متفرق مضامین

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا طلسماتی منظوم کلام اور اُس کی تاثیر

’’در کلام تو چیزےاست کہ شعراء رادراں دخلے نیست‘‘(تذکرہ صفحہ 508،ایڈیشن چہارم)تیرے کلام میں ایک چیز ہے جس میں شاعروں کو دخل نہیں۔

امام الزمان سیدنا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام چونکہ اسلام کی قلمی جنگ میں ایک فتح نصیب جرنیل کی حیثیت سے دنیا میں آئے تھے۔اس لیے قدرت خداوندی نے ابتدا سےہی قلم کی لازوال قوتوں سے مسلح کر کے بھیجا تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مقام پر فرماتے ہیں:’’اُس حکیم وقدیر نے اس عاجز کو اصلاح خلائق کے لئےبھیج کر ایسا ہی کیا اور دنیا کو حق اور راستی کی طرف کھینچنے کے لئے کئی شاخوں پر امر تائید حق اور اشاعت اسلام کو منقسم کر دیا۔ چنانچہ منجملہ ا ن شاخوں کے ایک شاخ تالیف و تصنیف کا سلسلہ ہے جس کا اہتمام اِس عاجز کے سپرد کیا گیا۔ اور وہ معارف و دقائق سکھلائے گئے جو انسان کی طاقت سے نہیں بلکہ صر ف خداتعالیٰ کی طاقت سے معلوم ہو سکتے ہیں اور انسانی تکلّف سے نہیں بلکہ روح القدس کی تعلیم سے مشکلات حل کر دیئے گئے۔‘‘

(فتح اسلا م،روحانی خزائن جلد 3صفحہ 11تا12)

ایک اور جگہ اپنی تحریرات کی اہمیت بیان کرتےہوئے آپؑ فرماتےہیں:’’میںکئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ یہ رسائل جو لکھے گئےہیں۔ تائید الٰہی سے لکھےگئےہیں۔ میں ان کا نام وحی اور الہام تو نہیں رکھتا مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی خاص اور خارق عادت تائید نے یہ رسالے میرے ہاتھ سے نکلوائے ہیں۔‘‘

(سر الخلافۃ، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 415تا416)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہ صرف نثر نگاری کے وسیع و عریض میدان کے شہسوار تھے بلکہ اقلیم سخن کو بھی آپ کی تاجداری پر ناز تھا۔

حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کی شاعری کی خصوصیات

ہر شعر خواہ وہ کسی بھی صنف نظم سے تعلق رکھتا ہو۔ اس کا کوئی نہ کوئی پس منظر ضرور ہوتا ہے۔ اس پس منظر میں شعر کہنے والے کے حالات و واقعات اور اس ماحول کا اثر بھی ہوتا ہے، جس میں وہ پروان چڑھتا اور عقل و شعور کی عمر کو پہنچتا ہے۔ اکثر اوقات شعر کہنے والا شعر کہنے کا ارادہ بھی نہیں رکھتا، مگر شعر کی آمد شروع ہو جاتی ہے۔یہ ان حالات کاتأثر ہوتا ہے، جو اس پر گزر جاتے ہیں یا جن کے بارے میں اسے خیال ہوتا ہے کہ مستقبل میں پیش آ سکتے ہیں۔ اگرچہ اس وقت وہ ذہنی طور پر ان خیالات و حالات سے دور ہو تا ہے۔ مگر وہ اس کے لاشعور میں موجود رہتے ہیں۔ اس لیے ناگہاں وہ شعر کے سانچے میں ڈھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑ اگرچہ شعر گوئی کو عام شاعروںسے ہٹ کر سمجھتے تھے۔ اس لیے کہ آپ کا مقصد شعر گوئی سے نہ ذاتی تفنن طبع تھا اور نہ کسی مجلس و محفل میں شعر سنا کرداد و تحسین پانا تھا۔ آپؑ نے اپنے ایک شعر میں اس کی طرف واضح طور پر اشارہ فرما دیا۔

کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق

اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے

آپ کی اس خاکساری کو بارگاہ خداوندی میں قبول کیاگیا اور آپ کو الہام الٰہی کے ذریعہ یوں داد دی گئی۔

’’در کلام تو چیزےاست کہ شعراء رادراں دخلے نیست‘‘

(تذکرہ صفحہ 508،ایڈیشن چہارم)

تیرے کلام میں ایک چیز ہے جس میں شاعروں کو دخل نہیں۔

آپ کے شعر کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ نہایت اختصار سے اس کے پس منظر کا کچھ تذکرہ کر دیا جائے۔ تاکہ قارئین کو معلوم ہو سکے کہ عام شعراء کی ڈگر سے ہٹ کر آپ نے کس ضرورت کے تحت اشعار کہے۔

پاکیزہ شاعری

آپ کی سیرت کا ابتدائی باب یہ بتاتا ہے کہ آپ کے لیے اللہ تعالیٰ نے بچپن سے ہی ایسا ماحول پیدا کر دیا تھا کہ آپ کو عوامی مجلسوں میںجانے سے طبعاًکراہت تھی۔ چونکہ عوامی مجالس میں ہر نوع اور ہر خیال کے حامل انسانوں سے میل جول رہتا ہے اور انسان ان کی صحبت کا کچھ نہ کچھ اثر قبول کر لیتا ہے۔ چنانچہ آپ کو الٰہی تصرف کے زیر اثر بچپن ہی سے عبادت و ریاضت کا شوق دامنگیر ہوا۔ آپ کا زیادہ وقت خانہ خدا میں گزرتا تھا۔ آپ کی یہ لگن اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ آپ کھانے کے اوقات میں بھی اکثر خانہ خدا میں ہوتے اور آپ کے والد بزرگوار کھانے کے بعد فرمایا کرتے تھے کہ اس ’’مسیتڑ‘‘ کے لیے کچھ بھجوا دو۔

