متفرق مضامین

والدین کے حقوق (قسط اوّل)

(لئیق احمد مشتاق ۔ مبلغ سلسلہ سرینام، جنوبی امریکہ)

فخر موجوداتﷺ کے فرمودات اور اُسوہ

حقوق العباد میں سب سے بڑاخُلق یہ ہے کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک اور اچھا برتاؤکیا جائے۔

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ۔

(الحجرات:14)

اے لوگو! یقیناً ہم نے تمہیں نر اور مادہ سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلا شبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متّقی ہے۔ یقیناً اللہ دائمی علم رکھنے والا (اور) ہمیشہ باخبر ہے۔

یہ وہ ابدی صداقت اور سنت جاریہ ہے جس کا ذکر مالک حقیقی نے اپنی پاکیزہ اور لاریب و بے عیب کتاب میں بیان فرمایا ہے۔خالق کائنات نے اس روئے ارض پر انسانی ہدایت اور اصلاح خلق کے لیے جن برگزیدہ بندوں کو منتخب فرمایا ہم انہیں انبیاء ورسل کی مقدس اصطلاح سے یاد کرتے ہیں۔اس کائنات میں حضرت آدم علیہ السلام کی صورت میں فریضۂہدایت کے لیے مبعوث ہونے والے مقدس سلسلے کا آغاز ہوا۔ اور پھر یہ کاروانِ رسالت مختلف صدیوں اور مختلف علاقوں میں انسانی ہدایت کے فریضے ادا کرتے ہوئے پاکیزہ سیرتوں کی ایک کہکشاں ہمارے سامنے منور کرتا ہے۔ جس میں حضرت نوح،حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہم السلام جیسے عظیم الشان اور اولوالعزم پیغمبر بہت نمایاں نظر آتے ہیں۔

درخشندگی اور تابندگی کے اس ماحول میں ایک شخصیت خورشید جہاں تاب کی صورت میں زمانےاور زمین کی ظلمتوں کو مٹانے اورانسان کےلیے ہدایت کا آخری پیغام لے کر مبعوث ہوئی جس کا نامِ نامی محمد رسول اللہﷺ ہے۔تکمیل ہدایت اور تکمیل اخلاق اُسی ایک ہی ذات عالی مقام کے ذریعہ ہوئی۔ آج انسانیت کےپاس آسمانی ہدایت کا یہی ایک نمونہ باقی ہے۔ جسے قرآن مجید نےاسوۂ حسنہ قراردیا اور اس اسوۂ حسنہ کےحامل کی سیرت سراج منیر بن کر ظلمت کدۂ عالم میں روشنی پھیلارہی ہے۔

حضرت محمدﷺ ہی اللہ تعالیٰ کے بعدوہ کامل ترین ہستی ہیں جن کی زندگی اپنے اندر عالمِ انسانیت کی مکمل راہ نمائی کا پورا سامان رکھتی ہے۔احسن الخالقین کا یہ عبد کامل خَلق اور خُلق میں کامل، یکتا،بے مثل اور عدیم النظیرہے۔ اور آپ کی زبان اطہر سے یہ روشن کلمات نکلے:

’’إنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ۔‘‘

(صحیح الالبانی،سلسله احاديث صحيحه، الاخلاق والبروالصلة۔حدیث نمبر:2399)

عن مالك أنه قد بلغه أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قال بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ حُسْنَ الْأَخْلَاقِ۔

(شرح الزرقاني على موطأ الإمام مالك، كتاب الجامع،باب حسن الخلق، ما جاء في حسن الخلق)

