متفرق مضامین

عدل وانصاف کے علم بردار رسول اللہﷺ کی عالمی عدل وانصاف کےقیام کےلیے اصولی تعلیم اور اس کے اعلیٰ نمونے (قسط اوّل)

(’ایچ ایم طارق‘)

’’قرآن کریم نے اور حضرت محمدﷺ نے فرمایا ہے کہ تمہیں مقامی سطح پر بھی، گھروں میں بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی انصاف کو قائم کرنا ہوگا۔ تب ہی معاشرے میں امن دیکھ سکتے ہو۔‘‘(حضرت خلیفۃ المسیح الخامس)

دنیا آج جس عدل وانصاف کی متلاشی ہے وہ کیسے نصیب ہوسکتا ہے؟ یہ ایک اہم اورمشکل سوال ہے جس کا سادہ جواب یہ ہےکہ جس طرح کسی فاقہ کش کی بھوک محض روٹی یاکھانے کی رٹ لگانے سے نہیں مٹ سکتی اسی طرح محض انصاف کے کھوکھلےنعروں یا عالمی عدالتِ انصاف کا ادارہ بنادینےسے عدل قائم نہیں ہوسکتا۔البتہ بلا امتیاز عدل وانصاف پر مبنی قوانین اور ان پر عمل درآمدکے یقینی ضابطوں کے نتیجے میں بین الاقوامی عدل کا قیام ممکن ہے،جس کے شاندارنمونے آج سے چودہ سو سال قبل بانیٔ اسلامﷺ نے دنیا کودکھائے۔

سرزمین عرب میں علمبردارعدل کی بعثت

الٰہی تقدیرکےمطابق رسول اللہﷺ کی بعثت سرزمین عرب میں ہوئی جہاں ہر قسم کی بےاعتدالی اور ظلم و تعدی کا دَوردورہ تھا۔آپؐ نے ظلم و ستم سے لبریز اس جزیرہ عرب کو عدل وانصاف کا گہوا رہ بناکر دنیا کے سامنے اسلامی ریاست کا ایک خوبصورت ماڈل پیش کیا۔جس میں ایک طرف مظلوم عورت کو ظلم سے رہائی دلوائی تودوسری طوف مقہور غلاموں کو ان کےحق دلوائے۔انصاف کا آغاز گھرکی ابتدائی سطح سے کیا جس کے بعدمحلہ،شہر ملک اورعالمی سطح پر انصاف قائم کر دکھایا۔ گھریلو سطح پرآپ نے والدین، اولاد، رشتہ داروں، بچوں،عورتوں، بوڑھوں اور ہمسایوں کےحق قائم فرمائے تومعاشرے میں رنگ ونسل اورمذہب کی تمیز وتفریق دور کرکے معاشرتی،معاشی اورمذہبی ہر پہلو سےعدل وانصاف قائم کر کے دکھا دیا۔انصاف کے اس علمبردارنے یہ اعلان کیا

أُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ(الشورىٰ:16)

(اے دنیا کے لوگو!)میں تمہارے درمیان عدل قائم کرنے کےلیے مامور کیاگیا ہوں۔بلکہ اللہ تعالیٰ تو اس سے بھی اگلے احسان کا حکم دیتا ہے۔فرمایا:

اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآئِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ یَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ وَ الۡبَغۡیِ ۚ یَعِظُکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ۔(النحل:91)

کہ اسلام کا خدا تو عدل سے آگے بڑھ کر اصل حق سے زیادہ دینے اور احسان کرنے اور ایتاء ذی القربی کی تعلیم دیتا ہے یعنی ایسی نیکی کرو جو خونی رشتہ داروں سے کی جاتی ہے۔

رسول کریمﷺکی فطرت میں عدل و انصاف کا پاکیزہ جذبہ سمندرکی طرح موجزن تھا اورجب اس منصف مزاج وجود پر عدل وانصاف پر مبنی قرآن کی نورانی شریعت اتری تونُورٌ عَلَى نُورٍکا نظارہ دنیا نے دیکھا۔قرآن شریف نے معاشرتی،معاشی اور مذہبی ہر پہلو سے اور ہر سطح پر قیام عدل کےایسے اصول قائم فرمائے ہیں جن کےنتیجے میں بانیٔ اسلامؐ نےحقیقی بین الاقوامی عدل قائم کرکے دکھایا۔ان اصولوں کا مختصرخلاصہ یہ ہے:

(1)پہلا اصولِ عدل بنیادی حقوق انسانی سے تعلق رکھتا ہے جس کےمطابق لازم ہے کہ ہر انسان کے جینے کا حق تسلیم کیاجائے اورناحق کسی کو قتل نہ کیا جائے۔(المائدہ:22)پھرہرانسان کے بنیادی حقوق کھانا،پانی،لباس اور گھر مہیا کیے جائیں۔(طہٰ:119تا120)

(2)معاشرتی عدل کابنیادی تقاضابنیادی خاندانی یونٹ میں عدل کا قیام ہے۔والدین کےاحسانات کے پیش نظر اولادان سے نرمی ومحبت اوراحسان کے سلوک کے ساتھ ان کےلیے رحم کی دعا کرے۔(الانعام :152) والدین بھی اولاد کے حقوق ان کی بلوغت تک عدل کےساتھ ادا کریں۔(الانعام: 152،بنی اسرائیل:24تا25)

