تاریخ احمدیت

میلاد النبیﷺ کے جلسے اور مسئلہ ختم نبوت۔ جماعت احمدیہ کے عقیدہ کی وضاحت

18؍اگست 1929ء کو میلاد النبی کی تقریب پر جلسوں کی جو تحریک ہو رہی ہے۔ خوشی کی بات ہے ۔ ان میں غیرمسلموں کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔ان جلسوں کے متعلق خطیب جامع مسجد راولپنڈی کی یہ تجویز اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔ اور بعض اخبار والوں نے اس کو خاص وقعت دی ہے کہ ان جلسوں میں مسئلہ ختم نبوت پر بھی گفتگو ہو اور باقاعدہ لیکچر دیے جائیں۔ جن میں سلسلہ احمدیہ کے خلاف پیٹ بھر کر اشتعال پیدا کیا جائے۔ خطیب موصوف نے اپنے اعلان میں بہ پیرایہ تعریض جماعت احمدیہ کے متعلق جو درشت الفاظ تحریر کیے ہیں۔ان کا جواب دینا ہمیں مقصود نہیں بلکہ سطور ذیل میں ہم صرف عقیدہ ختم نبوت کے متعلق مختصر اپنا نقطہ خیال پیش کرنا چاہتے ہیںتا 18؍اکتوبر کو پیدا ہونے والی غلط فہمی کا ازالہ ہوسکے۔

جماعت احمدیہ اور عقیدہ ختم نبوت

اس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین تھے۔ قرآن پاک جو ایک ابدی شریعت ہے۔ اس میں نص قطعی کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’خاتم النبیین‘‘قرار دیا گیا۔ پس امر سے نہ انکار کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی شخص نے جو اپنے آپ کو قرآن مجید کی طرف منسوب کرتا ہے، کبھی انکار کیا ہے۔جماعت احمدیہ کو اس بارے میں نہایت پختگی مطلوب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نو احمدی سے علاوہ دیگر اقراروں کے یہ عہد بھی لیا جاتا ہے کہ ’’میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خاتم النبیین یقین کروںگا۔‘‘گویا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا عقیدہ متفق علیہ عقیدہ ہے۔ لیکن بایں ہمہ جو اختلاف نظر آتا ہے ۔اس کی بنا صرف لفظ خاتم النبیین کی تشریح میں غلط فہمی ہے و بس۔

خاتم النبیینؐ کے معنی

جماعت احمدیہ اور موجودہ فرقے اس امر پر بھی متحد ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےلئے لفظ ’’خاتم النبیین‘‘ مقام مدح میں واقعہ ہوا ہے یعنی اس میں حضورؐ کی بلند شان کا ذکر خیر ہے ۔ لیکن افسوس ہے کہ معنی کرتے وقت اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور باصرار کہا جاتا ہے۔ کہ ’’آنحضرتؐ بلحاظ زمانہ سب نبیوں کے پیچھے آنے والےہیں۔‘‘ حالانکہ ’’خاتم النبیین‘‘ کا یہ مفہوم حضور علیہ السلام کے لیے کوئی باعث فضیلت نہیں۔ حضرت مسیحؑ انبیاء اسرائیلی میں سب کے پیچھے آئے مگر کیا یہ امران کے لیے خاص شان ثابت کرتا ہے؟ نہیں۔ اور ہرگز نہیں۔ حضرت موسیٰؑ گو حضرت مسیحؑ سے پہلے آئے۔ مگر شان میں مسیحؑ سے بدرجہا بہتر تھے ۔ جناب مولانا محمد قاسم صاحب بانیٔ مدرسہ دیوبند تحریر فرماتے ہیں:

’’عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپؐ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپؐ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں

وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْن

فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے۔‘‘( تحذیر الناس از مولانا محمد قاسم نانوتوی ،صفحہ3مطبع مجتبائی دہلی)

یہ عبارت محتاج تشریح نہیں اب ہم اپنے دوستوں سے پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ جب ان معنوں سے آخری ہونا باعث مدح نہ ہوا تو پھر آپ لوگ ’’سب نبیوں کے پیچھے والے‘‘ معنوں پر کیوں زور دے رہے ہیں۔