اب ان دونوں احادیث مبارکہ میں جو الفاظ آئے ہیں وہ ساری توجہ اپنی طرف مبذول کرتے ہیں۔ایک حدیث میں ’’مکارم اخلاق‘‘ اور دوسری میں ’’حسن اخلاق‘‘ کی تکمیل کو رسول اللہﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد عظیم قرار دیا ہے۔رسول اللہﷺ نے ہر خُلق کو اپنی ذات میں اختیار کرکے اسے خُلق عظیم بنا کر اللہ کی مخلوق کے سامنے ظاہر کیا ہے۔ خواہ وہ خلق صدق ہو، خلق صبر ہو، خلق حیا ہو، خلق احسان ہو، خلق احصان ہو،خلق امانت داری اور خلق دیانت داری ہو۔ خلق وفائے عہد ہو، خلق شکرہو،خلق عفو ہو، خلق عدل و انصاف ہو، خلق تواضع و انکساری ہو، خلق حلم و بردباری ہو، خلق رحم و مہربانی ہو، خلق سخاوت و جودو کرم ہو، خلق شجاعت و بہادری ہو، خلق ایثار و بے نفسی ہو، خلق حق گوئی اور صاف گوئی ہو، خلق اعتدال و توازن ہو، خلق رفق ونرمی ہووغیرہ۔ان سب اخلاق کو رسول اللہﷺ نے خلق عظیم کی صورت میں پروان چڑھایا۔ ان سارے خلقوں کو اپنے کمال پر پہنچایا ہے اور ان سب کو پُرعظمت اور انسانوں کے لیے باعث عزت بنایا ہے۔ اور ان سب اخلاق کو اتنا عظیم اور اتنا زعیم اور اتنا وجہ تکریم اور اتنا باعث تنعیم بنایا کہ باری تعالیٰ نے اسے خُلق عظیم قرار دیا۔پس آپ ہی ہیں جنہوں نے ہر خُلق کو خُلق عظیم بنایا۔ اوّل و آخر کل مخلوق میں وہ ایک ہی ہے جو خیر میں اجود،خُلق میں کامل اور حسن میں تام تھا۔ام المومنین حضرت عائشہ ؓکا یہ قول تا ابد اس صداقت کا گواہ رہے گا۔

عَنْ سَعْدِ بْنِ ہِشَامِ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: أَتَیْتُ عَائِشَةَ فَقُلْتُ: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ! أَخْبِرِینِی بِخُلُقِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم قَالَتْ: کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ، أَمَا تَقْرَأُ الْقُرْآنَ قَوْلَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ: وَإِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیمٍ؟ قُلْتُ: فَإِنِّی أُرِیدُ أَنْ أَتَبَتَّلَ، قَالَتْ: لَا تَفْعَلْ أَمَا تَقْرَأُ: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَةٌ۔ فَقَدْ تَزَوَّجَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم وَقَدْ وُلِدَ لَہُ۔

(مسند احمد بن حنبل :حديث نمبر 11171)

سعد بن ہشام سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں ام المومنین حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے ام المومنین! آپ مجھے رسول اللہﷺ کے اخلاق سے آگاہ فرمائیں۔ انہوں نے کہا: قرآن ہی رسول اللہﷺ کا اخلاق تھا، کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَإِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ ( القلم:5)بے شک آپﷺ اخلاق کی اعلیٰ قدروں پر فائز ہیں۔ میں نے عرض کیا:میں تبتّل کی زندگی اختیار کرنا چاہتا ہوں۔انہوں نے کہا: تم ایسا نہ کرو، کیا تم قرآن میں یہ نہیں پڑھتے:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب:22)

یقیناً تمہارے لیے رسول اللہﷺ کی زندگی اسوہ ٔ حسنہ ہے۔رسول اللہﷺ نے شادیاں کیں اور آپﷺ کی اولاد بھی ہوئی۔

حقوق اللہ میں سب سے بڑا خُلق توحید و خداپرستی ہےکہ ایک خدائے پاک لاریب وبے عیب کی عبادت کی جائےاور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔اور حقوق العباد میں سب سے بڑاخُلق یہ ہے کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک اور اچھا برتاؤکیا جائے۔اوراس خُلق کو بام عروج پہ پہنچانے کے لیے مولائے کُل نے اپنے اس عبد کامل پر

وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا (بنی اسرائیل:24)

جیسی روشن تعلیم نازل فرمائی اور آپﷺ نے اپنے قول و عمل سے والدین کے حقوق اور عزت و احترام کو اس طرح قائم فرمایا کہ انسانی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔

اصدق الصادقین نے عورت کوماں کی حیثیت سے جنّت کی منزل اور مرد کو باپ ہونے کی حیثیت سےجنّت کا دروازہ قرار دیا اور ہر حال میں ان کی عزت و تکریم قائم رکھنے کی تعلیم دی اور انتہائی باریک بینی سے ان امور کی نگرانی فرمائی کہ ایک دفعہ حضرت ابو ذر غفاری ؓ جیسے جاںنثار ساتھی اور جلیل القدر صحابی نے ایک حبشی غلام کو ماں کا طعنہ دیا تو اس معلّم اخلاقﷺ نے اس بات کو ناپسند فرمایا، اور اسے جاہلیت کی علامت قرار دیا۔

