خطاب حضور انور

اختتامی خطاب امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ یوکے فرمودہ 08؍ ستمبر 2021ء

ہمیں اپنے عہد بیعت کو نبھانے کے لیے، اپنے انصار اللہ کے عہد کو نبھانے کے لیے، اس عظیم کام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مددگار بننے کے لیے، اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اس عظیم کام کو سرانجام دینے کے لیے میدان میں اترنا ہو گا، تبھی ہم حقیقی انصار اللہ کہلا سکتے ہیں۔

‘‘سچی خوشحالی اور راحت تقویٰ کے بغیر حاصل نہیں ہوتی اور تقویٰ پر قائم ہونا گویا زہر کا پیالہ پینا ہے’’(حضرت اقدس مسیح موعودؑ)

حقیقی انصاراللہ کے معیار کی بابت بصیرت افروز بیان

حضورِ انور کے خطاب کے ساتھ اسلام آباد میں نَوتعمیر شدہ ایم ٹی اے سٹوڈیو کا افتتاح

اختتامی خطاب امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ یوکے فرمودہ 08؍ستمبر 2021ء

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ انبیاء کو بھی جب مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللّٰهِ (آل عمران:53)یعنی کون ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے میں میرے مددگار ہوں، کہنا پڑا تو اس لیے کہ عظیم اوربڑے کاموں کو چلانے کے لیے مددگاروں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ قانونِ قدرت ہے کہ جو کام بہت سے لوگوں کے کرنے کا ہو اسے احسن رنگ میں کرنے کے لیے بہت سے لوگ چاہئیں اور ایک آدمی نہیں کر سکتا اور باوجود اس کے کہ انبیاء توکّل کے اعلیٰ معیار پر ہوتے ہیں، تحمل اور مجاہدات کے اعلیٰ معیار پر ہوتے ہیں وہ اسی قانون قدرت کے مطابق مددگاروں کو بلاتے ہیں۔

(ماخوذ از براہین احمدیہ حصہ دوم روحانی خزائن جلد1 صفحہ59-60)

پس آپ جو اپنے آپ کو انصار اللہ کہتے ہیں

اس بات کو ہر وقت سامنے رکھیں

کہ انصار اللہ تبھی کہلا سکتے ہیں جب اس زمانے کے امام،اللہ تعالیٰ کے فرستادے،مسیح موعود اور مہدی معہود ؑکی آواز پر لبیک کہتے ہوئے صرف نام کے انصار اللہ نہ ہوں بلکہ اس روح کو سمجھتے ہوئے نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ (آل عمران:53) کا نعرہ لگائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں تکمیلِ اشاعت دین کا کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سپرد کیا ہے یعنی تبلیغِ اسلام کا عظیم کام آپؑ کے سپرد کیا گیا ہے اور یہی کام کرنے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت کے افراد سے توقع کی ہے اور انصار اللہ کو سب سے بڑھ کر اس کا مخاطب اپنے آپ کو سمجھنا چاہیے۔ پس ہمیں اپنے عہد بیعت کو نبھانے کے لیے، اپنے انصار اللہ کے عہد کو نبھانے کے لیے، اس عظیم کام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مددگار بننے کے لیے، اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اس عظیم کام کو سرانجام دینے کے لیے میدان میں اترنا ہو گا، تبھی ہم

حقیقی انصار اللہ

کہلا سکتے ہیں۔ صرف منہ سے دعویٰ کر دینا کہ ہم انصار اللہ ہیں کافی نہیں ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنے جائزے بھی لینے ہوں گے کہ کس طرح ہم اس عظیم کام کو سرانجام دے سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی حالتوں کو دیکھنا ہو گا کہ کیا وہ اس معیار کی ہیں جو بڑے بڑے کام سرانجام دینے کے لیے ہونی چاہئیں اور جس کی اس وقت دین کو ضرورت ہے۔

دین کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پھیلانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے ہمیں تعلق باللہ میں بھی ترقی کرنی ہو گی، تقویٰ میں بھی ترقی کرنی ہو گی، اپنے علم کو بڑھانے کی کوشش بھی کرنی ہو گی، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر پوری طرح کاربند رہنے کے لیے بھی کوشش کرنی ہو گی۔ پس ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم نے اپنی حالتوں میں وہ تبدیلی پیدا کر لی ہے یا اس تبدیلی کے پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا مددگار بننے کے لیے ضروری ہے۔ اگر نہیں تو ہمارا نَحْنُ اَنْصَارُاللّٰهِ کا نعرہ بے مقصد اور بےبنیاد ہے۔ ہم میں سے بعض کا تو یہ حال ہے کہ خدام الاحمدیہ کی ابتدائی عمر کے خدام مجھ سے یہ پوچھتے ہیں کہ اگر ہمارے بڑے قابل اصلاح ہیں تو ہمیں اس کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ جہاں یہ بات خوش کن ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں یہ سوچ پیدا ہو رہی ہے کہ ہمارے بڑوں کے تقویٰ کے معیار وہ نہیں جو ہونے چاہئیں اور ہم اس کی اصلاح کس طرح کر سکتے ہیں وہاں قابلِ فکر اور قابلِ شرم ہے ان لوگوں کے لیے جو بجائے نوجوانوں کے لیے نمونہ بننے کے ان کو فکر مند کر رہے ہیں۔ پھر کس منہ سے ہم نعرہ لگا سکتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے لیے مددگار ہیں۔ پس ایسے لوگوں کے لیے بہت سوچنے کا مقام ہے۔ ہمیں بہت گہرائی میں جا کر اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مدد گار کس طرح بن سکتے ہیں۔