ختم نبوت کا مفہوم اور سرور کائناتؐ

پھر غیر احمدیوں کا پیش کردہ مفہوم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے بھی صریح خلاف ہے۔ آیت خاتم النبیینؐ حضرت زینبؓ کے واقعہ 5 ہجری میں نازل ہوئی تھی اس کے چار پانچ سال بعد جب حضور ؐ کا صاحبزادہ ابراہیمؓ فوت ہوا ۔ تو حضور نے فرمایا :

لَوْ عَاشَ لَکَانَ صِدِّیْقاً نَّبِیًّا ۔

اگر میرا یہ بیٹا زندہ رہتا تو ضرور نبی بن جاتا۔(ابن ماجہ کتاب الجنائز باب الصلاۃ علی ابن رسول اللہ جلد 1 صفحہ 207)

یہ صحاح کی حدیث ہے ۔ اس حدیث کی صحت کے متعلق ملّا لا علی قاری صاحب نے تحریر فرمایا ہے:

لَہٗ طُرُقٌ ثَلَاثَةٌ یُقَوِّیْ بَعْضُھَا بِبَعْضٍ۔

یہ روایت تین طریقوں سے مروی ہے اور اس طرح نہایت قوی حدیث بن گئی ہے۔(موضوعات کبیر صفحہ 69)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے بالبداہت ثابت ہو جاتا ہے کہ آنحضورؐ خاتم النبیین کا وہ مفہوم نہ لیتے تھے جو غیر احمدی بیان کرتے ہیں ہیں ور نہ حضور یوں فرماتے:

لَوْ عَاشَ لَمَا کَانَ نَبِیًّا لِاَنِّیْ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ

اگر یہ زندہ بھی رہتا تب بھی نبی نہ بن سکتا کیونکہ میں خاتم الانبیاء ہوں۔ مگر حضور نے یہ نہیں فرمایا ۔ بلکہ یہی فرمایا کہ اس کی نبوت میں صرف اس کی موت حائل ہوئی ہے ۔ ورنہ آیت خاتم النبیین روک نہیں اس کے باوجود اپنی ضد پر اڑے رہنا مومنانہ شیوہ نہیں ہو سکتا۔

خاتم النبیین کے معنی اور آیات قرآنی

خاتم النبیین کے متنازع فیہ معنوں کے فیصلے کے لیے بہترین طریق یہ ہے کہ قرآن مجید کی دیگر آیات پر غور کیا جائے کہ ان سے کس فریق کے معنوں کی تائید ہوتی ہے۔ کیونکہ

القُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًا۔

قرآن مجید کی بعض آیات دوسری کی تفسیر کرتی ہیں۔اس اصول کے ماتحت جب نظر کی جاوے تو امکان نبوت کے لیے تو متعدد آیات موجود ہیں۔ لیکن نبوت کی بندش کے لیے کوئی بھی نہیں قرآن مجید نے نبوت کو لعنت قرار نہیں دیا کہ اس سے نجات دلانے والا بہت بڑا محسن قرار پائے۔ بلکہ قرآن مجید نے نبوت کو اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت قرار دیا ہے حضرت موسی کا قول نقل فرمایا ہے۔

اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ جَعَلَ فِیۡکُمۡ اَنۡۢبِیَآءَ وَ جَعَلَکُمۡ مُّلُوۡکًا (المائدہ:21)

کہ اے لوگو خدا کی نعمت کو یاد کرو جب اس نے تم میں نبی بنائے اور تم کو بادشاہ بنایا ۔ گویا نبوت اور حکومت ہر دو اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں اس پر نہ صرف اسی پر اکتفا نہیں کی بلکہ واضح طور پر فرمایا۔

1: اَللّٰہُ یَصۡطَفِیۡ مِنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌۢ بَصِیۡرٌ ۔(الحج:76)

اللہ تعالیٰ فرشتوں اور انسانوں میں سے رسول بناتا رہے گا۔ وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔

اب ظاہر ہے کہ جب فرشتوں میں سے رسول منتخب کیے جاتے ہیں اور کیے جاتے رہیں گے تو انسانوں کی رسالت کا کیوں انکار کیا جاتا ہے؟

2: لٰکِنَّ اللّٰہَ یَجۡتَبِیۡ مِنۡ رُّسُلِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ۪ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ(آل عمران : 180)

