متفرق مضامین

اسلام اور غیر مسلم رعایا (قسط اوّل)

(حضرت ملک سیف الرحمان صاحب مرحوم)

پیش لفظ

قرآن کریم اسلام کی بنیاد ہے، اس کے بعد آنحضرتﷺ کا اسوہ حسنہ قرآن کی عملی تفسیر ہے۔ علماء امت نے آپﷺ کے اسی اسوہ حسنہ کو سنت سے تعبیر کیا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرمایا کرتی تھیں: کَانَ خُلُقَہُ الْقُرْآنَ یعنی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اخلاق اور آپﷺکی زندگی قرآن کے عین مطابق تھی۔ اس لئے اگر آپ یہ جاننا چاہیں کہ حضورﷺ کے حالات زندگی کیا تھے تو قرآن کریم کا مطالعہ کیجیے کہ آپﷺ کی مستند ترین سوانح حیات ہے۔

اس کے علاوہ احادیث اور تاریخی واقعات اجتہاد و استنباط کے لئے بہترین رہنما اور بصیرت علمی کے لئے بہترین ذریعہ ہیں۔ میں نے اپنے اس مقالہ کی بنیاد انہی چار ذرائع پر رکھی ہے اور عقل معتدل سے جابجا ان ماخذوں سے حوالے پیش کر کے غیر مسلم رعایا کے متعلق اسلام کے عدل و انصاف پر مبنی احکام بیان کئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ کے بعدوہ تمام شبہات جو اسلام کے عادلانہ نظام سیاست و حکمرانی کے متعلق پیش کئے جاتے ہیں بے حقیقت نظر آئیںگے اور اسلام کے آئین جہانبانی سے واقفیت حاصل کر کے قارئین کے دل اپنے اندر انتہائی مسرت محسوس کریں گے۔

بعثت اور کفار مکہ

حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے جب اپنی بعثت کا اعلان فرمایا تو مکہ کے سرکردہ لوگ آپﷺ کے خلاف ہو گئے اور مخالفت کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ آہستہ آہستہ یہ طوفان وہاں کے سارے ماحول پر چھا گیا اور بے اطمینانی اس حد تک بڑھی کہ جو لوگ اسلام میں داخل ہو جاتے ان کے لئے جان و مال اور عزت و آبروکی حفاظت ایک انتہائی نازک مسئلہ بن گیا۔ خود آنحضرتﷺکے مذہبی حقوق تو الگ رہے آپﷺ کے شہری حقوق بھی خطرہ میں تھے۔ حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیںکہ آنحضرتﷺ نے ایک دفعہ اس زمانے کے مصائب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

’’ابولہب اور عتبہ میرے پڑوسی تھے اور میں ان کی شرارتوں میں گھرا ہوا تھا۔ یہ لوگ مجھے تنگ کرنے کے لئےغلاظت کے ڈھیرمیرے دروازہ پر ڈال دیتے۔ میں باہر نکلتا تو خود اس غلاظت کو راستہ سے ہٹاتا اور صرف اتناکہتا: ’اے عبدمناف کے فرزندو! یہ تم کیا کر رہے ہو،کیا یہی حق ہمسائیگی ہے‘‘(طبقات ابن سعد جزو اول صفحہ 133)

جب مکہ کے نامور سرداروں کی یہ حرکات تھیں تو اس سے عوام کی مذموم حرکات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسی قسم کی کمینہ اور اخلاق سے گری ہوئی مخالفت سے تنگ آکر آخر حضورﷺ نے مسلمانوں کومکہ سے ہجرت کر جانے کا مشورہ دیا اور کچھ عرصہ بعد خود آپﷺ نے بھی اپنا پیارا وطن چھوڑ دیا اور مکہ سے کوئی 200میل دور شمال کی طرف یثرب کی بستی میں، جو بعد میں مدینۃ الرسول کے نام سے مشہور ہوئی، آپﷺ نے پناہ لی اور دوسرے مسلمانوں کو بھی اپنے پاس بلا لیا۔ لیکن اس پر بھی آپﷺ کے مخالفوں کو چین نہ آیا اور آپﷺ کے مشن کو ناکام بنانے کے لئے مدینہ پر حملہ آور ہونے کے منصوبے باندھنے لگے۔ فی الحقیقت اس ساری مخالفت کی کوئی معقول وجہ مخالفین کے پاس نہ تھی۔ آپﷺ ہر طرح سے پرامن زندگی بسر کرتے تھے۔ بعثت سے پہلے مکہ کے باشندوں میں آپﷺ امین و صدیق کے لقب سے مشہور تھے۔ خدمت خلق کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ مخلوق خدا کی خیرخواہی میں آپﷺ کس حد تک مشہور تھے، اس کا اندازہ ان باتوں سے ہو سکتا ہے جو آغاز بعثت میں آپﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ ؓنے آپﷺ سے بڑی بے ساختگی میں کہیں جب کہ رسالت کی ذمہ واریوں کے متعلق آپﷺ نے اپنی ہمدرد بیوی سے اپنی پریشانی کا ذکر کیاانہوں نے آپﷺ کو تسلی دیتے ہوئے کہا:آپﷺ پریشان کیوں ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ آپﷺ کو ہرگز ناکام اور پریشان نہیں کرے گا۔کیونکہ آپﷺ متعلقین سے نہایت عمدہ میل ملاپ رکھتے ہیں،مفلوک الحال اور بے سہارا لوگوں کا بار اٹھاتے ہیں۔ جو اخلاق مٹ گئے تھے انہیں دوبارہ حاصل کرنے اور سوسائٹی میں انہیں رائج کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں، قوم کی سچی ضروریات میں اس سے مخلصانہ تعاون کرتے ہیں۔ بھلا ایسی خوبیوں والا نافع الناس وجود کب ضائع کیا جا سکتا ہے۔(تجرید البخاری جلد 1صفحہ6مطبوعہ لاہور)

