متفرق مضامین

عورتو ں کے حقوق و فرائض (قسط اوّل)

(امۃ الباری ناصر)

حقوق حق کی جمع ہے جس کے بہت سے معانی ہیں جب کسی کا حق کہتے ہیں تو مراد ہے مستحق ہونے کا وصف۔استحقاق۔ اختیار۔محنتانہ۔ اجرت۔ انعام۔صلہ۔ اجرت۔

فرائض فرض کی جمع ہے جس کا مطلب ہے وہ عمل جو دلیلِ قطعی سے ثابت ہواور اس میں شبہ نہ ہو جیسے نماز روزہ وغیرہ فرمودۂ خداوندی جس کا کرنا لازمی ہو۔

حقوق و فرائض کے بارے میں جاننا کیوں ضروری ہے؟

خالق کائنات نے کارخانۂ حیات چلانے کے لیے نفسِ واحدہ سے مرد و عورت کو تخلیق فرمایا۔اور قرآن کریم میں دونوں کے حقوق و فرائض بیان فرمائے۔ان کا جاننا اس لیے ضروری ہے کہ ہمیں ہماری پیدائش کے مقصد کا علم ہو تاکہ اس کے مطابق عمل کرکے ہم اپنے خالق کی خوشنودی حاصل کرسکیں۔ عورتوں کے حقوق و فرائض کا جاننا خاص طور پر ضروری ہےتاکہ ہم دنیا کوعورتوں کے مقام کے بارے میں اسلام کی حسین تعلیم سے آگاہ کرسکیں اور اس کامل دین پر ہونے والے اعتراضات اور الزامات کا جواب دے کر اس کا دفاع کرسکیں۔ علم ہوگا تو ہم جرأت سے اپنا موقف پیش کرسکیں گے۔ جس سے معاندین اسلام کے حوصلے پست ہوں گے اور انہیں عورت کے مقام کے بارے میں حملے کرنے کا جواز نہیں ملے گا۔دنیا کے مذاہب کا تقابلی جائزہ اس عنوان سے بھی اسلام کی برتری کا اعلان کرے گا۔کوئی دنیاوی قانون کوئی حقوق کا چارٹر عورتوں کے لیے ایسی حسین، مکمل،قابل عمل اور دونوں جہانوں میں سرخرو کرنے والی تعلیم پیش نہیں کرتا۔ اس لیے کہ اس کی پُشت پر نیّرِ الہام نہیں ہوتا ۔وہ بجائے خیر کی طرف لے جانے کے خیر سے دورلے جاتا ہے۔تجربات کے راستے میں ناکامی کی ٹھوکریں ہوتی ہیں۔پھر اسلام کو ہمیشہ ابلیسی اور دجّالی حملوں کا سامنا بھی رہتا ہے۔ عورت کی آزادی اور حقوق کے نام سے چلنے والی بعض تحریکوں کے پُر کشش نعروں کے پیچھے چھپی قباحتیں عورتوں کو گمراہ کرتی ہیں جس سے مرد فائدہ اُٹھا کر اپنے تعیش کے سامانوں میں اضافے کرتے ہیں۔حقوق و فرائض سے کم آگاہی کی وجہ سے عورتوں کو مردوں کی طرف سے بھی زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔علم ہوگا تو عورت اپنا حق مانگ کر،چھین کر لے سکتی ہے۔