اس پس منظر کو سامنے رکھ کر جب ہم آپ کے اشعار کا مطالعہ کرتے ہیں۔ تو آغاز سے انجام تک ایک ہی تصویر ابھرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ جسے دیکھ کر ہم آپ کی شعری کاوش کے مقصد کو بآسانی پا سکتے ہیں۔ آپ کے شعری مجموعے، جو اردو، فارسی اور عربی تینوں زبانوں میں مرتب ہو چکے ہیں۔ ان کے عنوانات ہی بتا رہے ہیں کہ آپ نے شعر گوئی کے کوچے میں کیوں اور کس لیے قدم رکھا؟ چونکہ اس وقت ہمارے زیرنظر صرف آپ کا اردو کلام ہے۔ اس لیے ہم فی الحال اردو تک ہی محدود رہیں گے۔ یاد رہے کہ بعض اوقات اساتذہ کرام کا اثر بھی شعر گوئی پر ابھارتا ہے۔ مگر آپ نے اپنے تعلیمی تذکرے میں اس کی طرف قطعاً کوئی اشارہ تک نہیں کیا۔ اس لیے آپ اس تأثر سے بھی خالی ہیں اور خالص اپنے ماحول سے ہی اپنی شاعری کا آغاز کرنے والے ہیں۔

دیگر شعراء کے اثر سے پاک شاعری

بعض اوقات شاعر اپنے دَور کے بعض شعراء سے متأثر ہوتا ہے۔ مگر آپ اس تأثر سے بھی کوسوں دور دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ آپ کے دور کے بعض محترم احباب کوبھی کوئے شعر و ادب میںنام حاصل تھا اور انہوں نے اپنے اپنے رنگ میں خوب ناموری حاصل کی تھی۔ مگر نہ آپ ان سے متأثر ہوئے اور نہ انہوں نے کسی بھی انداز میں شاعرانہ تعلّی سے کام لیتے ہوئے آپ کی طرف تنقید و تعریض کا اشارہ کیا۔انہوںنے قریباً قریباً ولادت تا وفات آپ ہی کا زمانہ پایا۔ ذیل میں ہم چند مشاہیر کے اسمائے گرامی معہ سن ولادت و وفات درج کرتے ہیں۔ تاکہ قارئین کو حضور کی شعرگوئی کا پس منظر سمجھنے میں اور آسانی ہو جائے۔

منشی امیر احمد امیر مینائی :ولادت 1828ء ، وفات 1903ء

نواب مرزا خان داغ :ولادت 1831ء ، وفات 1908ء

مولانا (ڈپٹی) نذیر احمد دہلوی:ولادت 1831ء،وفات 1912ء

مولانا محمد حسین آزاد : ولادت1832ء ،وفات 1910ء

مولانا الطاف حسین حالی:ولادت 1837ء ، وفات 1914ء

آپ کا سن ولادت 1835ء اور آپ کا وصال 1908ء میں ہوا۔ اب ذرا موازنہ کیجئے کہ مذکورہ بالا محترمین شعر و ادب کے کس کس کوچے میں کام کرتے رہے اور حضور کا جذبہ شعر گوئی کس قسم کی خدمت کے لیے وقف رہا؟ اس سارے پس منظر کا جائزہ لینے کے بعد اب خاکسار آپ کے اردو کلام سے متعلق مذکورہ پس منظر کی روشنی ہی میں اپنے ناچیز و ناقص خیالات تحریر کرتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شاعری کا پس منظر

آپ کا اردو منظوم کلام کتابی صورت میں مدوّن ہو کر ’’درثمین‘‘کے نام سے چھپ چکا ہے۔جماعت احمدیہ کے چھوٹے بڑے، بچے بوڑھے اور مردو زن سبھی پوری دلچسپی سے اپنے امام زمان کا کلام پڑھتے اور نجی مجالس یا جماعتی جلسوں میں سناتے رہتے ہیں۔ اس لیے آپ کا اردو کلام خصوصاً بار بار نت نئے انداز میں چھپتا رہا ہے۔ اس وقت خاکسار کے زیر نظر آپ کا اردو کلام ہے۔ اس پر کچھ اظہار خیال کیا جاتا ہے۔

’’درثمین‘‘ اردو کا جو ایڈیشن خاکسار کے سامنے ہے اس کی پہلی نظم کا عنوان ہے ’’نصرت الٰہی‘‘۔یہ 1880ء میں ’’براہین احمدیہ‘‘ میں شائع ہوئی۔براہین احمدیہ کے لکھنے کی غرض یہ تھی کہ حقیقت کتاب اللہ القرآن اور نبوت محمدیہ کی صداقت نمایاں کرکے منکرین دین پر حجت پوری کر دی جائے۔ چنانچہ مذکورہ کتاب کے دوران جہاں نثری تحریر کے ساتھ آپ نے منظوم کلام کو موزوں سمجھا ،نثر کی طرح بے ساختہ شعر گوئی سے کام لیا اور اسے داخل تحریر کر دیا۔ مثلاً پہلی ہی نظم، جس کا عنوان ’’نصرت الٰہی‘‘ہے۔ اس کے اندراج سے پہلے جو چند جملے آپ نے تحریر فرمائے ہیں وہ اس نظم سے کلی مطابقت رکھتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا مناسب ہو گا کہ آپ کا منظوم کلام اپنے سیاق و سباق کے لحاظ سے ارتجالاً چلا آتا تھا۔ مذکورہ نظم کا سیاق یوں ہے۔