پس ہر ایک اپنے اندر کا جائزہ لے اور تلاش کرے کہ ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ہم سے کیا چاہتے ہیں

ہمیں اس معیار کو حاصل کرنے کے لیے اپنے اندرونے کو کھنگالنا ہو گا، اپنے اندر جھانکنا ہو گا تبھی ہمیں پتہ چلے گا کہ کس قسم کے احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔

اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے بعض ارشادات سامنے رکھنا چاہتا ہوں جن سے ہمیں ان معیاروں کا پتہ چلے جو ہم نے حاصل کرنے ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک موقع پر فرماتے ہیں ’’اس سلسلہ کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے اور اس پر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ آتے ہیں اور وہ صاحبِ اغراض ہوتے ہیں۔‘‘ یعنی ان کی کوئی ذاتی غرضیں ہوتی ہیں۔ ’’اگر اغراض پورے ہوگئے تو خیر ورنہ کدھر کا دین اور کدھر کا ایمان۔ لیکن اگر اس کے مقابلہ میں صحابہؓ کی زندگی میں نظر کی جاوے تو ان میں ایک بھی ایسا واقعہ نظر نہیں آتا۔ انہوں نے کبھی ایسا نہیں کیا۔‘‘ فرمایا کہ ’’ہماری بیعت تو بیعتِ توبہ ہی ہے لیکن ان لوگوں کی بیعت تو سر کٹانے کی بیعت تھی۔‘‘ میری بیعت کی ہے تم نے تو یہ اس لیے کہ ہم اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔ ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ نیکیوں کو قائم کریں گے، ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ اسلام کی تبلیغ کو دنیا میں پھیلائیں گے اور اپنی حالتوں کو بدلیں گے لیکن جو پرانے لوگ تھے، صحابہ تھے، انہوں نے جو بیعت کی تھی وہ زمانہ تو ایسا تھا جب ظلموں کی انتہا تھی اور جنگیں بھی ہو رہی تھیں، جنگیں ٹھونسی جاتی تھیں اور سر کٹوائے جاتے تھے۔ فرمایا کہ ’’ایک طرف بیعت کرتے تھے اور دوسری طرف اپنے سارے مال و متاع، عزت وآبرو اور جان و مال سے دستکش ہوجاتے تھے گویا کسی چیز کے بھی مالک نہیں ہیں اور اس طر ح پر ان کی کُل امیدیں دنیا سے منقطع ہوجاتی تھیں۔ ہر قسم کی عزت و عظمت اور جاہ و حشمت کے حصول کے ارادے ختم ہوجاتے تھے۔ کس کو یہ خیال تھا کہ ہم بادشاہ بنیں گے یا کسی ملک کے فاتح ہوں گے۔ یہ باتیں ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھیں بلکہ وہ تو ہر قسم کی امیدوں سے الگ ہو جاتے تھے اور ہر وقت خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر دکھ اور مصیبت کو لذت کے ساتھ برداشت کرنے کو تیار ہو جاتے تھے یہاں تک کہ جان تک دینے کو آمادہ رہتے تھے۔ ان کی اپنی تو یہی حالت تھی کہ وہ اس دنیا سے بالکل الگ اور منقطع تھے لیکن یہ الگ امر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی عنایت کی اور ان کو نوازا اور ان کو جنہوں نے اس راہ میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا ہزار چند کر دیا۔‘‘

(ملفوظات جلد5صفحہ397-398)

یہ تو ایک احمدی کا معیار ہے جو بیعت کر کے سلسلہ میں شامل ہوتا ہے جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اس سے توقع رکھ رہے ہیں لیکن

جو لوگ اپنے آپ کو انصار اللہ کہتے ہیں ان کا کیا معیار ہونا چاہیے

خود ہی ہمیں اپنے جائزے لینے ہوں گے۔ ایک موقع پر آپؑ نے فرمایا کہ’’لو گ حقیقتِ اسلام سے بالکل دور جا پڑے ہیں۔‘‘ پتہ ہی نہیں کہ اسلام کی حقیقت کیا ہے۔ ’’اسلام میں حقیقی زندگی ایک موت چاہتی ہے جو تلخ ہے لیکن جو اس کو قبول کرتا ہے آخر وہی زندہ ہوتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ انسان دنیا کی خواہشوں اور لذتوں کو ہی جنت سمجھتا ہے حالانکہ وہ دوزخ ہے اور سعید آدمی خدا کی راہ میں تکالیف کو قبول کرتا ہے اور وہی جنت ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا فانی ہے اور سب مر نے کے لیے پیدا ہوئے ہیں آخر ایک وقت آجاتا ہے کہ سب دوست، آشنا، عزیز واقارب جدا ہو جاتے ہیں۔ اس وقت جس قد ر ناجائز خوشیوں اور لذتوں کو راحت سمجھتا ہے وہ تلخیوں کی صورت میں نمودار ہو جاتی ہیں۔ سچی خوشحالی اور راحت تقویٰ کے بغیر حاصل نہیں ہوتی اور تقویٰ پر قائم ہونا گویا زہر کا پیالہ پینا ہے‘‘ بہت مشکل کام ہے۔ بہت محنت کرنی پڑتی ہے اس کے لیے۔ فرمایا کہ ’’متقی کے لیے خدا تعالیٰ ساری راحتوں کے سامان مہیا کر دیتا ہے۔

مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا۔ وَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق:3-4)

پس خوشحالی کا اصول تقویٰ ہے لیکن حصولِ تقویٰ کے لئے نہیں چاہیے کہ ہم شرطیں باندھتے پھریں۔ تقویٰ اختیار کرنے سے جو مانگو گے ملے گا۔ خدا تعالیٰ رحیم وکریم ہے۔ تقویٰ اختیار کرو جو چاہو گے وہ دےگا۔ جس قدر اولیاء اللہ اور اقطاب گذرے ہیں انہوں نے جو کچھ حا صل کیا تقو یٰ ہی سے حا صل کیا۔ اگر وہ تقویٰ اختیار نہ کرتے تو وہ بھی دنیامیں معمولی انسانوں کی حیثیت سے زندگی بسر کرتے۔ دس بیس کی نوکری کر لیتے یا کوئی اور حرفہ یا پیشہ اختیار کر لیتے۔اس سے زیا دہ کچھ نہ ہوتا۔ مگر آج جو عروج ان کو ملا اور جس قدر شہرت اور عزت انہوں نے پائی یہ سب تقویٰ ہی کی بدولت تھی۔ انہوں نے ایک موت اختیار کی اور زندگی اس کے بدلہ میں پائی۔‘‘

(ملفوظات جلد5صفحہ106-107)

انصار اللہ کی عمر تو ایسی عمر ہے کہ جس میں اگلی زندگی کا سفر زیادہ واضح نظر آتا ہے اور آنا چاہیے۔ جتنی عمر بڑھتی ہے موت اتنی ہی قریب ہوتی جاتی ہے۔ اس میں ہماری ترجیحات کیا ہونی چاہئیں پھر میں کہوں گا اس کا اندازہ ہم خود ہی سوچ کر لگا سکتے ہیں۔ پھر

انسانی پیدائش کے مقصد

کے بارے میں بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ’’ایسے بنو کہ تا تم پر خدا تعالیٰ کی برکات اور اس کی رحمت کے آثارنازل ہوں۔ وہ عمروں کو بڑھابھی سکتا ہے مگر ایک وہ شخص جس کا عمر پانے سے مقصد صرف ورلی دنیا ہی کے لذائذاور حظوظ ہیں اس کی عمر کیا فا ئدہ بخش ہو سکتی ہے؟ اس میں تو خدا کا حصہ کچھ بھی نہیں۔ وہ اپنی عمر کا مقصد صرف عمدہ کھا نے کھانے اور نیندبھر کے سونے اور بیوی بچوں اور عمدہ مکان کے یا گھوڑے وغیر ہ رکھنے یا عمدہ باغات یا فصل پر ہی ختم کرتا ہے۔ وہ تو صرف اپنے پیٹ کا بندہ اور شکم کا عابد ہے۔‘‘ وہ انہی کی عبادت کرتا ہے، اللہ کی عبادت تو نہیں کرتا۔ ’’اس نے تو اپنا مقصود ومطلوب اور معبود صرف خواہشاتِ نفسانی اور لذائذِ حیوانی ہی کو بنایا ہوا ہے مگر خدا تعالیٰ نے انسا ن کے سلسلۂ پیدائش کی علت غائی صرف اپنی عبادت رکھی ہے۔

وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ(الذاریات:57)

پس حصر کردیا ہے کہ صرف صرف عبادتِ الٰہی مقصد ہونا چاہیے۔‘‘ محدود کر دیا ہے، انسان کو پابند کر دیا ہے کہ عبادت الٰہی تمہارا مقصد ہونا چاہیے ’’اور صرف اسی غرض کے لیے یہ سارا کارخانہ بنایا گیا ہے۔ برخلاف اس کے اَور ہی اَور ارادے اور اَور ہی اَور خواہشات ہیں۔‘‘ لیکن عموماً کیا ہوتا ہے اس کے بالکل برخلاف ہو رہا ہے اور مختلف ارادے ہیں اور مختلف خواہشات ہیں۔ فرمایا ’’بھلا سوچوتو سہی کہ ایک شخص ایک شخص کو بھیجتا ہے کہ میرے باغ کی حفاظت کر۔ اس کی آبپاشی اور شاخ تراشی سے اسے عمدہ طور کا بنا اور عمدہ عمدہ پھول، بیل بوٹے لگا کہ وہ ہرابھرا ہوجاوے۔ شاداب اور سرسبز ہو جاوے مگر بجائے اس کے وہ شخص آتے ہی جتنے عمدہ عمدہ پھل پھول اس میں لگے ہو ئے تھے ان کو کا ٹ کرضائع کردے یا اپنے ذاتی مفاد کے لیے فروخت کرلے اور ناجائز دست اندازی سے با غ کو ویران کردے تو بتاؤ کہ وہ ما لک جب آوے گا تو اس سے کیسا سلوک کریگا؟‘‘ پس

