جلسہ سالانہ

جلسہ سالانہ جرمنی 2021ء کا بابرکت اور کامیاب انعقاد

اختتامی اجلاس سے امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا پُر معارف خطاب

٭… جلسہ سالانہ کا مقصد روحانیت میں ترقی کرنا اور اس کے لیے کوشش کرنا ہے، اپنی اصلاح کے لیے اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کے لیے ایک جگہ جمع ہونا ہے، روحانی ماحول میں رہتے ہوئے تقویٰ میں ترقی کرنا ہے اگر یہ نہیں تو جلسے کا انعقاد بے مقصد ہے۔

٭… ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک شعر کا یہ مصرع بنایا کہ ع ’’ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے‘‘ تو الہاماً اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ مصرع عطا فرمایاکہ ع ’’اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے‘‘۔پس ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بیعت کا دعویٰ کرتے ہیں اگر حقیقت میں ہم نے اس بیعت کا حق ادا کرنا ہے تو یہ جڑ اپنے دلوں میں لگانی ہو گی تاکہ تقویٰ کے شیریں ثمر ہمارے ہر عمل کو لگیں۔ ورنہ ہمارے دعوے کھوکھلے ہیں۔

(ایوانِ مسرور، اسلام آباد، ٹلفورڈ09؍اکتوبر 2021ء) امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آج ایوانِ مسرور سے براہِ راست جلسہ سالانہ جرمنی 2021ء کے اختتامی اجلاس کو برکت بخشی اور بصیرت افروز اختتامی خطاب فرمایا۔

حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز لندن وقت کے مطابق تین بج کر پینتیس منٹ پر ایوانِ مسرور میں رونق افروز ہوئے جہاں نعروں کے ساتھ حضورپُرنور کا استقبال کیا گیا۔ اس بات کی تسلّی کرلینے کے بعد کہ جلسہ سالانہ جرمنی کے ساتھ لنک بذریعہ ایم ٹی اے قائم ہو چکا ہے حضورِ انور نے اختتامی اجلاس کا آغاز فرمایا۔ جرمنی کے جلسہ گاہ سے تلاوتِ قرآنِ کریم اور اردو ترجمہ پیش کرنے کی سعادت حافظ طارق چیمہ صاحب نے حاصل کی۔ جبکہ تلاوت کی جانے والی سورۃ الحشر کی آیات 19 تا 25 کا جرمن ترجمہ باسل اسلم صاحب نے پیش کیا۔ بعد ازاں مرتضیٰ منّان صاحب نے منظوم کلام حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام بعنوان ’’بشیر احمد، شریف احمد اور مبارکہ کی آمین‘‘ میں سے ایک انتخاب پیش کیا۔

حضورِ انور کا اختتامی خطاب

جلسہ سالانہ کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرنے کے لیے حضورِ انور تین بج کر 55 منٹ پر اسٹیج پر رونق افروز ہوئے۔ حضورِ انور نے تشہد و تعوّذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

گزشتہ سال کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے حکومت کی طرف سے جو پابندیاں تھیں اس وجہ سے جرمنی میں اور دنیا کے بہت سے ممالک میں جلسہ سالانہ منعقد نہیں ہو سکا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ یہ پابندیاں آہستہ آہستہ نرم ہو رہی ہیں اور اس لیے جماعت جرمنی کو بھی جلسہ سالانہ منعقد کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔ گو اس جلسے کی وسعت اتنی تو نہیں ہے جتنی عمومی طور پر جلسے کی ہوا کرتی ہے لیکن پھر بھی اس سے کچھ حد تک روحانی پیاس بجھانے کے سامان ہوں گے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں اور باربار سنتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کا مقصد روحانیت میں ترقی کرنا اور اس کے لیے کوشش کرنا ہے، اپنی اصلاح کے لیے اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کے لیے ایک جگہ جمع ہونا ہے، روحانی ماحول میں رہتے ہوئے تقویٰ میں ترقی کرنا ہے اگر یہ نہیں تو جلسے کا انعقاد بے مقصد ہے۔ انسان کو یاددہانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور ہر سال کے جلسے کے انعقاد اور تین دن ایک دینی اور روحانی ماحول میں گزارنے سے اپنے بھائیوں اور بہنوں کو ملنے اور ان کے ساتھ نیک باتوں کا تبادلۂ خیال کرنے سے دینی اور روحانی جِلا پیدا ہوتی ہے۔ میں امید رکھتا ہوں کہ اس سال آپ نے ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے جلسے کےیہ دن گزارے ہوں گے۔ اگر میری یہ امید سچ ثابت ہوئی تو یقیناً ہم نے اس مقصد کو پا لیا جو جلسہ سالانہ کے انعقاد کا مقصد ہے۔ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والا ہر جرمن احمدی چاہے اس نے جلسہ گاہ میں آ کر جلسہ سنا یا گھر میں بیٹھ کر جلسہ سنا اس نے اپنے لیے ایک سال کا روحانی مائدہ جمع کر لیا ہے۔ اب اس کی جگالی کرنا اور اس کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہر احمدی کا کام ہے۔ پس ہر ایک کو اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ورنہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ جس تقویٰ اور پاک تبدیلی کے حصول کے لیے ہم جلسے میں شامل ہوئے تھے اس کے حصول کی ہم کوشش کر رہے ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ آج میں بھی تقویٰ کے حوالے سے چند باتیں کروں گا تاکہ جب آپ یہاں سے جائیں تو تقویٰ کی اہمیت ذہنوں میں قائم رہے۔ تقویٰ کیا ہے؟ اس کا ذکر بےشمار جگہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے۔ پس اگر ہم اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اس کی روح کو سمجھ لیں تو پھر ہم اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے بن جائیں گے۔ اور ہماری دنیا و آخرت سنورنے کے سامان ہو جائیں گے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نے زمانے کے امام مسیح موعود اور مہدی موعودؑ کو مانا ہے جنہوں نے بار بار اور بے شمار جگہ ہمیں اس قرآنی حکم کے مطابق تقویٰ کی اہمیت اور اس پر چلتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارنے کی تلقین فرمائی ہے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک شعر کا یہ مصرع بنایا کہ

ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے

تو الہاماً اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ مصرع عطا فرمایاکہ

اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے

پس ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بیعت کا دعویٰ کرتے ہیں اگر حقیقت میں ہم نے اس بیعت کا حق ادا کرنا ہے تو یہ جڑ اپنے دلوں میں لگانی ہو گی۔ تاکہ تقویٰ کے شیریں ثمر ہمارے ہر عمل کو لگیں۔ ورنہ ہمارے دعوے کھوکھلے ہیں۔ ہمارے ایمان بھی تب ہی مضبوط ہوں گے جب ہمارے اندر اور باہر، اندرونہ اور بیرونہ ایک ہو جائیں گے، جب ہمارے قول اور عمل ایک جیسے ہوں گے۔ پس ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب تقویٰ کی جڑیں مضبوط ہوں گی تو ایمان کی جڑیں بھی مضبوط ہوں گی۔ ورنہ ہم شیطان کے حملوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ شیطان تو حملہ کرتا رہے گا۔ یہ بات اس نے روزِ اوّل سے جب سے کہ آدم پیدا ہوا ہے کہی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ میرے وہ بندے جو تقویٰ پر چلتے رہیں گے شیطان کے حملے سے بچتے رہیں گے۔ آج کل کی دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ شیطان کوئی حیلہ نہیں جانے دیتا جب وہ انسان کو دین سے دور لے جانے کی کوشش نہ کر رہا ہو۔ ایمان سے دور لے جانے، تقویٰ سے دور لے جانے کی کوشش نہ کر رہا ہو۔ پس اس حقیقت کو ہر ایک کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تقویٰ کیا چیز ہے۔ اور کس طرح ہم نے شیطان کے حملوں سے بچ کر رہنا ہے۔ اپنے دین اور ایمان اور تقویٰ کی حفاظت کرنی ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مسیح موعودؑ کے ایک ارشاد کے حوالے سے فرمایا کہ خدا تعالیٰ متقی کی زندگی کی پروا کرتا ہے اور جو اس کی مرضی کے خلاف زندگی بسر کرے اس کی پروا نہیں کرتا۔ ہم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ اپنے مقصدِ پیدائش کو سمجھیں، اپنی عبادتوں کو سنواریں۔ یورپ کی آسائشیں ہمیں ہمارے مقصد پیدائش سے غافل نہ کر دیں۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہے تو پھرہم نے اپنی بیعت کا حق ادا نہیں کیا۔ پس پہلی اور بنیادی چیز تویہ ہے کہ ہم اپنے پیدا کرنے والے خدا کا حق ادا کریں اور اس کا حق ادا کرتے ہوئے اپنی دنیا اور آخرت سنوارنے والے بنیں۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے باقی احکامات ہیں۔ ان پر بھی چلنے کی کوشش کریں۔اصل میں تو انسان اگر عبادت کی حقیقت کو سمجھ لے تو وہ خود ہی باقی فرائض ادا کرنے والا بن جائے گا۔ تقویٰ کے حصول کے لیے بعض اَور باتیں بھی ہیں جن کا حضرت مسیح موعودؑنے ذکر فرمایا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ متقیوں کے واسطے بڑے بڑے وعدے ہیں۔ اس سے بڑھ کر کیا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا۔

اللہ تعالیٰ کی معیت کا حصول نصرت سے ملتا ہے۔ خدا کی اعانت متقی کے لیے ہی ہے۔ انسان جو مشکلات اور مصائب میں مبتلا ہوتا ہے ان کے حل کے لیے تقویٰ ہی ہے۔ دوسری تنگیوں سے راہِ نجات تقویٰ ہے۔

مَنْ يَتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ…

اللہ تعالیٰ متقی کو ایسے طور سے رزق دیتا ہے جہاں سے اس کو خبر بھی نہیں۔ انسان کی بڑی سے بڑی خواہش یہ ہے کہ اس کو سکھ اور آرام ملے۔ کوئی یہ نہ کہے کہ کفار کے پاس بھی عیش و عشرت کے سامان ہوتے ہیں مگر درحقیقت وہ ایک دکھ اور جلن میں مبتلا ہوتے ہیں۔ان کی گردنوں میں طوق ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا

اِنَّاۤ اَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ سَلٰسِلَا۠ وَ اَغۡلٰلًا وَّ سَعِیۡرًا

ان کی آنکھ دنیا کی طرف لگی ہوئی ہے۔ اگر کامیابی حاصل نہ ہو تو کڑھتے اور جلتے ہیں یہاں تک کے پاگل ہو جاتے ہیں۔ اس کے حرص اور حوس کی آگ بجھ نہیں سکتی۔ سچی خوش حالی متقی کے لیے ہی ہے۔ اس کے لیے خدا نے وعدہ کیا ہے کہ دو جنتیں ہیں۔ اس دنیا میں بھی اور اگلی دنیا میں بھی۔ متقی سچی خوشحالی ایک جھونپڑی میں بھی پا سکتا ہے جبکہ ایک دنیا دار جو حرص اور حوس میں مبتلا ہے بڑے بڑے محلات، کوٹھیوں میں رہتا ہے، بڑی کاریں ان کے پاس ہیں، بڑے بزنس ان کے پاس ہیں لیکن سکونِ قلب ان کے پاس نہیں۔ حقیقی راحت اور لذت دنیا دار کے حصہ میں نہیں آئے گی۔ ان باتوں کا مدار تقویٰ پر ہے۔ اگر تقویٰ نہیں تو یہی نعمتیں آگ میں جلانے کا باعث ہیں۔ یہ باتیں سن کر ایک دنیا دار کہے گا کہ عجیب باتیں ہیں۔ ہم تو انہی باتوں میں خوشی پاتے ہیں۔ اگر ان سے کہا جائے کہ اپنے دل کو ٹٹولو کیا تم صحیح کہہ رہے ہو تو وہ کہیں گے کہ مزید دولت اور آسانیوں کی خواہش ہے جو بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