احکام خداوندی

قرآن کریم میں احکم الحاکمین نے والدین سے حسن سلوک اور صلہ رحمی کی تعلیم اس طرح بیان فرمائی ہے کہ ہر جگہ اپنی عبادت کے حکم کے ساتھ والدین سے حسن سلوک کی نصیحت کی کیونکہ والدین ایک طرح سے ربّ کا پَرتَو ہی ہیں اسی لیے قرآن کریم نے رحمی رشتوں میں سب سے مقدم والدین سے حسن سلوک کو رکھا۔

وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ لَا تَعۡبُدُوۡنَ اِلَّا اللّٰہَ۟ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ ذِی ‌الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ قُوۡلُوۡا لِلنَّاسِ حُسۡنًا وَّ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ ؕ ثُمَّ تَوَلَّیۡتُمۡ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّنۡکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ۔

( البقرۃ: 84)

اور جب ہم نے بنی اسرائیل کا میثاق (اُن سے) لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو گے اور والدین سے احسان کا سلوک کروگے اور قریبی رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے بھی۔ اور لوگوں سے نیک بات کہا کرو اور نماز کو قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ اس کے باوجود تم میں سے چند کے سوا تم سب (اس عہد سے) پھر گئے۔ اور تم اِعراض کرنے والے تھے۔

کُتِبَ عَلَیۡکُمۡ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ اِنۡ تَرَکَ خَیۡرَۨاۚۖ الۡوَصِیَّۃُ لِلۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ حَقًّا عَلَی الۡمُتَّقِیۡنَ۔

(البقرۃ:181)

تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آئے اگر وہ کوئی مال (ورثہ) چھوڑ رہا ہو تو وہ اپنے والدین کے حق میں اور رشتہ داروں کے حق میں دستور کے مطابق وصیت کرے۔ متقیوں پر یہ لازم ہے۔

یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ قُلۡ مَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ فَلِلۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ ابۡنِ‌السَّبِیۡلِؕ وَ مَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ۔

(البقرۃ:216)

وہ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں۔ تُو کہہ دے کہ تم (اپنے) مال میں سے جو کچھ بھی خرچ کرنا چاہو تو والدین کی خاطر کرو اور اقرباءکی خاطر اور یتیموں کی خاطر اور مسکینوں کی خاطر اور مسافروں کی خاطر۔ اور جو نیکی بھی تم کرو تو اللہ یقیناً اس کا خوب علم رکھتا ہے۔

وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ۔

( النساء: 37)

اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیررشتہ دار ہمسایوں سے بھی۔ اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی۔

قُلۡ تَعَالَوۡا اَتۡلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمۡ عَلَیۡکُمۡ اَلَّا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا …۔(الانعام:152)

تو کہہ دے آؤ میں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے ربّ نے تم پر حرام کردیا ہے (یعنی) یہ کہ کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور (لازم کردیا ہے کہ) والدین کے ساتھ احسان سے پیش آؤ۔

وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًاؕ اِمَّا یَبۡلُغَنَّ عِنۡدَکَ الۡکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ اَوۡ کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنۡہَرۡہُمَا وَ قُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا۔وَ اخۡفِضۡ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَةِ وَ قُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا۔

(بنی اسرائیل:24تا25)

اور تیرے ربّ نے فیصلہ صادر کردیا ہے کہ تم اُس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین سے احسان کا سلوک کرو۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک تیرے پاس بڑھاپے کی عمر کو پہنچے یا وہ دونوں ہی، تو اُنہیں اُف تک نہ کہہ اور انہیں ڈانٹ نہیں اور انہیں نرمی اور عزت کے ساتھ مخاطب کر۔اور ان دونوں کے لئے رحم سے عجز کا پَرجُھکا دے اور کہہ کہ اے میرے ربّ! ان دونوں پر رحم کر جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری تربیت کی۔

رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡحِسَابُ۔(ابراھیم:42)

اے ہمارے ربّ! مجھے بخشش دے اور میرے والدین کو بھی اور مومنوں کو بھی جس دن حساب برپا ہوگا۔

وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ اِحۡسٰنًا ؕ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ کُرۡہًا وَّ وَضَعَتۡہُ کُرۡہًا ؕ وَ حَمۡلُہٗ وَ فِصٰلُہٗ ثَلٰثُوۡنَ شَہۡرًا ۔