یہ تھا قبل ازبعثت آپﷺ کے اخلاق کریمانہ کا اعتراف۔بعثت کے بعد بھی آپﷺ نے نہایت صلح جوئی اور ہمدری خلائق کا رویہ اختیارکیا۔ آپﷺ خدائے واحد کی عبادت کی طرف لوگوں کو بلاتے، اعلیٰ اخلاق اختیار کرنے کی تلقین کرتے اور غریبوں کی مدد کرنے کی ترغیب دیتے۔ مخالفوں سے آپﷺ کا مطالبہ صرف یہ تھا کہ دین و مذہب کے معاملہ میں جبر سے کام نہ لیا جائے۔ ہر انسان کو اختیار ہے کہ وہ جو چاہے مذہب رکھے۔ اس لئے ہر ایک کو اپنے خیالات کے اظہار کی پوری آزادی ملنی چاہیے۔ لیکن آپﷺ کی نرم روی اور امن پسندانہ طرز کے باوجود مخالفین آپﷺ کے اس انسانی حق کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھے اور جب کبھی آپﷺ لوگوں کوایک خدا پر ایمان لانے اور بتوں کی پوجا ترک کرنے کے متعلق وعظ فرماتے یا حکیمانہ انداز میں ان کے بھلے کی باتیں سمجھاتے، اعلیٰ اخلاق اختیار کرنے کی تلقین کرتے تو سرداران مکہ سخت مشتعل ہو جاتے۔

کفار کی مخالفت کا انجام

مخالفین کی یہی اشتعال انگیزی آپﷺ کی ہجرت پر منتج ہوئی اور جنگ کی سی حالت پیدا کرنے کا باعث بنی۔ مسلمان بھی اس صورتحال سے تنگ آگئے تھے۔ کیونکہ ظلم اپنی انتہاء تک پہنچ چکا تھا، اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کو اس کھلی کھلی جارحیت کے مقابلہ کی اجازت مرحمت ہوئی جس کا ذکر قرآن کریم کی سورۃ حج، رکوع 6میں ہے اور اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ورلڈ فیتھ کا مصنف مسٹر کرسٹن آنحضرتﷺ کی جنگوں کے بارہ میں لکھتا ہے:’’محمد (ﷺ) نے خود کبھی جنگ اور خونریزی کاکوئی موقع بہم نہیں پہنچایا۔ ہر جنگ جو آپ(ﷺ )کو لڑنا پڑی وہ دفاع اور جواب کے طور پر تھی۔ آپ (ﷺ) لڑنے پر مجبور ہوئے تو اس لئے کہ زندہ رہ سکیں‘‘(ورلڈ فیتھ، صفحہ 155مصنفہ مسٹر کرسٹن)

غرض مسلمان مجبور ہو کر لڑے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان مظلوموں کی مدد کی اور کامیابیوں نے ان کے قدم چومے، فتح و ظفر نے ان کا ساتھ دیا اور مخالفین مغلوب ہو گئے۔

آنحضرتﷺ کا خلق عظیم

لیکن اس غیر معمولی کامیابی کے وقت مخالفین کی مخالفت کے باوجود آپﷺ کے اخلاق کا اندازہ مندرجہ ذیل واقعہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے:’’قبل از ہجرت آپﷺ نے ایک دفعہ کلید بردار کعبہ، عثمان بن طلحہ، سے بیت اللہ کا دروازہ کھولنے کی استدعا کی۔ اس نے نہایت تکبر اور غرور سے آپﷺ کی استدعا کو ٹھکرا دیا۔اس پر حضورﷺ نے فرمایا: ’ایک دن آئے گا کہ یہ کنجیاں میرے ہاتھ میں ہوں گی اور میں جسے چاہوں گا، دوں گا‘۔عثمان نے جھنجھلا کر کہا : کیا اس دن قریش کے تمام مرد ذیل و برباد ہو چکے ہوں گے؟…فتح مکہ کے روز سب سے پہلے آپﷺ کعبہ تشریف لے گئے اور اسی عثمان کو آپﷺ نے طلب فرمایا۔عثمان لرزاں و ترساں حضورﷺ کے سامنے بت بنا کھڑاتھااور اسے اپنے وہ الفاظ یاد آ رہے تھے جو اس نے حضورﷺ سے کہے تھے، لیکن آنحضرتﷺ نے کمال شفقت سے فرمایا: ’’عثمان! آج انتقام لینے اور غصہ نکالنے کا دن نہیں بلکہ نیکی اوراسلامی اخلاق قائم کرنے کا دن ہے،جاؤ تمہیں معافی دی جاتی ہے۔ نہ صرف معافی بلکہ کعبہ کی چابیاں بھی تیرے حوالے کی جاتی ہیں، یہ چابیاں جو تم سےچھینے گاوہ ظالم ہوگا۔‘‘

(طبقات ابن سعد جزو دوم صفحہ 99 عام الفتح)