(3)عائلی زندگی میں عدل کا تقاضا یہ ہے کہ میاں بیوی دونوں فحشااوربے حیائی سے بچیں اور اس کےقریب تک نہ جائیں۔(بنی اسرائیل:32تا33)شوہر بیویوں سے بہترین معاشرت اورحسن سلوک کریں (النساء:20)اور ان کےنان ونفقہ کی ذمہ داری ادا کریں اوربیویاں نیکی،اطاعت اورعصمت کی حفاظت کرکے اپنی ذمہ داری ادا کریں (النساء:34)

(4)معاشرہ کے جملہ افرادرشتہ داروں،یتامیٰ،قریبی اور دور کےمساکین،ہمسایوں،دوستوں اورمسافروں سےبھی نہ صرف عدل بلکہ احسان کا سلوک کرنا لازم ہے۔(النساء:37)

(5)معاشرتی عدل کےلیےکمزور طبقات اور یتامیٰ اوربیوگان کےاموال کی حفاظت اورمساکین اور غلاموں کے حقوق کی ادائیگی ہے۔

(النساء:76،3،النور:34،33،الانفال:68)

(6)معاشرے میں قیام عدل کےلیے گفتگو میں بھی عدل اور قول سدیدکا حکم ہے۔(الاحزاب:71) انصاف کے قیام کےلیے سچی گواہی کی حیثیت بنیادی ہے۔ خواہ وہ سچ اپنے،اپنے والدین اورقریبی رشتوں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ (الانعام:152تا153،النساء:136)

(7)معاشی عدل کےقیام کے لیے ضروری ہےکہ ماپ تول پورا ہواور اس میں انصاف سے کام لیا جائے۔

(الانعام:153،المطففین:2تا3)

(8)باہمی معاہدات کےلیے بھی اسلام عدل کی یہ تعلیم دیتا ہے کہ معاہدہ تحریری ہو اور لکھوانے کا زیادہ حقدار وہ ہے جس پر اس کے پورا کرنے کی ذمہ داری عائد ہو۔اور معاہدے میں ہر چھوٹی بڑی تفصیل اورمدت وغیرہ کا ذکر ضروری ہے۔(البقرۃ:283)

(9)اسلامی معاشرے میں دشمنوں کےساتھ بھی عدل کا حکم ہے اور ان سے زیادتی کا بدلہ لینے کےلیےان کے مذہبی حقوق میں ویسی زیادتی بھی روا رکھنے کی اجازت نہیں(المائدہ: 3) نہ ہی گواہی میں بے انصافی کی جائے۔فرمایا: اللہ کى خاطر مضبوطى سے نگرانى کرتے ہوئے انصاف کى تائىد مىں گواہ بن جاؤ اور کسى قوم کى دشمنى تمہىں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔(المائدہ: 9)

(10)اسلام میں حاکموں کو رعایا سے عدل کرنے کا حکم ہے اور رعایا کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کی امانت صرف اس کے اہل کے ہی سپرد کریں اورپھر وہ اپنے ان حاکموں کی اطاعت بالمعروف کے پابند ہیں۔(النساء:59تا60)

(11)بین المذاہب عدل کےقیام کےلیے بنیادی اصول یہ ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں (البقرۃ:257) ہرایک کواپنا مذہب اختیار کرنے اوراس کی تبلیغ کا پورا حق ہے (الانعام:105 اورالفرقان:58)پھر جوچاہے اپنے ایمان کا اورجو چاہے کفر کا اعلان و اظہار کرے(الکہف:30)ہرمذہب ایک دوسرے کی مقدس ہستیوں کاایک دوسرے کا احترام کرے۔حتیٰ کہ مشرکوں کےبتوں کوبھی گالی نہیں دی جائے،(الانعام:109) مقد س مذہبی معابد کی حفاظت یقینی بنائی جائے (الحج:41)محض اختلاف عقید ہ کی بنا پرکسی سے جنگ جائز نہیں لیکن اگر دشمن مسلمانوں پر ظلم کرکے مذہبی آزادی پامال کرکے حملہ آور ہو توپھر دفاع کی خاطر جنگ جائز ہے۔(الحج:40)مگر جنگ کی صورت میں بھی دشمن پر زیادتی نہ کرنے کا حکم ہے (البقرۃ: 191)اگردشمن صلح پر آمادہ ہو توصلح کرلی جائے۔(الانفال:62)

(12)قرآن شریف نےبین الا قوامی امن کے قیام کےلیے عالمی عدل اور انصاف کا یہ اصول بیان فرمایا کہ اور اگر مومنوں مىں سے دو جماعتىں آپس مىں لڑ پڑىں توسب مل کر ان کے درمىان صلح کرواؤ پس اگر ان مىں سے اىک گروہ دوسرى کے خلاف سرکشى کرے تو جو زىادتى کررہا ہے اس سے لڑو ىہاں تک کہ وہ اللہ کے فىصلےکى طرف لوٹ آئے پس اگر وہ لوٹ آئے تو ان دونوں کے درمىان عدل سے صلح کرواؤ اور انصاف کرو ىقىناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے (الحجرات:10)