’’یہ وہ برگزیدہ قوم ہے کہ جن کے اقبال کی انہیں کے زمانہ میں آزمائش ہو چکی ہے۔ وہ اقبال نہ بت پرستوں کے روکنے سے رکا اور نہ کسی اور مخلوق پرست کی مزاحمت سے بند رہا۔ نہ تلواروں کی دھار اس شان و شوکت کو کاٹ سکی نہ تیروں کی تیزی اس میں کچھ رخنہ ڈال سکی۔ وہ جلال ایسا چمکا جو اس کا حسد کتنوں کا لہو پی گیا۔ وہ تیر ایسا برسا جو اس کا چھوٹنا کئی کلیجوں کو کھا گیا۔ وہ آسمانی پتھر جس پر پڑا۔ اسے پیس ڈالتا رہا اور جو شخص اس پر پڑا۔ وہ آپ ہی پیسا گیا۔‘‘

(براہین احمدیہ ،روحانی خزائن جلد 1صفحہ 106)

خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے

جب آتی ہے تو پھر عالم کو اک عالم دکھاتی ہے

وہ بنتی ہے ہوا اور ہر خسِ راہ کو اڑاتی ہے

وہ ہو جاتی ہے آگ اور ہر مخالف کو جلاتی ہے

کبھی وہ خاک ہو کر دشمنوں کے سر پہ پڑتی ہے

کبھی ہو کر وہ پانی ان پہ اک طوفان لاتی ہے

غرض رکتے نہیں ہرگز خدا کے کام بندوں سے

بھلا خالق کے آگے خلق کی کچھ پیش جاتی ہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شاعری کے موضوعات

آپؑ کے کلام کا پس منظر تحریر کرنے کے بعد خاکسار نے آپ کی ایک ابتدائی نظم کا سیاق و سباق تحریر کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کا منظوم کلام کس شان سے آمد کا جامہ پہن کر برمحل اترا کرتا تھا۔ مذکورہ چاروں اشعار معانی و مطالب کا دریا ہیں تو زبان میں اور بیان میں سہل ممتنع کے درجے پر ہیں۔ اس لیے ان چار شعروں میں جو مضمون پیش کیا گیا وہ اس سے بہتر انداز میں پیش ہو ہی نہیں سکتا۔اس ایک مثال کے بعد اول خاکسار آپ کے اردو کلام کے عنوانات درج کرتا ہے۔ تاکہ اول سے آخر تک آپ کے کلام کے مضامین و مطالب کو سمجھنا آسان ہو جائے اور وہ پس منظر جو اوپر تحریر کیا گیا اس کی روشنی میں آپ کے کلام کا جائزہ لینا کسی حد تک ممکن ہو سکے۔ تو لیجئے! ایک نظر موضوعات مجموعہ اردو پر ڈالیے:

نصرت الٰہی، دعوت فکر، فضائل قرآن مجید، عیسائیوں سے خطاب، اوصاف قرآن مجید، حمد رب العالمین، سرائے خام، چولہ بابا نانک، محمود کی آمین، خداتعالیٰ کا شکر اور دعا بزبان حضرت اماں جان، ام الکتاب، معرفت حق، بشیر احمد، شریف احمد اور مبارکہ کی آمین، جوش صداقت ، نسیم دعوت، پیشگوئی زلزلہ عظیمہ، انذار، قادیان کے آریہ ، اتمام حجت، انذار و تبشیر، محاسن قرآن کریم، مناجات اور دعوت حق، درس توحید، پیشگوئی جنگ عظیم ، بدظنی سے بچو، ہجوم مشکلات میں کامیابی حاصل کرنے کاطریق۔
خاکسار نے چیدہ چیدہ موضوعات کا اندراج کیا ہے۔ جب کہ ان کے علاوہ مختصر نظمیں، الہامی اشعار اور مصرعے بھی ہیں۔ ان تمام موضوعات و عنوانات میں جن مضامین کا احاطہ کیا گیا، ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
درس توحید، خداتعالیٰ کی محبت، دین کی صداقت، قرآن کریم کی محبت اور آنحضرت ﷺ سے والہانہ عشق و محبت کے نمونے ملتے ہیں۔ ان کے علاوہ بے نظیر دلائل و براہین کے ساتھ پیغام حق پہنچایا گیا ہے۔علاوہ ازیں، اخلاقی نصائح، دینی معارف و نکات، اور بے مثل دعائیں بھی ملتی ہیں۔ الغرض آپ کے کلام اردو کا مجموعہ ہر لحاظ سے جامع ہے۔ اردو ادب میں اس کی نظیر تلاش کرنا سعی لاحاصل ہے۔ ہر نظم برجستہ و برمحل ہے۔ جیسا کہ اوپر ایک مختصر نظم کا سیاق و سباق درج کرکے اس کے مضمون اور مقصد کو واضح کیا گیا ہے۔ اگر احباب پسند کریں تو آپ کی کتب میں سے تمام منظومات کے سیاق و سباق کا مطالعہ کرکے نہ صرف لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ بلکہ علمی اضافہ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
پس آپ کا اردو کلام اول سے آخر تک حکمت و معرفت کے نکات پاکیزہ اور حسین مرقع ہے۔ بلکہ تمام کی تمام نظمیں روحانی تشنہ کامی کی سیرابی کے جام لبالب پیش کرتی ہیں۔ ایک شعر تو کجا ایک لفظ بھی آپ کے کلام میں ایسا نہیں ملتا، جو آپ کے کلام کے مزاج کے خلاف آیا ہو۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ آپ کا کلام معانی و مطالب کے لحاظ سے مئے عرفان کا ایک شفاف شیشہ ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے اشعار کیوں کہے؟
حضرت ا قدس ؑکا کلام شاعری کا بہترین نمونہ ہے۔جسے قرآن کریم نے جائز قرار دیا ہے۔آپؑ اس شاعری کو صرف روحانیت اور اخلاقیات جیسے بلند مقا صدکے لیے استعمال فرمایااور اپنے شعروں میں خدا اور خدا کے نبی کریم ﷺاور خدا کے کلام کا اس کثرت سےاور اس والہانہ انداز سےذکر کیا کہ اس کی مثال کسی پہلے یا پچھلےشاعر کے کلام میںقطعاً نہیں مل سکتی خدا اور رسول ﷺ کے ذکر میں عشق و محبت کےرموز و نکات بھی خوب خوب بیا ن فرمائے۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑکے کلام سے ہمیں خدا تعالیٰ کی صفات کاملہ کی جھلک اور خدا تعالیٰ کے احسانات کا شکراور حضور سرورِکائناتﷺ کے اوصاف کی تعریف اور خدمت دین،شان اسلام اور ہمدردی مخلوق صاف نظر آتی ہے۔حضور اقدس ؑ کا شاعری کرنے کا مقصدصرف یہی تھاکہ عوام النّا س خدا تعالیٰ کو پہچانےاور حضور ﷺکے ذریعہ لگائے گئےاسلام کے پودے کو اپنائیں۔

