اداریہ

مثالی معاشرے کا قیام حقوق اللہ کی ادائیگی سے مشروط ہے

آج کی دنیا میں انسان بظاہر ہر قسم کی غلامی کے شکنجوں سے نجات، بنیادی حقوق کے قیام کا علمبردار بننے، نام نہاد آزادی کے حصول اور ایک ترقی یافتہ سوسائٹی کے قیام کو اپنی ترقی کے عروج کی اکائی کے طور پر پیش کرتا ہے، گویا خود ساختہ حدود و قیود میں رہتے ہوئے جو آزادی فردِ واحد کو آج حاصل ہے وہ معلوم انسانی تاریخ میں کبھی نہیں تھی۔ بات چاہے سیاسی آزادی کی ہو، اظہارِ رائے کی آزادی کی ہو، مذہبی آزادی کی ہو، علم حاصل کرنے کی آزادی کی ہو، ملکی آزادی کی ہو، شخصی آزادی کی ہو، اجتماعی امور میں آزادی کی ہو یا انفرادی باتوں میں، آج ہر امر میں آزادی اور خود مختاری اس کا مسلمہ بنیادی حق ہے۔ اسے حق ہے کہ وہ اپنا لیڈر چنے، اسے اپنی سیاسی وابستگی رکھنے اور اس کا اظہار کرنے کی آزادی ہے، اس کا حق ہے کہ وہ آزادانہ طور پر اپنی رائے کا اظہار کرے، اسے اپنا مذہب، اپنا عقیدہ اپنی مرضی سے رکھنے یا بدلنے کی آزادی ہے، اس کا حق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے تعلیم حاصل کرے، اسے اپنے مال کی ملکیت رکھنے اور اسے اپنی مرضی سے خرچ کرنے کی آزادی ہے، بالفاظِ دیگر انسان نے غلامی کے تمام شکنجوں کو توڑ کر فردِ واحد کو آزاد اور خودمختارکر کے تہذیب اور تمدّن کے عروج کو چھو لیاہے۔بلند و بالا عمارات، رسل و رسائل کے ذرائع میں جدّت، میڈیا کی ’آزادی‘ اور آنکھوں کو چندھیا دینے والی دیگر کئی چیزوں کو دیکھ کر ایسا لگتا بھی ہے کہ شاید یہ سب دعاوی درست ہی ہوں۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہیںہے! چلیے فرض کرلیتے ہیں کہ یہ تمام دعاوی درست ہیں۔ اگر ایسا ہے تو کیا پھر انسان نے اس ’آزادی‘ سے حاصل ہونے والے مطلوبہ نتائج حاصل کر لیے؟ کیا اپنا آئیڈیل پا لیا؟ کیا ایک مضبوط اور محفوظ معاشرے کے قیام میں جو ان تمام آزادیوں کا ضامن بن جائے، کامیاب ہو گیا؟ کیا دنیا ہر روز بہتری کی طرف مائل ہو چکی؟ کیا انسان ہر چڑھتے سورج کے ساتھ اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ محفوظ سمجھنے لگا؟ کیا ہر ڈھلتی شام دلوں میں سکون اور اطمینان اور قناعت کی گواہی دینے لگی؟ یا معاملہ کچھ اَور ہے!

