہ اسے حقیقی مومن کی صف میں کھڑا کردیتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ کامل الایمان کی تعریف کرتے ہوئے اور افرادِ جماعت کو توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’اس کی توحید زمین پر پھیلانے کے لئے اپنی تمام طاقت سے کوشش کرو اور اس کے بندوں پر رحم کرو اور ان پر زبان یا ہاتھ یا کسی ترکیب سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو اور کسی پر تکبر نہ کرو، گو اپنا ماتحت ہو اور کسی کو گالی مت دو، گو وہ گالی دیتا ہو۔ غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ۔ بہت ہیں جو حلم ظاہر کرتے ہیں مگر وہ اندر سے بھیڑیے ہیں۔ بہت ہیں جو اوپر سے صاف ہیں مگر اندر سے سانپ ہیں۔ سو تم اس کی جناب میں قبول نہیں ہو سکتے جب تک ظاہر و باطن ایک نہ ہو۔ بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو، نہ ان کی تحقیر۔ عالم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرو نہ خودنمائی سے ان کی تذلیل۔ امیر ہو کر غریبوں کی خدمت کرو، نہ خود پسندی سے ان پر تکبر۔ ہلاکت کی راہوں سے ڈرو۔ خدا سے ڈرتے رہو اور تقویٰ اختیار کرو۔ ‘‘

(کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ11-12)

یہ وہ چند باتیں ہیں، یہ وہ اعمال ہیں جن کے بجالانے کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے توجہ دلائی ہے اور ان کو بجالانے والا نیک اور صالح کہلا سکتا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے سلسلے میں شمولیت کرنے والوں کے لئے شرط قرار دیا ہے۔ اور اگر ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق، اس بات پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ آخرین میں مبعوث ہونے والا آنحضرتﷺ کا غلام صادق یہی ہے جس کی ہم نے بیعت کی ہے، جس کی جماعت میں ہم شامل ہیں، جو تقویٰ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے نیک اعمال کے کرنے کی ہم سے توقع کررہا ہے تو پھر اپنے ایمان کی مضبوطی کے لئے بڑی سنجیدگی سے ہر احمدی کو ان باتوں کی طرف توجہ دینی ہوگی تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث بنتے چلے جائیں۔ اور پہلی بات جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں توجہ دلائی ہے وہ ہے توحید کو زمین پر پھیلانے کی کوشش۔ خداتعالیٰ پر ایمان صرف اسی بات کا نام نہیں کہ ہم نے اپنے منہ سے خداتعالیٰ پر اپنے ایمان کا اعلان کر دیا یا کہہ دیا کہ ہمارے دلوں میں اللہ کا بڑا خوف ہے بلکہ اس کی عملی شکل دکھانی ہو گی اور وہ کیا ہے؟ توحید کے قیام کی کوشش۔ اور توحید کے قیام کی عملی کوشش اس وقت ہوگی جب ہم سب سے پہلے اپنے دلوں کو غیراللہ سے پاک کریں گے۔ دنیاوی خواہشات کے چھوٹے چھوٹے بتوں کو اپنے دلوں سے نکال کر باہر پھینکیں گے۔ ذاتی منفعتیں حاصل کرنے کے لئے دنیاوی چالاکیوں اور جھوٹ کا سہارا نہیں لیں گے۔ اپنے کاموں کو، اپنے کاروباروں کو، اپنی نمازوں پر ترجیح نہیں دیں گے۔ اپنے بچوں کا خداتعالیٰ سے تعلق جوڑنے کے لئے اپنے عمل سے اور اپنے قول سے ان کی تربیت کریں گے، ان کے لئے نمونہ بنیں گے۔ اپنے ماحول میں خداتعالیٰ کی توحید کا پرچار کریں گے۔ پس جب یہ باتیں ہم اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اور استعدادوں کے ساتھ کررہے ہوں گے تو تب ہی توحید کے قیام کی کوشش ہوگی اور تبھی ہم اپنے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کر رہے ہوں گے۔

پھر نیک اعمال کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’بندوں پر رحم کرو‘‘۔ کوئی مومن نہ صرف دوسرے مومن پر بلکہ کسی انسان پر زبان سے یا ہاتھ سے یا کسی بھی طریق سے ظلم نہ کرے۔ آنحضرتﷺ نے تو مومن کی نشانی یہ بتائی ہے کہ (مومن وہ ہے) جس سے تمام دوسرے انسان محفوظ رہیں۔ پس مومن کی پہچان ہی رحم ہے۔ ظلم کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ جب یہ رحم ایک مومن کے دل میں دوسروں کے لئے ہروقت موجزن ہوگا تبھی وہ رحمان خدا پر حقیقی ایمان لانے والے کہلا سکیں گے اور آپس کے تعلقات میں تو ایک مومن دوسرے مومن کے ساتھ اس طرح ہے جیسے ایک جسم کے اعضاء۔

