متفرق مضامین

معاشرے میں قیام امن کے لیے اندرونی امن ضروری ہے

(میر انجم پرویز۔عربی ڈیسک یوکے)

جامعہ میں چھٹیاں ہوتیں تو سب طلباء اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے۔جب چھٹیاں ختم ہوتیں تو بعض طلباء لاہور سے اور بعض لاہور کے قریبی شہروں سے لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر جمع ہوجاتے اور وہاں سے بذریعہ ٹرین دیارِ مصلح موعودؓ میں پہنچتے۔ اسی طرح ایک دفعہ جامعہ کی چھٹیاں ختم ہوئیں تو خاکسار نارووال سے لاہور ریلوے اسٹیشن پہنچا۔ وہاں حسبِ معمول جامعہ کے کچھ دیگر طلباء بھی موجود تھے۔ بیشتر تو اپنے ٹکٹ خرید چکے تھے مگر کچھ میری طرح ابھی ابھی پہنچے تھے۔ میں اپنا بیگ اپنے ساتھی طلباء کو دے کر ٹکٹ لینے کے لیے روانہ ہونے لگا تو ان طلباء نے کہا کہ ہمارا ٹکٹ بھی لیتے آنا۔ جن لوگوں نے لاہور اسٹیشن دیکھا ہوا ہے وہ جانتے ہوں گے کہ وہاں کئی پلیٹ فارم ہیں اور ٹکٹ خریدنے کے لیے مختلف جگہیں مقرر ہیں جن میں سے بعض خاصے فاصلے پر ہیں۔ بعض دفعہ ٹکٹ لینے والوں کی کثرت کی وجہ سے لمبی قطار بھی ہوتی ہے۔ جہاں سے مجھے ٹکٹ لینے تھے وہ جگہ کچھ فاصلے پر تھی اورکچھ لوگ مجھ سے پہلے بھی کھڑے تھے۔ مختصراً یہ کہ جب خاکسار اپنااور دیگر طلباء کے ٹکٹ لے کرپلیٹ فارم پر پہنچا تو ٹرین روانہ ہوچکی تھی۔ شام ہو رہی تھی اور ان دنوں سفر کی سہولیات بھی نسبتاً کم تھیں، اس لیے بسوں وغیرہ پر رات کا سفر کرنا بہت دشوار تھا۔ لہٰذا خاکسار نے ٹکٹ واپس کیے اور لاہور میں اپنے تایا کے گھر چلا گیا۔دوسرے دن علیٰ الصبح وہاں سے روانہ ہوا اور دن کے تقریباً گیارہ بجے جامعہ پہنچ گیا۔جامعہ کے پرنسپل صاحب جامعہ کی عمارت کے سامنے باہر کرسی میز پر بیٹھے مصروفِ کار تھے۔ ان کو خبر تو پہنچ چکی تھی۔ سلام دُعا اور دریافتِ احوال کے بعد ان کا پہلا سوال یہ تھا کہ وہ طلباء کون تھے جنہوں نے آپ کو ٹکٹ لینے کے لیے کہا تھا؟ جب میں نے نام بتائے تو آپ نے ان کو بلوایا اور ان سے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں نے ٹکٹ لے لیا تھا۔ بعض نے تو راستے میں ٹکٹ لے لیا تھا لیکن ایک دو طلباء ایسے تھے جنہوں نے ٹکٹ نہیں لیا تھا۔ آپ نے ان کو اسی وقت مقامی ریلوے اسٹیشن بھیجا کہ یہاں سے لاہور کا ٹکٹ لے کر چاک کریں۔ کیونکہ آپ نے گورنمنٹ کی ایک سروس استعمال کی ہے اور گورنمنٹ کا یہ حق ہے کہ اتنی رقم اس کے خزانے میں جمع ہو۔

اس واقعہ سے ہمیں یہ درس حاصل ہوا کہ اسلام ہمیں حقوق کے حوالے سے کیا تعلیم دیتا ہے اور کس طرح تقویٰ پر چلتے ہوئے دوسروں کے حقوق ادا کرنے چاہئیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں بغیر ٹکٹ سفر کرنا لوگوں کا معمول ہے اور جہاں قانون کی پاسداری نہ ہونے کے برابر ہے اور کسی کو خیال بھی نہیں آتا کہ یہ کوئی جرم یا گناہ ہے ہمیں یہ تعلیم دی گئی کہ آپ نے خود اپنا محاسبہ کرنا ہے چاہے کوئی ٹکٹ چیک کرنے والااپنے کام میں غفلت دکھاتے ہوئےآپ سے نہ بھی پوچھے تب بھی آپ نے خود اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ کہیں میں کسی کا حق تلف کرنے والا تو نہیں بن رہا۔ یہ رقم جو گورنمنٹ کے خزانے میں جاتی ہے وہ پوری قوم کی بہبود کے لیے خرچ ہوتی ہے۔ اگر ہم سوچیں تو اس طرح ہم کتنے لوگوں کی حق تلفی کا موجب بن رہے ہوتے ہیں۔

آنحضرتﷺ نے فرمایا:

وَاللّٰهِ لَا يَأْخُذُ أَحَدٌ مِنْكُمْ شَيْئًا بِغَيْرِ حَقِّهِ إِلَّا لَقِيَ اللّٰهَ يَحْمِلُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔(صحيح بخاري، كتاب الحيل)

بخدا! جو کسی دوسرے کے حق یا حکومت کے حق میں سے کچھ بھی لے گا وہ قیامت والے دن اس (کے گناہ) کو اٹھائے ہوئے اللہ کے حضور پیش ہوگا۔

آنحضرتﷺ نے حقوق کے بارے میں تفصیلی تعلیم دی ہے۔ ہر ایک حق کے بارے میں تو یہاں بات نہیں ہو سکتی، تاہم حقوق کی ادائیگی سے متعلق چند اصولی باتیں پیش کی جائیں گی جن کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نہ صرف حقوق اللہ اور حقوق العباد کو احسن رنگ میں ادا کر سکتے ہیں بلکہ ان حقوق کی ادائیگی یقیناً دنیا میں امن وسلامتی کی ضامن بن سکتی ہے۔

حقوق العباد کی ادائیگی کے لیے ایک خدا پر ایمان ضروری ہے

اسلام اور بانیٔ اسلام نے انسان کواپنے گھر والوں، اپنے عزیزواقارب، اپنے ہمسایوں، معاشرے اور ملک اور ساری انسانیت کے حقوق ادا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ بلکہ انسانوں سے بڑھ کر جانوروں اور پودوں وغیرہ کے حقوق کا خیال رکھنے کی تعلیم بھی دی ہے۔ لیکن یہ تمام حقوق خدائے واحد پر ایمان لائے بغیر ادا نہیں ہو سکتے۔ یہ ایک ایسی کلید ہے جس کے بغیر انسان حقیقی طور پر دوسروں کے حقوق ادا کر ہی نہیں سکتا۔