غرض حضرت مسیح موعود ؑنے جو اپنا منظوم کلام بیان فرمایا ہےاس کی وجہ صرف یہی ہےکہ اس کلام کے ذریعہ جو پیغام آپؑ دنیا کو دینا چاہتے ہیں وہ پیغام اس ذریعہ سے لوگوں تک پہنچ جائے۔آپؑ نے یہ منظوم کلام کسی مال و دولت کی خواہش یا اپنی واہ واہی کےلیےنہیں بلکہ رضائے الٰہی کی خاطر اور خدمت دین اور اشاعت اسلام کی خاطربیان فرمایاتاکہ لوگ حق کو اس کے ذریعہ سےبھی پہچان لیں اور اس حق کو قبول کرکےخدا کے مقبولین کی جماعت میں شامل ہو جائیں۔

حضرت مسیح موعود ؑکےاشعار

حضرت مسیح موعودؑ کا یہ دعویٰ تھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھےآنحضرت ﷺ کی اتباع میںاورآپؐ کی پیروی میں ساری دنیا کی اصلاح کےلیے مبعوث فرمایا ہے۔اس لیے مجھے وہ روحانی طاقتیں عطا کی ہیںاور وہ مقام بخشا ہے جو اس کام کے لیےضروری تھا۔اور میںایک ایسے نبی کا تابع ہوںجو انسانیت کے تمام کمالات کا جامع ہےاور اس کی شریعت اکمل و اتم ہےاور تمام دنیا کی اصلاح کے لیے ہے۔

حضرت مسیح موعودؑنے آنحضرت ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اذن پاکرحضورﷺ کے ذریعہ قائم کردہ شریعت کی تجدید کا کام کیااور اس تعلیم کو دوبارہ زندہ کیا جو لوگ بھلا چکے تھے۔اور ایما ن کو واپس دنیا میں لائے جو کہ ثریّا ستارے پر جا چکا تھا۔اس کام کی خاطر آپؑ نے بےشمار ذریعے اختیار کیے۔ جن میں سے آپؑ کی تحریرات، مناظرات، مباحثات،لٹریچر،اخبارورسائل،اشتہارات، پُرمعارف تقاریرو خطابات اور آ پؑ کا منظوم کلام شامل ہیں۔

حضرت اقدس ؑنے لوگوں کو خدا کی طرف بلانےاور اس کے زندہ خداہونےاور حضور ﷺ اور آپؐ کی قائم کردہ شریعت کی افضلیت کےلیے بے شمار کتب تصنیف فرمائیں۔جن کے ذریعہ سے آپؑ نےخدا کے پیغام کو لوگوں تک پہنچایا۔حضرت مسیح موعود ؑنےزمانہ کے تقاضے کومدّ نظر رکھتے ہوئےتبلیغ و اشاعت کےلیےشاعری کو بھی استعمال کیاآپؑ کا منظوم کلام جو کہ’’درّ ثمین‘‘کے نام سے مرتب ہے۔نہایت ہی ا علیٰ قسم کااور اپنے اندر حقائق و معارف کےخزانے سموئے ہوئے ہے۔آپؑ کا منظوم کلام عربی،اردو، فارسی تینوں زبانوں میں ملتا ہے۔اور تینوں زبانوں میں جس اعلیٰ پایہ کا آپ علیہ السلام کا کلام ہےاور جوا علیٰ تعلیم اس کے ذریعہ دی گئی ہےوہ لا جواب ہے۔حضورؑ نےاپنے کلام کے ذریعہ لوگوں تک خدائی پیغام پہنچایا۔اور لوگوں کی اصلاح اور تربیت کاکام کیا۔آپؑ کے اشعار اپنے اندر ایسا اخلاقی امتیاز رکھتے ہیں جو دوسرے شعراء کے کلام میں نہیں۔