پس جب تعلق کا یہ تصور ہر احمدی میں پیدا ہوگا تو بے رحمی اور ظلم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بلکہ دوسروں کو پہنچی ہوئی تکلیف، بلکہ ہلکی سی تکلیف بھی اپنی تکلیف لگے گی اور یہ ایک احمدی کی سوچ ہونی چاہئے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ’’مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو‘‘۔ تو جیسا کہ مَیں نے کہا کہ مومن دوسرے مومن کی تکلیف کو بھی اپنی تکلیف سمجھتا ہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ10؍اگست2007ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل31؍اگست2007صفحہ5تا6)

اسلام ہی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتےہیں:

’’ایک حقیقی عابد جو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص ہو کر عبادت کرتا ہے وہ نہ صرف اپنی روحانی حالت بہتر کرتا ہے، اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بڑھتا ہے بلکہ اپنی جسمانی حالت بھی ٹھیک کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا استعمال بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کرتا ہے۔ دنیا کی چیزیں، آرام و آسائش اور کھانا پینا اس کا مقصودنہیں ہوتا بلکہ جتنی زندگی ہے وہ اس میں دنیا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اس زندگی کو گزارنے کی کوشش کرتا ہے اور یہی اس کا مقصود ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی ایک مومن توجہ رکھتا ہے۔ اسلام ہی ہے جو جہاں انسان کو اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ17؍مئی2019ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل3؍جون2019ءصفحہ8)

حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پامالی

مسلمان ممالک میں حکومتوں کی طرف سےحقوق کی عدم ادائیگی سے جو مسائل سامنے آ رہے ہیں ان کا تجزیہ کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’عموماً مسلمان اربابِ اختیار اور حکومت جب اقتدار میں آتے ہیں، سیاسی لیڈر جب اقتدار میں آتے ہیں یا کسی بھی طرح اقتدار میں آتے ہیں تو حقوق العباد اور اپنے فرائض بھول جاتے ہیں۔ اس کی اصل وجہ تو ظاہر ہے تقویٰ کی کمی ہے۔ جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتے ہیں، جس کتاب قرآنِ کریم پر ایمان لانے اور پڑھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، اُس کے بنیادی حکم کو بھول جاتے ہیں کہ تمہارے میں اور دوسرے میں مابہ الامتیاز تقویٰ ہے۔ اور جب یہ امتیاز باقی نہیں رہا تو ظاہر ہے کہ پھر دنیا پرستی اور دنیاوی ہوس اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ گو مسلمان کہلاتے ہیں، اسلام کا نام استعمال ہو رہا ہوتا ہے لیکن اسلام کے نام پر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پامالی کی جا رہی ہوتی ہے۔ دولت کو، اقتدار کی ہوس کو، طاقت کے نشہ کو خدا تعالیٰ کے احکامات پر ترجیح دی جا رہی ہوتی ہے یا دولت کو سنبھالنے کے لئے، اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے غیر ملکی طاقتوں پر انحصار کیا جا رہا ہوتا ہے۔ غیر طاقتوں کے مفادات کی حفاظت اپنے ہم وطنوں اور مسلم اُمّہ کے مفادات کی حفاظت سے زیادہ ضروری سمجھی جاتی ہے اور اس کے لئے اگر ضرورت پڑے تو اپنی رعایا پر ظلم سے بھی گُریز نہیں کیا جاتا۔ پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ دولت کی لالچ نے سربراہانِ حکومت کو اس حد تک خود غرض بنا دیا ہے کہ اپنے ذاتی خزانے بھرنے اور حقوق العباد کی ادنیٰ سی ادائیگی میں بھی کوئی نسبت نہیں رہنے دی۔ اگر سَو (100) اپنے لئے ہے تو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے لئے ہے۔ جو خبریں باہر نکل رہی ہیں اُن سے پتہ چلتا ہے کہ کسی سربراہ نے سینکڑوں کلو گرام سونا باہر نکال دیا تو کسی نے اپنے تہ خانے خزانے سے بھرے ہوئے ہیں۔ کسی نے سوئس بینکوں میں مُلک کی دولت کو ذاتی حساب میں رکھا ہوا ہے اور کسی نے غیر ممالک میں بے شمار، لاتعداد جائیدادیں بنائی ہوئی ہیں اور مُلک کے عوام روٹی کے لئے ترستے ہیں۔ یہ صرف عرب مُلکوں کی بات نہیں ہے۔ مثلاً پاکستان ہے وہاں مہنگائی اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ بہت سارے عام لوگ ایسے ہوں گے جن کو ایک وقت کی روٹی کھانا بھی مشکل ہے۔ لیکن سربراہ جو ہیں، لیڈر جو ہیں وہ اپنے محلوں کی سجاوٹوں اور ذاتی استعمال کے لئے قوم کے پیسے سے لاکھوں پاؤنڈ کی شاپنگ کر لیتے ہیں۔ پس چاہے پاکستان ہے یا مشرقِ وسطیٰ کے ملک ہیں یا افریقہ کے بعض ملک ہیں جہاں مسلمان سربراہوں نے جن کو ایک رہنما کتاب، شریعت اور سنت ملی جو اپنی اصلی حالت میں آج تک زندہ و جاوید ہے۔ باوجود اس قدر رہنمائی کے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی دھجیاں اڑائی ہیں۔