حضور انور نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے درج ذیل ارشادات بیان فرمائے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’تقویٰ تمام جوارح انسانی اور عقائد، زبان، اخلاق وغیرہ سے متعلق ہے۔ نازک ترین معاملہ زبان سے ہے۔ بسا اوقات تقویٰ کو دُور کرکے ایک بات کہتا ہے اور دل میں خوش ہوجاتا ہے کہ مَیں نے یُوں کہا اورایسا کہا، حالانکہ وہ بات بُری ہوتی ہے۔’’ فرمایا کہ‘‘نازک ترین معاملہ زبان سے ہے۔ بسا اوقات تقویٰ کو دور کر کے ایک بات کہتا ہے اور دل میں خوش ہو جاتا ہے کہ میں نے یوں کہا اور ایسا کہا حالانکہ وہ بات بری ہوتی ہے۔ مجھے اس پر ایک نقل یاد آئی ہے کہ ایک بزرگ کی کسی دنیا دار نے دعوت کی۔ جب وہ بزرگ کھانا کھانے کے لیے تشریف لے گئے تو اس متکبر دنیادار نے اپنے نوکر کو کہا کہ فلاں تھال لانا جو ہم پہلے حج میں لائے تھے۔ اور پھر کہا دوسرا تھال بھی لانا جو دوسرے حج میں لائے تھے۔ اور پھر کہا کہ تیسرے حج والا بھی لیتے آنا۔ اس بزرگ نے فرمایاکہ تُو تو بہت ہی قابل رحم ہے۔ ان تین فقروں میں تُو نے اپنے تین ہی حجوں کا ستیاناس کردیا۔ تیرا مطلب اس سے صرف یہ تھا کہ تُو اس امر کا اظہار کرے کہ تُو نے تین حج کئے ہیں۔ اس لئے خدا نے تعلیم دی ہے کہ زبان کو سنبھال کر رکھا جائے اور بے معنی، بیہودہ، بےموقع غیر ضروری باتوں سے احتراز کیا جائے۔ آپ نے فرمایا ’’دیکھو۔ اللہ تعالیٰ نے اِیَّاکَ نَعْبُدُ کی تعلیم دی ہے۔ اب ممکن تھا کہ انسان اپنی قوت پر بھروسا کر لیتا اور خدا سے دور ہو جاتا۔ اس لئے ساتھ ہی اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن کی تعلیم دے دی کہ یہ مت سمجھو کہ یہ عبادت جو میں کرتا ہوں اپنی قوت اور طاقت سے کرتا ہوں۔ ہرگز نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی استعانت جب تک نہ ہو اور خود وہ پاک ذات جب تک توفیق اور طاقت نہ دے کچھ بھی نہیں ہو سکتا اور پھر اِیَّاکَ اَعْبُدُ یا اِیَّاکَ اَسْتَعِیْن نہیں کہا۔ اس لئے کہ اس میں نفس کے تقدّم کی بُو آتی تھی۔اور یہ تقویٰ کے خلاف ہے۔’’ فرمایا کہ ‘‘تقویٰ والا کُل انسانوں کو لیتا ہے۔ زبان سے ہی انسان تقویٰ سے دُور چلا جاتا ہے۔‘‘ (یعنی تقویٰ ہر معاملہ میں ضروری ہے۔ زبان ہے اس سے انسان تقویٰ سے دور چلا جاتا ہے۔) ’’زبان سے تکبر کر لیتا ہے اور زبان سے ہی فرعونی صفات آجاتی ہیں۔اور اسی زبان کی وجہ سے پوشیدہ اعمال کو ریا کاری سے بدل لیتا ہے اور زبان کا زیان بہت جلد پیدا ہوتا ہے۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص ناف کے نیچے کے عضو اور زبان کو شر سے بچاتا ہے اس کی بہشت کا ذمہ دار مَیں ہوں۔ حرام خوری اس قدر نقصان نہیں پہنچاتی جیسے قولِ زُور۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ حرام خوری اچھی چیز ہے۔ یہ سخت غلطی ہے اگر کوئی ایسا سمجھے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص جو اضطراراً سؤر کھا لے تو یہ امر دیگر ہے۔ لیکن اگر وہ اپنی زبان سے خنزیر کا فتویٰ دے دے تو وہ اسلام سے دُور نکل جاتا ہے۔ ‘‘آپؑ فرماتے ہیں کہ اس طرح ’’اللہ تعالیٰ کے حرام کو حلال ٹھہراتا ہے۔ غرض اس سے معلوم ہوا کہ زبان کا زیان خطرناک ہے اس لئے متقی اپنی زبان کو بہت ہی قابو میں رکھتا ہے۔ اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہیں نکلتی جو تقویٰ کے خلاف ہو۔’’آپؑ فرماتے ہیں ‘‘پس تم اپنی زبان پر حکومت کرو نہ یہ کہ زبانیں تم پر حکومت کریں اور اَناپ شناپ بولتے رہو۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 421 تا 423۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اس کے بعد حضورِ انور نے گھریلو امور سے آغاز کرتے ہوئے روز مرّہ کے معاملات میں تقویٰ سے کام لینے کی طرف توجہ دلائی۔ اور مختلف زاویوں سے اَور مواقع پر بد ظنی سے بچنے کی تلقین فرمائی۔ حضورِ انور نے فرمایا: پس ہمیں اپنے دلوں کو ٹٹولنے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی ہمارے دلوں میں تقویٰ ہے یا یہ صرف ہماری مونہوں کی باتیں ہیں؟ اگر ہمارے دل میں دوسرے کا احترام نہیں ہے۔ اس کا حق ادا کرنے کا جذبہ نہیں ہے تو ہمارے دل تقویٰ سے خالی ہیں۔ اگر یہ باتیں ہم میں نہیں ہیں تو ہم لاکھ نمازیں پڑھنے والے اورعبادت کرنے والے ہوں ہم اللہ تعالیٰ کی نظر میں تقویٰ پر چلنے والے نہیں کہلا سکتے۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی تین چیزیں حرام ہیں۔ اس کا خون، آبرو اور اس کا مال۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ یہی تین باتیں بہت سے مسلمانوں نے اپنے اوپر حلال کی ہوئی ہیں۔ لیکن ایک احمدی کو اپنے آپ کو ان چیزوں سے بچانا چاہیے۔ اگر کوئی باقی برائیاں نہ کرے اور مال میں ہی خیانت کرے تو یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ حق اللہ ادا نہ کرنے والے کی پروا نہیں کرتا اسی طرح حق العباد کی ادائیگی نہ کرنے والے کی بھی اللہ تعالیٰ پروا نہیں کرتا۔ پس ہمیں اپنے دلوں کو ٹٹولنے کی ضرورت ہے۔ اگر دل مکمل طور پر پاک نہیں اور ہم اپنی ذات کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہیں تو معاشرے کا امن برباد ہو گا۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی خوشنودی حاصل کرنے والوں کی ایک نشانی یہ بتائی ہے کہ تکبر سے بچتے ہیں۔ اپنی ذات پر فخر، اپنی قومیت پر فخر، اپنے علم پر فخر، اپنی اولاد کی لیاقت پر فخر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ چیزیں نہ انسان کے لیے فخر کی باتیں ہیں نہ بہتر سمجھنے کا معیار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہ اَتْقَاکُمْ خدا تعالیٰ کے نزیک جو چیز انسان کو معزز بناتی ہے وہ تقویٰ ہے۔ انسان کی حیثیت محض اس زمین پر ایک انسان کی ہے۔ اور اس زمین کی کائنات میں حیثیت کوئی نہیں زمین پر خدا تعالیٰ کی قدرت کے نظاروں تک انسان نہیں پہنچ سکتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَلَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ۚ اِنَّکَ لَنۡ تَخۡرِقَ الۡاَرۡضَ وَ لَنۡ تَبۡلُغَ الۡجِبَالَ طُوۡلًا۔(بنی اسرائیل:38)