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بیان فرماتے ہیں:’’یہ یقینی بات ہے کہ معاشرے کے مختلف طبقات کے حقوق اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتے جب تک کہ اس بات پر یقین نہ ہو کہ ہمارا ایک پیدا کرنے والا خدا ہے اور اس کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا کہ ’’حق اللہ کیا ہے؟ یہی کہ اس کی عبادت کرنا اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا اور ذِکرُاللہ میں لگے رہنا۔ اس کے اوامر کی تعمیل اور نواہی سے اجتناب کرنا، اس کے محرمات سے بچتے رہنا۔‘‘ (ملفوظات جلد10 صفحہ319) اور جب خدا تعالیٰ کا یہ تصور ہو گا تو پھر اس کے احکامات پر بھی عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی اور اس کے احکامات کی ایک بہت بڑی اکثریت اس کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی ہے۔‘‘

(اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یوکے فرمودہ 8؍اگست 2021ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 23؍ ستمبر 2021ء )

جو شخص خدا پر ایمان نہیں رکھتا وہ عام طور پر تو دوسروں سے اچھا سلوک کر سکتا ہے مگر جب اس کے ذاتی مفاد کو نقصان پہنچ رہا ہو تو اس وقت وہ دوسرے کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتا۔ ایسے امتحان کے وقت میں وہی دوسرے کا حق ادا کرے گا جو یہ یقین رکھتا ہو کہ اس کا ایک خدا ہے اور اس کے حضور میں ایک دن پیش ہونا ہے اور اس کی تعلیم یہ ہے کہ چاہے اپنا نقصان ہو جائے دوسرے کے حق کی حفاظت کرنی ہے اور انصاف کو کسی حال میں نہیں چھوڑنا چاہے اپنی ذات کے خلاف بھی گواہی دینی پڑے۔

آنحضرتﷺ جو’’اوّل المومنین‘‘تھے ایک طرف حقوق اللہ کی ادائیگی میں اپنے انتہا کو پہنچے ہوئے تھے تو دوسری طرف حقوق العباد کی ادائیگی میں اپنی ذات کو فراموش کرکے بے مثال نمونہ قائم فرمایا۔ آپؐ نے توحید کے قیام کی خاطر جہاں دنیاکی تمام نعمتیں دیے جانے کی پیشکش کو ٹھکرا دیا وہاں بھٹکی ہوئی مخلوق خدا کی ہدایت کی کوشش میں اپنی جان کو ہلاک کر دینے تک نوبت پہنچا دی۔

حقوق اللہ اور حقوق العباد باہم لازم وملزوم ہیں

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

فَمَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلۡیَعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشۡرِکۡ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا۔ (الكہف:111)

یعنی پس جو کوئی اپنے ربّ کی لقاءچاہتا ہے وہ (بھی) نیک عمل بجا لائے اور اپنے ربّ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔

شرک یہی نہیں کہ کسی انسان یا پتھر یا اور بے جان چیزوں یا قوتوں یا خیالی دیویوں اور دیوتاؤں کو خدا بنالیا جائے۔ یہ تو شرک کی موٹی قسم ہے۔ اللہ کاقرب پانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا ہر عمل شرک سے پاک ہو۔ عملِ صالح وہ عمل ہے جو برمحل ہو، خدا کی رضا کی خاطر ہو اور اس کے احکام کے تابع ہو، لیکن اگر انسان بظاہر نیک عمل کرتا ہے لیکن مقصد دنیا کو دکھانا ہے تو وہی عمل عملِ صالح نہیں رہے گا بلکہ اس میں شرک شامل ہو جائے گا۔ اگر دل میں یہ خیال پیدا ہو جائے کہ میں بڑا نیک ہوں، نمازیں پڑھتا ہوں، تہجد پڑھتا ہوں، تو ایسا خیال بھی شرک ہے کیونکہ ایسا خیال تکبر کی پیداوار ہے اور وہ اپنے تئیں دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے۔شیطان نیکی کرنے والوں کو عموما ًاسی راہ سے ہلاک کرتا ہے۔ نماز کا وقت ہے اور اس دوران کوئی پسندیدہ پروگرام یا میچ لگا ہوا ہے، اس کی خاطر نماز کو چھوڑ دینا یہ بھی ایک شرک ہے۔ اسی طرح دنیا کے اسباب پر بھروسا کرنا اور ان کو ایسی عزت دینا کہ گویا وہ خدا کے شریک ہیں، یہ بھی ایک شرک ہے۔ اگر نماز پڑھنے لگ گیا تو میرے کام کا حرج ہوگا۔ سواری نہ نکل جائے، گاہک نہ چلا جائے وغیرہ۔ گویا وہ رزاقِ حقیقی کے مقابل پر اسبابِ دنیوی کو اپنا رازق سمجھ لیتا ہے۔یہ بھی شرک ہے۔ اسی وجہ سے انسان ٹیکس چوری کرتا یا دوسروں کا حق مارتا ہے کیونکہ اس کو خدا پر یقین نہیں۔ جب ایک شخص کو یہ یقین ہو کہ رازقِ حقیقی اللہ تعالیٰ ہے وہ تنگی کے بعد ضرور آسانی پیدا کر دیتا ہے اور متقی کےلیے رزق کی ایسی راہیں نکال دیتا ہے کہ جن کا اسے گمان بھی نہ ہو۔ وَ ہُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیۡنَ۔ (الاعراف: 197) وہی عملِ صالح کرنے والوں کا متولی ہوجاتاہے، تو کیا ایسا شخص بددیانتی، دھوکا دہی، جھوٹ، فریب سے کام لے کر دوسروں کے حقوق ہضم کر سکتا ہے۔ نہیں، ہرگز نہیں بلکہ ایسا شخص تو خدا کی خاطر دوسروں کے لیے اپنا حق چھوڑ دینے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ جہاں بھی انسان حقوق العباد کی ادائیگی سے انحراف اور ظلم وزیادتی کا مرتکب ہو گا وہیں وہ خدا کو فراموش کردینے والا ہوگا۔ ایسا شخص نہ حقوق اللہ ادا کرسکتا ہے اور نہ حقوق العباد۔

حقوق اللہ اور حقوق العباد میں توازن ہو

آنحضرتﷺ نے حقوق اللہ اور حقوق العباد میں توازن کی تعلیم بھی دی۔یہ نہیں کہ ایک شخص ساری رات عبادت میں اورسارا دن روزے کی حالت میں گزارنا معمول بنا لے اور اپنے بیوی بچوں کے حقوق نظر انداز کردے یا اس وجہ سے شادی نہ کرنے کا عزم کرلے۔ بلکہ آپ نے سب کے حقوق ادا کرنے کی تلقین فرمائی اور اپنے عملی نمونے سے سمجھایا کہ دیکھو! میں نے تو شادیاں بھی کی ہیں، نوافل بھی بجا لاتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، روزے بھی رکھتا ہوں اور بعض دنوں میں نہیں بھی رکھتا۔

