تعارف کتاب

’’کلامِ گوہر (اشاعت دوئم)‘‘

(فرخ سلطان محمود)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قدموں میں بیٹھنے کو سعادت سمجھنے والوں میں دنیاوی لحاظ سے کئی گراں قدر علماء و فضلاء بھی شامل تھے جن میں سرفہرست حضرت سیّدنا حکیم مولانا نورالدین صاحبؓ کا اسم گرامی ہے۔ اسی فہرست میں ایک معروف شخصیت حضرت مولانا ذوالفقار علی خان صاحب گوہرؓ کی بھی تھی جنہوں نے درِخلافت پر دھونی رماکر نہ صرف نہایت اہم انتظامی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں اپنے آقا کا دست راست بننے کی توفیق پائی بلکہ شعروادب کے میدان میں بھی اعلیٰ معیار کا حامل کلام کہہ کر اپنے وقت کے نامور علماء سے داد تحسین سمیٹی۔

حضرت مولانا ذوالفقار علی خان صاحب گوہرؓ کا تعلق برصغیر پاک و ہند کے ایک علمی و ادبی باذوق گھرانے سے تھا جس نے سیاسی میدان میں بھی خوب نام کمایا۔ چنانچہ ایک صدی قبل تحریک خلافت کے نام سے چلنے والی سیاسی تحریک کے سرخیل علی برادران (یعنی جناب مولانا محمد علی جوہرؔ اور جناب مولانا شوکت علی) آپ کے حقیقی چھوٹے بھائی تھے اور آپ کی والدہ محترمہ آبادی بانو کو برصغیر میں گہرے اثرات مرتب کرنے والی تحریک خلافت کے دوران میں ہی ’’بی امّاں‘‘ کے نام سے شہرت ملی۔ ایسے سیاسی خاندان سے تعلق کے باوجود فرق صرف ایک تھا کہ آپؓ نے زمینی خلافت کے لیے آواز اٹھانے کی بجائے آسمانی خلافت کو پہچان کر اُس کے سامنے سرنگوں ہوجانا پسند کیا اور حضرت امام الزمان علیہ السلام کے غلاموں میں شامل ہوکر بارگاہِ خلافت سے ملنے والے ہر حکم پر آخری دم تک سرتسلیم خم کیے رکھنے کی سعادت حاصل کی۔ چنانچہ آپ کی تمام تر ادبی صلاحیتیں بھی احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی ترقی و اشاعت، دعوت الی اللہ اور تربیتی امور کے حوالے سے وقف ہوکر رہ گئیں۔ آپؓ نے بہت خوبصورت کلام کہا جو نہایت بامقصد ہونے کے علاوہ احمدیت اور خلافت کے لیے آپ کے دل میں موجزن پاکیزہ جذبات کا آئینہ دار ہے۔

حضرت مولانا صاحبؓ 1869ء میں رامپور میں پیدا ہوئے۔ ابھی صرف گیارہ برس کے تھے کہ والد محترم عبدالعلی خان صاحب انتقال کرگئے۔ ایک بڑے بھائی تھے جو جوانی میں فوت ہوگئے۔ تین بھائی اور ایک بہن ان سے چھوٹے تھے۔ آپؓ نے میٹرک تک بریلی سے تعلیم حاصل کی اور پھر علیگڑھ سے ایف اے کیا۔ گھریلو حالات کی وجہ سے تعلیم کو خیرباد کہہ کر ملازمت اختیار کرلی اور ترقی کرتے کرتے تحصیلدار ہوگئے۔

اگرچہ 1900ء میں آپؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا تھا لیکن خدمت اقدس میں باریابی کا شرف مئی 1904ء میں پایا۔ قادیان تشریف لے جانے کے ارادے سے آپ جب بٹالہ پہنچے تو آپؓ کو معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام مقدمہ کرم دین کے سلسلہ میں گورداسپور تشریف لے جاچکے ہیں۔ چنانچہ آپؓ وہیں سے گورداسپور کچہری پہنچے۔ اگرچہ حضورؑ نے پہلے آپؓ کو دیکھا ہوا نہیں تھا لیکن دیکھتے ہی پہچان لیا اور تحصیلدار صاحب کہہ کر مخاطب فرمایا۔ آپؓ اُس وقت تک نائب تحصیلدار تھے لیکن حضورؑ نے بعد میں بھی آپؓ کو ہمیشہ تحصیلدار صاحب کہہ کر ہی مخاطب فرمایا۔ بعد ازاں آپؓ تحصیلدار ہوگئے اور پھر اسسٹنٹ کمشنر کی منظوری بھی آگئی لیکن اُس وقت آپؓ نے نواب صاحب رامپور کے کہنے پر اُن کی ملازمت اختیار کرلی اور اس طرح تحصیلداری سے آگے نہ بڑھ سکے۔