انصار اللہ کا کام تو باغ کی نگہداشت کرنا ہے۔

باغوں کے پھل پھول کی حفاظت کرنا ہے۔ باغوں کی نوجوان کلیوں کو سنبھالنا ہے نہ کہ ان میں یہ احساس پیدا کرنا کہ ہمارے بڑے غلطی کر رہے ہیں۔ پس بہت سوچنے کا مقام ہے۔ ’’خدا نے تو بھیجا تھا کہ عبادت کرے اور حق اللہ اور حق العباد کو بجا لاوے مگر یہ آتے ہی بیویوں میں مشغول، بچوں میں محو اور اپنے لذائذ کا بندہ بن گیا اور اس اصل مقصد کو بالکل بھول ہی گیا۔ بتاؤ اس کا خدا کے سامنے کیا جواب ہو گا؟‘‘ فرمایا ’’دنیا کے یہ سامان اور یہ بیوی بچے اور کھانے پینے تو اللہ تعالیٰ نے صرف بطور بھاڑہ کے بنائے تھے جس طرح ایک یکہ بان چند کوس تک ٹٹو سے کام لےکر جب سمجھتا ہے کہ وہ تھک گیا ہے‘‘ اس کے ٹانگے کا گھوڑا تھک گیا ہے۔ ’’اسے کچھ نہاری اور پانی وغیرہ دیتا ہے اور کچھ مالش کرتا ہے تا اس کی تھکان کا کچھ علاج ہو جاوے اور آگے چلنے کے قابل ہو اور درماندہ ہو کر کہیں آدھ میں ہی نہ رہ جائے اس سہارے کے لئے اسے نہاری دیتا ہے۔ سویہ دنیوی آرام اور عیش اور بیوی بچے اور کھا نے کی خوراکیں بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھاڑے مقرر کئے ہیں کہ تا وہ تھک کراور درماندہ ہوکر بھوک سے پیاس سے مر نہ جاوے اور اس کے قویٰ کے تحلیل ہونے کی تلافی مافات ہوتی جاوے۔ پس یہ چیزیں اس حدتک جائزہیں کہ انسان کو اس کی عبادت اور حق اللہ اور حق العباد کے پورا کرنے میں مدد دیں۔‘‘دنیاوی چیزیں اس لیے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق ادا کیے جائیں، بندوں کے حق ادا کیے جائیں، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کیا جائے، اپنے مقصد پیدائش کو پہچانا جائے ’’ورنہ اس حد سے آگے نکل کر وہ حیوانوں کی طرح صرف پیٹ کا بندہ اور شکم کا عابد بنا کر مشرک بناتی ہیں اور وہ اسلام کے خلاف ہیں۔ سچ کہا ہے کسی نے

خوردن برائے زیستن و ذکر کردن است

تُو معتقد کہ زیستن از بہر خوردن است‘‘

کہ کھانا تو جینے اور یاد خداوندی کے لیے ہے۔ تُو صرف یہی سمجھتا ہے کہ زندگی محض کھانے کے لیے ہے؟ نہیں! فرمایا کہ ’’مگر اب کروڑوں مسلمان ہیں کہ انہوں نے عمدہ عمدہ کھانے کھانا عمدہ عمدہ مکانات بنانا اعلیٰ درجہ کے عہدوں پر ہونا ہی اسلام سمجھ رکھا ہے۔ مومن شخص کا کام ہے کہ پہلے اپنی زندگی کا مقصد اصلی معلوم کرے اور پھر اس کے مطابق کام کرے۔ اللہ تعالیٰ فر ما تا ہے کہ قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان:78) خدا کو تمہاری پروا ہی کیا ہے اگرتم اس کی عبادت نہ کرو اور اس سے دعائیں نہ مانگو۔ یہ آیت بھی اصل میں پہلی آیت

وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (الذاریات:57)

ہی کی شرح ہے۔ جب خدا تعا لیٰ کا ارادہ انسا نی خلقت سے صرف عبادت ہے تو مومن کی شان نہیں کہ کسی دوسری چیز کو عین مقصود بنالے۔

حقوقِ نفس تو جائز ہیں مگر نفس کی بے اعتدالیاں جا ئز نہیں۔‘‘

نفس کے حق جائز ہیں، ادا کرو، کرنے چاہئیں لیکن حد سے بڑھ کے نہیں۔ ’’حقوق نفس بھی اس لئے جائز ہیں کہ تاوہ درماندہ ہو کر رہ ہی نہ جائے۔ تم بھی ان چیزوں کواسی واسطے کا م میں لاؤ۔ ان سے کا م اس واسطے لوکہ یہ تمہیں عبادت کے لائق بنائے رکھیں نہ اس لئے کہ وہی تمہارا مقصوداصلی ہوں۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ247-249)