یہ تھے فاتح مکہ کے اخلاق جن کے قدموں کے نیچے اب سارا عرب تھا۔ چنانچہ آپﷺ کے ان اخلاق اور آپﷺ کی اس خارق عادت کامیابی سے متاثر ہو کرعربوں کی بھاری اکثریت نے آپﷺ کو اللہ تعالیٰ کا سچا نبی مان لیا۔ لیکن مخالفین کے بعض گروہ آپﷺ کی رعایا بن جانے کے باوجود اپنے پرانے مذہب پر قائم رہنا چاہتے ہیں۔

ذمیت کا آغاز

ان حالات میں ان مخالفین کے دل میں یہ سوال پیدا ہوا کہ اب ان کا کیا بنے گا۔ یہ ایک فطرتی سوال تھا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ فاتح عربﷺ نے آزادی مذہب اور آزادی رائے کے سوال پر ہی ان سے جنگ لڑی ہے۔ یعنی آنحضرتﷺ کا مطالبہ یہ تھا کہ یہ حق ہر انسان کو حاصل ہونا چاہئے۔ جو مذہب کوئی چاہے اختیار کر لے لیکن مخالف گروہ آپﷺ کے اس مطالبہ کو تسلیم نہ کرتے تھے اور مسلمان ہونے والوں پر زبردستی کرتے تھے۔اب جب کہ وہ مغلوب ہو چکے تھے اور چاہتے تھے کہ اپنے قدیم مذہب پر ہی قائم رہیںاس لئے اس سوال پر انہیں انتہائی شرمندگی سے دوچار ہونا پڑاکیونکہ سوال وہی تھا۔ صرف توازن طاقت میں تبدیلی ہوئی تھی لیکن انسانیت کے اسوہ کاملﷺ نے فرمایا: ’’جس اصول کو منوانے کے لئے میں تم سے لڑا ہوں اسے تمہاری مخالفت کی وجہ سے ترک نہیں کیا جائے گا۔ بے شک تم نے اپنی ظالمانہ ذہنیت کے ماتحت ایک غلط روش اختیار کی تھی لیکن حق ہر حال میں قائم رہے گا، جاؤ تم پر کوئی گرفت نہیں۔ تم میں سے ہر ایک مذہب کے بارہ میں آزاد ہے، تم ہمارے ذمی ہو، اللہ اور رسول تمہاری ہر قسم کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔‘‘

اِنَّمَا بَذَلُوْا الجِزْیَۃَ لِیَکُوْنُ دِمَآءُھُمْ کَدِ مَآئُنَا وَ اَمْوَالُھُم کَامْوَالُنَا۔

(نصب الرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ جلد 3 صفحہ 381 صو برہان شرح مواہب الرحمان جلد 3صفحہ 287)

اگر تم اپنے مذہب پر قائم رہو تب بھی تمہارے وہی حقوق ہوں گے جو حقیقی معنوں میں ایک مہذب حکومت اپنے شہریوں کو دیتی ہے۔ تمہیں مذہبی آزادی حاصل ہوگی، تمہاری جان اور تمہارا مال، تمہاری عزت اور تمہاری آبرو محفوظ ہیںاور وہ تمام شہری حقوق،جو اس حکومت میں ایک مسلمان کو حاصل ہیں،وہ آپ کو بھی حاصل ہوں گے۔ دراصل ذمّہ کے لفظی معنی کسی بات کی ذمہ واری قبول کرنے کے ہیں اور اسی سے لفظ ذمی نکلا ہے، جس کے معنی ہیں وہ شخص جس کو ہر قسم کی حفاظت کی ضمانت دی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ نبی کریمﷺ نے اپنے اس ارشاد میں انسانی اور شہری حقوق کے اعتبار سے مسلم اور غیر مسلم میں مساوات برقرار رکھنے کا اعلان فرمایا تھا اور آپﷺ کے اس ارشاد کا یہ مقصد ہر گز نہ تھا کہ یہ حقوق تو غیر مسلموں کے ہیں اور مسلمانوں کے حقوق کچھ اس سے زیادہ ہیں۔ چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے آنحضرتﷺ کے اس منشور آزادی کو جن الفاظ میں بیان فرمایا، وہ یہ ہیں:

’’ان لوگوں نے جزیہ کی ادائیگی کو اس لئے قبول کیا ہے تا کہ ان کی جانیں،ہماری جانوں کی طرح اور ان کے اموال ہمارے اموال کی طرح کی طرح سمجھے جائیں۔پس اس بارہ میں دونوں کے حقوق میں کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا۔‘‘

اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْا لَاالٰہَ اِلَّااللّٰہَ فَاِذِا قَالُوْھَا وَ صَلُّوْا صَلٰوتَنَا وَاسْتَقْبَلُوْا قِبْلَتَنَا وَذَبَحُوْا ذَبِیْحَتَنَا حُرِّمَتْ عَلَیْنَا دِمَآءَھُمْ وَ اَمْوَالَھُم اِلَّا بِحَقِّھَا وَ حِسَابُھُمْ عَلَی اللّٰہ۔

(نصب الرایہ جلد 3 صفحہ 380 مطبوعہ مصر۔ تجریدالبخاری۔ کتاب الصلوٰۃ صفحہ111 مطبوعہ لاہور)

اسی طرح حضرت عمرؓ کے زمانہ میں اہل جرجان کے ساتھ جو معاہدہ پایا اس کا ایک حصہ یہ تھا:

’’اہل جرجان کی جانیں، ان کے اموال، ان کی قومیتیں اور ان کے مذاہب سب کے سب محفوظ ہوں گے۔ان میں سے کسی چیز میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی اور نہ ہی کسی قسم کا دخل دیا جائے گا۔‘‘(طبری صفحہ 2658)

مسلم اور غیر مسلم رعایا میں کلی مساوات

حضورﷺ کے اس منشور آزادی کی عظمت، وسعت اور مساوات کا اندازہ آپﷺ کے اس اعلان کے مطالعہ سے بھی ہو سکتا ہے جو آپﷺ نے حربی گروہوں میں سے اسلام قبول کرنے والے افراد کے متعلق فرمایا، آپﷺ فرماتے ہیں:

’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان لوگوں سے جنہوں نے مذہبی آزادی کے حق کو پامال کیا اور میرے امن کو برباد کر دیا، جنگ کروں۔ لیکن ان میں سے جو لوگ اللہ تعالیٰ کو ایک مان لیں اور ہماری طرح نماز پڑھیں، ہمارے قبلہ کو اپنا قبلہ بنائیں اور ہماراذبیحہ کھائیں، یعنی جنگ ترک کر کے مسلمان ہونا قبول کریںتو ان کی سابقہ شرارتیںمعاف کر دی جائیں گی اور ان کی جانوں اور ان کے اموال کا ہم احترام کریں گے۔ پس چونکہ اس صورت میںاللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے ان کی حفاظت کی ذمہ داری لے لی ہے۔اس لئے بااقتدارمسلمانوں کوچاہیے کہ وہ اس ذمہ داری کو نبھائیں اور اس کی بے حرمتی نہ کریں۔‘‘

مَنْ صَلّٰی صَلوٰتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا۔اَکَلَ ذَبِیْحَتَنَا فَذَالِکَ المُسْلِمُ الَّذِی لہٗ ذِمَّۃُ اللّٰہِ وَ ذِمَّۃُ رَسُوْلِہٖ فلَاتَحْفِرُوْااللّٰہَ فِیْ ذِمَّتِہٖ۔

(نصب الرایہ جلد 3 صفحہ 380 مطبوعہ مصر۔ تجریدالبخاری۔ کتاب الصلوٰۃ صفحہ111 مطبوعہ لاہور)

پس حضورﷺ کے اس ارشاد سے ظاہرہے کہ آپﷺ نے جو حقوق حربی گروہوں میں سے مسلمان ہونے والوں کو دیئے تھے، بعینہ وہی حقوق جیسا کہ اوپر کے سابقہ حوالوں سے ثابت ہے جزیہ قبول کرنے والوں کو بھی دیئے تھے۔ چنانچہ اسی مساوات ذمہ واری کی بناء پر مسلمان متعینین نے غیر مسلم رعایا کے حقوق کی حدبندی کو جن الفاظ میں بیان کیا ہے، وہ یہ ہیں:

’’اگرغیر مسلم اسلامی حکومت میں رہنا اور اسے ٹیکس ادا کرنا قبول کریںتو انہیں وہی حقوق حاصل ہوں گے جو عام مسلمانوں کو حاصل ہیں اور ان پر وہی ذمہ واریاں عائد ہوں گی جو عام مسلمانوں پر عائد ہوتی ہیں۔‘‘

اِنْ بَذَلُوْھَا فَلَھُمْ مَا لِلْمُسْلِمِیْنَ وَ عَلَیْہِمْ مَا عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ۔

(ہدایہ جلد 2 صفحہ 532 باب الجزیہ)

ذمّی کہلانا ایک اعزازتھا

القصہ حفاظت اور ذمہ داری کا یہی اعلان تھا جس کی بناء پر غیر مسلم رعایا ذمی کہلائی۔اگرچہ بعض ناعاقبت اندیش علماء کی غلط تشریحات کی وجہ سے آج یہ لفظ بھیانک اور ڈراؤنا نظر آتا ہے لیکن اس مثالی زمانہ میں یہ نام دراصل اس امر کی مقدس ضمانت تھاکہ اسلامی حکومت غیر مسلم رعایا کے ہر قسم کے حقوق کی ذمہ وار ہو گی۔ انہیں بلا خوف و خطر امن و امان کے ساتھ اس ملک میں رہنے کے مواقع میسر ہوں گے۔ یہ نام حکومت اور عوام دونوں کے لئے باعث افتخار تھا۔ اس میں حکومت کی عظمت کے راز پوشیدہ تھے اور عوام کو خواہ وہ کسی مذہب و ملت کے ہوں ایسی حکومت کی آزاد رعایا بننے پر ناز تھا اور اس لفظ کا ہر گز یہ مقصد نہ تھا کہ اس کے ذریعہ کسی انسان کے حقوق پر کسی قسم کی کوئی پابندی لگائی جائے یا اسے غلامی اور ماتحتی کی پابندیوں میں جکڑا جائے۔ آنحضرتﷺ اور آپﷺ کے خلفاء کے عہد اقتدار میں اس اصول پر کس عمدگی سے عمل کیا گیا یہ تاریخ کا ایک کھلا ہوا باب ہے۔ رہن سہن اور دوسرے تمام تمدنی امور میں مسلم اور غیر مسلم میں کوئی امتیاز نہ تھا۔ حکومت کے ہر عہدیدار کو واضح ہدایات تھیں کہ وہ غیر مسلم عوام کا خاص خیال رکھیں، ان سے عزت سے پیش آئیں اور انہیں کسی قسم کے اعتراض کا موقع نہ دیں۔