بین الاقوامی امن اور انصاف

سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اس اہم بنیادی اصول کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:’’اس آیت میں بین الاقوامی صلح کے قیام کےلیے مندرجہ ذیل لطیف گُر بتائے ہیں۔سب سے اول جب دو قوموں میں لڑائی اور فساد کے آثار ہوں معاً دوسری قومیں بجائے ایک یا دوسری کی طرف داری کرنے کے ان دونوں کو نوٹس دیں کہ وہ قوموں کی پنچایت سے ایک جھگڑے کا فیصلہ کرائیں۔اگر وہ منظور کرلیں تو جھگڑا مٹ جائے گا۔لیکن اگر ان میں سے ایک نہ مانے اور لڑائی پر تیار ہوجائے تو دوسرا قدم یہ اٹھایا جائے کہ باقی سب اقوام اس کے ساتھ مل کر لڑیں۔اور یہ ظاہر ہے کہ سب اقوام کا مقابلہ ایک قوم نہیں کرسکتی۔ضرور ہے کہ جلد اس کو ہوش آجائے اور وہ صلح پر آمادہ ہوجائے۔پس جب وہ صلح کےلیے تیار ہوتو تیسرا قدم یہ اٹھائیں کہ ان دونوں قوموں میں جن کے جھگڑے کی وجہ سے جنگ شروع ہوئی تھی صلح کرادیں۔یعنی اس وقت اپنے آپ کو فریقِ مخالف بناکرخود اس سے معاہدات کرنے نہ بیٹھیں بلکہ اپنے معاہدات تو جو پہلے تھے وہی رہنے دیں۔صرف اسی پہلے جھگڑے کا فیصلہ کریں جس کے سبب سے جنگ ہوئی تھی۔اس جنگ کی وجہ سے نئے مطالبات قائم کرکے ہمیشہ کی فساد کی بنیاد نہ ڈالیں۔

چوتھے یہ امر مدنظر رکھیں کہ معاہدہ انصاف پر مبنی ہو یہ نہ ہو کہ چونکہ ایک فریق مخالفت کرچکا ہے اس لیے اس کے خلاف فیصلہ کردو بلکہ باوجود جنگ کے اپنے آپ کو ثالثوں کی ہی صف میں رکھو فریق مخالف نہ بن جاؤ۔‘‘

(احمدیت یعنی حقیقی اسلام، انوارالعلوم جلد8 صفحہ 314)

فطری جذبۂ عدل

ان نہایت عادلانہ اصولوں پر بلاامتیازعمل درآمدکے نتیجے میں ہمارے آقا ومولیٰ آنحضرتﷺ نے عالمی انصاف کے شاندار نظارے دنیاکو دکھائے، مگر اس کے پیچھے رسول اللہﷺ کا وہ فطری جذبۂ عدل بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا،جس کا مشاہدہ اس وقت بھی کیاگیا جب ابھی آپ اپنی رضاعی والدہ حلیمہ کے پاس دودھ پیتے بچے تھے اور آپ کا ہم عمر رضاعی بھائی بھی ماں کے دودھ میں شریک تھا۔آپ صرف ایک پہلو سے والدہ کا دودھ لیتے اور دوسرا پہلو اپنے بھائی کےلیے چھوڑ دیتے۔

(السیرۃ الحلبیۃ جلد1 صفحہ90مطبوعہ بیروت)

ایک معصوم بچے کے بارے میں اس کی والدہ کی یہ گواہی غیرمعمولی ہےاور بلاشبہ یہ فطری عدل کسی خاص الٰہی تحریک کے بغیر ناممکن ہے۔

قرآنی اصولوں کی روشنی میں اسلامی معاشرے میں قیام عدل کا آغاز تو بعثت نبویؐ کےساتھ ہی ہوگیا جب رسول اللہؐ مسلمانوںکےواجب الاطاعت امام اورلیڈر تسلیم کیے گئے لیکن ہجرت مدینہ کےبعد قیام عدل کا یہ سفرتیزترہوگیا جب رسول کریم ؐنےابتدائی اسلامی ریاست کے سربراہ کےطور پر مدینہ میں انصاف کے بہترین نمونے قائم فرمائے۔پھر جب 8ھ میںمکہ فتح ہوا اورسارا عرب رسول اللہﷺ کے زیر نگین ہوگیااورآپؐ دنیا کے سامنےایک عادل بادشاہ اورمنصف اعظم کے طورپر ابھرکرسامنے آئے تو اسلامی دنیا عدل کا گہوارہ بن گئی۔

بے شک یہ اسلام کی شاندار تعلیم عدل و انصاف کا نتیجہ تھا۔تاہم قیام عدل کی کوششوں میں آنحضرتﷺ کا دعویٰ نبوت سے بھی پہلےفطری جذبۂ عدل بھی کارفرمانظرآتاہے۔جب آپ نے مکہ میں ظلم،بے انصافی کا دَوردورہ دیکھ کر وہاں کے چند بااثرافرادکے ساتھ قیام عدل و انصاف کی خاطر ایک انجمن حلف الفضول کی رکنیت قبول فرمائی،جس میں شامل ہونےوالوں نے قسمیں کھائیں کہ وہ مظلوم کا حق دلانے میں اپنی پوری طاقت صرف کریں گے۔رسول کریمﷺبعد میں بھی فرماتے تھے کہ اگر آج بھی کوئی شخص مجھ سے اس معاہدہ کے واسطہ سے مدد چاہے تو میں ضرور مدد کروں گا۔(السیرۃ النبویہ لابن ھشام جز1صفحہ133)اور پھر واقعی ایک دن یہ بھی صورتحال پیدا ہوگئی۔