پس یہ ہے معیار جو ہم نے حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے اور کوشش کرنی چاہیے۔ اگر زندگی کے اس مقصد کو ہم سمجھ گئے تو ہم حقیقی انصار میں شامل ہو جائیں گے کیونکہ یہی معیار حاصل کرنے والے وہ لوگ ہیں جو نبی کے حقیقی مددگار بن سکتے ہیں۔

پھر یہ بات بیان فرماتے ہوئے کہ عبادت کے معیار ایک حقیقی مومن کے کیا ہونے چاہئیں، عبادت کس طرح کی جائے، آپ علیہ السلام نے ہمیں سمجھایا کہ عبادت اللہ تعالیٰ کی محبتِ ذاتی سے رنگین ہو کر کرو، خلاصہ یہ ہے۔ اس کی تفصیل بیان فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ’’میں دوزخ اور بہشت پر ایمان لاتا ہوں کہ وہ حق ہے اور ان کے عذاب اور اکرام اور لذائذ سب حق ہیں لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ انسان خدا کی عبادت دوزخ یا بہشت کے سہارے سےنہ کرے بلکہ محبت ذاتی کے طور پر کرے۔ دوزخ بہشت کا انکار مَیں کفر سمجھتا ہوں اور اس سے یہ نتیجہ نکالنا حماقت ہے بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ عبادت اللہ تعالیٰ کی محبت ذاتی سے رنگین ہو کر کرے جیسے ماں اپنے بچہ کی پرورش کرتی ہے کیا اس امید پر کہ وہ اسے کھلائے گا۔ نہیں بلکہ وہ جانتی ہی نہیں کہ کیوں اس کی پرورش کر رہی ہے یہاں تک کہ اگر بادشاہ اس کو حکم دیدے کہ تُو اگر بچے کی پرورش نہ کرے گی اور اس سے یہ بچہ مر بھی جاوے تو تجھ کو کوئی سزا نہ دی جاوے گی بلکہ انعام ملے گا۔ تو وہ اس حکم سے خوش ہو گی یا بادشاہ کو گالیاں دے گی؟ یہ محبتِ ذاتی ہے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہیے نہ کہ کسی جزا سزا کے سہارے پر۔ محبت ذاتی میں اغراض فوت ہو جاتے ہیں۔‘‘ ا گر محبت ذاتی ہو تو پھر کوئی غرض نہیں رہتی ’’اور خدا تو وہ خدا ہے جو ایسا رحیم و کریم ہے کہ جو اس کا انکار کرتے ہیں ان کو بھی رزق دیتا ہے۔ کیا سچ کہا ہے؎

دوستاں را کجا کنی محروم

تو کہ با دشمناں نظر داری‘‘

دوستوں کو تُو کب محروم کرے جبکہ تُو تو دشمنوں کی بھی دیکھ بھال کرتا رہتا ہے۔ ’’جب وہ دشمنوں کو محروم نہیں کرتا تو دوستوں کو کب ضائع کر سکتا ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’حضرت داؤد ؑ کا قول ہے کہ میں جوان تھااب بوڑھا ہو گیا ہوں مگر میں نے متقی کو کبھی ذلیل و خوار نہیں دیکھا۔‘‘

پھر فرماتے ہیں کہ’’……

اصل غرض انسان کی محبتِ ذاتی ہونی چاہیے

اس سے جو کچھ اطاعت اور عبادت ہو گی وہ اعلیٰ درجہ کے نتائج اپنے ساتھ رکھے گی۔ ایسے لوگ خدا تعالیٰ کے مبارک بندے ہوتے ہیں وہ جس گھر میں ہوں وہ گھر مبارک اور جس شہر میں ہوں وہ شہر مبارک۔ اس کی برکت سے بہت سی بلائیں دور ہو جاتی ہیں۔ اس کی ہر حرکت و سکون اس کے درودیوار پر خدا کی برکت اور رحمت نازل ہوتی ہے۔ میں اسی راہ کو سکھانا چاہتا ہوں، اسی غرض کے لیے خداتعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے۔‘‘ فرمایا ’’یقیناً یاد رکھو کہ پوست کام نہیں آتا بلکہ مغز کی ضرورت ہے۔ لکھا ہے کہ ایک یہودی سے کسی مسلمان نے کہا کہ تُو مسلمان ہو جا۔ کہا کہ میں تیرے قول کو تیرے فعل (کی وجہ سے) نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ ‘‘ ایک یہودی سے کسی مسلمان نے کہا کہ تُو مسلمان ہو جا یہودی نے جواب دیا کہ میں تو تیرے قول کو، تیری باتوں کو،تیرے فعل کی وجہ سے نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں، تُو مجھے کہہ رہا ہے مسلمان ہو جا۔ لیکن جو تیری باتیں ہیں وہ اَور ہیں، تیرا عمل بالکل اَور ہے اور مجھے تو اس چیز سے نفرت ہے، کس بات پر تم مجھے بلا رہے ہو، کس بات کے لیے بلا رہے ہو کہ میں مسلمان ہو جاؤں، کیا تبلیغ مجھے کر رہے ہو؟ کہنے لگا یہودی کہ ’’مَیں نے اپنے بیٹے کا نام خالد رکھا تھا۔‘‘ اب خالد کا مطلب ہے ہمیشہ رہنے والا ۔کہتا ہے ’’حالانکہ شام تک میں اس کو قبر میں دفن کر آیا۔‘‘اس نام رکھنے کے باوجود وہ زندہ نہیں رہا، شام تک میں نے اس کو دفنا بھی دیا۔ تو ناموں سے تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ تم نام کے مسلمان کہلاتے ہو، نام کے انصار اللہ کہلاتے ہو تو اس سے تو کچھ نہیں بنے گا جب تک کہ قول و فعل ایک نہیں ہو جاتے۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ

’’نام کچھ حقیقت اپنے اندر نہیں رکھتا جب تک کام نہ ہو۔

اسی طرح پر خدا تعالیٰ مغز اور حقیقت کو چاہتا ہے، رسم اور نام کو پسند نہیں کرتا۔ جب انسان سچے دل سے سچے اسلام کی تلاش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس کو اپنی راہیں دکھا دیتا ہے جیسے فرمایا۔

وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت:70)

خدا تعالیٰ بخیل نہیں اگر انسان مجاہدہ کرے گا تو وہ یقینا ًاپنی راہ کو ظاہر کر دے گا۔‘‘

فرمایا کہ ’’……مومن حقیقی مسیح کے وقت وہی ہو گا جو اس کے تابع ہو گا۔‘‘

(ملفوظات جلد5صفحہ107-109)

اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ وہی مسیح موعود ہونے کا ہے تو پھر اسی طرح ہمیں ان باتوں کی پابندی بھی کرنی ہو گی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں فرمائی ہیں اور وہ کیا ہے؟ خدا اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کرو۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں’’اس سلسلہ سے خدا تعالیٰ نے یہی چاہا ہے اور اس نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ تقویٰ کم ہوگیا ہے۔ بعض تو کھلے طور پر بے حیائیوں میں گر فتار ہیں اور فسق وفجور کی زندگی بسر کرتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو ایک قسم کی ناپاکی کی ملونی اپنے اعمال کے ساتھ رکھتے ہیں مگر انہیں نہیں معلوم کہ اگر اچھے کھانے میں تھوڑا سا زہر پڑ جاوے تو وہ سارا زہریلا ہوجاتا ہے اور بعض ایسے ہیں جو چھوٹے چھوٹے (گناہ) ریاکاری وغیرہ جن کی شاخیں باریک ہوتی ہیں ان میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ نے یہ ارادہ کیاہے کہ وہ دنیا کو تقویٰ اور طہارت کی زندگی کا نمونہ دکھائے۔ اسی غرض کے لئے اس نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے۔ وہ تطہیر چاہتا ہے اور ایک پاک جماعت بنانا اس کامنشاء ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ96-97)

پس اس بات کے بعد ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ ہماری حقیقت میں تطہیر ہو گئی ہے؟ کیا ہم نے اپنی زندگیوں کو اتنا پاک کر لیا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے چاہتے ہیں یا اس کے لیے کوشش کر رہے ہیں؟ اگر نہیں تو اب ہم دوسروں کو حقیقی رنگ میں راستہ نہیں دکھا سکیں گے۔ پس ہمیں بڑے خوف سے بڑی دعاؤں اور استغفار کے ساتھ اپنے جائزے لیتے رہنے چاہئیں۔

پھر اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ

قرآن کریم میں علمی اور عملی تکمیل کی ہدایت ہے

آپؑ فرماتے ہیں’’پھر یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ قرآن کریم میں علمی اور عملی تکمیل کی ہدایت ہے چنانچہ

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ (الفاتحہ:6)

میں تکمیل علمی کی طرف اشارہ ہے اور تکمیل عملی کا بیان

صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحہ:7)

میں فرمایا کہ جو نتائج اکمل اور اتمّ ہیں وہ حاصل ہوجائیں۔ جیسے ایک پودا جو لگایا گیا ہے جب تک پورا نشوونما حاصل نہ کرے اس کو پھل پھول نہیں لگ سکتے۔ اسی طرح اگر کسی ہدایت کے اعلیٰ اور اکمل نتائج موجود نہیں ہیں وہ ہدایت مردہ ہدایت ہے جس کے اندر کوئی نشوونما کی قوت اور طاقت نہیں ہے۔ جیسے اگر کسی کو وید کی ہدایت پر پورا عمل کرنے سے کبھی یہ امید نہیں ہوسکتی کہ وہ ہمیشہ کی مکتی یا نجات حاصل کرلے گا اور کیڑے مکوڑے بننے کی حالت سے نکل کر دائمی سرور پالے گا تو اس ہدایت سے کیا حاصل۔ مگر قرآن شریف ایک ایسی ہدایت ہے کہ اس پر عمل کرنے والا اعلیٰ درجہ کے کمالات حاصل کرلیتا ہے اور خداتعالیٰ سے اس کا ایک سچا تعلق پیدا ہونے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے اعمالِ صالحہ جو قرآنی ہدایتوں کے موافق کئے جاتے ہیں وہ ایک شجرِ طیب کی مثال جوقرآن شریف میں دی گئی ہے، بڑھتے ہیں اور پھل پھول لاتے ہیں۔‘‘