ہم عموماًکبھی حقوق اللہ کی ادائیگی میں حقوق العباد کو فراموش کردیتے ہیں اور کبھی حقوق العباد کی ادائیگی میں حقوق اللہ کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ لیکن آنحضرتﷺ حقوق العباد کے ساتھ ساتھ حقوق اللہ اور احکامِ شریعت کا بھی پورا پورا خیال رکھتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ رسول اللہﷺ کے ہاں مہمان تھے۔ حضورﷺ نے بکری کے پہلو کا گوشت لانے کا حکم دیا۔ چنانچہ پہلو کا بھنا ہواگوشت پیش کیا گیا۔ آپؐ کے اکرامِ ضیف کا عالم دیکھیے کہ خود چھری سے گوشت کاٹ کر حضرت مغیرہؓ کو دے رہے تھے کہ اتنے میں حضرت بلال ؓ آپؐ کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے آگئے۔ آپؐ نے فرمایا: بلال کو کیا ہے! اللہ اس کا بھلا کرے۔ لیکن آپؐ نے مہمان کی خاطر نماز نہیں چھوڑی، بلکہ فوراً چھری رکھ دی اور نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ (سنن أبي داؤد، كتاب الطهارة) یہ کہہ کر کہ بلال کو جانے کیا ہے!مہمان کی دلداری بھی فرما دی اور چھری بھی رکھ دی کہ اب خدا کا حق ادا کرنے کا وقت ہے۔

یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ حقوق العباد کی ادائیگی بھی اللہ کے احکام کے دائرے میں رہ کر ہی کی جانی چاہیے۔ مثلاً والدین کی اطاعت فرض ہے مگر اگر والدین نماز پڑھنے سے روکیں یا شرک کرنے کا حکم دیں تو اس صورت میں والدین کی اطاعت اللہ کے حکم کی خلاف ورزی پر منتج ہوگی۔ لہٰذا یہاں والدین کی اطاعت واجب نہیں ہوگی بلکہ یہاں لازم ہوگا کہ والدین کی اطاعت نہ کی جائے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:

لَا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةِ اللّٰهِ إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ۔(صحيح مسلم، كتاب الامارة)

کہ اللہ کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں کی جانی چاہیے بلکہ اطاعت تو معروف میں ہوتی ہے۔ اگر کوئی امر ایسا ہو جو اللہ کے احکام کی نافرمانی پر مشتمل ہو تو نہ بچے والدین کی اطاعت کے پابند ہیں، نہ بیوی اپنے خاوند کی اور نہ کوئی ماتحت اپنے افسر کی اور نہ کوئی رعایا اپنے حکام کی اطاعت کی پابند ہے۔ اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ۔ (يوسف:41) اللہ کا حکم مقدم بہرحال ہونا چاہیے۔

حقوق کی ادائیگی کا دائرہ اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے

آنحضرتﷺ نے اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم بھی دی کہ حقوق کی ادائیگی کا تعلق صرف دوسروں سے نہیں بلکہ اس کا دائرہ انسان کی اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے اور پھر درجہ بدرجہ دوسروں کے حقوق آتے ہیں جن میں اپنے اہل وعیال اور دیگر رشتے داروں کے حقوق ہیں۔ پھر ہمسایوں کے حقوق ہیں۔ اسی طرح یہ دائرہ پھیلتا ہوا معاشرے، ملک اور تمام بنی نوع انسان کے حقوق پر محیط ہوجاتا ہے۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تمام خلق اللہ کے حقوق تک وسیع ہوجاتا ہے۔

آنحضرتﷺ نے یہ تعلیم بھی دی

إِنَّ لِرَبِّكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا فَأَعْطِ كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ۔ (صحيح بخاري، كتاب الصوم)

کہ تیرے رب کا بھی تجھ پر حق ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے اہل وعیال کا بھی تجھ پر حق ہے۔ چنانچہ تجھے چاہیے کہ ہر حقدار کو اس کا حق ادا کرو۔

انسان پر سب سے پہلا حق خدا کا ہے۔اس کے جسم وجان خدا کی امانت ہیں۔ اس لیے اس کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اپنی جان کو نقصان پہنچائے یا خود کشی کرے۔ آج کل جو یہ تصور پایا جاتا ہے کہ یہ میری زندگی ہے میں جو چاہے کروں، آنحضرتﷺ نے اس کی نفی فرماتے ہوئے بتایا کہ یہ زندگی اوریہ جسم وجان تمہاری ملکیت نہیں، اس لیے تمہیں یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے ساتھ کسی قسم کی زیادتی کرو، بلکہ تمہارا فرض ہے کہ اپنے جسم وجان کی حفاظت کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالواور اپنی صحت کا خیال رکھو اور اپنے جبّلی تقاضوں کی ادائیگی اللہ کی حدود میں رہتے ہوئے کرو۔ ایک مومن جسے اپنے ساتھ کسی قسم کی زیادتی کی اجازت نہیں وہ دوسروں کے ساتھ کوئی ظلم وزیادتی کیسے کر سکتا ہے۔

تم میں ہر کوئی نگران اور جوابدہ ہے

حقوق کی ادائیگی کا یہ دائرہ اپنی ذات کے بعد اپنے قریبی رشتہ داروں پر محیط ہوتا ہے، جن میں ماں باپ، بہن بھائی اور بیوی بچےوغیرہ شامل ہیں۔ پھر ہمسائے اور گلی محلے کے لوگ ہیں۔ اسی طرح جہاں انسان پڑھنے جاتا یا کام کرتا ہے وہ اس کے ساتھی اور دوست ہیں۔ بانیٔ اسلامﷺ نے ہر ایک کے حقوق وضاحت سے بیان فرمائے اور اس کے ساتھ ساتھ ہر حیثیت سےایک فرد پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کی نشاندہی بھی کر دی۔ ان حقوق کی تفصیل کے لیے کتب احادیث وسیرت کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے لیکن یہاں ایک اور اہم بات جو حقوق کی ادائیگی کے حوالے سے اس محسنِ عالم نے بیان فرمائی، پیش کرنی ضروری سمجھتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا:

كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالْإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ،وفي رواية فَالْأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَالرَّجُلُ فِي أَهْلِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالْمَرْأَةُ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا رَاعِيَةٌ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا وَالْخَادِمُ فِي مَالِ سَيِّدِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ

(صحيح بخاري، كتاب في الاستقراض وأداء الديون والحجر والتفليس)

کہ تم میں سے ہر کوئی نگران ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔کوئی لوگوں پر حکمران ہے، یا کسی بھی طرح امام ہے، کسی ادارے کا سربراہ ہے،دفتر کا نچارج ہے، کسی کاروبار کا مالک ہے وغیرہ تو اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اور جو ماتحت ہے وہ بھی کسی نہ کسی طرح نگران بنتا ہے۔ ایک آدمی کم از کم اپنے اہل وعیال تو نگران ہے اور اہل میں سے بیوی خاوند کے گھر اور بچوں پر نگران ہے۔ اسی طرح اس نگرانی کے دائرے کو جتنا بھی تنگ کرلیں چاہے ایک غلام ہی کیوں نہ ہو، اس کے ذمہ اس کا مالک کوئی نہ کوئی کام تو لگائے گا، وہ غلام اپنے مالک کے اس کام یا مال کا نگران ہے۔