آپؑ کےکلام میں کسی معمولی سے معمولی غیر اخلاقی بات کا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا۔یہ شرف صرف حضرت اقدسؑ کو حاصل ہےکہ آپؑ نے شعر کی بلند ترین چوٹیوں کو چھوا لیکن کبھی متانت اور سنجیدگی کے دامن کو نہ چھوڑا۔ہمیشہ صاف ستھرے الفاظ استعمال کیے۔آپؑ کے کلام کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ کے قلب مطہر میں پاکیزہ جذبات کاایک بحر موّاج موجود ہے۔ جو بے اختیار آپؑ کی نوک قلم سےبہ کر تمام دنیا کوسیراب کر رہا ہے۔اور تا قیامت سیراب کرتا رہے گا۔آپؑ کے کلام میں تصنع اور بناوٹ کا کوئی شائبہ تک نہیں۔لفظ لفظ اخلاق اور راستی پر مبنی ہے۔آپؑ کا کلام حمد الٰہی،نعت رسول مقبول ﷺ،فضائل قرآن کریم،صداقت دین،ترغیب حسنات اور وعظ و نصیحت کا ایک ایسابے بہا خزانہ ہے جس کی نظیر دنیا میں اور کہیں نہیں مل سکتی۔

اسلام کے فتح نصیب جرنیل حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ؑکی تصانیف اپنے اندر لازوال ابدی سچائی کی برکات سموئے ہوئے آفتاب کی مانند چمک رہی ہیں۔اس میں آپؑ کا تین علمی زبانوں عربی، فارسی،اردومیں کلام ملتا ہے۔جو ہر قسم کی فانی لذّات سے پاک اور سراسر حق و حکمت کی طرف رہنمائی کرنے والالا ثانی کلام ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےمنظوم کلام کےچند نمونے

حمد باری تعالیٰ

حمد و ثنا اسی کو جو ذات جاودانی

ہمسر نہیں ہے اس کا کوئی نہ کوئی ثانی

خدا کے علاوہ ہر چیز فنا کا شکار ہونے والی ہے۔ اسی لیے آپ نے نہایت کھلے انداز اور آسان پیرائے میں فرمایا کہ کیسے بھی حالات ہوں دنیا والے کچھ بھی سلوک کریں۔ انسان کو ہر حالت میں خدائے واحد پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ اس لیے کہ جب کوئی انسان تمام سہارے چھوڑ کر خدا کا ہو جاتا ہے تو وہ ہر حالت میں اس کی پشت و پناہ بن جاتا ہے۔ اہل دنیا اپنے عناد کے باوجود اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے۔ آپ نے اس مضمون کو اپنے دو شعروں میں نہایت عمدگی و سادگی سے یوں پیش فرمایا۔

لوگوں کے بغضوں سے اور کینوں سے کیا ہوتا ہے

جس کا کوئی بھی نہیں اس کا خدا ہوتا ہے

بے خدا کوئی بھی ساتھی نہیں تکلیف کے وقت

اپنا سایہ بھی اندھیرے میں جدا ہوتا ہے

یہ 1894ء کا کلام ہے۔ اس دور کی زبان میں ’’اپنا سایہ بھی اندھیرے میں جدا ہوتا ہے‘‘ایک ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ چاروں مصرعے شستہ و برجستہ اور رواں ہیں۔ مگر چوتھے مصرعے نے ان دونوں شعروں میں کمال درجے کی بلاغت سمو دی ہے۔ توحید کا مضمون بیان کرنا اورسادگی کا انتہائی درجہ اپنانا آپ ہی کا حصہ ہے۔ دوسرا کوئی کیا اپنائے گا؟

درس توحید کے بعد اپنا حال بیان فرماتے ہیں کہ آپؑ کس حد تک خدائے واحد کے عشق سے سرشار ہیں۔ اس طرح کہ آپ اپنے وجود کوا س کے وجود میں ضم کر چکے ہیں۔

جو ہمارا تھا وہ اب دلبر کا سارا ہو گیا

آج ہم دلبر کے اور دلبر ہمارا ہو گیا

شکر للہ مل گیا ہم کو وہ لعل بے بدل

کیا ہوا گر قوم کا دل سنگ خارا ہو گیا

یہ دونوں اشعار اپنے ارفع مضمون اور زبان کے معیار سے کسی تشریح کے محتاج نہیں ہیں۔ مضمون ہے کہ گویا معرفت کا جام لبالب ہے۔ جسے پیتے ہی ایک عارف اپنے وجود سے بےنیاز ہو کر اپنے محبوب حقیقی کے وجود میں ضم ہو کر اپنے وجود کی نفی کا اعلان کرتا ہے اور الفاظ ہیں کہ واقعی ’’لعل بے بدل‘‘ ہیں۔ مضمون جتنا بلند ہے الفاظ اتنے ہی آسان ہیں۔

اب چند شعر ’’حمد رب العالمین‘‘ کے نمونے کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔ انداز غزل کا ہے۔ مگر غزل اس کا مقابلہ کیا کر سکتی ہے؟ آپؑ فرماتے ہیں:

چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بیکل ہو گیا

کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمالِ یار کا

اس بہار حسن کا دل میں ہمارے جوش ہے

مت کرو کچھ ذکر ہم سے ترک یا تاتار کا

خوب رویوں میں ملاحت ہے ترے اس حسن کی

ہر گل و گلشن میں ہے رنگ اس ترے گلزار کا

چشمِ مستِ ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے

ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خم دار کا

شور کیسا ہے ترے کوچہ میں لے جلدی خبر

خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا

یہ نظم مرصع پندرہ اشعار پر مشتمل ہے۔ مطلع سے مقطع تک ہر شعر ایسا ہے کہ جان غزل اس پر نثار ہوئی جاتی ہے۔ یہ 1882ء کا نمونہ ہے۔ ذرا اس دَور کی چند غزلیں لے کر اس حمد کو ان میں شامل کرکے کسی غیر جانبدار اور ناآشنا نقاد کے سامنے رکھ دیجئے اور کہیے کہ ذرا ان غزلوں پر ایک تنقیدی نظر ڈال کر کچھ ارشاد فرمائیے۔ تو پھر دیکھیں کہ وہ اس نظم کو کس انداز میں کیسے کیسے پڑھتا اور اس پر ہزار جان سے نثار ہوتا ہے۔ اس میں نہ صرف عارف باللہ کا عاشقانہ انداز ہے۔ بلکہ بعض نادر تشبیہات بھی ہیں۔ جو اردو شاعری میں تلاش کرنے سے بھی مل نہیں سکتیں۔ مثال کے طور پر ’’خوب رو‘‘ کی ملاحت کو ’’حسن مطلق‘‘ کا حصہ قرار دینا، ’’ہر گیسوئے خمدار‘‘ کو سائل کا ہاتھ قرار دے کر اسے ’’حسن مطلق‘‘ کی طرف پھیلے ہوئے دکھانا اور ہر ’’حسین کی چشم مست‘‘ میں ’’حسن مطلق‘‘ کا جلوہ دکھانا وغیرہ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منظوم کلام کے طلسماتی اثرات کے چند واقعات

(1) جماعت احمدیہ کے جید عالم ، صاحب کشف بزرگ، سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر صحابی حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی رضی ا للہ تعالیٰ عنہ اپنی بیعت کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرماتےہیں کہ

’’میری بیعت کی تقریب

موضع گولیکی میں مثنوی مولانا روم پڑھتے ہوئے جب میں چوتھے دفتر تک پہنچا تو ایک دن ظہر کی نماز کے بعد میں اور مولوی امام الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد میں بیٹھے ہوئے کسی مسئلہ کے متعلق گفتگو کر رہے تھے کہ حسنِ اتفاق سے پولیس کا ایک سپاہی نماز کے لئے اس مسجد میں آ نکلا۔ مولوی صاحب نے جب اس کے صافہ میں بندھی ہوئی ایک کتاب دیکھی تو آپ نے پڑھنے کے لئے اسے لینا چاہا مگر اس سپاہی نے آپ کو روک دیا۔ مولوی صاحبؓ نے وجہ دریافت کی تو اس نے کہا کہ یہ کتاب جس بزرگ ہستی کی ہے وہ میرا پیشوا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ تم لوگ اسے پڑھ کر میرے پیشوا کو بُرا بھلا کہنے لگ جائو جسے میری غیرت برداشت نہیں کر سکے گی۔ مولوی صاحبؓ نے کہا کہ آپ بے فکر رہیئے ہم آپ کے پیشوا کے متعلق کو ئی بُرا لفظ زبان پر نہیں لائیں گے۔ تب اس سپاہی نے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو آپ بڑی خوشی سے اس کتاب کو دیکھ سکتے ہیں بلکہ تین چار روز کے لئے اپنے پاس رکھ سکتے ہیں کیونکہ اس وقت میں تعمیلات کے لئے بعض دوسرے دیہات کے دورہ پر جارہاہوں واپسی پر یہ کتا ب آپ سے لے لوں گا۔ چنانچہ مولوی صاحبؓ نے وہ کتاب سنبھال لی اور جاتے ہوئے گھر ساتھ لے گئے۔ دوسرے دن جب میرا کسی کام سے مولوی صاحب ؓ کے یہاں جانا ہوا تو میں نے وہی کتاب جو سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصنیف لطیف آئینہ کمالات اسلام تھی حضور اقدسؑ کی چند نظموں کے اوراق کے ساتھ مولوی صاحب کی بیٹھک میں دیکھی۔ جب میں نے نظموں کے اوراق پڑھنے شروع کئے تو ایک نظم اس مطلع سے شروع پائی ؎

عجب نُوریست در جانِ محمدؐ

عجب لعلیست در کانِ محمدؐ

میں اس نظم نعتیہ کو اول سے آخر تک پڑھتا گیا مگر سوز و گداز کا یہ عالم تھا کہ میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو رہے تھے۔ جب میں آخری شعر پر پہنچا کہ ؎

کرامت گرچہ بے نام و نشاں است

بیا بنگر زغلمانِ محمدؐ

تو میرے دل میں تڑپ پیدا ہوئی کہ کاش ہمیں بھی ایسے صاحبِ کرامات بزرگوں کی صحبت سے مستفیض ہونے کا موقع مل جاتا۔ اس کے بعد جب میں نے ورق اُلٹا تو حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ منظومۂ گرامی تحریر پایا ؎

ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے

کوئی دیں دینِ محمدؐ سا نہ پایا ہم نے

چنانچہ اسے پڑھتے ہوئے جب میںاس شعر پر پہنچا کہ

کافر و ملحد و دجّال ہمیں کہتے ہیں

نام کیا کیا غمِ ملّت میں رکھایا ہم نے

تو اس وقت میرے دل میںان لوگوں کے متعلق جو حضور اقدس علیہ السلام کا نام ملحد و دجّال وغیرہ رکھتے تھے بےحد تاسف پیدا ہوا۔ اب مجھے انتظار تھا کہ مولوی امام الدین صاحبؓ اندرون خانہ سے بیٹھک میں آئیں تو میں آپؓ سے اس پاکیزہ سرشت بزرگ کا حال دریافت کروں۔ چنانچہ جب مولوی صاحبؓ بیٹھک میں آئے تو میں نے آتے ہی دریافت کیا کہ یہ منظومات عالیہ کس بزرگ کے ہیں اور آپ کس زمانہ میں ہوئے ہیں۔ مولوی صاحبؓ نے مجھے بتایا کہ یہ شخص مولوی غلام احمد ہے جو مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔اور قادیان ضلع گورداسپور میں اب بھی موجود ہے۔اس پر سب سے پہلا فقرہ جو میری زبان سے حضور اقدس علیہ السلام کے متعلق نکلا وہ یہ تھا کہ