پس یہ عمل ہونے چاہئیں ہمارے۔قرآن کریم کے حکموں کی تلاش کریں، جو نواہی اور اوامر ہیں ان کو دیکھیں، جو نہ کرنے والی باتیں ہیں، ان سے رکیں جو کرنے والی باتیں ہیں ان کو اختیار کریں، اپنی حالتوں کو بہتر بنائیں تبھی ہم حقیقی بیعت کا حق ادا کر سکتے ہیں اور تبھی ہم حقیقی رنگ میں انصار اللہ بن کے یہ پیغام دنیا کو پہنچا سکتے ہیں اور دنیا کو سیدھے رستے پہ چلا سکتے ہیں۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’ایک خاص قسم کی حلاوت اور ذائقہ ان میں پیدا ہوتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد1 صفحہ188-189)جو یہ سب کام کرتے ہیں وہ پھر ایسے پھل پیدا کرتے ہیں جس میں ایک خاص قسم کی حلاوت پیدا ہو جاتی ہے۔ ذائقہ پیدا ہو جاتا ہے، ایک عجیب مزہ بن جاتا ہے اس چیز کا۔

پھر عملی حالتوں کو قرآنی تعلیم کے مطابق ڈھالنے اور اپنے قول و فعل کو ایک کرنے کے بارے میں تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (العصر:3-4)کی تفسیر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں۔’’مجھے معلوم ہے کہ ایک شخص ایک مولوی کی صحبت کے باعث مسلمان ہونے لگا۔‘‘ باتیں سن سن کے، نیکی کی باتیں سن کے مسلمان ہونے لگا۔’’ایک روز اس نے دیکھا کہ وہی مولوی شراب پی رہا تھا تو اس کا دل سخت ہوگیا اور وہ رک گیا۔‘‘اس نے کہا کہ باتیں تو بڑی اچھی کر رہا ہے، نیکی کی باتیں بتا رہا ہے، شراب کے نقصان مجھے بتا رہا ہے لیکن ایک دن وہ مولوی خود بیٹھا شراب پی رہا ہے۔ اس نے کہا پھر ایسے مذہب سے بچ کے ہی رہنا چاہیے۔ فرمایا ’’غرض تَوَاصَوْا بِالْحَقِّمیں یہ فرمایا کہ وہ اپنے اعمال کی روشنی سے دوسروں کو نصیحت کرتے ہیں۔‘‘یعنی اپنے عمل جو ہیں اس سے دوسروں کو نصیحت کرتے ہیں، صرف باتوں سے نہیں کرتے ’’اور پھر ان کا شیوہ یہ ہوتا ہے۔ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ یعنی صبر کے ساتھ وعظ و نصیحت کا شیوہ اختیار کرتے ہیں۔‘‘ اور پھر صبر کے ساتھ وعظ و نصیحت کرتے جاتے ہیں۔ صرف باتوں کے ذریعہ سے تبلیغ نہیں کرنی بلکہ اپنے عمل سے تبلیغ کرنی ہے، اپنے عمل سے دوسروں کو قائل کرنا ہے اور پھر مستقل مزاجی سے اس پر قائم رہتے ہوئے ان کو نصیحت کرنا اور تبلیغ کرتے چلے جانا ہے۔ ’’جلدی جھاگ منہ پر نہیں لاتے۔‘‘

(ملفوظات جلد1صفحہ191-192)

غصہ میں نہیں آ جاتے یہ لوگ اگر مخالفت ہوتو۔ پس

تبلیغ کے لیے یہ دو باتیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئیں

کہ اپنے عمل اور تعلیم میں مطابقت پیدا کرنا اور دوسرے صبر سے کام لیتے ہوئے مستقل مزاجی سے اور برداشت سے تبلیغ کرتے چلے جانا ہے۔ پس ہمیں اس حوالے سے بھی اپنے جائزے لینے چاہئیں اور تبلیغ کے کام کو آگے بڑھانا چاہیے۔ یہاں تو مواقع ایسے ہیں کہ تبلیغ کے بہت سارے کام ہو سکتے ہیں۔ جہاں روکیں ہیں وہاں اگر روکیں ہمارے رستے میں حائل ہیں اور قانون اور حکومتیں اگر رستے میں حائل ہیں تو دوسری جگہ جہاں ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں کیوں نہ اٹھایا جائے۔ پس جو اِن ملکوں میں رہ رہے ہیں، آزادانہ طور پر جن کو تبلیغ کے مواقع میسر ہیں ان کو چاہیے کہ پہلے سے بڑھ کر تبلیغ کے لیے میدان میں نکلیں اور اپنے عمل سے ثابت کر دیں کہ اسلام ہی وہ حقیقی مذہب ہے جو دنیا کو راہ راست پر لا سکتا ہے اور دنیا کو نجات دلا سکتا ہے۔

بہرحال

یہ سب کام اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا کرتے ہوئے کریں گے تو برکت ہو گی۔