پس امتِ مسلمہ تو ایک طرف رہی یعنی دوسرے ملک جن کے حقوق ادا کرنے ہیں یہاں تو اپنے ہم وطنوں کے بھی مال غصب کئے جا رہے ہیں۔ تو ایسے لوگوں سے کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ تقویٰ پر چل کر حکومت چلانے والے ہوں گے، یا حکومت چلانے والے ہو سکتے ہیں۔ یہ لوگ ملک میں فساد اور افراتفری پیدا کرنے کا ذریعہ تو بن سکتے ہیں۔ طاقت کے زور پر کچھ عرصہ حکومتیں تو قائم کر سکتے ہیں لیکن عوام الناس کے لئے سکون کا باعث نہیں بن سکتے۔ پس ایسے حالات میں پھر ایک ردّ عمل ظاہر ہوتا ہے جو گو اچانک ظاہر ہوتا ہوا نظر آ رہا ہوتا ہے لیکن اچانک نہیں ہوتا بلکہ اندر ہی اندر ایک لاوا پک رہا ہوتا ہے جو اَب بعض ملکوں میں ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے اور بعض میں اپنے وقت پر ظاہر ہوگا۔ جب یہ لاوا پھٹتا ہے تو پھر یہ بھی طاقتوروں اور جابروں کو بھسم کر دیتا ہے۔ اور پھر کیونکہ ایسے ردّ عمل کے لئے کوئی معین لائحہ عمل نہیں ہوتا۔ اور مظلوم کا ظالم کے خلاف ایک ردّعمل ہوتا ہے۔ اپنی گردن آزاد کروانے کے لئے اپنی تمام تر قوتیں صرف کی جا رہی ہوتی ہیں۔ اور جب مظلوم کامیاب ہو جائے تو وہ بھی ظلم پر اُتر آتا ہے۔ اس لئے مَیں کہہ رہا ہوں کہ احمدی کو اسلامی دنیا کے لئے خاص طور پر بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے کہ ہر ملک اس لپیٹ میں آ جائے اور پھر ظلموں کی ایک اور طویل داستان شروع ہو جائے۔ خدا تعالیٰ حکومتوں اور عوام دونوں کو عقل دے اور تقویٰ کا راستہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اگر مسلمان لیڈرشپ میں تقویٰ ہوتا، حقیقی ایمان ہوتا تو جہاں سربراہانِ حکومت جو بادشاہت کی صورت میں حکومت کر رہے ہیں یا سیاستدان جو جمہوریت کے نام پر حکومت کر رہے ہیں، وہ اپنے عوام کے حقوق کا خیال رکھنے والے ہوتے۔ پھر اسلامی ممالک کی ایک تنظیم ہے، یہ تنظیم صرف نام کی تنظیم نہ ہوتی بلکہ مسلمان ممالک انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کرنے والے ہوتے نہ کہ اپنے مفادات کے لئے اندر خانے ایسے گروپوں کی مدد کرنے والے جو دنیا میں فساد پیدا کرنے والے ہیں۔ اگر حقیقی تقویٰ ہوتا تو عالمِ اسلام کی ایک حیثیت ہوتی۔ عالمِ اسلام اپنی حیثیت دنیا سے منواتا۔ برّاعظم ایشیا کا ایک بہت بڑا حصہ اور دوسرے برّاعظموں کے بھی کچھ حصوں میں اسلامی ممالک ہیں، اسلامی حکومتیں ہیں۔ لیکن دنیا میں عموماً ان سب ممالک کو غریب قوموں کی حیثیت سے جانا جاتا ہے یا غیر ترقی یافتہ قوموں کی حیثیت سے جانا جاتا ہے یا کچھ ترقی پذیر کہلاتی ہیں۔ بعض جن کے پاس تیل کی دولت ہے، وہ بھی بڑی حکومتوں کے زیرِ نگیں ہیں۔ ان کے بجٹ، ان کے قرضے جو وہ دوسروں کو دیتے ہیں، اُن کی مدد جو وہ غریب ملکوں کو دیتے ہیں، یا مدد کے بجٹ جو غریب ملکوں کے لئے مختص کئے ہوتے ہیں اُس کی ڈور بھی غیر کے ہاتھ میں ہے۔ خوفِ خدا نہ ہونے کی وجہ سے، خدا کے بجائے بندوں سے ڈرنے کی وجہ سے، نااہلی اور جہالت کی وجہ سے اور اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے نہ ہی دولت کا صحیح استعمال اپنے ملکوں میں انڈسٹری کو ڈویلپ (Develop) کرنے میں ہوا ہے، نہ زراعت کی ترقی میں ہوا ہے۔ حالانکہ مسلمان ممالک کی دولتِ مشترکہ مختلف ملکوں کے مختلف موسمی حالات کی وجہ سے مختلف النوع فصلیں پیدا کرنے کے قابل ہے۔ یہ مسلمان ملک مختلف قدرتی وسائل کی دولت اور افرادی قوت سے اور زرخیز ذہن سے دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر سکتے ہیں۔ لیکن کیونکہ مفادات اور ترجیحات مختلف ہیں، اس لئے یہ سب کچھ نہیں ہو رہا۔ آخر کیوں مسلمان ملکوں کے سائنسدان اور موجد اپنے زرخیز ذہن کی قدر ترقی یافتہ ممالک میں جا کر کرواتے ہیں۔ اس لئے کہ اِن کی قدر اپنے ملکوں میں اُس حد تک نہیں ہے۔ اُن کو استعمال نہیں کیا جاتا۔ اُن کو سہولتیں نہیں دی جاتیں۔ جب اُن کے قدم آگے بڑھنے لگتے ہیں تو سربراہوں یا افسر شاہی کے ذاتی مفادات اُن کے قدم روک دیتے ہیں۔ مسلمان ملکوں میں ملائیشیا مثلاً بڑا ترقی یافتہ یا ٹیکنالوجی کے لحاظ سے آگے بڑھا ہوا سمجھا جاتا ہے لیکن ترقی یافتہ ممالک اُسے بھی ترقی پذیر ممالک میں ہی شمار کرتے ہیں۔ بہر حال یہاں پھر وہی بات آتی ہے کہ تقویٰ کا فقدان ہے۔ اور اس کے باوجود کہ تقویٰ کوئی نہیں ہے ہر بات کی تان اسلام کے نام پر ہی ٹوٹتی ہے۔ قدریں بدل گئی ہیں۔ ‘‘