آپؓ کی حضورعلیہ السلام سے عقیدت اور حضورؑ کی شفقت کے چند واقعات بھی زیب قرطاس ہیں۔ مثلاً جب آپؓ پہلی بار حضورؑ کی خدمت میں گورداسپور میں حاضر ہوئے تو مقدمے کے دوران میں حضورؑ اپنے دوستوں کے ساتھ ہی کھانا تناول فرمایا کرتے تھے۔ آپؓ حضورؑ کے سامنے بیٹھتے تاکہ قربت سے بھی فیض یاب ہوسکیں۔ نیز کھانے کے بعد خدمت اقدسؑ میں پان پیش کرتے جو حضورؑ کھالیتے۔ دو تین مرتبہ ایسا ہوا تو مکرم خواجہ کمال الدین صاحب نے آپؓ سے کہا کہ حضورؑ کو پان کھانے کی عادت نہیں ہے، آپ کی دلداری کے لیے کھالیتے ہیں، حضورؑ کو تکلیف ہوتی ہوگی۔ یہ معلوم ہونے کے بعد آپؓ نے پان پیش کرنے کی جرأت نہ کی تو کھانے سے فراغت کے بعد حضورؑ نے ارشاد فرمایا: تحصیلدار صاحب! آج آپ ہمیں بھول گئے۔ آپؓ نے خواجہ صاحب کی گفتگو کا حوالہ دیا تو حضورؑ نے بڑی شفقت سے فرمایا: ’’نہیں، محمود کی والدہ مجھے پان دیتی ہیں تو مَیں کھا لیتا ہوں۔‘‘

انہی دنوں ایک بار جب آپؓ کچہری پہنچے تو ابھی سارے حکّام نہیں آئے تھے۔ خواجہ کمال الدین صاحب آپؓ کو ہمراہ لے کر کسی سے ملنے عمارت کے اندر گئے تو وہاں جج صاحب اور اُن کے پیش کار بھی موجود تھے۔ اُن دونوں نے خواجہ صاحب سے کہا کہ آپ مرزا صاحب کو سمجھاکر کرم دین سے صلح کروادیں۔ خواجہ صاحب نے کہا کہ مَیں بھی صلح کو اچھا سمجھتا ہوں، کوشش کروں گا۔ پھر انہوں نے آپؓ سے کہا کہ مَیں حضورؑ سے بات کرتا ہوں آپ میری تائید کردیجیے گا۔ آپؓ خاموش رہے۔ جب خواجہ صاحب نے جج کا پیغام حضورؑ کو پہنچایا تو آپؑ اُس وقت لیٹے ہوئے تھے۔ لیکن یہ دیکھ کر کہ خواجہ صاحب بھی جج کے ہم خیال ہیں، حضورؑ اُٹھ بیٹھے اور بڑے جوش سے فرمایا: ’’خواجہ صاحب! اس مقدمے میں صلح کے معنی تو یہ ہیں ہمارے دعوے جھوٹے ہیں اور ہم نے ازخود ہی نبوّت کا دعویٰ کردیا ہے۔ کیا یہ میرا مقدمہ ہے کہ مَیں صلح کرلوں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا معاملہ ہے۔ اس مقدمے میں تو نبوّت کا مسئلہ ہی بِنائے مخاصمت ہے۔ ہمارا کرم دین کا ذاتی معاملہ تو نہیں۔ ہم تو ذاتی طور پر کسی سے بھی مقدمہ بازی نہیں کرتے۔‘‘ یہ تقریر سن کر حاضرین نے محسوس کیا کہ خواجہ صاحب کو یہی جواب جج کو دینا چاہیے تھا اور ایسا پیغام حضورؑ تک پہنچانا خود خواجہ صاحب کے عدمِ فہم پر دال ہے۔