گذشتہ دنوں جرمنی میں بارشوں کی وجہ سے آنے والی تباہی کا ذکر کرتے ہوئے حضورِ انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ بتا دیا کہ اصل ذات میری ہے…اور تمہارے اند ر کوئی بڑائی نہیں۔ اس لیےاللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو ہمیشہ ایک احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے کہ عاجزی اختیار کرنی ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جس کے اندر ایک ذرہ بھر بھی تکبر ہو گا جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کااستعمال کرنا تکبر نہیں۔ اللہ تعالیٰ خود خوبصورت ہے اور خوبصورت چیزوں کو پسند کرتا ہے۔ تکبر یہ ہے کہ حق کا انکار کرو، اپنی انا اور ضد پر قائم رہو، لوگوں کو حقیر اور ذلیل سمجھو۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ایک شخص اگر تکبر سے اپنے بھائی کے ایک لفظ کی تصحیح کرتا ہے تو اس کے اندر تکبر ہے۔ ایک شخص اپنے بھائی کی بات کو تواضع سے سننا نہیں چاہتا تو اس کے اندر تکبر ہے۔ ہمیں اپنے ہر عمل کو بہت باریکی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ایسا نہیں کر رہے تو جنت سے دور جارہے ہیں۔ ایک حقیقی مومن وہی ہے جو انتہائی عاجز ہے۔ جن کے دلوں میں تقویٰ ہو وہ معاشرے کے امن کو قائم کرنے والے ہوتے ہیں۔ میاں بیوی کے تعلقات میں یہی تکبر ہے جو گھروں میں فساد پیدا کرتا ہے۔ جب تک عاجزی اور انکسار ی اور غور سے ایک دوسرے کی بات سننے کی طرف توجہ پیدا نہ ہو تعلقات میں پیار اور محبت پیدا نہیں ہو سکتا۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ میں اس وقت ایک بات اور کہوں گا جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے وہ ہے اپنے عہدوں کو پورا کرنا۔ اس زمانے میں ہم نے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں آکر ایک عہد کیا ہوا ہے۔ متقی کی ایک بہت بڑی نشانی اپنے عہد کو پورا کرنا ہے۔ عہد کی پابندی نہ کرنا انسان کو منافق بنا دیتی ہیں۔ آپس کے معاہدوں سے لے کر عہد بیعت تک کے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک ہم اپنے وعدے نبھا رہے ہیں۔ امانتوں میں خیانت کرنے والے بھی عہد توڑنے والے ہوتے ہیں۔

حضور انور نے فرمایاکہ ہمارے لیے کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے کہ ہم برائی کو ترک کریں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے، چنانچہ لِبَاسُ التَّقْوٰیقرآن شریف کا لفظ ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خداتعالیٰ کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے۔ یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تابمقدور کار بند ہو جائے۔ اس کے بعد حضور انور نے عہد بیعت کو پورا کرنے کے حوالے سے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے متعدد ارشادات پیش فرمائے۔ بعد ازاں حضور انور نے فرمایا کہ پس آج یہاں سے اس عہد کے ساتھ اٹھیں کہ بیعت کا حق ادا کرنے کی پوری کوشش کرنی ہے۔ اور توبہ کا جو حق ہے اس طرح توبہ کرنی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف مکمل طور پر جھک جانا ہے تاکہ ہمارا شمار بھی اللہ تعالیٰ کے محبوں میں ہو۔

بعد ازاں حضور انور نے حضرت مسیح موعود ؑ کے اس ارشاد کو پڑھ کر سنایا جس میں ذکر ہے کہ تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں وہ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے۔ تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمی ناراضگی جانے دو اور سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل کرو تا تم بخشے جاؤ۔ نفسانیت کی فربہی چھوڑ دو کہ جس دروازے کے لئے تم بلائے گئے ہو اس میں سے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہو سکتا۔ کیا ہی بدقسمت وہ شخص ہے جو ان باتوں کو نہیں مانتا جو خدا کے منہ سے نکلیں اور میں نے بیان کیں۔