دنیا میں گھروں کے ٹوٹنے کے اعداد وشمار بہت زیادہ ہیں۔عائلی زندگی کی ابتری اور بے سکونی سے گھبرائے ہوئے لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے اسلام کی طرف دیکھیں گے تو ہم انہیں بتائیں گے کہ اسلام ہی دنیا کے سب مسائل کا حل ہے۔ اسلام زندگی گزارنے کا درست طریق بتاتا ہے۔ وہ طریق جو اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں پیش فرمایا ہے۔ قرآن مجید ہی عورتوں کے حقوق و فرائض جاننے کا اصل منبع اور ماخذ ہے۔اسلام کا یہ بھی منفرد اعزاز ہے کہ صرف تعلیم ہی نہیں دی، اس پر عمل کرکے دکھانے والے مطہر اور مقدس مثالی وجود بھی ہیں۔ مختلف پیشوایان مذاہب کی زندگی کے حالات کا مطالعہ کریں اگر کہیں عورت ذات کے کسی حق یا فرض کا ذکر ہے تواس کے مطابق عمل نظر نہیں آئے گا۔ ہمارے ہادیٔ کامل محمد رسول اللہﷺ نے قرآنی تعلیمات پر خودعمل کرکے دکھایا اور دور حاضر میں غلامِ احمد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے حقیقی اسلام کو حیات ِتازہ دی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ خود ان احکام پر عمل کا جائزہ لینے کے لیے نگران ہے۔ جس عمل کا اللہ نگران ہے اس کے بارے میں تفصیل سے جاننا بہت ضروری ہے

اللہ تبارک، تعالیٰ نے اسلام میں عورت کو عزت کا مقام عطا فرمایا ہے

عورت بیٹی،بہن، بیوی، ماں ہرروپ میں قابل احترام ہے۔ بیٹیوں کو اللہ کی رحمت قرار دیا، ماں کے قدموں کے نیچے جنت رکھ دی ہے اور بیویوں سے حسن سلوک کرنے والے کو بہترا نسان ہونے کا مژدہ سنایا۔آنحضرتﷺ نے عورت ذات کو محبوبیت کا مقام دیا فرماتے ہیں :’’مجھے تمہاری دنیا کی جو چیزیں سب سے زیادہ عزیز ہیں ان میں اول نمبر پر عورتیں ہیں۔ پھر اچھی خوشبو مجھے محبوب ہے مگر میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز اور محبت الٰہی میں ہی ہے۔‘‘

(نسائی کتاب عشرة النساء باب حب النساء)

’’دنیا راحت و آرام کے سامانوں سے بھری پڑی ہے لیکن سب سے بہتر متاع صالح عورت ہے۔‘‘

(ابن ماجہ ابواب النکاح)

انسانی، اخلاقی اور مذہبی لحاظ سے مرد، عورت کے حقوق مساوی ہیں

مرد اور عورت کو نفس واحدہ سے پیدا کیا گیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡکُنُوۡۤا اِلَیۡہَا وَ جَعَلَ بَیۡنَکُمۡ مَّوَدَّۃً وَّ رَحۡمَۃً ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ۔ (الروم:22)

اور اس کے نشانات میں سے (یہ بھی) ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس میں سے جوڑے بنائے تاکہ تم اُن کی طرف تسکین (حاصل کرنے) کے لئے جاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔ یقیناً اس میں ایسی قوم کے لئے جو غوروفکر کرتے ہیں بہت سے نشانات ہیں۔

وَ اللّٰہُ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا…۔ (النحل:73)

اور اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے تمہاری جنس میں سے ہی جوڑے پیدا کئے…۔

وَ لَہُنَّ مِثۡلُ الَّذِیۡ عَلَیۡہِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ (البقرۃ:229)

اور اُن (عورتوں) کا دستور کے مطابق (مَردوں پر) اتنا ہی حق ہے جتنا (مَردوں کا) اُن پر ہے

خدا تعالیٰ کا قرب پانے کے راستے دونوں کے لیے برابر ہیں۔ کسی کا مرد ہونا وجہ فضیلت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزت حاصل کرنے کا معیار تقویٰ ہے:

اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ۔(الحجرات:14)

بلا شبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متّقی ہے۔ یقیناً اللہ دائمی علم رکھنے والا (اور) ہمیشہ باخبر ہے۔

اورتقویٰ حاصل کرنے کی راہیں دونوں اصناف کے لیے برابر کھلی ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اَنِّیۡ لَاۤ اُضِیۡعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنۡکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی(آلِ عمران:196)

میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ہرگز ضائع نہیں کروں گا خواہ وہ مَرد ہو یا عورت۔

مرد عورت کے نکاح کے موقع پر آنحضرتﷺ کی منتخب کردہ آیات حقوق و فرائض کا مکمل منشور ہیں