دعویٔ نبوت کےبعدسردار مکہ ابوجہل آپ کا جانی دشمن تھا۔اس نے ایک مظلوم دیہاتی اراشی سے اونٹ خریدا اور قیمت کی ادائیگی میں پس و پیش کرنے لگا۔اجنبی اراشی کو کسی نے شرارت اور طنز سے کہہ دیا کہ محمدﷺ سے اپنا حق ابوجہل سےدلانے کی اپیل کرو۔وہ سادہ لوح دیہاتی آپؐ کاپتہ پوچھتا ہوا آپہنچا اور مدد چاہی۔آپ اپنے اسی عہد کی لاج میں اس کے ساتھ چل پڑے اورابوجہل سےاس کا حق دلواکے دم لیا۔ تھوڑی دیر میں ابوجہل اپنےساتھیوں کے پاس آیاتو سب اس سے پوچھنے لگے کہ تمہیں کیا ہوگیا تھا؟ابوجہل نے کہا کہ جونہی میں نے محمدؐ کی آواز سنی، مجھ پر سخت رعب طاری ہو گیا۔جب باہر آیاتھا تو دیکھا کہ محمدؐ کے سر کے پاس خونخوار اُونٹ ہے۔اگر میں انکار کرتا تو وہ اُونٹ مجھے چیرپھاڑکررکھ دیتا۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ھشام جلد2صفحہ123تا124دارالفکربیروت)

الغرض وقت کے ساتھ رسول اللہﷺ کا جذبۂ عدل فزوں تر ہوتاچلاگیا۔مدینہ منورہ کا واقعہ ہے۔ آپ کی مجلس میں ہجرت حبشہ سے واپس آنےوالے ایک شخص نے اس ملک کی ایک مظلوم بڑھیا کا قصّہ سنا یا۔جس نے کمال جرأت سےاپنے اوپر ظلم کرنے والوں کو کہاتھاکہ ’’تمہیں اپناانجام فیصلہ کے دن معلوم ہوجائے گا جب خدا اپنی عدالت کی مسند پر جلوہ افروز ہوگا۔‘‘رسول اللہﷺاس کمزور حبشی عورت کی داستان ظلم سن کر تڑپ اُٹھے اورفرمایا: اس بڑھیانے سچ کہا ’’اللہ تعالیٰ اس قوم کو کیسے برکت بخشےاورپاک کرےگا جس میں کمزور کو طاقتور سے ان کے حق نہیں دلائے جاتے۔‘‘

(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن)

قیام عدل و انصاف اور حکومت کی ضرورت

ہمارے موجود ہ امام حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نےانصاف کے قیام کے بارے میں یہ راہ نمائی فرمائی کہ اس کا آغاز گھروں سے ہونا چاہیے جیساکہ حال ہی میں آپ نے اپنی ایک آن لائن پریس کانفرنس میں فرمایا:’’قرآن کریم نے اور حضرت محمدﷺ نے فرمایا ہے کہ تمہیں مقامی سطح پر بھی، گھروں میں بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی انصاف کو قائم کرنا ہوگا۔ تب ہی معاشرے میں امن دیکھ سکتے ہو۔‘‘

(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی گیمبیا کے صحافیوں کے ساتھ(آن لائن) پریس کانفرنس مورخہ 22؍مئی 2021ء)

امرواقعہ یہ ہے کہ حقیقی عدل و انصاف کے قیام کےلیے حکومت و ریاست کی بجائے دراصل ایسے ہی جذبۂ عدل کی ضرورت ہے۔پس دَورحاضر میں اسلام کے نام پر قائم بعض تنظیموں کا یہ تصور کہ حکومت حاصل کیے بغیر حقیقی عدل و انصاف قائم نہیں کیاجاسکتا۔یہ خیال ہرگز درست نہیں کیونکہ آنحضرتؐ کوعدل کےقرآنی اصولوں پر عملدرآمد کےلیے میسر23سالہ دَور کا نصف سے زیادہ عرصہ مکہ کے13 سالوں پر مشتمل ہے جس میں حکومت کی کوئی طاقت حاصل نہیں تھی بلکہ میثاق مدینہ سے پہلے ابتدائی دَور میں بھی یہی صورت رہی مگر اس زمانے میں بھی آپؐ نے عدل و انصاف کے اصولوں پر عمل کرکے خوبصورت نمونہ دیا کیونکہ انفرادی سطح پراسلامی تعلیم عدل کو جاری کرنےکےلیے کسی حکومت کی ضرورت نہیں۔عدل و انصاف کا اصل آغاز تو انسان کی اپنی ذات اور گھرسے ہوتا ہے اور اس کے اعلیٰ نمونے ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰﷺنے اپنی کمزوری کے زمانے میں پیش کرکے یہ بات ثابت کردکھائی۔بے شک ریاست مدینہ قائم ہونے پران کی شان اور وسعت بڑھتی چلی گئی مگر انفرادی سطح پرقیام انصاف کےلیے تب بھی وعظ و نصیحت اور عملی نمونہ کی ضرورت تھی جو آپؐ نے دکھادیا۔