دنیا بھر میں اس شخص کے برابر کوئی رسول اللہ ﷺ کا عاشق نہیں ہوا ہو گا۔

اس کے بعد پھر میں نے حضور اقدسؑ کے مطائبات و منظومات پڑھنے شروع کر دیئے تو ایک صفحہ پر حضور انور کے یہ اشعار میرے سامنے آئے ؎

چوں مرا نورے پئے قوم مسیحی دادہ اند

مصلحت را ابن مریم نام من بنہادہ اند

می درخشم چون قمر تابم چو قُرصِ آفتاب

کور چشم آنانکہ در انکار ہا افتادہ اند

صادقم و ازطرف مولا بانشانہا آمدم

صد در علم و ہدی بر روئے من بکشادہ اند

آسماں بارد نشاں الوقت میگوئد زمیں

ایں دو شاہد از پئے تصدیق من استادہ اند

ان ارشادات عالیہ کے پڑھتے ہی مجھے حضور اقدسؑ کے دعویٰ عیسویت اور مہدویت کی حقیقت معلوم ہو گئی اور میں نے 1897ء میں غالباً ماہ ستمبر یا ماہ اکتوبر میں بیعت کا خط لکھ دیا۔چنانچہ حضور اقدس علیہ السلام کی طرف سے حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ کا نوشتہ خط جو میری قبولیت بیعت کے متعلق تھا مجھے پہنچ گیا۔ میں نے جب یہ خط مولوی امام الدین صاحبؓ کو دکھایا تو انہوں نے کہا کہ آپ نے بیعت کرنے میں جلدی کی ہے مناسب ہوتا اگر آپ تسلی کے لیے پوری پوری تحقیق کر لیتے۔ میں نے کہا میری تسلی تو خدا کے فضل سے ہوگئی ہے۔ اس کے بعد مولوی صاحبؓ نے وہ مرسلہ رسائل جو حضور اقدسؑ نے قادیان سے میرے نام ارسال فرمائے تھے پڑھنا شروع کر دیئے۔ ان رسالوں کے مطالعہ سے مولوی صاحبؓ کو تو اس قدر فائدہ ہوا یا نہیں مگر مجھے ان کے مطالعہ سے یوں معلوم ہوا کہ جیسے میں ایک تاریک دنیا سے نکل کر روشنی کے عالم میں آ گیا ہوں۔

آخر مولوی صاحبؓ کو بھی خد اتعالیٰ نے حضور اقدس کی کتابوں کے مطالعہ سے ہدایت بخشی اور آپ 1899ء میں میرے ساتھ حضور اقدس علیہ السلام کی دستی بیعت کے لیے قادیان روانہ ہوگئے۔‘‘

(حیات قدسی صفحہ 16 تا 19)

حضرت میاں وزیر خاں صاحب رضی اللہ عنہ ساکن بلب گڑھ دہلی بعدہٗ قادیان( بیعت1892ء) تحریر کرتے ہیں:

’’میں ناگہ ہل علاقہ منی پور میں بصیغہ ملازمت سب اوور سیئر متعین تھا…اس زمانے میں ایک شخص سردار نامی جو…احمدی تھا وہ میرے پاس آیا اور کتاب’’نشانِ آسمانی‘‘ مجھےدےگیا۔ اُس کو میں نے پڑھا۔ اس میں لکھا تھا:

انبیاء در اولیاء جلوہ دہند

ہر زماں آیند در رنگے دِگر

اس شعر نے مجھ پر وہ اثر کیا کہ حضرت صاحب کی صداقت مجھ پر کھل گئی۔

( رجسٹر روایات صحابہ نمبر 14 صفحہ 356)

ہمارے خاندان میںاحمدیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےمنظوم کلام کی برکت کا نتیجہ ہے۔

ہمارے خاندان کا شجرہ نسب شیر شاہ سوری سے جا ملتا ہے۔ وہ اپنے زمانے میں جب پنجاب آیا تو اس کے کچھ لوگ دریائے جہلم کے کنارےآبا دہو گئے۔ اُن میں سے ایک ہمارا خاندان بھی تھا۔ ہمارا خاندان بھیرہ کے قریب ایک قصبہ میانی میں آباد ہوا۔ میانی اُس زمانہ میں نمک کی ایک بڑی منڈی تھا۔ وہاں دریائے جہلم کے دوسری طرف کھیوڑا سے نمک آتا تھا۔ اور اُس کا کاروبار ہوتا تھا۔ میر ےد ادا جان حاجی جلال الدین صاحب مرحوم و مغفور اپنے علاقہ کی معروف شخصیت تھے۔ مقامی کمیٹی کے صدر بھی تھے۔ اور تجارت کے سلسلہ میں اُن کا کافی وقت ایران، بخارا اور سمر قند میں گزرتا تھا۔ اس وجہ سے فارسی ادب سے بہت لگاؤ تھا۔