قرآن کریم فرماتا ہے(ترجمہ) اے لوگو! اپنے ربّ کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر ان دونوں میں سے مَردوں اور عورتوں کو بکثرت پھیلا دیا۔ اور اللہ سے ڈرو جس کے نام کے واسطے دے کر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رِحموں (کے تقاضوں) کا بھی خیال رکھو۔ یقیناً اللہ تم پر نگران ہے۔(النساء :2)

ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صاف سیدھی بات کیا کرو۔ وہ تمہارے لئےتمہارے اعمال کی اصلاح کردے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔ اور جوبھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے تو یقیناً اُس نے ایک بڑی کامیابی کو پالیا۔(الاحزاب:71-72)

ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر جان یہ نظر رکھے کہ وہ کل کے لئے کیا آگے بھیج رہی ہے۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقیناً اللہ اس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔(الحشر:19)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! کا مخاطب مرد اور عورتیں دونوں ہیں۔

خالقِ کائنات نےنفس واحدہ یعنی ا یک جنس سے مرد اور عورت کو ایک سی دماغی صلاحیتیں، احساسات اور جذبات رکھنے والےانسان بنایا۔پھر ایک دوسرے کا خیال رکھنے اور رشتہ داروں سے حسن سلوک کا ارشاد فرمایا اور تقویٰ اختیار کرنے اور اللہ تعالیٰ سے ڈر کے رہنے کا حکم ہے۔

ہر احمدی مرد عورت یہ بیان پیش نظر رکھے اور خدا کی خوشنودی کے لیے جو قدم زندگی میں اٹھائے وہ اس سوچ کے ساتھ اٹھائے کہ میں اللہ تعالیٰ کے ایک حکم پر عمل کرنے والا ہوں اوراس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو دوسرے کی حق تلفی کرنے یا زیادتی کرنے کا خیال نہیں آتا ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کا خیال رکھنے سے جو پر سکون معاشرہ بنتا ہے اس سے آئندہ صالح نسلیں جنم لیتی ہیں۔

مرد عورت ایک دوسرے کا لباس ہیں

قرآن مجیدفرماتاہے:ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لِبَاسٌ لَّہُنَّ۔ (البقرۃ:188)

یعنی وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔ لباس عیب چھپاتا ہے۔ زینت کا باعث بنتا ہے اور سردی گرمی سے بچاتا ہے۔

نکاح کے معاہدے کے بعد مرد عورت ایک بندھن میں بندھ جاتے ہیں جس کو قائم رکھنا دونوں کی ذمہ داری ہے۔ یہ رشتہ آپس میں اعتماد سے قائم رہتا ہے۔ نہ مرد، عورت کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے اور نہ عورت، مرد کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے۔اس سے گھریلو زندگی خوشگوار رہے گی امانت اور دیانت کا تقاضا ہے کہ ایک دوسرے کے رازدار ہوں۔اس طرح بھرم اور عزت رہتی ہے معاشرے میں اچھا مقام بنا رہتا ہے۔کسی کو بات کرنے کی جرأت نہیں ہوتی۔ایک دوسرے کو برداشت کرنا ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرنا، عیب چھپاکر ایک دوسرے کی زینت کا سامان بننا مناسب ہے۔ اس کے لیے تحمل،معاملہ فہمی اور غصے کو قابو میں رکھنا لازم ہے۔بےقابو ہونے کی صورت میں الزام تراشی اور ایک دوسرے پر گند اچھالنے کی بدنما صورت پیدا ہوتی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔

حضرت رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ’’قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑی خیانت یہ شمار ہو گی کہ ایک آدمی اپنی بیوی سے تعلقات قائم کرے۔ پھر وہ بیوی کے پوشیدہ راز لوگوں میں بیان کرتا پھرے۔‘‘

(سنن ابی داؤد۔ کتاب الأدب باب فی نقل الحدیث)