اپنی ذات سے عدل

رسول کریمﷺ نےہمیشہ انصاف کے کٹہرے میں سب سے پہلے اپنی ذات کو کھڑا کیا۔جب کبھی کسی نے آپؐ سے زیادتی کے بدلہ کا مطالبہ کیا آپ بغیر کسی ترددکے اس کےلیے آمادہ نظر آئے۔یہاں بطورنمونہ حضرت اسید بن حضیر انصاریؓ کاایک واقعہ پیش کیاجاتاہے۔ان کی طبیعت میں مزاح بہت تھا۔وہ ایک دفعہ لوگوں کومزاحیہ باتیں سناکرہنسارہے تھے، حضورؐ نے بھی ازراہ مزاح ان کے پہلو میں اپنی چھڑی چبھودی۔ان کو یقین تھاکہ رسول خداؐعدل کا دامن کبھی نہیں چھوڑتے۔انہیں بھی کیا عجب تدبیر سوجھی کہ رسول اللہﷺ سے چھڑی چبھونے کا بدلہ طلب کرلیا۔قربان جائیں اس منصف رسولؐ پر آپؐ نے فرمایا آپ ابھی بدلہ لےسکتے ہو۔اسید نے عرض کیا۔یارسول اللہﷺ!آپؐ نے توقمیص پہن رکھا ہے،جبکہ مجھے ننگے بدن میں چھڑی چبھی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا قمیص اوپر اٹھایاتاکہ وہ حسب مرضی بدلہ لے لیں۔اس پر اُسید بن حضیرؓ وفورِمحبت سےآپؐ سے چمٹ کرجسم مبارک کے بوسے لینے لگے اورعرض کیا یا رسول اللہؐ ! میرا تو بس اتنا مقصدتھا کہ آپؐ سے محبت کا اظہاراوربرکت حاصل کرلوں۔

(ابوداؤدکتاب الادب باب 161)

اولاد سے عدل

دنیا میں کنبہ پروری،اقرباءنوازی اور اپنے عزیزوں کی بے جا طرفداری کے نظارےاکثر دیکھے جاتے ہیں۔جس سے توازن عدل بگڑکررہ جاتا ہے۔فی الواقعہ اپنی ذات سے عدل و انصاف سے اگلا قدم اپنے اہل خانہ اورخاندان سے انصاف ہے۔رسول کریمﷺنے اس کے بھی نہایت اعلیٰ نمونے دکھائے۔

ایک دفعہ رسول کریمؐ کےپاس کچھ قیدی آئے۔آپ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓنے بھی گھریلو ضرورت کے لیے آپؐ سےایک خادم طلب کیا۔رسول کریمؐ نے فرمایا: خدا کی قسم! میں تمہیں خادم دے کراصحاب صُفّہ اور غریب صحابہ کو محروم نہیں رکھ سکتا۔جو فاقوں سے بے حال ہیں اور جن کے نان ونفقہ کے لیے اخراجات تک میسر نہیں۔ میں یہ قیدی فروخت کر کے اپنے غریب صحابہ پر خرچ کروں گا۔

(مسنداحمدجزء1صفحہ107)

یہی جذبہ انصاف آپؐ نے اپنے صحابہؓ میں پیدا کیا۔
ایک دفعہ حضرت نعمان بن بشیرؓ کے والد انہیں نبی کریمؐ کے پا س لے آئے اور عرض کیا یا رسول اللہؐ میں نے نعمان ؓ کو اپنا فلاں مال ھبہ کیا ہے آپؐ اس پر گواہ ہوجائیں۔ نبی کریم ؐ نے استفسارفرمایا کیا سب بیٹوں کو ایسا ہی مال دیا ہے۔ انہوں نے نفی میں جواب دیا توآپؐ نے فرمایا پھر میرے علاوہ کسی اور کو گواہ بنالو پھر فرمایا کیا یہ بات تمہیں اچھی لگتی ہے کہ تمہارے بچے بھی تم سے حسن سلوک میں برابرہوں۔ میرے والد نے کہا ہاں۔ آپؐ نے فرمایا پھر ان کو مال دینے میں بھی عدم مساوات مناسب نہیں۔

(بخاری کتاب الشھادات باب 9)

بیویوں میں عدل

گھریلواور عائلی سطح پر عدل کےلیے بھی کسی ریاست کی ضرورت نہیں۔اسلام نے ایک سے زیادہ شادی کی اجازت جس بنیادی شرط سے مشروط قرار دی وہ عدل ہے۔اور نبی کریمﷺ نے اپنے مخصوص حالات اور ضرورت کے تحت اس اجازت سے فائدہ اٹھایا مگر عدل کا وہ اعلیٰ نمونہ دکھایا کہ سب بیویاں اس پر گواہ تھیں۔آپؐ نے صحابہ سے برملا فرمایا:’’ میں اپنی بیویوں سے حسن سلوک میں تم سب سے بہتر ہوں۔‘‘(ابن ماجہ کتاب النکاح باب حسن معاشرة النساء)