آنحضرتﷺ کے غیر مسلموں سے تمدنی تعلقات

خود آنحضرتﷺ اسلامی حکومت کے کامل الاقتدار سربراہ ہونے کے باوجود غیر مسلم رعایا سے مساوات کا برتاؤ کرتے۔ ان سے تمدنی تعلقات استوار رکھتے اور برابر کا لین دین کرتے۔ ایک دفعہ ایک یہودی سے آپﷺ نے کچھ قرض لیا۔ کچھ مدت کے بعد وہ یہودی قرض واپس لینے کے لئے آیا اور آپﷺ سے سخت گستاخی کا رویہ اختیار کیا اور انتہائی درشت الفاظ استعمال کئے۔ صحابہ کو اس کی اس بے ہودگی پر سخت غصہ آیا، لیکن آپﷺ نے فرمایا:’’رہنے دو، اس کو ایسا کہنے کا حق ہے۔ کیونکہ ہم نے اس کا قرض دینا ہے۔‘‘

چنانچہ آپﷺ نے قرض ادا فرما دیا۔ بعد میں وہ یہودی آپﷺ کے یہ اخلاق دیکھ کر مسلمان ہو گیا۔

(طبقات ابن سعد جزو ثالث)

ایک دفعہ خیبر کی ایک یہودی عورت نے،جو ذمیہ تھی، آپﷺ کی خدمت میں بھونے ہوئے گوشت کا تحفہ پیش کیا۔ آپﷺنے اسے قبول فرمایا۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اس گوشت میں زہر ملا ہوا ہے۔ اس پر آپﷺنے اس عورت کو بلوا کر تحقیق کی لیکن اس عورت کی معذرت پر آپﷺ نے اسے معاف فرما دیا۔

(سیرۃ حلبیہ صفحہ61 جلد3مطبوعہ مصر و تجرید البخاری صفحہ100جلد2 مطبوعہ لاہور)

اسی طرح حضرت انس ؓکی روایت ہے کہ ایک یہودی نے حضورﷺ کی دعوت کی اور جو کی روٹی اور چربی پیش کی۔ حضورﷺ نے یہ دعوت قبول فرمائی۔

(مسند احمد بن حنبل جلد3صفحہ211)

ابن ابی لیلیٰ کی روایت ہے کہ سہل بن حنیف اور قیس بن سعد قادسیہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس سے ایک جنازہ گذرا،یہ اٹھ کھڑے ہوئے۔کسی نے کہا : یہ تو یہاں کے باشندے یعنی کافر کا جنازہ تھا۔ اس پر انہوں نے جواب دیا، کیا ہوا؟ اسی طرح ایک دفعہ آنحضرتﷺ کے پاس سے بھی ایک جنازہ گذرا، تو آپﷺ کھڑے ہو گئے۔ لوگوں نے کہا: یہ تو یہودی کا جنازہ تھا۔آپﷺ نے فرمایا: کیا یہودی انسان نہیں ہوتے؟ (مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 6)

حضرت ابوہریرہؓ، جو 7ھ میں مسلمان ہوئے، ان کی روایت ہے کہ ایک دفعہ ایک غیر مسلم آنحضرتﷺ کے ہاں مہمان ہوا۔ آپﷺ نے اسے ایک بکری کا دودھ دوہ کر دیا لیکن وہ سیر نہ ہوا، پھر دوسری بکری کا دودھ پیش کیا، لیکن پھر بھی اس کی تسلی نہ ہوئی۔ اس پر تیسری، چوتھی، یہاں تک کہ وہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا۔ آپﷺ اس کی اس حرص پر مسکرائے۔ لیکن مہمان سے کوئی بات نہ کہی۔ اس روایت سے ظاہر ہے کہ مہمان نوازی میں آپﷺ کے ہاں مسلم یا غیر مسلم کی کوئی تمیز نہ تھی۔

(ترمذی ابواب الاطعمۃ باب ان المومن یا کل فی امعاء واحدٍ جلد 2صفحہ4مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی)

یہودان بنو نصیر میں سے مخرق نامی ایک یہودی نے مرتے وقت اپنے سات باغ آنحضرتﷺکے نام بطور ہبہ وصیت کئے، جو حضورﷺ نے قبول فرمائے۔

(روض الانف جلد 2 صفحہ143)

علاوہ ازیں آپﷺ ہمیشہ واقف کار غیر مسلموں کی عیادت کو تشریف لے جاتے اور ان سے اظہار ہمدردی فرماتے اور ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے۔(زاد المعاد)

قیصر روم ہر قل کی ملکہ اور امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کی بیگم حضرت ام کلثوم کے آپس میں گہرے مراسم تھے۔وہ ایک دوسرے کو تحفے تحائف بھیجتیںاور اس طرح آپس کے تمدنی تعلقات کو استوار رکھتیں۔

(الفاروق شبلی حصہ دوم صفحہ 440)

غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت!