اس طرح آنحضرتﷺ نے ہر ایک شخص کو یہ بتا دیا کہ تم سے پوچھا جائے گا کہ آیا تم نے بطور سربراہ اپنے ماتحتوں اور بطور ماتحت اپنے سربراہ کی طرف سے سپرد کردہ ذمہ داری کا حق ادا کیا کہ نہیں؟ یہ انسانی فطرت ہے کہ اگر اسے احساس ہو کہ مجھ سے پوچھا جائے گا تو وہ زیادہ ذمہ داری کے ساتھ اپنے واجبات اور دوسروں کے حقوق ادا کرسکتا ہے۔نظام دنیا کی ساری بنیاد اسی چیز پر ہے اور جہاں کوئی پوچھ پڑتال نہ ہو وہاں ظلم ہوتا اور دوسروں کے حقوق سلب کیے جاتے ہیں۔ لیکن اسلام کا یہ امتیاز ہے کہ وہ ایک شخص جس کی اس دنیا میں پوچھ پڑتال یا جواب طلبی کرنے والا کوئی نہیں کے اندر یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ ایک ذات ایسی ہے جو تمہیں تمہاری ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھے گی اور تمہیں حساب دینا ہوگا کہ کیا تم نے دوسروں کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی یا زیادتی تو نہیں کی۔اور یہ حقوق وفرائض کی ادائیگی کا حقیقی تصورجو انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے یہ ایک قادر مطلق اور حی وقیوم ہستی پر ایمان رکھے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا۔ جب انسان کے اندر یہ احساس اور یہ شعور پیدا ہو جائے گا تو ہر انسان از خود دوسروں کے حقوق ادا کرے گا اور کبھی کسی پر ظلم نہیں کرے گا، کیونکہ جب بھی وہ کوئی خیانت، کوئی چوری، کوئی دھوکادہی اور کوتاہی کرنے لگے لگاتوفورا ًاس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوگا کہ اس دنیا میں اگر مجھے کسی نے نہ بھی پوچھا یا اس دنیا کو دھوکا دینےمیں کامیاب ہو بھی گیا تو خدا کے سامنے کیا جواب دوں گا۔ وہ عالم الغیب تو سب کچھ جانتا ہے۔

حضرت عمر ؓکے زمانے میں جب ایک بچی کو اس کی ماں نے دودھ میں پانی ملانے کا کہا تو اس نے کہا حضرت عمر ؓنے ملاوٹ سے منع فرمایا ہوا ہے تو ماں نے کہا کہ حضرت عمرؓ کون سا دیکھ رہے ہیں۔ اس پر بچی نے کہا کہ خدا تو دیکھ رہا ہے۔ یہ وہ خود احتسابی کا عمل ہے جو ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ سے مشروط ہے۔

اپنے نفس کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے

ایک انسان دوسروں کے حقوق سلب کرنے سے احتراز اس لیے کرتا ہے کہ اس کو قانون کا خوف ہوتا ہے اور اگر اسے قانون کی پکڑ کا خوف نہ ہو تو وہ دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے سے کیونکر دریغ کرے گا۔ مگر جب وہ اپنے نفس کا خود محاسبہ کرنے والا ہواور اسے معلوم ہو کہ کل کو اسے اپنے کیے کا حساب دینا ہے تو وہ کسی دوسرے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان متقی نہیں بن سکتا جب تک اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرے اور ہر کام کرتے وقت اس کے مآل کو پیش نظر نہ رکھے اور یہ نہ دیکھے کہ کل کو اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ لۡتَنۡظُرۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍ ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ۔ (الحشر: 19)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر جان یہ نظر رکھے کہ وہ کل کے لئے کیا آگے بھیج رہی ہے۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقیناً اللہ اس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔

ایک انسان دوسرے انسان کے اندرونہ کو نہیں جانتا اور نہ اس سے باخبر ہو سکتا ہے کہ کون کیا کر رہا ہے۔ یعنی ایک انسان دوسرے سے اپنے اعمال چھپا سکتا ہے اور بچ کر نکل سکتا ہے مگر خدا جو عالم الغیب اور علیم وخبیر ہے اس سے انسان کا کوئی عمل پوشیدہ نہیں۔ اس لیے ہر کام کرتے وقت یہ بات ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھے کہ وہ ہمارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

اسی طرح آنحضرتﷺ نے ایک موقع پر فرمایا:

الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّى عَلَى اللّٰهِ۔ (سنن الترمذي، كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله)

کہ عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور اسے تابع بنا لے اور مابعد الموت کے لیے کام کرے۔ اور بےبس وہ ہے جو نفس کو تابع کرنے کی بجائے خود اپنے نفس کا اور اس کی خواہشات کا تابع ہو جائے اور بایں ہمہ اللہ سے بخشش چاہے۔

اسی طرح آنحضرتﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا:

أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ قَالُوا الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ فَقَالَ إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ وَصِيَامٍ وَزَكَاةٍ وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا وَأَكَلَ مَالَ هَذَا وَسَفَكَ دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ۔ (صحيح مسلم، كتاب البر والصلة والآداب)

کہ تمہیں معلوم ہے کہ مفلس کون ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ جس کے پاس مال ومتاع نہ ہو۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں مفلس وہ ہےجو قیامت کے دن اس حال میں حاضر ہوگا کہ اس کے نامۂ اعمال میں بہت نمازیں، روزے اور صدقات وخیرات ہوں گے۔مگر اس کے ساتھ اس نے کئی طرح کے حقوق العباد غصب کیے ہوں گے۔کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر بہتان باندھا ہوگا، کسی کا ناحق مال کھایا ہوگا۔ کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا ہوگا۔ تو ہر مظلوم کو اس غاصب کی نیکیوں میں سے دے دی جائیں گی۔ اگر اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں مگر اس کے ظلم کا حساب صاف نہ ہوا ہو تو پھر مظلوم کی برائیاں اس غاصب کے کھاتے میں ڈال دی جائیں گی۔ یوں بالآخر وہ اپنے سیاہ اعمال نامے کے ہمراہ جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔

حضرت عمرؓ نے اسی مضمون کو یوں بیان فرمایا ہے:

حَاسِبُوْا أَنْفُسَكُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوْا وَتَزَيَّنُوْا لِلْعَرْضِ الْأَكْبَرِ وَإِنَّمَا يَخِفُّ الْحِسَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى مَنْ حَاسَبَ نَفْسَهُ فِي الدُّنْيَا۔ (سنن الترمذي، كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله)

کہ اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔خدا کے حضور پیش ہونے کی تیاری کرو کہ بروزِ قیامت اس کا حساب آسان ہوگا جو اس دنیا میں اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہا ہو۔

ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے

یہ وہ تعلیم ہے جو بانی ٔ اسلامؐ نے اپنے ماننے والوں کو سکھائی اور بتایا کہ ہر کام میں تقویٰ اور خوفِ خدا کو پیش نظر رکھو۔ یہی جنت کی راہ ہے۔ اگر ہر کوئی دیانتداری کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرے تو آخرت ہی نہیں بلکہ یہ دنیا بھی جنت نظیر بن جائے گی۔دراصل دوسروں کے لیے بھلائی کا موجب بننے کےلیے انسان کو پہلے اپنے اندر بھلائی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَكْثَرُ مَا يُدْخِلُ الْجَنَّةَ قَالَ التَّقْوَى وَحُسْنُ الْخُلُقِ۔

(سنن ابن ماجه، كتاب الزهد)

حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ سے پوچھا گیا کہ وہ کون سی چیز ہے جو سب سے زیادہ جنت میں لے جانے کا موجب ہے تو آپ نے فرمایا کہ وہ چیز تقویٰ اور حسنِ اخلاق ہے۔

اگر انسان تقوی سے کام لے گا تو کیسے کسی پر ظلم کر سکتا ہے اور کیسے کسی کا حق مار سکتا ہے یا کسی کی جان اور مال کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَخُونُهُ وَلَا يَكْذِبُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ عِرْضُهُ وَمَالُهُ وَدَمُهُ۔ التَّقْوَى هَا هُنَا۔(سنن الترمذي، كتاب البر والصلة عن رسول الله)

حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کے ساتھ خیانت سے پیش نہیں آتا، اس کے ساتھ جھوٹ نہیں بولتا اور اس کورسوا نہیں کرتا۔ ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی عزت اور مال وجان کی حرمت واجب ہے۔ دیکھو! تقوی کی آماجگاہ تو یہ سینہ ہے۔

مومن کا ہر عمل عبادت ہے

جب انسان کے اندر تقویٰ پیدا ہوگا اور جب وہ ہر کام کو اللہ کے حکم کے مطابق اور اس کی رضاجوئی کے لیے کرے گا تو خواہ وہ دینی کام ہو یا دنیوی وہ عبادت بن جائے گا۔ درحقیقت مومن کا ہر عمل عبادت ہے۔ اس کا مسکرا کر کسی سے ملنا اور اچھے طریقے سے بات کرنا بھی عبادت ہے۔ اس کا پیار سے اپنی بیوی کےمنہ میں لقمہ ڈالنا بھی عبادت ہے۔ ہر انسان بالطبع اپنے بیوی بچوں سے پیار کرتا ہے لیکن جب ایک شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے بیوی بچوں سے پیار کرتا اور ان کی ضروریات کو پورا کرتا ہے تو یہ بھی عبادت شمار ہوتا ہے۔ ہاں شرط یہ ہے کہ ہر کام میں خدا کی رضا اور اس کی خوشنودی مقصود ہو۔ ایک شخص جب اپنے کام کی جگہ پر محنت اور دیانت سے کام کرتا ہے تو اس کا روزگار بھی اس کے لیے عبادت کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ وہ اس لیے محنت کرکے روزی کماتا ہے کہ محنت سے روزی کمانے والا اللہ کو پیارا ہوتا ہے۔ جب اللہ کی خوشنودی مقصود ہوگی تو یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ شخص اپنے کام میں بے ایمانی کرے اور کسی کو دھوکا دے یا ٹیکس بچانے کے لیے جھوٹ بولے۔ جب اللہ کی خاطر ہر کام کرے گا تو ہر کام تقویٰ سے کرے گا اور اس کا ہر کام ہی عبادت بن جائے گا۔

ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے

اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے

یہی نہیں بلکہ انسان کا اپنی صحت کا خیال رکھنا بھی عبادت ہے کیونکہ ایک صحتمند مومن اپنی دینی ودنیوی فرائض وواجبات کو کمزور صحت والے مومن سے بہتر طور پر ادا کرسکتا ہے۔ انسان کا اپنے نفس کے تمام حقوق ادا کرنا بھی عبادت ہے۔ ایک انسان نہادھوکر صاف لباس زیب تن کرتا ہے، وقت پر اپنے ناخن تراشتا اور بال کاٹتا ہے، بالوں کوکنگھی اور داڑھی کا خلال کرتا ہے۔ دانتوں کی صفائی کرتا ہے۔ایک صاف ستھرا، خوش لباس اورہشاش بشاش نہ صرف دیکھنے اور ملنے والوں کو اچھا لگتا ہے بلکہ خدا کو بھی محبوب ہوتا ہے کیونکہ اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔

یعنی ہر کام خدا کی خاطر ہو، خدا کی رضا کے لیے ہو اور خدا کے حکم کے مطابق ہو تو نہ صرف انسان کی انفرادی زندگی بہت پُر سکون اور خوشگوار ہوگی بلکہ اجتماعی زندگی بھی یقیناً جنت نظیر بن جائے گی۔

ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر دوسروں کے حقوق کی ادائیگی

آج تمام دنیا خصوصاً ترقی یافتہ ممالک ذاتی مفاد کو ترجیح دینے کے اصول پر کاربند ہیں۔ جہاں وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے وہاں وہ دوسرے ممالک اور دوسری اقوام کے ساتھ زیادتی کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ مگر اللہ اور اس کے رسول ؐنے اس کیفیت کو حشر اور جہنم کے استقبال کی حالت قرار دیا ہے جہاں ہر کوئی ’’نفسی نفسی‘‘ کہتا ہو۔اور اس کے مقابل جہاں دوسروں کے لیے امن وسلامتی کا پیغام ہو اور دوسروں کے حقوق کا تحفظ ہو اسے جنت سے تعبیر کیا ہے، جہاں ہر طرف سے ’’سلاما سلاما‘‘ کی صدا آتی ہو، جہاں ہرشخص ایک دوسرے کے لیے سلامتی کا ضامن ہو۔ یہ وہ جنت ہے جس کو اسلام اسی دنیا میں قائم کرتا ہے۔ اور یہ جنت اپنے مفادات سے بالا تر ہو کر دوسروں کے حقوق کو اپنے حقوق پر ترجیح دینے سے حاصل ہو سکتی ہے۔ اور یہ ایک خدا پر ایمان لائے بغیر ممکن نہیں۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ وہ خدا جو کامل قدرتوں کا مالک ہے اور جو اس پر توکل کرکے دوسرے کے لیے اپنا حق چھوڑتا ہے اسے وہ قادر مطلق کبھی محروم نہیں رکھتا۔

وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسۡبُہٗ۔(الطلاق:4)