گھریلوسطح پر عدل کا ایک واقعہ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ اپنی ایک بیوی کے ہاں تھے وہاں کسی دوسری بیوی نے ایک پیالے میں کچھ کھانا بھجوایا۔ جس بیوی کی باری تھی اسے غیرت آئی اور اس نے غصہ سےپیالے پر ہاتھ مارااوروہ گرکرٹوٹ گیا۔ نبی کریم ؐنے اس پیالے کو جوڑا اور اس میں کھانا چن کرفرمایا اب کھالو۔ادھر آپؐ نے کھانا لانے والے کو روک لیا تھا۔کھانے سے فارغ ہوئے تو ٹوٹا ہوا پیالہ پاس رکھ لیا اور اس کی بجائے درست پیالہ توڑنے والی بیوی سے لے کر واپس بھجوادیا۔ (بخاری کتاب المظالم باب 35)

دوسری روایت میں ہے کہ رسول کریمﷺ نےکھانے کے عوض کھانا بھی بھجوانے کی ہدایت فرمائی۔

(ابوداؤد کتاب الاجارة باب 55)

رسول کریمؐ اپنی ازواج مطہرات میں کمال عدل کا سلوک فرمانے کے بعدخداتعالیٰ سے یہ دعا کرتے تھے۔ ’’اے اللہ ! بیویوں کےنان و نفقہ اور مال کی تقسیم میں جو مجھے اختیارہے۔اس میں پورے عدل سے کام لیتا ہوں مگر جس میں میرا اختیار نہیں یعنی قلبی میلان محبت اس میں مجھے معاف فرما دینا۔‘‘(ابوداؤدکتاب النکاح باب39)

مظلوم عورت سے عدل

معاشرے کے مظلوم طبقہ عورتوں کے حقوق دلانے کےلیے بھی کسی حکومت کی بجائے گھریلو اور معاشرتی سطح پر عدل کے نمونے قائم کرنے کی ضرورت تھی جو بانیٔ اسلامﷺ نے حکومت ملنے سے پہلےکرکےدکھادیے۔

یہ رسول اللہﷺ کا ہی حوصلہ تھا کہ اس صنف نازک کے حقوق کی خاطرآپؐ نے اس وقت نعرہ بلند کیا جب سارا معاشرہ اس کا مخالف تھا۔حقیقت یہ ہے کہ مرد ہوکر عورتوں کے حقوق کے سب سے بڑے علمبردار ہونے کی منفرد مثال صرف اور صرف ہمارے نبی ؐ کی شان ہے جو ہمیشہ تاریخ میں سنہری حروف میں لکھی جاتی رہے گی۔

وہ عرب معاشرہ جس میں عورت کا کوئی حق نہیں سمجھاجاتا تھا اور ان سے گھر کی خادماؤں اورلونڈیوں سے بھی بدتر سلوک ہوتا تھا۔وہ نہ صرف حق ورثے سے محروم ہوتی بلکہ خود ترکہ میں بانٹی جاتی تھی۔نبی کریمؐ نے اسے گھر کی مالکہ بنادیا اور فرمایا’’عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے۔اور اس سے اس ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘اسلامی شریعت میں عورت کو اس کی ذمہ داری کے مطابق ورثہ کا حق دیا گیاکہ وہ بطور ماں،بیٹی اور بیوی جائیداد کی وارث ہوگی جبکہ اس سے قبل بڑا بیٹا ہی ساری جائیداد کا مالک ہوتا تھا۔بانیٔ اسلام نے عورت کو بھی مردوں کی طرح ذاتی ملکیت رکھنے کا پورا حق عطا فرمایا۔اور حق ورثہ اور حق مہر کے اموال اس کے تصرف میں دینے کی ہدایت فرمائی۔آپؐ نے کمال عدل سےشادی کے بارہ میں عورت کی پسند کا حق بھی قائم فرمایا۔روزمرہ خانگی امور سے ہٹ کر مالی امور میں شہادت کے لیے دو عورتوں کی گواہی کوقبول کرنے کا اصول مقرر فرمایا جبکہ بعض امور جیسے ولادت و رضاعت وغیرہ میں تنہا عورت کی گواہی بھی قبول فرمائی۔غرضیکہ ہر شعبہ زندگی میں اپنے دائرہ عمل میں رہتے ہوئے عورت کو مکمل انصاف مہیا کیا۔

حضرت معاویہ بن حیدہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے اس سوال پر کہ ہم میں سے کسی ایک شخص کی بیوی کا ہم پر کیا حق ہے؟رسول کریمؐ نے فرمایاکہ جب تم کھانا کھاؤتو اسے بھی کھلاؤ،خود لباس پہنتے ہو تو اسے بھی پہناؤ۔یعنی اپنی توفیق و استطاعت اورمعیار زندگی کے مطابق بیوی کے حقوق ادا کرو۔ اُسے سرزنش کرتے ہوئے چہرے پر کبھی نہ مارو اور کبھی بُرا بھلا نہ کہو اُ سے گالی گلوچ نہ کرو۔اور اُس سے کبھی جدائی اختیار نہ کرو،ہاںضرورت پیش آنے پر گھر کے اندر بستر سے جدائی اختیار کرنے کی اجازت ہے۔

(ابوداؤدکتاب النکاح باب42)