حضرت بلال ؓآنحضرتﷺ کے گھریلو اخراجات کے انچارج تھے۔ایک دفعہ اہل بیت کی کسی ضرورت کے لئے انہوں نے ایک ذمّی سے کچھ قرض لیا۔ تاریخ وعدہ قریب آ رہی تھی لیکن قرض کی ادائیگی کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ حضرت بلال ؓ کو قرض خواہ کے شدید تقاضے کا ڈر تھا۔ انہوں نے حضورﷺ سے پریشانی کا ذکر کیا اور اجازت چاہی کہ کچھ دنوں کے لئے وہ مدینہ سے باہرچلے جائیں تا کہ غیر مسلم قرض خواہ انہیں تنگ نہ کرے اور اپنے گھر میں محبوس رکھنے کا مطالبہ نہ پیش کر دے، جس کا اسے اس زمانہ کے قانون کے مطابق حق تھا۔ چنانچہ حضرت بلال ؓ نے گھر جا کر سفر کی تیاری کی اور رات اس نیت سے سوئے کہ صبح سویرے مدینہ سے باہر چلے جائیں گے۔ ابھی صبح کی نماز نہیں ہوئی تھی کہ حضورﷺ کا پیغام آیا کہ فدک سے کچھ اموال آئے ہیں، قرض کی ادائیگی کا سامان ہو جائے گا، اس لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ فدک فتح خیبر کے ساتھ ہی مسلمانوں کے قبضہ میں آیا تھا۔ اس لحاظ سے یہ واقعہ 7ھ کے بعد کا ہے جب کہ اسلامی حکومت نے زبردست اقتدار حاصل کر لیا تھا۔ حفاظت حقوق اور غیر مسلموں کی شہری آزادی کی یہ ایک ایسی مثال ہے جس کی نظیر تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔

(ابوداؤد باب قبول ہدایا المشرکین جلد ثانی صفحہ 433)

فتح مکہ کے بعد کا واقعہ ہے کہ طائف سے بنو ثقیف کا ایک وفد آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپﷺ نے ان کے لئے مسجد میں خیمے نصب کرائے اور وہاں ان کو ٹھہرایا۔ لوگوں نے عرض کی یا رسول اللہﷺ! یہ پلید مشرک قوم ہے۔ مسجد میں ان کا ٹھہرانا مناسب نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا!ارشاد الٰہی

’’اِنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ‘‘

میں دل کی طرف اشارہ ہے، جسموں کی ظاہری گندگی مراد نہیں اور نہ کوئی انسان ان معنوں میں پلید ہے کیونکہ سب انسان پاک ہیں اور وہ ہر مقدس سے مقدس جگہ میں بلاروک ٹوک جا سکتے ہیں۔

(احکام القرآن جلد 3صفحہ109)

آپﷺ کے ایک صحابی محیصہ خیبرمیں شہید کر دیئے گئے۔ ان کے ورثاء حضورﷺ کے پاس قصاص کا دعویٰ لے کر آئے۔ حضورﷺ نے فرمایا: کیا تم قسم کھا کر قاتل کی تعیین کر سکتے ہو؟ انہوں نے کہا: یا رسول اللہﷺ ! ہم تو وہاں پر موجود نہ تھے، اس لئے ہم کیسے قسم کھا سکتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ثبوت کے بغیر قصاص کیسے ممکن ہے۔ اب صرف یہی صورت ہے کہ خیبر کے یہودی، جن پر تمہیں شبہ ہے، قانون کے مطابق پچاس قسمیں کھائیں کہ انہیں قاتل کا علم نہیں۔محیصہ کے ورثا ءنے کہا کہ ان یہودیوں کا کیا اعتبار ہے، یہ تو جھوٹی قسمیں کھالیں گے۔ آپﷺ نے فرمایا: تو اس سے زیادہ ان سے باز پرس کی اجازت نہیں، کیونکہ قانون میں کسی امتیاز کی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے بعد آپﷺ نے اپنے پاس سے محیّصہ کے ورثاء کو دیت ادا کر دی۔

(تجرید البخاری، باب فصل الجہاد جلد 2صفحہ101شائع کردہ فیروز اینڈ سنز )

اسی طرح خیبر کے یہودیوں کی شرارتوں سے تنگ آکر علاقہ کے چند مسلمانوں نے ا ن کے کچھ جانور لوٹ لئے اور ان کے باغوں سے پھل توڑے۔حضورﷺ کو جب اس کا علم ہوا تو سخت ناراضگی کے لہجہ میں فرمایا:اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ اجازت نہیں دی کہ تم رضامندی حاصل کئے بغیر اہل کتاب کے گھروں میں گھس جاؤ، اسی طرح یہ بھی جائز نہیں کہ ان کی عورتوں کو مارا جائے یا ان کے پھل توڑے جائیں۔

(ابوداؤد جزو ثانی صفحہ 424)

ایک انصاری کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ میںآنحضرتﷺ کے ساتھ سفر میں تھا۔ بھوک محسوس ہوئی، کچھ پاس نہ تھا سامنے کافروں کی کچھ بکریاں نظر آئیں، انہیں پکڑ کر ذبح کیا، گوشت بنایا اور ہنڈیا پر چڑھا دیا۔ اتنے میں اس واقعہ کا آنحضرتﷺ کو علم ہوا۔ آپﷺ تشریف لائے، دست مبارک میں کمان تھی، اس سے ہانڈیاں الٹا دیں اور ارشاد فرمایا: لوٹ کی چیز مردار سے زیادہ حلال نہیں۔

(ابن ہشام جزو ثانی 188)