حضور انور نے فرمایا:اللہ تعالیٰ ہمیں تقویٰ کے یہ معیار حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہماری باتیں صرف باتیں ہی نہ ہوں بلکہ دنیا کو نظر آئے کہ جو یہ کہتے ہیں ان کے عمل بھی اس کے مطابق ہیں۔ دنیا ہمیں یہ کہنے والی بنے کہ خدا تعالیٰ انہیں اپنی ہر بات میں مقدم ہے اور یہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والے لوگ ہیں۔ اور جہاں یہ باتیں غیروں کو اسلام کی حقیقی تعلیم بتانے والی ہوں گی وہاں ہمارے گھروں کے سکون قائم کرنے والی بھی ہوگی۔ اور ہماری نسلوں کو سنوارنے والی اور ان کی عاقبت کو سنوارنے کا بھی باعث بنیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعودؑ کی خواہشات کے مطابق حقیقی احمدی بننے کی توفیق عطا فرمائے۔

حضورِ انور کے معرکہ آرا خطاب کا اختتام دعا پر ہوا جو حضورِ انور نے پانچ بج کر 12 منٹ پر کروائی۔

دعا کے بعد حضورِ انور نے جلسہ سالانہ کی حاضری کے بارے میں بتایا جو پہلے روز 1602 خواتین اور 2840 مرد کل ملا کر 4442 رہی جبکہ دوسرے روز 1720 خواتین اور 3207 مرد، کل ملا کر 4927 رہی۔ فرمایا کہ دونوں دنوں میں تقریباً 8 سے 9 ہزار لوگ شامل ہوئے۔

ترانے

بعد ازاں جرمنی سے حضورِ انور کی موجودگی میں احمدیوں نے ترانے پڑھنے کی سعادت پائی۔ خواتین کی جانب سے یہ ترانے اردو، عربی، جرمن، انگریزی اور ترکش زبانوں میں پیش کیے گئے جبکہ جامعہ احمدیہ جرمنی کے گروپ نے عربی، اردو اور فارسی میں اپنے پیارے امام کے حضور ہدیۂ عقیدت پیش کیا۔ پانچ بج کر 32 منٹ پر حضورِ انور نے دنیا بھر میں بیٹھے ناظرین ایم ٹی اے کو ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘کی خوبصورت دعا کا تحفہ عطا فرمایا اور ایوانِ مسرور سے روانہ ہو گئے۔ اس طرح یہ بابرکت تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔ اللہ تعالیٰ پوری دنیا کو حضرت خلیفۃ المسیح ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعاؤں کے صدقے گہوارۂ امن بنا دے۔ آمین

یاد رہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات کے باعث احتیاط کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے جلسہ سالانہ جرمنی امسال محدود پیمانے پر منعقد کیا گیا۔ ہر سال جرمنی کے جلسہ سالانہ پر ہمسایہ ممالک سے سینکڑوں احمدی خصوصی طور پر جرمنی آکر جلسہ سے مستفیض ہوتے ہیں۔ امسال کورونا کی وجہ سے یہ ممکن نہ تھا البتہ محترم امیر صاحب جرمنی نے بعض امرائے ممالک کو جلسہ جرمنی 2021ء میں شرکت کی دعوت بھجوائی۔ چنانچہ ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ، ڈنمارک اور آسٹریا کے امرائے کرام جبکہ فِن لینڈ کے صدرجماعت نے اپنی اپنی جماعتوں کی نمائندگی میں جلسہ میں شرکت کی۔

رپورٹ جلسہ سالانہ جرمنی08؍اکتوبر :جلسہ سالانہ کا پہلا دن

عرفان احمد خان صاحب نمائندہ الفضل انٹرنیشنل تحریر کرتے ہیں :جلسہ سالانہ جرمنی کے پہلے روز جرمن وقت کے مطابق صبح ساڑھے پانچ بجے نماز تہجد ادا کی گئی جو مکرم احمد کمال صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ نے پڑھائی۔ بعد ازاں مکرم صداقت احمد صاحب مشنری انچارج جرمنی نے نمازِ فجر کی امامت کروائی۔ جبکہ مکرم امتیاز شاہین صاحب مربی سلسلہ نے ’زہد و تقویٰ‘ کے موضوع پر درس دیا۔

جلسے کی تقریبات کا آغاز نمازِ جمعہ سے ہوا جو جرمن وقت کے مطابق سوا ایک بجے مبلغ انچارج صاحب نے جلسہ گاہ میں پڑھایا۔ آپ نے خطبہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک ارشادِ مبارک کی روشنی میں جلسہ سالانہ کی اغراض و مقاصد بیان فرمائے۔ نیز امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی جانب سے جلسہ سالانہ برطانیہ 2021ء کے موقع پر شاملینِ جلسہ کو دی جانے والی ہدایات کو دوہرانے کے بعد کورونا سے احتیاط کی تدابیر بیان کیں۔ بعد ازاں نمازِ جمعہ اور نمازِ عصر جمع کر کے ادا کی گئیں۔

ایک بجکر 50 منٹ پر تقریبِ پرچم کشائی کا انعقاد ہوا۔ محترم امیر صاحب جماعت ہائے احمدیہ جرمنی نے جرمنی کا جھنڈا جبکہ محترم مبلغ انچارج صاحب نے لوائے احمدیت لہرایا۔ بعد ازاں دعا ہوئی۔

خطبہ جمعہ حضرت امیرالمومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

جلسہ سالانہ کا باقاعدہ آغاز امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ سے ہوا جو حضورِ انور نے مسجد مبارک اسلام آباد سے براہِ راست ارشاد فرمایا۔ حضورِ انور نے خطبۂ جمعہ میں جلسہ سالانہ جرمنی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:

آج جرمنی کا جلسہ سالانہ بھی شروع ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ اسے بابرکت فرمائے۔ زیادہ سے زیادہ جرمن احمدیوں کو اس سے استفادہ کرنے کی توفیق دے۔ دو دن کا جلسہ ہے یہ۔ کل ان شاء اللہ شام کو ان سے اختتامی جو ان کا اختتامی سیشن ہے اس سے میں خطاب بھی کروں گا جو ایم ٹی اے پر دکھایا جائے گایہاں کے وقت کے مطابق تقریباً ساڑھے تین۔ باقی جلسہ جو وہاں جرمنی میں ہو رہا ہے آج سے اس کی لائیو سٹریمنگ جرمنوں کے لیے ہو رہی ہے، جرمن وہاں دیکھ سکتے ہیں تو زیادہ سے زیادہ اس سے فائدہ اٹھائیں۔