( الاحقاف: 16)

اور ہم نے انسان کو تاکیدی نصیحت کی کہ اپنے والدین سے احسان کرے۔ اسے اس کی ماں نے تکلیف کے ساتھ اٹھائے رکھا اور تکلیف ہی کے ساتھ اُسے جنم دیا۔ اور اُس کے حمل اور دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے ہے۔

خير الانامﷺکے فرمودات

ہر حال میں حسن سلوک کی تلقین


عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْجَنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ الْأُمَّهَاتِ۔

(الترغيب والترهيب لقوام السنة، دار الحديث القاهرة۔ رقم الحدیث: 448)

حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِي؟ قَالَ: أُمُّكَ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أُمُّكَ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أُمُّكَ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أَبُوكَ۔

(صحيح البخاري كِتَاب الْأَدَبِ، بَابُ مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ الصُّحْبَةِ،حدیث نمبر: 5971)

حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ ایک صحابی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرے اچھے سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ فرمایا ! تمہاری ماں ہے۔ پوچھا اس کے بعد کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ انہوں نے پھر پوچھا اس کے بعد کون؟ نبی کریمﷺ نے تیسری مرتبہ فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ اس نے پوچھا اس کے بعد کون ہے؟ نبی کریمﷺ نے فرمایا پھر تمہارا باپ۔

حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ الْوَلِيدُ بْنُ عَيْزَارٍ أَخْبَرَنِي قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَمْرٍو الشَّيْبَانِيَّ يَقُولُ أَخْبَرَنَا صَاحِبُ هَذِهِ الدَّارِ وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى دَارِ عَبْدِ اللّٰهِ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللّٰهِ قَالَ: الصَّلاَةُ عَلَى وَقْتِهَا۔ قَالَ ثُمَّ أَيُّ قَالَ: ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ۔ قَالَ ثُمَّ أَيّ قَالَ: الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ۔

(صحيح البخاري كِتَاب الْأَدَبِ،بَابُ قَوْلِ اللّٰهِ تَعَالَى:وَوَصَّيْنَا الإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ۔حدیث نمبر: 5970)

حضرت ابوعمرو شیبانی بیان کرتے ہیں کہ ہمیں اس گھر والے نے خبر دی اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے عبداللہ بن مسعود ؓ کے گھر کی طرف اشارہ کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریمﷺ سے پوچھا اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون سا عمل سب سے زیادہ پسندیدہ ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ وقت پر نماز پڑھنا۔ پوچھا کہ پھر کون سا؟ فرمایا کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، پوچھا پھر کون سا؟ فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔

عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ عُقُوْقَ الْأُمَّهَاتِ، وَمَنْعًا وَهَاتِ، وَوَأْدَ الْبَنَاتِ، وَكَرِهَ لَكُمْ قِيلَ وَقَالَ، وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ، وَإِضَاعَةَ الْمَالِ۔

(صحيح البخاري كِتَاب الْأَدَبِ، بَابُ عُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ مِنَ الْكَبَائِرِ،حدیث نمبر: 5975)

حضرت مغیرہ ؓروایت کرتے ہیںکہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے تم پر ماں کی نافرمانی حرام قرار دی ہے اور (والدین کے حقوق) نہ دینا اور ناحق ان سے مطالبات کرنا بھی حرام قرار دیا ہے، لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا (بھی حرام قرار دیا ہے) اور قيل وقال (فضول باتیں) کثرت سوال اور مال کی بربادی کو بھی ناپسند کیا ہے۔

عَنِ الْمُغِيرَةِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ عُقُوقَ الْأُمَّهَاتِ وَوَأْدَ الْبَنَاتِ وَمَنَعَ وَهَاتِ. وَكَرِهَ لَكُمْ قِيلَ وَقَالَ وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ وَإِضَاعَةَ الْمَالِ۔

(مشكوة المصابيح كتاب الآداب،حدیث نمبر: 4915)

حضرت مغیرہ ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ نے ماؤں کی نافرمانی کرنے، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے، بخل کرنے اور دست سوال دراز کرنے کو تم پر حرام قرار دیا ہے، اور فضول باتیں کرنے، (لوگوں کے احوال جاننے کے لیے) زیادہ سوال کرنے اور مال ضائع کرنے کو تمہارے متعلق ناپسند فرمایا ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: رَغِمَ أَنْفُهُ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُهُ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُهُ، قِيلَ: مَنْ يَا رَسُولَ اللّٰهِ؟ قَالَ:مَنْ أَدْرَكَ وَالِدَيْهِ عِنْدَ الْكِبَرِ أَحَدَهُمَا أَوْ كِلَيْهِمَا، ثُمَّ لَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ۔