عورتوں کا بھی فرض ہے کہ آپس کی خلوت کی باتیں دوسروں کو بتانے سے گریز کریں۔ بعض دفعہ ماں باپ کو تجسس کی عادت ہوتی ہے کرید کرید کر باتیں پوچھتے ہیں۔ اور دخل اندازی سے معاملات کو مزید بگاڑ دیتے ہیں۔ اس لیے میاں بیوی دونوں کا فرض ہے کہ اپنی خلوت کی باتیں دوسروں کونہ بتائیں اور نہ دوسروں کو پوچھنی اور سننی چاہئیں۔ لباس پھٹ جائے تو بدنما ہوجاتا ہے۔

مرد عورت دونوں کو اپنے اپنے دائرے میں نگران بنایا گیا ہے

قرآن پاک میں ارشاد ہے:

قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا۔(التحریم : 7)

خود کو اور اپنے بیوی بچوں کو آگ سے بچاؤ۔

یہ ذمہ داری دونوں پر ڈالی گئی ہے۔ حضرت رسول کریمﷺ فرماتے ہیں ہر شخص اپنے اہل و عیال کا حاکم ہے اور اسے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے اسے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

(بخاری شریف کتاب النکاح )

عورت کا حق ہے کہ اسے جینے دیا جائے

اسلام سے پہلے بیٹی پیدا ہونا اتنا برا سمجھا جاتا کہ بسااوقات اسے زندہ ہی دفن کر دیاجاتا۔اخراجات اور ذمہ داریوں میں اضافے کے خوف سے بھی بیٹی کا وجود بوجھ لگتا ۔اللہ تعالیٰ نے قتل اولاد سے منع فرمایا۔اولاد کو اللہ کی رحمت اور جنت کی نوید قرار دیا۔قرآنی ارشاد ہے:

(ترجمہ:)اپنی اولاد کو کنگال ہونے کے ڈر سے قتل نہ کرو۔ ہم ہی ہیں جو انہیں رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی۔ ان کو قتل کرنا یقیناً بہت بڑی خطا ہے۔‘‘(بنی اسرائیل:32)

حضرت محمد مصطفیٰﷺ نےلڑکیوں کی پیدائش کو زحمت کی بجائے رحمت قرار دیا فرماتے ہیں :’’جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو خدا اس کے ہاں فرشتے بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں اے گھر والو تم پر سلامتی ہو وہ لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں یہ کمزور جان ہے جو ایک کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے۔ جو اس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا قیامت تک خدا کی مدد اس کے شامل حال رہے گی‘‘

عورت کا حق ہے کہ اسے تعلیم و تربیت دی جائے

قرآن مجید نے دعا سکھائی۔

رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا۔( طٰہٰ: 115)

آنحضورﷺ نے تعلیم مسلمان مرد اور مسلمان عورت پر فرض قرار دی۔ لڑکیوں کو تعلیم دینا باعث ثواب بتایا اور تعلیم دینے والے کو جنت کی بشارت دی۔

آنحضرتﷺ نے خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک دن مقرر کیا ہوا تھاجس میں ان کو وعظ فرماتے اور ان کے سوالوں کے جواب دیتے تھے۔

(صحیح بخاری کتاب العلم )

حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا:’’جس کے تین لڑکیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو لڑکیاں اور دو بہنیں ہوں اور وہ انہیں ادب سکھائے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور ان کی شادی کردے تو ان کے لیے جنت ہے۔جس کی ایک بیٹی ہو اور اس نے اسے اچھا ادب سکھلایا اور اچھی تعلیم دی اور اس پر ان انعامات کو وسیع کیا جو کہ اللہ نے اس کو دیے تو وہ بیٹی اس کے لیے جہنم سے رکاوٹ اور پردہ بنے گی۔‘‘

( طبرانی۔ المعجم الکبیر 10: 197)

تین بیٹیاں۔ دو بیٹیاں۔ایک بیٹی حتّٰی کہ لونڈی کی اچھی تعلیم و تربیت پر جنت کی بشارتیں خواتین میں تعلیم کی اہمیت کو بخوبی واضح کرتی ہیں۔