اجلاس اوّل

حضورایدہ اللہ کے خطبہ جمعہ کے بعد کھانے کا وقفہ ہوا۔ جلسہ کے اجلاس اوّل کے لیے پونے پانچ بجے سہ پہر کا وقت مقرر تھا۔ وقت مقررہ سے پہلے شرکاء ہال میں اپنی اپنی کرسی پر تشریف لے آئے تھے۔ ٹھیک پونے پانچ بجے نیشنل امیر جرمنی مکرم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب نے کرسی صدارت پر تشریف لاکر اجلاس کے آغاز کا اعلان کیا۔ مکرم حماد احمد نے سورت اٰل عمران کی آیات 133 سے 137 کی تلاوت کی جن کا جرمن ترجمہ عبدالغفار وسیم صاحب اور اردو ترجمہ مکرم شمس اقبال صاحب (مربی سلسلہ) نے پڑھ کر سنایا۔ ملک شام سے تعلق رکھنے والے احمدی بھائی جناب محمد قساوات (Qaswat)نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عربی قصیدہ سے چند اشعار خوش الحانی سے پیش کیے جن کا اردو ترجمہ مکرم حفیظ اللہ بھروانہ صاحب (استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)کو پیش کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اجلاس کے پہلے مقرر صداقت احمد صاحب مشنری انچارج جماعت احمدیہ جرمنی تھے جنہوں نے ’’عفو و درگزر آنحضرتﷺ کے اُسوہ حسنہ کی روشنی میں‘‘ کے عنوان سے اپنی گزارشات پیش کیں۔ آپ نے اپنی تقریر میں کہا کہ عفو کا اولیٰ درجہ یہ ہے کہ آدمی معاف کردے خواہ طبیعت اس پر آمادہ نہ بھی ہو اور اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ دلی خوشی کے ساتھ معاف کرے اور ممکن ہو تو قصوروار کے ساتھ کچھ احسان کا معاملہ بھی کرے۔ معاف کرنے سے دلوں سے کینہ، بغض، نفرت اور کدورت دُور ہوتی ہے۔ محبتیں پروان چڑھتی ہیں۔ انتقام لینے کا جذبہ ٹھنڈا پڑتا ہے۔ نفس کی اصلاح میں مدد ملتی ہے اور معاشرے میں سنجیدگی، امن و سکون اور پیار و محبت کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ آپ نے قرآن کریم اور احادیث میں متعدد مقامات پر عفو و درگزر اور خلق کی جو فضیلت بیان ہوئی ہے اس کی تشریح میں آنحضرتﷺ کی سیرت طیبہ کے واقعات سناکر ذہن نشین کروایا کہ آنحضورﷺ خداتعالیٰ کی صفت عفو کے کامل مظہر تھے۔ آنحضورؐ نے کبھی انتقام کی پالیسی اختیار نہیں کی بلکہ جو بھی آپ کے دربار میں معافی کا خواستگار بن کر آیا خالی ہاتھ نہ لَوٹا۔ آپ نے حضرت عائشہؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت انسؓ، حضرت ابوہریرہؓ،حضرت معاذ بن انسؓ اور حضرت عبداللہ بن ابوبکر ؓسے روایت شدہ متعدد ایسے واقعات پیش کیے جن کا تعلق عفو، صلہ رحمی اور خلق سے تھا۔ ایک بار حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے چند صحابہ کے ساتھ کفار کے مظالم کے خلاف لڑنے کی اجازت چاہی تو آنحضرتﷺ نے جواب میں فرمایا: ’’انی امرت بالعفو فلا تقاتلوا۔‘‘ یعنی مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عفو کا حکم ہے پس مَیں تمہیں لڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ مکرم صداقت احمد صاحب نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے جنگی قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک اور قریش کے اُن سرداروں کے متعدد واقعات پیش کیے جنہوں نے فتح مکہ سے قبل مسلمانوں پر بےانتہا مظالم ڈھائے لیکن اسلام کو غلبہ حاصل ہونے کے بعد حضورﷺ نے ان سب کو معاف فرمادیا۔ فتح مکہ کے موقع پر ہمیں آنحضرتﷺ کے خلق کی وہ عظیم الشان فتح نظر آتی ہے جو مفتوح قوم کے ساتھ حسن سلوک، عفو، رحم اور احسان سے عبارت ہے۔ اس دن نہ کسی کو ہلاک کیا گیا اور نہ ہی کھوپڑیوں کے مینار بنائے گئے بلکہ ہمیں اس فتح کے دن آنحضرتﷺ کے عفو عام اور رحمت تام سے روشن کیے گئے مینار نظر آتے ہیں۔ دس ایسے اشخاص جن کو آنحضرتﷺ نے واجب القتل قرار دیا تھا ان میں سے جو بھی آنحضرتﷺ کے دربار میں معافی کا طالب بن کر آیا اُسے معاف کردیا گیا۔ فاضل مقرر نے اپنی تقریر کے آخر میں سامعین کو متوجہ کیا کہ بیان کردہ واقعات کی روشنی میں ہمیں اپنے جائزے لینے اور محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پس وہ جو آپس میں سال ہا سال سے قطع تعلق کیے بیٹھے ہیں ایک دوسرے کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف کریں اور درگزر سے کام لیں۔ آپ نے اپنی تقریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک اہم نصیحت پر ختم کی جس میں حضور نے فرمایا ہے کہ سچے ہوکر جھوٹوں کی طرح تذلّل کرو۔ (کشتی نوح)

اجلاس اوّل میں دوسری تقریر جرمن زبان میں مکرم احمد کمال صاحب صدر خدام الاحمدیہ جرمنی کی تھی جس کا موضوع تھا: ’’ایک احمدی مسلمان کی پہچان اور اس کا تشخص‘‘۔ آپ نے سورت آل عمران کی آیت 192کی تشریح میں حقیقۃالوحی اور حضرت مصلح موعودؓ کی تقاریر کے اقتباسات پیش کرکے یاددہانی کروائی کہ ایک احمدی کو زندگی کس طرح گزارنی چاہیے۔