آخر کیا وجہ ہے کہ اس قدر مادی ترقیات اور مستحکم اداروں کی موجودگی اور فردِ واحد کو معاشرے کی اکائی قرار دینے اور شخصی حقوق کا قیام کرلینے، گویا اپنی تمامتر مرضیاں چلا لینے کے باوجود نوعِ انسانی ایک مثالی معاشرے کے قیام میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے اور انسان ہر لمحہ ایک بڑی تباہی کی طرف بڑھتا دکھائی دیتا ہے؟ درحقیقت یہ دعویٰ کہ انسان فردِ واحد یا معاشرے کے مختلف طبقات کے حقوق کے قیام میں کامیاب ہو گیا ہے سرے سے ہی بے بنیاد ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو معاشرہ مذکورہ بالا مسائل سے نجات پا چکا ہوتا۔ دراصل معاشرہ اس اکائی سے دور ہٹتا چلا جا رہا ہے جو فردِ واحد کے حقوق کے قیام کے لیے لازم ہے۔ اس بنیادی نکتے کی طرف روشنی ڈالتے ہوئے مسیح دوراںؑ کے پانچویں خلیفہ ہمارے پیارے امام حضرت مرزا مسرور احمد ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ ’’یہ یقینی بات ہے کہ معاشرے کے مختلف طبقات کے حقوق اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتے جب تک کہ اس بات پر یقین نہ ہو کہ ہمارا ایک پیدا کرنے والا خدا ہے اور اس کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا کہ’حق اللہ کیا ہے؟ یہی کہ اس کی عبادت کرنا اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا اور ذِکرُ اللہ میں لگے رہنا۔ اس کے اوامر کی تعمیل اور نواہی سے اجتناب کرنا، اس کے محرمات سے بچتے رہنا۔‘(ملفوظات جلد10 صفحہ319)اور جب خدا تعالیٰ کا یہ تصور ہو گا تو پھر اس کے احکامات پر بھی عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی اور اس کے احکامات کی ایک بہت بڑی اکثریت اس کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی ہے۔ ……پس اللہ تعالیٰ نے تو ہر موقع پر ہمیں بتایا کہ تم ایک دوسرے کے حق ادا کرو تبھی میرے حق ادا کرنے والے بنو گے۔ ……پس یہ ہے اسلام کی خوبصورت تعلیم اور یہ ہے اسلام کا خدا جو ایک دوسرے کے حقوق کو اس طرح قائم کرنے کی تلقین فرماتا ہے۔ ‘‘

(اختتامی خطاب بر موقع جلسہ سالانہ یوکے2021ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل21؍ستمبرصفحہ6)

پھر ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب دنیاوی نظام بھی انسان کے بنیادی حقوق کے قیام پر زور دیتے ہیں اور اسلام بھی تو پھر دونوں میں مابہ الامتیاز کیا ہوا ؟ غور کیا جائے تو دنیا میں نفسا نفسی کا عالم ہے۔ آج جس قدر اپنے حقوق ’لینے‘ پر توجہ ہےشاید اس قدر اپنے فرائض کی ادائیگی پر نہیں۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز معاشرے میں امن و سکون پیدا کرنے کے لیے اعتدال پیدا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اسلام کی خوبصورت تعلیم کا بنیادی اصول یہ ہے کہ صرف حقوق لینے پر زور نہ دو بلکہ اگر معاشرے میں امن اور سکون کی فضا پیدا کرنی ہے تو حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ کرو اور ہر ایک کے ذمہ جو فرائض ہیں ان کو ادا کرنے کو بھی اہمیت دو۔ تبھی حقیقی امن اور سلامتی کی فضا قائم ہو سکتی ہے جو اگر ہر طبقہ کے حقوق، اختیارات کو واضح کرتی ہے تو ان کی ذمہ داریوں کی بھی بات کرتی ہے۔ عورت کو صرف یہ نہیں کہتی کہ تم اپنے حقوق حاصل کرو بلکہ اپنے مقام کو سمجھنے اور غلط چیزوں سے بچنے کے لیے بھی ہوشیار کرتی ہے۔ پس یہ وہ سموئی ہوئی تعلیم ہے جو حقیقت میں ہر طبقے کے حقوق قائم کرنے اور آزادیٔ عمل و اظہار کی ضامن ہے۔ پس اس تعلیم کا نہ کوئی اَور دینی تعلیم مقابلہ کر سکتی ہے نہ ہی کوئی دنیاوی تعلیم اور قانون مقابلہ کر سکتا ہے۔ ‘‘(ایضاً)

اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا فرمودہ خوبصورت اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اپنے فرائض بہترین انداز میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ معاشرہ جنت کا نمونہ پیش کرنے لگے۔ اور یہ تبھی ممکن ہو گا جب ہم دنیا کی نام نہاد آزادی سے کنارہ کشی کرتے ہوئے اپنے قول اور اپنے عمل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی غلامی اختیار کر لیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button