حقوق کی ادائیگی اورنظام خلافت

اسی خطبہ جمعہ میں حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےصحیح رنگ میں حقوق کی ادائیگی کے لیے نظام خلافت کی راہ نمائی کو ضروری قرار دیتے ہوئے فرمایا:

’’مسلمانوں کو ایک کرنے کے لئے، انصاف قائم کرنے کے لئے، دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے یقیناً نظامِ خلافت ہی ہے جو صحیح رہنمائی کر سکتا ہے۔ حکمرانوں اور عوام کے حقوق کی نشاندہی اور اس پر عمل کروانے کی طرف توجہ یقیناً خلافت کے ذریعے ہی مؤثر طور پر دلوائی جا سکتی ہے۔ …

ایک بنگالی پروفیسر صاحب چند دن ہوئے مجھے ملنے آئے۔ کہنے لگے کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اگر جماعت احمدیہ اکثریت میں ہوگی، ہوتی ہے یا ہو جائے تو دوسرے فرقوں یا مذہبوں پر زیادتی نہیں ہو گی اور لوگوں کے حقوق نہیں دبائے جائیں گے؟ تو مَیں نے اُن کو کہا کہ جو اکثریت دلوں کو جیت کر بنی ہو، جو جبر کے بجائے محبت کا پیغام لے کر چلنے والی ہو، وہ ظلم نہیں کرتی بلکہ محبتیں پھیلاتی ہے۔ اس کے پیشِ نظر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہوتا ہے۔ اُس کے پیشِ نظر خدا تعالیٰ کی رضا ہوتی ہے۔ وہ نیکیوں پر تعاون کرتی ہے اور تعاون لیتی ہے، اور پھر جو خلافتِ راشدہ کا نظام ہے یہ انصاف قائم کرنے کے لئے ہے، حقوق دلوانے کے لئے ہے، حقوق غصب کرنے کے لئے نہیں ہے۔ اور جو حکومت خلافت کی بیعت میں ہو گی وہ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف تو توجہ دے گی، حقوق غصب کرنے کی کوشش نہیں کرے گی۔ بشری تقاضے کے تحت بعض غلط فیصلے ہو سکتے ہیں لیکن اگر تقویٰ ہو تو اُن کی بھی اصلاح ہو جاتی ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ25؍فروری2011ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل18؍مارچ2011ءصفحہ5تا8)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button