اس کے بعد معاذ احمد شاہد صاحب نے کلام محمود میں سے ایک نظم ترنم سے پیش کی۔ بعدازاں مکرم مبارک احمد تنویر صاحب مبلغ سلسلہ نے ’’اسلام میں خدا کا تصور، انسان پر اس کی قدرتوں کے ظہور کے آئینہ میں‘‘ کے عنوان سے تقریر کی۔ آپ نے اپنی تقریر کو پانچ ذیلی عناوین میں تقسیم کرکے حاضرین کو باور کروانے کی کوشش کی۔ (۱) اسلام میں خدا کا تصور (۲) انسان پر خداتعالیٰ کی قدرتوں کا ظہور کس رنگ میں ہوتا ہے (۳) خداتعالیٰ کی قدرتوں کا مظہر بننے کے بعدانسان میں ہونے والی تبدیلی (۴) تبدیلی کے نتیجہ میں خدا کی قدرتوں کا مظہر بننے کا ذریعہ۔ اس حوالے سے آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تحریر کردہ علمی خزانہ تبلیغ رسالت، رسالہ الوصیت، چشمہ مسیحی، چشمہ معرفت، آئینہ کمالات اسلام، حقیقۃالوحی اور براہین احمدیہ سے متعدد حوالہ جات پیش کیے۔ آپ نے اپنی تقریر کے آخر میں خداتعالیٰ کے انسانوں پر قدرتوں کے ظہور کے متعلق حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ کے خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍فروری 2008ء سے ایک اقتباس بھی پیش کیا۔

اجلاس کی آخری تقریر مکرم طارق احمد ظفر صاحب استاد جامعہ احمدیہ جرمنی کی جرمن زبان میں تھی جس کا عنوان تھا:

’’خود مسیحائی کا دَم بھرتی ہے یہ باد بہار‘‘۔

تقریر کے ختم ہونے پر نماز مغرب و عشاء ادا کی گئیں جس کے بعد تمام حاضرین کو ساتھ لے جانے کے لیے کھانا مہیا کیا گیا۔

ٹرکش ڈیسک کی میٹنگ

آج جلسے کے دو اجلاسات کے درمیانی وقفہ کے دوران ٹرکش ڈیسک کی اہم میٹنگ ہوئی جس میں جلسہ میں شامل تمام ترک بھائی شامل ہوئے۔ شعبہ تبلیغ جرمنی کی طرف سے ترکی زبان میں ریڈیو سروس کے آغاز کے بعد ٹرکش ڈیسک کی یہ پہلی میٹنگ تھی جس میں ریڈیو سروس کو مزید کارآمد بنانے پر غور کیا گیا۔ محترم نیشنل امیرصاحب بھی میٹنگ میں تشریف لائے اور اپنے اس تاثر کا اظہار کیا کہ پاکستان میں احمدیوں پر جو مذہبی پابندیاں لگائی گئی ہیں اس کے بارے میں ترک قومیت کے لوگ پوری طرح آگاہ نہیں۔ ٹرکش ڈیسک کو اس طرف بھی توجہ کرنی چاہیے۔

عریبک ڈیسک کی میٹنگ

اسی وقفہ میں عرب احمدیوں کا بھی خصوصی اجلاس ہوا جس میں عریبک ڈیسک کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا نیز کورونا کی پابندیوں میں نرمی ملنے کے بعد تبلیغی کام کو وسعت دینے اور جرمنی میں آنے والے عرب دوستوں سے تعلقات بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن کریم اور اختتام دعا پر ہوا۔

09؍اکتوبر :جلسہ سالانہ کا دوسرا دن

جلسہ سالانہ جرمنی کے دوسرے دن کا آغاز صبح ساڑھے پانچ بجے نماز تہجد سے ہوا جو مکرم محمود احمد ملہی صاحب مربی سلسلہ نے پڑھائی۔ اذان مکرم حافظ احتشام احمد صاحب نے دی اور مکرم مشنری انچارج صاحب نے نماز فجر کی امامت کروائی۔ جس کے بعد مکرم محمود احمد ملہی نے نماز کی اہمیت پر درس دیا۔

اجلاس دوم

ہفتہ کے روز جلسہ سالانہ جرمنی کے دوسرے اجلاس کی صدارت مکرم ہبۃالنور صاحب امیر جماعت احمدیہ ہالینڈ نے کی۔ اجلاس کا آغاز صبح 11 بجے تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم حافظ احتشام احمد صاحب نے کی۔ آپ نے سورۃالفتح کی آیات 28 سے 30 کی تلاوت کی جس کا جرمن ترجمہ مکرم توقیر سہیل احمد اور اردو ترجمہ مکرم سید حسن طاہر بخاری صاحب مربی سلسلہ نے پیش کیا۔ مکرم داؤد احمد ناصر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شیریں منظوم کلام

اسلام سے نہ بھاگو راہ ہدیٰ یہی ہے

اے سونے والو جاگو شمس الضحیٰ یہی ہے

اپنی پُرترنم آواز میں پیش کیا۔

آج کی پہلی تقریر جرمن زبان میں مکرم افتخار احمد صاحب مربی سلسلہ نے ’’اسلام کا عالمی نظام نَو‘‘کے عنوان پر کی۔

دوسرے مقرر مکرم محمدفاتح احمد ناصر صاحب استاد جامعہ احمدیہ جرمنی تھے۔ آپ کی تقریر کا موضوع ’’اسلام میں حیات بعدالموت کا تصور‘‘ تھا۔ آپ نے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ اعظم مذاہب کے لیے اسلامی اصول کی فلاسفی کے نام سے اپنے معرکہ آرا مضمون کے ایک سوال میںا س پر قرآن کریم، احادیث نبویہ اور علم الٰہی کی روشنی میں پُرمعارف روشنی ڈالی ہے۔ ہم سب کو اس کتاب کو بار بار پڑھنا اور اپنے علم وعرفان کو وسیع کرنا چاہیے۔ اس کے بعد مکرم راحیل احمد صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کا منظوم کلام ترنم سے پیش کیا۔ نظم کے بعد مکرم شمشاد احمد قمر صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ جرمنی نے ’’خلافت سے محبت اصلاحِ نفس کا ذریعہ ہے‘‘ کے عنوان پر تقریر کی۔