(صحيح مسلم كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ،باب رَغِمَ أَنْفُ مَنْ أَدْرَكَ أَبَوَيْهِ أَوْ أَحَدَهُمَا عِنْدَ الْكِبَرِ فَلَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ۔ حدیث نمبر: 6511)

حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: خاک آلودہ ہو ناک اس کی، پھر خاک آلودہ ہو ناک اس کی، پھر خاک آلودہ ہو ناک اس کی۔ کہا گیا کس کی یا رسول اللہ!؟ آپﷺ نے فرمایا: جو اپنے ماں باپ کو یادونوں میں سے ایک کوبوڑھا پائےمگران کی خدمت گزاری کر کے جنت میں نہ جائے۔

عَنْ ابْنِ سَلَامَةَ السُّلَمِيِّ , قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُوصِي امْرءًا بِأُمِّهِ , أُوصِي امْرءًا بِأُمِّهِ , أُوصِي امْرءًا بِأُمِّهِ ثَلَاثًا , أُوصِي امْرءًا بِأَبِيهِ , أُوصِي امْرءًا بِمَوْلَاهُ الَّذِي يَلِيهِ , وَإِنْ كَانَ عَلَيْهِ مِنْهُ أَذًى يُؤْذِيهِ۔

(سنن ابن ماجه كتاب الأدب،بَابُ: بِرِّ الْوَالِدَيْنِ۔ حدیث نمبر:5762)


حضرت ابن سلامہ سلمی ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: میں آدمی کو اپنی ماں کے ساتھ اچھے سلوک اور برتاؤ کرنے کی وصیت کرتا ہوں، میں آدمی کو اپنی ماں کے ساتھ اچھے سلوک اور برتاؤ کرنے کی وصیت کرتا ہوں، میں آدمی کو اپنی ماں کے ساتھ اچھے سلوک اور برتاؤ کرنے کی وصیت کرتا ہوں، میں آدمی کو اپنے باپ کے ساتھ اچھے سلوک اور برتاؤ کرنے کی وصیت کرتا ہوں، میں آدمی کو اپنے غلام کے ساتھ جس کا وہ والی ہو اچھے سلوک اور برتاؤ کرنے کی وصیت کرتا ہوں، خ
واہ اس کو اس سے تکلیف ہی کیوں نہ پہنچی ہو۔

عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ يكَرِبَ , أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: إِنَّ اللّٰهَ يُوْصِيْكُمْ بِأُمَّهَاتِكُمْ ثَلَاثًا إِنَّ اللّٰهَ يُوْصِيْكُمْ بِآبَائِكُمْ إِنَّ اللّٰهَ يُوْصِيْكُمْ بِالْأَقْرَبِ فَالْأَقْرَبِ۔

(سنن ابن ماجه كتاب الأدب،بَابُ البِرِّ الْوَالِدَيْنِ۔ حدیث نمبر: 3661)

مقدام بن معدیکربؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ تم کو اپنی ماؤں کے ساتھ حسن سلوک (اچھے برتاؤ) کی وصیت کرتا ہے۔ یہ جملہ آپﷺ نے تین بار فرمایا :بیشک اللہ تعالیٰ تم کو اپنے باپوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے، پھر جو تمہارے زیادہ قریب ہوں، پھر ان کے بعد جو قریب ہوں ان کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: رِضَا الرَّبِّ فِي رِضَا الْوَالِدِ، وَسَخَطُ الرَّبِّ فِي سَخَطِ الْوَالِدِ۔

(سنن ترمذي ابواب البر والصلة عن رسول اللهﷺ،باب مَا جَاءَ مِنَ الْفَضْلِ فِي رِضَا الْوَالِدَيْنِ۔ حدیث نمبر: 1900)

حضرت عبداللہ بن عمرو ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , أَنَّ رَجُلًا , قَالَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ مَا حَقُّ الْوَالِدَيْنِ عَلَى وَلَدِهِمَا؟ قَالَ: هُمَا جَنَّتُكَ وَنَارُكَ۔