حقوق وفرائض میں عدم توازن کے نتیجے میں فساد

آنحضرتﷺ نے جو دین ہمیں سکھایا ہے وہ یہ ہے کہ ہر انسان کو یہ فکر ہونی چاہیے کہ کہیں میں دوسروں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی تو نہیں کر رہا، کہیں مجھ سے کسی کے ساتھ زیادتی تو نہیں ہو رہی؟ لیکن جب انسان اپنی فکر کرنے کی بجائے اپنی توجہ کا رُخ دوسروں کی طرف موڑ دیتا ہے اور ہمیشہ یہ دیکھنے لگتا ہے کہ فلاں نے میرا حق ادا نہیں کیا اور اسے یہ کرنا چاہیے تھا تو وہ اپنے واجبات سے غافل ہو جاتا ہے۔ آج دنیا میں جہاں جہاں فسادات ہیں، چاہے انفرادی سطح پر ہوں یا اجتماعی سطح پر وہ اسی وجہ سے ہیں کہ ہر کوئی ’’اپنے حقوق کی جنگ‘‘ لڑ رہا ہے اور کوئی اس طرف توجہ نہیں کرتا کہ آیا وہ خود دوسروں کے حقوق پوری طرح ادا کر رہا ہے یا نہیں! عرب ملکوں میں جسے عرب سپرنگ کا نام دیا گیا اس کی بنیاد یہی تھی کہ لوگوں کو یہ باور کروایا گیا کہ حکام بڑے ظالم ہیں یہ تمہارے حقوق ادا نہیں کر رہے اور تمہیں چاہیے کہ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے لڑو۔ تمہاری پستی، غربت اور تخلّف کے یہی ذمہ دار ہیں۔اگر تم اپنی زندگی کو خوشحال بنانا چاہتے ہو تو تمہیں ان حکام کو بزور بازو تبدیل کرنا ہوگا۔ اس نظریے کو میڈیا اور ایجنسیوں کے ذریعہ ترویج دے کر فتنہ وفساد کو ہوا دی گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکمران اپنی رعایا کے حقوق پوری طرح ادا نہیں کر رہے لیکن دوسری طرف یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ رعایا بھی اپنے حقوق ادا نہیں کر رہی اور جس کو جہاں اور جس قدر فساد، ظلم وزیادتی اور ناانصافی کا موقع ملتا ہے وہ کوئی اس میں کسر اُٹھا نہیں رکھتا۔ اب ضرورت تو اس بات کی تھی کہ لوگوں کو اس طرف توجہ دلائی جاتی کہ اپنے آپ کا جائزہ لیں، اپنی اخلاقی حالت کو بہتر کریں۔ ہر شخص قانون کی پاسداری کرے اور پوری دیانتداری کے ساتھ دوسروں کے حقوق کو ادا کرنے کی کوشش کرے۔ ہر ایک جب اپنی حالت کو بہتر کرلے گا اور اپنے اندر تقویٰ اور خدا خوفی پیدا کرے گا تو خدا خود ان کی مدد کرتے ہوئے ایسے حالات پیدا کرے گا کہ یہ حکمران تبدیل ہو جائیں گے یا اپنی حالت اور رویہ تبدیل کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ یہی کام نبیوں نے کیا کہ لوگوں کی اندرونی حالت میں تغیر پیدا کیا جس کے نتیجے میں چھوٹے بڑے کر دیے گئے اور بڑے چھوٹے۔ اب یہاں کیا ہوا؟ کئی جگہ حکمران تبدیل بھی ہوگئے مگر حالات بد سے بدتر ہوگئے، کیونکہ اب حکومتوں کی گرفت کمزور ہے اور اندرونی اصلاح نہ ہونے کی وجہ سے دوسروں کے حقوق زیادہ غصب ہونے لگے ہیں۔ طاقتور کمزوروں کا زیادہ استحصال کررہے ہیں۔ عورتوں اور بچوں کے ساتھ زیادتی عام ہوگئی ہے اور لوگ بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے اپنے گردے تک بیچنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔اور جولاکھوں جانیں ضائع ہوئیں وہ اس سے سوا ہے۔ اس بہار سے تو وہ خزاں بدرجہا بہتر تھی۔ آنحضرتﷺ نے تو یہ تعلیم دی تھی کہ چاہے تمہارے حکمران تمہارے حقوق نہ بھی ادا کریں پھر بھی تم نے ان کی اطاعت کرنی ہے۔(صحيح البخاري، كتاب الفتن) آنحضرتﷺ کی تعلیم کو چھوڑ کر کیسے مثبت نتائج برآمد ہو سکتے تھے۔

اسی طرح ایک جماعت میں لوگوں کو صدر سے شکایت تھی کہ یہ

’’سَیِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُہُمْ‘‘

کا مصداق نہیں۔ اور صدر کو بھی افرادِ جماعت سے شکایت کہ یہ اطاعت کا حق پوری طرح ادا نہیںکرتے۔ جب دونوں فریق کو توجہ دلائی گئی اور احباب کو بتایا گیا کہ تمہارا یہ کام نہیں کہ صدر سے مطالبہ کرو کہ وہ خادم بنے۔یہ ارشاد صدر کے لیے ہے کہ وہ اپنے اندرخادمانہ رنگ پیدا کرے۔ تمہارے لیے تو آنحضرتﷺ نے یہ تعلیم دی ہے کہ تم نے اطاعت کے دامن کو نہیں چھوڑنا۔ کیا تم دیانت داری سے اپنا جائزہ لے کر بتا سکتے ہوکہ تم اطاعت کے معیار پر پورے اترتے ہو۔ جب دونوں فریق نے اپنی طرف توجہ کی تو حالات بہتر ہو گئے۔ نزاع سے بچنے اور امن کے قیام کے لیے یہی اصول سامنے رکھنا ہوگا کہ میں بحیثیت ایک فرد دوسروں کے حقوق پوری طرح ادا کر رہا ہوں یا نہیں۔

موجودہ مغربی تہذیب کا فلسفہ

آج کل مغربی تہذیب کا دَور دورہ ہے اور ہر کوئی اس کی مثالیں دیتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تہذیب مادیت اور نیشنل انٹرسٹ کی بنیاد پر قائم ہے نہ کہ عدل کی بنیاد پر۔ اور مسلمان اس سے مرعوب ہو کر اپنی تعلیم سے برگشتہ ہو رہے ہیں، حالانکہ جو مسلمانوں کے پاس ہے وہ اس سے کہیں زیادہ اعلیٰ وافضل ہے۔ حضرت مصلح موعود ؓبیان فرماتے ہیں:’’اس زمانے میں اسلام کی تعلیم بطور کل کے نہیں پائی جاتی، صرف ٹکڑے ٹکڑے پائی جاتی ہے اور اصل اسلامی تعلیم کو درحقیقت مسلمان بھلا بیٹھے ہیں اور مغربیت ان پر غالب ہے، جس کے اصول یہ ہیں: اول: مادیت، دوم: اس کا لازمی نتیجہ نیشنلزم اور سوم:تمام مذہبی اور اخلاقی مسائل کو نیشنلزم کے تابع کرنا۔ ان امور نے اخلاق، مذہب اور حقیقی قربانی اور دنیا کے امن کو برباد کر دیا ہے اور مذاہب کی شکل کو مسخ کردیا ہے۔…گویا مذہب سے اتنی دوری پیدا ہو گئی ہے کہ وہ مذہب کوقومیت سمجھنے لگ گئے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو چیز نیشنلزم کو تقویت دے وہی خدا کا منشا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اخلاق ہاتھ سے جاتے رہے ہیں اور مذہب بھی ضائع ہوگیا ہے اور نیشنلزم پر مذہب کی بنیاد رکھ کر حقیقی قربانی کی روح کو برباد کر دیا گیا ہے۔ اب ایک جرمن اس لیے قربانی نہیں کرے گا کہ بنی نوع انسان کو اس سے کیا فائدہ پہنچتا ہے۔ یا ایک انگریز اس لیے قربانی نہیں کرے گا کہ دنیا کو اس کی قربانی کی ضرورت ہے بلکہ اسی وقت قربانی کرے گا جب اس کی قوم کا مفاد اس کا تقاضا کرے گا۔‘‘