آپ نے بتایا کہ آنحضرتﷺ نے بھی آخری زمانہ میں دنیا کی اصلاح کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت اور خلافت علی منہاج النبوۃ کے قیام کی پیشگوئی فرمائی تھی۔ خلافت کا وعدہ انہیں لوگوں سے ہے جن کے اعمال ہر قسم کے فتنہ و فساد سے پاک ہوں۔ اس پاکیزگی کے لیے اللہ تعالیٰ انبیاء اور خلفاء مقرر فرماتا ہے۔ ان وجودوں سے محبت اور ان کی پیروی سے ہی انسانی نفس کی اصلاح ممکن ہے۔ محبت کا مطلب صرف زبانی دعویٰ نہیں بلکہ اپنے وجود سے ان صفات کی عکاسی کرنا ہے جو اللہ، اس کا رسول اور خلیفہ وقت ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ نے دوران تقریر بتایا کہ خلافت سے محبت اور اصلاح نفس ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں کیونکہ اگر خلافت سے محبت ہے تو خلافت کی پیروی میں اصلاح نفس ضروری ہے۔ اور اصلاح نفس کے لیے خلافت سے محبت اور وفا ضروری ہے۔

خلافت کے وعدے اور پیشگوئیوں سے ظاہر ہے کہ جس طرح پہلے دَور میں صحابہ نے آنحضورﷺ اور خلافت کی محبت میں قربانیاں دیں، آخرین میں بھی حقیقی مومن خلافت کے ساتھ محبت کرتے ہوئے اس سے چمٹے رہیں گے اور ہر قسم کی قربانیوں کے لیے تیار ہوں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد آپ کی خلافت قائم ہے۔ ضروری ہے کہ خلیفہ وقت کی صحبت میں بیٹھ کر آپ کی باتیں سنی جائیں اور ان پر کماحقّہٗ عمل کرکے اپنی اصلاح کی جائے۔ آج خدا نے ایم ٹی اے کے ذریعے خلیفہ وقت اور عوام کے درمیان فاصلہ ختم کردیا ہے۔ اور حضور فرماتے ہیں کہ وفاؤں کے دعوے تب سچے سمجھے جائیں گے جب آپ ان دعووں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنالیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور کے اس ارشاد پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ خلافت سے حقیقی محبت کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمارے اقوال و افعال خلافت سے وفا کا عملی نمونہ پیش کرنے والے ہوں (آمین)۔ مکرم پرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ کی تقریر کے بعد مکرم امیر جماعت جرمنی نے خطاب کیا۔ آپ کی تقریر کا عنوان تھا ’’اسلام۔ نسل پرستی کے اس دور میں مساوات انسانی کا منشور‘‘۔

محترم امیر صاحب نے اپنی تقریر کے شروع میں سترھویں صدی سے دنیا میں قائم مختلف تہذیبوں اور نظاموں کا مختصر ذکر کرکے بتایا کہ ان میں سے کوئی نظام بھی مستقل نہیں چل سکا اور وقت گزرنے کے ساتھ ان نظاموں کے نقائص سامنے آتے رہے۔

ان میں سے کوئی نظام بھی انصاف پر مبنی نہیں تھا۔ ان سب میں طبقاتی فرق نمایاں نظر آتا ہے۔ غریب ممالک آج بھی ان نظاموں کی طرف سے کی جانے والی ناانصافیوں کا شکار ہیں۔ اس کے مقابلے پر اسلام میں نہ تو گورے کو کالے پر فضیلت ہے اور نہ ہی کالے کو محکوم بناکر رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ کسی قوم کو دوسری قوم پر فضیلت حاصل نہیں ہے۔ مساوات، اتحاد، بھائی چارہ کی تعلیم قرآن میں بار بار دی گئی ہے۔ آپ نے حجۃالوداع کے خطبہ کا تفصیل سے ذکر کرکے بتایا کہ ایک انسان کو دوسرے انسان پر صرف تقویٰ میں فضیلت حاصل ہے۔ آپ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓکے دور خلافت کی مثالیں دے کر واضح کیا کہ کس طرح اقلیت کے حقوق کا خیال رکھا جاتا تھا۔ محترم امیر صاحب کا خطاب دو بجےبعد دوپہر تک جاری رہا جس کے بعد کھانے کا وقفہ ہوا اور سواچار بجے نماز ظہر و عصر ادا کی گئیں جس کے بعد اختتامی اجلاس کی کارروائی حضورایدہ اللہ کی صدارت میں شروع ہوئی۔

دونوں اجلاسوں کی کارروائی کے دوران جرمنی کے نیشنل اور صوبائی اسمبلی کے جن ممبران نے ویڈیو پیغامات بھجوائے ان کے اسماء کی فہرست درج ذیل ہے:

1.Susanne Aschhoff

2.Stefan Fulst-Blel

3.Manuel Hagel

4.Christine Buchholz

5.Ansgar Mayr

  1. Ulrike Bahr

7.Stefan Sauer

8.Kafja Leickert

9.Manne Luca

10.Daniel Born

11.Bodo Ramelow

  1. Peter Heidt

13.Benjamin Strasser

14.Filiz Polat

15.Frank Schwabe

16.Michael Meister

  1. Frank Heinrich

اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم ٹی اے جرمنی نے پورا جلسہ لائیو یوٹیوب پر نشر کیا جس کو احباب نے گھروں پر اور جماعتی سنٹرز اور مساجد میں ایک ساتھ مشاہدہ کیا۔ جلسہ ریڈیو نے بھی معائنہ کے روز سے اپنی سروس شروع کر دی تھی اور تینوں دن صبح 8 بجے سے رات 8 بجے تک سروس مہیا کی۔

ادارہ الفضل انٹرنیشنل حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور جماعت احمدیہ جرمنی کے تمام ممبران کو جلسہ سالانہ 2021ء کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد پیش کرتا ہے اور دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حضورِ انور کے ارشادات پر کما حقہ عمل کرتے ہوئے اپنے عہدوں بالخصوص عہدِ بیعت کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے نیز جلسہ سالانہ جرمنی کے مثبت نتائج مترتب فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button