(سنن ابن ماجه كتاب الأدب،بَابُ البِرِّ الْوَالِدَيْنِ۔ حدیث نمبر: 3662)

حضرت ابوامامہ ؓسے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! والدین کااپنی اولاد پر کیا حق ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: وہی دونوں تیری جنت اور جہنم ہیں۔

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:الْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ فَأَضِعْ ذَلِكَ الْبَابَ أَوِ احْفَظْهُ۔

(سنن ابن ماجه كتاب الأدب،بَابُ البِرِّ الْوَالِدَيْنِ۔حدیث نمبر: 3663)

حضرت ابوالدرداءؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ کو فرماتے سنا: باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، چاہے تم اس دروازے کو ضائع کر دو، یا اس کی حفاظت کرو۔

والدین کے حکم پر طلاق دینا

عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيْهِ، قَالَ: كَانَتْ تَحْتِي امْرَأَةٌ، وَكُنْتُ أُحِبُّهَا، وَكَانَ عُمَرُ يَكْرَهُهَا، فَقَالَ لِي: طَلِّقْهَ فَأَبَيْتُ، فَأَتَى عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: طَلِّقْهَا۔

(سنن ابوداؤدکتاب الادب باب فِي بِرِّ الْوَالِدَيْنِ حدیث نمبر 5138)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ میرے نکاح میں ایک عورت تھی میں اس سے محبت کرتا تھا اور عمرؓ کو وہ ناپسند تھی، انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم اسے طلاق دے دو، لیکن میں نے انکار کیا، تو عمر نبی کریمﷺ کے پاس گئے اور آپﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپﷺ نے فرمایا: تم اسے طلاق دے دو۔

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، أَنَّ رَجُلًا أَتَاهُ، فَقَالَ: إِنّ لِيَ امْرَأَةً، وَإِنَّ أُمِّي تَأْمُرُنِي بِطَلَاقِهَا، قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: الْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ فَإِنْ شِئْتَ فَأَضِعْ ذَلِكَ الْبَابَ أَوِ احْفَظْهُ۔

(سنن ترمذي ابواب البر والصلة عن رسول اللهﷺ،باب مَا جَاءَ مِنَ الْفَضْلِ فِي رِضَا الْوَالِدَيْنِ۔ حدیث نمبر: 1899)

حضرت ابو الدرداءؓ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے ان کے پاس آ کر کہا: میری ایک بیوی ہے، اور میری ماں اس کو طلاق دینے کا حکم دیتی ہے، (میں کیا کروں؟) ابوالدرداء ؓنے کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا ہے: باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، اگر تم چاہو تو اس دروازہ کو ضائع کر دو اور چاہو تو اس کی حفاظت کرو۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُجَاهِدُ قَالَ: لَكَ أَبَوَانِ۔ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَفِيهِمَا فَجَاهِدْ۔

(صحيح البخاري كِتَاب الْأَدَبِ، بَابُ لاَ يُجَاهِدُ إِلاَّ بِإِذْنِ الأَبَوَيْنِ،حدیث نمبر: 5972)

حضرت عبداللہ بن عمرو نے بیان کیا کہ ایک صحابی نے نبی کریمﷺ سے پوچھا کیا میں بھی جہاد میں شریک ہو جاؤں؟ نبی کریمﷺ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے ماں باپ موجود ہیں انہوں نے کہا کہ جی ہاں موجود ہیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ پھر ان کی خدمت کا جہاد کرو۔

عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الْكَبَائِرِ أَنْ يَلْعَنَ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ۔قِيلَ، يَا رَسُولَ اللّٰهِ، وَكَيْفَ يَلْعَنُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ؟ قَالَ: يَسُبُّ الرَّجُلُ أَبَا الرَّجُلِ فَيَسُبُّ أَبَاهُ وَيَسُبُّ أُمَّهُ۔

(صحيح البخاري كِتَاب الْأَدَبِ، بَابُ لَا يَسُبُّ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ،حدیث نمبر: 5973)

حضرت عبداللہ بن عمر ؓنے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: یقیناً کبیرہ گناہوں میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین پر لعنت بھیجے۔ پوچھا گیا: یا رسول اللہ! کوئی شخص اپنے ہی والدین پر کیسے لعنت بھیجے گا؟ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ جو شخص دوسرے کے باپ کو برا بھلا کہے گا تو دوسرا بھی اس کے باپ کو اور اس کی ماں کو برا بھلا کہے گا۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button