رامپور میں ملازمت کے دوران نواب صاحب کی قربت اور احمدیت کے باعث ریاست کے اکثر عمائدین آپؓ سے حسد کرتے تھے اور درپردہ مخالفت پر آمادہ رہتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی نے دھوکا دینے کی نیت سے آپؓ سے احمدی ہونے کی خواہش ظاہر کی تو آپؓ نے اُسے قادیان جانے کا مشورہ دیا۔ اُس نے اپنی مالی تنگ دستی کا ذکر کیا تو آپؓ نے کچھ رقم بطور امداد کے دی اور ایک کتاب بھی پڑھنے کے لیے دی۔ اُس نے وہ رقم اور کتاب نواب صاحب کو یہ کہہ کر بھجوادی کہ یہ مجھے روپیہ دے کر قادیانی بنانا چاہتے ہیں۔ اگرچہ اس شکایت سے آپؓ بری تو ہوگئے لیکن وہاں سے آپؓ کا دل اُچاٹ ہوگیا اور آپؓ نے استعفیٰ دے کر دوبارہ سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔

1918ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے زندگی وقف کرنے کی تحریک کی تو آپؓ نے بھی اپنا نام پیش کردیا اور 1920ء میں پنشن لے کر قادیان آگئے۔ کئی سال ناظر امورعامہ رہے اور بعد ازاں بطور ناظراعلیٰ خدمت کی توفیق پائی۔ آپؓ کو کئی اہم اور تاریخی مواقع پر حاضر رہنے کی توفیق ملی۔ حضورؓ کے سفر لندن کے دوران قافلے میں شامل ہونے کی سعادت پائی۔ 1930ء میں والیٔ رامپور کی درخواست پر حضرت مصلح موعودؓ نے آپؓ کو ریاست رامپور جانے کی اجازت عطا فرمائی۔ لیکن آپؓ کا وہاں دل نہ لگتا تھا۔ چنانچہ 1935ء میں استعفیٰ دے کر واپس قادیان چلے آئے جہاں حضورؓ نے تحریک جدید میں نظامت جائیداد اور تجارت کا کام سپرد فرمایا۔ تقسیم ہند کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے لیکن پھر چلنےپھرنے سے معذور ہوگئے۔ 1954ء میں 86 سال کی عمر میں لاہور میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں پیوند خاک ہوئے۔

حضرت مولانا ذوالفقار علی گوہر رضی اللہ عنہ ایک قادرالکلام شاعر تھے۔ شاعری میں حضرت مولانا صاحبؓ کے استاد جناب نواب فصیح الملک داغ دہلوی تھے۔ ابتدا میں آپؓ کی غزلوں کا رنگ اگرچہ دنیاوی تھا لیکن قبول احمدیت کے ساتھ ہی مذہب سے والہانہ عقیدت اور مقصدیت کا رنگ غالب آگیا۔ گُل و بلبل، ساغرومینا اور فرضی محبوب کے حسن و جمال کی داستانوں سے موضوعِ سخن یکسر تبدیل ہوکر مذہبی امور، قومی مسائل، جماعتی تقریبات پر مرکوز ہوگیا۔ آپؓ نے فارسی زبان میں بھی طبع آزمائی کی اور کچھ انگریزی نظموں سے متأثر ہوکر اُن کا منظوم اردو ترجمہ بھی کیا۔ اگرچہ آپؓ کا اکثر کلام تقسیم ملک کے وقت ہنگامے کی نذر ہوگیا تاہم سلسلہ کے اخبارات و رسائل میں آپؓ کا کلام باقاعدگی کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔ چنانچہ آپؓ کی وفات کے بہت بعد یعنی 1991ء میں آپؓ کے فرزند مکرم پروفیسر حبیب اللہ خان صاحب نے پہلی بار ’’کلام گوہر‘‘کے نام سے کتابی شکل میں آپؓ کے کلام میں سے ایک انتخاب شائع کروایا۔ تیس سال بعد اس مجموعہ ٔکلام میں مزید اضافہ کرنے کے بعد اس کی مکرّر اشاعت کا اہتمام مکرم کلیم اللہ خان صاحب (آف میری لینڈ امریکہ) نے کیا ہے جو محترم پروفیسر صاحب کے فرزند اور حضرت مولانا صاحبؓ کے پوتے ہیں۔ ایک قلبِ صافی کا آئینہ دار، یہی مجموعۂ کلام آج ہمارے زیرنظر ہے۔