اے مومنو! اللہ تعالیٰ تم میں خبیث اور طیب کا ہمیشہ فرق کرتا رہے گا مگر وہ تم کو براہ راست غیب سے مطلع نہیں کرے گا لیکن جس کو چاہے گا اپنا رسول برگزیدہ کرے گا۔ تم اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لاؤ۔

اس آیت میں آئندہ آنے والے رسولوں کی ایک غرض بھی بتا دی اور ساتھ ہی متبعین قرآن مجید کو ان کی پیروی کا ارشاد فرمایا۔

3: وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا ۔ (النساء:70)

جو لوگ اللہ تعالیٰ اور آنحضرت ﷺ کی اتباع کرنے والے ہیں وہ اپنے سے پہلے منعم علیہ لوگوں کے ساتھ ہم مرتبہ ہوں گے یعنی وہ نبی ہوں گے۔ صدیق ، شہید اور صالح بنیں گے۔ یہ اچھی رفاقت ہے۔

اس آیت میں بھی بالوضاحت آنحضرتﷺ کی پیروی اور اتباع کا نتیجہ بیان فرمایا ہے کہ اطاعت کرنے والے نبی، صدیق وغیرہ بنیں گے۔ اس سے آنحضرت ﷺ کی افضلیت پر بھی دلالت مقصود ہے۔ کیونکہ باقی جملہ انبیاء کی اطاعت کا آخری نتیجہ صدیق بننا بتایا ہے۔ پڑھیے:

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیۡقُوۡنَ ٭ۖ وَ الشُّہَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ(الحدید:20)

ان تینوں آیات سے ظاہر ہے کہ قرآن مجید نبوت کو نہیں روکتا۔ ہاں آنحضرت ﷺ کی پیروی اور شریعت اسلامیہ کی اتباع میں رہنا ضروری قرار دیتا ہے۔ اور ایسے نبیوں کے دروازے کو کھولتا ہے۔جو آپ کی پیروی اور ظلیت سے مقام نبوت کو پانے والے ہوں۔

ختم نبوت او صاحب شریعت انبیاء

آنحضرت ﷺ سے قبل ہر قوم کاالگ الگ نبی اور رسول ہوتا تھا۔ مگر حضور کی بعثت نے وہ سب کھڑکیاں بند کر دیں۔ ہاں فیض الٰہی کے پانے کے لیے ایک وسیع دروازہ (Gate) کھول دیا۔ اور اعلان ہو گیا:

اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ(آل عمران:32)

اب محبوبیت کے مقام تک پہنچنے کے لیے ہر فرد بشر کو طاعت محمدیﷺ کا حلقہ زیب گلو کرنا ضروری ہے۔ اب کوئی نئی شریعت نہیں اور نہ ہی کوئی صاحب شریعت جدیدہ نبی آسکتا ہے۔ اگرہمارے دوست آیت خاتم النبیین ﷺ کے یہ معنی کریںتب بھی کوئی حرج نہیں۔یعنی آنحضرت ﷺ کے بعد صاحب شریعت جدیدہ کوئی نبی نہیں ۔انہی معنوں میں حضور علیہ السلام نے لانبی بعدی فرمایا۔

چنانچہ نواب صدیق حسن خاں صاحب تحریر کرتے ہیں:’’ہاں لانبی بعدی آیا ہے۔ اس کے معنی نزدیک اہل علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شرع ناسخ نہ لاوے گا۔‘‘(اقتراب الساعة صفحہ 162)

اور پھر خاتم النبیین کے یہی معنی ہیں جن پر امت مسلمہ کا اتفاق رہا ہے اور سب بزرگ یہی مانتے رہے ہیں۔ چنانچہ چند حوالہ جات یہ ہیں:

(الف) ھذا ایضا لاینافی حینئذٍ لانبی بعدہ لانہ اراد لا نبی ینسخ شرعہ

لانبی بعدی سے آنحضرت کی مرادیہ تھی کہ ناسخ شریعیت اسلامیہ کوئی نبی نہ ہوگا۔(تکملہ مجمع البحار صفحہ 85)

(ب) سید عبد الکریم الجیلانی لکھتے ہیں:

’’ان نبوة التشریع انقطعت بمحمد ﷺ‘‘

آنحضرت ﷺ پر نئی شریعت لانےوالی نبوت بند ہوگئی۔(الانسان الکامل صفحہ 169)

(ج) امام شعرانی تحریر فرماتے ہیں :

إنما ارتفع نبوة التشريع فقط، فقوله لا نبي بعدي ولا رسول بعدي أي ما ثم من يُشرّع بعدي شريعة خاصة ۔(الیواقیت والجواھر جلد 2 صفحہ 43)

صرف تشریعی نبوت بند ہوئی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے جو لانبی بعدی فرمایا اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ آپ کے بعد نئی شریعت لانے والا نبی کوئی نہ ہوگا۔

(د) شیخ محی الدین ابن عربی تحریر فرماتے ہیں :

علمنا انہ اراد بانقطاع الرسالة والنبوة بقولہ لا رسول بعدی ولا نبی ای لا مشرع و لا شریعة

کہ آنحضرت ﷺ نے جس نبوت اور رسالت کے منقطع ہونے کا اعلان کیا ہے وہ نئی شریعت اور صاحب شریعت نبیوں والی نبوت ہے۔(فتوحاتِ مکیہ جلد 2 صفحہ 417)

(ذ) ملا علی قاری لکھتے ہیں:

فَلاَ یُنَاقِضُ قَوْلَہٗ تَعَالیٰ خَاَتمَ النَّبِیِّیْنَ اِذِالْمَعْنیٰ اَنَّہٗ لَا یَاْتِیْ نَبِیٌّ بَعْدَہٗ یَنْسَخُ مِلَّتَہٗ وَلَمَْیکُنْ مِّنْ اُمَّتِہٖ۔

کہ خاتم النبیین کے صرف یہ معنی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ قرار دے اور آپ کی امت میں سے نہ ہو۔(موضوعات کبیر58تا59،مطبع مجتبائی دہلی)

ان حوالہ جات سے عیاں ہے کہ امت محمدیہ آنحضرت ﷺ کے بعد نئی شریعت والے نبیوں کو بند سمجھتی رہی ہے نہ کہ مطلقاً۔ پس اگر غیر احمدی اصحاب خاتم النبیین کے لفظ کا اسی قدر مفہوم لیں تو بھی کوئی حرج نہیں مگر وہ کلیةً باب نبوت ظلی و غیرظلی کو مسدود قرار دیتے ہیں اور کسی نبی کے آنے کو منافی خاتمیت سرور کائنات تصور کرتے ہیں۔ حالانکہ دیوبند کے بانی مولانا نانوتوی تحریر فرما چکے ہیں کہ’’اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمد میں کچھ فرق نہ آئے گا۔‘‘ (تحذیر الناس صفحہ 28)

خاتم النبیین اور عربی استعمال

آنحضرت ﷺ خاتم النبیین ہیں۔ عربی زبان میں جب خاتم کسی قوم کی طرف مضاف مستعمل ہوتا ہے تو اس کے معنی اس جماعت کا کامل اور اعلیٰ فرد کے ہوتے ہیں نہ کہ اس نسل کا خاتمہ کرنے والے کے۔

شاہ ولی اللہ صاحب کو’’عجالہ نافعہ ‘‘کے ٹائیٹل پیج پر ’’خاتم ا لاولیاء‘‘ قرار دیا ہے۔(تفسیر صافی آیت ہذا)