میرے والد صاحب مکرم مختار احمد ایاز صاحب 1905ء میں پیدا ہوئے۔میانی میں مقامی مڈل سکول میں تعلیم شروع کی۔میانی سےدو اڑھائی میل کے فاصلہ پر ایک گاؤںگھگھیاٹ تھا۔ وہاں احمدیہ مسجد بھی تھی اور بابو فخر الدین صاحب کا خاندان رہائش پذیر تھا۔ آپ کے بیٹے مکرم محمد اسحاق صاحب، مکرم محمد یعقوب طاہر صاحب زود نویس اور پروفیسر ابراہیم ناصر صاحب ابا کےساتھ میانی سکول میں پڑھتے تھے۔او راس طرح آپس میں دوستانہ تعلقات تھے۔میرے والد اکثر سکول کے بعد ان کےساتھ ان کے گھر گھگھیاٹ چلے جایا کرتے تھے۔ یہ مخلص خاندان تھا۔ گھر کا ماحول پاکیزہ تھا۔ بچے درثمین کی نظمیں پڑھتے رہتے اور نمازوں کے لیے مسجد جاتے، میرے ابا کو بھی درثمین کی نظمیں پڑھنے کا شوق ہو گیا۔ اور وہ گھر واپس آکر سب کو یہ نظمیں سناتے۔اس ماحول سے میرےابا بہت متاثر ہوئے۔ اور غالباً 1918ء کے جلسہ سالانہ میںشمولیت کے لیے جب یہ احمدی خاندان قادیان جانے کے لیے تیار ہوا تو انہوں نے میرے ابا کوبھی ساتھ جانے کی دعوت دی ہمارے دادا جی راضی ہو گئے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ابا جان کے لیے ہدایت کے سامان کر دیے۔ اُس وقت ابا جان کی عمر قریباً 13 سال تھی۔

جلسہ سالانہ میں شامل ہونے اور قادیان کےبابرکت ماحول میں کچھ دن گزارنے کایہ اثر ہوا کہ میرے ابا نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکے ہاتھ پر بیعت کر لی اور جب واپس میانی آئے تومیرے دادا اُن سے بہت نا راض ہوئےاور کچھ دنوں کے لیے گھر سےنکال دیا۔

میرےدادا جان کی بیٹھک میں روزانہ لوگ آتے تھے اور ان میں مقامی مولوی اور مفتی بھی تھے۔جو احمدیت کے مخالف تھے۔ میرےابا پر مخالفت کا کوئی اثر نہیں تھا۔ اور وہ باقاعدہ گھگھیاٹمسجد جاتے اور وہاں جماعت کی تقاریب میں شامل ہوتے۔ وہاںمسجد میں ایک چھوٹی سی لائبریری بھی تھی۔ ایک دن میرے ابا نے دیکھا کہ اُس میں درثمین فارسی بھی ہے۔ انہوں نے اس خیال سے کہ میرےدادا کو فارسی زبان کےساتھ دلی لگاؤ ہے وہ درثمین لے لی اور لاکرمیرے دادا جان کو دےدی۔ وہ فارسی میں منظوم کلام کی کتاب کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ اُن کی آواز بھی اچھی تھی۔ اس کے بعد وہ اپنی بیٹھک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم کلام فارسی خوش الحانی سے پڑھتے اور اس کلام کا جو ان کے جذبات پر اثر ہوتا تھا وہ بھی چہرے سے عیاںہوتاتھا۔ اس کلام کی وجہ سے اور اس کی برکت سےاُن کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عقیدت کا جذبہ پیدا ہونے لگا۔اور ان کو یقین ہو گیا کہ ایسا کلام لکھنے والا حضرت رسول کریمﷺ کا عاشق صادق اور اللہ تعالیٰ کا محبوب ہی ہو سکتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اُن کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ الحمدللہ۔

اس پر وہاں کے مفتی اور مولوی شدید مخالفت پر اُتر آئے اور چند مرتبہ دادا جان پر حملہ بھی کیا۔ اور وہ زخمی ہوئے لیکن اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم رہے۔ احمدیت قبول کرنے کی وجہ سے اُن کی کمیٹی کی صدارت بھی جاتی رہی اور کاروبار کو بھی بہت نقصان پہنچا لیکن اللہ تعالیٰ نے اُن کو ثابت قدم رکھا اور آخر دم تک انہوں نے اخلاص و محبت کا نمونہ دکھایا اور خلافت ثانیہ کے دوران 1939ء میں جب میرے ابا جان مشرقی افریقہ میں تھےوفات پائی۔

مختصر یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم کلام ظاہری و باطنی خوبیوں سے معمور ہے۔نہ زبان میں طاقت کہ وہ بیان کر سکے نہ قلم میں قوت کہ وہ تحریر کر سکے۔بارہا تجربہ سےیہ بات ثابت شدہ ہے کہ آپ کے منظوم کلام کے پڑھنے کے بعد عبادات میںایک خاص لذت اور مزہ آتا ہے۔اور سچ ہے اللہ تعالیٰ نے یونہی تو آپ کو ’’سلطان القلم‘‘ کا لقب عطا نہیں فرمایا۔ فی الواقع آپ نظم و نثر میں اس مقام پر کھڑے ہیں کہ ’’سلطان القلم‘‘کا لقب آپ ہی کو زیبا ہے۔

اس کلام کی طلسمی قوت اور برکت سے بہت لوگوںنے ہدایت پائی اور جماعت احمدیہ میںشامل ہوئے۔ اس کلام کے پڑھنے اور سننے سے جذبات میں جو سوز و گداز پید ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور دعاؤں کے لیے ایک خاص جوش پید اکرتا ہے۔ اور انسان کی روحانی اور اخلاقی ترقی کا باعث بنتا ہے۔ فکر مندی اور پریشانی کے عالم میں حضور علیہ السلام کا کلام پڑھنے والے میں توکل علی اللہ پید اکرتا ہے۔ اور تسکین قلب عطا کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام سے اپنے دلوںکواور اپنے گھروں کو منور کرتے رہیں کیونکہ اس میں راحت و آرام ہے۔

اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button