عورت کا حق ہے کہ اس کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جائے

ایک موقع پر نبی کریمؐ نے یہ اظہار فرمایا کہ بالعموم عورتیں مرد کے مقابل پر ذہنی صلاحیتوں میں نقص کے باوجود ایسی استعدادیں رکھتی ہیں کہ مردوں پر غالب آجاتی ہیں۔

شادی کے لیے کسی خاتون کو ترجیح دینا اس کے خاندان، اس کے مال،اس کے حُسن کو نہیں بلکہ اس کے ذاتی تقویٰ اور دینداری کو قرار دیا۔

حضرت عائشہؓ کے بارے میں فرما یا کہ آدھا دین عائشہؓ سے سیکھو۔ یہ عورت کے تفقہ فی العلم پر اعتماد کا اظہار ہے۔

عورت کا حق ہے کہ اس کے جذبات کا خیال رکھا جائے

عورت کو سنگریزے اور پتھر کی طرح ٹھوکروں میں رکھا جاتا تھا جس کے کوئی احساسات اور جذبات نہ ہوں۔ جیسے وہ کوئی مفت کا مال ہو جسے بیچا اورخریدا جا سکتا تھا، ترکے میں بانٹا جاسکتا تھا۔عورت انسان نہیں ایک چیز تھی جس کی ملکیت تبدیل ہوتی رہتی تھی مگر اس کا نصیب تبدیل نہیں ہوتا تھا۔

آپؐ نے عورتوں کے لیے قواریریعنی آبگینے کا لفظ استعمال فرمایا جس سے عورت کی نزاکت،کمزوری اور زودحسی کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے ساتھ احتیاط سے برتاؤ کرنے اور حسن سلوک کرنے کاارشاد فرمایا۔ ایک بچے کے رونے کی آواز آئی تو نماز مختصر کردی تاکہ ماں کو تکلیف نہ ہو۔

(بخاری کتاب الاذان باب من اخف الصلوٰۃ)

جب آپؐ ایسے سفر پر جاتے جس میں عورتیں بھی ساتھ ہوتیں تو ہمیشہ آہستگی سے چلنے کا حکم دیتے۔ ایک دفعہ ایسے ہی موقع پر جبکہ سپاہیوں نے اپنے گھوڑوں کی باگیں اور اونٹوں کی نکیلیں اٹھا لیں آپؐ نے فرمایا:

رِفْقًا بِالْقَوَارِیْرَ۔

آرام سے! عورتیں بھی ساتھ ہیں۔ اگر تم اس طرح اونٹ دوڑاؤ گے تو شیشے چکنا چور ہو جائیں گے۔

(بخاری کتاب الادب باب المعاریض مندوحۃ عن الکذب)

عورت کا حق ہے کہ تہواروں میں شریک ہو

نبی کریمؐ نے عیدین کے موقع پر تمام عورتوں اور بچیوں کو اسلامی تہواروں میں شریک کرنے کی ہدایت کی اور فرمایا کہ اگر کسی لڑکی کے پاس پردہ کےلیے چادر نہ ہو تو وہ کسی سے ادھار لے لے اور وہ عورتیں بھی جنہوں نے نماز نہیں پڑھنی اجتماع عید میں شامل ہوکر دعا میں ضرور شریک ہوجائیں۔

(بخاری، کتاب العیدین )

عورت کا حق ہے کہ اسے ورثہ میں حصہ دیا جائے

قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے:اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تمہارے لئے جائز نہیں کہ تم زبردستی کرتے ہوئے عورتوں کا ورثہ لو۔ اور انہیں اس غرض سے تنگ نہ کرو کہ تم جو کچھ انہیں دے بیٹھے ہو اس میں سے کچھ(پھر) لے بھاگو، سوائے اس کے کہ وہ کھلی کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوئی ہوں۔ اور ان سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو۔ اور اگر تم اُنہیں ناپسند کرو تو عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے۔( النساء:20)

قرآنی تعلیم کے مطابق ماں کو اولاد کے ترکے میں سے حصہ کا حقدار قرار دیا اسی طرح بیوی کو خاوند کا بیٹی کو باپ اور بعض صورتوں میں بہن کو بھائی کا وارث قرار دیا۔