مسند احمد بن حنبل کی روایت ہے کہ ایک غزوہ میں مشرکین کے چند بچے لشکر کی لپیٹ میں آکر ہلاک ہو گئے۔ حضورﷺ کو اس کا بہت صدمہ ہوا۔ ایک صحابی نے عرض کی: یارسول اللہﷺ ! مشرکین ہی کے بچے تو تھے۔فرمایا: مشرکین کے بچے بھی تمہاری طرح کے انسان ہیں اور بہترین انسان بننے کی فطرتی صلاحیتیںرکھتے ہیں۔ دراصل ہر بچہ اسلامی فطرت لے کر پیدا ہوتا ہے لیکن بعد میں اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی وغیرہ بنا دیتے ہیں۔ خبردار! بچوں کو قتل مت کرو، خبردار! بچوں کو قتل مت کرو۔

(مسند احمد بن حنبل جلد4 بروایت حسن بن اسود صفحہ24)

عدل مسلم کی ایک مثال

حضرت عبداللہ بن رواحہؓ خیبر میں آنحضرتﷺ کی طرف سے محصل مقرر تھے، نصف بٹائی کا معاہدہ تھا۔ فصل تیار ہونے پرحضرت عبداللہ یہود کو کہتے : یا تو تم نصف نصف کا اندازہ کر لو اور مجھے اس میں سے کوئی حصہ لینے کا حق دے دو، یا پھر میں اندازہ کرتا ہوں اور تم کوئی سا حصہ چن لو۔ حضرت عبداللہ کی اس عادلانہ تجویز پر یہود بے اختیار پکار اٹھتے: ’’بھذا قامت السمٰوٰت والارض‘‘یعنی خدا کی قسم! اسی انصاف کی وجہ سے زمین و آسمان قائم ہیں۔(فتوح البلدان صفحہ34 مطبوعہ مصر)

ایک دفعہ ایک مسلمان اور یہودی ایک باہمی تنازعہ کے سلسلہ میں حضرت عمرؓ کے پاس اپنا مقدمہ لائے۔ آپؓ نے دلائل سننے کے بعد دیکھا کہ یہودی حق پر ہے۔ چنانچہ آپؓ نے اس کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس پر یہودی پکا راٹھا:’’ واللّٰہ قضیت بالحق‘‘(خدا کی قسم ! آپؓ نے منصفانہ فیصلہ کیا ہے)۔

(ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء مقصد دوم صفحہ 120)

مسلمانوں کی عدیم النظیر رواداری اور

غیر مسلموں کی طرف سے اس کا اعتراف

اسلام سے پہلے روم اور فارس کی حکومتیں عرب میں اپنے حلقہ ہائے اثر رکھتی تھیں۔ جب وہاں اسلام کی مستحکم حکومت قائم ہوئی تو ان حکومتوں کو عرب میں اپنا اثر و رسوخ ختم ہوتا نظر آیا اور انہوں نے مسلمانوں سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی اور حملے کی تیاریاں ہونے لگیں۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کو مجبوراًً رومی اور فارسی علاقوں میں پیش قدمی کرنا پڑی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ مذہبی تشددانتہائی خوفناک شکل اختیار کر چکا تھا۔تاریخ دینی ایذا رسانیوں اور مذہبی نزاعات کے واقعات سے سیاہ ہو رہی تھی۔ ایران کے شہنشاہ یہود و نصاریٰ کی ایذا رسانی اور رعایا سے مالی استحصال کے درپے تھے اور ان کو مختلف عذابوں اور سزاؤں میں مبتلا کر رکھا تھا۔ دوسری طرف قیاصر روم آزاد منش مفکرین اور رعایا کے دوسرے طبقات کی بوٹیاں نوچ رہے تھے،معاشرہ انتہائی تنگی محسوس کر رہا تھا۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کی حریت، اعتقاد، رواداری اور آزادی ضمیر سے ان علاقوں کے باشندے ایک آرام و سکون محسوس کرنے لگے۔وہ مسلمانوں کے سلوک سے کس قدر متاثر تھے اس کا کسی حد تک اندازہ تاریخ اسلام کے اس واقعہ سے ہو سکتا ہے جو حمص کے علاقہ میں پیش آیا۔ ایک بار رومیوں کے زبردست دباؤ کی وجہ سے اسلامی لشکر حمص سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گیا۔ مسلمانوں نے اس علاقہ سے وصول شدہ سارا اخراج وہاں کے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے واپس کر دیا کہ ہم نے تمہاری حفاظت اور اس علاقہ امن و امان کو برقرار رکھنے کی شرط پر یہ رقم وصول کی تھی،اب ہم اس علاقہ میںکو چھوڑ رہے ہیں اور اس پوزیشن میں نہیں کہ تمہاری حفاظت کر سکیں۔ اس پر اہل حمص نے جو جواب دیا اسے تاریخ کے اوراق نے ان سنہری حروف میں محفوظ کیا ہے:

’’ہم اپنے ہم مذہب لوگوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے تھے ان حالات میں تم آئے۔ تمہاری حکومت اورعدل نے ہمیں اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اب ہم تمہارے مقرر کردہ گورنر کے ساتھ مل کر ہرقل کے لشکر سے لڑیںگے اور ہمیں مار کر ہی وہ آگے بڑھ سکے گا۔یہودیوں نے تورات کی قسمیں کھائیں کہ ہرقل کے افسرشہرمیں داخل نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ یہ سارا علاقہ رومیوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ بالآخر اس مخالفت اور مسلمانوں کے مسلسل دباؤ کی تاب نہ لا کر ہر قل واپس بھاگ گیا اور جب مسلمان دوبارہ اس علاقہ میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوئے تو وہاں کے باشندوں نے مسلمانوں کا شاندار استقبال کیا۔بڑے بڑےجلوس نکالے، اظہار خوشنودی کے لئے ناچ گانے کے مظاہرے کئے گئے اور ادائے خراج اور وفاداری کے نئے سرے سے عہد و پیمان ہوئے۔‘‘