’’کلامِ گوہر‘‘کی اشاعتِ دوم چارصد سے زائد صفحات پر مشتمل ہے جس میں 195 نظموں کے علاوہ حضرت مولانا صاحبؓ کے حالاتِ زندگی شامل ہیں۔ نیز آپؓ کے کلام کے حوالے سے اہلِ علم احباب کے تبصرے بھی اس کی زینت ہیں۔ چنانچہ پاکستان کے نامور ادیب و نقاد جناب رئیس احمد جعفری آپؓ کے بارے میں رقمطراز ہیں:

’’بہترین شاعر ہیں، تغزل میں اپنا رنگ سب سے الگ رکھتے ہیں، بوڑھے ہوچکے ہیں لیکن نہایت زندہ دل، ملنسار، شفیق، خلیق اور شوخ طبع بزرگ ہیں۔ صحت بھی ماشاء اللہ اچھی ہے، صحت کو اچھا رکھنے کے گُر جانتے ہیں، جوانوں سے زیادہ محنت کرتے ہیں۔‘‘

اسی طرح جناب قیس مینائی نے آپؓ کے کلام کو منظوم خراج عقیدت یوں پیش کیا:

پوچھتے کیا ہو مقامِ گوہرؔ

پڑھ کے خود دیکھو کلامِ گوہرؔ

منکشف آپ پہ ہو جائے گا

کس قدر اونچا ہے بامِ گوہرؔ

بند کوزہ میں سمندر یعنی

بادۂ عشق بہ جامِ گوہر

قیسؔ مہدی کے غلاموں کا غلام

ذرّۂ خاک بہ گامِ گوہرؔ

ذیل میں حضرت مولانا صاحبؓ کا نمونۂ کلام ہدیۂ قارئین ہے۔ سب سے پہلے حمدیہ کلام میں سے مناجات:

دکھا وہ جلوہ کہ عالَم تمام ہو جائے

جفا کا درہم و برہم نظام ہو جائے

ترا ہے نام سلام و مہیمن و مومن

تری زمین بھی دارالسلام ہو جائے

سنا دوں اس کو غمِ دل کی داستاں ساری

کبھی وہ مجھ سے اگر ہم کلام ہو جائے

غلام سمجھے مجھے بھی ، خدا کرے گوہرؔ

وہ جس کا ایک زمانہ غلام ہو جائے

ایک اَور نظم میں دردِ دل کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں:

تُو ہے پیارا اس لیے ہے ہم کو پیاری زندگی

ورنہ کیا ہم اے خدا اور کیا ہماری زندگی

اس لیے جیتا ہوں مَیں ، دل میں تمہاری یاد ہے

زندگی میری نہیں ، یہ ہے تمہاری زندگی

اِک محبت کی نظر پر جان و دل تم پر نثار

اِک نگاہِ لطف پر قربان ساری زندگی

نام ہے دردِ محبت کا سکونِ دائمی

اس کی بےچینی ہے راحت ، بےقراری زندگی

ایک ’’دردمندانہ التجا‘‘ یوں کرتے ہیں:

خواب میں ایک بار پھر اپنی جھلک دکھائیے

پردۂ ظلمتِ خودی دِل سے مرے اٹھائیے

ہے یہ بھی کوئی زندگی جس میں سکونِ دل نہ ہو

غم سے نجات دیجیے آکے مجھے جِلائیے

ہائے یہ جان خستگی ہائے یہ دل شکستگی

جلوۂ رُخ دکھا کے آپ آگے ہمیں بڑھائیے

گوہرِؔ خستہ جان و دل آتشِ غم سے مضمحل

آرزوئے وصال ہے ، دل کی لگی بجھائیے

ایک اَور حمدیہ نظم میں کہتے ہیں:

بچھڑا ہوا برسوں کا جب اُن سے ملا ہوگا

کیا کیا نہ کہا ہوگا ، کیا کیا نہ سنا ہوگا

یہ درد بھری زاری خوننابہ فشاں آنکھیں

روٹھے کو منالیں گی کب تک وہ خفا ہوگا

حالِ دلِ غم دیدہ پڑھ کر وہ بہت روئے

بےتابی میں کیا جانے کیا مَیں نے کہا ہوگا

رشتہ یہ محبت کا نازک ہے بہت گوہرؔ

شکوہ کبھی دل میں بھی آیا تو بُرا ہوگا

دل لیجیے حاضر ہے لیکن مجھے یہ ڈر ہے

میرا نہ ہوا جب یہ تو آپ کا کیا ہوگا

نعتیہ کلام کا نمونہ ملاحظہ فرمائیں:

اے شہ کون و مکاں صاحبِ صد حسنِ جمیل

مہبطِ وحیٔ خدا جس پہ تھی نازاں تنزیل

تُو بھی خاتَم ہے شریعت بھی تیری خاتَم ہے

انبیاء پر تجھے بخشی یہ خدا نے تفضیل

تیری تقدیس کی رفعت کو نہ پہنچا کوئی

ساتھ تیرا نہ دیا ، رہ گئے تھک کر جبریل

کون ہے جو نہیں منّت کشِ عرفاں تیرا

تیری ممنون ہیں توریت و زبور و انجیل

چھوٹی بحر کی ایک اَور نعت میں کہتے ہیں:

ہے محمدؐ آفتابِ علم دیں

افتخارِ اوّلین و آخریں

سیّد اولادِ آدم بے گمان

سرور و سردارِ انساں بالیقیں

مہبطِ وحیٔ خدائے لَم یَزل

مظہرِ آیاتِ ربّ العالمیں

حسنِ ظاہر دل رُبائے دو جہاں

حُسنِ باطن نُور افزائے یقیں

ہے امام الانبیاء اس کا لقب

کیوں نہ ہوتا پھر وہ ختم المرسلیں

حضرت مولانا صاحبؓ کے مجموعۂ کلام میں چند ایسی نظمیں بھی شامل ہیں جو دراصل آپ کی چشم دید روایات کا منظوم بیان ہے۔ نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات اقدس اور آپ کے دعوے اور صداقت کے حوالے سے بھی کئی خوبصورت نظمیں آپؓ نے کہیں۔ حضورؑ کے ایک مشہور شعر پر تضمین یوں کہی:

کوئی پیغامِ خدا آکے سنایا ہوتا

معجزہ کوئی کرامت کا دکھایا ہوتا

فتح اسلام کا مژدہ کوئی لایا ہوتا

وقت ہے وقتِ مسیحا نہ کسی اَور کا وقت

مَیں نہ آتا تو کوئی اَور ہی آیا ہوتا

رمضاں میں نہیں کیا دیکھا کسوف اور خسوف

نہ تھے دُمدار ستارہ پہ نشاں سب موقوف

ٹوٹنا تاروں کا بھی اِک تھا نشانِ موصوف

وقت ہے وقتِ مسیحا ، نہ کسی اَور کا وقت

مَیں نہ آتا تو کوئی اَور ہی آیا ہوتا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد قائم ہونے والی خلافت کے حوالے سے بھی کئی نظمیں کہیں۔ مثلاً:

مسیحِ وقت نے جس دن وصیت کی بِنا ڈالی

بہت محکم اُسی دن اِس خلافت کی بِنا ڈالی

خلافت کے جو منکر ہیں انھی کے ہاتھ سے حق نے

ہمارے سامنے اوّل خلافت کی بِنا ڈالی

غلام اے ساقیٔ کوثر! مئے عرفاں کے پیاسے ہیں

پِلا اُس خُم سے جس نے اِس شریعت کی بِنا ڈالی

حضرت مصلح موعودؓ کی ذات گرامی کے حوالے سے اُن کا بہت سا ایمان افروز کلام بھی شاملِ اشاعت ہے:

تجھ کو خدا نے چُن لیا نُورِ ہدایت کے لیے

اب تجھ سے بہتر کون ہے امرِ خلافت کے لیے

ہے مصلح موعود تُو ، اللہ کا محمودؔ تُو

فضل عمرؔ تجھ کو کہا ، حق کی فضیلت کے لیے

توفیق جس کے ساتھ ہو ، بازی اُسی کے ہاتھ ہو

فضلِ خدا اُس پر رہے ، آئے جو طاعت کے لیے

حضرت مولانا صاحبؓ نے کئی صحابہ کرام اور دیگر بزرگان کی وفات پر مرثیے کہے، کئی مبلغین کی خدمات پر ہدیۂ تہنیت پیش کیا اور بہت سی نظمیں مسلمانوں، نوجوانوں یا احمدیوں کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہیں۔ ایک طویل نظم بعنوان ’’احمدیوں سے خطاب‘‘ میں فرماتے ہیں:

وہ دکھ مجھے راحت ہے جو تجھ کو پسند آئے

وہ عشق نکمّا ہے جو تجھ کو نہ پرچائے

یہ جان بھی تیری ہے یہ مال بھی تیرا ہے

اچھا ہو یہ سب بچھڑے اور تُو مجھے مل جائے

اسلام کے فرزندو! گوہر کی سنو یارو!

کرنا وہی اے شیرو! وہ یار جو فرمائے

ہیں صبر کی تاکیدیں تم صبر کیے جاؤ

طوفاں بھی کوئی سر سے گزرے تو گزر جائے

اس راہِ محبت میں کیا کام شکایت کا

راضی بقضا رہ کر دیکھو جو وہ دکھلائے

یہ کوچۂ الفت ہے رُسوائی سے مت ڈرنا

پیارا ہے وہی اس کا دیوانہ جو کہلائے

فرزندیٔ احمدؑ کو بدنام نہ کر دینا

دل دے کے مرے پیارو! مشکل نہیں سر دینا

احمدیت کے دفاع میں آپؓ ہمیشہ ایک جری سپاہی کی حیثیت سے کھڑے نظر آتے ہیں۔ جہاں اپنوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اشعار کہے وہیں مخالفین کے خیالات کا ردّ کرنے کے لیے بھی قلم اٹھایا۔ کئی دانشوروں کے خیالات کے جواب میں منظوم کلام کہا ۔چنانچہ اپنی نظم بعنوان ’’ڈاکٹر اقبال اور محکومیٔ نبوّت‘‘ میں کہتے ہیں:

تُو نہ عارف ، نہ مجدّد ، نہ محدّث ، نہ فقیہ

تجھ کو معلوم نہیں کیا ہے نبوّت کا مقام

انبیاء دیتے ہیں شیطاں کی غلامی سے نجات

نفسِ امّارہ کو کر دیتے ہیں ایماں کا غلام

سچ تو یہ ہے کہ بصیرت بھی خدا دیتا ہے

بےبصیرت کا گِلہ کیا وہ اگر دے دُشنام

حضرت مولانا صاحبؓ نے ڈاکٹر اقبال کی ایک اَور نظم کا جواب اس طرح سے دیا:

ہوا جب حقیقتِ منتظر کا ظہور بزمِ مجاز میں

تو ہزاروں سجدے تڑپ اُٹھے بخوشی جبینِ نیاز میں

جنہیں حق نے دی تھیں بصیرتیں کھلیں اُن پہ ساری حقیقتیں

تھیں سروں میں جن کے رعونتیں

رہیں اُن سے پردۂ راز میں

مری جان اس پہ نثار ہے مرے دل کو جس سے قرار ہے

جو رفیق ہے مرا سوز میں جو شفیق ہے مرا ساز میں

غمِ عشقِ یار میں ہو بسر یہی گوہرؔ اپنی ہے آرزو

نہ مزہ ہے عمرِ قلیل میں ، نہ مزہ ہے عمرِ دراز میں

آپؓ نے اپنے دل کے نہاں خانوں سے اٹھنے والی ہر آواز کو سنا اوراپنی تمام قلبی کیفیات کو جامۂ الفاظ پہناکر اس طرح پیش کیا کہ پڑھنے والوں کے جذبات بھی مچل گئے۔ مسجد فضل لندن کی تعمیر کے لیے عطایا کی اپیل کرنی ہو، خلافت کا سلطانِ نصیر بننے کی تلقین کرنی ہو، بارگاہِ خلافت سے اٹھنے والی صدا کی تعمیل کرنی ہو تو حضرت مولانا صاحبؓ کے کلام میں جذب و اثر کی حامل بہت سی نظمیں ملیں گی۔ حضرت مسیح موعودؑ کی آل سے ایسا عشق تھا کہ اُن کی ہر خوشی پر فدا ہوجاتے۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی پیدائش پر آپؓ نے جو طویل نظم کہی، اُس کے چند اشعار ہدیۂ قارئین ہیں:

کس زباں سے ہو ادا شکر تیرا اے ستّار

بخششیں تیری کجا اور کجا یہ نادار

تا دمِ مرگ رہوں مَیں درِ احمدؑ پہ فِدا

آلِ احمدؑ کی ثنا خوانی رہے میرا شِعار

شکر صد شکر کہ تُو نے مجھے یہ دن بخشا

ابن منصورؔ تولد ہو لکھوں اشعار

اے شریفؔ ابن مسیحا تمہیں حق نے بخشا

ایسا پوتا کہ جو ہے نُور نگاہِ ابرار

یہ ولادت ہو مبارک پئے نسلِ انسان

ابنِ منصورؔ ہو توحید کا پرچم بردار

اس کا ناصر ہو خدا ، اس کا خدا حافظ ہو

یہ سلامت رہے دنیا میں بصد عزّ و وقار

اس مجموعۂ کلام میں بہت سی خوبصورت غزلیں بھی شاعر موصوف کے حُسنِ ذوق پر شاہد ہیں۔ مثلاً

شوق نظارہ بھی ہو ، لذّتِ دیدار بھی ہو

دل میں اِک زخم بھی ہو ، زخم میں اِک خار بھی ہو

دل اگر ہو تو کوئی دل کا خریدار بھی ہو

غم اگر ہو تو الٰہی کوئی غم خوار بھی ہو

سر بکف سینکڑوں ہیں کون ہے شمشیر بکف

دل تو لاکھوں ہیں کوئی لینے کو تیار بھی ہو

لطفِ مے کے لیے درکار ہے عالی ظرفی

نشۂِ حسن میں سرشار بھی ، ہشیار بھی ہو

وہی صورت وہی سیرت ہو جو محمودؔ کی ہے

سحرِ گفتار بھی ہو ، شوخیِٔ رفتار بھی ہو

اسداللہ خان غالبؔ کی مشہور زمین پر کہی گئی ایک غزل سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں:

درماں سمجھ رہا ہوں جنوں کے اثر کو مَیں

دشمن بناؤں سر کو نہ توڑوں جو گھر کو مَیں

رُوئے سخن ہے مجھ سے ، نگاہیں عدو پہ ہیں

پہچانتا ہوں خوب تمہاری نظر کو مَیں

حیراں ہو اضطرابِ دلِ دردمند سے

سمجھاؤں کس دلیل سے اس بےخبر کو مَیں

آخر میں آپؓ کی ایک نظم بعنوان ’’مسلکِ بندگی‘‘ سے انتخاب پیش ہے:

مجھ کو فنا سے ہے غرض اور نہ بقا سے ہے غرض

بندۂ عشق ہوں ترا ، تیری رضا سے ہے غرض

اس کی پسند ہو نہ ہو ، صرفِ سجود ہے جبیں

حُسنِ قبول دے نہ دے ، ہم کو دعا سے ہے غرض

غنچۂ آرزو مرا چشمِ کرم کا منتظِر

اس کو بہار سے غرض اور نہ صبا سے ہے غرض

مرے تصوّروں کی جاں اور مرے دل کا رازداں

ہے وہ خدائے دو جہاں اُس کی رضا سے ہے غرض

الغرض حضرت مولانا صاحبؓ کا کلام نہایت بامقصد اور بامعنی ہونے کے ساتھ ساتھ سچائی کی اُس خوشبو کا حامل ہے جو اپنے وقت پر ظاہر ہوکر رہتی ہےاور ایسے اذہان کے لیے طراوت کا پیغام لاتی ہے جو قدرت کے عطاکردہ حواس سے لطف اندوز ہونا جانتے ہوں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button