ابو تمام شاعر کو خاتم الشعراء قرار دیا گیا ہے ، لکھا ہے۔؂

فُجِعَ القَريضُ بِخَاتَمِ الشُّعراءِ

وغَديرِ رَوْضَتِها حَبيبِ الطَّائِي

کیا ان اور ایسے ہی دوسرے مواقع پر یہ مراد ہے کہ اب ان کے بعد نہ کوئی محدث ہے ، نہ ولی ہے اور نہ ہی شاعر؟ نہیں اور ہرگز نہیں بلکہ ان کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ گو اس مضاف الیہ قوم کے سردار ہیں۔ ان میں سے اعلیٰ فرد ہیں۔ سو خاتم النبیین کے بھی یہ معنی ہوں گے ’’نبیو ں کا کامل اور اعلیٰ فرد‘‘اور یہ معنی آنحضرت ﷺ کی شان کو بلند کرتے ہیں مگر اس سے یہ لازم نہیں آیا کہ اب ان کے ماتحت ہو کر بھی کوئی نبی نہیں آسکتا۔ بلکہ آیت قرآنی خاتم النبیین کا اسلوب بیان تو آپ کو نبیوں کا بھی باپ قرار دیتا ہے۔ مولوی محمد قاسم صاحب بانیٔ مدرسہ دیوبند نے اس آیت کی لطیف تفسیرکرتے ہوئے لکھا ہے:’’حاصل مطلب آیة کریمہ اس صورت میں یہ ہوگا کہ ابوت مصروفہ تو رسول اللہ صلعم کو کسی مرد کی نسبت بھی حاصل نہیں پر ابوت معنوی امتیوں کی نسبت بھی حاصل ہے اور انبیاء کی نسبت بھی حاصل ہے۔ انبیاء کی نسبت تو فقط خاتم النبیین شاہد ہے۔‘‘(تحذیر الناس صفحہ 10)

غرض لفظ خاتم النبیین اپنی ترکیب وضعی اور محل کے لحاظ سے انبیاء غیر تشریعی کے آنے میں روک نہیں بلکہ مؤید ہے۔

نبیوں کا خاتم اور حضرت مسیح ناصریؑ

کیا یہ تعجب کا مقام نہیں کہ ہمارے مخالف ہمیں جو امت محمدیہ کے ایک فرد کو مقام نبوت سے سرفراز ہوکر امت کی اصلاح کے لیے مبعوث شدہ مانتے ہیں مطعون کرتے ہیں مگر حضرت مسیح ناصری کو جو رسولاً الی بنی اسرائیل تھے اور ہمیشہ ان کے درمیان مابہ النزاع یہ نہیں کہ آیا آنحضرت ﷺ کے بعد نبی آسکتا ہے یا نہیں۔ کیونکہ اس میں تو دونوں فریق متفق ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد نبی آئےگا۔ صرف اختلاف اس بات میں ہے کہ آیا وہ نبی امت محمدیہ میں سے آنحضرتﷺ کی پیروی کر کے نبی بنے گایا کوئی مستقل نبی امت محمدیہ کی اصلاح کے لیے آئے گا۔ اور اس اختلاف کے متعلق سطور بالا میں ہم مختصر عرض کر چکے ہیں کہ قرآن پاک اس قسم کی نبوت کو جاری بتاتا ہے احادیث اس کی تائید کرتی ہیں۔ علمائے امت بالاتفاق اس پر صاد کرتے ہیں اور خود غیر احمدیوں کا عقیدہ اس کا مؤید ہے۔ اب نا معلوم پھر بھی احمدی ختم نبوت کے منکر کس بنا پر قرار دیے جاتے ہیں؟

نبیوں کو ختم کرنے کی نوعیت

اگر بالفرض ان معنوں کو درست بھی مان لیا جائے کہ ’’آنحضرت ﷺ نبیوں کو ختم کرنے والے‘‘ ہیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ سب نبی فوت ہو چکے تھے۔ان کی شرائع منسوخ قرار دی جا چکی تھیں حضرت آدم ؑسے لے کے حضرت مسیح ؑ تک سب نبی گزر چکے تھے۔بالفاظ دیگر وہ خود ختم ہو چکے تھے۔اب آنحضرت ؐ نے آ کر ان کا کیا ختم کیا۔ غیر احمدیوں کے زعم میں حضرت مسیح ؑزندہ تھے۔ مگر بقول ان کے ان کو آنحضرتﷺ نے ختم نہیں کیا۔ بلکہ وہ پھر بھی آجائیں گے ۔گویا جو ختم ہو چکے تھے ان کا ختم کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا اور جو زندہ باقی ہے وہ ویسا ہی زندہ ہے تو آنحضرت ﷺ نے ختم کس کو کیا اور کس طرح کیا؟ اس سوال پر جتنا بھی گہرا غور کیا جائے ۔ غیر احمدی نظریہ کی سطحیت عریاں ہوتی جاتی ہے۔بے شک آنحضرت ﷺ نے انبیاء کو ختم کیا مگر کس طرح۔در اصل بات یہ ہے کہ حضورﷺ نے جملہ انبیاء کے کمالات حاصل کیے بلکہ ان سے بڑھ گئے۔اور نبوت کے آخری درجہ کو آپ ﷺ نے حاصل کر لیا۔ اس طرح آپ نے نبیوں کو بھی ختم کر دیا اور نبوت کو بھی۔ گویا؂