عورت کا حق ہے کہ ان سے مشورہ لیا جائے

آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ بعض اہم امورمیں عورتوں سے مشورہ بھی لے لینا چاہیے۔اور آپؐ خود بھی مشورہ لیتے تھے حضرت عمرؓ کے دور کےبعض واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ اجتماعی معاملات میں اسلام نے عورت کو اظہار رائے کا حق دیا ہوا تھا۔

حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا :’’خدا کی قسم ہم جاہلیت میں عورت کو چنداں اہمیت نہیں دیتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے حقوق کے بارے میں قرآن شریف میں احکام نازل فرمائے اور وراثت میں بھی ان کو حقدار بنا دیا۔‘‘

(بخاری کتاب التفسیرسورۃ التحریم)

عورت کا حق ہے کہ اس پر سختی نہ کی جائے

اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ عورت کو سزادینے کی اجازت ہے۔ اگرچہ یہ اجازت بھی گھروں کا امن قائم رکھنے کے لیے تھی جو کچھ شرائط کے ساتھ دی گئی تھی، مگر اس خیال سے کہ اس رخصت کا غلط استعمال نہ ہو اس سے بھی منع فرمایا:

لَا تَضْرِبُوْا اِمَاءَ اللّٰہِ۔

عورتیں تو اللہ تعالیٰ کی لونڈیاں ہیں، ان پردست درازی نہ کیا کرو۔

عورتوں پر سختی کرنے والوں کے بارے میں فرمایاکہ

لَیْسَ اُولٰئِکَ بِخِیَارِکُمْ۔

یعنی یہ لوگ تمہارے اچھے لوگوں میں سے نہیں ہیں۔

(سنن ابی داؤد کتاب النکاح باب فی ضرب النساء)

حضرت معاویہ بن ہند سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا یا رسول اللہﷺ بیوی کا حق ہم پر کیا ہے آپؐ نے فرمایا جو خدا تمہیں کھانے کو دے وہ اسے کھلاؤ اور جو خداتمہیں پہننے کو دے وہ اسے پہناؤ اور اس کو تھپڑ نہ مارو اور گالیاں نہ دو اور اسے گھر سے نہ نکالو۔( ابو داؤد )

عورت کا حق ہے کہ اس سے نرمی کا برتاؤ کیا جائے

خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي

(سنن الترمذي كتاب المناقب باب فضل أزواج النبی صلى اللّٰه عليہ وسلم)

یعنی سب سے بہترین وہ ہے جواپنے اہل و عیال کے لیے اچھاہے۔ اور گھروالوں سے بہترین سلوک میں میراطرزعمل تم میں سے سب سے بہترین ہے۔

وَعَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ۔(النساء:20)

اور ان سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:’’فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورت کی برداشت کرنی چاہئیں…ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہوکر عورت سے جنگ کریں ہم کو خدا نے مرد بنایا ہے اور درحقیقت یہ ہم پر اتمامِ نعمت ہے۔اس کا شکریہ ہے کہ عورت سےلطف اور نرمی کا برتاؤ کریں۔

ایک دفعہ ایک دوست کی درشت مزاجی اور بدزبانی کاذکر ہوا اور شکایت ہوئی کہ وہ اپنی بیوی سے سختی سے پیش آتا ہے۔ حضور ؑاس بات سے بہت کبیدہ خاطر ہوئے، اور فرمایاہمارے احباب کو ایسا نہ ہونا چاہئے…میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھا اور میں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے اور بایں ہمہ کوئی دل آزار اور درشت کلمہ منہ سے نہیں نکا لاتھا۔ اس کے بعد میں بہت دیرتک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع وخضوع سے نفلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیتِ الٰہی کا نتیجہ ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ307،ایڈیشن1988ء)

’’چاہیے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے۔ انسان کے اخلاقِ فاضلہ اور خدا سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں۔ اگر انہی سے اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا سے صلح ہو۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے خَیْرُ کُمْ خَیْرُ کُمْ لِاَھْلِہٖ تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لیے اچھا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ121،ایڈیشن 2016ء)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button