(فتوح البلدان صفحہ144مطبوعہ مصر، کتاب الخراج صفحہ 111مطبوعہ مصر)

جب بیت المقدس فتح کرنے کے لئے حضرت عمرؓ شام گئے تو راستہ میں علاقہ اذرعات کے عیسائی باشندے نہایت مسرت کے ساتھ باجے بجاتے ہوئے آپؓ کے استقبال کو نکلے اور بڑ ی عقیدت کے ساتھ آپؓ پر پھولوں کی بارش کی۔ آپؓ نے نہ ان کو روکا اور نہ ناراضگی کا اظہار کیا۔

عیسائیوں اور یہودیوں کی دلداری کا حضرت عمرؓ کو بے حد خیال رہتا تھا۔ ایک مرتبہ عیسائیوں کا ایک وفد آپؓ کے پاس آیاتو آپؓ نے خاص طور پر ان سے پوچھا کہ تمہارے علاقہ میں مسلمان تمہیں حاکم قوم ہونے کی وجہ سے ستاتے تو نہیں؟ انہوں نے نہایت خندہ پیشانی سے جواب دیا کہ شریفانہ اخلاق کے سوا ہم نے مسلمانوں سے کچھ اور نہیں دیکھا۔

جب حضرت عمرؓ کے عہد میں کوفہ کی بنیاد ڈالی گئی تو بیت المال اور ایوان حکومت کی تعمیر کا کام ایک نہایت ہی چابک دست ہوشیا ر اور لائق مجوسی معمار کے سپرد کیا گیا، جس کا نام روزنہ تھا۔ یہ شخص فن تعمیر کا ماہر اور بڑا قابل استاد تھا اور اس نے ایسی عمدگی سے کام کیا کہ گورنر نے خوش ہو کر کام ختم ہونے کے بعد اسے حضرت عمرؓ کی خدمت میں مدینہ منورہ بھیج دیا اور اس کے کام کی بے حد تعریف کی۔ حضرت عمرؓ نے ہمیشہ کے لئے اس کا ایک معقول وظیفہ مقرر کر دیا،جو اسے گھر بیٹھے ملتا تھا۔

(الفاروق حصہ دوم صفحہ 331 بحوالہ طبری۔ ذکر آبادی کوفہ)

غیر مسلم رعایا کی ضروریات کی ذمہ واری حکومت پر تھی

علاوہ ازیں دوران فتوحات غیر مسلم اقوام سے جو معاہدات ہوئے ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ ذمی رعایا کی بنیادی ضروریات کی حکومت ذمہ دار ہوگی۔ چنانچہ حیرہ کے باشندوں کو جو پروانہ امان دیا گیا اس کا ایک حصہ یہ ہے :

’’جو ذمّی بوڑھا ہو جائے اور کام نہ کر سکے یا کوئی ناگہانی آفت اسے ناکارہ بنا دے یا پہلے دولتمند ہو، بعد میںکسی حادثہ کی وجہ سے غریب ہو جائے تو ایسے آفت رسیدہ لوگوں سے نہ صرف یہ کہ حکومت کوئی ٹیکس وصول نہیں کرے گی، بلکہ ان کو اور ان کے اہل و عیال کو سرکاری خزانہ سے گزارہ بھی مہیا کیا جائے گا۔‘‘(کتاب الخراج صفحہ 85 مطبوعہ مصر)

اسی طرح اصول بنا دیا گیا تھا کہ اگر کوئی ذمی دشمن کے قبضہ میں آجائے اور اس کی رہائی فدیہ پر منحصر ہوتواس کا فدیہ مسلمانوں کے بیت المال سے ادا کیا جائے گا۔(کتاب الاموال ابوعبید)

تاریخ اسلام میں اس اصول کی متعدد عملی مثالیں ہمیں ملتی ہیں۔

ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے ایک بوڑھے ذمی کو بڑی خستہ حالت میں دیکھا۔ آپؓ نے فرمایا: خدا کی قسم! یہ انصاف کا تقاضا نہیں کہ ہم اس کی جوانی میں تو اس سے فائدہ اٹھائیں اور اسے بڑھاپے میں اس طرح رسواہونے دیں۔ چنانچہ آپؓ نے حکم صادر فرمایا کہ اس بوڑھے کو زندگی بھر اس کی ضرورت کے مطابق بیت المال سے وظیفہ دیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی آپؓ نے ملک کے گورنروں کو لکھا کہ وہ غیر مسلم رعایا کے مستحق اور غریب افراد کو بیت المال سے پابندی اور باقاعدگی کے ساتھ تنخواہیں دیں۔ اسی طرح غیر مسلموں کو وظائف دینے کی کئی اور مثالیں بھی تاریخ اسلام میں موجود ہیں۔

(عربی حوالہ ازالۃ الخفاء مقصد دوم صفحہ 192 و

کتاب الخراج صفحہ 72مطبوعہ مصر، فتوح البلدان صفحہ 36۔کنز العمال باب الجزیہ)

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button