مجبورغلاموں کے لیے نعرۂ انصاف

اسلام سے پہلے غلاموں کے کمزور طبقے سے بھی ظلم روا رکھا جاتا تھا۔رسول کریمﷺ نے نہایت عدل سے ان کے حقوق قائم کرکے دکھائے۔اور اس کےلیے بھی کسی حکومت کی ضرورت پیدا نہیں ہوئی۔

سب سے پہلے آپ نے ہمیشہ کےلیے غلامی کے ظالمانہ رواج کےخاتمہ کا اعلان کیا اور موجود غلاموں کی آزادی کی تدبیریں فرمائیں پھر بھی جو غلام باقی رہ گئے ان سے آپؐ نے کمال عدل و انصاف بلکہ احسان کا سلوک کرنے کی تعلیم دی۔وہ معاشرہ جہاں غلاموں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا تھا۔آپؐ نے اس تعلیم پرعمل کروایا کہ غلام بھی تمہارے بھائی ہیں جو خود کھاؤ انہیں کھلاؤ جو خود پہنو انہیں پہناؤ اور جو کام ان کے سپرد کرواگر وہ ان کی طاقت سے بڑھ کر ہوتوخود ان کی مددکرو۔

(بخاری کتاب الادب بَابُ مَا يُنْهَى مِنَ السِّبَابِ وَاللَّعْنِ)

ایک دفعہ حضرت ابو مسعود بدریؓ اپنے غلام کو کسی بات پر مار رہے تھے۔نبی کریمؐ نے دیکھا تو فرمایا’’اسے آزاد کرو۔اور انہوں نے وہ غلام آزاد کردیا۔‘‘

(مسلم کتاب الایمان باب8)

آپؐ فرماتے تھے کہ خادم کے مالک پر تین حق ہیں۔اول یہ کہ جب وہ نماز پڑھ رہا ہو تو اسے جلدی نہ ڈالے۔دوسرے کھانا کھاتے ہوئے اسے کھانے سے نہ اُٹھائے اور تیسرے اسے بھوکا نہ رکھے بلکہ سیر کرکے کھانا کھلائے۔

(مجمع الزوائد للہیثمی جزء8 صفحہ299)

اسی طرح فرمایا کہ خادم یا غلام جب کھانا لائے اُسے بھی ساتھ بٹھا کر اس میں سے کھلاؤ اگر وہ نہ مانے تو کھانےکےلیے کچھ دےدو کہ اس نے کھانا تیار کرتے ہوئے گرمی اور دھواں کھایا ہے۔ (ابن ماجہ کتاب الاطعمة باب 19)

اسلامی ریاست مدینہ

مکہ میں مسلسل تیرہ سال تک ظلم وتشدد برداشت کرنے کےبعد رسول کریمﷺ کو مجبوراً اپنے پیارے وطن مکہ کو الوداع کہناپڑااورمدینہ میں قبیلہ اوس وخزرج میں سے اسلام قبول کرنے والی ایک جماعت کےپاس آکرپناہ لی۔یہاں آباد یہود، مشرکین اور دیگرعرب قبائلِ مدینہ کے ساتھ آپ نےمعاہدہ کیا جو’’میثاق مدینہ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔وہ عدل وانصاف اور آزادی مذہب کی بہترین ضمانت ہےجس سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ مظلوم مسلمانوں نے طاقت حاصل ہوتے ہی اپنی اسلامی ریاست میں عدل وانصاف کا سکّہ کس طرح رائج کرکے دکھایا۔

معاہدہ مدینہ کی بنیادی شرط یہ تھی کہ یہود کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہوگی اور اس معاہدہ کے نتیجہ میں کچھ حقوق انہیں حاصل ہوں گے اور کچھ ذمہ داریاں عائد ہوں گی۔

معاہدہ کی دوسری شرط کے مطابق مدینہ کے مسلمان مہاجرین وانصار اور یہود اس معاہدہ کی رو سے ’’برابری کی سطح پراُمّتِ واحدہ‘‘متصورہوںگے۔ یعنی سیاسی لحاظ سے ایک قوم ہوکر دفاع کریں گے۔

معاہدہ کی تیسری بنیادی شرط تھی کہ یہود کو اپنے دین کی آزادی اور مسلمانوں کو اپنے دین میں مکمل آزادی ہوگی۔

معاہدے کی چوتھی شق کے مطابق مسلمان اور یہود مدینہ پر حملےکی صورت میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور اصول عدل کے مطابق مسلمان اپنے اخراجات کے ذمّہ دار اور یہود اپنے اخراجات کے ذمہ دار خود ہوںگے البتہ جنگ کی صورت میں باہم مل کر خرچ کریں گے۔

پانچویں شرط اس اصول عدل پر مبنی تھی کہ فریقین ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں گے اورکوئی کسی کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔

(السیرۃ النبویہ لابن ھشام جلد2صفحہ147تا150)

ہر چند کہ مدینہ کے یہودی مسلسل اس معاہدے کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوتے رہے لیکن نبی کریمؐ نے ہمیشہ ان سے ایفائے عہد اور انصاف سے بڑھ کراحسان کا معاملہ کیا۔