(حقیقی انقلاب صفحہ 118-119)

خالص قربانی کیا ہے؟

انسان کو دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کی خاطر بسا اوقات اپنا نقصان بھی کرنا پڑتا ہے۔ یہ نقصان مالی بھی ہوسکتا ہے اور جانی بھی۔ دوسروں کی خاطر اپنی نیند، اپنا آرام اور وقت بھی قربان کرنا پڑتا ہے۔یہی قربانی خالص اور سچی قربانی کہلا سکتی ہے۔ اگر آپ کا پیٹ بھرا ہوا ہے اور آپ نے کچھ پس خوردہ کسی کو دے دیا تو یہ کوئی قربانی نہیں۔ آج دنیا میں دیکھیں تو ملکی اور قومی مفادات کو کسی اصول کی خاطر قربان کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کے برعکس اپنے مفادات کی خاطر دوسروں کی معیشت اور اقتصادیات کو بھی تباہ کرنے سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا:’’خالص قربانی انسان تبھی کر سکتا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ اس دنیا کے علاوہ بھی کوئی اور دنیا ہے اور اگر میں نے دوسروں کے لیے قربانی کی تو گو میں اس دنیا کا نفع حاصل نہ کروں مگر مجھے روحانی فائدہ پہنچے گا لیکن جس کو یقین ہو کہ جو کچھ ہے یہی دنیا ہے وہ کہتا ہے کہ جو کچھ ملے مجھے ہی ملے کسی دوسرے کو نہ ملے۔ پس نیشنلزم انتہائی مادیت کا نتیجہ ہے اور پھر اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ تعیش پیدا ہو جاتا ہے۔ ہر قسم کے آرام کے سامانوں، کھانے پینے اور پہننے کے سامانوں میں زیادتی کی خواہش بھی مادیت سے ہی پیدا ہوتی ہے، کیونکہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ میں نے حاصل کرنا ہے اسی دنیا میں حاصل کرنا ہے۔ پس جو مزہ اڑایا جا سکتا ہے اُڑا لو۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب نے تعیش کو کمال تک پہنچا دیا ہے۔‘‘(انقلابِ حقیقی، صفحہ 35)

خدا کی خاطر اور خلقِ خدا کی ہمدردی میں قربانی

اس کے مقابل پر اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ آپ اپنے ذاتی فائدے کی خاطر قربانی نہ کرو بلکہ بنی نوع انسان کے فائدے کے لیے ہو اور مقصد صرف اپنے خالق کی رضاجوئی ہو۔ جب یہ سوچ ہوگی تو کوئی ذاتی فائدہ اور مصلحت بنی نوع انسان کی ہمدردی کی راہ میں حائل نہیں ہو سکے گی۔ یہی چیز ہم بانیٔ اسلامؐ کی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں۔ آپ کی ساری زندگی بنی نوع انسان کی ہمدردی میں گزری اور ان کی خاطر آپ نے اپنی راحت وآرام کو قربان کیا۔ اپنے ذاتی آرام وآرائش کے لیے کچھ نہ کیا۔ ایک مسافر کی طرح زندگی بسر کی۔ اپنی ذات کے لیے کچھ نہ کیا۔ آپ کا جینا مرناسب خدا کے لیے تھا اور ہمدردیٔ خلق میں آپ نے اپنی جان کو ہلکان کیے رکھا۔ ایک مہمان آتا ہے تو گھر میں پیغام بھیجتے ہیں کہ کچھ کھانے کو ہے تو تمام بیویوں کی طرف سے یہی جواب ملتا ہے کہ گھر میں سوائے پانی کے کچھ نہیں۔ چنانچہ مہمان کو ایک انصاری صحابی کی ضیافت میں دینا پڑتا ہے۔ کئی دفعہ صبح اٹھ کر معلوم ہوتا کہ گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں تو فرماتے کہ آج نفلی روزہ رکھ لیتے ہیں۔ وفات کے وقت آپ کی زرہ ایک یہودی کے ہاں رہن پڑی تھی اور پیچھے کوئی جائیداد نہ چھوڑی۔یہ اس بادشاہ کا حال ہے جو دو جہانوں کا بادشاہ تو تھا ہی لیکن ظاہری طور بھی ایک ریاست کے سربراہ تھے۔ آپ کے پاس بہت مال بھی آیا اور سب خلق اللہ کی ہمدردی اور بہبود کے لیے خرچ کردیا۔ آپ نے لوگوں سے یہی فرمایا:

اِنۡ اَجۡرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ (سبا: 48)

میں تم سے اپنے لیے کسی اجراور منفعت کا خواہاں نہیں۔ مجھے اپنے خالق ومالک خدا ہی سے اجروثواب کی امید ہے۔ جب یہ ایمان ہو گا کہ مرنے کے بعد بھی زندگی ہے اور وہاں روحانی فائدہ ہوگا تبھی انسان حقیقی قربانی کرکے دوسروں کے حقوق ادا کرسکے گا۔

حقوق العباد کی ادائیگی کے تین درجے

بانیٔ اسلامؐ نےحقوق العباد کی ادائیگی کے تین درجے بتائے ہیں۔ پہلا درجہ عدل کا ہے کہ کوئی تمہارے ساتھ اچھا سلوک کرے تو تم بھی اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ یہ ادنیٰ درجہ ہے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ اگر کوئی تمہارے ساتھ اچھا سلوک نہ بھی کرے تب بھی تم اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر کوئی تمہارا حق ادا نہ بھی کرے تو تم اس کے حق کی ادئیگی میں کوتاہی نہ کرو۔ یہ تمہاری طرف سے احسان کا سلوک ہوگا۔ اول کوشش ہمیشہ احسان کی ہی ہونی چاہیے مگر اگر احسان نہ کر سکو تو کم از کم درجہ یہ ہے کہ عدل تو ضرور کروجیسا کہ فرمایا:

وَ اِذَا حُیِّیۡتُمۡ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوۡا بِاَحۡسَنَ مِنۡہَاۤ اَوۡ رُدُّوۡہَا۔(النساء:87)