حسن یوسف دم عیسیٰ یدِ بیضاء داری

آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

ان معنوں سے گر آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین ﷺ کہا جائے تو عین مناسب ہے یعنی آپ ﷺ کو جملہ انبیاء سے افضل مانا جائے۔ مگر آپ ﷺ کے بعد نبوت کو بند قرار دینا خلافِ منشائے قرآن مجید ہے۔ اور آنحضرت ﷺ کی ہتک کا باعث !

ختم نبوت اور نبیوں کی ضرورت

پھر یہ معنی کچھ شائستہ اعتناء بھی ہوتے۔ بشرطیکہ یہ ذمہ واری لے لی جاتی کہ آنحضرتﷺ کے بعد ضلالت گمراہی اور فسق و فجور کے دروازے بھی بند کر دیے گئے ہیں کیونکہ جب نبیوں کا کام باقی نہیں تو ان کا آنا خود بے سود ہے۔ لیکن جب یہ صورت نہیں بلکہ آخری زمانہ قرآنی اور احادیثی پیشگوئیوں کے مطابق اپنے ہولناک فتن اور ایمان سوز مادیات کے لحاظ سے اپنی نظیر آپ ہے تو پھر نبوت کو بند قرار دینا جو یقین اور تعلق باللہ کا واحد ذریعہ ہے سراسر غلطی ہے۔ ضرورت کا اعتراف تو خود غیر احمدیوں کو بھی ہے۔ اس لیے تو وہ حضرت مسیح کے لیے چشم براہ ہیں۔ پس جب ضرورت موجود ہے تو نبوت کے امکان کا انکار کیونکرممکن ہے۔

مقام حیرت اور مفید مشورہ

اعلان کیا گیا ہے کہ 18؍اگست کے جلسوں میں غیر مسلم اصحاب کو بھی بکثرت بلایا جائے گا اور ان کے سامنے ختم نبوت کے عقدہ کی گرہ کشائی کی جائے گی۔ حیرت کا مقام ہے کہ مسلم کہلانے والے اس عقیدہ کو اپنے مخصوص رنگ میں پیش کر کے کس فائدہ کی توقع رکھتے ہیں۔ احباب جماعت احمدیہ کے لیے تو مناسب بھی تھا کہ وہ اپنے مجوزہ جلسوں میں آنحضرت ﷺ کی فضیلت میں اس بات کو پیش کرتے کہ آپ کی اتباع سے نبی بن سکتے ہیں مگر وہ کمال دانشمندی سے باہمی اختلاف کا موجب بن سکنے والی بات کو درمیان میں نہیں لائے۔ اور نہ لائیںگے۔ لیکن حیرانی ہے کہ غیر احمدی اس باب میں کیا کہیں گے۔ کیا یہ کہہ کر آپ کی فضیلت منوائیں گے کہ آپﷺ نے آکر وہ نعمت جو ابتدائے آفرینش سے نسل آدم کو ملتی رہی بند کر دی ؟

امید ہے ان جلسوں کے ارباب حل و عقد اس بارے میں اپنے تدبر اور دانشمندی کا ثبوت دیں گے اور ان جلسوں کو اس رنگ میں رنگین ہونے نہ دیں گے کہ اصل مطلب ہی فو ت ہو جائے اور پھر وہی باہمی تو تو میں میں باقی رہ جائے۔

مَیں نے مختصر الفاظ میں ختم نبوت کے متعلق احمدیہ نقطہ نگاہ پیش کر دیا ہے۔ انصاف پسند ناظرین سے توقع ہے کہ وہ ہماری طرف کسی غلط بات کو منسوب کر کے اپنے سامعین کو مغالطہ میں نہ ڈالیں گے۔

خاکسار ابو العطاء اللہ دتا جالندھری ۔ قادیان

(ماخوذ از الفضل قادیان 16؍ اگست 1929ء صفحہ 8 تا 10)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button