ذاتی اغراض نہیں ہونی چاہئیں جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں’’انسان کو چاہیے کہ ساری کمندوں کو جلا دے اور صرف محبت الٰہی ہی کی کمندکو باقی رہنے دے۔ خدا نے بہت سے نمونے پیش کئے ہیں۔ آدمؑ سے لے کر نوحؑ وابراہیمؑ اورموسیٰؑ وعیسیٰؑ اور حضرت محمد مصطفیٰ علیہم الصلوٰةوالسلام تک کل انبیاء اسی نمونہ کی خاطر ہی تو اس نے بھیجے ہیںتا لوگ ان کے نقش قدم پر چلیں۔جس طرح وہ خدا تعالیٰ تک پہنچے اسی طرح اَور بھی کو شش کریں۔ سچ ہے کہ جو خدا کا ہو جاتا ہے خدا اس کا ہو جاتا ہے۔

یادرکھو کہ ایسا نہ ہو کہ تم اپنے اعمال سے ساری جما عت کو بدنام کرو۔‘‘ فرمایا کہ ’’شیخ سعدی صاحب فرماتے ہیں۔

بدنام کنندہ نکونامے چند‘‘

(ملفوظات جلد5صفحہ246)

کہ ایک برا آدمی کئی نیک ناموں کی بدنامی کا باعث بن جاتا ہے۔

پس ہمیں بہت سوچنے کی ضرورت ہے۔ انصار اللہ، حقیقی انصار اللہ بننے کے لیے بہت غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی محبت ہمیں اپنے دل میں پیدا کرنے کی بہت کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے عمل بھی اس وقت حقیقی عمل بنیں گے جب ہم خدا تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے نیکیاں بجا لانے کی کوشش کریں گے۔ ہمارے کاموں میں برکت اس وقت پڑے گی جب اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں گے۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے اس عظیم کام میں معاون و مددگار تبھی بن سکیں گے جب ہم اپنے ہر قول و فعل کو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حکموں کے مطابق کرتے ہوئے پھر اللہ تعالیٰ سے اس میں برکت کی دعائیں مانگیں گے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگنے کا صحیح طریق اپنی عبادتوں کو اس کے حکم کے مطابق بجا لانا ہے یعنی پانچ وقت کی نمازوں کی حفاظت اور ادائیگی، دلی سوز سے ادائیگی اور توجہ کے ساتھ ادائیگی۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک موقع پر فرمایا’’سو تم نمازوں کو سنوارو اور خدا تعالیٰ کے احکام کو اس کے فرمودہ کے بموجب کرو۔ اس کی نواہی سے بچے رہو۔ اس کے ذکر اور یاد میں لگے رہو۔ دعا کا سلسلہ ہروقت جاری رکھو۔ اپنی نماز میں جہاں جہاں رکوع وسجود میں دعا کا موقعہ ہے دعا کرو اور غفلت کی نماز کو ترک کردو،رسمی نما ز کچھ ثمرات مرتب نہیں لاتی۔‘‘ رسمی نمازوں کوکوئی پھل نہیں لگتے صرف فرض پورا کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ ’’اور نہ وہ قبولیت کے لائق ہے۔ نماز وہی ہے کہ کھڑے ہونے سے سلام پھیرنے کے وقت تک پورے خشوع خضوع اور حضورقلب سے ادا کی جاوے اور عاجزی اور فروتنی اور انکساری اور گریہ وزاری سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس طرح سے ادا کی جاوے کہ گویا اس کو دیکھ رہے ہو۔ اگر ایسا نہ ہو سکے تو کم ازکم یہ توہوکہ وہی تم کو دیکھ رہا ہے۔ اس طرح کما ل ادب اور محبت اور خوف سے بھری ہوئی نماز ادا کرو۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ236)

یہ ہے نماز کی حقیقت۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ہماری کامیابی دعاؤں سے ہی ہونی ہے۔ پس جب ہم اپنی عملی حالتوں کی تبدیلی کے ساتھ دعاؤں اور عبادات کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو تبھی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے حقیقی انصار میں شمار ہو سکتے ہیں۔ تبھی ہم اپنی اگلی نسلوں کے ذہنوں میں سوال پیدا کرنے کی بجائے ان کی اصلاح اور جماعت سے جوڑنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

اب ہم دعا کریں گے۔ دعا سے پہلے میں ایک یہ بھی بتا دوں کہ اس وقت مَیں جس جگہ سے بول رہا ہوں، خطاب کر رہا ہوں یہ

ایم ٹی اے اسلام آباد کا نیا سٹوڈیو

ہے اور آج پہلی دفعہ یہاں سے یہ پروگرام جاری ہو رہا ہے گویا کہ انصار اللہ کے اس اجتماع کے ساتھ اس کا افتتاح بھی ہو گیاہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو بھی اسلام کا پیغام، دین کا پیغام پہنچانے کا ذریعہ بنائے اور پہلے سے بڑھ کر ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیا میں اسلام کا حقیقی پیغام پہنچ سکے۔ اب دعا کر لیں۔

٭٭دعا٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button