یہودکےدرمیان عادلانہ فیصلے

یہوداوردیگر قبائل مدینہ سے کیےگئے اس معاہدے کےمطابق رسول کریم ریاست مدینہ کےسربراہ اعلیٰ تھے اور جملہ تنازعات کےفیصلوں کا اختیار آپ کو حاصل تھا۔

آپؐ نے خوبصورت عادلانہ فیصلے فرمائے۔جن کی چند مثالیں بطور نمونہ یہاں پیش کی جاتی ہیں:

یہود کے قبائل بنو نضیراور بنو قریظہ میں سے بنو نضیر زیادہ معزز سمجھے جاتے تھے۔جب بنوقریظہ کا کوئی آدمی بنی نضیر کے کسی آدمی کو قتل کرتا تو قصاص میں قتل کیا جاتا اور جب بنو نضیر کا کوئی آدمی بنو قریظہ کے کسی آدمی کوقتل کرتا تو اس کی دیت سو وسق کھجور ادا کردی جاتی۔نبی کریمؐ کی مدینہ تشریف آوری کے بعد ایک نضیری نے قُرظی کو قتل کردیاتو بنو قریظہ نے قصاص کا مطالبہ کیا اور اپنا ثالث رسول کریمؐ کو مقرر کیا اور آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورؐ نے جاہلیت کے دستور کے برخلاف اس قرآنی ارشادپر عمل فرمایا کہ

وَاِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ(سورۃ المائدۃ:43)

یعنی’’جب تو ان یہود کے درمیان فیصلہ کرے تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کر۔‘‘چنانچہ آپؐ نے جان کے بدلے جان کا فیصلہ فرمایا۔

(ابوداؤد کتاب الدیات باب النفس بالنفس)

یہ عادلانہ فیصلہ چونکہ یہودی شریعت کے بھی عین مطابق تھااس لیے انہوں نے برضا و رغبت قبول کیا۔

مدینہ میں ایک یہودی مرد اور عورت بدکاری کےمرتکب ہوئے توان کی سزا کا معاملہ بھی آپؐ کے پاس پیش ہوا۔آپؐ نے فرمایا کہ تمہاری شریعت تورات میں اس بارے میں کیا حکم ہے۔یہود کی کچھ حیل وحجت کےبعد جب توریت سے بدکاری کی سزا رجم ثابت ہوگئی تو رسول کریم ؐ نے کمال عدل سے یہودی شریعت کے مطابق یہ فیصلہ بھی ان پر نافذ فرمایا۔

(بخاری کتاب التفسیر بَابُ: قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ)

رسول اللہﷺ کی عدالت میں ایک قاتل یہودی کا مقدمہ آیا۔جس نے ایک لڑکی کے قیمتی زیور حاصل کرنے کی خاطر اس کا سر پتھر کے ساتھ کچل دیاتھا۔ مقتولہ نبی کریم ؐ کے پاس لائی گئی۔اس میں کچھ جان باقی تھی۔ آپؐ نے اس سے ایک شخص کا نام لے کر پوچھا کہ فلاں نے تمہیں قتل کیا ہے اس نے سر کے اشارہ سے کہا نہیں،پھر آپؐ نے دوسرے کا نام لیا تو بھی اس نے نفی میں جواب دیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے یہودی شخص کا نام لیا تو اس نے سرہلاکر اثبات میں جواب دیا۔آپؐ نے اس یہودی کو بلا کر پوچھا تو اس نے قتل کا اعتراف کرلیا۔چنانچہ اس شخص کو قصاص میں قتل کیاگیا۔

(بخاری کتاب الدیات باب من اقاد بحجر)

یہودی کے حق میں فیصلہ

یہودخوداپنے معاملات تصفیہ کےلیےرسول کریم ؐ کے پاس لےکر آتے تھے کیونکہ ان کو یقین تھا کہ آپؐ عدل سے فیصلے فرماتے ہیں۔ بسا اوقات ایسا ہوا کہ کسی مسلمان یا یہودی کے تنازعہ میں آپؐ نے انصاف کے مطابق یہود کےحق میں اورمسلمانوں کےخلاف بھی فیصلے صادر فرمائے۔

حضرت عبداللہ بن ابی حدرد الاسلمی ؓبیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی کا ان کے ذمے چار درہم قرض تھا جس کی میعاد ختم ہوگئی۔یہودی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کر دی۔رسول اللہؐ نے عبداللہؓ سے فرمایا کہ اس یہودی کا حق دے دو۔ عبداللہؓ نے عرض کیا ’’اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہےمجھے قرض ادا کرنے کی طاقت نہیں ہے۔‘‘ آپؐ نے دوبارہ فرمایا اس کا حق اسے لوٹادو۔عبداللہؓ نے پھر وہی عذرکیا آپ نے تین مرتبہ فرمایا’’ابھی اس کا حق ادا کرو۔‘‘نبی کریم ؐجب کوئی بات تین دفعہ فرمادیتے تو وہ قطعی فیصلہ سمجھاجاتا تھا۔چنانچہ عبداللہؓ اسی وقت بازار گئے۔اورجوچادر بطور تہ بند کے باندھ رکھی تھی اس کی بجائےسر کا کپڑا اتار کر باندھ لیااورچادر چار درہم میں بیچ کر قرض اداکردیا۔

(مسند احمد جلد3صفحہ422 بیروت)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button