پھر تیسرا اور آخری درجہ ایتاء ذی القربیٰ کا ہے جو احسان سے بھی بڑھ کر ہے، جس میں انسان ایک طبعی جوش سے دوسروں کے حقوق ادا کرتاہے۔نہ اسے کسی بدلے خواہش ہوتی ہے اور نہ کسی احسان کا خیال دل سے گزرتا ہے بلکہ دوسروں کی مدد کرنے کے لیے اپنی ہر چیز قربان کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے اور اسی میں راحت پاتا ہے اور اس کے مقابل اسے دنیا کی ساری دولت دی جائےتو تب بھی وہ اس ہمدردی اور خدمت کو ہی ترجیح دیتا ہے جیسے ایک ماں اپنے بچے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کےلیے تیار ہو جاتی ہے۔بچے کو ذرا سی تکلیف ہو جائے تو ماں کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں اور کس طرح وہ اپنے بچے کے لیے تڑپتی ہے۔ یہی جوش ایک کامل مومن کو تمام بنی نوع انسان سے ہوتا ہے۔ آنحضرتﷺ کی ساری زندگی اسی جوش اور ہمدردی سے عبارت تھی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’توریت نے حقوق کے مدارج کو پورے طور پر بیان نہیں کیا۔ لیکن قرآن نے اس تعلیم کو بھی کمال تک پہنچایا۔ مثلاً وہ فرماتا ہے

اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی۔(النحل:91)

یعنی خدا حکم کرتا ہے کہ تم عدل کرو اور اس سے بڑھ کر یہ کہ تم احسان کرو اور اس سے بڑھ کر یہ کہ تم لوگو ں کی ایسے طور سے خدمت کرو کہ جیسے کوئی قرابت کے جوش سے خدمت کرتا ہے۔ یعنی بنی نوع سے تمہاری ہمدردی جوش طبعی سے ہو کوئی ارادہ احسان رکھنے کا نہ ہو۔ جیسا کہ ماں اپنے بچہ سے ہمدردی رکھتی ہے۔‘‘(کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد13صفحہ84)

ایک مومن کا کام یہ ہے کہ وہ آخری درجے کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہے اور ہمیشہ احسان کے پہلو کو ترجیح دے۔ یا کم از کم نیکی کے بدلے میں نیکی تو کرے۔

اگر نیکی کے بدلے میں دوسرے کے ساتھ نیکی نہیں کرتا مگر اس کے ساتھ کوئی زیادتی اور ظلم بھی نہیں کرتا تو وہ تیسرے درجے سے بھی گر جاتا ہے۔ لیکن اگر کسی کے ساتھ ظلم کرتا ہے تو پھر وہ کس درجے پر ہوگا۔ پھر وہ ایمان کے کسی درجے پر شمار نہیں کیا جاسکتا۔

حسین معاشرے کا قیام حقوق کی ادائیگی سے وابستہ ہے

حقوق العباد کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس میں تمام رشتہ داروں کے درجہ بدرجہ حقوق ہیں، معاشرے کے حقوق ہیں جن میں یتامیٰ اور مساکین بھی شامل ہیں۔ اسی طرح ہمسایوں کے حقوق ہیں۔ ہم جلیسوں کے حقوق ہیں، جن میں دوست احباب، سکول کے کلاس فیلوز، کام کے کولیگز آ جاتے ہیں۔اسی طرح مسافروں کے حقوق ہیں اور ماتحتوں کے حقوق ہیں۔ ان سب حقوق کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں کیا گیا ہے کہ ان سب کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔

اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتاہے :

وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا۔ (النساء :37)

اس آیت کا مفہوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا ہے:’’تم خدا کی پرستش کرو اور اُس کے ساتھ کسی کو مت شریک ٹھہراؤ اور اپنے ماں باپ سے احسان کرو اور اُن سے بھی احسان کرو جو تمہارے قرابتی ہیں (اس فقرہ میں اولاد اور بھائی اور قریب اور دور کے تمام رشتہ دار آگئے) اور پھر فرمایا کہ یتیموں کے ساتھ بھی احسان کرو اور مسکینوں کے ساتھ بھی اور جو ایسے ہمسایہ ہوں جو قرابت والے بھی ہوں اور ایسے ہمسایہ ہوں جو محض اجنبی ہوں اور ایسے رفیق بھی جو کسی کام میں شریک ہوں یا کسی سفر میں شریک ہوں یا نماز میں شریک ہوں یا علمِ دین حاصل کرنے میں شریک ہوں اور وہ لوگ جو مسافر ہیں ا ور وہ تمام جاندار جو تمہارے قبضہ میں ہیں سب کے ساتھ احسان کرو۔ خدا ایسے شخص کو دوست نہیں رکھتا جو تکبر کرنے والا اور شیخی مارنے والا ہو جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا۔‘‘

(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد23صفحہ208تا209)

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ نہ صرف اپنے بھائیوں،عزیزوں، رشتہ داروں،اپنے جاننے والوں،ہمسایوں سے حسن سلوک کرو،ان سے ہمدردی کرو اور اگر ان کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے تو اُن کی مدد کرو، ان کو جس حد تک فائدہ پہنچا سکتے ہو فائدہ پہنچاؤ بلکہ ایسے لوگ، ایسے ہمسائے جن کو تم نہیں بھی جانتے، تمہاری ان سے کوئی رشتہ داری یا تعلق داری بھی نہیں ہے جن کو تم عارضی طورپر ملے ہو ان کو بھی اگر تمہاری ہمدردی اور تمہاری مدد کی ضرورت ہے، اگر ان کو تمہارے سے کچھ فائدہ پہنچ سکتاہے تو ان کو ضرور فائدہ پہنچاؤ۔اس سے اسلام کا ایک حسین معاشرہ قائم ہوگا۔ ہمدردی ٔ خلق اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو فائدہ پہنچانے کا وصف اور خوبی اپنے اندر پیدا کرلوگے اور اس خیال سے کرلوگے کہ یہ نیکی سے بڑھ کر احسان کے زمرے میں آتی ہے اوراحسان تو اس نیت سے نہیں کیا جاتا کہ مجھے اس کا کوئی بدلہ ملے گا۔احسان تو انسان خالصۃً اللہ تعالیٰ کی خاطر کرتاہے۔تو پھر ایسا حسین معاشرہ قائم ہو جائے گاجس میں نہ خاوند بیوی کا جھگڑا ہوگا، نہ ساس بہو کا جھگڑا ہوگا، نہ بھائی بھائی کا جھگڑا ہوگا، نہ ہمسائے کا ہمسائے سے کوئی جھگڑا ہوگا۔ ہر فریق دوسر ے فریق کے ساتھ احسان کا سلوک کر رہا ہوگا اور اس کے حقوق محبت کے جذبہ سے ادا کرنے کی کوشش کررہا ہوگا۔ اور خالصۃً اللہ تعالیٰ کی محبت،اس کا پیار حاصل کرنے کے لیے،اس پر عمل کر رہاہوگا۔آج کل کے معاشرہ میں تو اس کی اور بھی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اگر یہ باتیں نہیں کروگے تو پھر متکبر کہلاؤ گے اور تکبر کو ا للہ تعالیٰ نے پسند نہیں کیا۔ تکبر ایک ایسی بیماری ہے جس سے تمام فسادوں کی ابتدا ہوتی ہے۔ … خلاصۃً یہ ہے کہ ہمدردی ٔ خلق کرو تاکہ اللہ تعالیٰ کی نظر وں میں پسندیدہ بنو اور دونوں جہانوں کی فلاح حاصل کرو۔‘‘

(شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں صفحہ148تا149)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button